جادو کا چراغ
کہانی: I wish, I wish
مصنف: Paul Shipton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
سنی نے کئی بار پیسے گنے لیکن ہر بار نتیجہ ایک جیسا رہا۔ اُن پیسوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک پاؤنڈ چونتیس پنس اور بس…!
”تمہیں پیسے احتیاط سے خرچ کرنے چاہئیں۔“اس کے بھائی وکی نے کہا۔”پیسے جمع کیا کرو۔ وہ چیزیں مت خریدا کرو جن کی تمہیں ضرورت نہ ہو۔“
و کی ہمیشہ اچھی نصیحتیں کرتا تھا لیکن سنی بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑاد یتا تھا۔
”مجھے دیکھو! میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں، روز اسکول جانے سے پہلے لوگوں کے گھروں میں اخبار دینے جاتا ہوں اور جو پیسے ملتے ہیں، انہیں جمع کرتا رہتا ہوں تا کہ کوئی ضرورت کی چیزخرید سکوں۔“
سنی کو رقم جمع کرنا تو اچھا لگتا تھا لیکن پیسے کمانے کا خیال اُسے پسند نہیں تھا۔ وہ سوچتا کہ کیا مشکل ہے؟ کوڑھ مغز بچوں کو ٹیوشن پڑھانا یا صبح سویر ے گرم بستر سے نکل کر باہر سردی میں اخبار دینے جانا۔نہیں…ہرگز نہیں!
”امی کی سال گرہ آرہی ہے اور انھیں تحفہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ سنی،وکی کی باتیں ان سنی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔
”ظاہر ہے! پیسہ کمانے اور محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ محنت تم کرنا نہیں چاہتے۔“ وکی بولا۔
سنی نے ٹھنڈی سانس بھری لیکن پھر اچانک ہی اُس کے دماغ میں ایک زبر دست خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر پرانے سامان کی دُکان سے وہ اپنی امی کے لیے کوئی تحفہ لے آئے۔
”اصل تو انسان کی نیت ہوتی ہے!سستا، مہنگا کیا ہوتا ہے؟“ اس نے خود سے کہا۔
پندرہ منٹ بعد وہ پرانے سامان کی دُکان پر کھڑا تھا۔ یہاں اسے پرانی میزیں، کرسیاں، تصاویر اور سامان آرائش نظر آیا۔ زیادہ تر چیزیں بہت ردی حالت میں تھیں،پھر سنی کو اچانک ایک زنگ آلود چراغ نظر آ گیا۔
”امی کو نوادرات سے خاصی دل چسی ہے اور یہ زنگ آلود چراغ بہت نادر معلوم ہوتاہے۔“ اس نے سوچا۔
”یہ کتنے کا ہے؟“ سنی نے دُکان دار سے پوچھا۔
”ایک پاؤنڈ اور چونتیس پنس“۔ دکان دار کا جواب سن کر سنی خوش ہو گیا۔
”آپ ایسا کریں، یہ چراغ مجھے دے دیں۔“ اُس نے فوراً اپنی کل جمع پونجی دُکان دار کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
دکان سے نکل کر اُس نے چراغ اپنی بائیک کی باسکٹ میں احتیاط سے رکھا اور روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ایک بہت بڑی کاردکان سے باہر آ کر ر کی۔ ایک لمبا چوڑا شخص قیمتی سوٹ پہنے کارسے باہر آیا۔ اُس نے سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔
”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے امیر لوگ بھی کباڑیے کی دُکانوں سے خریداری کرتے ہوں گے۔“ سنی نے حیران ہو کر سوچا۔ پھر اُس نے بائیک اسٹارٹ کی لیکن فوراً ہی اسے اپنے پیچھے کا رکا ہارن سنائی دیا۔
یہ وہی بڑی کا رتھی جو اُس نے دُکان کے باہر دیکھی تھی۔ کار اُس سے آگے نکل گئی اور پھر اُس کا راستہ روک لیا۔ سنی نے بڑی مشکل سے بریک لگائے۔ کار کی کھڑکی کھلی اور لمبے چوڑے شخص نے باہر جھانکا۔
”اس حرکت کا مطلب؟ ابھی ایکسیڈنٹ ہوتے بچا ہے۔“سنی نے غصے سے کہا۔
”بہت معذرت! میرا ڈرائیور بعض اوقات بہت بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتا ہے۔“ آدمی نے مسکرا کر کہا اور دوبارہ گویا ہوا:
”مجھے اپنا تعارف کرانے دیجیے۔ میرا نام بلڈ ہاؤنڈ ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اُس کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔
سنی جانتا تھا کہ اسے اجنبیوں سے بات نہیں کرنی چاہیے۔ اسی لیے اُس نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کر دی لیکن بلڈ ہاؤنڈ نے جلدی سے کہا:
”تم یقینا حیران ہورہے ہو گے کہ ہم نے تمہارا راستہ کیوں روکا؟ تو سنو! میں کئی برس سے ایک خاص چیز کی تلاش میں تھا۔ آج مجھے پتا چلا کہ وہ چیز اس دُکان پر مل سکتی ہے، لیکن جب میں اس دُکان پر آیا تو مجھے پتا چلا کہ تم وہ چیز پہلے ہی خرید چکے ہو۔“
”اوہ! تو یہ چراغ کا چکر ہے مگر میں یہ چراغ نہیں دوں گا۔“ سنی نے کندھے اچکائے۔
”میرے خیال میں تم میری بات سمجھے نہیں۔“ بلڈ ہاؤنڈ کی آواز سر د ہوگئی۔”پیسوں کے لحاظ سے اس چراغ کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن مجھے اس چراغ سے ایک ذاتی لگاؤ ہے۔ اس لیے میں تم سے یہ چراغ خرید نا چاہتا ہوں۔“
”بہت معذرت!میں یہ چراغ بیچنا نہیں چاہتا۔“سنی نے کہا۔
”سو پاؤنڈ میں بھی نہیں؟“
سنی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
”سو پاؤنڈ!“
چراغ باسکٹ سے نکال کر اُس کے حوالے کرنے ہی والا تھا کہ اُس نے بلڈ ہاؤ نڈ کی آنکھوں میں لالچ کی چمک دیکھی۔ وہ یک دم ٹھٹک گیا۔
”نہیں! ہو سکتا ہے یہ چراغ سو پاؤنڈ سے زیادہ قیمتی ہو۔“ اس نے سوچا اور پھر تیزی سے اپنا سرنفی میں ہلا دیا۔
”ایک ہزار پاؤنڈ؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے بولی لگانے والے انداز میں کہا۔
سنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ شاید یہ کوئی ان مول چراغ ہے اور پھر اس شخص کا چہرہ کس قدر سفاک اور مکر وہ لگ رہا ہے۔ چناں چہ اس نے پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
بلڈ ہاؤنڈ کی بھنویں تن گئیں، اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھ کر وہ چلایا:
”بہت ہو گیا! اس لڑکے سے چراغ چھین لو!“
ڈرائیور گاڑی سے اُترا اور اُس کی طرف لپکا۔ وہ سنی سے بہت طاقت ور تھا لیکن جب سنی بائیک پر سوار ہو تو اُس کی تیز رفتاری کو شکست نہیں دی جا سکتی، پھر یہی ہوا۔ جلد ہی وہ اُن کی پہنچ سے دُور تھا۔
ساتھ ہی سنی نے گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ یقینا وہ لوگ کار میں اُس کا تعاقب کر رہے تھے۔ اُس نے جلدی سے اپنی بائیک پتلی تنگ گلیوں میں گھسا دی تا کہ کار والے اُس تک نہ پہنچ سکیں۔ آخر کار وہ کئی گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا۔
وہ و کی کو یہ سارا واقعہ سنانے کے لیے بے چین تھا لیکن گھر آ کر پتا چلا کہ اس کا بھائی ٹیوشن پڑھانے جا چکا ہے۔ اُس نے چراغ میز پر رکھ دیا۔ یہ ایک عام سا چراغ لگ رہا تھا لیکن سنی جانتا تھا کہ یہ یقینا بے حد قیمتی چراغ ہے جب ہی تو بلڈ ہاؤنڈ اسے ہر حالت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سنی نے دل ہی دل میں منصوبہ بندی کر لی۔ وہ پہلے اپنی امی کو یہ چراغ بطور سال گرہ تحفہ دے گا۔
پھر وہ اسے نوادرات کے کسی ماہر کے پاس لے کر جائیں گے تا کہ چراغ کی اصل قیمت کا علم ہو سکے اور پھر… اُف!وہ کتنے امیر ہو جائیں گے۔ وہ خیالوں کی دُنیا میں گم تھا۔
اُس نے جھاڑن اُٹھا کر چراغ کو صاف کرنا شروع کیا لیکن اچانک کمرے میں جیسے بجلی چمکنے لگی ہو۔ پرانی جرابوں کی تیز بد بو آئی اور پھر کمرے میں دُھواں بھر گیا۔ جوں ہی دھواں چھٹا، اُس نے دیکھا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک عجیب و غریب سا آدمی تھری پیس سوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لیے میز کے سامنے کھڑا ہے اور اُس کا قد اتنا لمبا ہے کہ سر چھت سے ٹکرا رہا ہے۔
”کیا حکم ہے میرے آقا! میں اس چراغ کا جن ہوں اور آج کے دن آپ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں۔“ اس نے گونج دار آواز میں کہا۔
سنی کچھ دیر کے لیے حیران و پریشان ہوا لیکن وہ ڈرنے والا نہیں تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُس نے اپنے او پر قابو پالیا۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ بول پاتا، جن کہنے لگا:
”اب میں ذرا آپ کو اپنی خواہشات ظاہر کرنے کے اصول سمجھا دوں۔“
”جی نہیں… شکریہ! میں اس بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا ہوں۔ میں کوئی سی بھی تین خواہشات کر سکتا ہوں۔“ سنی نے اُس کی بات کاٹ دی۔
”او ہو!نہیں بھئی! یہ سسٹم آج سے دو سو سال پہلے ہماری جن یونین نے ختم کر دیا تھا۔ اب جو نیا سسٹم آیا ہے، اُس کے مطابق چراغ کا مالک دو گھنٹے کے اندر کوئی بھی خواہش کر سکتا ہے۔ دو گھنٹے کے بعد جن دوبارہ چراغ میں واپس چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر اصول و قوانین کچھ یوں ہیں…“
”ٹھیک ہے… ٹھیک ہے۔“ سنی نے ایک بار پھر اُس کی بات کاٹ دی:
”زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس دو گھنٹے ہیں۔ کیا تم مجھے دس لاکھ پاؤنڈ دے سکتے ہو؟“
”ہاں!“ جن نے اکتاہٹ سے بھر پور لہجے میں کہتے ہوئے سرد آہ بھری اور چٹکی بجائی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔
”یہ کیا بھئی؟“ سنی نے مایوسی سے کہا۔
”کیا مطلب؟ تو کیا تمہارے سامنے سونے کے سکوں سے بھرا ہوا کوئی صندوق آ جاتا ابھی؟ ہم اب ان پرانے طریقوں سے کام نہیں کرتے۔ اپنی جیب میں دیکھو!“ جن نے براسامنہ بنایا۔
سنی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ برآمد ہوا۔ یہ اُس کے بینک اکاؤنٹ کا اسٹیٹمنٹ تھا۔
”دس لاکھ پاؤنڈ اور تین پنس۔“ اُس نے با آواز بلند بیلنس پڑھا۔
”تین پنس تمہارے اکاؤنٹ میں پہلے سے موجود تھے۔“ جن نے وضاحت کی۔
سنی نے خوشی سے ہاتھ ملے۔ اُس کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ جب وکی ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹا تو حیران و پریشان رہ گیا۔ اُس کے گھر کی جگہ سنگ مرمر کا ایک عالی شان محل کھڑا تھا۔ وہ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا تو اُس کی حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ کیا وہ راستہ بھٹک کر کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہے! وہ واپس جانے کے لیے مڑہی رہا تھا کہ ا سے کچن سے سنی کی آواز سنائی دی:
”ہیلو! و کی بھائی!!“
”یہ… یہ سب کیا ہے سنی؟“ اُس نے کچن میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
”میرے نئے دوست سے ملوو کی!“ سنی نے جن کی طرف اشارہ کیا تو وکی جن کو دیکھتے ہی خوف سے بے ہوش ہو گیا۔
جب اُسے ہوش آیا تو جن بدستو ر وہاں موجود تھا۔
”دوبارہ بے ہوش نہ ہونا! میں بتاتا ہوں، یہ کیا معاملہ ہے!“سنی نے جلدی سے کہا اورساری تفصیل وکی کو سنادی۔
”لیکن کیا ہمارے پڑوسی یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوئے؟“وکی نے کہا۔
سنی مسکرایا۔
”بہت آسان بات ہے۔ میں نے خواہش کی ہے کہ یہ سب تبدیلیاں ہم گھر والوں کے سوااور کسی کو نظر نہ آئیں۔“
”اوہ! امی ابو شام کو آئیں گے تو یہ دیکھ کر کتنا حیران ہوں گے؟“ وکی نے کہا۔
”ہاں! اور میرے بھائی! آج تمہارا خیال بھی غلط ثابت ہو گیا ہے۔ بعض دفعہ ہم بغیر محنت اور بغیر پیسے کے بھی بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔“ سنی نے فخر سے کہا۔
یہ سن کر جن آہستہ سے کھنکھارا:
”کیا کہا؟ بغیر محنت اور پیسے کے؟“
”ہاں…تو اور کیا؟“سنی نے کہا۔
”تمہارا خیال بالکل غلط ہے۔ میں تمھیں چراغ استعمال کرنے کے سارے اصول وضوابط شروع میں ہی سمجھانے جارہا تھا لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ ”جن یونین“ نے قوانین میں بہت ترمیم کی ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ جو بھی کام کریں گے، اُس کا معاوضہ خواہش کرنے والے سے وصول کریں گے۔ ہم کیوں مفت میں دوسروں کے کام کرتے پھریں؟ دو گھنٹے پورے ہوتے ہی ہم خواہش کرنے والے کو بل پیش کر دیتے ہیں۔“
”بل؟ یعنی مجھے ان سب چیزوں کی قیمت ادا کرنی ہوگی؟“سنی چلایا۔
”بالکل! اور یہ تو تمھیں معلوم ہی ہوگا کہ محل اتنے سستے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سب چیزیں جو اس وقت یہاں نظر آرہی ہیں۔“ جن مسکرایا۔
وکی نے مایوسی سے سر ہلایا۔ اُس کا چھوٹا بھائی ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔
”اور بل کہاں ہے؟“ سنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
جن نے اپنی جیب سے بل نکالنا شروع کر دیا جو اتنا لمبا تھا کہ کمرے کے دروازے سے باہر تک چلا گیا۔سنی کا رنگ پیلا پڑ گیا۔
”اگر میں یہ خواہش کروں کہ مجھے یہ پورابل بھرنے کے پیسے مل جائیں تو؟“ اس نے جلدی سے پوچھا۔
”تو اس خواہش کے نتیجے میں جو پیسے ملیں گے تمھیں وہ بھی لوٹانے ہوں گے۔“ جن ایک بار پھر مسکرایا۔
”اوہ! اب میں کیا کروں؟ کیا اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟“سنی نے سرپکڑ لیا۔
”ایک راستہ یہ ہے کہ تم ہماری اس فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دو جہاں ہم یہ خواہشاتی محل اور دیگر سامان تیار کرتے ہیں۔ ایک منٹ!“
یہ کہہ کر جن نے جیب سے کیلکو لیٹر نکالا:
”تم اگر بارہ ہزار آٹھ سو آٹھ سال اس فیکٹری میں کام کرو تو یہ بل ادا ہو سکتا ہے۔“ اس نے حساب لگا کر بتایا۔
”لیکن یہ نا ممکن ہے۔“ سنی نے رو کر کہا۔
”قانون تو پھر قانون ہے۔ اگر یہ بل ادانہ ہوا تو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔“ جن نے کندھے اچکائے۔
سنی نے بے بسی سے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دو گھنٹے پورے ہونے میں صرف چالیس منٹ باقی تھے۔
”کیا تمہارے پاس یہ نئے قوانین کتابی شکل میں موجود ہیں؟“وکی نے کچھ سوچ کر کہا تو جن نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پتلی سی کتاب نکالی اور وکی کے ہاتھ میں تھما دی۔
وکی جلدی جلدی ورق گردانی کرنے لگا۔ بظاہر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر اچانک وکی کو ایک کام کی شق نظر آہی گئی۔
”اگر چراغ کا مالک دو گھنٹے سے قبل چراغ کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دے لیکن یہ وہ شخص نہیں ہو سکتا جس سے اُس نے چراغ خریدا ہے تو اُس کی تمام خواہشات صفر ہو جائیں گی اور معاہد ہ ختم ہو جائے گا۔“ اس نے با آواز بلند پڑھا۔
”اس کا کیا مطلب ہے؟“سنی نے سر کھجایا۔
”مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے یہ چراغ دو گھنٹے سے پہلے فروخت کر دیا تو یہ محل و دیگر سامان غائب ہو جائے گا اور تمھیں اس کا بل ادا نہیں کرنا پڑے گا لیکن تم اب یہ چراغ دوبارہ اُس دُکان پر نہیں بیچ سکتے جہاں سے خریدا تھا۔ سوال یہ ہے کہ تم اسے بیچو گے کہاں؟ تمہارے پاس صرف بیس منٹ رہ گئے ہیں۔“ وکی نے پریشان ہو کر کہا۔
سنی کے دماغ میں ایک جھما کا سا ہوا:
”بلڈ ہاؤنڈ! وہ اس چراغ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ چراغ اُس کو بیچ سکتا ہوں لیکن مجھے اُس کا گھر معلوم نہیں ہے۔“ اس نے اپنے بھائی کو جلدی جلدی بتایا۔
”جن بھائی! کیا تم مجھے اُس کے گھر لے جاسکتے ہو؟“
”نہیں! ہمارے قانون کی ایک شق کہتی ہے کہ ہم چراغ کا نیا گا ہک ڈھونڈ نے میں کوئی مدد نہیں کر سکتے ہیں۔“ جن نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”سنی! کیا تمھیں اس کی گاڑی کا نمبر یاد ہے؟“ وکی نے پوچھا۔
”ہاں!بی بی ایکس دو سو چھ۔“ سنی کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ وکی کی بھی کم نہ تھی۔ وہ یہ نمبر سنتے ہی اُچھل پڑا۔
”سنی! اس گاڑی کا مالک یہاں سے چار گلیوں کے فاصلے پر جو مارکیٹ ہے، اُس کے پیچھے واقع ایک بنگلے میں رہتا ہے۔ میں اس کے برابر والے گھر میں ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں، یہ لو ایڈریس!“ وکی نے جلدی سے ایک کاغذ پر پتا لکھتے ہوئے کہا:
”لیکن یہاں سے اُس جگہ کا فاصلہ تقریبا ًپند رہ منٹ ہے اور اب ہمارے پاس صرف پندرہ ہی منٹ بچے ہیں۔“ وہ پریشان ہو کر بولا۔
”جن بھائی! فور اًچراغ کے اندر جاؤ۔“ سنی چلایا۔
جن یہ سنتے ہی دھواں بن کر چراغ کے اندر گھس گیا۔ سنی باہر کی طرف دوڑا۔
اُس نے پوری زندگی میں بھی اتنی تیز بائیک نہیں چلائی ہوگی۔ اُس کی سانس پھول رہی تھی لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ آخر کار وہ بلڈ ہاؤنڈ کے گھر کے دروازے پر پہنچ ہی گیا۔ آخری پانچ منٹ!! اُس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور بیل پر انگلی رکھ دی۔ جب تک دروازہ کھل نہ گیا،اُس نے اپنی انگلی بٹن سے نہیں ہٹائی۔
”کون بد تمیز ہے؟“ دروزہ کھولنے والا دھاڑا۔ یہ بلڈ ہاؤنڈ تھا۔ اُس نے جب سنی کو چراغ کے ساتھ دروازے پر کھڑا پایا تو اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
اب صرف دو منٹ باقی تھے۔
”میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ آپ یہ چراغ لے سکتے ہیں۔“سنی نے جلدی جلدی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ لالچی تھا مگر بے وقوف نہیں۔
”تم نے اپنا ارادہ کیوں بدل لیا؟“ اُس نے شک بھرے لہجے میں پوچھا۔
”کیوں کہ… کیوں کہ…“سنی کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔
”کیوں کہ اس میں ایک طرف خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی خراب ہو گیا ہے۔میرے گھر میں یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا۔“
وہ دل ہی دل میں کہتا جا رہا تھا:
”پلیز! میری بات کا یقین کر لو! میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے۔“
”اور تمھیں اس چراغ میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے پوچھا۔
”جی نہیں!“سنی نے فوراً کہا۔
”اس چراغ میں خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی اُترا ہوا ہے تو اس لیے اب میں تمہیں اس کے صرف پانچ پاؤنڈ دے سکتا ہوں۔“
”منظور ہے۔“ سنی نے اُس کا جملہ پورا ہوتے ہی کہا۔
بلڈ ہاؤنڈ نے جیب سے پانچ پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر سنی کے ہاتھ پر رکھا اور چراغ چھین کر دروازہ بند کر لیا۔ سنی نے پانچ پاؤنڈ کے
نوٹ کو خوشی سے لہرایا۔
”چراغ تمھیں مبارک ہو مسٹر بلڈ ہاؤنڈ! امی کی سال گرہ کے تحفے کے لیے مجھے کافی پیسے مل گئے ہیں۔ امید ہے تم جن سے اتنی ہی فرمائشیں کرو گے جتنا کہ تم بل بھر سکو۔“