skip to Main Content

جن کی خواہش

جبار توقیر
۔۔۔۔۔

پہاڑی کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جسے خوشی پور کہتے تھے۔ گاؤں کے لوگ بڑے محنتی اور ہنس مکھ تھے۔ مگر اپنی اس خوبی کے باوجود بڑے پریشان رہتے تھے۔ کیوں کہ آئے دن اُن کی گلیوں میں ٹخنے ٹخنے پانی چڑھ آتا تھا۔
اس کے وجہ یہ تھی کہ پاس کی پہاڑی پر ڈنگڈم نامی جن رہتا تھا جو پاگل تو نہیں تھا مگر اُس کی ایک خواہش پاگلوں جیسی ضرور تھی۔ اُسے اپنے درخت جتنے اونچے قد سے سخت نفرت تھی۔ وہ بڑا بھلا مانس اور شریف جن تھا اور چاہتا تھا کہ اُس کا قد عام لوگوں جتنا ہو جائے، تا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل جُل کر زندگی گزارے۔ مگر اُس کی یہ خواہش کسی طرح بھی پوری نہ ہوتی تھی۔جب بھی جن کی اپنے بانس جیسے قد پر نظر پڑتی وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا اور جب وہ روتا تو گاؤں کی گلیاں پانی سے بھر جاتیں۔پانی سے بچنے کے لیے گاؤں کے لوگ ہمیشہ گھٹنوں تک اونچے جوتے پہنے رہتے تھے۔ڈنگڈم کئی دفعہ بادشاہ کی فوج میں شامل ہو کر دُشمنوں کے دانت کھٹے کر چکا تھا۔ اس لیے جب بادشاہ کو معلوم ہوا کہ وہ بہت دُکھی ہے تو وہ اس سے ملنے کے لیے آیا۔
”کیا بات ہے ڈنگڈم؟ہم نے سُنا ہے تم بہت پریشان رہتے ہو۔“بادشاہ نے پوچھا۔
”حضور! میرا دل چاہتا ہے کہ میں انسانوں میں مل جل کر رہوں مگر وہ مجھ سے ڈرتے ہیں کیوں کہ میرا قد ان سے بہت لمبا ہے۔“جن نے کہا۔
”ارے میاں تمھیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمھارا قد اتنا بڑا ہے۔“بادشاہ کے وزیر نے کہا۔
”نہیں نہیں میں اتنا بڑا نہیں رہنا چاہتا۔ میں انسانوں جیسا ہونا چاہتا ہوں۔ لوگ مجھ سے خوفزدہ ہو کر بھاگ جاتے ہیں حالاں کہ میں ان سے محبت کرنا چاہتا ہوں۔“ ڈنگڈم نے کہا۔
”بہت بہتر ڈنگڈم! ہم تمھارے لیے کوئی تجویز سوچیں گے۔“ بادشاہ نے ڈنگڈم کو تسلی دی۔محل میں واپس آ کر بادشاہ نے فوراً شاہی جادو گر شپ شپ کو بلایا۔”جانتے ہو شپ شپ ہم نے تمھیں کیوں بلایا ہے؟“ بادشاہ نے شپ شپ سے پوچھا۔
”بندہ تو صرف حکم کا منتظر ہے۔“ شپ شپ نے سر جھکا کر کہا۔ وہ بہت بڑا جادو گر تھا مگر بادشاہ کا ادنیٰ غلام سے بھی زیادہ فرماں بردار تھا۔
”تم خوشی پور کی پہاڑی والے جن ڈنگڈم کو جانتے ہو؟“ بادشاہ نے پوچھا۔
”جی حضور! میں نے اُس کا نام کئی بار سُنا ہے۔“شپ شپ نے جواب دیا۔
”اس کا قد بہت لمبا ہے، اسے چھوٹا کرنے کی کوئی دوا تیار کرو۔“بادشاہ نے حکم دیا۔
”جو حکم عالی جاہ!“ شپ شپ نے سر جھکا کر کہا۔
”ہمیں ایک ہفتے کے اندر اندر دوا مل جانی چاہیے۔“ بادشاہ نے کہا۔
جادو گر سوچ میں ڈوبا ہوا اپنے گھر پہنچا۔ اُس نے بہت سی رنگ برنگی بوتلوں میں سے سفوف نکالے اور کڑاہی میں ڈال دیے۔ پھر اس کے نیچے آگ جلا دی۔ جب آگ تیز ہو گئی تو اُس نے چولھے کے گردنا چنا شروع کر دیا۔ و ہ ناچتا جاتا تھا اور گاتا جاتا تھا:

جڑی بوٹی، جڑی بوٹی
پیس پیس کر میں نے کوٹی
کوٹ کوٹ کر بن گیا میدہ
مرے گا جو بھی ہوا ہے پیدا
لیکن پیدا کرنے والے
اے مرے پیدا کرنے والے
ڈنگڈم کا قد چھوٹا کر دے

اس کے بعد شپ شپ نے اس سفوف، کی انڈے کے برابر ایک گولی بنائی اور بادشاہ کے پاس پہنچا اور پھر سارے امیر، وزیر، بادشاہ کے ساتھ خوشی پور گئے۔
”ہم اپنا وعدہ پُورا کرنے آئے ہیں ڈنگڈم! لو یہ گولی کھا لو! اس کے کھانے سے تمھارا قد عام آدمیوں جتنا ہو جائے گا۔“ بادشاہ نے کہا۔
شپ شپ نے گولی ڈنگڈم کے حلق میں ڈال دی اور پھر سب لوگ بڑے غور سے اس کو دیکھنے لگے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ گولی سے ڈنگڈم کا قد چھوٹا ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ اُس کا جسم تو ویسے کا ویسا ہی رہا، البتہ اُس کی گز بھر لمبی ناک چھوٹی ہونی شروع ہو گئی اور یہاں تک چھوٹی ہوئی کہ چہرے پر ناک کی جگہ ایک نقطہ سا باقی رہ گیا۔
ڈنگڈم نے گھبرا کر اپنی ناک ٹٹولی اور جلدی سے آئینہ دیکھا۔ جب اُسے اپنی ناک کا اتنا بُرا حشر نظر آیا تو وہ بے تحاشا رونے لگا۔ اس کے رونے سے خوشی پور کی گلیوں میں ایک بار پھر سیلاب آگیا۔ یوں کہ اس کا ایک بُوند آنسو کا وزن ایک گھڑے سے کم نہ تھا۔ بادشاہ اور وزیر بھی گھٹنوں تک پانی میں ڈوب گئے۔
”شپ شپ!“ بادشاہ نے غضب ناک ہو کر جادو گر کو آواز دی۔
”عالی جاہ!“شپ شپ کانپتا ہوا آ گے بڑھا۔
”ڈنگڈم کی ناک کہاں گئی؟“ بادشاہ نے پوچھا۔
”حضور! یہ سب اس گولی کا اثر ہے اس کی ناک ذرا چھوٹی ہو گئی ہے۔“جادو گر نے کہا۔
”شپ شپ تم کہتے ہو اس کی ناک ذرا سی چھوٹی ہوئی ہے۔ ارے بے وقوف! یہ تو بالکل ہی غائب ہو گئی ہے۔ ڈنگڈم رو رہا ہے۔ اس کے آنسوؤں سے خوشی پور میں سیلاب آ گیا ہے اور ہم گھٹنوں تک پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ اس کی ناک فوراً ٹھیک کرو ورنہ ہم تمھیں پھانسی پر چڑھا دیں گے۔“ بادشاہ نے غصے سے کانپتے ہوئے کہا۔
”بہت بہتر عالی جاہ!“شپ شپ نے خوفزدہ ہو کر کہا اور جلدی جلدی یہ منتر پڑھنے لگا:

”ہڑب۔ ہڑب۔ہڑب
اے کان۔ اے کان۔اے کان“

جن کامطلب یہ تھا کہ اے ناک بڑا ہو جا۔ اُس نے منتر پڑھ کر ڈنگڈم کی ناک پر زور سے پھونک ماری تو ناک پہلے جیسی ہو گئی۔بادشاہ مایوس ہو کر واپس آ گیا۔ گولی ناکام ہو گئی تھی۔ شپ شپ کی جادو گری کا بھرم کھل گیا تھا۔ اب ڈنگڈم پہلے سے بھی زیادہ اُداس رہنے لگا۔ کیوں کہ اس کے دُکھ کا کوئی علاج نہ تھا۔چند دن بعد شپ شپ نے ایک دو سیر وزنی گولی بنائی اور بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوا۔
”یہ کیا لائے ہو،شپ شپ؟“ بادشاہ نے گولی دیکھ کر پوچھا۔
”حضور میں ڈنگڈم کے لیے ایک اور گولی لایا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اسے کھا کر اُس کا قد ضرور چھوٹا ہو جائے گا۔“شپ شپ نے کہا۔
”اگر یہ بات ہے تو پھر ہم آج ہی خوشی پور چلیں گے۔“ بادشاہ نے کہا اور امیروں، وزیروں کو کوچ کا حکم دے دیا۔خوشی پور پہنچ کر شپ شپ نے بادشاہ کے سامنے ڈنگڈم کو وہ گولی کھلائی تو ہر شخص حیرت زدہ رہ گیا۔ کیوں کہ ڈنگڈم کا قد ایک دم گھٹنے لگا اور آدھ گھنٹے کے اندر اندر اُس کا قدعام انسانوں جیسا ہو گیا۔ مگر گھٹنے کی یہ رفتار جاری رہی اور اس کا قد اور چھوٹا اور چھوٹا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ چھوٹا سا بچہ دکھائی دینے لگا۔کہاں تو ڈنگڈم کا قد تنا ور درخت جتنا اُنچا تھا اور کہاں وہ اب دو سال کا بچہ نظر آ رہا تھا۔ اس پر بھی اُس کا قد ابھی گھٹ رہا تھا۔ بادشاہ یہ تماشا دیکھ کر بہت پریشان ہوا، اور گرج کر بولا:
”شپ شپ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟ اس سے پہلے کہ ڈنگڈم بالکل ہی ختم ہو جائے کوئی علاج کرو۔ ورنہ میں تمھیں ابھی قتل کر دوں گا۔“
شپ شپ بے چارہ کانپتا ہوا ڈنگڈم کی طرف لپکا اور اس کے جم پر ایک سفوف چھڑکنے لگا۔ ساتھ کے ساتھ یہ منتر بھی پڑھتا جاتا تھا:

”کُر۔ کُر۔ کُر۔ ڈنگڈم کُر
یادق کر۔ یادق کر۔ ڈنگڈم رُک“

جس کا مطلب یہ تھا کہ اے ڈنگڈم رُک۔ اے ڈنگڈم کے قد رُک۔ اور اصلی حالت پر آجا۔ تھوڑی دیر میں ڈنگڈم کا قد پھر بڑا ہونے لگا اور چند ہی لمحوں میں وہ اپنی اصلی حالت پر آ گیا۔
”یہ کیا مذاق ہے شپ شپ؟ کبھی تم اس بے چارے کو چھوٹا کر دیتے ہو، کبھی بڑا۔ میں تمھیں اس شرارت کی سخت سزا دوں گا۔“بادشاہ نے کہا۔
”عالی جاہ! میرا کوئی قصور نہیں۔ دوا کے اجزا میں زیادتی یا کمی ہو جاتی ہے۔“ شپ شپ نے کہا۔
”واہ تمھاری دوا میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ اور ڈنگڈم کی جان پر بن جاتی ہے۔ تم سخت نا لائق آدمی ہو۔ تمھارا یہ علم بالکل فضول ہے۔“ بادشاہ نے کہا۔
”نہیں حضور! میرا علم صحیح ہے۔ میں ایک دفعہ پھر کوشش کروں گا اور مجھے اُمید ہے کہ اب ڈنگڈم کی خواہش پوری ہو جائے گی۔“شپ شپ نے کہا۔
جادو گر کی یہ بات سن کر ڈنگڈم زار زار رونے لگا اور بولا:”نہیں نہیں۔ میں اب کوئی گولی نہیں کھاؤں گا۔ میرا جوڑ جوڑ درد کر رہا ہے مجھ سے اب کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا۔ میں اب بالکل گولی نہیں کھاؤں گا۔“
”شپ شپ کوئی اور تجویز سوچو۔ گولیوں سے کام نہیں چلے گا اور ڈنگڈم تم آرام کرو۔ اور رونا بند کر دو۔ ورنہ خوشی پور میں پھر سیلاب آ جائے گا۔“ بادشاہ نے کہا۔
شپ شپ گھر جا کر دن رات اس کوشش میں لگا رہا کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا نسخہ ہاتھ آ جائے، جس سے ڈنگڈم کا قد عام انسانوں جتنا ہو جائے۔ آخر کار اس نے ایک ایسا شیشہ ایجاد کیا جسے آنکھوں پر لگانے سے چیزیں بڑی نظر آتی تھیں۔ شپ شپ بہت خوش ہوا اور وہ بادشاہ کو ساتھ لے کر ڈنگڈم کے پاس جا پہنچا۔
”لے بھی ڈنگڈم! اب تیری خواہش پوری ہو جائے گی۔ تو ذرا اس عینک کو آنکھوں پر لگا کر دیکھ۔ تجھے عجیب کرشمہ نظر آئے گا۔“ شپ شپ بولا۔
ڈنگڈم نے عینک آنکھوں پر لگائی تو خوشی سے دیوانہ ہو کر ناچنے لگا۔ اسے اپنے سامنے بیٹے ہوئے لوگ اپنے ہی جتنے بڑے دکھائی دے رہے تھے۔وہ قہقہہ لگا کر بولا:
”اب سب لوگ میرے برابر ہو گئے ہیں۔ میں تو چھوٹا نہ ہو سکا، البتہ انسان میرے جتنے بڑے ہو گئے۔ خدا تمھارا بھلا کرے شپ شپ! اب میں خوشی پور کے لوگوں کے ساتھ رہا کروں گا۔“ ڈنگڈم خوشی پور میں ہنسی خوشی رہنے لگا۔ پھر کبھی اُس کی آنکھوں سے ایک آنسو نہ ٹپکا اور خوشی پور کی گلیاں ہمیشہ کے لیے سیلاب سے محفوظ ہو گئیں۔

٭٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top