skip to Main Content

خوشی کہاں رہتی ہے؟

جاوید بسام
۔۔۔۔۔

وہ دسمبر کا ایک دن تھا۔ آسمان پر بادل نظر آرہے تھے اور درختوں پر چڑیاں پھدک رہی تھیں۔خوشی دھیرے دھیرے چلتی ایک جگہ سے گزر رہی تھی کہ اچانک اسے کسی نے آواز دی۔اس نے گھوم کر دیکھا تو اسے اپنی پرانی سہیلی ہمدردی آتی نظر آئی۔ خوشی رک گئی۔ ہمدردی نے قریب آکر سلام کیا اور گرم جوشی سے ملی۔ دونوں کی بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بہت خوش تھیں۔ چونکہ دونوں ایک ہی سمت میں جارہی تھیں۔ اس لیے وہ باتیں کرتے ہوئے چلنے لگیں، باتوں کے درمیان ہمدردی نے پوچھا۔”تم کہاں جارہی ہو؟“
”میں اپنے گھر جارہی ہوں۔“ خوشی نے کہا۔
”اچھا، تمہارا گھر یقیناکسی شاندار علاقے میں کوئی محل ہوگا؟“ ہمدردی نے کہا۔
”تم نے ایسا کیوں سوچا ہے؟“ خوشی نے پوچھا۔
”اس لیے کہ تم خوشی ہو۔ خوشیاں عموماً ایسے گھروں میں ہی پائی جاتی ہیں۔ میرا خیال ہے تم اس ملک کے سب سے امیر آدمی کی حویلی میں یا سب سے بڑے عہدے دار کے بنگلے میں رہتی ہوگی۔“ ہمدردی بولی۔
یہ سن کر خوشی کو ہنسی آگئی وہ بولی۔”چلو آج کا دن تم میرے ساتھ گزارو۔ میں تمہیں دکھاتی ہوں کہ میں کہاں رہتی ہوں۔“
دونوں چلتی رہیں اور شہر جاپہنچیں۔ جہاں عالیشان گھر، بڑی بڑی عمارتیں اور کشادہ سڑکیں تھیں۔ وہ سڑک کے کنارے چلی جا رہی تھیں کہ انھیں ایک شاندار محل نظر آیا۔ اس کے گرد بہت بڑا باغ تھا۔ جس میں پیڑ پودے لگے تھے۔ روشوں پر سرخ بجری بچھی تھی اور کیاریوں میں پھول کھل رہے تھے۔ ہمدردی بولی۔”لو تمہارا گھر آگیا۔“
خوشی نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولی۔”یہ میرا گھر نہیں بلکہ حاکِم وقت کا محل ہے۔“
”مجھے لگتا ہے کہ تمہارا زیادہ وقت یہیں گزرتا ہوگا۔“ ہمدردی نے کہا۔
”نہیں، بالکل نہیں۔ مجھے یہاں آئے ہفتوں گزر جاتے ہیں۔ خیر آؤ میں تمہیں اندر کی سیر کرواتی ہوں۔“ خوشی بولی اور آگے بڑھی۔ ہمدردی اس کے ساتھ تھی، مگر جب اس نے محل کے بڑے سے پھاٹک پر بڑی بڑی مونچھوں والے دراز قامت پہرے داروں کو بندوقیں سنبھالے چوکس کھڑا دیکھا تو وہ ڈر کر رک گئی۔
”ڈرو مت! وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتے۔“ خوشی بولی۔ یہ کہہ کر وہ ہمدردی کا ہاتھ پکڑے آسانی سے پھاٹک سے گزر گئی۔
دونوں باغ سے گزر کر عمارت میں داخل ہوئیں۔ خوشی اسے ایک کمرے کے دروازے پر لے گئی۔ وہ اندر داخل ہوئیں۔ جہاں لمبے سپاٹ چہرے والا ایک خوبرو آدمی ایک بڑی سی میز کے پیچھے آرام دہ کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ کسی فائل میں لگے کاغذات پڑھ رہا تھا۔ دونوں اسے دیکھنے لگیں۔جوں جوں وہ فائل پڑھتا جارہا تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بدل رہے تھے۔ اس پر پریشانی نظر آرہی تھی۔ آخر اس نے غصّے سے فائل پٹخ دی اور بڑبڑایا۔”خسارہ…… ہر شعبے میں خسارہ……آخر یہ ملک کس طرح چلے گا؟“
اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔ دوسری طرف اس کی جماعت کا نائب صدر تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔”جناب غضب ہوگیا! ہماری حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے ہمارے کچھ ارکان مخالف جماعت میں چلے گئے ہیں۔“
”وہ کیوں؟“ حاکم وقت غصّے سے دھاڑا۔
”اس لیے کہ آپ نے انھیں پارٹی میں شامل کرتے وقت جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں کیے۔“
”اچھا تم ان لوٹوں کی بات کر رہے ہو۔ مجھے ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔“
”جی، وہ لوٹے ہیں، مگر ہم نے ان کی مدد سے حکومت بنائی ہے۔“
”آخر ہم کب تک ان کے مطالبات پورے کرتے رہیں گے……؟ خیر انھیں کل بلالو۔ میں ان سے بات کر لیتا ہوں۔“ حاکِم وقت نے کہا۔
”سر کچھ تو کرنا پڑے گا۔ ورنہ آپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی آسکتی ہے۔“ وہ بولا۔
حاکم وقت نے فون پٹخ دیا اور بڑبڑانے لگا۔
ہمدردی نے خوشی کے کان میں سرگوشی کی۔”یہ لوٹے کیا ہوتے ہیں؟“
”لوٹے…… تم نہیں جانتی یعنی ادھر ادھر لڑھک جانے والے لوگ۔ کبھی اِس جماعت نے کبھی اُس جماعت میں۔“
”اچھا اچھا، میں سمجھ گئی۔“ ہمدردی مسکرا کر بولی۔
اسی وقت حاکم وقت کا سیکرٹری اجازت لے کر اندر آیا۔ وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ وہ بولا۔”جناب عالی! ایک بری خبر ہے حزبِ اختلاف نے کل ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔“
”وہ کیوں؟“ حاکم وقت چنگھاڑا۔
”جناب آپ کی نئی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ عوام پریشان ہیں۔ لوگوں کو روٹی کے لالے پڑگئے ہیں۔ ان کا غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ حزبِ اختلاف اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔“
”اوہ میرے خدا میں کیا کروں؟“ حاکِم وقت چلّایا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بال نوچنے لگا۔
خوشی نے ہمدردی کا ہاتھ پکڑا اور باہر نکل گئی۔ کچھ دور آکر خوشی نے پوچھا۔”تمہارا کیا خیال ہے، کیا میں ایسی جگہ رہ سکتی ہو؟“
”نہیں یہ ممکن نہیں ہے۔“ ہمدردی بولی۔
دونوں چلتی رہیں، چلتے چلتے انھیں ایک فلک بوس (اسکائی اسکریپر) عمارت نظر آئی۔ ہمدردی نے سر اٹھاکر اسے دیکھا۔ کچھ دیر دیکھتی رہی پھر بولی۔”اوہ خدا! اتنی اونچی عمارت۔ اسے دیکھنے میں تو میری گردن دُکھ گئی۔ اگر سر پر ٹوپی ہوتی تو وہ بھی گرجاتی۔ مجھے لگتا ہے تم ضرور اس اونچی عمارت کے مالک کے ساتھ رہتی ہو گی؟“
خوشی زور سے ہنسی اور بولی۔”اس عمارت کا مالک اس ملک کا سب سے امیر آدمی ہے۔ چلو میں تمہیں اس سے ملواتی ہوں۔“
”ہاں تو میرا اندازہ درست نکلا۔ تم ضرور اس کے گھر میں رہتی ہوگی۔“ ہمدردی جلدی سے بولی۔
دونوں اندر داخل ہوئیں اور لفٹ کے ذریعے پچاس ویں منزل پر پہنچیں۔ انھیں پورے فلور پر ایک شاندار آفس نظر آیا۔ وہ اندر داخل ہوئیں۔ ایک خوب عالیشان کمرے میں آبنوس کی مہنگی ترین لکڑی سے بنی میز کے پیچھے ایک موٹا سا آدمی بیٹھا تھا۔ اس کی نظریں دیوار پر جمی تھیں۔ جہاں لگی ایل سی ڈی پر خبریں آرہی تھیں۔ نیوز کاسٹر کہہ رہا تھا۔”حکومت نے نئے سال کی کپاس پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ کپاس کی برآمدات پر ٹیکس دوگنا کردیا ہے۔“
”اوہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟“ امیر ترین آدمی بڑبڑایا۔
نیوز کاسٹر تفصیل بتا رہا تھا۔ وہ غور سے سنتا رہا پھر لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگا۔ اس کی انگلیاں تیزی سے چل رہی تھیں۔ اسکرین پر مختلف ہندسے چکرا رہے تھے اور چھوٹے بڑے گراف بن رہے تھے۔
آخر ایک گراف نمودار ہوا۔ آخری ہندسے دیکھ کر وہ چلایا۔”ویری بگ لاس!“ اور لیپ ٹاپ کو پیچھے دھکیل کر اپنا سر پکڑلیا۔
کچھ دیر وہ یونہی بیٹھا رہا۔ پھر فون اٹھاکر اپنی بیگم کا نمبر ملانے لگا۔ وہ صبح سے کئی بار ان سے رابطہ کرنے کی کوششیں کر چکا تھا، مگر رابطہ نہیں ہورہا تھا۔ اس کی بیگم ایک بہت بڑی خواتین کی تنظیم کی صدر تھیں اور زیادہ تر اسی کی تقریبات میں مصروف رہتی تھیں۔ آخر اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا۔ اس نے دراز کھول کر دواؤں کا ڈبہ نکالا اور کئی گولیاں الگ کرنے کے بعد گلاس میں پانی لے کر تمام گولیاں کھائیں۔ پھر وہ آرام سے ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ بہت تھک گیا ہے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے نام دیکھ کر منہ بنایا اور ”ہیلو“کہا۔ دوسری طرف اس کا بیٹا تھا۔ وہ ایک بگڑا ہوا نوجوان تھا۔ ہر وقت گھومنا پھرنا، دوست بنانا اور کھیل کود کرنا۔ بس اسے یہی آتا تھا۔ ان دنوں وہ ورلڈ ٹور پر نکلا ہوا تھا۔
”ہاں بولو کیا کہہ رہے ہو۔“اس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔
دوسری طرف سے بیٹے کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔”کیا حال ہے پاپا! ہم دوست ٹورنٹو جا رہے ہیں۔ پیسوں کی ضرورت ہے۔ کچھ رقم ٹرانسفر کردیں۔ آپ سن رہے ہیں؟“
”مگر، تم ابھی کہاں ہو؟“ اس نے پوچھا۔
”لاس اینجلس میں۔“ بیٹا بولا۔
”ٹھیک ہے تمہارا کب تک گھر آنے کا ارادہ ہے؟“
”ابھی کچھ نہیں پتا۔ آپ کو معلوم ہے، دنیا بہت بڑی ہے اور ہمیں نکلے ایک مہینہ ہی ہوا ہے۔“ بیٹا بولا۔
”ہاں بیٹا لگتا ہے تمہارا باپ اس ٹور کے بعد ضرور کنگال ہوجائے گا۔“ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
خوشی نے ہمدردی کی طرف دیکھا۔ اس نے گردن ہلائی اور دونوں باہر نکل گئیں۔
”مجھے حیرت ہے تم یہاں بھی نہیں رہتی تو پھر تم کہاں رہتی ہو؟“ ہمدردی نے پوچھا۔
”تمہیں جلد پتہ چل جائے گا۔“ خوشی نے کہا۔
کچھ دیر بعد وہ شہر سے باہر نکل آئیں۔ جہاں ایک گاؤں آباد تھا۔ گاؤں کے لوگ کھیتی باڑی اور باغبانی کرتے تھے۔ ہمدردی حیرت سے بولی۔”ہم تمام اچھے گھر اور علاقے چھوڑ آئے ہیں۔ آخر تم کہاں رہتی ہو؟“
خوشی نے ایک گھر کی طرف اشارہ کیا۔ وہ گاؤں کا سب سے پہلا گھر تھا۔ اس کی دیواریں کچی مٹی کی تھی۔
”یہ ایک محنتی کسان کا گھر ہے۔ آؤ اس میں چلتے ہیں۔“ خوشی نے کہا۔
اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بند دروازے سے گزر گئی۔ وہ گھر اگرچہ کچا تھا، مگر صاف ستھرا تھا۔ کسان کی بیوی کھانا پکارہی تھی اور صحن میں دو بچے کھیل رہے تھے۔ ہمدردی حیرت سے اس ماحول کو دیکھ رہی تھی۔ اسے وہاں ایک الگ طرح کا سکون اور آسودگی محسوس ہورہی تھی۔ کچھ دیر بعد کسان گھر آیا۔ دونوں بچے اسے دیکھ کر خوشی سے کھِل اٹھے اور”بابا۔ بابا“ کہتے ہوئے اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ بیوی بھی آگے بڑھی اور مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے سامان لیا۔ پھر کسان نے ہاتھ منہ دھو کر کپڑے بدلے، کھانا تیار ہوگیا تھا۔ بیوی نے فوراً دستر خوان لگا دیا۔ سب اس کے گرد بیٹھ گئے اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا۔ کسان نے بتایا،اس دفعہ فصل بہت اچھی ہوئی ہے اور اس نے اچھی قیمت پر اس کا سودا بھی کردیا ہے۔ اس خوشی میں وہ مٹھائی لے کر آیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ایک دو فصلیں اور اچھی ہو جائیں تو ہم گھر پکا بنوالیں گے۔ کھانے کے بعد سب نے مٹھائی کھائی۔ سب خوش تھے۔ کسان خوش حال ہورہا تھا، اس کی بیوی ہنس مکھ اور محبت کرنے والی تھی اور بچے صحت مند اور فرماں بردار تھے۔ ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ ہمدردی غور سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے کچھ سوچ کر گردن ہلائی اور خوشی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:
”میں سمجھ گئی تم کہاں رہتی ہو۔ تم وہاں رہتی ہو۔ جہاں خوف خدا، پیار، قناعت اور سکون ہو۔ اکثر امراء اور بڑے عہدے داروں کے ہاں یہ چیزیں مفقُود ہوتی ہیں۔ دولت اور عہدہ انسانوں کو ظاہری عیش و آرام تو مہیا کر دیتے ہیں، لیکن ان کا سکون غارت ہوجاتا ہے۔“
یہ کہہ کر ہمدردی نے خوشی کو خداحافظ کہا اور وہاں سے رخصت ہو گئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top