مکڑی اور مینڈک
کہانی: The Spider and The Frog
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
ذکر ہے ایک بڑی مکڑی کا جس کی عمرکے ساتھ ساتھ اس کی جسامت بھی کافی بڑھ چکی تھی۔اس کی آٹھ ٹانگیں اس کے گرد پھیلی رہتی تھیں اور اس کی بہت ساری آنکھیں چاروں طرف دیکھتی رہتی تھیں۔اس نے جھاڑیوں کی باڑ میں ایک بڑا، مضبوط اور عمدہ قسم کا چپچپا جال بن رکھا تھا۔
چونکہ وہ کافی بڑی ہوچکی تھی اس لیے اسے کھانے کے لیے خوراک بھی کافی مقدار میں چاہیے ہوتی تھی۔ ویسے تو وہ چھوٹی بڑی مکھیاں پکڑ ہی لیا کرتی تھی مگر ایک بار ایسا ہوا کہ شہد کی مکھی گنگناتی ہوئی آگئی۔حیرت انگیز طور پر اس نے مکڑی کو کاٹا نہیں حالانکہ عموماً تو وہ کاٹ لیا کرتی ہیں۔مکڑی نے بہت ہوشیاری سے اسے جال کے دھاگے میں اتناجکڑ لیاکہ وہ ہلنے قابل نہ رہی۔ جب ہل نہیں سکتی تھی تو ڈنک کہاں سے نکالتی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مکڑی نے شہد کی مکھی کا عشائیہ کیا اور وہ اس پر بڑا فخر کیاکرتی تھی۔
اس کا جال کھائی کے اوپر لگی کانٹے دار جھاڑی سے لے کر کیکر کے درخت تک پھیلا ہوا تھا۔مکھیوں کو گرم اور نم آلود کھائی پسند تھی اور اس طرح وہ درجن بھر مکھیاں پکڑ لیا کرتی تھی۔
سالوں سے مکھی کی گزر اوقات بہت اچھی ہوتی آرہی تھی ،پھر ایسا ہوا کہ کھائی میں ایک مینڈک آگیا۔یہ ایک عام سا نوجوان مینڈک تھا جو لمبی اور گیلی گھاس میں اپنا گھر بنانے کو بے تاب تھا۔وہ اکثر ارد گرد بھنبھناتی موٹی موٹی مکھیوں پر جھپٹ پڑتا۔چنانچہ مکڑی کو بڑا غصہ آیا کیوں کہ اس کے حصے کی آدھی خوراک مینڈک کے چوڑے حلق میں اتر جاتی ۔اِدھر اس نے آنکھیں جھپکائیں…اُدھر مکھی غائب!
’’تم یہاں میرے جال کے نیچے آکر کیوں رہنا چاہتے ہو؟‘‘مکڑی نے مینڈک سے کہا۔’’اگر میرے حصے کی مکھیاں تم ہڑپ کرلو گے تو پھراس جال کو بنانے کا بھلا مجھے کیا فائدہ ہوا؟‘‘
’’ٹرررررررررر!‘‘ مینڈک نے آواز نکالی اور اپنی لمبی چپچپی زبان نکال کر بڑی صفائی کے ساتھ ایک مکھی نگل لی۔’’میں جتنی مکھیوں کو چاہوں گا، پکڑوں گا۔‘‘
مکڑی ،مینڈک کو بڑا اور موٹا ہوتا دیکھتی رہی مگر وہ خود کمزور ہوتی چلی گئی۔ مینڈک اس سے زیادہ مکھیاں پکڑ لیا کرتا تھا…اور غصے والی بات یہ بھی تھی کہ وہ مکڑی کے جال کے بالکل نیچے ہی مکھیوں کی تاک میں بیٹھا کرتا تھا۔ایک بار جب اس نے مکڑی کے جال کے اندرسے مکھی پکڑی تو مکڑی سنجیدگی سے بیٹھ کر سوچنے لگی۔
پھر ایک صبح وہ مینڈک سے مخاطب ہوئی۔’’مینڈک…! اس طرف جوہڑ میں دیکھو، پانی کی سطح پر کتنی ساری مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔کاش مجھے تیرنا آتا تو میں بھی تمہاری طرح تیرتی ۔ میں جا کر اتنی مکھیاں پکڑتی کہ پھرپورے ایک دن تک سوئی رہتی۔‘‘
مینڈک چھلانگ لگا کر کھائی کے کنارے پر چڑھ آیااور قریب ہی واقع جوہڑ کو دیکھنے لگا۔واقعی وہاں بہت سی مکھیاں نظر آرہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ایک مچھلی کو اچھل کر مکھی پکڑتے دیکھا۔’’وہ دیکھو!‘‘ مکڑی بولی۔’’ہم سے بہتر تو یہ مچھلیاں ہیں جو اس جوہڑمیں اتنے آرام سے رہ رہی ہیں۔‘‘
سارا دن مکڑی ، مینڈک کو یہی بتاتی رہی کہ جوہڑ میں کتنی مکھیاں ہیں اور جب کبھی کوئی مچھلی چھلانگ لگا کر مکھی پکڑتی تو وہ بھی اسے بتاتی۔مینڈک کو اس بات پر بہت افسوس تھا کہ کاش اس کے مچھلی کے ساتھ تعلقات اچھے ہوتے۔ جب وہ جوہڑ میں تھا تو مچھلی نے اسے کئی بار کھانے کی بھی کوشش کی تھی۔بالآخر مینڈک کھائی سے باہر آیا اور مکڑی سے بولا۔’’ میں جوہڑ سے کچھ مکھیاں پکڑنے جا رہا ہوں…کل تک واپس آئوں گا۔‘‘
مکڑی نے کچھ نہ کہا۔وہ جانتی تھی کہ بطخیں روزانہ شام کو تالاب پر تیراکی کرنے آتی ہیں…اور یہ بات مینڈک کو نہیں پتا۔وہ اپنے جال کے اندر ہی سے ایک پتے کی اوٹ لے کر دیکھنے لگی۔اس نے مینڈک کو گھاس پر اچھلتے دیکھا۔پھر مینڈک کو تالاب میں چھلانگ لگاتے دیکھا۔پھر ایک سفید بطخ کو چھلانگ لگا کر اس کی طرف تیرتے دیکھا۔ پھر بطخ کو کچھ ہڑپ کرتے دیکھا۔
’’وہ کل واپس نہیں آئے گا۔‘‘ بوڑھی مکڑی اپنے آپ سے بولی۔
’’نہیں…! وہ یقینا کل واپس نہیں آئے گا۔‘‘
اور وہ واقعی واپس نہ آیا۔

