skip to Main Content
کشتانکا

کشتانکا

ناولٹ: Kashtanka
مصنف:Anton Chekhov
انگریزی سے ترجمہ: جاوید بسام
۔۔۔۔۔

1: بدتمیزی
ایک برفانی شام، سرخ رنگ کی ایک نوجوان کتیا جو’ڈچ شوند‘ اور’یارڈ ڈاگ‘ کے درمیان مخلوط نسل سے تعلق رکھتی تھی اور جس کا چہرہ لومڑی جیسا تھا، سڑک پر اِدھر اُدھر بھاگتی پھر رہی تھی۔ وہ بے چین نظر آرہی تھی۔ وہ وقتاً فوقتاً رکتی اور رونے لگتی اور پہلے اپنا ایک ٹھنڈا پنجا اٹھاتی اور پھر دوسرا۔ پھر خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ گم ہو گئی ہے۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے دن کیسے گزارا تھا اور آخر میں اس نے خود کو اِس اجنبی فٹ پاتھ پر کیسے پایا تھا۔
اس دن کا آغاز اس کے آقا’لوکا الیگزینڈرچ‘ نے اپنی ٹوپی سر پر رکھ کر کیا تھا۔ اس کی بغل میں لکڑی کا کچھ سامان تھا جو سرخ رومال میں لپٹا ہوا تھا اور اس نے زور سے پکارا تھا: ”کشتانکا! ساتھ آؤ!“
اپنا نام سن کر وہ کام والی میز کے نیچے سے باہر آئی، جہاں وہ لکڑی کے برادے پر سوتی تھی۔ پھر خود کو کھینچ کر لمبی انگرائی لی تھی اور اپنے آقا کے پیچھے بھاگی تھی۔ ترکھان جن لوگوں کے لیے کام کرتا تھا۔ وہ بہت دور رہتے تھے، چنانچہ ان کے پاس جاتے ہوئے اس کو کئی بار خود کو تازہ دم کرنے کے لیے سرائے میں رکنا پڑا تھا۔ کشتانکا کو یاد آیا کہ راستے میں اس نے،اس خوشی کے باعث کہ اسے ٹہلانے کے لیے لے جایا جا رہا ہے،انتہائی نامناسب رویہ اختیار کیا تھا۔ اس نے چھلانگیں لگائیں، بگھیوں کے اوپر بھونکی، گھروں کے احاطوں میں بھاگی اور دوسرے کتوں کا پیچھا کیا تھا۔ وہ بار بار ترکھان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی تھی۔ جس پر اسے رکنا پڑتا اور وہ غصے سے اس پر چیخ اٹھتا تھا۔ ایک بار اس نے اپنے چہرے پر غصے بھرے تاثرات کے ساتھ اس کا لومڑی جیسا کان اپنی مٹھی میں لے کر دبایا اور زور سے کہا:
”چلو میرے ساتھ اے کیڑوں جیسی کتیا!“
جب لوکا الیگزینڈرچ نے اپنا کام مکمل کر لیا تو وہ اپنی بہن کے گھر گیا اور وہاں کھانا وغیرہ کھایا۔ پھر وہ اپنے واقف کار ایک کتاب ساز سے ملا۔ کتاب ساز کے بعد وہ ایک سرائے سے دوسری سرائے تک گیا۔ مختصر یہ کہ جب شام ڈھل رہی تھی اور کشتانکا نے خود کو انجان فٹ پاتھ پر پایا تو ترکھان کسی موچی کی طرح نشے میں تھا۔ وہ بازو ہلاتے ہوئے بھاری سانسیں لے رہا تھا اور بڑبڑا رہا تھا۔”گناہ ہوا میری ماں نے مجھے جنم دیا! آہ، گناہ! یہاں اب ہم سڑک پر چل رہے ہیں اور گلیوں میں لگے چراغوں کو دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم مریں گے تو ہم آگ کے جہنم میں جلیں گے۔“
پھر اس نے کشتانکا کو اپنے پاس بلایا اور اس سے نرم لہجے میں بولا: ”کشتانکا! تم ایک کیڑا ہو اور کچھ نہیں۔ ایک آدمی کے خلاف تم اسی طرح ہو جیسے بڑھئی کے خلاف بڑھئی۔۔۔“
جب وہ اس سے بات کررہا تھا، اچانک فوجی بینڈ کی تیزگرج سنائی دی۔ کشتانکا نے گھوم کر دیکھا تو فوج کی ایک رجمنٹ سیدھی اسی طرف آتی نظر آئی۔ وہ تیزی سے بھاگی۔ کیونکہ وہ اتنی تیز موسیقی کو برداشت کرنے سے قاصر تھی۔ موسیقی نے اس کے اعصاب کو بدحواس کردیا تھا۔ وہ ادھر ادھر گھومتی،چکراتی پھر رہی تھی اورساتھ آہ و زاری بھی کررہی تھی۔ اس کے لیے یہ بڑی تعجب کی بات تھی کہ ترکھان نے خوفزدہ ہونے، رونے اور چلانے کے بجائے بینڈ کا سامنا ایک مسکراہٹ کے ساتھ کیا تھا۔ اس نے اپنی توجہ اس کی طرف مبذول کی اور اپنی پانچوں انگلیوں سے اسے سلام کیا۔ یہ دیکھ کر کہ اس کے آقا نے کوئی احتجاج نہیں کیا ہے، کشتانکا نے پہلے تو بہت زور سے چیخ ماری پھر سڑک کے اس پار مخالف فٹ پاتھ پر بھاگ گئی۔
جب بینڈ بجنا بند ہوگیا تو اس نے خود کو سنبھالا۔ رجمنٹ اب وہاں نہیں تھی۔ وہ سڑک کے اس پار دوڑتی ہوئی گئی۔ جہاں اس نے اپنے آقا کو چھوڑا تھا، لیکن افسوس کہ ترکھان اب وہاں نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھی، پھر واپس آئی اور ایک بار پھر سڑک کے پار بھاگ گئی، لیکن ایسا لگتا تھا کہ ترکھان، زمین میں غائب ہو گیا ہے۔ کشتانکا نے اس امید پر فرش کو سونگھنا شروع کیا کہ آقا کے قدموں کی بو سے وہ اسے ڈھونڈ لے گی، لیکن بد قسمتی سے اس سے پہلے کوئی نئے ربڑ کے جوتوں میں وہاں سے گزرا تھا۔ لہٰذا اب تمام بوئیں انڈیا ربڑ کی تیز بدبو کے ساتھ گھل مل گئیں تھیں اور انھیں الگ سے شناخت کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔
کشتانکا اوپر سے نیچے بھاگتی رہی لیکن اپنے آقا کو کہیں نہ پایا۔ اس دوران اندھیرا ہوگیا۔ سڑک کے دونوں طرف کے قمقمے جلادیے گئے اور کھڑکیوں میں روشنیاں دکھائی دینے لگیں۔ برف تیزی سے گررہی تھی۔ گہری شام میں سڑک،فٹ پاتھ، گھوڑوں کی پیٹھ اور کوچوانوں کی ٹوپیاں ہر چیز پر سفیدی چھاتی جارہی تھی۔
اجنبی صارف مسلسل اس کے آس پاس سے گزر رہے تھے، اس کی بصارت میں رکاوٹ ڈال رہے تھے اور اسے اپنے پیروں سے دھکیل رہے تھے۔ (کشتانکا نے تمام انسانوں کو دو ناہموار حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ آقا اور صارف۔ ان کے درمیان ایک لازمی فرق تھا۔ پہلوں کو اسے مارنے کا حق تھا اور مؤخر الذکر وہ تھے جن کے بچھڑوں کو اسے خود پکڑنے کا حق حاصل تھا۔) بس ان صارفین کو کہیں جانے کی جلدی تھی۔ وہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے۔
جب کافی اندھیرا ہو گیا تو کشتانکا پر مایوسی اور خوف اتنا غالب آگیا کہ وہ ایک گھر کے داخلی دروازے کے پاس بیٹھ گئی اور آہستہ آواز سے رونے لگی۔ ترکھان کے ساتھ دن بھر کے سفر نے اسے تھکا دیا تھا۔ اس کے کان اور پنجے ٹھنڈ سے منجمد ہو چکے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بہت بھوکی تھی۔ سارے دن میں صرف دو بار اسے ذرا سے لقمے کھانے کو ملے تھے۔ پہلے اس نے کتاب ساز کے ہاں تھوڑا سا لئی کا خمیر کھایا تھا، پھر ایک ہوٹل میں اسے کاؤنٹر کے قریب فرش پر قیمے کے رول کی اوپری پرت ملی تھی۔ بس، اگر وہ انسان ہوتی تو وہ ضرور سوچتی:”نہیں، اس طرح جینا ناممکن ہے! مجھے خود کو گولی مار لینی چاہیے!“
2: ایک پراسرار اجنبی
لیکن اس نے کچھ نہیں سوچا۔ وہ صرف روتی رہی۔ جب اس کا سر اور پشت نرم پروں جیسی برف سے مکمل طور پر ڈھک چکے تھے اور وہ تھکن اور درد میں ڈوب کر اونگھنے لگی تھی کہ اچانک گھر کا دروازہ چرچراہٹ کے ساتھ کھلا اور اسے آن لگا۔ وہ اچھل پڑی۔ صارف کے درجے سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی باہر آیا۔ کشتانکا نے چیخ ماری کیوں کہ وہ اس کے پاؤں کے نیچے آگئی تھی۔ اس نے جھک کر کشتانکا سے پوچھا:
”ڈوگی، تم کہاں سے آئے ہو؟ کیا میں نے تمھیں تکلیف دی ہے؟ میں معذرت چاہتا ہوں۔ آہ بے چاری۔۔۔آہ بے چاری۔“
کشتانکا نے برف کی اس جھالر کے پیچھے سے اجنبی کی طرف دیکھا جو اس کی پلکوں پر لٹکی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے ایک چھوٹے قد کا موٹا سا آدمی کھڑا نظر آیا۔ جس کا گول مٹول مونڈھا ہوا چہرہ تھا اور وہ سر پر اونچی ٹوپی اور کھال والا بغیر بٹنوں کا کوٹ پہنے ہوئے تھا۔
”تم کیوں چیخ رہی ہو؟“ اس نے اپنی انگلیوں سے اس کی پیٹھ سے برف جھاڑی۔ ”تمہارا مالک کہاں ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ تم گم ہوگئی ہو؟ آہ، بے چاری ڈوگی! اب ہم کیا کریں؟“
اجنبی کی آواز میں پیار اور گرم جوشی کو محسوس کرتے ہوئے کشتانکا نے اس کا ہاتھ چاٹ لیا اور مزید درد ناک آواز میں رونے لگی۔
”اوہ تم نے اچھی مضحکہ خیز حرکت کی!“ اجنبی نے کہا۔”تم پوری لومڑی جیسی ہو! ٹھیک ہے۔ تمہیں میرے ساتھ ضرور چلنا چاہیے! شاید تم کچھ کام آجاؤ۔“
اس نے کشتانکا کو اپنے ہونٹوں سے چمکارا اور ہاتھ سے ایک اشارہ کیا جس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا تھا۔”ساتھ آؤ!“
کشتانکا اس کے ساتھ چل دی۔
آدھے گھنٹے بعد وہ ایک بڑے اور روشن کمرے میں فرش پر بیٹھی اجنبی کی طرف نرمی اور تجسّس سے دیکھ رہی تھی۔ جو میز پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے کچھ ٹکڑے اس کی طرف بھی پھینکے تھے۔ پہلے اس نے روٹی اور سبز پنیر کی اوپری تہہ دی، پھر گوشت کا ایک ٹکڑا، آدھا پائی اور مرغی کی ہڈیاں دیں۔ وہ جلدی جلدی کھاتی رہی۔ اس کے پاس ذائقے کی تمیز کرنے کا وقت نہیں تھا اور جتنا زیادہ اس نے کھایا اتنی ہی شدت سے بھوک کا احساس بڑھتا گیا۔
”آپ کے آقا آپ کو صحیح طریقے سے نہیں کھلاتے۔“ اجنبی نے اسے لالچی انداز میں گندگی کے ساتھ اورچبائے بغیر کھانانگلتے دیکھ کر کہا۔ ”اور آپ بہت پتلی ہو! جلد اور ہڈیوں کے سوا جسم پر کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔“
کشتانکا نے بہت زیادہ کھانا کھایا، لیکن پھر بھی اس کی بھوک نہیں مٹی تھی۔ کھانے کے بعد وہ کمرے کے وسط میں لیٹ گئی۔ اس نے ٹانگیں پھیلائیں تو اپنے پورے جسم میں ناقابل برداشت تھکاوٹ محسوس کی۔ جب اس کا نیا آقا ایک آرام دہ کرسی پر لیٹا ہوا سگار پی رہا تھا۔ اس نے پھر اپنی دم ہلائی اور اس سوال پر غور کیا کہ کیا یہ اجنبی اس کے لیے بہتر ہے؟ یا ترکھان؟ اجنبی کا ماحول ناقص اور بدصورت تھا۔ وہاں آرام دہ کرسیوں، صوفے، لیمپوں اور قالینوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا اور کمرہ خالی لگتا تھا۔ ترکھان کے پاس موجودپوری جگہ چیزوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے پاس ایک میز، ایک بینچ، برادے کا ڈھیر، رندہ، چھینی، آری، گولڈ فنچ کا ایک پنجرہ اور ایک بیسن تھا۔ اجنبی کے کمرے سے کسی چیز کی بو نہیں آرہی تھی۔ جب کہ ترکھان کے کمرے میں ہمیشہ ایک دھند سی چھائی رہتی تھی اور گلو، وارنش اور برادے کی شاندار خوشبو آتی تھی۔ دوسری طرف اجنبی کو ایک بڑی برتری حاصل تھی۔ اس نے اسے کھانے کے لیے بہت کچھ دیا تھا اور اس کے ساتھ مکمل انصاف کیا تھا۔ جب کشتانکا میز کے سامنے بیٹھ کر اس کی طرف غور سے دیکھ رہی تھی، اس نے ایک بار بھی اسے لات نہیں ماری تھی اور نہ ہی چیخا تھا:”جاؤ، لعنتی درندہ!“جیسا کہ اس کا سابقہ آقا کرتا تھا۔
جب نئے آقا نے اپنا سگار ختم کیا تو وہ باہر چلا گیا اور ایک منٹ بعد ہاتھ میں ایک چھوٹی سی گدّی پکڑے واپس آیا۔
”ارے تم یہاں آؤ!“ اس نے کونے میں گدّی بچھاتے ہوئے کہا۔ ”یہاں لیٹ جاؤ اور سو جاؤ!“
پھر اس نے چراغ بجھایا اور چلا گیا۔ کشتانکا گدے پر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کرلیں۔ گلی سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز بلند ہوئی۔ وہ اس کا جواب دینا چاہتی تھی، لیکن اسی وقت وہ اچانک اداسی میں مبتلا ہوگئی۔ اس نے لوکا الیگزینڈرچ کے بیٹے ’فیڈوشکا‘ اور بینچ کے نیچے اپنی چھوٹی سی جگہ کے بارے میں سوچا۔ اسے موسم سرما کی لمبی شامیں یاد آئیں۔ جب ترکھان کام کررہا ہوتا تھا یا بلند آواز سے اخبار پڑھ رہا ہوتا تھا۔ فیڈوشکا عام طور پر اس کے ساتھ کھیلتا تھا۔ وہ اسے اس کی پچھلی ٹانگوں سے پکڑ کر بینچ کے نیچے سے کھینچ لیتا اور اس کے ساتھ ایسی چالیں چلتا تھا کہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے سبز رنگ نظر آتا تھا اور ہر جوڑ میں درد محسوس ہوتا تھا۔ وہ اسے اس کی پچھلی ٹانگوں پر چلاتا۔ اسے گھنٹی کے طور پر استعمال کرتا یعنی اسے دم سے پکڑ کر زور سے ہلاتا تاکہ وہ چیخے اور بھونکتی رہے، وہ اسے تمباکو سونگھنے کے لیے دیتا، لیکن مندرجہ ذیل چال خاص طور پر اذیت ناک تھی۔ فیڈوشکا گوشت کے ٹکڑے کو دھاگے سے باندھ کر کشتانکا کو دیتا اور جب وہ اسے نگل لیتی تو وہ زور سے ہنستے ہوئے اسے اس کے پیٹ سے دوبارہ کھینچ لیتا۔ جوں جوں پچھلی یادیں اسے آتی رہیں۔ وہ اور زیادہ زور سے روئی، لیکن جلد ہی تھکن اور گرمی، اداسی پر غالب آگئیں۔ اسے نیند آنے لگی۔ کتے اس کے تصور میں بھاگ رہے تھے۔ ان میں سے ایک بوڑھا الجھے بالوں والا پوڈل بھی تھا۔ جسے اس نے اس دن گلی میں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھ پر سفید داغ اور ناک پر اون کے گھچے تھے۔ فیڈوشکا ہاتھ میں چھینی لے کر پوڈل کے پیچھے بھاگا تھا، پھر ایک دم وہ بھی الجھے ہوئے اون سے ڈھک گیا تھا۔ وہ کشتانکا کے پاس خوشی سے بھونکنے لگا۔ کشتانکا اور اس نے ایک دوسرے کی ناک کو سونگھا اور خوشی سے سڑک پر بھاگ گئے۔
3: نئی اور قابل قبول آشنائیاں
جب کشتانکا بیدار ہوئی تو کمرہ روشن تھا اور گلی سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز اسی طرح آرہی تھی جیسے صرف دن کے وقت آتی ہے۔ کمرے میں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔ کشتانکا نے اٹھ کر انگڑائی لی اور ادھر ادھر دیکھا پھر آگے بڑھی۔ کمرے کے کونوں اور فرنیچر کو سونگھا۔ وہاں اسے اپنی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں ملی۔ وہ راہداری میں نکل آئی۔ وہاں ایک اور دروازہ تھا۔ کچھ سوچنے کے بعد کشتانکا نے دونوں پنجے اٹھا کر اسے کھرچا۔ دروازہ کھل گیا تو وہ کمرے میں چلی گئی۔ جہاں بستر پر اونی کمبل اوڑھے ایک صارف سو رہا تھا۔ اس نے کل والے اجنبی کو پہچان لیا۔

”رررررر۔۔۔۔“ وہ بڑبڑائی، لیکن کل کے کھانے کو یاد کرتے ہوئے اس نے اپنی دم ہلائی۔ پھر اس نے اجنبی کے کپڑے اور جوتے سونگھے اور محسوس کیا کہ ان سے گھوڑوں کی بو آرہی ہے۔ سونے کے کمرے میں اسے ایک اور بند دروازہ نظر آیا۔ کشتانکا نے دروازے کو دھکیلا اور اندر داخل ہوئی۔ اچانک ایک عجیب اور انتہائی مشکوک بو اس کی ناک میں چلی آئی۔ ایک ناگوار ملاقات کی توقع کرتے اور بڑبڑاتے ہوئے کشتانکا نے ایک گندے چھوٹے سے کمرے میں قدم رکھا۔ جس کی دیواروں پر وال پیپر لگا تھا۔ پھر دفعتاً وہ چونک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے کچھ حیران کن اورخوفناک چیز دیکھی تھی۔ ایک بھورے رنگ کا ہنس اپنی گردن فرش کی طرف جھکائے، دونوں پروں کو پھیلائے ’قیں قیں‘ کرتا اس کی طرف بڑھنے کی تیاری کررہا تھا۔ اس سے کچھ دور چھوٹے سے گدے پر ایک سفید بلّا لیٹا تھا۔ کشتانکا کو دیکھ کر وہ پہلے اچھلا پھر چیخ کر اپنی پشت پر محراب بنائی اور اپنے بالوں کو کھڑا کیا۔ پھر وہ بھی اس کی طرف بڑھا۔ کشتانکا سخت خوفزدہ تھی، لیکن اپنے خوف کو ظاہر نہیں کر رہی تھی۔ اس نے زور زور سے بھونکنا شروع کردیا اور بلے کو مارا۔ بلے نے اپنی کمر کو پہلے سے زیادہ کھینچا، زور سے چیخا اور کشتانکا کے سر پر پنجہ مارا۔ کاشتانکا نے چھلانگ لگائی، چاروں پنجوں پر بیٹھی اور بلّے کی طرف اپنی ناک کو چیرتے ہوئے زور زور سے بھونکنے لگی۔ دریں اثنا ہنس پیچھے سے آیا اور اس کی پیٹھ میں ایک زوردار ٹھونگ ماری۔ کاشتانکا چھلانگ لگا کر ہنس سے ٹکرائی۔
”یہ کیا ہورہا ہے؟“ انہوں نے ایک تیز غصّے بھری آواز سنی اور اجنبی اپنے ڈریسنگ گاؤن میں، دانتوں کے درمیان سگار دبائے کمرے میں آیا۔”اس کا کیا مطلب ہے؟ سب اپنی جگہوں پر جاؤ!“
وہ بلے کے پاس گیا اور اس کی کمان والی پیٹھ کو تھپ تھپایا اور کہا:”اس کا کیا مطلب ہے؟ تم لڑائی کے لیے اٹھے ہو؟ آہ، تم بوڑھے بدمعاش ہو! لیٹ جاؤ!“
اور ہنس کی طرف مڑا اور چیخ کر کہا: ”ایوان ایوانیچ! اپنی جگہ پر جاؤ!“
بلّا فرمانبرداری سے اپنے گدے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ اجنبی کے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے۔ وہ اپنے آپ سے شرمندہ تھا کہ وہ اپنے غصہ پر قابو کیوں نہیں رکھ سکا اور جھگڑے میں الجھ گیا۔
کشتانکا نے ناراضگی سے رونا شروع کردیا تھا۔ جبکہ ہنس نے اپنی گردن کو جھکایا اور خوب جوش و خروش سے اور واضح طور پر، لیکن سمجھ بوجھ کے بغیر تیزی سے کچھ کہنے لگا۔
”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ اس کے مالک نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”آپ کو امن اور دوستی سے رہنا چاہیے۔“ اس نے کشتانکا کو ہاتھ مارا اور آگے بڑھا: ”اور آپ ریڈ ہیر! خوفزدہ نہ ہوں۔۔۔۔۔ یہ ایک اصل ٹولی ہے۔ یہ آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔ اچھا رکو۔۔۔ ہم آپ کو کس نام سے پکاریں؟ میری پیاری آپ بغیر نام کے نہیں رہ سکتیں۔“
اجنبی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور کہا:”میں آپ کو کیا کہوں گا؟۔۔۔۔۔ آپ آنٹی بنیں گی۔ سمجھیں۔ آنٹی۔“
”ہاں آنٹی۔“ وہ یہ لفظ دہراتے ہوئے باہر چلا گیا۔ کشتانکا بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ بلّا اپنے چھوٹے گدّے پر بے حرکت بیٹھا تھا اور سونے کی اداکاری کر رہا تھا۔ ہنس اپنی گردن کو جھکا کر تیزی سے اور پرجوش طور پر کسی چیز کے بارے میں بات کررہا تھا۔ بظاہر وہ ایک بہت ہی ہوشیار ہنس تھا۔ کچھ کچھ دیر کے بعد وہ ہمیشہ حیرت کی فضا کے ساتھ پیچھے ہٹتا تھا اور اپنی تقریر سے انتہائی خوش ہونے کا مظاہرہ کرتا تھا۔ اس کی بات سن کر اور”ررررر۔۔۔۔“ کا جواب دیتے ہوئے کشتانکا کونوں کو سونگھنے کے لیے جھک گئی۔ ایک کونے میں اسے ایک چھوٹی سی کونڈی ملی۔ جس میں اس نے کچھ بھیگے ہوئے مٹر اور شوربے میں ڈوبی روٹی دیکھی۔ اس نے مٹر کھانے کی کوشش کی مگروہ اچھے نہیں تھے، پھر اس نے روٹی چکھی اور اسے کھانا شروع کر دیا۔ ہنس ناراض نہیں ہوا کہ اجنبی کتا اس کا کھانا کھا رہا تھا۔ اس کے برعکس اس نے زیادہ جوش و خروش سے بات جاری رکھی اور اپنا اعتماد ظاہر کرنے کے لیے کونڈی پر گیا اور خود بھی کچھ مٹر کھائے۔
4: ایک رکاوٹ پر کرشمہ
تھوڑی دیر بعد اجنبی اپنے ساتھ ایک عجیب چیز لے کر اندر آیا۔ لکڑی کا ایک فریم جیسے کوئی گیٹ ہو۔ اس کے اوپر کراس پیس پر گھنٹی لٹکی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ پستول بھی بندھا ہوا تھا۔ گھنٹی کی زبان اور پستول کے ٹریگر سے بھی رسیاں بندھی لٹک رہی تھیں۔ اجنبی نے فریم کو کمرے کے بیچ میں رکھ دیا، کچھ وقت باندھنے اور کھولنے میں گزرا، پھر اس نے ہنس کی طرف دیکھا اور کہا:”ایوان ایوانیچ! براہِ کرم آپ آئیے۔“
ہنس اس کے پاس گیا اور انتظار کے انداز میں کھڑا ہوگیا۔
اجنبی نے کہا۔”آئیے ہم شروع سے آغاز کرتے ہیں۔ سب سے پہلے رکوع میں جھکیں اور تعظیم دیں!“
ہنس نے ایسا ہی کیا۔ پھر اس نے گردن نیچی کی، سر کو ہر سمت میں گھمایا اور پاؤں زمین پر رگڑے۔
”ٹھیک ہے۔ براوو….اب مر جاؤ!“
ہنس اپنی پیٹھ کے بل لیٹ گیا اور اس کی ٹانگیں ہوا میں اٹھ گئیں۔ کچھ اور اسی طرح کے غیر اہم کرتب انجام دینے کے بعد اجنبی نے اچانک اس کے سر کو جکڑلیا اور خوف زدہ لہجے میں کہا: ”مدد!۔۔۔ آگ!۔۔۔ ہم جل رہے ہیں!۔۔۔۔“
ایوان ایوانیچ، فریم کی طرف بھاگا، اپنی چونچ میں ڈور کھینچی اور گھنٹی بجائی۔
اجنبی بہت خوش ہوا۔ اس نے ہنس کی گردن پر ہاتھ مارا اور کہا:
”براوو، ایوان ایوانیچ! اب یوں ظاہر کرو کہ تم سونے اور ہیرے بیچنے والے ایک جوہری ہو اور تصور کرو کہ تم اپنی دکان پر گئے ہو اور وہاں چوروں کو پایا۔ اس صورت میں تم کیا کرو گے؟“
ہنس نے فوراً دوسری ڈور کو اپنی چونچ میں لے کر کھینچ لیا، ایک دم کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا۔ کشتانکا جو پہلے ہی گھنٹی بجنے سے بہت خوش ہوئی تھی، اس فائر نے اسے اتنا پرجوش کر دیا کہ وہ بھونکتی ہوئی فریم کے چاروں طرف دوڑ گئی۔
”آنٹی، لیٹ جاؤ! اور خاموش رہو!“ اجنبی چیخا۔
ایوان ایوانیچ کا کام فائر کے بعد ختم نہیں ہوا تھا۔ پورے ایک گھنٹے تک اجنبی نے ہنس کو ایک ڈوری پر گھمایا، ایک کوڑا چٹخا یا اور ہنس کو رکاوٹوں اور گھیرے کے اوپر سے کودنا پڑا۔ اسے پیچھے ہونا پڑا یعنی اپنی دم پر بیٹھ کر ٹانگیں ہوا میں لہرائیں۔ کشتانکا، ایوان ایوانیچ پر سے آنکھیں نہیں ہٹا پارہی تھی، وہ خوشی سے ادھر ادھر ہلتی رہی اور کئی بار چیخی اور بھونکتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگنے کی کوشش میں گری۔ ہنس اور خود کو تھکانے کے بعد اجنبی نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور پکارا:
”ماریہ! ……’ہوورونیا ایوانوونا‘کو یہاں لے آؤ!“
ایک منٹ کے بعد غرّانے کی آواز آئی۔ کشتانکا بڑبڑائی اور خود کو نڈر ظاہر کرتی ہوئی محفوظ جگہ پر اجنبی کے قریب ہوگئی۔ دروازہ کھلا، ایک بوڑھی عورت نے اندر دیکھا اور کچھ کہہ کر ایک سیاہ اور انتہائی بدصورت سورنی کو کمرے میں لے آئی۔ اس نے کشتانکا کے کراہنے پر کوئی دھیان نہ دیتے ہوئے اپنا چھوٹا سا کھر اوپر اٹھایا اور خوش مزاجی سے غرائی۔ بظاہر اپنے مالک، بلّے اور ایوان ایوانیچ کو دیکھنا،جو اس کے لیے قابل قبول تھا۔ وہ بلّے کے پاس گئی اور اس کے پیٹ پر اپنے کھر سے ہلکی سی تھپکی دی اور پھر ہنس سے کچھ تبصرہ کیا، اس کی حرکات و سکنات اور اس کی دم کے لرزنے میں اچھی فطرت کا اظہار ہورہا تھا۔ کشتانکا نے فورا ًسمجھ لیا کہ ایسے فرد پر چیخنا اور بھونکنا بیکار ہے۔
اجنبی نے فریم ہٹادیا اور چیخا۔ ”فیوڈور فائیچ! براہِ کرم آپ آئیے!“
بلّے نے سستی سے انگڑائی لی اور ہچکچاتے ہوئے گویا ایک ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے سورنی کے قریب آگیا۔
”آؤ! ہم مصری اہرام سے شروع کرتے ہیں۔“ اجنبی نے کہا۔
وہ کچھ دیر تک انھیں سمجھاتا رہا۔ پھر حکم دیا۔”ایک۔ دو۔ تین۔“
لفظ ’تین‘ پر ہنس نے اپنے پروں کو لپیٹا اور سورنی کی پشت پر کود گیا۔ پھر اپنے پروں اور گردن سے خود کو متوازن کرتے ہوئے۔ اس نے اس کی کمر پر مضبوطی سے قدم جما لیے تو فیوڈور ٹیمو فائیچ نے سستی، واضح نفرت اور اپنے فن کی توہین کے ساتھ سورنی کی پشت پر، پھر ہچکچاتے ہوئے ہنس پر چڑھ گیا اور اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔
نتیجہ وہی ہوا جس کو اجنبی نے مصری اہرام کہا۔ کشتانکا خوشی سے بھونکی، لیکن اسی لمحے بوڑھا بلّا ہنس دیا اور اپنا توازن کھو کر ہنس پر سے گر گیا۔ پھر ہنس بھی نیچے آگرا۔اجنبی نے چیخ کر ہاتھ ہلایا اور پھر کچھ سمجھانے لگا۔ اہرام پر ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد ان کے محنتی اور نہ تھکنے والے آقا نے ایوان ایوانیچ کو بلّے پر سوار ہونا سکھایا، پھر بلے کو سگریٹ پینا سکھانا شروع کیا۔
اس سبق کا اختتام اجنبی کے پسینہ پونچھتے ہوئے وہاں سے چلے جانے پر ہوا۔ بلے نے ناگواری سے سانس لیا،پھر اپنے گدے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ ہنس اپنی گدی پر چلا گیا اور سورنی کو بوڑھی عورت لے گئی۔ کشتانکا نے آج کے نئے تجربات پر بہت اچھا محسوس کیا، اگرچہ دن مشکل سے گزرا تھا۔ مگر شام کو وہ گندے وال پیپر والے کمرے میں اپنے گدے پر آگئی اور رات فیوڈور ٹیمو فا ئیچ اور ہنس کی صحبت میں گزاری۔
5: ہنر! ہنر!
ایک مہینہ گزر گیا۔ کشتانکا کو ہر شام ایک اچھا ڈنر کرنے کی عادت ہو گئی تھی اور اسے آنٹی کہا جاتا تھا۔ وہ اجنبی اور اپنے نئے ساتھیوں کی بھی عادی ہو چکی تھی۔ زندگی آسان اور آرام دہ تھی۔
ہر دن ایک اصول کے مطابق شروع ہوتا۔ ایوان ایوانیچ سب سے پہلے بیدار ہوتا اور پہلے آنٹی یا بلی کے پاس جاکر انھیں جگاتا۔ پھر وہ گردن موڑ کر اور جوش و خروش سے بات کرنا شروع کردیتا، لیکن پہلے کی طرح اس کی باتیں غیر دانشمندانہ ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی وہ اپنا سر ہوا میں گھماتا اور ایک لمبی خود کلامی کرتا۔ پہلے کشتانکا سمجھتی تھی کہ وہ بہت ہوشیار ہے۔ اس لیے زیادہ باتیں کرتا ہے، لیکن تھوڑا سا وقت گزرنے کے بعد اس نے اپنی تمام عزت کھودی تھی۔ جب وہ اپنی لمبی تقریروں کے ساتھ اس کے پاس آتا تو وہ اپنی دم نہیں ہلاتی تھی، بلکہ اسے ایک تھکا دینے اور لمبی بک بک کرنے والا سمجھی تھی۔ جو کسی کو سونے نہیں دیتا تھا۔وہ بس اسے عام انداز سے”ررررر“ کے ساتھ جواب دیتی تھی۔
فیوڈور ٹیموفائیچ ایک بالکل مختلف قسم کا شریف آدمی تھا۔ جب وہ بیدار ہوتا تو کوئی آواز نہیں نکالتا تھا، نہ کوئی ہلچل پیدا کرتا اور وہ آنکھیں بھی نہیں کھولتا تھا۔ وہ بس زیادہ سونے پر خوش ہوتا تھا، جس سے ظاہر تھا کہ اسے زندگی سے زیادہ پیار نہیں ہے۔ اسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی اور وہ ہر چیز کے بارے میں بے حسی اور غیر سنجیدہ رویہ ظاہر کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اپنا مزیدار ڈنر کھاتے ہوئے بھی حقارت سے سونگھتا تھا۔
جب کشتانکا بیدار ہوتی تو کمرے میں چہل قدمی کرنے لگتی اور کونوں کو سونگھنے لگتی۔ وہ اور بلا ہی تھے جنھیں پورے فلیٹ میں جانے کی اجازت تھی۔ ہنس کو گندے وال پیپر والے کمرے کی دہلیز عبور کرنے کا حق نہیں تھا اور ہوورونیا ایوانوونا صحن میں ایک چھوٹے سے باڑے میں رہتی تھی اور صرف اسباق کے دوران ہی لائی جاتی تھی۔ ان کا آقا دیر سے اٹھتا اور چائے پینے کے فوراً بعد انھیں کرتب سکھانے آجاتا۔ وہاں ہر روز فریم، کوڑا اور گھیرا لایا جاتا تھا اور ہر روز تقریباً ایک جیسی کارکردگی ہوتی تھی۔ یہ سبق تین یا چار گھنٹے تک جاری رہتا، اس لیے کہ کبھی کبھی فیوڈور ٹیموفائیچ اتنا تھک جاتا کہ وہ ایک نشے میں دھت آدمی کی طرح لڑکھڑا رہا ہوتا اور ایوان ایوانیچ اپنی چونچ کھول کر لمبی سانسیں لیتا۔ جبکہ ان کے آقا کا چہرہ سرخ ہوجاتا اور وہ پیشانی پر آئے پسینے کو بھی صاف نہیں کرپاتا تھا۔
سبق اور رات کے کھانے نے دن کو بہت دلچسپ بنا دیا تھا، لیکن شامیں تکلیف دہ ہوتی تھیں۔ آقا معمول کے مطابق بلی اور ہنس کو لے کر کہیں چلا جاتا تھا اور آنٹی کوتنہا چھوڑ دیتا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے گدے پر لیٹ جاتی۔ جیسے ہی کمرے میں اندھیرا ہوتا، اداسی اس کے سامنے آجاتی اور آہستہ آہستہ اس پر قبضہ جمالیتی۔ اس وقت وہ بھونکنے، کھانے، کمروں کے ارد گرد بھاگنے اور یہاں تک کہ چیزوں کو دیکھنے کی تمام خواہشات ختم کر بیٹھتی تھی۔ پھر اس کے تصور میں آدھے کتے، آدھے انسان، پرکشش، خوشگوار، لیکن مبہم خاکوں کے ساتھ نمودار ہوتے۔ جب وہ آتے تو آنٹی اپنی دم ہلاتی اور اسے ایسا لگتا کہ اس نے انھیں کہیں دیکھا اور ان سے پیار کیا ہے اور جب وہ سورہی ہوتی تو اسے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ ان خاکوں سے گلو، برادے اور وارنش کی بو آتی ہے۔

جب وہ اپنی نئی زندگی کی عادی ہو چکی تھی اور ایک پتلی، لمبی اوردوغلی کتیا سے ایک چکنی اوربہترین کتیا میں بدل گئی تھی تو ایک دن اس کے مالک نے سبق سے پہلے اس کی طرف دیکھا اور کہا:”آنٹی! اب کاروبار کرنے کا وقت آگیا ہے۔ آپ نے کافی دن آرام کرلیا ہے۔ میں آپ کو ایک فنکار بنانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ فنکار بننا چاہتی ہیں؟“
پھر اس نے اسے مختلف کرتب سکھانے شروع کیے۔ پہلا سبق اس نے اسے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا اور اس پر چلنے کا سکھایا۔ جو اسے بہت پسند آیا۔ دوسرے سبق میں اسے اپنی پچھلی ٹانگوں پر کودنا پڑا اور اچھل کر کچھ چینی پکڑنی پڑی، جو اس کے آقا نے اس کے سر سے اوپر پکڑی ہوئی تھی۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل اسباق دیے گئے۔
اس نے رقص کیا۔ ڈوری سے بندھ کر دوڑی، موسیقی بجائی، گھنٹی بجائی اور پستول سے فائر کیا اور ایک مہینے میں اہرام مصر میں فیوڈور ٹیمو فائیچ کے اوپر جگہ لے سکی۔ اس نے سب کچھ بہت شوق سے سیکھا۔ وہ اپنی کامیابی سے خوش تھی۔ اسے ڈوری پر بندھ کر دوڑنا، گھیرے سے چھلانگ لگانا اور بوڑھے فیوڈور ٹیموفائیچ پر سوار ہونا سب سے زیادہ لطف اندوز محسوس ہوتا تھا۔
وہ ہر کامیاب کرتب کے بعد خوش ہوکر خوب بھونکتی۔ جبکہ اس کے استاد کو اس کی مہارت پر حیرت ہوتی تھی اور وہ خوش بھی تھا۔ وہ ہاتھوں کو رگڑ کر کہتا۔ ”یہ ہنر ہے! یہ ہنر ہے! آپ یقینا کامیاب ہوں گے!“
اور آنٹی لفظ ہنر کی اتنی عادی ہوگئی تھی کہ جب بھی اس کے مالک نے یہ لفظ بولا، وہ اچھل پڑی جیسے اس کا نام پکارا گیا ہو۔
6: ایک ناخوشگوار رات
ایک دن آنٹی نے ایک ڈوگی خواب دیکھا کہ ایک حمال جھاڑو لے کر اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ وہ خوف سے جاگ گئی۔
کمرہ کافی تاریک اور بہت بھرا ہوا لگ رہا تھا۔ اسے پسو کاٹ رہے تھے۔ آنٹی پہلے کبھی اندھیرے سے نہیں ڈری تھی، لیکن اب وہ کسی وجہ سے خوفزدہ اور بھونکنے کی طرف مائل ہونے لگی تھی۔
اس کے آقا نے خواب گاہ میں ایک زور دار آہ بھری۔ پھر تھوڑی دیر بعد سورنی اپنے باڑے میں غرّائی اور پھر سب پہلے جیسا ہوگیا۔ اسے خیال آیا جب کوئی کھانے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کا دل ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس نے سوچنا شروع کیا کہ اس دن اس نے ایک مرغی کی ٹانگ فیوڈور ٹیموفائیچ سے کس طرح چوری کی تھی اور اسے ڈرائنگ روم میں الماری اور دیوار کے درمیان چھپا دیا تھا، جہاں مکڑیوں کے جال اور بہت زیادہ دھول تھی۔ کیا اب یہ جاننا مناسب نہیں ہوگا کہ مرغی کی ٹانگ ابھی بھی وہاں موجود ہے یا نہیں؟ یہ بہت ممکن تھا کہ اس کے مالک نے اسے ڈھونڈ کر کھالیا ہو۔
لیکن وہ صبح سے پہلے کمرے سے باہر نہیں جاسکتی، یہی اصول تھا۔ آنٹی نے جلد سے جلد سونے کے لیے آنکھیں بند کرلیں، کیونکہ وہ تجربے سے یہ بات جانتی تھی کہ جتنی جلدی آپ سو جائیں گے۔ صبح اتنی ہی جلدی آجاتی ہے، لیکن اسی وقت ایک عجیب چیخ اسے سنائی دی، جسے سن کر وہ اپنے چاروں پیروں پر اچھل پڑی۔ یہ ایوان ایوانیچ تھا اور اس کا رونا معمول کے مطابق بڑبڑ اور قائل کرنے والا نہیں تھا۔ بلکہ ایک جنگلی، تیز اور غیر فطری چیخ تھی، جیسے دروازہ کھلنے کی چرخ چوں ہوتی ہے۔ وہ اندھیرے میں کسی چیز کی تمیز کرنے سے قاصر تھی اور سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا ہوا ہے۔ وہ مزید خوفزدہ ہوگئی اور بڑبڑائی: ”رررر……“
کچھ وقت گزر گیا۔ اتنا ہی وقت جتنا ایک اچھی ہڈی کھانے میں لگتا ہے۔ چیخ دوہرائی نہیں گئی۔ آہستہ آہستہ آنٹی کی بے چینی دور ہوتی گئی اور اس نے اونگھنا شروع کر دیا۔ اس نے دو بڑے کالے کتوں کا خواب دیکھا جو پچھلے سال کے اون کے گچھوں کے ساتھ جو ان کے کولہو کے اطراف میں رہ گئے تھے، ایک بڑے بیسن سے کچھ کھا رہے تھے، جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور اشتہا انگیز خوشو آرہی تھی۔ وہ وقتاً فوقتاً ادھر ادھر بھی دیکھ لیتے۔ جب انھوں نے آنٹی کی طرف دیکھا تو دانت دکھائے اور بڑبڑائے:
”ہم آپ کو کچھ نہیں دیں گے!“
پھر فر کوٹ میں ایک کسان گھر سے باہر آیا اور کوڑا مار کر انہیں بھگا دیا۔ پھر آنٹی نے بیسن پر جا کر کھانا شروع کیا، لیکن جیسے ہی کسان گیٹ سے باہر نکلا، دو کالے کتے اس کی طرف غراتے ہوئے دوڑے اور ایک دم پھر سے ایک تیز چیخ سنائی دی۔
”کے جی!…… کے جی……“
آنٹی نے اٹھ کر چھلانگ لگائی اور اپنی گدی چھوڑ کر چیختی ہوئی باہر نکل گئی۔ اسے لگتا تھا کہ یہ ایوان ایوانیچ نہیں تھا جو چیخ رہا تھا بلکہ کوئی اور تھا اور کسی وجہ سے سورنی نے پھر اپنے باڑے میں غرانا شروع کردیا ہے۔
پھر چپل پہننے کی آواز آئی اور ماسٹر اپنا ڈریسنگ گاؤن پہنے اور ہاتھ میں موم بتی لیے کمرے میں آیا۔ ٹمٹماتی روشنی گندے وال پیپر اور چھت پر رقص کرتے ہوئے اندھیرے کو دور کررہی تھی۔ آنٹی نے دیکھا کہ کمرے میں کوئی اجنبی نہیں ہے۔ ایوان ایوانیچ فرش پر بیٹھا تھا اور اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ اس نے پروں کو پھیلایا ہوا تھا اور اس کی چونچ کھلی ہوئی تھی اور اس نے مکمل طور پر ایسا محسوس کیا جیسے وہ بہت تھکا ہوا اور پیاسا ہے۔ بوڑھا فیوڈور ٹیمو فائیچ بھی سویا ہوا نہیں لگتا تھا۔ وہ بھی چیخ سے ضرور بیدار ہوگیا تھا۔
”تمہیں کیا مسئلہ ہے؟“ آقا نے ہنس سے پوچھا۔”تم کیوں چیخ رہے ہو؟ کیا تم بیمار ہو؟“
ہنس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ماسٹر نے اس کی گردن کو چھوا، اس کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور کہا:
”آپ ایک عجیب آدمی ہیں۔ آپ نہ خود سوتے ہیں اور نہ دوسروں کو سونے دیتے ہیں۔“
جب آقا اپنے ساتھ موم بتی لے کر باہر چلا گیا تو پھر اندھیرا چھا گیا۔ آنٹی کو خوف محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ کمرے میں کوئی اجنبی موجود ہے۔ سب سے زیادہ خوفناک بات یہ تھی کہ اس اجنبی کو کاٹا نہیں جا سکتا تھا، کیونکہ وہ غائب تھا اور اس کی کوئی شکل نہیں تھی۔ کسی نامعلوم وجہ سے اسے خیال آیا کہ اس رات کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔ فیوڈور ٹیموفائیچ بھی بے چین تھا۔ آنٹی اسے اپنے گدے پر ہلتے، چیختے اور سر ہلاتے ہوئے سن رہی تھی۔
گلی میں کہیں کسی دروازے پر دستک ہوئی اور سورنی اپنے باڑے میں غرائی۔ آنٹی نے پھر بھونکنا شروع کردیا۔ پھر اپنے اگلے پنجوں کو پھیلایا اور اپنا سر ان پر رکھ دیا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ گیٹ پر دی ہوئی دستک، سورنی کے کراہنے، اور اندھیرے میں کچھ ایسا ہی خوفناک اور افسوس ناک ہے جیسا کہ ایوان ایوانیچ کے رونے میں۔ ہر چیز پریشانی اور اضطراب میں تھی، لیکن کیوں؟ وہ کون اجنبی تھا جسے دیکھا نہیں جا سکتا تھا؟ پھر آنٹی کے پاس ایک منٹ کے لیے سبز رنگ کی دو مدھم آنکھیں چمکیں۔ یہ فیوڈور ٹیموفائیچ تھا، وہ پہلی بار اس کے پاس آیا تھا۔ وہ کیا چاہتا تھا؟ آنٹی نے اسکا پنجا چاٹ لیا، لیکن یہ نہ پوچھا کہ وہ کیوں آیا ہے۔
”کے جی!…… کے جی!……“ ایوان ایوانیچ چیخا۔
دروازہ دوبارہ کھلا اور ماسٹر پھر شمع لے کر اندر آیا۔
ہنس پہلے کی طرح بیٹھا تھا۔ اس کی چونچ کھلی ہوئی تھی، پر پھیلے ہوئے تھے اور آنکھیں بند تھیں۔
”ایوان ایوانیچ!“ اس کے مالک نے اسے آواز دی۔
ہنس نے حرکت نہیں کی۔ اس کا مالک فرش پر اس کے سامنے بیٹھ گیا، ایک منٹ کے لیے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا:
”یہ کیا؟…… کیا تم مر رہے ہو، اوہ میرے خدا!…… میں جانتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے! اس لیے کہ آج راستے میں گھوڑے نے تم پر پاؤں رکھ دیا تھا۔“ وہ چیخا اور اس کے سر سے لپٹ گیا۔
آنٹی کو سمجھ نہیں آئی کہ اس کا مالک کیا کہہ رہا ہے، لیکن اس کے چہرے کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ بھی کسی خوفناک چیز کی توقع کر رہا ہے۔ آنٹی نے اپنا سر تاریک کھڑکی کی طرف گھمایا، جہاں اسے لگتا تھا کہ کوئی اجنبی اس کی طرف دیکھ رہا اور چیخ رہا ہے۔
”وہ مر رہا ہے، آنٹی!“ اس کے مالک نے کہا، اور اس کے ہاتھوں کو جھنجھوڑا۔ ”ہاں، ہاں، وہ مر رہا ہے! تمہارے کمرے میں موت آگئی ہے۔ ہم کیا کریں؟“
پھر وہ بے چینی سے سسکتے ہوئے اور سر ہلاتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔ آنٹی اندھیرے میں رہنے سے خوفزدہ تھی۔ وہ بھی اپنے آقا کے پیچھے خواب گاہ میں چلی آئی۔ وہ بستر پر بیٹھ گیا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا:”میرے خدا، کیا کرنا چاہیے؟“
آنٹی اس کے پیروں کے گرد چکر لگارہی تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیوں اتنا پریشان اور بے چین ہے۔ وہ اس کی ہر حرکت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ فیوڈور ٹیموفائیچ جو شاذ و نادر ہی اپنا چھوٹا سا گدّا چھوڑتا تھا،آج مالک کی خواب گاہ میں آگیا تھا اور اپنے پیروں سے خود کو رگڑ رہا تھا۔ اس نے سر بھی ہلایا۔ گویا ذہن سے دردناک خیالات کو نکالنا چاہتا ہو اور بستر کے نیچے مشتبہ نظروں سے جھانکنے لگا۔
آقا نے ایک طشتری لی۔ اس میں ہاتھ دھونے کے نل سے کچھ پانی ڈالا اور دوبارہ ہنس کے پاس گیا۔
”پیو، ایوان ایوانیچ!“ اس نے نرمی سے کہا اور اس کے سامنے طشتری رکھ دی۔”پی لو، پیارے۔“
لیکن ایوان ایوانیچ نے کوئی حرکت نہیں کی اور نہ آنکھیں کھولیں۔ اس کے مالک نے اپنا سر نیچے طشتری کی طرف جھکایا اور اس کی چونچ کو پانی میں ڈبو دیا، لیکن ہنس نے پانی نہیں پیا، اس کے پر پہلے سے کہیں زیادہ پھیلے تھے اور سر طشتری میں پڑا تھا۔
”آہ۔۔۔۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔“ اس کے آقا نے آہ بھری۔”سب ختم ہو گیا۔ آیوان ایوانیچ چلا گیا ہے!“
آنسوؤں کے چمکتے ہوئے قطرے اس کے رخسار پر سے بہتے ہوئے نیچے آنے لگے۔ جیسے بارش میں کسی کھڑکی کے شیشے پر پانی کی لکیریں بہتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ آنٹی اور فیوڈور ٹیمو فائیچ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور گھبراہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔
”بے چارہ ایوان ایوانیچ!“ آقا نے روتے ہوئے کہا۔”میں تو سوچ رہا تھا کہ میں تمھیں موسم بہار میں گاؤں لے جاؤں گا اور تمہارے ساتھ سبز گھاس پر چلوں گا۔ پیاری مخلوق، میرے اچھے ساتھی، اب تم نہیں ہو! میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گا؟“
آنٹی کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا یعنی وہ بھی، نہ جانے کیوں، آنکھیں بند کر لے گی، اپنے پنجے کھینچ لے گی، منہ کھولے گی اور ہر کوئی اس کی طرف وحشت سے دیکھے گا۔ بظاہر یہی عکاسی فیوڈور ٹیمو فائیچ کے دماغ سے گزر رہی تھی۔ اس سے پہلے بوڑھا بلّا اتنا اداس کبھی نہیں ہوا تھا۔
اب سحر ہونے لگی تھی اور وہ نادیدہ اجنبی جس نے آنٹی کو بہت خوفزدہ کیا تھا، اب کمرے میں نہیں تھا۔ جب دن کی کافی روشنی ہوگئی تو ملازم اندر آیا اور ہنس کو لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد بوڑھی عورت اندر آئی اور کونڈی لے گئی۔
آنٹی نے ڈرائنگ روم میں جاکر الماری کے پیچھے دیکھا۔ اس کے مالک نے مرغی کی ہڈی نہیں کھائی تھی۔ وہ اپنی جگہ پر خاک اور مکڑیوں کے جالوں میں پڑی تھی، لیکن آنٹی نے اداسی محسوس کی اور رونا چاہا۔ اس نے ہڈی کو سونگھا بھی نہیں۔ وہ صوفے کے نیچے گئی اور وہاں بیٹھ گئی۔ پھر دھیمی آواز میں رونے لگی۔
7: ایک ناکام آغاز
ایک شام ماسٹر گندے وال پیپر والے کمرے میں آیا اور ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے کہا:”اچھا……“
اس نے مزید کچھ کہنا چاہا، لیکن کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ آنٹی جس نے اپنے اسباق کے دوران اس کے چہرے اور لہجے کا اچھی طرح مطالعہ کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بے چین اور پریشان ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا اور کہا:
”آج میں اپنے ساتھ آنٹی اور فیوڈور ٹیمو فائیچ کو لے کر جاؤں گا۔ آنٹی آج آپ ’اہرام مصر‘ میں غریب ایوان ایوانیچ کی جگہ لیں گی۔ خدا جانے یہ کیسے ہوگا؟۔۔۔۔ زیادہ تیاری نہیں ہے۔۔۔۔۔ کچھ بھی مکمل سیکھا نہیں گیا۔۔۔۔ بس کچھ مشقیں ہوئی تھیں۔ شاید ہم ناکام ہوجائیں اور ہمیں رسوائی ملے۔“
پھر وہ دوبارہ باہر گیا اور ایک منٹ بعد اپنے فر کوٹ اور اونچی ٹوپی میں واپس آیا۔ فیوڈور ٹیمو فائیچ کے پاس جاکر اُس نے اُسے اگلے پنجوں سے پکڑ لیا اور اپنے کوٹ کے اندر رکھ لیا۔ فیوڈور ٹیمو فائیچ مکمل طور پر بے فکر دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ اس کے نزدیک یہ بالکل بے حسی کا معاملہ تھا کہ آیا وہ لیٹا رہے یا اسے پنجوں سے پکڑ کر اٹھالیا جائے، چاہے وہ اپنے گدے پر آرام کرے یا اپنے مالک کے فر کوٹ کے نیچے…… اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

”آنٹی چلو!“ اس کے مالک نے آواز لگائی۔
آنٹی اپنی دم ہلاتی اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کے پیچھے چل دی۔ ایک منٹ بعدایک برف گاڑی میں بیٹھے وہ اپنے آقا کے قدموں میں بیٹھی تھی اور اس نے سنا کہ وہ سردی اور پریشانی سے سکڑتے ہوئے بڑبڑارہا تھا: ”ہمیں رسوا کیا جائے گا! ہم غم میں مبتلا ہوجائیں گے!“
برف گاڑی ایک بڑی اور عجیب نظر آنے والی عمارت پر رک گئی۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے سوپ نکالنے والا ایک بہت بڑا چمچہ الٹا رکھا ہو۔ اس عمارت کے تین بہت بڑے دروازے تھے۔ جن کو ایک درجن شاندار چراغوں سے روشن کیا گیا تھا۔ دروازے ایک زوردار شور کے ساتھ کھل گئے اور لوگوں کو وہیل کے جبڑوں کی طرح نگلنے لگے جو وہاں پر جمع تھے۔ بہت سارے لوگ تھے، گھوڑے بھی دروازے تک بھاگے آرہے تھے، لیکن کوئی کتا نظر نہیں آرہا تھا۔
ماسٹر نے آنٹی کو اپنی بانہوں میں لیا اور اسے اپنے کوٹ میں دھکیل دیا، جہاں فیوڈور ٹیمو فائیچ پہلے سے موجود تھا۔ وہاں اندھیرا تھا، لیکن وہ جگہ گرم تھی۔ ایک لمحے کے لیے دو سبز چنگاریاں چمکیں۔ بلّے نے آنٹی کے ٹھنڈے پنجوں سے پریشان ہوکر آنکھیں کھولی تھیں۔ آنٹی نے اس کے کان کو چاٹ لیا اور اپنے آپ کو ہر ممکن حد تک پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ پھر اتفاقیہ طور پر اس نے اپنا سر کوٹ کے نیچے سے باہر نکالا، لیکن ایک دم غصے سے بڑبڑائی اور اسے دوبارہ اندر کرلیا۔ اسے ایسا لگا تھا کہ اس نے ایک بہت بڑا، مگر کم روشن کمرہ دیکھا ہے، جو بلاؤں سے بھرا ہوا ہے۔ اسکرینوں اور سلاخوں کے پیچھے جو کمرے کے دونوں اطراف پھیلے ہوئے تھے، خوفناک چہرے باہر جھانک رہے تھے۔ سینگوں والے گھوڑوں کے چہرے، لمبے کانوں کے ساتھ اور ایک موٹی ناک کے بجائے دم کے ساتھ بڑا چہرہ۔
بلے نے آنٹی کے پنجوں کے نیچے زور سے میاؤں کیا، لیکن اس وقت کوٹ کھلا اور آقا نے کہا۔”کودو!“ اور بلی اور آنٹی فرش پر کود گئے۔ وہ اب سرمئی تختوں کی دیواروں والے ایک چھوٹے سے کمرے میں تھے۔ اس میں ایک چھوٹی میز کے علاوہ کوئی اور فرنیچر نہیں تھا۔ میز پر ایک آئینہ لگا تھا، ایک اسٹول اور کچھ چیتھڑے کونوں کے گرد لٹکے ہوئے تھے اور چراغ یا موم بتیوں کی بجائے ایک پنکھے کی شکل کی روشنی تھی جو دیوار سے نکلے ایک پائپ سے منسلک تھی۔ بلّا اپنا فر چاٹ رہا تھا جو آنٹی نے اپنے پنجوں سے خراب کردیا تھا۔ پھر وہ اسٹول کے نیچے گیا اور لیٹ گیا۔ ان کا آقا اب بھی بے چین تھا اور اپنے ہاتھوں کو رگڑ رہا تھا۔ پھر اس نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کیے۔ اسی طرح جیسا کہ وہ عام طور پر بستر میں جانے سے پہلے گھر میں کرتا تھا۔ یعنی ایک زیر جامہ کے علاوہ اس نے سب کچھ اتار دیا۔ پھر وہ اسٹول پر بیٹھ گیا اور شیشے میں دیکھنے لگا۔
پھر اس نے انتہائی حیران کن کام شروع کیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے سر پر ایک وگ لگائی۔ جس میں بالوں کے دو ٹکڑے سینگوں کی طرح کھڑے تھے، پھر اپنے چہرے کو کسی سفید چیز سے رنگا۔ ابرو، پیشانی، سب سفید ہوگئیں تو اس نے اپنی ناک اور ہونٹوں اور پھولے ہوئے گالوں پر سرخ رنگ لگایا۔ اس کی حرکات اسی پر ختم نہیں ہوئیں۔ اپنے چہرے اور گردن کو رنگنے کے بعد اس نے ایک عجیب و غریب لباس پہننا شروع کیا، اس جیسا لباس آنٹی نے پہلے کبھی گھروں یا گلیوں میں کسی کو پہنے نہیں دیکھا تھا۔ آپ بڑے بڑے پھولوں والی پتلون کا تصور کریں۔ جو بہت ڈھیلی ڈھالی بھی ہو۔ اس پتلون کی ایک ٹانگ بھورے رنگ کی ہو اور دوسری چمکتے ہوئے پیلے رنگ کی اور وہ بغلوں کے نیچے بٹنوں کے ذریعے بند ہوتی ہو۔ اس طرح کا کپڑا عموماً مزدور طبقے کے گھروں میں پردوں اور فرنیچر کو ڈھکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ وہ تقریباً اس میں کھو گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے ایک چھوٹی پھول دار جیکٹ پہنی، ایک بڑا آرائشی کالر لگایا اور پیٹھ پر سونے کا ستارہ بھی ٹانک لیا۔ آخر میں اس نے رنگ برنگی جرابیں پیروں میں چڑھائیں اور سبز چپل بھی پہن لی۔
سب کچھ آنٹی کی آنکھوں کے سامنے اور اس کی روح کے گرد گھوم رہا تھا۔ وہ پریشان تھی۔ اسے سفید چہرے والی بوری نما شکل اپنے مالک کی طرح لگتی تھی، اس کی آواز بھی مالک کی آواز کی طرح آشنا تھی، لیکن کچھ لمحے ایسے بھی آئے تھے جب آنٹی کو شکوک و شبہات نے گھیر لیا اور وہ کثیر رنگی شخصیت کے پاس سے بھاگنے کے لیے تیار ہوگئی اور بھونکنے لگی۔ نئی جگہ، پنکھے کی شکل کی روشنی، بو اور عجیب تبدیلی جو اس کے مالک میں رونما ہوئی تھی۔ یہ سب اس کے اندر ایک مبہم خوف اور ایک بدشگونی کو جنم دے رہے تھے کہ وہ یقینا کسی ہولناکی کا سامنا کرنے والی ہے۔ اس کے تصور میں ایک بڑا چہرہ جس کی ناک کی جگہ لمبی دم تھی ابھر آیا۔ پھر کہیں دیوار کے پیچھے کوئی نفرت انگیز بینڈ بجنے لگا اور وقتاً فوقتاً اسے ایک ناقابل فہم چنگھاڑ سنائی دینے لگی۔ صرف ایک چیز نے اسے سہارا دیا تھا اور وہ چیز تھی فیوڈور ٹیمو فائیچ کا مطمئن ہونا۔ وہ اسٹول کے نیچے انتہائی سکون سے سوگیا تھا اور شور و غل ہونے کے باوجود آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔
ڈریس کوٹ اور سفید ویسٹ کوٹ والے ایک آدمی نے چھوٹے کمرے میں جھانکا اور کہا:
”مس عربیلا ابھی گئی ہے۔ ان کے بعد آپ……“
ان کے آقا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے میز کے نیچے سے ایک چھوٹا سوٹ کیس نکالا اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ اس کے ہونٹوں اور ہاتھوں سے محسوس کیا جاسکتا تھا کہ وہ بہت بے چین ہے اور آنٹی اس کے ہانپنے کی آواز سن رہی تھی۔
”مسٹر جارج، چلو!……“ دروازے کے پیچھے کسی نے آواز دی۔ ان کا ماسٹر اٹھا اور خود پر تین بار صلیب کا نشان بنایا۔ پھر بلے کو اسٹول کے نیچے سے لے کر سوٹ کیس میں ڈال دیا۔
”آنٹی۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔
آنٹی کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کے پاس چلی آئی۔ آقا نے اس کے سر پر بوسہ دیا اور اسے بھی فیوڈور ٹیمو فائیچ کے پاس رکھ دیا۔ پھر سوٹ کیس بند ہوا اور اندھیرا چھا گیا……آنٹی نے گھبرا کر بلّے کو روند ڈالا، سوٹ کیس کی دیواروں کو اپنے پنجوں سے نوچا اور اتنی خوفزدہ ہوگئی کہ وہ آواز تک نہ نکال سکی اور سوٹ کیس ڈگمگا کر ایسے ہل رہا تھا جیسے موجوں پر سوار ہو۔
”ہم پھر یہاں ہیں! ہم پھر یہاں ہیں!“ اس کے مالک نے بلند آواز میں کہا۔
آنٹی نے محسوس کیا کہ اس پکار کے بعد سوٹ کیس کسی سخت چیز سے ٹکرایا ہے اور اس نے ڈگمگانا چھوڑ دیا ہے۔ پھر ایک زور دار گہری دھاڑ سنائی دی تھی، کسی کو مارا جارہا تھا اور غالباًکوئی ناک کی بجائے دم والا عفریت زور سے چنگھاڑا اور اتنے زور سے ہنسا کہ سوٹ کیس کے تالے کانپ گئے۔ چنگھاڑنے کے جواب میں اس کے مالک کی طرف سے ایک تیز ہنسی کی آواز آئی۔ ایسی ہنسی، جو وہ گھر میں کبھی نہیں ہنسا تھا۔
پھر وہ زور سے چیخا۔”معزز دوستو!۔۔۔۔ میں ابھی ابھی اسٹیشن سے آیا ہوں!۔۔۔۔ میری دادی اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں اور وراثت میں میرے لیے مال و دولت چھوڑ گئی ہیں۔۔۔۔۔ اس سوٹ کیس میں کچھ بہت بھاری ہے۔۔۔۔ یہ سونا ہونا چاہیے، ہا ہاہا۔۔۔ اب ہم اسے کھولیں گے اور دیکھیں گے۔۔۔۔“
سوٹ کیس کا تالا کھولا گیا۔ تیز روشنی نے آنٹی کی آنکھوں کو چندھیا دیا، وہ سوٹ کیس سے باہر کود گئی اور ہاتھی کی چنگھاڑ سن کر بہری ہوگئی۔ وہ اپنے مالک کے گرد تیزی سے بھاگی اور اونچی آواز میں بھونکی۔
”ہاہاہا!“ اس کے مالک نے کہا۔”انکل فیو ڈور ٹیمو فائیچ! پیاری آنٹی! عزیز رشتے دارو! شیطان تمہیں لے جائے!“
وہ پیٹ کے بل ریت پر گرگیا اور بلے اور آنٹی کو پکڑ کر ان کو گلے لگالیا۔ جب اس نے آنٹی کو اپنی بانہوں میں مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ آنٹی نے اس رنگ برنگی دنیا پر نگاہ دوڑائی۔ جہاں قسمت اسے لے آئی تھی اور اس کی بے پناہ خوبیوں سے متاثر ہو کر ایک منٹ کے لیے حیرت اور مسرت سے دنگ رہ گئی۔ پھر اپنے آقا کے بازوؤں سے چھلانگ لگائی اور اپنے جذبات کا شدت سے اظہار کیا۔ وہ ایک لٹو کی طرح ایک جگہ پر گول گھوم رہی تھی۔ یہ نئی دنیا بڑی اور روشنی سے نہائی ہوئی تھی۔ اس نے جہاں بھی دیکھا ہر طرف فرش سے چھت تک چہرے ہی چہرے نظر آئے۔ وہاں اور کچھ نہیں تھا۔
”آنٹی! میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ آپ بیٹھ جائیں!“ اس کے مالک نے چیخ کر کہا۔
اس کا مطلب یاد کرتے ہوئے آنٹی اچھل کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے مالک کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اسے ہمیشہ کی طرح سنجیدگی اور شفقت نظر آئی، لیکن اس کا چہرہ خاص طور پر اس کا منہ اور دانت ایک ساکن مسکراہٹ سے عجیب و غریب بنادئیے گئے تھے۔ وہ ایک عجیب مسکراہٹ تھی۔ جس میں خوشی کی رمق بھی نہیں تھی۔ مالک نے ہنستے ہوئے ادھر ادھر اچھل کر کندھے اچکائے اور ہزاروں چہروں کی موجودگی میں انتہائی خوش ہونے کا ڈراما کیا۔ آنٹی کو اس کی خوشی پر یقین تھا۔ پھر اس نے یکایک محسوس کیا کہ وہ ہزاروں چہرے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس نے لومڑی جیسا سر اٹھایا اور خوشی سے چیخی۔
اس کے ماسٹر نے اس سے کہا۔”آنٹی آپ وہاں بیٹھیں جبکہ انکل اور میں کماری نسکی ڈانس کریں گے۔“
فیوڈور ٹیمو فائیچ کھڑے ہو کر ادھر ادھر بے نیازی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ انتظار کر رہا تھا کہ کوئی احمقانہ کام کیا جائے۔ اس نے بے فکری، لاپروائی اور اداسی سے ڈانس کیا اور اس کی حرکات و سکنات اس کی دم اور کانوں سے یہ واضح تھا کہ اسے ہجوم اور روشنیوں سے اپنے مالک اور خود کے لیے گہری توہین محسوس ہوئی ہے۔ جب اس نے اپنا مقرر کردہ کام سرانجام دے دیا تو اس نے ایک جمائی لی اور بیٹھ گیا۔
”اب آنٹی!“ اس کے مالک نے کہا۔”کیا ہم پہلے ایک گانا گائیں اور پھر رقص کریں گے؟“
اس نے اپنی جیب سے ایک پائپ نکالا اور بجانے لگا۔ آنٹی جو موسیقی برداشت نہیں کر سکتی تھی اپنی کرسی پر بے چین ہو کر مچلنے لگی اور چیخیں ماریں۔ ہر طرف سے تالیوں کی گونج بلند ہوئی۔ اس کا ماسٹر جھک گیا اور جب سب خاموش تھے۔ کھیل جاری تھا۔ جیسے ہی اس نے ایک بہت اونچا سر ختم کیا، سامعین میں سے کوئی بچہ بلند آواز میں چلایا:”آنٹی؟ یہ تو کشتانکا ہے!“
”ہاں یہ کشتانکا ہے!“ ایک نشے باز نے آواز لگائی۔
”کشتانکا! مجھے مار ڈالو۔“
”فیڈیوشکا! یہ کشتانکا ہے۔ کشتانکا! یہاں آؤ!“
گیلری میں موجود کسی نے سیٹی بجائی اور دو آوازیں ایک لڑکے کی اور ایک آدمی کی بلند ہوئیں: ”کشتانکا! کشتانکا!“
آنٹی نے نگاہ دوڑائی کہ چیخنے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اسے دو چہرے نظر آئے۔ ایک بالوں والا نشے میں مسکراتا ہوا۔ دوسرا موٹا، گلابی گالوں والا اور خوفزدہ نظر آنے والا چہرہ۔ اسے کچھ یاد آیا۔ وہ کرسی سے گرگئی، ریت پر بھاگی، پھر چھلانگ لگائی اور خوشی سے بھونکتی ہوئی ان چہروں کی طرف لپکی۔ ایک گونجتی ہوئی دھاڑ تھی جس میں سیٹی بجتی تھی اور ایک بچکانہ چیخ و پکار ہورہی تھی:”کشتانکا! کشتانکا!“
آنٹی نے رکاوٹ کے اوپر چھلانگ لگائی، پھر کسی کے کندھوں پر چڑھی۔ اس نے اپنے آپ کو ایک ڈبے میں پایا، اگلے درجے میں جانے کے لیے اسے ایک اونچی دیوار پر چھلانگ لگانی پڑی، لیکن وہ ناکام ہوئی، وہ دیوار سے نیچے پھسل گئی۔ پھر اسے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا گیا، اس نے پیار سے لوگوں کے ہاتھوں اور چہروں کو چاٹ لیا اور بلندیوں پر چڑھتی رہی اور آخر کار گیلری میں داخل ہو گئی۔
آدھے گھنٹے کے بعد کشتانکا گلی میں تھی۔ ان لوگوں کے پیچھے جن کے پاس سے گلو اور وارنش کی بو آتی تھی۔ لوکا الیگزینڈرچ لڑکھڑایا اور فطری طور پر اور کچھ سابقہ تجربے کی بنیاد پر گٹر سے ہر ممکن حد تک دور ہونے کی کوشش کی۔
”گناہ کیا میری ماں نے مجھے جنم دیا۔“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔”اور تم کشتانکا ایک کم سوجھ بوجھ والی چیز ہو۔ تم ایک آدمی کے خلاف اسی طرح ہو جیسے ایک ترکھان دوسرے ترکھان کے۔“
فیڈیوشکا اپنے والد کی ٹوپی پہن کر اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ کشتانکا نے ان کی پیٹھ کی طرف دیکھا اور اسے ایسا لگا کہ وہ ان کے پیچھے عرصے سے چل رہی ہے اور خوش ہے کہ اس کی زندگی میں ایک لمحے کا وقفہ بھی نہیں آیا۔
اسے چھوٹا گندہ وال پیپر والا کمرہ، ہنس، فیوڈور ٹیمو فائیچ، مزیدار ڈنر، اسباق اور سرکس یاد آئے، لیکن وہ سب کچھ اب اسے ایک لمبے، الجھے ہوئے جابرانہ خواب کی طرح لگتا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top