skip to Main Content

بڑنگا ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

نام اس کا ناطق تھا اور وہ اپنے نام کی طرح خوب بولتا بھی تھا۔ اتنا کہ جب بولنے پر آتا تو بولتا ہی چلا جا تا۔ نہ فل اسٹاپ نہ کومے کا خیال۔ پہلے جملے میں دوسرا جملہ گھسا ہوتا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ایک جملے کے پیر میں دوسرے جملے کا سر۔ بعض اوقات تو نہ صرف بات کے مطلب ہی کا نہیں پتا چلتا بلکہ بات بھی مع مقصد فوت ہو جاتی اور مخاطب ناطق کامنہ تکتا رہ جاتاکہ اس نے کہا کیا تھا…؟
ناطق سے گفتگو کرنا آسان نہیں تھا اور بحث تو ناممکن بھی۔اس نے بحث میں شکست کھانا سیکھا ہی نہ تھا کیوں کہ وہ منہ پھٹ ہی نہیں ہتھ چھٹ بھی تھا۔ بحث میں ہارنے لگتا تو ایسا جملہ کہتا کہ اگلا جوش میں آ کر لڑنے کھڑا ہو جا تا اور پھر اللہ دے بندہ لے۔
تو ایسے تھے ہمارے بڑ بولے اور جلد باز ناطق میاں…!
ابا سمجھاتے:
’’ دیکھو ناطق! بلا وجہ بحث نہ کیا کرو۔ کم بولنااور وہ بھی سوچ کر بولنے میں ہی عزت ہے۔‘‘
امی نے بھی فوراً کہا۔’’ٹھیک کہتے ہیں تمہارے ابو!تمہیں ہر ایک کے معاملے میں بولنے اور ٹانگ اڑانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘امی کے لہجے میں غصہ تھا۔’’ جب دیکھو پرائے پھڈے میں پڑ جاتے ہو۔‘‘
ناطق ہنسنے لگا، پھر رک کے بولا:
’’یہ بھی تو دیکھیے کہ پھر ان کا حشر کیا ہوتا ہے۔مجال ہے کہ کوئی میرے سامنے بول بھی جائے۔‘‘
’’دیکھنا ہر سیر کو سوا سیر ضرور ہوتا ہے۔‘‘نجمہ آپی نے مسکراکے کہا۔
’’ سیر ہو یا من کسی کو میرے مقابلے میں کیا پڑے گا بن۔‘‘ناطق ہنسا اور کہنے لگا۔
’’دنیا ہے میرے پیچھے اور میں…!‘‘
’’اور میں اردو کی پیچھے پیچھے ٹانگ توڑوں…!‘‘
بھائی جان نے سیڑھی سے اترتے ہوئے اس کی بات سن کے ٹکڑا لگایا۔
’’ارے بھائی!محاوروں کا ستیاناس مت کرو۔‘‘ ناطق چپ ہو گیا۔ نجمہ ہنسنے لگی۔
’’چلو اب منہ ہاتھ دھولو۔ تمھارے ٹیوشن کا وقت ہو گیا ہے اور ہاں عصر پڑھتے ہوئے جانا۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم نماز کے چور ہوتے جا رہے ہو اور ہاں سلیم بھائی سے بھی مل کے جانا۔‘ ‘
’’اچھا۔‘‘ناطق نے مرد ہ سی آواز میں کہا۔
سلیم الدین محلے کی مسجد کے امام اور خطیب تھے اور امی کے بہنوئی بھی۔ اس ہدایت کا صاف مطلب یہ تھا کہ اگر نماز نہ پڑھی تو شام کو ہی امی کو رپورٹ مل جائے گی اور امی نہ صرف زبردست قسم کی ڈانٹ بھی پلاتی تھیں بلکہ سزا کے طور پر کھانا بھی بند کر دیتی تھیں۔ کفارہ یہ ہوتا کہ قضا نماز ادا کی جائے اور اونچی آواز سے دو سپارے پڑھ کے انہیں سنائے جائیں۔ امی جان حافظہ تھیں،سو اس پڑھنے میں بھی کوئی ڈنڈی نہیں مارسکتا تھا۔
ناطق نے وضو کیا، ٹوپی پہنی، کتا بیں اٹھائیں اور امی کو سلام کر کے گھر سے نکل گیا۔ ابھی وہ نکلا ہی تھا کہ عصر کی اذان ہوگئی۔اتنے میں سامنے سے اس کا دوست سراج آ تا دکھائی دیا۔ وہ بھی ٹیوشن جانے کے لیے نکلا تھا۔
’’چلو پہلے عصر پڑھ لیں۔ !‘‘سراج نے کہا۔
’’چلو۔‘‘ ناطق نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
تھوڑی دیر میں وہ مسجد پہنچ گئے۔ صحن میں ہی مولا نا سلیم الدین صاحب سے ان کا سامنا ہو گیا۔ وہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرائے اور سراج سے بولے:
’’ بیٹا! واٹر کولر کا فلٹر بدلنے والا ہو گیا ہے، اپنے بھائی سے کہنا، بدل دیں۔‘‘
’’جی بہتر مولانا صاحب۔!‘‘ سراج نے ادب سے جواب دیا۔ اس کے بھائی کی واٹر فلٹر کی دکان تھی۔تھوڑی دیر میں دونوں نے پہلے سنتیں ادا کیں پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کر باہر آگئے۔
ذراہی آگے ایکسی لینس ٹیوشن سنٹر تھا۔ جہاں انھیں ماسٹر افتخار صاحب ٹیوشن پڑھاتے تھے۔انہیں بس ایک ہی شوق تھا کہ بچے پڑھیں۔ ان کے ٹیوشن سنٹر کی فیس پچاس روپے ماہانہ تھی لیکن اگر کوئی بچہ کسی دن ناغہ کرد یتا تواس کو وہ دوسوروپے جرمانہ لگا دیتے اور پھر شاگرد کے گھر پہنچ جاتے اور جب تک جرمانہ وصول نہ کر لیتے واپس نہ پلٹتے۔
لوگ حیران تھے کہ کیسے استاد ہیں کہ پورا مہینہ پچاس روپے میں پڑھاتے ہیں اور جرمانہ دو سو روپے وصول کرتے ہیں۔
اب لوگوں کو کیا پتا کہ ماسٹر صاحب کو روپے پیسے سے غرض نہیں، بچوں کی تعلیم سے غرض تھی، اور والدین جرمانے سے بچنے کے لیے بچوں کا ناغہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ رہ گئی پچاس روپے فیس کی بات تو وہ اکثر معاف کر دیتے تھے۔
قومیں صرف بلڈنگوں، پلوں، سڑکوں، ایئر لائنوں اور غیر ملکی امداد کے بڑے بڑے تجارتی منصوبوں سے نہیں بنتیں، بلکہ ان کے اصل معمار ماسٹر صاحب جیسے ہوتے ہیں جو افراد کے ذہن اورکردار تخلیق کرتے ہیں۔
ٹیوشن سنٹر پہنچ کر سراج نے کہا:
’’آج تو بڑی خیریت ہوئی۔‘‘
’’کیا۔‘‘ناطق نے پوچھا۔
’’یہی کہ آج تم راستے میں کسی سے الجھے نہیں۔‘‘ سراج ہنسا۔
’’ہم سے کون پنگا لے گا رے، اڑنگا مار کے بڑنگا کر دیں گے۔‘‘ناطق نے بڑے مزے سے کہا۔
’’ یہ بڑنگا کیا ہوتا ہے۔؟‘‘سراج نے حیرت سے پوچھا۔
’’اڑنگا کا قافیہ بڑنگا۔ باقی مجھے کیا پتہ۔‘‘ناطق نے اطمینان سے کہا۔
سراج نے جواب میں کچھ نہیں کہا اور کتاب کھول لی۔
مگر جی…! ہونی کو کون تال سکتا ہے۔ہونی تو ہوکے رہتی ہے۔۔ جاتے میں کوئی فساد نہیں ہوا تو آتے میں کسر نکل گئی۔ جب وہ دودھ کی دکان کے سامنے سے گزرے تو وہاں رش لگا ہوا تھا۔ ایک شخص نے طرف دوسرے آدمی کا گریبان پکڑا ہوا تھا۔
’’ ارے کیا ہوا۔؟‘‘‘ناطق لپکا۔
’’ارے کیا کر رہے ہو، چھوڑو یہ دوسروں کا مسئلہ ہے۔‘‘ سراج نے اسے روکا۔
’’ارے دوسروں تیسروں کیا، دیکھیں تو سہی، بے چارے کا کیوں گریبان پکڑا ہوا ہے۔ ناطق نے تیزی سے کہا اور کتابیں سراج کو تھما کے خود بیچ میں گھس گیا۔
’’کیا ہے کیوں مار رہے ہوغریب کو؟‘‘ اس نے گریبان پکڑے ہوئے آدمی سے پوچھا۔
’’ تمہیں کیا، تم کون ہو اس کے۔؟‘‘گریبان پکڑے آدمی نے غصے سے کہا۔
’’کیا مطلب۔؟ تم جو بھی کرو تو کیا تم سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔؟‘‘ ناطق نے تیزی سے کہا اور اس آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’ تو بڑا آیا اس کا حمایتی بن کے۔‘‘ایک اور آدمی نے کہا۔
’’ابے تجھے کیا۔‘‘ناطق نے غصے سے جواب دیا۔
’’دوڑ جا یہاں سے، ورنہ بہت پٹے گا۔‘‘ تیسرے نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’کسی کے باپ کا راج ہے کیا کہ جو مجھے پیٹے گا۔‘‘ناطق چلا یا اور اس شخص کو چھڑانے کی کوشش کی۔
’’ ابے یہ بھی اس کا حمایتی ہے۔‘‘‘ کوئی چیخا۔
’’ چور کا بھائی گرہ کٹ۔ پکڑ لو اسے بھی،جانے نہ پائے۔‘‘
دو آدمیوں نے ناطق کو پکڑ لیا۔ایک نے پیٹ میں گھونسا مارا، دوسرے نے تھپڑ۔اب ہوا یہ کہ لوگ اس شخص کو تو بھول گئے اور ناطق کے پیچھے پڑ گئے۔
ذرا دیر میں ہی ناطق کی اچھی خاصی ٹھکائی ہوگئی۔اس وقت دودھ والے اکرام بھائی دکان سے باہر آئے تو انھوں نے لڑائی کا منظر دیکھا۔ ایک طرف کھڑے سراج سے پوچھا:’’ کیا ہوا؟‘‘
’’ناطق پٹ رہا ہے۔‘‘
’’کیا۔؟‘‘ اکرام بھائی جلدی سے مجمع میں گھس گئے اور بڑی مشکل سے ناطق کو بچایا۔ اتنی دیر میں وہ شخص جس کا لوگ گریبان پکڑے ہوئے تھے، چپکے سے موقع کا فائدہ اٹھا کے کھسک چکا تھا۔ ذرا سی دیر میں لوگ بھی منتشر ہو گئے۔
معلوم ہوا کہ وہ شخص جیب کترا تھا۔ لوگوں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا اور ناطق صاحب بغیر سمجھے، بو جھے اس قضیے میں کود پڑے اور اچھی خاصی مار کھالی۔
’’تم پاگل ہو گئے ہو کیا جو بنا کچھ جانے بوجھے مجمع میں گھس گئے؟‘‘‘ا کرام بھائی نے ڈانٹا۔
’’میں تو اسے پٹتے دیکھ کر اس کی مدد کے لیے چلا گیا تھا۔‘‘
’’ابے گھامڑ! پہلے صورتحال کو سمجھتے ہیں، پھر مداخلت کر تے ہیں۔‘‘اکرام بھائی نے سمجھایا۔’’تم تو بالکل شیخ سعدی کی حکایت کی تفسیر بن گئے ہو کہ جو شخص جانے بو جھے بغیر دوسروں کے کام میں پڑتاہے، ہمیشہ نقصان اٹھا تا ہے۔‘‘
’ ’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘ ‘ناطق نے شرمندگی سے کہا۔ ’’بس ابو کو نہ بتائیے گا۔‘‘
’’میں تو نہیں بتاؤں گا مگر انھیں پتا چل جائے گا۔‘‘اکرام بھائی نے شرارت سے کہا۔
’’ وہ کیسے۔؟‘‘ناطق نے بے ساختہ پوچھا۔
’’ تمھا را حلیہ دیکھ کر اور کیسے۔‘‘اکرام بھائی ہنسنے لگے۔
سراج بولا:’’ ویسے آج تم نے بلاوجہ کا پنگا لے کے بڑنگا کر ہی لیا۔‘‘
اب ناطق کیا بولتا…اس کی تو ساری بولتی آج بند ہوگئی تھی۔ بڑنگا تو اس کے ساتھ ہو گیا تھا…!

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top