کہانی اور دُم
کہانی:The Tale of a Tail
مصنفہ:Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
جمی بھی تمھاری ہی طرح کا ایک لڑکا تھا۔ تمھاری ہی طرح اسکول جاتا تھا۔ اُسی طرح ریاضی کے سوالات حل کیا کرتا تھا، بلکہ کافی بہتر حل کیا کرتا تھا۔ وہ تمھاری ہی طرح سبق پڑھا کرتا تھا مگر اس کام میں وہ زیادہ اچھا نہیں تھا۔
اگر چہ وہ املا بھی تمھاری ہی طرح کرنے کی کوشش کرتا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ املا کرنے میں کافی کمزور تھا۔
ممکن ہے کہ اب تم یہ سوچ رہے ہو کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ کہ آپ ایک اچھے املا کرنے والے ہیں کہ نہیں۔۔۔ مگر یہ ضرور سنو کہ جب جمی درست املا نہ کر سکا تو پھر ہوا کیا…؟
جمی کہانیاں پڑھنے کا بہت شوقین تھا، مگر وہ ہمیشہ یہی سوچتا کہ کہانیاں بہت مختصر کیوں ہوتی ہیں؟ میں تو ایسی کہانی پسند کروں گا جو واقعی بہت طویل ہو۔
ایک دن اس نے اپنی امی سے بھی یہی شکایت کی اور بولا کہ میں نے جو آخری کہانی پڑھی تھی، وہ بھی بہت مختصر تھی۔ ابھی میں کہانی کے کرداروں کو جاننے کی کوشش ہی کر رہا تھا، کہ کہانی ختم ہوگئی۔
’’اچھا ممکن ہے کہ تمھیں چند دنوں میں ایک طویل کہانی پڑھنے کومل جائے۔‘‘اُس کی امی نے کہا۔
’’ اچھا بات سنو،، ہمارے باغ میں ایک ’سانولی‘ رہتی ہے۔ تم اسے ایک مختصر رقعہ کیوں نہیں لکھتے کہ وہ تمھیں واقعی میں ایک طویل Tale یعنی کہانی پڑھنے کو دے۔‘‘
’’ یہ تو زبر دست خیال ہے۔‘‘
جمی نے کہا، اور اُس نے ایک قلم اور کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا اور اُس پر لکھنے لگا، مگر اس نے لکھا کیا؟ اس نے لکھا:
’’عزیز سانولی! مجھے یقین ہے کہ تم میرے باغ میں رہتی ہو۔ کیا تم مجھے ایک بہت بہت طویل کہانی دوگی؟ شکریہ۔ تمھارے لیے پیار ، جمی۔‘‘
لیکن ہوا یہ کہ جمی نے کہانی یعنی Tale لکھنا چاہا تو اُس کا املا T-a-i-lلکھا اور تمھیں تو پتا ہی ہے کہ Tailکس قسم کی چیز ہے؟ بلا شبہ یہ کوئی پڑھی جانے والی چیز تو ہے نہیں، البتہ ایک لگائے جانے والی چیز ضرور ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب سانولی کو یہ رقعہ ملا تو وہ پڑھ کر پہلے تو بہت حیران ہوئی۔
’’ٹھہر و!‘‘ اُس نے خود سے کہا۔’’ اگر یہ لڑکا ایک بہت طویل Tailیعنی دم چاہتا ہے تو یقینا اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی لہٰذا میں اسے یہ ضرور دوں گی۔‘‘
اور تمھیں پتا ہے کہ جمی جب اگلی صبح اُٹھا تو اُس کی دونوں ٹانگیں بلی کی دم جیسی ایک لمبی دم میں لپٹی ہوئی تھیں، مگر اس کا رنگ گائے کی دم کی طرح لال تھا۔ پہلے تو جمی یہ سمجھا کہ شاید وہ اپنے پاجامے کے ازار بند میں اُلجھ گیا ہے،مگر جلد ہی اسے سمجھ میں آگیا کہ ہوا کیا ہے۔
وہ یکا یک چلانے لگا اور چلاتے ہوئے بُری طرح اپنی امی کے کمرے کی طرف دوڑا۔ دم بھی اس کے پیچھے پیچھے ایک لال سانپ کی طرح گھسٹتی چلی جارہی تھی۔
’’ امی! امی! دیکھیے میرے ساتھ کیا ہو گیا ہے!‘‘ بے چارہ جمی چلا یا۔’’ میں نے تو سانولی سے ایک کہانی کا کہا تھا اور اُس نے کہانی کے بجائے یہ دے دی۔‘‘
امی پہلے تو یہ سب دیکھ کر گھبراگئیں، پھر جیسے ان کو بات سمجھ میں آگئی۔ وہ سر ہلاتے ہوئے بولیں: ’’جمی!تم نے ضرور اس لفظ کا املا غلط لکھا ہوگا!‘‘
امی نے کہا: ’’تم نے ضرور Taleکاا ملاTailلکھا ہوگا، لہٰذا اس نے تمھیں وہی دیا جو تم نے مانگا تھا۔ اوہ! میرے عزیز بچے! جو بھی کچھ ہوا، اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
بے چارہ جمی اپنی دُم کو چھپانے میں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو پارہا تھا کیونکہ وہ بہت تیزی کے ساتھ لہرانے لگتی تھی اور پھر مصیبت یہ کہ وہ ہر جگہ لہرانے پر بضد تھی۔
بچے اس پر زور زور سے قہقہے لگانے لگتے۔ اس کی اُستانی بھی بہت ناراض ہو ئیں، وہ سمجھ رہی تھیں کہ جمی نے یہ دم کسی سوئی نما چیز سے مذاق کے طور پر لگا رکھی ہے۔ جب اُنھیں یہ معلوم ہوا کہ اصل میں ہوا کیا ہے تو وہ بھی قہقہے لگا کر ہنسنے لگیں۔
’’ میں نے تمھیں بتا یا نہیں تھا کہ املا کتنا اہم ہوتا ہے!‘‘ انھوں نے جمی سے کہا۔’’اب تم سانولی کو ایک اور بہتر رقعہ لکھو اور اس مرتبہ درست املا لکھنا۔‘‘
چنانچہ جمی نے ایک اور رقعہ لکھا اور اس مرتبہ اس نے کوئی غلطی نہیں کی۔ اس نے سانولی کو لکھا:
’’مہربانی کر کے میری Tailواپس لے کر اس کے بدلے مجھے ایک Taleدے دو!‘‘
سانولی نے برہمی کے ساتھ سوچا :‘‘یہ لڑ کا مذاق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا: ’’میں اُس سے دم واپس لے لیتی ہوں مگر اسے کہانی نہیں دوں گی۔‘‘
چنانچہ اس نے جمی سے دم تو ہٹالی مگر اس کے بدلے کچھ نہ دیا۔
جمی اب املا کا ماہر ہے، کیوں کہ وہ دوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں دُہرانا چاہتا۔