skip to Main Content

دھان کے کھیت

رحمن مذنب
۔۔۔۔۔

پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ایک بوڑھا کسان ملک جاپان میں رہتا تھا۔ اس کا نام ’ہاما گوچی‘ تھا۔ ہاما گوچی کا گھر بڑا سادہ اور صاف ستھرا تھا۔ اس نے دیواروں پر طرح طرح کی رنگ برنگی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ چھت بھی گل بوٹوں سے سجائی تھی۔ جو بھی اس چھوٹے سے خوش نما گھر کو دیکھتا،یہی چاہتا کہ یہ اسے مل جائے۔ پہاڑی کے دامن میں ہاما گوچی کا گاؤں تھا۔ گاؤں والے جب اسے ملنے آتے تو اس کا گھر بڑے شوق سے دیکھتے اور جی کھول کر اس کی تعریف کرتے۔ کئی ایک نے اس کا گھر دیکھا تو اپنا گھر بھی سجا لیا۔
ہاما گوچی کے مکان میں ایک اور خوبی تھی۔ پہاڑی مکان تھا اس لیے خواہ مخواہ خوب صورت لگتا تھا جب وہ کھڑکی میں آکر کھڑا ہوتا تو اسے گاؤں بہت بھلا لگتا۔ دور سے ننھے ننھے گھروندے، ننھے ننھے گائے بیل اور ننھے آدمی بڑے انوکھے لگتے۔ وہ دیر تک انھیں دیکھتا رہتا۔
وہ بڑا اچھا طبیب تھا۔ اس کے خاندان میں بزرگوں کے بتائے ہوئے کتنے ہی صدری نسخے تھے۔ جب باپ دادا فوت ہوئے تو سارے صدری نسخے اسے مل گئے۔ ان نسخوں میں ہربیماری کا علاج موجود تھا اور دور دور تک ہاما گوچی کے سوا کسی کے پاس ایسے تیر بہ ہدف نسخے نہیں تھے۔ ہاما گوچی بہت ہی نیک دل تھا۔ اس کا جی نہ چاہا کہ ان نسخوں کو خلق خدا سے چھپائے رکھے۔ وہ ہر کسی کو یہ نسخے بتا دیتا۔ دوائیں تیار کرتا اور غریبوں کو مفت دیتا۔ اس کا مقولہ تھا کہ خدا نے انسان کو نیکی کے لیے پیدا کیا ہے۔ سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو دوسروں کے دکھ درد کم کرے، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ دنیا اچھوں کے لیے اچھی اور بروں کے لیے بری ہے۔ خدا کو وہی لوگ عزیز تھے جو فساد کی جڑ کاٹتے اور نیکی کرتے۔
ہاما گوچی ہر وقت مصروف رہتا۔ پہاڑی پر دنیا جہان کی جڑی بوٹیاں تھیں۔ وہ ان سے دوائیں تیار کرتا اور جو چیز یہاں سے دستیاب نہ ہوتی آدمی بھیج کر شہر سے منگوا لیتا۔ اس کا کتنا ہی روپیہ دواؤں پر اٹھ جاتا۔ لوگ دور دور سے آتے اور اس سے دوائیں لے جاتے۔ اس طرح وہ بہت مشہور ہوگیا اور اس کے نام لیوا دور دور تک پھیل گئے۔
لوگ پھل مٹھائی اور پکوان لے کر آتے نقدی بھی پیش کرتے۔ لیکن وہ کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھتا۔ آنے جانے والوں میں بانٹ دیتا۔
وہ بڑا خوش حال تھا۔ پہاڑی کے ایک طرف تھوڑی سی صاف اور ہموار زمین تھی۔ وہ اس میں دھان بولیتا۔کچھ دور بڑے بڑے چشمے تھے۔ اس نے دن رات ایک کرکے چشمے سے کھیتوں تک نالی بنائی۔ یوں اسے کھیتوں کے لیے جی بھر کے پانی مل جاتا۔ فصل بہت اچھی ہوتی۔ پھر چشموں کے میٹھے پانی کی وجہ سے چاولوں میں بڑی لذت آجاتی۔
دھان کی فصل پر اس کا اچھی طرح گزارہ ہو جاتا۔ مردِ قانع تھا، لالچ نہ کرتا، سال بھر خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا۔ کئی لوگ تو صرف چاول ہی کھانے آتے۔ اتنے لذیذ اور میٹھے چاول انھیں کہیں نہ ملتے۔ اس نے کبھی چاول بیچے تو نہیں، البتہ ان کے عوض وہ کپڑا لتا اور گھر کی دوسری چیزیں ضرور لے لیتا۔ اس کی ضرورتیں ہی ایسی کون سی تھیں۔ دو جوڑے کپڑے اسے سال بھر کے لیے کافی تھے۔ چار برتن بہت تھے۔ ایندھن کی کمی نہ تھی۔ ایک دن جنگل میں سے جاکر لکڑیاں کاٹ لایا تو مہینہ بھر چولہا تپتا رہتا۔
جب وہ ابھی گاؤں میں رہتا تھا اور پہاڑی پر نہ آیا تھا تو اس نے ایک بھلی عورت سے بیاہ بھی کیا تھا۔ ان کے یہاں ایک لڑکا بھی ہوا تھا۔ لیکن اس کی قسمت کہ بیوی زیادہ دن نہ جی سکی۔ لڑکے کی پیدائش کے بعد بے چاری کو ہوا لگ گئی اور وہ سخت بیمار ہوگئی۔ ہاما گوچی نے بہت علاج کیا۔ ایک ایک خاندانی نسخہ برتا لیکن موت کا کون علاج کرے، یہ لاعلاج مرض ہے۔ بے چاری مرگئی۔ ہاما گوچی کے بچے کو ایک بیوہ نے پال لیا، وہی اسے دودھ پلاتی، وہی اس کی دیکھ بھال کرتی۔
لڑکا پل گیا اور باپ کے نقش قدم پر چلنے لگا۔ جیسا باپ ویسا بیٹا لیکن بالکل ویسا نہ تھا۔ باپ تو بالکل درویش تھا، نام کو لالچ نہ تھا اس میں۔ خود بھوکا رہ کر بھی دوسروں کو کھانا کھلاتا، خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کی تکلیف دور کرتا، لیکن اس کا لڑکا کچھ کچھ لالچی تھا۔ وہ باپ کو اندھا دھند سخاوت کرتے دیکھتا تو کبھی کبھی ٹوک دیتا۔
ایک دن کی بات ہے کہ ہاما گوچی نے دو مٹھی چاول بھونے اور چائے بنائی۔ باپ بیٹا چاول کھانے اور چائے پینے ہی کو تھے،کہ کہیں سے کوئی فقیر نکل آیا۔ اس نے آتے ہی کھانے کا سوال کیا۔ ہاماگوچی نے عادت کے مطابق مٹھی بھر چاول اور چائے کا پیالہ اس کے حوالے کر دیا۔ جب لڑکے نے یہ دیکھا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کچھ کھائے پئے بغیر گھر سے باہر چلا گیا۔ اس روز وہ دن بھر گھر سے باہر ہی رہا۔ شام کو جب لوٹا تو ہاما گوچی بولا:
”بیٹا یامو! صبح جب وہ بھلا آدمی آیا اور میں نے اسے مٹھی بھر چاول دیے اور چائے کا پیالہ تھمایا تو تم اٹھ کر کیوں چلے گئے؟“
یاموبولا:
”باپو! تم نے تو غضب ہی کر دیا۔ کُل دو مٹھی چاول تھے اور دو پیالے چائے تھی۔ مشکل سے ہمارا ہی گزارا ہوتا تھا اس میں۔ گھر میں اور کیا دھرا تھا کھانے پینے کو، جو تم نے یوں پیٹ کاٹ کر پردیسی کا پیٹ بھرا؟“
”اسے بھوک جو لگی تھی یامو!“ ہاما گوچی بولا۔
یامونے جھلا کر کہا:
”اسے بھوک لگی تھی تو ہمیں کیا؟ ہماری تو اپنی جان نکل رہی تھی۔“
”شاید ہماری طرح اس کی بھی جان نکل رہی تھی،تم نے اسے اچھی طرح نہیں دیکھا۔ کس قدر نڈھال ہو رہا تھا۔ اس سے تو چلا بھی نہ جاتا تھا۔“ ہاماگوچی نے کہا۔
”تو اس میں ہمارا تو کچھ قصور نہ تھا۔“
”ہاں، ہمارا تو کچھ قصور نہ تھا لیکن اس کا بھی قصور نہ تھا۔ وہ کتنا بوڑھا اور ضعیف تھا۔ کمابھی نہیں سکتا تھا۔ دوسروں کے سہارے جیتا اور دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتا۔“
”ہم تو کسی کے سہارے نہیں پلے باپو۔“
”خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے یا موکہ ہم کسی کے سہارے نہیں پلتے، لیکن ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کریں۔ ابھی ابھی تم کَہ رہے تھے کہ تمھاری جان نکل رہی تھی لیکن یہ سوچو کہ اس بھوکے ضعیف آدمی کو کھانے کو کچھ نہ ملتا تو اس پر کیا گزرتی، اس کی جان نہ نکل جاتی؟“
”باپو! آپ تو خواہ مخواہ دوسروں کا خیال کرتے ہیں۔ اپنا بھی تو خیال کرنا چاہیے۔“
”بیٹا یامو! ہم اپنا خیال تو روز کرتے ہیں،کس دن ہمیں روٹی نہیں ملی اور کس دن ہم نے فاقہ کیا ہے؟ ہمیں تو روز روٹی ملتی ہے۔ پھر کبھی کبھی دوسروں کا خیال کرلیں تو اچھا ہی ہے۔“
”باپو! آپ کو کون سمجھائے؟ آپ تو کسی کی مانتے ہی نہیں۔ بس اپنی بات پر ہی قائم رہتے ہیں۔“
دیر تک یامو اپنے نیک دل باپ سے الجھتا رہا، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ عادت بدل جائے تو بدل جائے سرشت کب بدلی ہے؟ ہاماگوچی کا مزاج کچھ اور تھا، یاموکا کچھ اور، اگرچہ یا مو برا لڑکا نہیں تھا۔ باپ کی ہر بات مانتا۔ ہر کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ دھان کے کھیتوں میں جاکر دن رات کام کرتا۔ لکڑیاں کاٹ کر لاتالیکن بس یہی ایک نقص تھا اس میں کہ ذرا لالچی تھا۔ یوں تو جب گھر میں کسی چیز کی ریل پیل ہوتی اور ہاماگوچی جی کھول کر فیاضی کرتا تو یامو چپ رہتا لیکن جب اپنی ہی ضرورت پوری نہ ہوتی اور ہاماگوچی سخاوت کرنے پر تل جاتا تو یامو کو باپ کی حرکت اچھی نہ لگتی۔
ہاماگوچی کے گھر میں بڑی برکت تھی۔ کبھی کسی چیز کی بھوک نہیں آئی۔ اگر ایک آدھ بار بھوک آ بھی جاتی تو باپ بیٹے میں بہت بدمزگی پیدا ہو جاتی ورنہ کچھ نہ ہوتا۔
وہ پہاڑی جو شروع شروع میں بے رونق لگتی اور جہاں کوئی بھولا بسرا ہی آتا! ورنہ لوگوں کی زیادہ آمد و رفت نہیں تھی۔ اب وہاں لوگ آتے ہی رہتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہاماگوچی نے پہاڑی میں جان ڈال دی۔ اسے لوگوں کی خدمت میں بڑا مزا آتا لیکن وہ سمجھتا تھا کہ اس نے آدمیوں کی کوئی خاص خدمت نہیں کی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ تن، من، دھن سب کچھ لٹا کر لوگوں کی خدمت کرے، اور پھر اسے زندگی کی سب سے بڑی خوشی حاصل ہو۔ وہ اپنا سب کچھ لٹانے کے لیے موقع کی تلاش میں تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ وہ اپنا سب کچھ کب لٹائے اور کیسے لٹائے؟
گیارہ مہینے اچھی طرح گزر جاتے۔ ایک مہینہ سختی کا آتا۔ اچانک پہاڑی کی دوسری جانب دریا میں طغیانی آتی اور گاؤں اس کی لپیٹ میں آجاتا کھیتوں میں پانی بہنے لگتا،اس سے فصلوں کو نقصان پہنچتا۔ پانی زیادہ زور پکڑتا تو گاؤں میں بھی آجاتا۔ مکان ڈھے جاتے اور بھٹکتی ہوئی بھیڑ بکریاں بَہ جاتیں۔ مصیبت تو یہ تھی کہ دریا کے چڑھاؤ کی خبر نہ ہوتی۔ دریا پہاڑی کی پشت پر تھا اور گاؤں والوں کو نظر نہ آتا۔ البتہ ہاما گوچی اور یامو کو دریا خوب نظر آتا دن کو دریا میں پانی چڑھتا تو وہ یامو کو روانہ کر دیتا۔ یامو پہاڑی کے اونچے نیچے راستوں کو بڑی تیزی سے عبور کرکے گاؤں پہنچتا اور لوگوں کو خطرے سے آگاہ کر دیتا۔ لوگ اطلاع ملتے ہی مال مویشی سنبھال لیتے اور اپنی جان بچانے کی تدبیر کرتے۔ زیادہ خطرہ ہوتا تو گاؤں خالی کر دیتے اور جانوروں پر سامان لاد کر پہاڑی پر چلے آتے۔ جب تک سیلاب رہتا یہیں رہتے۔ مصیبت ٹل جاتی تو واپس چلے جاتے۔
ایک لحاظ سے ہاماگوچی گاؤں کا رکھوالا تھا۔ اس کے بھروسے گاؤں والے چین سے رہتے۔
سال کے سال جب دھان کے کھیت پک کر تیار ہو جاتے اورکٹائی کا وقت آجاتا تو گاؤں والے خوشیاں مناتے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گاؤں والوں کی فصلیں بہت ہی عمدہ ہوئیں۔ دھان کے کھیت اتنے بھرپور ہوئے کہ کبھی نہ ہوئے تھے۔ ایک ایک ٹکڑے میں چار چار گنا دانے اگے۔ انھیں دیکھ کر گاؤں والوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔
کٹائی سے کچھ دن پہلے ایک سَہ پہر کو مرد، عورتیں،بوڑھے،بچے میدان میں جمع ہوئے۔
یامو کھڑکی میں آن کھڑا ہوا۔ گاؤں والوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر اس نے باپ کی طرف دیکھا، جو پتھر کے صاف ستھرے فرش پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔

یاموبولا:
”باپو! آج گاؤں والے کتنے خوش ہیں۔“
ہاماگوچی نے چائے کا سڑپالگا کر کہا: ”یامو! وقت بے فکری سے گزرے، بجلی گرے نہ اولے پڑیں، کوئی آفت نہ آئے اور فصل بہت اچھی ہو تو لوگ کیوں نہ خوش ہوں؟ کیوں خوشیاں نہ منائیں؟“
”باپو! آج تو گاؤں والے اتنے خوش ہیں کہ پہلے کبھی نہیں ہوئے۔“
”اب کے فصل جو اتنی اچھی ہوئی ہے۔ خود ہمارے کھیت دھان سے لدے پھندے ہیں۔ ہر سال ایسی فصل کہاں ہوتی ہے؟“
یاموکھڑکی میں کھڑا گاؤں والوں کو دیکھتا۔ دور سے یوں لگ رہا تھا جیسے کھلونے کھیل کود رہے ہوں۔ آدمی، جانور بہت چھوٹے ہو کر رہ گئے تھے۔ پرانی داستانوں میں جن انگلی انگلی بھر بونوں کا تذکرہ ملتا،وہ آج اس کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ باپ کی طرف دیکھ کر بولا:
”باپو! اس کھڑ کی میں آجاؤ۔ بونوں کے کھیل تماشے دیکھو!“
ہاماگوچی کو کھیل تماشے سے زیادہ اس وقت چائے اچھی لگ رہی تھی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے بولا:
”بس بیٹا! تم ہی دیکھو! میں نے ان بونوں کے کھیل تماشے کئی بار دیکھے ہیں، بلکہ میں تو ان میں رہ چکا ہوں اور ان کے ساتھ مل کر خود بھی کھیل تماشے کیے ہیں۔“
یاموپھر بولا:
”باپو! آج تو میرا جی مچلنے لگا ہے۔ جی چاہتا ہے گاؤں میں جارہوں۔ ہم یہاں پہاڑی پر سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔ کوئی پڑوسی ہے نہ ساتھی،اپنے آپ لوگ آجاتے ہیں اور سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے گھر لوٹ جاتے ہیں۔“
”یامو بیٹا! تم نہیں مانتے۔“ ہاماگوچی نے چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے کہا:
”یہ بڑی اچھی جگہ ہے۔ کسی سے ہماری دوستی ہے نہ کسی سے ہم دشمنی مول لیتے ہیں۔ پھر یہ کہ ہر وقت خدا یاد آتا ہے۔ یہ جگہ خدا کی عبادت کے لیے بہت موزوں ہے۔“
ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ ساری پہاڑی پر لرزہ طاری ہوگیا۔ دیواریں بری طر ح ہلنے لگیں جیسے انھیں کوئی جڑ بنیاد سے اکھاڑنے لگا ہو۔
یاموچلا کر بولا:
”باپو! گاؤں میں بھگدڑمچ گئی ہے۔ لڑکے،بالے ٹولیاں چھوڑ چھاڑ کر ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ ان کے ماں باپ انھیں پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ توبہ! کس بلا کا شور ہے۔“
ہاماگوچی نے کہا:”یہ جاپان ہے۔ یہاں ایکا ایکی قیامت آتی ہے اور بیٹھے بٹھائے خوشی غم میں بدل جاتی ہے۔ تم نے دیکھا۔ ابھی ابھی لوگ ناچ کود رہے تھے اب سب کچھ بھول گئے۔ خدا نے جاپان بھی کیسا بنایا ہے؟“
یاموچلایا اور بدحواس ہو کر بولا:
”باپو! وہ ادھر پہاڑی سے نیچے زمین میں سخت دراڑ پڑ گئی ہے۔ افوہ! وہ گھنا پیڑ بھی اکھڑ کر گر پڑا۔“
ہاماگوچی پریشان تو ضرور ہوا لیکن اس نے آگے کے گرم سرد دیکھ رکھے تھے، اس لیے اس نے دل پر قابو رکھا جب بھی کوئی مصیبت نازل ہوتی، وہ حوصلہ اور حواس رکھتا۔ پھر بھی اس نے جی کڑا کرکے کہا: ”مجھے آج کچھ نظر نہیں آرہا۔ مکان تو مکان ساری دنیا ہل رہی ہے۔ ادھر پیڑوں کے جھنڈوں میں سخت ہلچل ہے۔ پیڑ پر پیڑ ٹوٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔“
بھونچال چلا گیا تو ہاماگوچی اور یامو گھر سے باہر نکل گئے۔ چاروں طرف نظر دوڑائی۔ کتنے ہی تناور پیڑ گرے تھے اور کئی چٹانیں اکھڑ گئی تھیں۔ بڑا ہی زبردست بھونچال آیا تھا۔ وہ پہاڑی پر چلتے رہے اور بھونچال کی تباہی کا نقشہ دیکھتے رہے۔ پہاڑی کے دوسرے سرے پر جاکر سامنے کے فلک بوس پہاڑوں کو دیکھنے لگے۔ ان پر پیڑوں کے جھنڈ تھے، سبزہ تھا اور ان میں سے سفید لکیر کھنچتی چلی آئی تھی۔ یہ وہی ندی تھی جو دور سے اتنی مہین نظر آتی تھی اور گاؤں کے پاس سے گزر کر جاتی۔ ہاما گوچی کی نظر عقاب کی نظروں سے کم تیز نہیں تھی۔ عام طور پر یہ ندی ایک ہی انداز اور رفتار سے چلتی لیکن آج اس میں غیر معمولی شوخی آگئی تھی۔ مہین لکیر بہت موٹی ہوگئی تھی اور وہ کچھ زیادہ اچھلتی کودتی چٹانوں پر سے گرتی چلی آرہی تھی۔ ندی میں ہلچل مچی تھی۔ ندی کی موٹی لکیر کے طوفانی رویے نے اسے سخت پریشان کیا۔ پھر وہاں گھنے بادل چھائے تھے۔ ضرور موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اور اسی لیے ندی کی لکیر اتنی موٹی ہوگئی تھی۔
وہ سمجھ گیا کہ ندی تباہی لائے گی۔ اس میں سیلاب آرہا تھا۔ مصیبت تو یہ تھی کہ گاؤں والوں کوسیلاب کی خبر نہ تھی۔ انھیں تو اسی وقت سیلاب کا پتاچلتا جب ندی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی گاؤں میں داخل ہو جاتا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے۔ ندی پہاڑی کی پچھلی سمت سے آتی اور ہاماگوچی کے سوا کسی کو اس کا پتا نہ چلتا۔
موت سر پر سوار تھی لیکن سوال یہ تھا کہ گنواروں کو آنے والے طوفان کی خبر کون دے۔
سیلاب پہاڑ سے نکل کر گھاٹیوں میں سے ہوتا ہوا تیزی سے ادھر آرہا تھا۔ وقت کم تھا۔ یاموکو بھیجا نہیں جاسکتا تھا۔ جتنی دیر میں یامو گاؤں پہنچتا۔ اتنی دیر میں سیلاب گاؤں میں آجاتا۔
دن ڈھل رہا تھا، شام پڑنے میں ابھی وقت تھا۔ رات پڑ گئی تو اندھیرے میں وہ اپنے آپ کو سنبھال سکیں گے اور نہ مال مویشی بچا سکیں گے۔ گھبراہٹ میں کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آئے گی۔ وہ کچھ بھی نہ کر پائیں گے۔
وہ لپک کر گھر آیا اور اس نے چلا کر کہا:
”پانچ سو انسانوں کو یونہی موت کے منہ میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ کچھ بھی ہو انھیں بچانا ضروری ہے۔یہ ہمارے پڑوسی ہیں، ہمارے بھائی ہیں، ہمارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔“
”کیا ہوا ہے باپو؟“ یامو نے گھبرا کر پوچھا۔
”ندی میں سیلاب آرہا ہے۔“ ہاماگوچی نے کہا۔
”لیکن گاؤں والوں کو کیسے خبر دی جائے؟ نیچے جانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔جگہ جگہ پیڑ گرے پڑے ہیں، ایک جگہ شگاف بھی آگیا ہے پہاڑی پر۔“
”یہی تو میں سوچ ر ہا ہوں۔“
ہاماگوچی چاہتا تھا کہ جو کچھ کرنا ہو شام سے پہلے پہلے جھٹ پٹ کرلیا جائے کیوں کہ اندھیرا ہوا تو ہم کیا کریں گے؟تباہی مچے گی اور یہ رات گنواروں کی آخری رات ہوگی۔
ایک بات اس کی سمجھ میں آئی۔ اس نے یامو سے کہا کہ نیچے جاکر شگاف پر کھڑا ہو جائے۔ وہ کسی طرح گاؤں والوں کو اوپر بلا لے گا۔ جب شگاف کے پاس آئیں تو جو گھبرو جوان ہوں، ان سے کہے کہ ٹوٹے ہوئے پیڑ شگاف کے اوپر دیں اور بھونڈا سا پل بنالیں۔ لوگ اسی پر سے پہاڑی پر آجائیں۔ سب سے پہلے اپنی جان بچائیں۔ پھر جتنا سامان آسانی سے لاسکیں لے آئیں۔ مال مویشی بھی لے آئیں۔
یامو کو رخصت کرکے ہاما گوچی کھیتوں میں آیا۔ دھان کی بالیں سوکھ رہی تھیں۔ چار دن میں کٹائی ہونے کو تھی کہ نئی مصیبت پڑی۔
ہاماگوچی کو آج کے دن کا انتظار تھا۔ اس نے چقماق پتھر کے دو ٹکڑے لیے اور انھیں آپس میں زور سے رگڑا۔ چنگاریاں اچٹ اچٹ کر بالیوں پر گرنے لگیں۔ دیکھتے دیکھتے آگ کے شعلے بلند ہوئے اور دھان کے کھیت جلنے لگے۔
یامو نے چلا کر کہا:
”باپو! کھیتوں کو آگ نہ لگاؤ ہم تباہ ہو جائیں گے۔ باپو! کھیت جل گئے۔“
”بیٹا! تم نہیں سمجھتے، یہ موت اور زندگی کا سوال ہے۔ نیکی کرنا آسان نہیں۔“
اس پر یامو نے پھر چلا کر کہا:
”باپو ایسی نیکی کس کام کی جس سے اپنی جان پر بن جائے۔ باپو کھیت نہ جلاؤ۔“
”یہ کھیت جلنے ہی کے لیے تھے۔“
”یہ ظلم ہے باپو! اپنی جان کا نہیں تو میری ہی جان کا خیال کرو! ہم کیا کھائیں گے؟“
”نیکی کھائیں گے۔“
یامو نے جب یہ جواب سنا تو سر پیٹ کر رہ گیا، وہ کر ہی کیا سکتا تھا؟ جانتا تھا کہ اس کا باپ دھن کا پکا ہے۔ دوسروں کے لیے تو وہ جان بھی قربان کر دے گا۔ اسے سمجھانا بے کار تھا۔ اس نے عمر بھر کچھ نہیں کیا بس درویشوں کی سی زندگی بسر کی۔
ادھر آگ کے شعلے بلند ہوئے اور ادھر گاؤں کے لوگ گھروں سے نکلنے لگے۔ گویا آگ کا مطلب، بھونچال کی خبر ہے۔ ہر ایک نے جھٹ پٹ بوریا بستر اور جانوروں پر سامان لادا اور پہاڑی کی جانب آگئے۔ ہر ایک نے صرف ضروری ضروری سامان لیا۔ ویسے بھی غریبوں کی بستی تھی سب کے پاس تھوڑا تھوڑا سامان تھا۔ انھوں نے اس میں کچھ چیزیں گھروں میں ہی رہنے دی، البتہ کوئی ضروری چیز نہ چھوڑی۔
لوگ گھروں سے نکل کر کچھ دور ہی گئے تھے کہ کھیتوں میں پانی آنے لگا۔ انھیں بھلے وقت پتا لگ گیا۔ذرا اور دیر لگتی تو سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جاتا اور انھیں خالی ہاتھوں گھر سے نکلنا پڑتا۔
جس وقت لوگ پہاڑی کے اوپر چڑھ آئے اور شگاف تک آ پہنچے تو پورا گاؤں زیر آب آگیا۔ گلیوں میں نالے بہنے لگے اور پانی گھروں میں بھی گھس آیا۔ اتنے میں دھان کے کھیت جل کر راکھ ہوچکے تھے۔ ان میں دھواں اٹھ رہا تھا۔ سب لوگوں کو ہاماگوچی کے کھیتوں کا صدمہ تھا۔ ہر ایک ہاما گوچی کی تعریف کر رہا تھا اور اسے دعائیں دے رہا تھا۔
لوگ ابھی شگاف کی دوسری طرف آنے کی تدبیریں ہی کر رہے تھے کہ ہاماگوچی ایک لمبا اور موٹا سارسا لے آیا۔ سب لوگوں نے اسے دیکھتے ہی سلاموں کی بوچھاڑ کر دی۔ جب یامو نے دیکھا کہ لوگ ہاماگوچی کے کس قدر شکر گزار ہیں اور اسے کتنا اچھا سمجھتے ہیں تو اس کا سارا غصہ جاتا رہا۔
ہاماگوچی نے مسکرا مسکرا کر سب کے سلاموں کا جواب دیا اور جب لوگ خاموش ہوئے تو اس نے رسا دہرا کیا اور پھر ایک سرا دوسری طرف پھینک دیا اور ایک سرا خود پکڑ لیا۔ یا مو کو بھی ساتھ ملا لیا۔ پھر ایک ایک کرکے چار پانچ آدمی رسے سے لٹک لٹک کر شگاف کے پار آگئے۔
ہاماگوچی کے کہنے پر سب لوگ کلہاڑے لے کر اس کے مکان پر پہنچے اور انھوں نے لکڑی سے بنا ہوا مکان جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ زمین پر مضبوط مضبوط تختوں اور شہتیروں کا ڈھیر لگ گیا۔ سب لوگ تختے اور شہتیر اٹھا اٹھا کر شگاف کے پاس لے گئے۔ انھوں نے شگاف پر تختے اور شہتیر ڈال دیے اور ایک پل بن گیا۔ اب مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سبھی پل پر سے گزرنے لگے۔ لوگ باگ اپنے جانور اور سامان بھی حفاظت سے لے آئے۔
جب یہ لوگ بہ خیر و عافیت آگئے تو ہاماگوچی کا دل باغ باغ ہوگیا۔ اس کی بہت بڑی آرزو پوری ہوئی۔ کتنی ہی بار اس کا جی چاہا کہ وہ اپنا سب کچھ لٹا دے اور لوگوں کے کام آئے، لیکن اس کا موقع نہیں ملا۔ آج ہی موقع ملا اور اس نے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ دھان کے کھیت رہے نہ مکان رہا،لیکن وہ پھر بھی بہت مطمئن تھا۔ اسے اپنے نقصان کا ذرا افسوس نہ تھا۔
پہاڑی پر ایک گاؤں آباد ہوگیا۔ لوگ ادھر ادھر بکھر گئے۔ انھوں نے اپنے لیے معمولی معمولی جھونپڑے بنا لیے لیکن ہاماگوچی کے لیے انھوں نے ایک شان دار مکان تعمیر کیا۔ یہ مکان پہلے مکان سے زیادہ بڑا اور زیادہ خوش نما تھا۔ ایک طرف انھوں نے گائے کا تھان بھی بنا دیا اور سب سے اچھی گائے وہاں باندھ دی۔ اول اول تو ہاماگوچی نے کوئی شے قبول نہ کی،لیکن جب انھوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا تو اس نے مناسب نہ سمجھا کہ ان کی دل شکنی کرے۔
لوگوں نے شگاف بھی پُر کر دیا۔ اس میں پھل دار پیڑوں کے پودے لگا دیے۔
سیلاب چلا گیا تو کچھ لوگ وہیں رہ گئے،اور کچھ واپس چلے گئے۔ ہاماگوچی کی نیکی کا بدلہ تو ادا نہ کیا لیکن لوگوں نے آپس میں تھوڑے تھوڑے اکٹھے کرکے زبردستی اس کی کوٹھی بھر دی۔ ہاماگوچی نے بہت منع کیا لیکن انھوں نے اس کی ایک نہ سنی۔اس کا خیال تھا کہ یوں اس کی نیکی رائیگاں چلی جائے گی۔ دھان کے بدلے دھان لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اپنی نیکی بیچ دی، لیکن گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ اس کی نیکی اپنی جگہ قائم رہے گی اور اس کی نیکی کا پورا پورا صلہ ملے گا۔
پھر یامو نے بھی باپ کو سمجھایا اوردھان لوٹانے سے باز رکھا۔ پانی سوکھ گیا۔ لوگوں نے کچے دھان کاٹ لیے اور بڑی دھوم سے جشن منایا، ہاماگوچی کے اعزاز میں دعوت دی اور پھر اس کی شان میں نعرے لگائے۔
ہاماگوچی کو لوگ فرشتہ کہنے لگے۔ وہ اٹھ کر اس کے حق میں دعائیں مانگتے۔
آج تک لوگ ہاماگوچی کو یاد کرتے ہیں۔ ہاماگوچی اب اس دنیا میں نہیں، لیکن اس کی نیکی دلوں میں موجود ہے۔ آج بھی گاؤں والے اپنے بچوں کو اس کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top