کفارہ
محبوب الٰہی مخمور
۔۔۔۔۔
رضوان آج اپنی کامیابی پر بہت خوش تھا کیونکہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آج کامیاب ڈاکہ ڈالا تھا اور کافی مال اور زیورات وغیرہ اس کے ہاتھ آئے تھے۔ اسی خوشی میں اس نے اپنے ساتھیوں میں کافی مال تقسیم کر دیا تھا اور پہاڑوں کے غاروں میں جشن کا سا سماں تھا۔ رضوان اسی خوشی میں قہقہہ لگا رہا تھا ۔اس کے ساتھی بھی خوشی میں جھوم رہے تھے۔
رضوان ایک متوسط اور خوشحال گھرانے کا فرد تھاجس سے اس کے والدین بے انتہا محبت کرتے تھے اور اس کی ہر فرمائش جو ان کے اختیار میں ہوتی تھی پوری کرتے تھے۔ میٹرک تک اس نے تعلیم پر مکمل توجہ دی۔ اس کے والد جمیل صاحب ایک ماہر ڈاکٹر تھے اور ان لوگوں کا گزر بہت اچھی طرح ہورہا تھا۔ ان کی یہ دلی تمنا تھی کہ رضوان بھی ڈاکٹر بنے اور سسکتی ہوئی انسانیت کی خدمت کرے کیونکہ وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی دولت کی ہوس کو دیکھ رہے تھے جہاں ہر کام پیسے کے لئے ہو رہا تھا۔ لوگ اپنا ضمیر تک اسی پیسے کی خاطر فروخت کر رہے تھے۔
ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد دولت بٹورنے کے لئے مریضوں کی کھال اتار رہی تھی۔ وہ رضوان کو ایک ایسا مسیحا د یکھنا چاہتے تھے جو کہ علم کو قوم کی امانت سمجھے ۔وہ کافی عرصے سے یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ ایک ہسپتال قائم کریں جس میں مریضوں کا علاج مفت یا واجبی فیس پر ہو۔ جمیل صاحب نے اپنی بساط کے مطابق ایک چھوٹا سا ہسپتال بنا بھی لیاتھا۔ اب ان کی سب سے بڑی امید رضوان تھا۔ کیونکہ وہ بھی ڈاکٹر بن کر ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتاتھا۔
ڈاکٹر جمیل اپنے چھوٹے سے ہسپتال میں بیٹھے مریضوں کا معائنہ کر رہے تھے کہ رضوان دوڑتا ہوا اندرداخل ہوا۔ جمیل صاحب نے نظر او پر اٹھائی تو سامنے رضوان کھڑا تھا۔
’’کیا بات ہے رضوان؟‘‘جمیل صاحب نے کہا۔
’’اباجان میں ایک اطلاع دینے آیا ہوں۔ ‘‘رضوان نے کہا۔
’’اطلاع …!کیسی اطلاع…؟‘‘جمیل صاحب نے پوچھا۔
’’اطلاع نہیں خوشخبری سنانے آیا ہوں۔‘‘ رضوان نے سسپنس پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’خوشخبری تو میں سمجھ گیا ہوں جو تم سنانے آئے ہو۔ ‘‘جمیل صاحب نے کہا۔
’’یعنی آپ کو پہلے سے معلوم ہے۔‘‘ رضوان نے پوچھا۔
’’تم نے خوشخبری کہا تو میں سمجھ گیا کہ تمہارا رزلٹ آگیا ہے۔ ‘‘جمیل صاحب نے کہا۔
’’جی ابا جان! رزلٹ آگیا ہے اور میں آپ کی دعاؤں سے اے گریڈ میں پاس ہو گیا ہوں۔‘‘ رضوان نے خوشی سے بھر پور لہجے میں کہا۔
’’تم نے اپنی امی کوبتادیا ہے یا نہیں؟‘‘جمیل صاحب نے پوچھا۔
’’ابھی جا کر بتاتا ہوں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے رضوان کمرے سے باہر نکل گیا۔
دو پہر میں جمیل صاحب گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ایک بڑا ساڈبہ تھا جو انہوں نے محلے میں تقسیم کروادی۔
’’تمہارا داخلہ کب ہو گا؟‘‘بیگم جمیل نے کہا۔
’’تقریباً دوماہ بعد۔ ‘‘رضوان نے کہا۔
’’ایسا کرو کہ کچھ کتابیں ابھی سے خرید لو تا کہ دوماہ تک گھر پر پڑھتے رہو تا کہ تم کو بعد میں مشکل نہ ہو۔ ‘‘بیگم جمیل نے کہا۔
’’اباجان! میں داخلہ کس کالج میں لوں۔ ‘‘رضوان نے پوچھا۔
’’کسی بھی کالج میں داخلہ لے لو۔ ‘‘جمیل صاحب نے کہا۔
’’کوئی اچھا کالج ہو تو بات ہے۔‘‘ رضوان نے کہا۔
’’اچھے سے تمہاری مراد کیا ہے؟‘‘ بیگم جمیل نے رضوان سے سوال کیا۔
’’جس کی پڑھائی زبر دست ہو۔‘‘ رضوان نے کہا۔
’’کا لج تمام اچھے ہوتے ہیں اور پڑھائی بھی ہر کالج کی عمدہ ہوتی ہے بشرطیکہ طالب علم خود محنت سے پڑھے اور اپنے مستقبل کو قوم کی امانت سمجھے۔‘‘ بیگم جمیل نے کہا۔
رضوان کالج میں داخل ہوا تو کالج کے ماحول میں آزادی سے اس نے غلط مطلب لیا۔ اس نے کالج کے اچھے دوستوں کے بجائے ایسے ساتھیوں کی صحبت اختیار کر لی جو کہ پڑھائی کے بہانے رضوان کو ساتھ ملا کر چوریاں کرتے تھے۔
دو دن بعد رضوان جیسے ہی کالج کے گیٹ سے داخل ہوا۔ اس کی نظر عاقل، لطیف، تاج اور قطب پر پڑی جو کینٹین کے دروازے پر کھڑے تھے۔ رضوان سیدھا ان کے پاس پہنچا اور یہ لوگ گھاس پر بیٹھ گئے۔
’’دو دن کہاں رہے؟‘‘ لطیف نے پوچھا۔
’’طبیعت خراب ہو گئی تھی اس لئے نہیں آیا۔ ‘‘رضوان نے جواب دیا۔
’’میں آج سکوٹر لے کر آیا ہوں۔‘‘ لطیف نے بتایا۔
سکوٹر لائے ہو ،میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ سکوٹر پر دوپہر میں واردات کی جائے۔ اس طرح کچھ مال بھی ہاتھ آجائے گا۔‘‘ عاقل نے کہا۔
’’یار واقعی آئیڈ یاتو برا نہیں ہے۔ ‘‘تاج نے کہا۔
’’اس کام کے لئے دولوگوں کا ہونا ضروری ہے۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’تمہارے ساتھ میں چلتا ہوں۔ ‘‘قطب نے کہا۔
’’نہیں!رضوان میرے ساتھ صحیح رہے گا۔ ‘‘لطیف نے کہا۔
’’مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ‘‘رضوان نے کہا۔
’’تو پھر آج دوپہر میں چلیں گے تاکہ گلیاں سنسان ہوں۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ،جب تک گھوم پھر کر آتے ہیں۔ دو بجے واپس جمع ہوں گے۔‘‘ اور یہ لوگ آوارہ گردی کرنے نکل پڑے۔
دو بجے رضوان، لطیف کے ساتھ سکوٹر پر سوار مختلف گلیوں میں شکار کی تلاش میں گھوم رہا تھا جبکہ اس کے دیگر دوست ایک ہوٹل میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک گلی میں ان کو ایک آدمی ہاتھ میں بیگ لئے ہوئے نظر آیا۔ لطیف نے رضوان کو ہوشیار کیا اور تیزی سے سکوٹر اس کے برابر سے لے کر گزرا۔ اگلے ہی لمحے اس شخص کا بیگ رضوان کے ہاتھ میں تھا اور وہ آدمی چلاتا ہی رہ گیا اور یہ لوگ ہوا ہو گئے۔
تاج، قطب اور عاقل کچھ دیر بیٹھ کر اپنے اڈے کی طرف چلے گئے جو کہ ایک کمرے کی صورت میں تھا۔تھوڑی دیر بعد رضوان اور لطیف کمرے میں داخل ہوئے۔
’’کیسا رہا دوستو؟‘‘قطب نے پوچھا۔
’’کامیاب رہے ہیں۔‘‘ رضوان نے فخریہ انداز میں کہا۔
’’کیا ہاتھ آیا؟‘‘ تاج نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ابھی بیگ کھول کر نہیں دیکھا ہے۔ تمہارے سامنے ہی چیک کرتے ہیں کہ اس میں کیا کچھ ہے۔ لطیف نے تمام چیزیں بیگ سے نکال کر زمین پر ڈال دیں،جن میں چند کاغذات، چابیاں اور ایک ہزار روپے تھے۔
’’ کاغذات پھاڑ کر کوڑے میں ڈال دو اور چابیاں کونے میں رکھ دو ،کبھی کسی کا تالا کھولیں گے… اور مال برابرتقسیم کر لو۔‘‘ رضوان نے کہا۔
’’یار یہ دھندہ تو بہت اچھا ہے ،کیوں نا اس کو ہی اپنا لیا جائے۔‘‘ عاقل نے کہا۔
’’ٹھیک ہے مگر ہر روز علیحدہ ٹیم ہوگی اور سکوٹر کی تین چار نمبر پلیٹیں بنوالو اور میں تورضوان کے ساتھ ہی جایاکروں گا۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’ٹھیک ہے میں اور قطب ایک ساتھ جائیں گے۔‘‘ تاج نے کہا۔
’’مال تو آج کافی مل گیا ہے، چلو سینما چلتے ہیں۔ شام کو موج اڑائیں گے۔‘‘ قطب نے کہا۔
فلم کے بعد کل جمع ہونے کا کہہ کر یہ لوگ چل دیے ۔دوسرے دن قطب اور تاج نے اپنی باری سنبھالی اور ایک عورت کا پرس لے کر رفوچکر ہو گئے جس میں زیورات اور چار سوروپے نکلے۔
اب یہ لوگ مختلف علاقوں میں روز لوگوں کو لوٹنے لگے۔کئی دنوں کے بعد رضوان اور لطیف کی باری آئی۔ یہ لوگ خاموشی سے مختلف گلیوں میں گھومتے رہے ۔ایک جگہ ایک راہ گیرکے ہاتھ سے اس کا تھیلا رضوان نے چھینا اور لطیف نے سکوٹر کی رفتار تیز کر دی۔ یہ لوگ اپنی کامیابی پر خوش ایک گلی سے نکلے تو سامنے ایگل سکواڈ کی گاڑی کھڑی تھی جس پر پولیس والے نے پوزیشن لے رکھی تھی۔ سکوٹر کو روکنے کا اشارہ کیا۔ لطیف نے بحالت مجبوری سکوٹر روک لیا۔ دونوں کو تھانے لے جایا گیا۔ یہاں وہ آدمی پہلے سے موجود تھا جس کا رضوان نے تھیلا چھینا تھا۔
’’ہم لوگوں کو کافی دنوں سے تمہاری تلاش تھی اور آج منصوبے کے تحت تم کو پکڑا گیا ہے۔‘‘ انسپکٹر حبیب نے کہا۔
’’مگر ہم نے کیا جرم کیا ہے؟‘‘ رضوان نے انجان بنتے ہوئے کہا۔
’’تم کو قصور بھی میں بتاؤں۔ یہ تھیلا تمہارے پاس کیسے آیا؟‘‘ انسپکٹر حبیب نے پوچھا۔
. ’’یہ! ہمیں راستے میں ملا تھا۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’تمہاری کچھ خاطر تواضع ہو ہی جائے تاکہ تم لوگوں کو یاد آئے کہ یہ تھیلا کہاں سے ملا تھا یا چھینا تھا۔کانسٹیبل ان کی ذرا خاطر تواضع کرو اور پھر لاکپ میں بند کر دو۔‘‘ انسپکٹر حبیب نے کہا۔
کچھ دیر بعد ان لوگوں کا حلیہ بگڑ چکا تھا۔ تم لوگوں کے گھر والوں کو بلایا جائے یا پھر تم سرکاری گھر میںخوش رہو گے۔‘‘ انسپکٹر حبیب نے کہا۔
’’یہ فون نمبر ہے ،جلدی سے بلوا دیں۔‘‘ رضوان نے کہا۔
تھوڑی دیر بعد رضوان کے والد جمیل صاحب تھانے میں داخل ہوئے اور انہوں نے سب سے پہلے انسپکٹرحبیب سے ملاقات کی۔ انسپکٹر حبیب ان سے بڑی گرم جوشی سے ملے۔
’’لگتا ہے ڈاکٹر صاحب آپ اپنے مریض کو دیکھنے تھانے چلے آئے ہیں۔ اس لئے کہ میں کافی دنوں سے آپ کے ہسپتال میں نہیں آیا ہوں۔‘‘ انسپکٹر حبیب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’دراصل میں رضوان کے لئے آیا ہوں ۔‘‘جمیل صاحب نے کہا۔
’’وہ رضوان جور ہزنی کے کیس میں پکڑا گیا ہے۔‘‘ انسپکٹر حبیب نے پوچھا۔
’’جی وہی لڑکا۔ ‘‘جمیل صاحب نے کہا۔
’’آپ کا اس سے کیا تعلق ہے؟‘‘ انسپکٹر حبیب نے پوچھا۔
’’رضوان میرا بیٹا ہے۔‘‘ جمیل صاحب بمشکل بولے۔
’’اوہ! ‘‘انسپکٹر حبیب خاموش ہو گئے ،پھر کچھ دیر بعد بولے۔ ’’میں اس کو آپ کی ضمانت پر چھوڑ دیتا ہوں مگر گھر لے جا کر اس کو اچھی طرح سمجھائیں کہ ایسی حرکتیں نہ کرے۔‘‘ انسپکٹر حبیب نے کہا۔
’’آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘ جمیل صاحب نے کہا۔
جمیل صاحب رضوان کو گھر لے آئے۔
’’تم میرا آخری سہارا ہو۔ امید کی کرن ہو، اس لئے تم صحیح راہ پر آؤ۔ چوری چکاری سے آدمی ذلیل و خوار ہو جاتا ہے بیٹا! برائی کبھی پھلتی پھولتی نہیں ہے۔ تم کو جس چیز کی ضرورت ہو،ہمیں کہو۔ ہم لوگ پوری کریںگے۔ ‘‘جمیل صاحب نے رضوان کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مگر ابا جان میں نے کون سی چوری کی ہے؟‘‘ رضوان نے معصوم بنتے ہوئے کہا۔
’’پھر تمہیں پولیس تھانے کیوں لے گئی تھی؟‘‘ جمیل صاحب نے سوال کیا۔
’’پولیس تو ہر شہری کو تنگ کرتی ہے۔ مجھے بھی شک کی بنیاد پر لے گئی تھی۔ ‘‘رضوان نے کہا۔
’’اچھا بحث مت کرو اور اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ آئندہ میں کوئی شکایت نہیں سنوں۔‘‘ جمیل صاحب نے کہا۔
رضوان نے جمیل صاحب کی باتیں ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال دیں اور ان کے سامنے کتابیں لے کر پڑھنے بیٹھ گیا۔ رات کو بارہ بجے رضوان اپنے کمرے میں بیٹھا تھا ۔اس کی نظریں تو کتاب پر تھیںمگر دماغ نئے منصوبے بنانے میں مصروف تھا۔ باہر سے سیٹی کی آواز سنائی دی اور رضوان اشارہ سمجھ گیا کہ ضرورلطیف آیا ہے اور خاموشی سے کھڑکی کے راستے باہر گلی میں نکل گیا۔
’’یار تمہاری ضمانت کیسے ہوئی؟‘‘رضوان نے پوچھا۔
’’بس ہو گئی ،اس کی فکر مت کرو۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’دھندہ اب کچھ دنوں کے بعد کریں گے، ابھی حالات بھی گڑبڑ ہیں۔ ‘‘رضوان نے کہا۔
’’جیسے تمہاری مرضی، میں باقی ساتھیوں کو بھی اطلاع دے دوں گا۔ ‘‘لطیف نے کہا۔
ایک ہفتے بعد رضوان ،لطیف اور دوسرے ساتھیوں سے ملا۔
’’رضوان! آج رات کو بڑا ہاتھ مارنا چاہئے۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’کیا ارادہ ہے؟‘‘رضوان نے پوچھا۔
’’فینسی جیولرز کیسا رہے گا؟وہی جس کی حفاظت کے لئے بوڑھا چوکیدار مقرر ہے جو سر شام ہی جا کر سو جاتاہے۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’چوکیدار کے بارے میں، میں کافی دنوں سے معلومات جمع کر رہا ہوں اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘ عاقل نے کہا۔
’’ٹھیک ہے مگر قطب اور تاج کہاں ہیں؟‘‘ رضوان نے پوچھا۔
’’وہ پرانے اڈے پر ہیں۔‘‘ عاقل بولا۔
راستے میں چلتے ہوئے رضوان نے کہا۔’’ یار! گھر والوں نے نصیحتیں کر کر کے پریشان کر دیا ہے۔آج کا ڈا کہ کامیاب رہاتو میں گھر چھوڑ دوں گا اور کہیں اور ڈیرہ ڈال لوں گا۔‘‘
’’یہ تو اچھی بات ہے کیونکہ تم ساتھ ہوتے ہو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔‘‘ لطیف نے کہا۔
اڈے پر پہنچ کر ان لوگوں نے تیاری کی اور سکوٹروں پر سوار ہو کر جیولرز کی دکان کی جانب رواں دواں ہو گئے۔ کوئی ایک فرلانگ پہلے سکوٹروں کو ایک گلی میں کھڑا کیا اور پیدل جیولرز کی جانب چل دیے۔
’’تم نے تمام سامان ہتھیار وغیرہ احتیاط سے رکھ لئے ہیں؟‘‘ تاج نے پوچھا۔
’’بالکل! ہر طرح کی تیاری مکمل ہے فکر مت کرو۔‘‘ لطیف نے کہا۔
انہوں نے دیکھا کہ بوڑھا چوکیدار ابھی تک سویا نہیں تھا۔
’’تم تو کہتے تھے کہ یہ چوکیدار گیارہ بجے سے پہلے سو جاتا ہے مگر اب تو بارہ بج رہے ہیں۔‘‘ قطب نے کہا۔
’’نہیں سویا تو کیا ہوا ابھی اس کو کلوروفارم سے سلا دیتے ہیں۔‘‘ تاج نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ یہ ابھی گشت کر رہا ہے ،جب گلی کے کونے پر آئے تو تم ایک دم اس کے سامنے آجانا اور کلوروفارم کا رومال اس کے منہ پر لگا دینا۔‘‘ رضوان نے کہا۔
تاج منہ پر ایک تھیلی نما کپڑا چڑھا کر آگے بڑھا جس میں آنکھوں اور ناک کے پاس سوراخ بنے ہوئے تھے جبکہ باقی افراد یہ کارروائی چھپ کر دیکھنے لگے۔
وہ بوڑھا چوکیدار آگے بڑھتا ہوا گلی کے کونے تک آئے بغیر واپس مڑگیا۔ تاج بالکل تیار تھا مگر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا اور اس کا دوبارہ انتظار کرنے لگا۔ چوکیدار اپنا راؤنڈ مکمل کر کے واپس مڑا اور تاج کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ گلی کے کونے پر شکاری تاک لگائے بیٹھا ہے۔ رفتہ رفتہ تاج اور چوکیدار کا فاصلہ کم ہوتا گیا اور گلی کے کونے سے جیسے ہی چوکیدار واپس مڑا اس کے پیچھے تاج نمودار ہوا اوررومال اس کے منہ پر لگا دیا۔ چوکیدار نے معمولی سی مزاحمت کی اور بے ہوشی کی وادیوں میں گم ہو گیا۔ تاج نے اس کو دیوار کے کنارے سے لگا کر یوں بٹھا دیا جیسے بیٹھے بیٹھے سو گیا ہو۔ ہاتھ کے اشارے سے رضوان، لطیف، عاقل اور قطب کو بلایا اور ان لوگوں کے قدم فینسی جیولرز کی دکان کی جانب اٹھنے لگے۔ دکان کے الارم وغیرہ ناکارہ کرنے کے بعد انہوں نے تالے کھولے اور کچھ توڑ دیے اور کامیاب ڈاکہ ڈالا اور اپنے اڈے پر واپس پہنچ گئے۔
’’کہو آج کا مشن کیسا رہا؟‘‘ رضوان نے پوچھا۔
’’بہت ہی خوب۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’اب ہم لوگوں کو یہ اڈا چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ مال تو آج کا فی ہاتھ لگ گیا ہے ۔‘‘تاج نے کہا ۔
’’مگر جائیں گے کہاں۔ مال زیادہ ہو گیا ہے تو کیا کوئی کوٹھی لوگے؟‘‘ قطب نے کہا۔
’’نہیں یار ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے بلکہ ہم لوگوں کو اپنے علاقے سے دور پہاڑی علاقے میں چلا جانا چاہئے۔ وہاں کسی غار میں ٹھکانہ بنائیں گے۔‘‘ عاقل بولا۔
’’تم سب لوگوں کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘رضوان نے سب سے رائے طلب کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم لوگ تیار ہیں۔‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
یہ سب لوگ پہاڑی غار میں منتقل ہو گئے۔ رضوان، قطب،عاقل، تاج اور لطیف کے والدین نے ان لوگوں کو بہت تلاش کروا یا مگر کسی کا کچھ پتہ نہ چلا ۔آخر یہ لوگ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔
فینسی جیولرز کے ڈاکے کے بعد ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور یہ لوگ ڈاکوؤں کے روپ میں نمودار ہوئے تھے۔ رضوان کا گروہ آئے دن منصوبہ بندی کے ساتھ ڈاکے ڈال رہا تھا اور لوٹ مار کر کے واپس آجاتے تھے۔ ایک رات رضوان کے گروہ نے ایک مکان پر نقب لگائی اور گھر میں داخل ہو گئے۔ لطیف گلی کے باہر کھڑا پہرہ دیتا رہا۔ انہوں نے گھر والوں کو بندوقوں کے زور پر خاموش رہنے کا حکم دیا اور سامان سمیٹنے لگے۔ ایک ادھیر عمر کی عورت نے ان لوگوں کو خدا کا واسطہ بھی دیا کہ وہ بیوہ کا مال اسباب نہ لوٹیں مگر رضوان نے بوڑھی عورت کو بندوق کا دستہ مار کر بے ہوش کر دیا اور تمام سامان سمیٹ کر اپنے اڈے پر پہنچ گئے جہاں مال کا بٹوارا ہوا۔ کئی دن یہ لوگ آرام سے رہے۔
’’استاد! ہمارے اڈے سے کوئی تین میل دور ریل کی پٹری ہے۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’تو کیا ریل کی پٹری چوری کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘ تاج نے درمیان سے بات اچک لی۔
’’نہیں تاجویہ بات نہیں ہے۔ ‘‘لطیف نے جھنجھلا کر کہا۔
’’تو بات کیا ہے؟‘‘ قطب نے کہا۔
’’پہلے مجھے تو کہہ لینے دو۔ تم لوگ درمیان میں اپنی باتیں شروع کر دیتے ہو۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’پھر کہو،سوچ کیار ہے ہو؟‘‘رضوان نے کہا۔
’’بات یہ ہے کہ ہمارے اڈے سے تین میل دور ریل کی پٹری گزرتی ہے ۔کبھی کبھی لائن صاف نہ ہونے کی وجہ سے ریل کو اس علاقے میں رکنا پڑتا ہے۔ ‘‘لطیف سانس لینے کے لئے رکا۔
’’تو کیاریل کاڈ بہ چوری کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘ تاج نے لقمہ دیا۔
’’بات تم نے پوری سنی نہیں ہے، بولنا شروع کر دیا۔‘‘ لطیف نے غرا کر کہا۔
’’غصہ مت کر لطیف، بات پوری کر۔ ‘‘رضوان بولا۔
’’اس لئے میں نے منصوبہ بنایا ہے کہ ریل میں لوٹ مار کی جائے ۔‘‘لطیف نے بات مکمل کی۔
’’کیا سب کے سب ایک ساتھ ایک ہی ڈبے میں لوٹ مار کریں گے؟‘‘ رضوان نے سوال کیا۔
’’نہیں استاد! اس کے بجائے علیحدہ علیحدہ ڈبے میں جائیں۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ ساتھ رہے تو اچھا ہو گا ،ایک دوسرے کی مدد کر سکیں گے۔‘‘ قطب نے کہا۔
’’اس سے نقصان یہ ہو گا کہ لوگوں کو ہم پر شک ہو جائے گااور ایک ڈبے سے مال بھی کم ہاتھ آئے گا۔‘‘لطیف نے کہا۔
’’یہ بات واقعی درست ہے۔ ‘‘رضوان نے تائید کی۔
’’ٹھیک ہے کل ہم لوگ ریل میں ڈاکہ ڈالنے کے لئے تیار رہیں گے اور سرشام ہی ریلوے لائن کے پاس چلے جائیں گے۔‘‘ تاج نے کہا۔
دوسرے روز رات کو یہ لوگ ریلوے لائن کے قریب اگی ہوئی جھا ڑیوں میں چھپے بیٹھے تھے اور ریل کاانتظار تھا۔
’’لطیف! ریل کتنے بجے یہاں آتی ہے؟‘‘ قطب نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ساڑھے گیارہ بجے۔‘‘ لطیف نے کہا۔
’’مگر اب تو بارہ بج رہے ہیں، شاید ریل لیٹ ہو گئی ہے ۔‘‘عاقل نے کہا۔
دور سے ریل کی سیٹی سنائی دی۔
’’ ریل آرہی ہے تیار ہو جاؤ۔ ‘‘رضوان نے کہا۔
ریل برق رفتاری سے نزدیک آتی گئی اور پھر رکے بغیر گزر گئی۔
’’یار یہ تور کے بغیر گزر گئی۔‘‘ قطب نے کہا۔
’’لائن صاف تھی، اس لئے گزر گئی۔ کل رات پھر انتظار کریں گے۔ کل لائن کلیئر نہ ہوئی تو یہ اسی جگہ رک جائے اور ہمارے مزے ہو جائیںگے۔‘‘ عاقل نے کہا۔
آخر تیسرے دن ان کی امید بر آئی اور لائن کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے ریل رک گئی۔
’’سب لوگ ہوشیار رہ کر ہاتھ صاف کریں اور کسی کا انتظار کئے بغیر اڈے پر چلے جائیں۔‘‘ رضوان نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا۔
سب نے علیحدہ علیحدہ ڈبوں میں دھاوا بول دیا اور مال و اسباب لوٹنے لگے۔ رضوان ایک ڈبے میں داخل ہوا جہاں پر کوئی مسافر چادر تانے برتھ پر سورہا تھا۔ ڈبے میں بلب فیوز ہونے کی وجہ سے تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ رضوان سونے والے مسافر کا بریف کیس خاموشی سے اٹھانا چاہتا تھا کہ اسی دوران مسافر کی آنکھ کھل گئی۔
رضوان نے منہ پر کپڑا باندھا ہوا تھا ۔اس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھی۔ اس مسافر نے رضوان پر حملہ کر دیا اور رضوان سے الجھ گیا۔ رضوان اس حملے کے لئے بالکل تیار نہ تھا۔وہ گھبرا گیا کہ کہیں ڈبے میں سوئے ہوئے دیگر مسافر نہ جاگ جائیں۔ اتنے میں لائن کلیئر ہو گئی اور ریل آہستہ آہستہ چلنے لگی ۔اس مسافر نے رضوان کو دبوچ لیا اور رضوان اور اس مسافر میں کشمکش ہونے لگی۔ رضوان نے اپنی جیب سے خنجر نکال کر اس پر حملہ کر دیا۔وہ شخص ایک جھٹکے سے گرا اور تڑپنے لگا۔ گاڑی اس وقت تک کافی رفتار پکڑ چکی تھی لیکن رضوان کو خطرہ تھا کہ لوگ جاگ نہ جائیں اور وہ پکڑا نہ جائے۔ اس نے چلتی ریل سے چھلانگ لگا دی۔ زمین پر گرنے سے اسے زخم آئے اور وہ اپنے اڈے پر پہنچا۔ وہاں پر اس کے باقی ساتھی جمع تھے۔ انہوں نے اپنا اپنا مال رضوان کے سامنے رکھ دیا اور رضوان نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیل سنادی۔
’’شہر سے جا کر کھانے کا سامان تو لے آؤ۔ راشن وغیرہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘ صبح کو رضوان نے عاقل سے کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں ابھی چلا جاتا ہوں۔‘‘ عاقل بولا۔
’’اپنا حلیہ درست کر لو کسی کو شک نہ گزرے۔‘‘ رضوان نے ہدایات دیں۔
عاقل شہر سے سامان لے کر واپس ہوا تو اسی صبح کا اخبار بھی لیتا آیا۔ اس نے سامان دیتے ہوئے کہا۔’’آج کے اخبار میں ہمارا رات والا کار نامہ بھی آیا ہے۔ مسافروں کا دولاکھ کا سامان اس ڈا کے میں لٹا ہے۔‘‘
وہ سب کے سب اخبار میں اس خبر کو پڑھنے لگے۔ رضوان ایک خبر پڑھ کر چونک گیا۔ اخبار میں لکھا تھاکہ ’’کل رات شہر کے مشہور و معروف ڈاکٹر جمیل کو خیبر میل میں دوران سفر کسی درندہ صفت شخص نے قتل کر دیا۔لوگوں نے چلتی ریل سے کسی کو کو دتے ہوئے دیکھا تھا جو فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
رضوان اس سے آگے مزید کچھ اور نہ پڑھ سکا ۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے باپ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ قدرت کے اس انتقام پر حیرت زدہ تھا اس کو اپنے والد کے الفاظ بڑی شدت سے یاد آرہے تھے کہ برائی کبھی پھلتی پھولتی نہیں ہے۔ وہ کافی دیر تک روتا رہا ۔اسے کیا معلوم تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ آخروہ ایک فیصلہ کر کے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کو کچھ کہے بغیرتھانے کی جانب قدم اٹھانے لگا۔
تھانے پہنچ کر اس نے اپنی تمام چوریوں، ڈا کوں اور اپنے والد کے قتل کے بارے میں ایک ایک بات بتادی۔ اس کے دیگر ساتھیوں کے لئے چھاپے مارے گئے اور پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے عدالت میں رضوان کا چالان پیش کیا۔ رضوان وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ اس نے تمام حقائق سے عدالت کو آگاہ کیا۔ حج صاحب نے اس کو چھ سال قید کی سزاسنائی۔ اس موقع پر اس کی ماں بھی عدالت میں موجود تھی ۔اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
چھ سال کا عرصہ رضوان نے جیل میں بہت ہی شرافت سے گزارا اور جیل سے رہا ہو کر واپس اپنی ماں کے پاس آیا۔ وہ اپنے ماضی پر بے حد شرمندہ تھا اور اپنے والد کی ہلاکت کی وجہ سے دل برداشتہ بھی۔ مگر اس کی ماں نے اس کو سمجھایا کہ وہ واپس ایک معزز شہری بن سکتا ہے کہ دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کرے اور اپنے والد کی روح کو اس طرح سکون پہنچا سکتا ہے کہ ان کی خواہش پوری کرے۔ رضوان نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ وہ ڈاکٹر بن کراپنے والد کی روح کو سکون پہنچائے گا اور اس نے دوبارہ کالج میں داخلہ لیا۔ دو سال کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔جب انٹر کارزلٹ آؤٹ ہوا تو رضوان نے امتیازی نمبر حاصل کئے تھے۔ اس کو کسی دشواری کے بغیر میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ اور رضوان نے ڈاکٹر بن کر ماضی کا کفارہ ادا کر دیا۔

