skip to Main Content

کہانیاں سنانے والالڑ کا

امریکہ کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ امریکہ کی ایک ریاست میں ایک چھوٹا سا، پیارا سالڑ کا رہتا تھا۔ اس کا نام ”صاحب“ تھا۔ وہ ابھی بہت چھوٹا سا تھا تو اسکی ماں چل بسی۔ باپ کے لئے یہ بہت مشکل ہو گیا کہ وہ کمانے کے ساتھ ساتھ گھر بار اور بچے کو بھی سنبھالے۔ مجبوراً اس نے دوسری شادی کر لی۔ صاحب کی نئی ماں اپنے ساتھ تین بیٹیاں بھی لے کر آئی۔ مینا، ہینا اور وینا۔ یہ تینوں صاحب سے بڑی، خوب موٹی تازی اور لڑاکا تھیں۔ مینانو چنے کھسوٹنے میں ماہرتھی۔ ہینا بال مٹھیوں میں جکڑ کر سامنے والے کو دن میں تارے دکھادیتی تھی۔ وینا ایسے برے برے منہ بناتی کہ پرندے بھی ڈرکراڑ جاتے۔ اس کی ماں نے اس پہ پابندی لگادی تھی کہ با ہروہ بے شک پرندے اڑاتی رہے مگر گھر کے اندروہ ایسی منحوس شکلیں نہیں بنائے گی۔ خودا ماں بھی کچھ کم نہ تھی۔لالچی اور ظالم تو تھی ہی۔ کھانے بھی ایسے بدمزہ بناتی کہ اسکے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے کھا کھا کر صاحب کا باپ چند ماہ میں ہی چل بسا اور بیچارہ صاحب ان ماں بیٹیوں کے شکنجے میں پھنسارہ گیا۔ پورے گھر پہ انہی کا راج تھا۔ صاحب کی ملکیت میں صرف تین چیزیں تھیں۔ چاندی کا ایک ننھا سا کپ، چاندی کا ہی ایک چمچہ اور کہانیوں کی ایک کتاب۔ یہ کتاب صاحب کو سب سے زیادہ عزیر تھی۔ کیونکہ اسکی ماں اس کتاب سے اسے کہانیاں سنایا کرتی تھی۔
آہستہ آہستہ صاحب کو بھی کچھ کچھ پڑھنا آ گیا تھا۔ کیونکہ اسکی ماں اکثر یہی کہتی کہ بیٹا میں ذرا یہ کام نمٹالوں تب تک تم مجھے سورج اور لڑ کے والی کہانی تو سناؤ۔ دیکھو میں آلو چھیل رہی ہوں۔ تم کتاب سے دو دوستوں کا قصہ تو اونچی آواز میں پڑھو۔ یونہی کرتے کرتے صاحب کو خوب اچھی طرح پڑھنا آ گیا تھا۔ اب ماں کی نشانی کے طور پہ صاحب کو یہ چیز یں بے حد عزیز تھیں اور کتاب تو شاید ماں کا ہی درجہ اختیار کر گئی تھی کیونکہ وہ جب بھی کتاب کھولتا تو اسے یوں لگتا کہ ماں یہیں کہیں اس کے پاس ہی موجود ہے۔ و ہ سب تکلیفیں اور غم بھول کر کتاب میں کھو جاتا۔ اس نے اپنی یہ چیز یں اپنی چالاک بہنوں سے چھپا کر رکھنے کی بہت کوشش کی مگر ز یا دہ دن تک اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ وہ تینوں بے چین روحیں ہر کونے کھدرے میں جھانکتی اور ادھر ادھر ہاتھ مارتی پھرتی تھیں۔
ایک روز مینا صاحب کے بستر کوٹٹول رہی تھی تو چاندی کا کپ اسکے ہاتھ آ گیا۔ اس نے شور مچادیا۔”صاحب تو کتنا کمینہ ہے۔ اس قدر خوبصورت کپ چھپا کر بیٹھا ہوا ہے۔ صرف اس لئے تا کہ ہم اسے نہ لے سکیں؟ بس آج سے یہ میرا ہے۔ اگر تو نے اسے لینے کی کوشش کی تو میں گھونسے مار مار کر تیرا حلیہ بگاڑ دوں گی۔ تجھے ایسا نو چوں کھسوٹوں گی کہ……“
”شرم کروصا حب! شرم کرو۔“ ماں جوقریب ہی کہیں سا راواقعہ سن رہی تھی۔ دخل اندازی کر تے ہوئے بولی۔”بہنوں سے چیز یں چھپاتے ہو؟ چلوفو راً یہ کپ مینا کودو۔“
وہ بیچارہ منہ دیکھتا رہ گیا اور کپ مینا کا ہو گیا۔ پھر ایک دن ہینا کو اسکے تکیے کے غلاف میں سے چاندی کا چمچہ مل گیا،پھر و یسا ہی طوفان اٹھا۔ ہینا نے بال نوچنے کی دھمکی دی اور ماں نے خوب ڈانٹا پھٹکارا اور چمچہ ہینا کومل گیا۔
اب صاحب کے پاس فقط کتاب بچی تھی۔ وہ اسے چھپائے چھپائے پھرتا۔ روز اس کا ٹھکا نا بدل دیتا۔ کبھی چھت پر، کبھی باغ میں کسی درخت کی کھوہ میں، کبھی مرغیوں کے ڈربے میں اور کبھی مکئی کی بوریوں میں، لیکن وینا بھی تاک میں تھی۔ اسے بھی صاحب سے کوئی چیز در کارتھی۔ آخر ایک دن کتاب اسکے ہاتھ لگ ہی گئی۔ لیکن اب صاحب بپھر گیا۔ اس نے کتاب وینا کے ہاتھ سے جھپٹ لی اور پر چھتی پہ جاچڑ ھا۔ وینا اسکے پیچھے پیچھے آئی۔
”دیکھو!شرافت سے کتاب مجھے دے دو۔“
”تمہیں ایک لفظ پڑھنا نہیں آتا۔ تم اس کتاب کا کیا کرو گی؟“ صاحب غصے سے چلا یا۔
”مجھے پڑھنا آتا ہے یا نہیں۔ پر کتاب مجھے دینی ہوگی۔“
”ہر گز نہیں۔“
”مجھے غصہ نہ دلاؤ وگر نہ میں ایسی ڈراؤنی شکل بناؤں گی کہ خوف سے تمہارا دم نکل جائے گا۔“
”تم گھر کے اندر ایسی منحوس شکلیں نہیں بنا سکتیں۔ ماں نے تمہیں منع کر رکھا ہے۔“
”اچھا ٹھیک ہے۔ صبح نمٹوں گی تم سے۔“یہ کہہ کروہ تو اپنے بستر میں جاگھسی۔ صاحب وہیں بیٹھارہ گیا۔ سوچتارہا۔ سوچتا رہا۔ آخر اس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ منہ اندھیرے وہ پر چھتی سے اترا،کھڑ کی پھلانگ کر باہر نکل گیا اور پھر گھر کی چھت پر چڑھ کر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا اور غور کرنے لگا کہ گھر چھوڑ کر وہ کہاں جائے گا اور کیسے زندگی گزارے گا؟ پھر اس نے اپنی کتاب کی طرف دیکھا اور سوچا کہ مجھے تو پڑھنے کے علاوہ کوئی کام آتا ہی نہیں۔ پھر کیا کروں۔ چلو با ہر نکل کر کوشش تو کروں۔ کیا پتہ کوئی مجھے کہانیاں سننے کے لئے ہی ملازم رکھ لے۔ یہ سوچ کر وہ چھت سے اترا۔ سب گھر والے ابھی گھوڑے بیچ کر سور ہے تھے۔ وہ آرام سے باہر نکل گیا۔
قصبے میں پہنچ کر وہ سیدھا پرانی سرائے کی طرف گیا۔ جہاں نوٹس بورڈ پہ طرح طرح کے اشتہار لگے ر ہتے تھے۔ آج بھی بورڈ پہ بے شمار اشتہار آویزاں تھے۔ کسی کو خانساماں درکار تھا، کسی کو مالی۔ کسی نے چوکیدار کے لئے اشتہار لگایا تھا تو کسی نے رنگ ساز کے لئے مگر کہانیاں سنانے والے کی کسی کو ضرورت نہ تھی۔ صاحب کچھ مایوس سا ہونے لگا۔ اچا نک بورڈ کے اوپر والے دائیں کونے پر اسکی نظر پڑی۔ ایک پرانا سا پیلا کا غذ کتے کے کان کی طرح لٹک رہا تھا۔ اس کا ایک کنارہ بھی پھٹ چکا تھا۔ صاحب نے پنجوں کے بل کھڑے ہوکر مشکل سے کاغذ کو سیدھا کیا اور مٹی مٹی سی تحریر کو پڑھنے کی کوشش کر نے لگا۔
”بڑی عمر کے نا بینا، فارغ بحر…… ضرورت ہے ایک لڑ کے کی…… جواسکے لئے اونچی آواز میں …… پڑھے۔“
یہ کیسا اشتہار ہے۔ نا بینا؟ فارغ؟؟ بحر؟؟؟ بحرتو سمندر کو کہتے ہیں نا؟ اندھا سمندر؟ فارغ یعنی جیسے بوڑھے اور ریٹائرلوگ ہر ذمہ داری سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ ہاں ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا۔ سمند ربھی تو بہت پرانے ہوتے ہیں۔ بوڑھے لوگوں جیسے اور پھر میری کتاب میں بادشاہ کالی غالا کی کہانی بھی تو ہے جو گھنٹوں بیٹھ کر سمندر سے گپ شپ کیا کرتا تھا۔ اب بھلا کسے فرصت کہ گھنٹوں سمندر کے قریب بیٹھا رہے لیکن مجھے تو ہے۔ میں سمندر کو وقت دوں گا۔ اسکے قریب بیٹھوں گا۔ اسے کہانیاں سناؤں گا۔ مجھے سمندر سے ڈر بھی نہیں لگتا۔ جب ماں اور بابا تھے تو ہم اکثر سمندر کے کنارے جایا کرتے تھے۔ میں گھنٹوں لہروں سے کھیلا کرتا تھا۔
بھولا بھالا صاحب یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ اشتہار سمندر نے لگوایا ہے۔ حالانکہ برسوں پہلے یہ اشتہارا یک بحری کپتان نے یہاں لگوایا تھا۔ کاغذ کا کونہ پھٹ جانے سے اسکے کچھ الفاظ غائب ہو گئے تھے۔ ور نہ اشتہار کچھ یوں تھا۔
”بڑی عمر کے نا بینا اور فارغ بحری کپتان کو ضرورت ہے ایک لڑکے کی جو اسکے لئے اونچی آواز میں اخبار پڑ ھے۔ خواہشمند رجوع کریں۔“
مگر بوڑھے کپتان سے کسی نے رجوع ہی نہ کیا اور ایک دن و ہ قصبہ ہی چھوڑ گیا۔ صاحب نے کہانیوں کی کتاب جیب میں ڈالی اور سمندر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسے خیال آیا کہ جب سے ماں نہیں رہی۔ اس نے اونچی آواز میں کبھی پڑھاہی نہیں، اس لئے بہتر ہے کہ وہ کسی جگہ بیٹھ کر پہلے مشق کر لے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو سامنے ایک ٹوٹا پھوٹا کھنڈر دکھائی دیا۔ وہاں ایک پرانی سی گاڑی بھی کھڑی تھی۔ صاحب وہیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور کتاب میں سے ایک کہانی اونچی آواز میں پڑھنے لگا۔ یہ ایک لڑ کے کی کہانی تھی۔ جس کی کسی بات سے خوش ہوکر سورج نے اسے اپناسنہری رتھ چلانے کی اجازت دے دی تھی۔ کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ صاحب خود بھی اس میں کھو گیا۔ جونہی کہانی ختم ہوئی۔ قریب سے ہی ایک عجیب سی آواز آئی۔
”لڑکے! کیا یہ سچی کہانی تھی؟“
صاحب نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا مگر آس پاس کوئی بھی نہ تھا۔
”کیا یہ سچی کہانی تھی؟“آواز پھر آئی۔
”یہ میں نہیں جانتا۔ ہوسکتا ہے کہ سچی ہو۔“ صاحب نے جواب دیا۔
”خیر سچی ہو یا نہ ہو پر کہانی تھی مزیدار۔“ آواز ایسی تھی جیسے کوئی بڑی سی بلی غرارہی ہو اور صاحب کواندازہ ہو گیا تھا کہ آواز گاڑی میں سے نکل رہی ہے۔
”تم نے مجھے اتنی اچھی کہانی سنائی۔ اب میں بھی تمہیں کچھ دینا چاہتی ہوں۔“ کار نے کہا۔”ادھر بائیں کونے میں دیکھو۔ وہاں ایک کنواں ہے۔ اس میں چاندی کے سکوں سے بھری ایک بالٹی لٹک رہی ہے۔ تم چرخی گھما کر وہ سکے نکال لو۔“
صاحب نے ایسا ہی کیا تو سکوں سے بھری بالٹی او پر آ گئی۔ صاحب نے کچھ سکے اٹھا کر جیب میں ڈالے اور چرخی گھما کر بالٹی پھر نیچے کر دی۔
”مجھے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں۔ بس اتنے ہی کافی ہیں۔ اچھی گاڑی! تمہارا بہت شکریہ۔“
صاحب آ گے چل پڑا۔ راستے میں اس نے اپنے لئے روٹی اور دودھ خریدا اور کھانا کھانے اور آرام کرنے کی کوئی جگہ دیکھنے لگا۔ جلد ہی اسے سڑک کے کنارے ایک پرانا سا مکان اور ویران باغ دکھائی دیا۔ صاحب باغ میں چلا گیا۔ وہاں بیٹھ کر اس نے کھانا کھایا اور مکان کی دیوار سے ٹیک لگا کر سستانے لگا۔ پھر اس نے سوچا کہ سستانے کے ساتھ ایک اور کہانی بھی پڑھ لیتا ہوں۔ اس نے کتاب کھولی اوربلند آواز میں کہانی پڑھنے لگا۔ یہ دو دوستوں کی کہانی تھی جو ایک خوفناک شیر کود یکھ کر،ڈرے اور بھاگ لئے۔ دونوں یوں الگ الگ بھا گے کہ پھر کبھی ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔
اچا نک ایک تیز آواز آئی۔”لڑ کے! کیا یہ سچی کہانی ہے؟“ صاحب نے گھبرا کر دیکھا۔ آواز اس دیوار سے آرہی تھی، جس سے وہ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
”مجھے نہیں معلوم کہ یہ کہانی سچی ہے یا نہیں۔ شاید ہو بھی سکتی ہے۔“ اس نے جواب دیا۔
خیر سچی ہو یا نہ ہو لیکن اب لمبی لمبی راتوں اور پہاڑ جیسے دنوں میں مجھے سوچنے کے لئے ایک موضوع مل گیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔لڑ کے! تم ایسا کرو کہ باغ کے مشرقی کونے کی طرف جاؤ۔ وہاں دو پھول کھلے نظر آئیں گے۔ ان میں سے سرخ رنگ کا توڑ کر کھالو یہ بیماریوں سے شفادیتا ہے۔“

”مگر میں بیمار نہیں۔“ صاحب نے کہا۔
”یہ تمہیں زندگی بھر بیمار نہ ہونے دے گا۔ مگر دیکھو کہیں پیلا پھول نہ کھالینا۔ وہ ز ہر یلا ہے۔“
صاحب باغ کے مشرقی کونے میں گیا۔ سرخ پھول اس قدر خوبصورت تھا کہ صاحب کا جی ہی نہ چاہا کہ اسے توڑے۔ اس نے گھر کا شکر یہ ادا کیا اور آ گے چل دیا۔ رات ہوئی تو صاحب کو سڑک کنارے ایک کانٹوں پھر ادرخت دکھائی دیا۔ صاحب اسکے نیچے بیٹھ گیا۔ بچی ہوئی روٹی دودھ کے ساتھ کھائی اور و ہیں سو گیا۔ صبح اٹھ کر اس نے ایک پیاری سی لڑکی کی کہانی پڑھی جو آخر میں ایک سدا بہار جھاڑی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اور لوگوں کو ہمیشہ اس سے خوشی اور سکون ملتا رہا۔ کانٹے دار درخت نے بھی صاحب سے وہی سوال کیا کہ کیا یہ کہانی سچی ہے۔ اس نے بھی وہی جواب دیا کہ اسے اسکے بارے میں کوئی اندازہ نہیں۔ درخت نے کہا کہ اسے یہ کہانی اسقدر پسند آئی ہے کہ وہ ا سے انعام میں وہ نیلا ہیراد ینا چا ہتا ہے جوسو برس پہلے ایک ابابیل کی چونچ سے نکل کر اسکی شاخوں میں اٹک گیا تھا اور آج تک وہیں اٹکا ہے۔ اسکی خاصیت یہ ہے کہ جس کے پاس ہوگا، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
صاحب کانٹوں سے بچتا بچا تا بہت احتیاط سے اوپر چڑھا۔ در خت کی چوٹی پر ایک شاخ میں اسے ہیرا دکھائی دے گیا۔ یہ بے حد خوبصورت، چمکدار نیلے رنگ کا تھا اور اس میں سنہری دھاریاں پڑی تھیں۔ صاحب کچھ دیر اسے دیکھتارہا اور پھر کہنے لگا کہ”میں بھلا ہمیشہ زندہ رہ کر کیا کروں گا؟ مجھے اسکی ضرورت نہیں۔“
مگر جب وہ نیچے اتر رہا تھاتو نیلا ہیرا خود بخود چپکے سے پھسل کر اسکی جیب میں یوں آ گرا کہ صاحب کو خبر تک نہ ہوئی۔ یہاں سے سمندر زیادہ دور نہ تھا۔
کچھ دیر بعد ہی صاحب اسکے سامنے کھڑا تھا۔ گہرے ہرے رنگ کا صدیوں پرانا بوڑھا سمندر۔ اسکی لہر یں دور سے چلتی ہوئی آ تیں اور صاحب کے قدموں میں لوٹنے لگتیں۔ اسے یوں لگا جیسے سمندر اسے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔
”بوڑھے سمندر! تمہاری خواہش تھی نا کہ کوئی تمہارے لئے اونچی آواز میں کہانیاں سنائے؟ تولو میں آگیا ہوں تمہیں کہانیاں سنانے مگر تم خودا ستقدرشور مچار ہے ہو۔ کیا تمہیں میری آواز سنائی دے گی؟“
اور اسی وقت صاحب کو یوں لگا جیسے سمندر خاموش ہو گیا ہو۔ ہرطرف سناٹا چھا گیا۔ صاحب نے جیب سے کتاب نکالی اور اونچی آواز میں پڑھنے لگا۔ پہاڑسی اونچی اونچی لہر یں آتیں اور صاحب کے قدموں میں دبک جاتیں۔ صاحب پڑھتارہا۔ ایک کے بعد دوسری کہانی۔کبھی وہ پڑھتے پڑھتے کچھ دیر کے لئے خاموش ہوتا تو ہوا کاان دیکھا ہاتھ کتاب کا صفحہ پلٹ دیتا اور اسے یوں محسوس ہوتا جیسے سمندرآ گے قصہ سننے کو بے چین ہے۔ وہ پھر پڑھنے لگتا۔
اب صاحب کے گھر کی سنیے۔
جب اسکی بہنوں کوعلم ہوا کہ صاحب گھر سے فرار ہو چکا ہے تو وہ غصے سے بل کھانے لگیں۔ ماں نے کہا دفع کرو۔ اسے کھانے کے سوا آ تا ہی کیا تھا۔ بہنوں کو کون ساغم تھا۔ صاحب چاہے بھاڑ میں جاتا پروہ تو کتاب بھی بچالے گیا تھا۔ انہوں نے سوچھا۔ جائے گا کہاں؟ وہیں قصبے میں دھکے کھار ہا ہو گا۔ چلو چل کر اس سے کتاب چھین لائیں۔ قصبے میں پہنچ کر انہیں پتہ چلا کہ وہ سمندر کی طرف گیا ہے۔ وہ اسی جانب چل دیں۔ راستے میں انہیں کھنڈر دکھائی دیا۔ احاطے میں کھڑی گاڑی فریاد کر رہی تھی۔
”کوئی ایک مرتبہ پھر مجھے کہانی سنادے۔“
”تمہیں پہلے کس نے کہانی سنائی تھی؟“ و ینانے پوچھا۔”کیاوہ ایک چھوٹا لڑکا تھا؟ جسکے پاس ایک کتاب تھی؟ سچ سچ بتادو پھر میں تمہیں کہانی سناؤں گی۔“
”ہاں وہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔ اس نے ایک کتاب میں سے مجھے بہت پیاری کہانی سنائی تھی اور میں نے اسے کنویں میں موجود چاندی کے سکوں کے بارے میں بتایا تھا۔“
”کنواں؟ چاندی کے سکے؟؟“ تینوں کی رال ٹپک پڑی۔
انہوں نے ادھر ادھر دیکھا تو کنواں دکھائی دے گیا۔ بینا نے چرخی گھمائی تو سکوں سے بھری بالٹی او پر آتی دکھائی دی۔ ابھی وہ پوری طرح اوپر آئی بھی نہیں تھی کہ مینا اس پر جھپٹ پڑی تا کہ سب سکے و ہی لے لے۔ رسی پہ بوجھ پڑا تو و ہ ٹوٹ گئی اور مینا بالٹی سمیت کنویں میں جاپڑی۔ اسے نکالنے کی کوشش کے بجائے دونوں بہنیں کہنے لگیں۔ ”اچھا ہوا۔ مزہ آیا نا جھپٹنے کا۔“
”چلو آگے چلیں اور اس بدمعاش کو پکڑ لیں۔“
”اور کہانی؟“ گاڑی نے کراہ کر پوچھا۔
”خاموش! بیہودہ بیکار ملبے کے ڈھیر۔“ وینا نے گاڑی کو بیدردی سے ٹھوکر رسید کی۔
دونوں آ گے بڑھیں تو انہیں پرانا مکان دکھائی دیا جو دو با رہ کہانی سننے کی چاہ میں تڑپ ر ہاتھا۔ بہنوں کے پوچھنے پر اس نے بھی سارا قصہ سنادیا۔ پھولوں کا ذکر سنتے ہی دونوں ایک دوسرے کود ھکے دیتیں باغ کی طرف لپکیں۔ ہینا آگے تھی۔ وہ پہلے پھول پہ جھپٹی اور اسے شاخ سے نوچ کر نگل گئی کیونکہ انہوں نے مکان کی پوری بات سنی ہی نہیں تھی۔ پھول کھاتے ہی ہینا پٹ سے گر کر مر گئی۔ وینا نے شکر ادا کیا کہ وہ پرانے مکان کی فضول نصیحت پہ عمل کرنے سے پیچھے رہ گئی اور بچ نکلی۔ و ہ مکان کوکوستی، پیٹتی آ گے بڑھ گئی۔ اسے کانٹوں بھرا درخت دکھائی دیا تو طنز سے بولی۔ ”فرمایئے! آ پکو بھی وہ نا ہنجارکوئی کہانی سنا گیا ہے؟“
”ہاں! بہت شاندار کہانی تھی۔ بدلے میں، میں نے اسے نیلے ہیرے کے بارے میں بتایا تھا جو۔۔۔“
و ینانے آ ؤ دیکھا نہ تاؤ۔ لپک کر درخت پر چڑھنے لگی۔ کا نئے چبھتے رہے مگر وہ اوپر چڑھتی گئی۔لہولہان جب وہ او پر پہنچی تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ مارے غصے کے وہ اپنے اوسان کھو بیٹھی اور پھر جو پاؤں پھسلا توسر کے بل نیچے آئی اور نچلی شاخوں کے کانٹوں میں الجھ کرالٹی لٹکی رہ گئی۔
درخت بولا۔”تم نے میری پوری بات سنی ہی نہیں اور چڑ ھ دوڑیں۔ وہ ہیرا میں نے چپکے سے لڑکے کی جیب میں ڈال دیا تھا۔“
”منحوس درخت! چپ ہو جاؤ۔“ وینا دھاڑی اور درخت کو ٹھوکر یں مارنے لگی۔ اس کا منہ اس قدر بگڑ چکا تھا کہ پرندے ڈر کر گھونسلوں سے پرواز کر گئے۔آخر وہ وہیں لٹکی رہ گئی۔
گھر خالی ہو چکا تھا۔ نہ صاحب کا کہیں پتاتھا نہ لڑ کیوں کا۔ بھاں بھاں کرتا گھر ماں کو کاٹ کھانے کو دوڑ نے لگا۔ گھبرا کر اس نے شادی کر لی تا کہ گھر میں کسی اور انسان کی صورت تو د یکھ سکے۔ وہ آدمی بالکل و یسا نکلا جیسی وہ خود تھی۔ کچھ دن بعد ہی میاں بیوی کے کان میں ایک ایسے لڑکے کے قصے پڑنے لگے جو ساحل پہ بیٹھا سمندر کو کہانیاں سنا تارہتا ہے اور بدلے میں سمندرا سے قیمتی تحفوں سے نوازتا ہے۔ کوئی کہتا سمندر نے اسے تمام غرق شدہ دفینوں کا پتہ بتادیا ہے۔ کوئی کہتا لڑکے کو سمندر نے و ہ خفیہ ٹھکانے دکھادیئے ہیں، جہاں سونے چاندی کے برتن اور ہیرے جواہرات کے صندوق پڑے ہیں۔کسی کا خیال تھا کہ سمندر نے لڑکے کو طوفانوں کے اٹھنے اور رکنے کے رازوں سے آگاہ کر دیا ہے کیونکہ لڑکے کے حیرت انگیز قصے سمند ردم بخود ہوکر سنتا ہے۔
”ہو نہ ہو یہ صاحب ہی ہے۔“سوتیلی ماں نے اپنے میاں سے کہا۔
”تو چلو چل کر دیکھتے ہیں۔“میاں نے جواب دیا اور دونوں گدھا گاڑی پر سوار ہو کر ساحل سمندر پر جا پہنچے۔ دور سے ہی سوتیلی ماں نے پہچان لیا کہ جولڑ کا ریت پہ بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہے وہ صاحب ہے۔ وہ اسکے قریب گئی اور زمانے بھر کی مٹھاس لہجے میں گھول کر بولی۔”میرے بچے!تم یہاں گیلی ریت پہ بیٹھے ہو؟ میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ دیکھوتو کیا حالت ہوگئی ہے تمہاری۔ جانے کب سے تم نے کھانا نہیں کھایا۔ میں تو روز تمہارا پسندید ہ دودھ اور چاکلیٹ بنا کر تمہارا راستہ دیکھتی رہتی تھی کہ تم کب واپس لوٹو گے۔“
صاحب حیران پریشان اسے دیکھتارہا پھر بمشکل یہی کہہ سکا۔”مگروہ و ینا، ہینا اور مینا……“
”اوہ میرے بچے! اب تمہیں ستانے والا کوئی نہیں۔ بس اٹھواور گھر چلو۔“
دونوں میاں بیوی نے زبردستی کھینچ کھانچ کراسے گدھا گاڑی پر بٹھایا اور سر پٹ بھگاتے ہوئے اسے گھر لے آئے۔ گھر میں گھستے ہی انہوں نے مکاری کا چولا اتار پھینکا اور بے صبری اور ندیدے پن سے اسے دھمکانے لگے کہ وہ انہیں تمام خزانوں کا پتہ دے جو سمندر نے اسے بتائے ہیں۔
”مگر میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔“ صاحب نے کہا۔
”کیوں؟ کیا سمندر تمہیں اپنے رازوں سے آگاہ نہیں کرتا؟“ ماں غصے سے بل کھا کر بولی۔
”وہ تو نہ جانے کیا کیا کہتار ہتا ہے مگر میں نے کبھی غور سے سنا ہی نہیں کیونکہ مجھے ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔“
”دیکھو! ابھی تم میرے بارے میں نہیں جانتے کہ میں کتنابرا آدمی ہوں۔“ آدمی نے چلا کر کہا۔
”اور اگر تم نے مجھے کچھ نہ بتایا تو میں تمہاری آنکھیں نوچ لوں گی۔“ سوتیلی ماں بالکل چڑیل بن گئی۔
”میں ایک بات بہت اچھی طرح جانتا ہوں جو سمندر کئی بار مجھ سے کہہ چکا ہے۔“ صاحب نے متانت سے کہا۔
”کیا؟ کیا؟؟ فوراًبتاؤ۔“ دونوں بے تابی سے چلائے۔
”سمندر نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں جب اور جہاں کسی مصیبت میں پھنسوں گا تو وہ میری مد دکوضر ور آئے گا اور وہ آ چکا ہے۔“
صاحب کی بات پوری ہوتے ہوتے ہی ہرا سمندر گھر کے باغ میں کسی خوفناک اژدھے کی طرح پھنکارنے لگا۔ پھر گھر کی دیواریں بیٹھنے لگیں۔ چھت یوں ٹوٹی جیسے چمچ مارنے سے انڈاٹو ٹتا ہے۔ ایک بڑی سی لہر صاحب کو اٹھا کر کہیں دور لے گئی۔ کھیتوں،باغوں اور ٹیلوں سے پرے، ایک نئے گھر میں جومونگے،موتی کی چٹانوں سے بناتھا۔
سوتیلی ماں اور اس کا نیاشو ہرلہروں میں غرق ہو گئے۔ غضبناک سمندر نے ان کا نام و نشان مٹادیا لیکن صاحب اب بھی دکھائی دیتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ دنیا کے ہر کتب خانے کا چکر لگاتا ہے۔ کبھی اسکی جھلک کہیں دکھائی دیتی ہے کبھی کہیں۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے دوست سمندرکوسنانے کے لئے نئی نئی کہانیاں ڈھونڈتا رہتا ہے اور یہ بھی کہ جب تک اسکی جیب میں نیلا ہیرا پڑار ہے گاوہ زند ہ ر ہے گا اور اپنے دوست سمندرکونت نئی کہانیاں سنا تا رہے گا۔
کیا یہ سچی کہانی ہے؟
کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ شاید سچی ہی ہو۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top