آہنی نقاب پوش
ناول:The Man in the Iron Mask
مصنف:Alexandre Dumas
مترجمہ: توراکینہ قاضی
۔۔۔۔۔
پہلا باب:
بادشاہ کے بندوقچیوں کا کپتان رائول دارتنان اپنے پیرس کے ہیڈ کوارٹر میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا چابک فرش پر پڑا ہوا تھا اور اس کی تلوار اس کی کمر سے لگی ہوئی تھی۔ وہ ایک پچاس سال کادبلا پیلا آدمی تھا۔ اس کے سر اور داڑھی کے بال کہیں کہیں سے سفید دکھائی دے رہے تھے مگر وہ خوب گھنے اور چمک دار تھے۔
وہ اس وقت اپنے پرانے ساتھیوں ایتھوس، پارتھوس اور ارامس کویاد کر رہا تھا۔ اپنے ان تین بندوقچی دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی یا دسے اس کے ہونٹوں پرخودبہ خودمسکراہٹ پیدا ہورہی تھی۔ کئی سال پہلے جب وہ چاروں دوست اکٹھے رہتے تھے تو وہ بادشاہ کے بند و قچیوں کے دستے میں شامل ہواکرتے تھے۔ ان کی بادشاہ کے وزیراعظم کار ڈینل ریشلو کے بند و قچیوں سے اکثر جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ان چاروں دوستوں نے مل کر کار میلائیٹ کی خانقاہ کے عقب میں ایک چراگاہ میں کارڈینل کے پانچ بند و قچیوں سے بڑی زبر دست جنگ لڑی تھی اور انھیں شکست دی تھی۔ ان کا کارڈینل کے آدمیوں سے اتفاقاً ہی سامنا ہوگیا تھا۔ ایتھوس نے فوراً ہی ان سے مقابلے کے لیے اپنی تلوار نکال لی تھی اور اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ ان پر حملہ کر دیں۔ اس پر اس کے ساتھی بھی تلواریں سنبھالے کارڈینل کے آدمیوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ان کا حملہ ایسا اچانک تھا کہ کارڈ ینل کے آدمی ایک ایک کر کے زمین پر گرتے چلے گئے۔ انھیں بہت گہرے زخم آئے تھے جن سے بری طرح سے خون بہہ رہا تھا۔
اس معرکے کے بعد تنان اور اس کے ساتھی اپنی تلواریں اپنی نیاموں میں ڈال کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ تیز ہوان کے تیز دوڑنے میں مزاحم ہونے لگی تھی۔ ان کے لبادے پھڑ پھڑانے اور ہیٹ ان کے سروں سے اُڑنے لگے تھے لیکن اس فتح نے انھیں جس نشے سے سرشار کیا تھا۔ وہ انھیں عرصہ دراز تک یا د رہا تھا۔ اس وقت سے انھوں نے اپنا ایک مخصوص مقولہ بنالیا تھا۔
’’ سب ایک کے لیے… ایک سب کے لیے۔ ‘‘
اس واقعے کو تیس سال گزر چکے تھے اور یہ مدت ایک خاصی طویل مدت تھی۔ اس وقت وہ (دارتنان) ایک نوعمر دیہاتی لڑکا ہوا کرتا تھا۔ وہ گسکونی کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والاتھا۔ اس کے پاس اس وقت ایک تلوار جیسے بازو اور ایک لوہے جیسی کلائی کے سوا کوئی ہتھیار نہ تھا اور وہ اپنے انہی دو ہتھیاروں سے دنیا میں اپنے لیے راستہ بنانا چاہتا تھا۔
اس نے عزم کر رکھا تھاکہ وہ بادشاہ کے ذاتی محافظ دستے کا سپاہی بنے گا یعنی ایک بندوقچی بنے گا۔ لیکن کوئی شخص اس وقت تک بندو قچی نہ بن سکتا تھا جب تک وہ اپنے آپ کو اس کا اہل نہ ثابت کر دیتا۔ چناں چہ بند و قچی بننے کے لیے اسے کئی خطرناک امتحانات سے گزرنا پڑا اور جرات و بہادری کی کڑی آزمائشوں میں اپنی اہلیت ثابت کرنی پڑی جس کے بعد اسے بادشاہ کے محافظ دستے کے بند و قچیوں میں شامل کر لیا گیا۔ اس دستے میں اس کی ملاقات ایتھوس، پارتھوس اور ارامس سے ہوئی جو پیرس بھر میں بے حد جی دار، بہادر اور ماہر تلوار بازوں اور جنگجوؤں کی حیثیت سے مشہور تھے۔ یہ تینوں دار تنان کے گہرے دوست بن گئے۔
اس زمانے میں فرانس کا وزیر اعظم کار ڈینل ریشلو تھا۔ جو بے حد چالاک و عیار ،ہوشیار و ذہین اور لائق آدمی تھا۔ شہنشاہ فرانس لوئی سیز دہم کی طرح وہ بھی اپنے لیے مسلح محافظوں کا دستہ رکھتا تھا۔ اس کے محافظ دستے اور بادشاہ کے محافظ دستے کے درمیان آئے دن جھگڑے اور لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔
ان تین بند و قچیوں سے دوستی کے بعد دار تنان بھی اکثر ملکی سیاسیات کے جھگڑوں میں شریک رہنے لگا تھا۔ اس سلسلے میں وہ اتنا آگے بڑھ گیا تھا کہ اس نے بادشاہ کی نوجوان اور خوب صورت ملکہ این اوف آسٹریا کی خاطر عظیم کار ڈینل کی دشمنی تک مول لے لی تھی۔ بادشاہ کے محافظ دستے میں رہتے ہوئے دارتنان نے تیزی سے ترقی کی تھی اور لیفٹیننٹ بن گیا تھا۔ پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ بادشاہ کے محافظ دستے کا کپتان بن گیا تھا۔ وہ ان چند گنے چنے آدمیوں میں سے ایک تھا جن پرنیانوجوان بادشاہ لوئی چہار دہم کامل اعتماد کرتا تھا۔
’’آہ! وہ بھی کیا حسین زمانہ تھا!‘‘ دارتنان نے سوچا۔ وہ اب معاشرے میں اپنے لیے ایک نہایت معزز اور اہم مقام حاصل کر چکا تھا۔ اس کی ہر جگہ عزت کی جاتی تھی۔ دولت اور شہرت بھی اسے حاصل تھی۔ سرکار در بارمیں اسے خاصا رسوخ حاصل تھا۔ وہ ابھی اور ترقی کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک بلند حوصلہ اور بہادر شخص تھا۔ اسے یقین تھا کہ اگر وہ اسی طرح جدوجہد کرتا رہا تو ایک نہ ایک دن وہ ضرور فرانسیسی افواج کا مارشل بن جائے گا۔ وہ خطرات سے کھیلنے اور ہرقسم کے مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لیے ہردم تیار رہنے والا آدمی تھا۔ ڈھلتی عمرمیں بھی وہ چاق و چوبند اور اچھی صحت کا مالک تھا۔ عمربھر مختلف جنگوں اور معرکوں میں حصہ لیتے رہنے کے سبب وہ ایک نہایت زیرک اور تجربے کارسپاہی بن چکا تھا۔
لوئی سیز دہم کے بعد اس کا بیٹا لوئی چہار دہم فرانس کے تخت پر بیٹھا تھا۔ وہ ایک نوعمر لڑکا تھا۔ اس کی ماں این اوف آسٹریا اب ما در ملکہ کہلانے لگی تھی ۔عظیم کار ڈینل ریشلو مدت ہوئی انتقال کر چکا تھا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے محافظ دستے اور بادشاہ کے بندوقچیوں کے در میان رقابت اور لڑائی جھگڑوں کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا۔ اب نہ گلیوں اور بازاروں میں خون خرابہ ہوتا تھا اور نہ ہی مخالف گروہوں کے سر پھٹتے تھے۔ سب لوگ اب مہذب اور شریف بنتے جارہے تھے۔ لڑائی جھگڑے کی جگہ اب درگزر نے لے لی تھی۔
دارتنان کو اپنے پرا نے ساتھیوں ایتھوس، پارتھوس اور ارامس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ جانے وہ کہاں چلے گئے تھے۔ انھوں نے بہت عرصہ پہلے بادشاہ کے محافظ دستے کو خیر بادکہہ دیا تھا اور ادھرادھر نکل گئے تھے۔ دارتنان کو کبھی کبھار ان کی خبر مل جاتی تھی لیکن ان میںسے کسی سے بھی کبھی اس کی ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ اپنے ان دوستوں کے بارے میں اسے زیادہ تر بری ہی خبریں ملا کر تی تھیں۔
مثال کے طور پرایتھوس کا معاملہ تھا۔ جو کاؤنٹ ڈی لافیئر کی حیثیت سے اپنی جاگیرمیں رہ رہا تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام راؤل تھا۔ جب وہ جوان ہوا تھا تو ایتھوس اسے اپنے ساتھ پیرس لے آیا تھا جہاں نوجوان رائول کی ملاقات ملکہ کی خاص ملازمہ لوئیس ڈی ویلیئر سے ہوئی تھی۔ جوا سے اتنی پسند آگئی تھی کہ وہ اس کے ساتھ شادی کی خواہش کرنے لگا تھا لیکن نوجوان بادشاہ کو یہ بات پسند نہ آئی تھی۔ وہ ہرگز نہ چاہتا تھا کہ نوجوان رائول کی شادی لو ئیس ڈی ویلیئر سے ہو۔ اس لیے اس نے نوجوان رائول کو ایک سفارتی مشن پر برطانیہ بھجوا دیا تھا۔ اسے برطانیہ گئے کئی سال گزر چکے تھے۔ اور بادشاہ اسے واپس بلانے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ ایتھوس پیرس میں اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے نوجوان بادشاہ کے باپ کے لیے بے حد قابل قدر خدمات انجام دی تھیں اور اس کے لیے اپنا خون بہایا تھا لیکن اس کا بیٹا اب جو سلوک اس کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھا، اس نے ایتھوس کے دل میں اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دی تھی۔ وہ کھلم کھلا بادشاہ کو برا بھلا کہا کرتا تھا اور اس کے خلاف شدید قسم کا اظہار نفرت کیا کرتا تھا۔
اور پاتھوس اور ارا مس کس حال میں تھے؟ سادہ مزاج، سادہ فطرت لیکن بے حد قوی الجثہ اور لمبا چوڑا پارتھوس ایک امیرکبیر بیوہ عورت سے شادی رچا بیٹھا تھا اور بیرن ڈی ویلون بن گیا تھا۔ وہ اپنی اس عیش وآرام کی زندگی سے شدید نفرت کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ خطرات سے کھیلنے اورسنسنی خیز مہمات سے بھر پور زندگی گزارنے کا شوقین رہا تھا مگر اب شادی کے بعد وہ بے کار ہوکر رہ گیا تھا۔
سنجیدہ فطرت ، ذہین اور تیز قوت فیصلہ رکھنے والا ارامس اپنی جنگ وجدال اور خطرات سے بھر پور ایک سپاہی کی زندگی گزارتے گزارتے اتنا تنگ آ گیا تھا کہ ایک پادری بن گیا تھا اور اب وہ موسیو ڈی آر بلے، بشپ اوف وانز کے نام سے پہچانا جانے لگا تھا۔ وہ موجودہ وزیرخزانہ موسیوفو کے کا بڑا دوست تھا لیکن اس دوستی میں وہ بے حد محتاط تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ نوجوان بادشاہ اپنے اس وزیر کوپسند نہ کر تا تھا۔ اور اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی فکر میں تھا۔ موسیوفو کے بے حد طاقت وراور با اثر شخص تھا۔ اس کی طاقت روز بہ روز بڑھتی جارہی تھی اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اس نے بیلے این مرکا ایک جزیرہ خرید لیا تھا۔ جو برٹینی کے ساحل سے کچھ دور واقع تھا۔ اس جزیرے کو اس نے ایک قلعے کی شکل دے دی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ اسے شاہی افواج کے مقابلے میں اپنے اڈے کے طور پر استعمال کر سکے۔ موسیو فو کے کی بہت سی شان دار کوٹھیاں اور محل تھے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتا تھا اور خوب فضول خرچی کے مظاہرے کرتا تھا۔ اس کی ان حرکتوں سے بادشاہ اس سے ناراض رہتا تھا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی فکر میں رہتا تھا۔ دارتنان جانتا تھا کہ اگر موسوفو کے کو دربار سے نکال دیا گیا تو اس کے ساتھ ارامس بھی ضرور تباہ ہوجائے گا۔ ارامس ہمیشہ ہی سے بلند عزائم رکھنے والا شخص رہا تھا اور اب ایک کلیسائی عہدے دار بن چکنے کے بعد پوپ بن جانا اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن چکا تھا۔ اس طرح اسے بڑے بڑے بادشاہوں اور شہزادوں سے بھی زیادہ اختیارات اور طاقت حاصل ہو جاتی۔ دارتنان نے اس کے بارے میں لوگوں کو کہتے سنا تھا کہ وہ جیسوئیٹ فرقے کا سربراہ بننا چاہتا تھا اور اس فرقے کے لوگ فرانس میں سرکار دربار میں بڑے بلند عہدوں پر فائز تھے اور بڑی حیثیتوں کے مالک تھے۔ اگر ارامس ان کا سربراہ بن جاتا تو موسیوفو کے زوال کے بعد وہ شاہی دربار میں کوئی اہم مرتبہ حاصل کرسکتا تھا۔
اپنے دوستوں کے بارے میں سوچتے سوچتے دارتنان اپنی کرسی پر سے اٹھ کر چلتا ہوا کھڑکی میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اور گلی میں دیکھنے لگا۔ اس وقت گلی میں صرف ایک آدمی چلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ سیاہ رنگ کے لبادے میں ملبوس تھا۔ اس نے سر پر چوڑے چھجے کا ہیٹ پہن رکھا تھا۔ جسے اس نے اپنی آنکھوں پر جھکارکھا تھا۔ وہ آدمی بہت پراسرار سا دکھائی دے رہا تھا۔ کھڑی کے نیچے سے گزرتے ہوئے اس آدمی نے سراٹھا کر اوپر دیکھا۔ پھر اپنا سیاہ لبادہ اپنے جسم کے گرد لپیٹتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ دارتنان ایک دم چونک گیا۔ سیاہ لبادے میں ملبوس وہ پراسرار شخص اس کا دوست ارامس تھا۔ یقینا اس سے اسے پہچاننے میں کوئی غلطی نہ ہوئی تھی لیکن وہ سیاہ لبادہ کیوں پہنے ہوئے تھا؟ اس کی نقل و حرکت اتنی پراسرارکیوں دکھائی دے رہی تھی؟ اس نے ہیٹ سے اپنے چہرے کو کیوں چھپا رکھا تھا؟ کیا اس وقت وہ کسی خطرناک کام میں مصروف تھا؟ یاکسی قسم کی سازش کر رہا تھا؟ دارتنان کا ذہن الجھ گیا۔ وہ تھکا تھکا سا کھڑکی سے ہٹ کر دوبارہ کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
دوسرا باب:
سیاہ لبادے میں ملبوس وہ آدمی چلتا چلتا ایک اونچی دیوار کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا پلیس ڈی گریو کے عقب میں واقع درختوں کے جھنڈ اور گھنی جھاڑیوں میں سے گزرتا ہوا ایک گھر کے دروازے پر جاکر رک گیا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھل گیا اور وہ اندر داخل ہوگیا۔
دس منٹ گزرنے کے بعد ایک خاتون ایک ملازم کے ساتھ اس جگہ پہنچی۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھل گیا اور وہ اندر داخل ہوگئی۔ اندر داخل ہوکراس نے اپنے چہرے پر پڑا ہوا نقاب اٹھا دیا۔ وہ کوئی نوجوان یا خوب صورت خاتون نہ تھی لیکن اس کے رکھ رکھاؤ میں بے حد رعب و دبدبہ تھا۔ اس کا جسم تیر کی طرح تنا ہوا تھا اوراس کی گردن مغرورانہ انداز میں اکڑی ہوئی تھی۔ جوں ہی وہ ہال میں داخل ہوئی۔ ایک آدمی ہاتھ پھیلائے اس کی طرف بڑھ گیا۔
’’شام بخیر۔ڈچز۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ کیسے ہوارامس۔ کیا حال چال ہے تمھارا۔‘‘ ڈچز بولی۔
ارامس اسے ساتھ لیے ایک کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہ کمرہ بڑی خوب صورتی سے سجا ہوا تھا۔ اس کی بلند کھڑکیوں سے سورج کی کرنیں اندر داخل ہورہی تھیں جن سے کمرے میں اجالا ہورہا تھا۔ وہ دونوں کمرے میں داخل ہو کر کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’آپ کا رقعہ پڑھ کر مجھے بے حد حیرت ہوئی تھی۔‘‘ ارامس نے کہا۔’’ آپ جانتی ہیں مادام کہ ہم کئی برسوں سے آپس میں ملاقات نہیں کر سکے۔ لگتا ہے آپ کوکسی معاملے میں میری مدد کی ضرورت ہے۔ اس لیے آپ نے مجھے یہاں بلا بھیجا ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ تم موسیوفو کے دوست ہو۔‘‘ مادام ڈی شیو روس نے کہا۔’’ اسی لیے تمھیں تلاش کرلینا کوئی مشکل ثابت نہ ہوا۔ اس نے تمہیں بشپ کے عہدے پر ترقی دلوائی تھی۔ ہے نا؟ یہ ایک سابق بند وقچی کے لیے واقعی اس کے شایان شان عہدہ تھا۔‘‘
’’ آپ نے ٹھیک کہا۔‘‘ارامس بولا۔’’ آپ کچھ اپنے بارے میں بتائیے۔ آپ اب زیادہ تر اپنی جاگیر ڈیمپئیر یں رہنے لگی ہیں۔ کیا آپ درباری زندگی سے اکتا گئی ہیں؟‘‘
’’ مجھے اب اپنی جاگیر میں رہنا اچھا لگنے لگا ہے اور اس کے سوا میں اور کچھ کر بھی نہیں سکتی۔‘‘ ڈچز نے کہا۔ ’’مادر ملکہ ہمیشہ میری دوست رہی ہیں لیکن نوجوان بادشاہ مجھ سے شدید نفرت کرتا ہے۔ وہ میرااپنی ماں سے ملنا جلنا بالکل پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
’’ واقعی ما دام؟‘‘ ارامس بولا۔’’ وہ یہ سب باتیں جانتا تھا۔ مادام ڈی شیوروس جس کی زبان بہت تیز اور کینہ ور تھی، سالہا سال سے مادر ملکہ کی معتمد مشیر چلی آرہی تھی۔ اس نے ایک طرح سے گویاما در ملکہ کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔ اگر نوجوان بادشاہ نے اس سے چھٹکارا حاصل کرلیا تھا تو اچھا ہی کیا تھا۔ مگر ارامس نے ڈچز کے سامنے اپنے ان خیالات کا اظہار نہ کیا اور بولا:
’’آپ نے شاید کسی ضروری کام سے مجھے بلوا بھیجا ہے مادام؟ وہ کام کیا ہے؟‘‘
’’ میرا خیال ہے ہم دونوں مل کر ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ مجھے ڈیمپیئر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک بھاری رقم کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ کتنی؟‘‘ ارامس نے روکھائی سے پوچھا۔’’آپ جانتی ہیں کہ میں کوئی امیر آدمی نہیں ہوں۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے، لیکن تمھارا دوست تو ایک بہت امیر کبیر شخص ہے۔ میرا مطلب ہے۔موسیوفو کے۔ وزیر خزانہ۔‘‘
’’فوکے! مادام وہ تو آدھا تباہ ہوچکا ہے۔ آپ کو کیا معلوم نہیں کہ وہ اب بادشاہ کی نظروں سے گر چکا ہے۔‘‘
’’ بادشاہ کی نظروں سے تو وہ ضرور گر چکا ہو گا لیکن وہ تباہ ہرگز نہیں ہوا ہے۔ میرے پاس کچھ ایسے خطوط موجود ہیں جن پر وزیراعظم کارڈ ینل مزارین کے دستخط موجود ہیں۔ ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیوفو کے نے خزانے سے تیرہ ملین فرانک کی خطیر رقم نکلوائی ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’آپ کو شاید رقم کی بہت ضرورت ہے۔ اس لیے آپ ایسی باتیں کر رہی ہیں۔‘‘ ارامس نے کہا۔
’’یہی تو بات ہے۔ مجھے پچاس لاکھ فرانک کی فوری ضرورت ہے۔ تم سے مانگنے کی بجائے میں یہ خطوط استعمال کرتے ہوئے اپنی پرانی دوست ما در ملکہ سے ملنے کی کوشش کروں گی۔ جو یقینا ان خطوط کو بادشاہ کو دکھانا پسند کرے گی۔ ورنہ میں یہ خطوط موسیو کولبرٹ کو جاکر دے دوں گی جوموسیوفو کے کا شدید دشمن ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی بجائے وہ خود فرانس کا وزیر خزانہ بن جائے۔ ‘‘
’’ مادام۔ آپ جو مناسب سمجھیں کریں۔موسیو فو کے اگر اپنے آپ کو مجرم محسوس کرتا ہے تو وہ ہرگز اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔ وہ آپ کی حرکتوں پر ناراض ضرور ہو گا لیکن اپنے جرم کا ہرگز اعتراف نہیں کرے گا۔ مجھے تواس کا یقین نہیں کہ اس کے پاس اس وقت پچاس لاکھ فرانک بھی موجود ہوں گے۔‘‘
’’ میرے عزیز ارامس! تم چاہے کچھ بھی کہو۔ میں تم سے جوکچھ کہہ چکی ہوں، وہی کروں گی۔‘‘ڈچز نے کہا اور کرسی سے اٹھ گئی۔
’’ تو کیا آپ مادر ملکہ سے موسیوفو کے کی شکایت کرنے جارہی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ شکایت کر نے؟نہیں۔ یہ مناسب الفاظ نہیں ۔میں کچھ اورہی کروں گی۔‘‘
’’ بہتر ہے ڈچز۔ جو آپ کی مرضی۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’لیکن اگر آپ کو پچاس لاکھ فرانک مل گئے تب بھی آپ کو آئندہ مزید رقم کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ اور یہ خطوط تیس یا چالیس لاکھ فرانک سے زیادہ قیمت کے نہیں ہوں گے۔ ‘‘
’’بیچنے والا اپنے مال کی قیمت بہتر جانتا ہے۔‘‘ ڈچز نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
’’ ذرا ر کیے ڈچز۔ آپ کے پاس ان خطوط کی موجودگی لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کر دے گی۔ وہ آپ کو جاسوس سمجھنے لگیں گے یا چور۔ مجھے یقین ہے مادام کہ یہ خطوط جعلی ہوں گے۔آپ ان کی مدد سے کسی سے بھی کوئی کام نہ نکلواسکیں گی۔‘‘
’’ یہ ہم دیکھیں گے۔‘‘ ڈچز بولی۔ ’’میں ایک ایسا راز جانتی ہوں جس کی مدد سے مجھے ملکہ سے اپنا کام نکلوانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے گی۔‘‘
ارامس نے چونک کر اسے گہری نظروں سے دیکھا۔
’’ آپ کا مطلب اس نوجوان کے بارے میں ہماری حاصل کردہ معلومات سے ہے جو نائس لی سیک میں چھے سال قبل انتقال کر گیا تھا؟‘‘
’’انتقال؟‘‘ ڈچز نے قہقہہ لگایا۔ ’’تمھیں کیا اس کا یقین ہے؟‘‘
’’اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ اس وقت کہاں ہوسکتا ہے؟‘‘
’’بیس تیل کی دیواروں کے پیچھے۔ جہاں اسے عمر بھر رہنا ہے۔‘‘ ڈچز نے کہا اور دروازے کی طرف مڑ گئی۔
ارامس نے گھنٹی بجائی اور اس کے لیے دروازہ کھل گیا۔ اسی وقت چند ملازم شمعیں اٹھائے ہال میں داخل ہو گئے۔ باہر کے دروازے تک پہنچ کر ارامس نے جھک کر ڈچز کوتعظیم دی۔ ڈچز نے اپنے ملازم کو اشارہ کیا۔ وہ بندوق سنبھالے اس کے پیچھے ہولیا۔ ان کے جانے کے بعد اراس کمرے میں چلا آیا۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کا خادم برنارڈ بھی کمرے میں داخل ہوگیا۔
’’ ڈچز کا تعاقب کرو برنارڈ۔‘‘ ارامس نے اسے ہدایت دی۔’’ اور مجھے آکر بتاؤ کہ وہ اب کس سے ملنے گئی ہے۔‘‘
تیسرا باب:
موسیو کولبرٹ نے جب اس کا غذ پر لکھے ہوئے نام کو پڑھا تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے فوراً ہی وہ کاغذ لا نے والے ملازم کو اس نئے مہمان کو اندر لانے کی ہدایت کر دی۔ وہ ملازم فوراً ہی وہاں سے چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ما دام ڈی شیو روس کو ساتھ لیے اندر داخل ہوگیا۔
کولبرٹ نے ڈچز کے لیے اپنے مطالعے کے کمرے کا دروازہ کھول دیا اور اس کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد بند کر دیا۔ اس نے ڈچز کو بیٹھنے کے لیے ایک کرسی پیش کی۔ اس کے بعد وہ مہاگنی کی لکڑی کی بنی ہوئی شان دار میز کے سامنے بچھی کرسی پر جا بیٹھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسا رکھی تھیں ۔تھوڑی دیر تک وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ کولبرٹ ایک قدرے بھاری جسم کا توانا آدمی تھا۔ جس کا سر بڑا، بھنویں گھنی اور چہرے کے نقوش معمولی سے تھے۔ اس کی پیشانی چوڑی تھی اور اس کی آنکھیں گہری سیاہ تھیں جو ہرکسی کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا کرتی تھیں۔ ڈچز کو وہ ایک بے حد چالاک و ہوشیاراور عالی حوصلہ شخص دکھائی دیتاتھا۔ ایسے شخص کو وہ آسانی سے اپنا ہم نوا بناسکتی تھی اور اپنا مطلب نکال سکتی تھی۔ وہ میز پر تھوڑا سا آگے تک آیا اور بولا:
’’مادام۔ کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے کیسے تکلیف کی؟ ‘‘
’’میں آپ کے پاس ایک نہایت ضروری کام سے آئی ہوں موسیو۔‘‘ ڈچز بولی۔ ’’یہ ضروری کام آپ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ کیا آپ فرانس کے وزیر خزانہ بننا پسند کریں گے؟ ‘‘
کولبرٹ کچھ دیر تک اسے گہری نظروں سے دیکھتارہا۔ پھر اس نے اپنے کند ھے جھٹکے اورمسکرایا۔
’’آپ نے صحیح کہا مادام۔لیکن موسیو فو کے کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟‘‘
’’میں آپ کے پاس وہ چیز لائی ہوں جو اس سلسلے میں آپ کی مدد کرے گی۔‘‘
’’آپ یہ بھی بخوبی جانتی ہوں گی مادام کہ گزشتہ چھے سالوں میں موسیوفو کے پرکئی قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں اور اس کا کبھی کچھ نہیں بگڑ سکا۔‘‘
’’اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر کبھی کار ڈینل مزارین کی جانب سے کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔‘‘
’’ مزارین؟ یہ ناممکن ہے! مردے کہاں بول سکتے ہیں ۔‘‘
’’مگر وہ خط تو چھوڑ سکتے ہیں ،میرے پاس مزارین کے چھے ایسے خطوط موجو دہیں ۔جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موسیوفو کے نے شاہی خزانے سے تقریبا ًتیرہ ملین فرانک کی خطیر رقم ناجائزطور پر نکلوائی ہے۔‘‘
کولبرٹ کی آنکھوں میں مسرت کی چیک پیدا ہوگئی۔
’’ واقعی مادام؟‘‘
’’ہاں بالکل۔ کیا آپ انھیں پڑھنا پسند کریں گے موسوکولبرٹ؟ ‘‘
’’ضرور۔ آپ کے پاس ان کی نقول تو ہوں گی؟‘‘
’’ہاں۔ میں انہیں اپنے ساتھ لائی ہوں۔‘‘ ڈچز نے کہا اور اس نے اپنے لباس کی جیب سے کاغذوں کا ایک چھوٹا سا پلندہ نکال کر موسیو کولبرٹ کی طرف بڑھا دیا۔
موسیو کولبرٹ نے ان کا غذات کو علاحدہ علاحدہ کیا اور بڑے اشتیاق اور دل چسپی سے انھیںپڑھنا شروع کیا۔
’’میرے خدا !‘‘ ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا ۔’’کیا چیز ہیں یہ خطوط!‘‘
’’ ان سے موسیوفو کے کا جرم ثابت ہو جاتا ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’بالکل مادام۔ کارڈینل مزارین نے وہ رقم موسیوفو کے کو دی ہو گی اور اس نے اسے قومی اخراجات کے سلسلے میں صرف کرنے کی بجائے خود استعمال کر لی ہوگی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کی رقم؟‘‘
’’ یہ آپ نے درست سوال کیا۔ اگر آپ مجھ سے ایک سودا کرلیں تو میں آپ کو ساتواں خط بھی دے دوں گی جس میں تمام تفصیلات درج ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ بادشاہ اب موسیوفو کے کی طرف بدگمان ہو چکا ہے۔ اگر اسے موقع ملا تو وہ اسے ضرور اس کے عہدے سے ہٹا دے گا۔ یہ موقع صرف پچاس لاکھ فرانک میں حاصل ہوسکتا ہے۔ ‘‘
’’بیس لاکھ فرانک میں۔‘‘
ڈچز نے قہقہہ لگایا، اور بولی:
’’ میرے پاس ایک دوسری تجویز ہے۔ آپ فی الحال مجھے تیس لاکھ دے دیں اور ملکہ عالیہ سے میری ملاقات کا انتظام کر وا دیں۔ وہ اب میری دوست نہیں رہیں لیکن اس ملاقات کے بعد وہ ضرور میرے لیے پھر دوستانہ جذبات محسوس کرنے لگیں گی۔‘‘
’’ ملکہ عالیہ آج کل کسی سے بھی ملاقات نہیں کر رہیں۔ وہ علیل ہیں اور ان کی علالت کوئی معمولی قسم کی نہیں۔‘‘ موسیو کولبرٹ نے کہا۔
’’اگر آپ ملکہ عالیہ سے میری ملاقات کا انتظام کروادیں۔‘‘ ڈچز بولی۔ ’’تو میں صرف تیس لاکھ فرانک پر قناعت کرلوں گی۔ اگر آپ ایسانہیں کریں گے تو میں وہ ساتواں خط ہرگز آپ کے حوالے نہیں کروں گی۔‘‘
اتنا کہتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔ کولبرٹ تھوڑی دیر تک خاموشی سے گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھتارہا۔ پھر بولا:
’’ مادام میں آپ کی مطلوبہ رقم ابھی ہی آپ کے حوالے کر دیتا ہوں۔ امید ہے اب آپ کو وہ ساتوں خط مجھے دے دینے میں کوئی تامل نہ ہوگا ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک کاغذ پر کچھ سطریں تحریر کیں اور اسے ڈچز کے حوالے کر دیا۔
ذ چز نے وہ کاغذ تہہ کر کے اپنے لباس کی ایک خفیہ جیب میں رکھ لیا اور ایک دوسری خفیہ جیب میں سے تہ کیے ہوئے کاغذوں کا ایک پیکٹ نکال کر موسیو کولبرٹ کی طرف بڑھا دیا۔ یہ کاغذ نیلے رنگ کے فیتے سے بندھے ہوئے تھے۔
’’ یہ اصل خطوط ہیں موسیو کولبرٹ۔ یہ اب آپ کی ملکیت ہیں۔ ہاں اب تو آپ کو مجھے اپنے ہمرا ہ ملکہ عالیہ کے پاس لے چلنے میں کوئی تامل نہ ہو گا۔‘‘
’’یہ مناسب نہیں رہے گا مادام۔‘‘ موسیو کولبرٹ نے ایک کاغذ پر کچھ لکھتے ہوئے کہا۔ ’’اگر ملکہ عالیہ آپ سے ملاقات پر خوش نہ ہوئیں اورانہیں معلوم ہوگیاکہ میں آپ کواپنے ساتھ محل میں لایا تھا تو شاید مجھے کبھی معاف نہ کیا جائے۔ مجھے بتائیے کہ آپ ان کلیسائی خواتین کو کیاکہتی ہیں جو بروز میں رہتی ہیں۔ اور ہر قسم کے علاج معالجے کی ماہر سمجھی جاتی ہیں؟‘‘
’’بیگوائن کیوں؟‘‘
’’ بہت خوب۔ آپ یوں ظاہر کیجیے کہ آپ بھی ایک بیگوائن ہیں ۔میں آپ کو ایک خط دیتا ہوں۔ جس میں درج ہو گا کہ آپ ایک بیگوائن ہیں اور ملکہ عالیہ کے علاج کے لیے تشریف لائی ہیں۔ یہ رہاما دام آپ کا تعارفی خط۔‘‘
اس نے وہ خط ڈچز کے حوالے کیا اور کرسی سے اٹھ کر اسے جھک کر تعظیم دی۔ اس نے متشکرانہ سرکو جنبش دی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے کمرے سے جاتے ہی کولبرٹ نے دروازہ بند کیا۔
’’ یہ سات خط۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔’’ فرانس کے طاقت ور ترین آدمی کو تباہ کر دیں گے۔‘‘
چوتھا باب:
ما در ملکہ اس وقت اپنی خواب گاہ میں موجو دتھی اور اپنی دو خاص ملازماؤں سے باتیں کر رہی تھی۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور ایک بوڑھی ملازم عورت تقریباً دوڑ تی ہوئی کمرے میں داخل ہوگئی اور چلا چلا کر کہنے لگی:
’’ملکہ عالیہ اب تن درست ہوجائیں گی !ملکہ عالیہ کی بیماری اب ختم ہو جائے گی!‘‘
’’کس طرح؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ ملکہ نے پوچھا۔
’’ملکہ عالیہ ایک خاتون آئی ہے۔ فلانڈرز سے۔ وہ آپ کا علاج کرے گی۔ اس کے علاج سے آپ ضرور بہ ضرور صحت مند ہو جائیں گی ۔‘‘
’’اچھا !جاؤ مولینا اسے اندر لے آؤ۔‘‘ ملکہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
’’ میں خود ہی اندر آجاتی ہوں۔‘‘ دروازے کی طرف سے آواز آئی اور ایک عورت اندر داخل ہوگئی۔ اس نے اپنے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی۔ اسے دیکھتے ہی کنیزیں اور خادمائیں ادھر ادھر ہٹ گئیں۔
’’میں بروز کی ایک بیگوائن ہوں۔‘‘ اس نقاب پوش عورت نے کہا۔ ’’میرے پاس ملکہ عالیہ کی بیماری کا شافی علاج موجود ہے۔‘‘ ’’بتاؤ۔‘‘ ملکہ نے کہا۔
’’ میں یہ تنہائی ہی میں بتا سکوں گی ملکہ عالیہ۔‘‘ اس عورت نے نرمی سے کہا۔
ملکہ نے کمرے میں موجود عورتوں کی طرف دیکھا۔ وہ فوراً ہی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ وہ نقاب پوش عورت ملکہ کے قریب آکر تعظیماً تھوڑا ساجھکی۔ اس کی آنکھیں نقاب کے پیچھے بھی چمکتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ ملکہ اسے الجھن بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’مجھے امید ہے کہ تمھارے علاج سے میں تن درست ہوجاؤں گی۔ بروز کی معالج عورتوں کی میںنے بہت شہرت سنی ہے۔‘‘ ملکہ نے کہا۔
’’آپ کی بیماری لاعلاج نہیں ہے ملکہ عالیہ۔‘‘ وہ عورت بولی۔’’ آپ میرے علاج پر بھروسہ رکھیں۔‘‘
اس عورت نے یہ بات اس طرح کہی جیسے وہ اپنی ہی کسی ہم مرتبہ عورت سے مخاطب ہو۔ ملکہ عالیہ کو ایک دم غصہ آگیا۔ وہ بولی:
’’ تم نہیں جانتیں کہ کسی کو بھی شاہی خاندان کے کسی فرد کے سامنے چہرے پر نقاب ڈال کر ملاقات کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘
’’یہ میں نے عہد کر رکھا ہے مادام کہ میں جن لوگوں کا علاج کروں گی انھیں کبھی اپنا چہرہ نہ دکھائوں گی۔ آپ کو چوں کہ اس پر اعتراض ہے۔ اس لیے میں یہاں سے رخصت ہوتی ہوں۔ اجازت دیجیے۔‘‘
ملکہ نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے جانے سے روک دیا۔ اس کا غصہ اور شک دور ہوچکا تھا۔ اور اس کی جگہ اب تجسس نے لے لی تھی۔
’’ٹھہرو!‘‘ وہ تیزی سے بولی۔’’ میں چاہتی ہوں کہ تم میری اس بیماری کا علاج کرو جس نے میرے جسم کو جکڑ رکھا ہے۔‘‘
’’آپ کے جسم کو؟نہیں مادام۔ آپ کی بیماری جسمانی نہیں ذہنی ہے۔‘‘
’’ذہنی؟ یعنی میں دماغی طور پر علیل ہوں؟‘‘ ملکہ حیرت سے بولی۔ پھروہ ایک دم ہی شدیدطیش میں آگئی اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔’’ اس کی وضاحت کرو۔ فوراً۔‘‘
’’ناراض نہ ہوئیے ما دام۔‘‘ اس عورت نے نرمی سے کہا۔ ’’میں یہاں ایک دوست کی حیثیت سے آئی ہوں۔‘‘
’’میں تمھارا مطلب نہیں سمجھی۔‘‘ ملکہ نے کہا۔
’’میں آپ کو بتاتی ہوں مادام۔ آپ کو بہ خوبی یاد ہوگا کہ موجودہ شہنشاہ فرانس 5 ستمبر 1638کو دن کے سوا گیارہ بجے پیدا ہوئے تھے۔‘‘
کسی خیال سے ملکہ کی رنگت ایک دم زرد پڑ گئی اور وہ بے جان سی اپنی کرسی میں گرگئی۔
’’ ہاں۔‘‘ اس نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اور ساڑھے بارہ بجے اس نومولود بچے کے تخت فرانس کا وارث ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔‘‘اس عورت نے کہا۔
’’یہ بھی درست ہے۔‘‘ ملکہ بڑ بڑائی۔
’’اس موقع پر ایک دایہ، بادشاہ کا خصوصی معالج بو وارڈ، سرجن ہانورا ور دربار سے تعلق رکھنے والی ایک معزز خاتون جو آپ کی دوست تھی، آپ کے پاس موجود تھے۔ یہ لوگ آپ کے تین بجے سے لے کر گیارہ بجے تک سوتے رہنے کے دوران محل میں موجود رہتے تھے۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے۔‘‘
’’اب میں اس بات کی طرف آرہی ہوں جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے بلکہ صرف دوہی اشخاص اس راز سے واقف ہے۔ آپ کا راز اس وجہ سے پوشیدہ رہا کہ اس دن دارالحکومت میں اسٹیج کیے جانے والے ڈرامے کے بیشتر ادا کارقتل کر دیے گئے تھے۔ آپ کے شوہر آنجہانی لوئی سیزد ہم اب اپنے آباؤ اجداد کے ہمراہ اپنی قبرمیں آرام کر رہے ہیں۔ ان کے انتقال کے تھوڑے عرصے بعد وہ دایہ، سرجن اور معالج بھی انتقال کر گئے اور آپ کی دوست، دربار سے تعلق رکھنے والی اس معزز خاتون کو دربارسے نکال دیاگیا اور آپ اسے بھول بھال گئیں۔‘‘
ملکہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن اس کے حلق سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔ اس نے اپنے ٹھنڈے کپکپائے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا جو پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔
’’اس شام آٹھ بجے۔۔۔‘‘ وہ عورت کہنے لگی۔’’ شہنشاہ معظم بڑے مسرورا در شاداں کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان کے حکم پر ولی عہد کی پیدائش پرشان دارجشن بر پاکیاگیا تھا جس میں خوب خوشیاں منائی جارہی تھیں اور شراب پانی کی طرح چڑھائی جارہی تھی۔ محل کے باہر عوام کے پر جوش ہجوم مسرت بھرے نعرے لگانے اور اپنے محبوب حکمران سے اظہار عقیدت کرنے جمع تھے۔ آپ کے رہائشی کمرے میں ولی عہد فرانس اپنی نرس کی گود میں سورہا تھا۔ اسی وقت آپ نے ایک درد بھری چیخ بلند کی۔ دایہ دوڑ کر آپ کے پاس پہنچی۔ اس نے آپ سے کچھ سوالات پوچھے، آپ کا معائنہ کیا۔ پھر ایک حیرت بھری چیخ بلند کی۔ پھر تھوڑی دیر بعد بادشاہ کا معا لج ان کے پاس پہنچا اور سرگوشی میں ان سے کہا:’’ شہنشاہ معظم۔ ملکہ عالیہ کو بے حد مسرت ہوگی اگر آپ چل کر انھیں دیکھ لیں۔‘‘ بادشاہ خوشی خوشی آپ کے پاس چلے آئے۔ جہاں آپ کی اس راز دان دوست نے ایک دوسرا شہزادہ، جو ایک بے حد خوب صورت اور صحت مند بچہ تھا، انہیں دکھایا۔‘‘
اس عورت نے کہتے کہتے رک کر ملکہ پر ایک گہری نظر ڈالی ۔ملکہ کے جسم پر شدید لرزہ طاری تھا۔ اس کی رنگت بے حد پیلی پڑی ہوئی تھی۔
’’ اس دوسرے بیٹے کی پیدائش نے بادشاہ کو دوگنی مسرت بخشی لیکن ان کی یہ مسرت، یہ خوشی، فخر و غرور زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے۔‘‘ وہ عورت سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی۔’’ جب وزیراعظم کار ڈینل ریشلو کو محل میں لایاگیا اور اسے ان جڑواں بیٹوں کی پیدائش کی خبردی گئی تو وہ شدید پریشان ہوگیا۔ اس نے کہا کہ فرانس میں دو بھائی بیک وقت ڈافن(ولی عہد) نہیں بن سکتے تھے۔ کیا آپ کو اس کے الفاظ یاد ہیں مادام؟ ایک شہزادے کا مطلب ہے ملک کی سلامتی ،بہتری، قوت وطاقت اور خوش حالی، امن و چین اور دو حریف شہزادوں کا مطلب ہے خانہ جنگی، کشت وخون، اندھیر نگری، بدحالی بدامنی۔‘‘
بادشاہ بھی مان گئے کہ کار ڈینل واقعی صحیح کہہ رہا تھا۔ تخت فرانس کا صرف ایک ہی وارث ہونا چا ہیے۔ انھوں نے ملکہ عالیہ کو بتا یا کہ ان کے دوسرے بیٹے کو ان سے جدا کر کے کہیں دور بھیج دیا جائے گا اور اس کی پیدائش کے راز کو ہمیشہ سب سے پوشیدہ رکھا جائے گا۔ چناں چہ اس شہزادے کو ملکہ عالیہ کی اس معتمد ساتھی کے ہمراہ نائس لی سیک بھجوا دیا گیا۔ اسے راتوں رات بند وقچیوں کی نگرانی میں وہاں پہنچا دیاگیا تھا۔ ان بند وقچیوں کے کپتان کا نام ارامس تھا۔ اپنے اس بچے سے جدائی پر ملکہ عالیہ بہت روئی چلائی تھیں۔‘‘
ملکہ ایک دم کرسی سے اٹھ گئی۔ اس کے چہرے پرموت کی سی زردی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔
’’ تم بہت زیادہ جانتی ہو۔‘‘ اس نے بیٹھی بیٹھی سی بھاری آواز میں کہا۔ ’’تم مملکت کے ایک انتہائی خطرناک اوراہم راز سے واقف ہو۔ جن لوگوں نے تمہیں اس راز سے آگا ہ کیا ہے۔ وہ غدار اور واجب القتل ہیں لیکن تم ہوکون؟ میں حکم دیتی ہوں کہ اپنا یہ سیاہ نقاب فوراً اتار دو ورنہ میں اپنے سپاہیوں کو تمھاری گرفتاری کا حکم دینے پر مجبور ہو جاؤں گی۔ اس خیال میں نہ رہنا کہ میں تمھاری باتوں سے خوف زدہ ہوگئی ہوں۔‘‘
اس عورت نے فوراً ہی اپنے چہرے پر سے نقاب ہٹا دیا اور بولی:
’’مادام۔ اپنی اس دوست کے خلوص اور محبت کی قدر کیجیے۔ جسے آپ عرصہ ہوا بھلابیٹھی ہیں۔‘‘
ملکہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے کی رنگت متغیر ہوگئی۔
’’ مادام ڈی شیوروس۔‘‘ اس نے پھنسی پھنسی آوازمیں کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہنے لگے۔
’’ واقعی یہ میرا قصور ہے۔‘‘ بالآخر اس نے کہا۔’’ میں اتنے عرصے سے تمہیں بھلائے رہی۔‘‘
’’ نہیں مادام۔ یہ آپ کا قصور ہرگز نہیں۔ میں جانتی ہوں کہ نوجوان بادشاہ بھی اپنے والد کی طرح مجھ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔‘‘
’’ میں… میں اس کو نہیں جھٹلا سکتی۔‘‘ ملکہ نے کہا۔’’ لیکن تم نے یہاں آکرا چھا کیا۔ اس طرح مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ تم ابھی تک زندہ ہو۔ ورنہ مجھے تمھارے بارے میں یہی بتایا جاتا رہا تھا کہ تم عرصہ ہوا انتقال کر چکی ہو۔‘‘
مادام ڈی شیوروس نے اس بات پر بہت صدمہ اور دکھ محسوس کیا۔ وہ ملکہ کو دیکھتے ہوئے اداسی سے مسکرائی۔ ملکہ کا ذہن اس وقت ماضی میں بھٹک رہا تھا۔ مادام ڈی شیوروس اپنی اسکیم کو آگے بڑھتے دیکھ رہی تھی۔ پھر ملکہ نے ایک سرد آہ بھری۔
’’ بے چارہ بچہ۔ میں کبھی نہیں کھول سکتی۔ بے چارہ کیسے افسوس ناک حالات میں ختم ہوگیا۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے ملکہ عالیہ کہ وہ انتقال کر چکا ہے؟‘‘ ڈچزنے پوچھا۔
’’ ہاں۔نائس لی سیک میں۔ وہ وہاں مختصرسی علالت کے بعد انتقال کر گیا۔ اس وقت اس کا ٹیوٹر اس کے پاس ہی موجود تھا۔ اس کی موت کے بعد وہ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا۔‘‘
’’ یہ عجیب ہی بات لگتی ہے۔‘‘ مادام ڈی شیوروس بولی۔ ’’چند سال قبل جب میں نے نائس لی سیک جاکر اس شہزادے کے بارے میں دریافت کیا تھا تو مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ وہاں بخیرو عافیت زندگی کے دن گزار رہا تھا۔ اس کا انتقال ہرگز نہ ہوا تھا۔‘‘
’’انھوں نے اس کے بارے میں کیا کہا تھا؟‘‘
’’ انھوں نے کہا تھا کہ 1645 کی ایک شام ایک بلند مرتبہ نقاب پوش خاتون ایک گھوڑا گاڑی میں وہاں پہنچی تھی اور بچے اور اس کے ٹیوٹر کو وہاں چھوڑ گئی تھی۔‘‘
’’آہ! کاش وہ اس وقت زندہ ہو ۔‘‘ ملکہ دکھ سے بولی۔ ’’اگر وہ اس وقت زندہ ہواتو وہ بھی ایک خوب صورت نوجوان بن چکا ہو گا۔‘‘
’’اور وہ اپنے بھائی موجودہ بادشاہ کا ہم شکل بھی ہوگا۔‘‘ مادام ڈی شیور وس بولی۔ ’’آپ ملکہ عالیہ میر اخیال ہے کافی تھک چکی ہوں گی۔ لہٰذا اب مجھے یہاں سے رخصت ہوجانا چاہیے۔ ‘‘
’’ ٹھیرو ڈچز۔‘‘ ملکہ بولی۔ ’’میں سوچتی ہوں کہ تم سے بڑھ کر کسی نے میرا بھلا نہیں چاہا۔’’ نہ مجھ سے ایسی محبت کی ہے۔‘‘
’’ملکہ عالیہ کی یہ بے پنا ہ کرم فرمائی ہے۔‘‘
’’ نہیں میں تو تمھارے لیے کبھی کچھ کر ہی نہیں سکی۔ تم بتاؤ میں تمھارے لیے کیا کرسکتی ہوں۔‘‘
ڈچز نے یوں ظاہر کیا گویا وہ کسی الجھن یا تحیر میں پڑ گئی ہو۔ پھراس نے کہا:
’’ کیا ملکہ عالیہ ڈیمپیئر آکر مجھے عزت افزائی کا موقع دیں گی؟ آپ کی تشریف آوری میرے لیے باعث صد افتخار ومسرت ہوگی۔‘‘ ’’ہاں ضرور۔ میں ضرور وہاں آؤں گی ۔‘‘ ملکہ نے کہا۔
’’ میں چاہتی ہوں ملکہ عالیہ کہ آپ وہاں تشریف لانے میں کم از کم دو ہفتے کا توقف ضرور فرمائیں۔‘‘ ڈچز بولی۔
’’ضرور لیکن کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ۔۔۔‘‘ ڈچز کہنے لگی۔ ’’میں چوں کہ دربار شاہی سے نکال دی جاچکی ہوں۔ اس لیے کوئی بھی مجھے ڈیمپیئر کی ضروری مرمت و آراستگی کے لیے دس لاکھ فرانک قرض دینے کو تیارنہیں، اگر یہ بات سب کو معلوم ہو جائے کہ مجھے اس رقم کی اس لیے ضرورت ہے کہ ملکہ عالیہ ڈیمیپئر آنے والی ہیں تو مجھے کسی سے قرض حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔‘‘
’’ اچھا۔‘‘ ملکہ نے سرکو آہستہ آہستہ جنبش دی۔’’ دس لاکھ فرانک۔ یہ رقم تم مجھ سے لے سکتی ہو ڈچز۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتی ملکہ عالیہ۔‘‘
’’ وہ میز یہاں لاکر رکھو۔ میں تمھارے لیے ایک حکم نامہ تیار کر تی ہوں۔‘‘
ملکہ نے ایک کاغذ پرحکم نامہ تیار کیا اور ڈچز کو تھما دیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد جب مادام ڈی شیور وس چپ چپاتے شاہی محل کے عقبی حصے سے باہر نکلی تو وہ بہت مطمئن اور مسرور دکھائی دے رہی تھی۔
پانچواں باب:
جس وقت مادام ڈی شیو روس شاہی محل سے باہر نکلی۔ اس وقت موسیوفو کے کی پیرس میں واقع رہائش گاہ میں ایک شان دار دعوت ہورہی تھی۔ اس دعوت میں مہمانوں کی بھاری تعداد مدعو تھی۔ کھانے کی لمبی چوڑی شان دار میز پر رنگارنگ پھولوں کے گل دستے سجے تھے۔ اورسونے چاندی کے قیمتی برتن آراستہ تھے۔
اسی وقت محل کے باہر ایک گھوڑا گاڑی آکررکی۔ موسیوفو کے نے اس کی آواز کو بڑی توجہ سے سنا اور منتظر نظروں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔
’’موسیو ڈی آربلے۔ بشپ اوف وانز تشریف لائے ہیں۔‘‘ حاجب نے اندر داخل ہوکر اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی سنجیدہ صورت ارامس اندر داخل ہوگیا۔
موسیوفو کے فوراً اس کے استقبال کو لپکا۔
’’میرے عزیز ارامس۔ آؤ تم بھی اس دعوت میں شرکت کرو۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ تم اس موقع پر یہاں آئے۔‘‘
’’ موسیو!‘‘ ارامس بولا۔ آپ کا شکریہ، لیکن میں اس وقت ایک اہم کام سے آپ کے پاس آیا ہوں۔ اگر آپ تخلیے میں کچھ وقت دے سکیں تو آپ کی بہت مہربانی ہوگی۔‘‘
’’ہاں چلو۔‘‘ موسیوفو کے بولا اور اس کا بازو تھامے اسے اپنے مطالعے کے کمرے میں لے آیا۔ اندر داخل ہوکر اس نے دروازہ بندکر دیا اور بولا:
’’ تمھارے چہرے کے تاثرات بتار ہے ہیں کہ تم کوئی اچھی خبر لے کر یہاں نہیں آئے۔‘‘
’’ مادام ڈی شیوروس مجھ سے ملنے آئی تھیں۔‘‘
’’وہ بوڑھی ڈچز؟‘‘ اس سے مجھے بھلا کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟‘‘
’’وہ آپ سے کچھ رقم کھینچناچاہتی ہیں۔ ان کے پاس کارڈینل مزارین کے کچھ خط موجود ہیں۔ ان خطوط میں مزارین نے ایک کروڑ تیس لاکھ فرانک کی رقم کا ذکر کیا ہے۔‘‘
’’ اوہو۔ اچھا۔‘‘ موسیوفو کے نے کرسی پر خوب پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے یہ رقم بخوبی یادہے۔‘‘
’’ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی لیکن یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘
’’بات یہ تھی کہ ایک مرتبہ مزارین کو زرعی ٹیکس میں مراعات کی بہ دولت ایک کروڑ تیس لاکھ فرانک کا منافع ہوا تھا۔ اس نے یہ رقم میرے پاس بھجوا دی۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس نے مجھے خط لکھا کہ میں یہ رقم جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے بھجوا دوں۔‘‘
’’ آپ کے پاس اس کی رسیدیں موجود ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ موسیوفو کے نے کہا اور کرسی پر سے اٹھ کر کمرے میں رکھی ایک شان دار الماری کی طرف بڑھ گیا۔ اس الماری پر سونے کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے جن میں موتی ٹکے ہوئے تھے۔ اس کے نچلے حصے میں دراز بنے تھے۔
اس نے ایک دراز کھول کر کاغذات کے پلندے کو ٹٹولا۔
’’میں نے وہ کاغذات اسی دراز میں رکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک بنڈل کی صورت میں تھے اور کچھ کے تڑے مڑے سے تھے۔ ان پر مزارین نے اپنے ہاتھوں سے تاریخیں ڈال کر ان پر گول دائروں کی صورت میں نشانات لگائے تھے۔ ارے! یہ کا غذات کہاں گئے؟ ہاں یہ رہے۔‘‘ اس نے دراز میں سے ایک بنڈل باہر نکالا اوران کا غذات کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ’’یہ وہ کاغذات تو ہرگز نہیں۔‘‘
’’ آپ دوسری درازوں میں دیکھ لیجیے۔‘‘ ارامس نے تیزی سے کہا۔ ’’اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان درازوں کو سوائے میرے کوئی نہیں کھول سکتا۔ خصوصاً اس دراز کو تو کوئی بھی ہاتھ نہیں لگاسکتا ۔‘‘ موسیوفو کے پریشان ہوکر بولا۔
’’پھر آپ کا کیا خیال ہے۔ وہ خطوط کہاں جاسکتے ہیں؟ ‘‘ارامس بولا۔
’’مزارین کے خطوط اس جگہ سے چوری ہو چکے ہیں۔ مادام ڈی شیوروس یہ کہنے میں حق بجانب ہیں ارامس کہ میں چور ہوں۔ کیوں کہ اب میں کچھ بھی ثابت نہیں کرسکتا۔ تمھارا کیا خیال ہے۔ ڈچز نے ان خطوط کے ساتھ کیا کیا ہوگا؟‘‘
’’میں نے ان کا تعاقب کروایا تھا۔ وہ مجھ سے ملنے کے بعد سیدھی موسیو کولبرٹ کے گھر گئی تھیں۔‘‘
’’میرے خدا!‘‘ موسیو فو کے چلایا۔ ’’اس کے چہرے کی رنگت ایک دم ہی زرد پڑ گئی۔ ’’میں توتباہ ہوگیا۔‘‘
’’آپ بھول رہے ہیں کہ جب تک کسی معاملے کو عدالت اعلامیں نہ لایا جائے اس پر قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی اور آپ پروکیوررجنرل کا عہدہ رکھتے ہیں۔‘‘
’’ نہیں۔ میں اب پر وکیورر جنرل نہیں رہا۔‘‘
یہ بات سنتے ہی ارامس کے چہرے کی رنگت ایک دم زرد پڑ گئی۔اس نے بیٹھی ہوئی آواز میںپوچھا۔’’ کب سے؟‘‘
’’ چند گھنٹے ہوئے۔ میں نے یہ عہدہ کچھ دیر ہوئی چودہ ہزار فرانک میں فروخت کر دیا ہے۔ تم جانتے ہو میرے دوست کہ مجھے ہروقت رپے پیسے کی ضرورت رہتی ہے۔‘‘
’’ آپ نے یہ عہدہ کس کے ہاتھ فروخت کیا ہے؟‘‘ ارامس نے پوچھا۔
’’ پارلیمنٹ کے ایک کونسلر کے ہاتھ، اس کا نام دینل ہے۔‘‘
ارامس کے چہرے کی رنگت اور بھی زیادہ پیلی پڑگئی۔‘‘
’’ دنیل! یہ شخص کولبرٹ کا جگری دوست ہے۔‘‘
فو کے کا چہرہ پسینے سے بھاگ رہا تھا۔
’’آہ میں تو تباہ ہوگیا!میں تو بالکل برباد ہوگیا! میں اب کیا کروں؟ کیا کہیں بھاگ جاؤں؟ کیا مجھے اتنی مہلت مل سکے گی؟‘‘
’’ نہیں؟‘‘ ارامس سختی سے بولا۔ ’’میرے ذہن میں ایک خیال موجود ہے۔ آپ نے اپنی واکس میں دی ہوئی دعوت میں میرے ساتھ ایک موضوع پر بات کی تھی۔ کیا آپ کو وہ یاد ہے؟‘‘
’’ ہاں ۔‘‘ موسیو فو کے نے کچھ حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب میری پوزیشن محفوظ تھی ۔‘‘
’’اس وقت اس دعوت میں بادشاہ بھی مدعو تھے۔‘‘ ارامس بولا۔’’ اب آپ ایسا کیجیے کہ وقت ضائع کیے بغیر واکس میں ایک ضیافت کا انتظام کیجیے۔‘‘
’’ارامس!کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ اس کے لیے تو مجھے چالیس یا پچاس لاکھ فرانک کی ضرورت پڑے گی۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہوگا۔ اگر یہ بادشاہ کے لیے دی جائے اور اس میں نہایت شان وشوکت کا مظاہرہ بھی کیا جائے۔‘‘
’’ایسی صورت میں مجھے ایک کروڑ بیس لاکھ فرانک خرچ کرنے ہوں گے لیکن اتنی رقم مجھے بھلا کہاں سے حاصل ہو سکے گی؟‘‘
’’آپ اس کی فکرمت کیجیے۔ رقم بس آپ کو ملا ہی چاہتی ہے۔‘‘
’’ عجیب باتیں کر رہے ہو تم ارامس؟ ‘‘موسیوفوکے فرط حیرت سے چکرائے جارہے تھے۔’’جانے تم میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں آپ کو اس مصیبت سے نکالنا چاہتا ہو جو جلد ہی آپ کے گلے پڑنے والی ہے، آپ بس مجھ پر بھروسہ رکھیے۔‘‘
’’وہ تو مجھے ہے لیکن پھر بھی میں نہیں سمجھ سکا کہ۔۔۔۔‘‘
’’آپ بس میری باتیں سنتے جائیے۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’جب آپ ضیافت کا انتظام کرنے لگیں تو مجھے اپنا منیجر یا سٹیوارڈ بنا دیجیے۔ میں لوگوں کا خیال رکھوں گا۔ ان کے لیے کمروں کا چناؤ کروں گا اور دروازوں کی چابیاں اپنے پاس رکھوں گا۔ آپ دوسرے ملازموں کو جو ا حکامات جاری کریں گے۔ میری معرفت جاری کریں گے۔ سمجھے آپ؟ ‘‘
’’ ہاں۔ لیکن میرے دوست۔‘‘
’’ رہنے دیجیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ اب جائیے اور مہمانوں کی فہرست تیار کیجیے۔ ہم بادشاہ کے ٹھیرنے کا انتظام ’’ مورفیوس کی خواب گاہ‘‘ میں کریں گے اور میں اس کے اوپر’’ نیلے کمرے‘‘ میں قیام کروں گا۔ ان کمروں کے راز سے کوئی بھی آگاہ نہیں۔
’’ہاں۔ وہاں سے بادشاہ کو اغوا بھی کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘موسیو فوکے نے ہنس کر کہا۔
ارامس نے بھی قہقہہ لگایا۔
’’ہاں بالکل۔ اور اس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکتی ۔‘‘
چھٹا باب:
اگلی صبح جب بادشاہ دیہات میں سیر کرنے کے بعد واپس آیا تو اس نے موسیوفو کے کو ملاقات کا منتظر پایا۔ غلام گردش میں موسیو کولبرٹ کھڑا تھا۔ بادشاہ کے اندر داخل ہوتے ہی وہ کسی سائے کی طرح اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ فوکے کی نظر جب اپنے اس دشمن پر پڑی تو اس نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہ کیا۔ اسے اپنے اس دشمن کی آنکھوں میں اپنے لیے شدید نفرت اور حسد کی آگ بھڑکتی دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر جھک کر بادشاہ کو تعظیم دی۔
’’ شہنشاہ معظم۔‘‘ اس نے کہا۔’’ آپ کو دیکھتے ہوئے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ اپنی سیر سے پوری طرح سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔‘‘
’’ ہاں بہت۔‘‘ نوجوان بادشاہ نے کہا۔’’ دیہات کی سیر مجھے ہمیشہ لطف دیا کرتی ہے۔‘‘
’’ مجھے آپ کی زبانی یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی شہنشاہ معظم۔ آپ نے ایک مرتبہ مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ میرے غریب خانے واکس میں تشریف لاکر وہاں چند روزقیام فرمائیں گے ۔میں آج اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ سے عرض کروں کہ آپ حسب وعدہ میرے غریب خانے پرتشریف لاکر میری عزت افزائی فرمائیں۔‘‘
’’تم اس کے لیے کون سادن تجویز کرتے ہو۔؟‘‘
’’ جوشہنشا ہ معظم پسند فرمائیں۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ بادشاہ بولا۔ ’’اگر میں اگلی توار کا دن تجویز کروں تو کیا یہ مناسب رہے گا۔‘‘
’’ جی ہاں۔ اس طرح مجھے شہنشاہ معظم کی شایان شان میزبانی کی تیاریوں کے لیے کافی وقت مل جائے گا۔‘‘
’’تم کن کن لوگوں کو وہاں مدعو کرو گے۔؟‘‘
شہنشاہ معظم ،از راہ کرم ان تمام مہمانوں کی فہرست تیار کر واکر مجھے دے دیں جنھیں وہ اپنے ہمراہ واکس لانا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’ شکریہ موسیو فو کے۔‘‘
فو کے بادشاہ کے سامنے تعظیماً تھوڑا ساجھکا اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔ بادشاہ نے اپنے ذہن میں مہمانوں کی فہرست تیار کر نی شروع کر دی۔ اس نے اس میں کولبرٹ کا نام شامل کیا ہی تھا کہ ایک حاجب کمرے کے دروازے میں نمودار ہوا۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ بادشاہ نے ناخوش گواری سے پوچھا۔ ’’میں نے تو تمہیں نہیں بلایا۔‘‘
’’ شہنشاہ معظم۔‘‘ حاجب بولا۔’’ آپ نے حکم دیا تھاکہ جب کبھی بھی موسیولافیئر آپ سے ملنے آئیں۔انھیں بلا روک ٹوک اندر آنے دیا جائے۔‘‘
’’ وہ بہت عرصہ پہلے کی بات تھی۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔ ایتھوس کے نام پراس کی پیشانی پکی شکنیں پڑ گئیں۔
’’موسیولا فیئر اس وقت آپ سے ملاقات کے منتظر ہیں۔‘‘
بادشاہ کے چہرے سے پریشانی جھلکنے لگی۔ اس نے اپنا ہونٹ چبایا اور موسیو کولبرٹ سے بولا:
’’ آپ جائیے موسیو کولبرٹ۔ اس کے بعد میں مہمانوں کی فہرست تیار کرنے کی فرصت چاہوں گا۔‘‘
موسیو کولبرٹ بادشاہ کے سامنے تعظیماً تھوڑا سا جھکا اور کمرے سے نکل گیا۔
بادشاہ مضطربانہ کمرے میں ٹہلنے لگا۔اس کے چہرے پر پریشانی اور تفکر کی جھلک تھی۔ وہ بخوبی سمجھ رہا تھا کہ ایتھوس کی وہاں آمد کا کیا مقصد ہوسکتا تھا۔ اس نے اس سے ملاقات پرضرور جلاوطن رائول اور لوئیس ڈی لاویلیئر کا تذکرہ کرنا تھا۔ نوجوان بادشاہ کو آئندہ پیش آنے والی مشکلات کا احساس ہورہاتھا۔ ایتھوس ایک بے حد نیک نام اور معزز شخص تھا اور اس سے ملاقات پر بادشاہ ہر قسم کی بدمزگی سے بچنا چاہتا تھا۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد اس نے حاجب کو ایتھوس کو بلانے کی ہدایت کر دی۔
ایتھوس اس وقت مکمل در باری لباس میں ملبوس تھا۔ اس کے سینے پر بے شمار تمغے سجے تھے۔ بادشاہ کے بند و قچیوں میں اسے اب بھی ایک محترم مقام حاصل تھا۔ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بادشا ہ مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ ایتھوس نے تعظیماًجھک کر اس پر بوسہ دیا۔
’’ موسیوڈی لافیئر ۔‘‘ بادشاہ بولا۔’’ تم اب کبھی کبھار ہی ہم سے ملنے آنے لگے ہو۔ تمھاری اس وقت آمد نے مجھے بے مسرت بخشی ہے۔‘‘
’’میری خواہش ہے کہ مجھے ہر دم شہنشاہ معظم کے قریب رہنے کی عزت حاصل ہوجائے۔ ‘‘ایتھوس سنجیدگی سے بولا۔
بادشاہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
’’تم شاید پھر اپنی شکایت لے کر آئے ہو؟‘‘
’’یہ ایک شکایت ہوسکتی ہے ۔لیکن نہیں۔۔۔ شہنشا معظم۔ میں آپ کو اپنے اور آپ کے درمیان آج سے سات ماہ قبل ہونے والی وہ ملاقات یاد دلانے آیا ہوں جس میں میرے بیٹے رائول کی لوئیس ڈی لاویلیئر سے شادی کے امکانات زیر گفت گو آئے تھے۔ شہنشاہ معظم نے اس شادی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘
’’بالکل صحیح۔‘‘ بادشاہ خشک لہجے میں بولا۔
’’ شہنشاہ معظم نے اس وقت یہ اشارہ دیا تھا کہ اس نوجوان خاتون کی سوسائٹی میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے پاس بہت کم جائیداد ہے۔‘‘
بادشاہ نے اپنے آپ کو کرسی پر گرا دیا۔ اسے ایتھوس کی باتیں بہت گراں گزر رہی تھیں مگروہ انھیں سننے پر مجبور تھا۔
’’ اور وہ خوب صورت بھی اتنی نہیں۔ ‘‘ایتھوس بے رحمی سے بولا۔ یہ الفاظ بادشاہ کے دل میں تیر بن کر لگے۔ اس نے بے چینی سے کرسی پر پہلو بدلا۔
’’ تمھاری یادداشت بہت اچھی ہے موسیو ۔‘‘ اس نے سختی سے کہا۔
’’ جی ہاں۔ شہنشاہ معظم۔ مجھے اس موقع پر ہونے والی تمام باتیں یادیں۔ میرا بیٹا اس وقت ایسا دکھی اور دل شکستہ ہورہا ہے کہ میں آپ کے پاس اس کی شادی کی اجازت لینے آنے کے لیے مجبور ہوگیا ہوں۔‘‘
بادشاہ نے بے صبری سے اپنے ہاتھ آپس میں دبائے۔
’’ نہیں میں اس شادی کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔ ‘‘
’’کیامیں شہنشاہ معظم سے اس ممانعت کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟ ‘‘
’’وجہ؟ تم مجھ سے۔۔۔ سوال کروگے؟‘‘ بادشاہ چلایا۔
’’سوال نہیں۔ مطالبہ… شہنشاہ معظم۔‘‘
’’ بادشاہ ایک دم کرسی پر سے اٹھ گیا۔ اس کی آنکھیں سکڑ گئی تھیں۔ ایتھوس نے دیکھا اس کی آنکھوں سے شدید غصہ جھلک رہا تھا۔
’’موسیوڈی لافیئر۔‘‘ وہ سرد لہجے میں بولا۔ ’’میرا خیال ہے میں نے تمہیں کافی وقت دے دیا ہے۔‘‘
’’اور ابھی تک شہنشاہ معظم۔‘‘ ایتھوس بولا۔’’ میں آپ سے وہ کچھ نہیں کہہ سکا جس کے لیے میںیہاں آیا ہوں۔‘‘
’’ میں تمھیں خبردار کرتا ہوں موسیو۔ تم حد سے بڑھتے جارہے ہو۔‘‘
’’ہرگز نہیں شہنشا معظم، آپ غلط سمجھے۔ اگر اس شادی کی اجازت دینے سے انکار میں آپ کی کوئی مصلحت ہے۔‘‘
’’ میں تمھیں پھر خبر دار کرتا ہوں؟ ‘‘
’’ اگر میرے بیٹے کو اس شادی سے روکنے سے شہنشاہ معظم کا مقصد…‘‘
بادشاہ نے غصے سے اپنا دستانہ اپنے ہاتھ سے اتار کر فرش پر دے مارا۔
’’ میڈموازیل لاویلیئر تمھارے بیٹے سے ہرگز محبت نہیں کرتی۔‘‘ اس نے بھاری آواز میں کہا۔
’’ آپ کیا یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں شہنشاہ معظم؟‘‘
’’ہاں بالکل۔‘‘ بادشاہ نے جھوٹ بولا۔
’’ہماری گزشتہ ملاقات کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزراشہنشاہ معظم۔ اس دوران آپ مجھے اس افسوس ناک حقیقت سے آگاہ کر سکتے تھے۔ ‘‘ایتھوس بادشاہ کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔’’ اگر واقعی ایساہی ہے تومیری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسی صورت میں آپ کو میرے بیٹے کو برطانیہ جلا وطن رکھنے کی اب کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’ بادشاہ اس وقت شدید اضطراب اور بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ایتھوس کو جانے کا کہا مگرایتھوس بدستور اپنی جگہ کھڑا رہا۔
’’ شہنشاہ معظم۔‘‘ وہ کہنے لگا۔ ’’آپ کو میری باتیں سننی ہی پڑیں گی۔ میں نے آپ کے والد کے لیے خون بہایا ہے۔ آپ کے لیے بھی بڑی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے بدلے میں، میں نے آپ سے کبھی کچھ بھی نہیں مانگا۔ اب آپ میرے بیٹے کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اس سے وہ کچھ چھین رہے ہیں جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی مسرت ہے۔‘‘
بادشاہ کمرے میں ادھرادھر ٹہل رہا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ اپنے کوٹ کی جیبوں میں ڈال رکھے تھے۔ اس کی گردن غرور سے تنی ہوئی تھی اور اس کی آنکھیں غصے سے چمک رہی تھیں۔
’’جائو! نکل جاؤ اس کمرے سے۔‘‘ وہ چلا کر بولا۔
’’ نہیں! میں یہ کہے بغیر ہرگز نہیں جاؤں گا کہ ’’اے لوئی سیز دہم کے بیٹے! تم نے اپنی حکومت کی ابتدا بڑے غلط طریقے سے کی ہے۔ اب میں اور میرا بیٹا تمھاری عزت واحترام کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ تم نے ہمیں اپنا دشمن بنالیا ہے۔‘‘
اس نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا اور تیز تیز چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ نوجوان بادشاہ شدید غصے اوراحساس ذلت سے لرزاں کچھ دیر کھڑا تیز تیز سانسیں لیتا رہا۔ پھر اس نے کمرے میں رکھی ہوئی گھنٹی کو زور زور سے بجایا۔
گھنٹی کی آواز پر حاجب دوڑا دوڑا کمرے میں داخل ہوگیا۔
’’ جاؤ۔ موسیو دارتنان کو بلا لاؤ۔‘‘
تھوڑی دیر بعد جب دارتنان کمرے میں داخل ہواتو بادشاہ نے اسے ایک کاغذ تھا دیا۔
’’ یہ میرا حکم نامہ ہے۔ ‘‘اس نے بھاری آواز میں کہا۔’’ موسیوڈی لافیئر کی گرفتاری کا۔ ’’اسے گرفتار کر کے بیس تیل میں قید کر دیا جائے۔‘‘
ساتواں باب:
دارتنان اپنے دوست ایتھوس کی رہائش گاہ پراس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’مجھے معلوم تھا کہ تم یہاں ضرور آؤ گے۔‘‘ ایتھوس بولا۔ ’’کیا تم مجھے گرفتار کرنے آئے ہو؟‘‘
’’اور تم اس کے لیے بالکل تیار ہو؟
’’ہاں۔ میں نہیں چاہتا کہ تمھیں اس کام میں دیر ہو جائے۔‘‘ ایتھوس مسکراکر بولا۔
دونوں چوڑی چوڑی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر باہرگلی میں چلے گئے۔ وہاں ایک گھوڑا گاڑی کھڑی تھی۔ ایتھوس اس میں جا بیٹھا۔ دارتنان اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ ان کے بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی۔
’’میرا خیال ہے تم مجھے بیس تیل لے جارہے ہو۔‘‘ ایتھوس نے دریافت کیا۔
’’ نہیں۔ میں تھیں وہاں لے جارہا ہوں جہاں تم جانا پسند کروگے۔ یقینا میرے عزیز ایتھوس کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ میں تمہیں بغیر کسی معقول وجہ کے جیل میں جھونک دینا پسند کروں گا؟ میری بات ذرا غور سے سنو۔ میں نے تمام منصوبہ ترتیب دے لیا ہے۔ یہ گاڑی بان تھیں…‘‘
ایتھوس مسکرایا۔ اس نے سرکو نفی میں جنبش دی اور بولا:
’’ نہیں۔ مجھے سیدھا بیس تیل پہنچا دو۔ میں لوگوں کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ یہ نوجوان جوشاہی شان وشوکت اور اقتدار میں چور ہے، اپنے اور اپنے باپ کے وفاداروں سے کس محبت اور نیک دلی کا برتاؤ کرتا ہے۔‘‘
’’کیا تم سنجیدگی سے یہ سب کچھ کہہ رہے ہو؟ کیا تم واقعی بیس تیل جانا چاہتے ہو؟ ‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’چلو پھر چلیں ۔‘‘دارتنان نے کہا اور چلا کر گاڑی بان کو بیس تیل جانے کی ہدایت کی۔ جب ان کی گھوڑا گاڑی اس قلعہ نما قید خانے کے احاطے میں داخل ہوئی تو دارتنان چلایا۔
’’ ارے !ارے! ذرا اسے دیکھو!‘‘
انھوں نے گاڑی کی کھڑکی سے گورنر ہاؤس کے پھاٹک سے ارامس کو باہر نکلتے دیکھا۔
’’میرے خدا! یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘
’’ میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ اس کی گورنر با سیمو سے بڑی دوستی چل رہی ہے۔ ایتھوس تم اپنی گرفتاری کے متعلق کسی سے کچھ نہ کہنا۔ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘
ان کی گھوڑا گاڑی ایک دوسری گاڑی کے پیچھے جاکرر گئی۔ گورنر ہاؤس کے پھاٹک پر ایک ملازم آکر کھڑا ہوگیا۔
’’ہمیں موسیو باسیمو کی طرف لے چلو ۔‘‘ دارتنان نے اسے ہدایت کی۔
وہ دونوں ملازم کے پیچھے چلتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر گورنر کے کمرۂ طعام میں داخل ہوگئے۔ وہاں انھوں نے ارامس کو میز پر بیٹھے دیکھا۔ سارے کمرے میں اشتہا آور کھانوں کی خوش بو پھیلی ہوئی تھی۔ اپنے دو پرانے دوستوں پر نظر پڑتے ہی ارامس ایک دم ہی چونک گیا۔ سرخ اور بھاری جسم والا موسیو باسیموبھی شدید حیرت زدہ سا دکھائی دینے لگا۔
’’ موسیوڈی با سیمو۔‘‘ دارتنان بولا۔ ’’آپ کو یادہی ہوگا کہ آپ نے ایک دن مجھے یہاں کھانے پربلایا تھا۔‘‘
’’ میں نے؟ ‘‘با سیمو چلا کر بولا۔ اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکالگا تھا۔
’’ہاں جب آپ نے شاہی محل میں مجھ سے ملاقات کی تھی۔ یاد آیا آپ کو؟‘‘
باسیمو ایک دم پیلا پڑ گیا۔ اس کے بعد اس کے چہرے کی رنگت ایک دم سُرخ ہوگئی۔ اس نے مضطرب ہوکرا رامس کی طرف دیکھا ۔ پھر جھجکتے جھجکتے بولا:
’’ یقینا۔۔۔ یقینا۔۔۔ مجھے بہت مسرت ہے کہ آپ تشریف لائے۔۔۔لیکن۔۔۔ میں قسمیہ کہتا ہوں کہ… مجھے اس بارے میں۔۔۔ آہ معاف کیجیے موسیو۔۔۔ میرے عزیز موسیو دارتنان۔۔۔ میں آپ کو یہاں خوش آمدید کہتا ہوں اور ان صاحب کو بھی۔‘‘ اس نے خفیف سا جھک کر ایتھوس کو تعظیم دی۔
’’یہ آپ کی بے پناہ کرم فرمائی ہے۔‘‘ دارتنان بولا۔’’جب میں یہاں آرہا تھا تومیری ملاقات کاؤنٹ ڈی لافیئر سے ہوگئی۔ میں انھیں اپنے ہمراہ یہاں لے آیا۔ کیا یہ یہاں آپ کے ساتھ شریک طعام ہو سکتے ہیں؟ اتنی دیرمیں ،میں اپنا اہم کام نمٹا آتا ہوں۔ مجھے اس میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت نہیںلگے گا۔‘‘
’’ تو تم کیا یہاں نہیں رک رہے؟‘‘ ارامس نے کچھ تحیر سے پوچھا ۔’’تم کیا ہمارے ساتھ کھانے میں شرکت نہیں کرو گے؟‘‘
’’میں بس ایک گھنٹے میں واپس آجاؤں گا۔‘‘ دارتنان بولا۔ پھروہ ایتھوس کی طرف مڑا اور اس سے سرگوشی میں کہا۔ ’’میرانتظارکرو اور خوش باش نظر آؤ اور خدا کے لیے اپنی گرفتاری کا ان سے تذکرہ ہرگز نہ کرنا۔‘‘
موسیو با سیمو دارتنان کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا پھاٹک تک آن پہنچا۔ وہاں دارتنان اس سے رخصت ہوکر اپنی گھوڑا گاڑی میں جا بیٹھا۔
’’شاہی محل چلو۔‘‘ اس نے چیخ کر گاڑی بان سے کہا۔’’ اور نہایت تیزی سے چلاؤ!‘‘
آدھ گھنٹہ بعد بادشاہ نے اپنی میز پر بیٹھے لکھتے لکھتے سراٹھاکر جو دیکھاتو اس نے بندوقچیوںکے کپتان دارتنان کو دروازے میں کھڑے پایا۔
’’ آہ دارتنان! کہو کام ہوگیا کیا؟‘‘
’’جی ہاں شہنشا ہ معظم۔‘‘
’’ کاؤنٹ نے کچھ کہا تھا؟‘‘
’’ اس نے کہا تھا کہ اسے اپنے گرفتار کر لیے جانے کی امید تھی۔‘‘
بادشاہ نے نخوت سے سربلند کیا۔
’’گویا کہ…‘‘ اس نے کہا۔ ’’اس میں ہمیشہ کی طرح بغاوت کے جراثیم اب بھی موجود ہیں۔‘‘
شہنشاہ معظم کی نظروں میں کیا ایک ایسا شخص باغی کہلاسکتا ہے۔ جوخود بیس تیل جاکر وہاں قیدہونے کی خواہش کرے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ بادشاہ کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ ’’کیا میرے پاس اسے قید کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں؟ یہ تم میرے اقدام پر اعتراض کیوں کر رہے ہو ؟ تمہیں ایک باغی سے ایسی ہمدردی کیوں محسوس ہورہی ہے؟‘‘
’’میں اسے باغی نہیں سمجھتا شہنشاہ معظم۔ مجھے آپ سے اختلاف ہے۔ اس لیے میں بھی اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں۔ میرا دوست اس قید میں اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرے گا۔اس لیے میری رفاقت اس کے لیے مناسب رہے گی ۔‘‘
بادشاہ نے شعلہ بار نظروں سے دارتنان کی طرف دیکھا اور میز پر سے قلم اٹھا کر اس کی قید کاحکم نامہ تحریر کیا۔
’’یہ تمھاری عمر بھرکی قید کا حکم نامہ ہے!‘‘ اس نے سختی سے کہا۔
’’بہتر ہے شہنشاہ معظم۔‘‘ دارتنان متانت سے بولا۔ ’’یہ کام کرنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ آپ کبھی میرے چہرے کی طرف نظریں اٹھاکر نہیں دیکھ سکیں گے۔‘‘
بادشاہ نے زور سے قلم میز پر پٹخ دیا۔
’’ موسیو ! یہاں سے فوراً نکل جاؤ!‘‘
’’شہنشاہ معظم۔ میں آپ سے نرمی اور متانت سے باتیں کرنے آیا تھا لیکن آپ شدیدغصے میں آگئے۔ یہ بات افسوس ناک ہے لیکن میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کہوں گا۔‘‘
’’کیا تم یہ چاہتے ہوکہ تم اپنے دوست کے لیے مجھ سے معافی حاصل کر لو۔‘‘ بادشاہ چلا کر بولا۔ اس کی آنکھیں دیکھتے ہوئے انگاروں کی طرح سرخ ہورہی تھیں۔
’’ میں آپ کو وہ کچھ کہنا چاہتا ہوں شہنشاہ معظم جو میرا دوست آپ سے نہیں کہہ سکا۔‘‘دارتنان پرسکون لہجے میں بولا۔ ’’آپ نے اس کے بیٹے کو ناکردہ گناہ کے جرم میں سزادی جس پر اس نے اپنے بیٹے کا دفاع کیا۔ وہ ایک بہت معزز و محترم شخص ہے۔ فرانس کے لیے اس کی خدمات بے حد وزنی ہیں۔ اس نے آپ کے والد کے لیے اور آپ کے لیے اپنا خون بہایا ہے لیکن آپ نے اس کی کوئی قدر نہیں کی بلکہ الٹا اسے بیس تیل بھجوا دیا۔ شہنشاہ معظم! آپ اپنے وفاداروں اور جاں نثاروں سے ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے گر بہادر ایسے معزز و محترم وفاداروں اور جاں نثاروں کے بجائے گھٹیا اورکم تر درجے کے لوگ جمع ہوں۔ سپاہی نہیں غلام آپ کے دربارمیں جمع ہوں، قابل اور اچھے لوگوں کی بجائے کٹھ پتلیاں ہوں۔ بزدل اور کم ہمت کتوں کی سی فطرت رکھنے والے اٹھائی گیرے آپ کے سامنے موجود ہوں؟ اگر آپ یہی چاہتے ہیں تو آپ مجھے بھی بیس تیل بھجوا دیجیے۔ اگر آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ ایک سچی باتیں سننے والاحکمران بنیں تو آپ ایک بدترین حکمران ہیں۔ آئندہ آپ اس سے بھی بدتر اور برے حکمراں ثابت ہوں گے۔ برے حکمرانوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور بزدل حکمرانوں سے لوگ چھٹکارا پالیا کرتے ہیں۔‘‘
بادشاہ نے اپنے آپ کو کرسی پر گرا دیا۔ وہ سن سا ہوگیا تھا۔ دارتنان کی باتیں اسے تیر بن کر اپنے دل میں پیوست ہوتے محسوس ہورہی تھیں۔
دارتنان نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور آگے بڑھ کر بادشاہ کے سامنے میز پر رکھ دی۔ بادشاہ نے شدید غصے کے عالم میں تلوار ایک طرف سرکادی۔ وہ میز سے نیچے جاگری اور دارتنان کے قدموں کے قریب جاگری۔ دارتنان کے چہرے کی رنگت ایک دم زرد پڑ گئی۔ اسے شدید غصے کا ایک گولا سا اپنے دماغ میں اٹھتا محسوس ہوا۔
’’ کسی بادشاہ کو بھی کسی شخص کی اس طرح سے توہین کرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا شہنشاہ معظم!‘‘ اس نے خفگی سے کہا اور تلوار زمین پر سے اٹھاکر اس کی نوک اپنے دل کے مقام پر رکھ لی۔
بادشاہ نے بڑی پھرتی کے ساتھ اپنا ایک بازو دارتنان کی گردن کے گردکس دیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی تلوار اس سے چھین لی اور اسے نیام میں ڈال دیا۔ دارتنان زردچہرے کے ساتھ سیدھا کھڑا کپکپا رہا تھا۔ اس نے دوبارہ تلوار بے نیام کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ بادشاہ خاموشی سے اپنی میز کی طرف بڑھ گیا اور اپنا قلم اٹھاکرکاغذ پر ایتھوس کی رہائی کا پروانہ تحریر کیا۔
بادشاہ کے ہاتھ سے وہ حکم نامہ لیتے ہوئے دارتنان نے گھٹنوں کے بل جھک کر اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور حکم نامے کو تہہ کر کے اپنی جیب میں ڈال لیا اور تیز تیز چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس وقت اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔
آٹھواں باب:
موسیو با سیمواوراس کے مہمان ابھی تک کھانے کی میز پر بیٹھے شراب پی رہے تھے جب باہر دارتنان کی گھوڑا گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہ اس وقت بہت تھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ایتھوس نے سوچا کہ شاید اس کا دوست اس کے لیے معافی حاصل کرنے شاہی محل گیا تھا اور اب وہاں سے ناکام واپس لوٹا ہے۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور دارتنان کو اشارے سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسے کس مقصد کے لیے بیس تیل لایاگیا تھا۔ باسیمو اور ارامس نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’ حقیقت یہ ہے میرے دوستو!‘‘ ایتھوس ان سے مخاطب ہوکر بولا۔’’ کہ اس وقت تمھاری میز پر بیس تیل کا ایک قیدی موجود ہے۔ حکومت کا ایک مجرم۔‘‘
باسیمو کے حلق سے ایک خوف زدہ سی آواز خارج ہوئی۔ بادشاہ کے ایک مجرم کے ساتھ کھاناکھانے کے خیال نے اس کے جسم پرشدید قسم کالرزہ طاری کر دیا۔
’’ میرے عزیزایتھوس۔‘‘ ارامس بولا۔’’ مجھے شک تھا کہ تم نے بادشاہ سے ملاقات کی ہوگی اور یہ ملاقات کچھ خوش گوار ثابت نہیں ہوئی ہوگی۔‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہوا تھا۔‘‘ ایتھوس متانت سے بولا۔
دارتنان نے اپنی جیب سے دو کاغذات نکالے اور با سیمو کوتھما دیے۔ اس نے انھیں کھولا اور شدید تحیر اور بے یقینی کے عالم میں انھیں پڑھنے لگا۔
’’ یہ بادشاہ کی طرف سے کاؤنٹ ڈی لافیئر کی فوری رہائی کا حکم نامہ ہے۔‘‘
’’ کیا !‘‘ ایتھوس حیرت سے چلایا۔’’ بادشاہ نے مجھے آزاد کر دیا؟‘‘
’’تمھیں کیا اس کا افسوس ہو رہا ہے؟‘‘ دارتنان نے ہنس کر کہا۔
’’ نہیں شاید تمہیں بادشاہ سے یہ حکم نامہ حاصل کر نے میں بڑی مشکل پیش آئی ہوگی؟‘‘ انھوںنے پوچھا۔
’’ ہرگز نہیں۔‘‘ دارتنان مسکرا کر بولا۔ ’’بادشاہ میری ہر بات فوراً مان جایا کرتے ہیں۔‘‘
ارامس نے غصہ بھری نظروں سے دارتنان کی طرف دیکھا اور بولا:
’’تم جھوٹ بولتے ہو۔ بادشاہ صرف اپنا ہی خیال کیا کرتے ہیں۔‘‘
ارامس کی اس بات پر دارتنان کے ابرو اوپر اٹھ گئے۔ وہ بولا:
’’چلوایتھوس۔ اب میں تھیں تمھاری رہائش گاہ پر واپس پہنچا دوں۔کیوں ارامس تم بھی کیا ہمارے ساتھ چل رہے ہو؟ ‘‘
’’نہیں شکریہ۔‘‘ ارامس نے کہا۔ ’’میری کسی سے ملاقات طے ہے۔‘‘ اس نے ایتھوس کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
’’ میں تم سے کل ملاقات کروں گا ایتھوس۔ مجھے تم سے ایک نہایت اہم معاملے پرگفت گو کر نی ہے۔ پارتھوس بھی اس موقع پر موجود ہو گا۔ میں نے اسے واکس میں دی جانے والی دعوت میں مدعو کیا ہے۔‘‘
’’ آہ، وہ ہمارا عزیز دوست پارتھوس۔‘‘ ایتھوس بولا۔ ’’اتنے عرصے بعد اس سے مل کر مجھے بہت مسرت ہوگی۔‘‘ اس نے جھک کر گورنر کو تعظیم دی۔ ’’موسیوڈی باسیمو۔ اب مجھے یہاں سے رخصت ہونے کی اجازت دیجیے ۔میں ایسے بہترین اور لذیز کھانے کھلانے پر آپ کا شکریہ اداکرتا ہوں۔‘‘ اس نے بڑے وقار کے ساتھ حیران وپریشان کھڑے گورنر سے ہاتھ ملایا اور دارتنان کے ساتھ کمرے سے نکل گیا۔ باہر نکل کر وہ اور دارتنان گھوڑا گاڑی میں سوار ہوگئے اور وہاں سے رخصت ہوگئے۔
موسیو با سیمو ابھی تک بادشاہ کے حکم نامے کے کاغذات ہاتھ میں لیے تحیر زدہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا کہ آخر بادشاہ نے کیوں کر اتنی جلدی اپنا ارادہ تبدیل کرلیا کہ ارامس اس کے پاس چلا آیا۔
’’مجھے بتائیے موسیو کہ کیا بیس تیل کے قیدیوں کو ملاقاتیوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ ‘‘
’’ ملاقاتیوں سے؟‘‘ با سیمونے بوکھلا کر اس کی طرف دیکھا۔’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں موسیو؟‘‘
’’ کیوں؟ کیا یہاں قیدیوں سے ملنے کوئی نہیں آتا؟‘‘
’’ کوئی نہیں۔ کبھی نہیں ۔‘‘
’’ان سے کیا خفیہ طور پر ملاقاتیں بھی نہیں کی جاسکتیں؟‘‘
’’ موسیو ڈی آربلے!‘‘
’’ہاں بتائیے۔ آپ جیسے عہدے دار توان قیدیوں سے ملاقاتیں کر سکتے ہوں گے؟‘‘
’’ ہاں۔ میں اس سے انکار نہیں کرسکتا ۔‘‘ باسیمو نے کہا۔ اس کا چہرہ کسی کاغذ کی طرح سفید پڑ گیا تھا۔ ’’توکیا۔۔۔۔ کیا آپ وہاں کسی قیدی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ کام کتنا خطرناک ہے۔ اس میں جان کا خطرہ ہے۔‘‘
اسی وقت ایک سارجنٹ دروازے پر نمودار ہوگیا۔
’’ کیابات ہے؟‘‘ باسیمو نے سختی سے اس سے دریافت کیا۔
’’موسیو !میں آپ کے پاس ڈاکٹرکی رپورٹ لایا ہوں۔‘‘
باسیمو نے اس کے ہاتھ سے رپورٹ لے لی اور اسے تیزی سے پڑھا اور کرسی میں گر گیا۔
’’ بارہ نمبرکا قیدی سخت بیمار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے اعترافاتِ گناہ سننے کے لیے کوئی پادری بھیجا جائے۔اب میں کیا کہوں؟‘‘ اس نے بے بسی سے ارامس کی طرف دیکھا۔
’’ جو آپ پسند کریں۔‘‘ ارامس سرد مہری سے بولا۔ ’’میں کوئی گورنر تو نہیں ہوں۔‘‘
’’جائو قیدی سے کہہ دو کہ اس کی درخواست قبول کر لی جاتی ہے۔ُُ باسیمو سارجنٹ سے چلا کر بولا۔اس کے بعد وہ ارامس کی طرف مڑا:
’’موسیو! آپ ایک اعلیٰ کلیسائی عہدے دار ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس قیدی کے پاس جا کر اس کے اعترافات گناہ سن لیجیے۔‘‘
’’بہت اچھا۔ چلیے آپ فوراً اس کے کمرے تک میری رہ نمائی کیجیے۔‘‘
’’با سیمونے ایک لالٹین روشن کی۔ جیلر کو بلوایا اور اس کو ہمراہ لیے اپنی رہائش گاہ سے باہرنکل آیا۔
وہ ایک خوب صورت ستاروں بھری رات تھی۔ ٹیرس پرتینوں آدمیوں کے قدموں کی آواز تاریکی کا پردۂ سکوت چاک کر رہی تھی۔ جیلر کی کمر سے بندھی چابیاں اس کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ جھنجھنا رہی تھیں۔اپنی کوٹھریوں میں موجود قیدی اس جھنجھناہٹ کو صرف سن ہی سکتے تھے۔ اس سے اپنی آزادی کی کوئی توقع وابستہ نہ کر سکتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے عمربھراسی قیدخانے میں رہناتھا۔
چلتے چلتے وہ ایک تنگ سے دروازے میں داخل ہو گئے۔ کچھ دوراندر تک جاکر سیڑھیاں آتی تھیں۔ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد باسیمو ایک دروازے کے سامنے جاکر رک گیا۔ وہ ایک آہنی دروازہ تھا۔ جیلر نے اس کے تالے میں چابی گھمائی اور اسے کھول دیا۔ ارامس باسیمو کی طرف مڑا۔
’’قانون کے مطابق گورنرکسی قیدی کے اعترافات گناہ سننے کا مجاز نہیں۔‘‘
با سیمو نے خاموشی سے سر ہلایا اور ایک طرف ہٹ گیا۔ ارامس نے اس کے ہاتھ سے لالٹین لے لی اور اندر داخل ہوگیا۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے پیچھے لوہے کا دروازہ بند ہوگیا۔
نواں باب:
ارا مس اس وقت تک دروازے کے باہر کھڑا رہا۔ جب تک گورنر اور جیلر کے قدموں کی آواز سنائی دینی نہ بند ہوگئی۔ پھر وہ لالٹین اٹھائے اندر داخل ہو گیا۔ اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور لالٹین ایک پرانی سی میز پر رکھ دی اور کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔
اس کمرے میں صرف ایک ہی کھڑکی تھی جس میں لوہے کی سلاخیں لگی تھیں اور یہ زمین سے خاصی بلندی پر واقع تھی۔ اس کھڑکی کے نیچے ایک بستر بچھا تھا۔ جس پر ایک نوجوان لیٹا ہوا تھا۔ بستر کے قریب ایک بے حد پرانی سی چمڑے کی گدی والی کرسی بھی تھی۔ جس کی ٹانگیں خم کھائی ہوئی تھیں۔ اس کرسی پر اس نوجوان نے اپنے کپڑے ڈال رکھے تھے۔ کھڑکی کے قریب ایک چھوٹی سی خالی میز رکھی تھی۔ وہ نوجوان اس وقت بستر پر لیٹا سورہا تھا۔ اس کا چہرہ اس کے بازوئوں میں آدھا چھپاہوا تھا۔ اس کے سرہانے ایک چھوٹی سی موم بتی جل رہی تھی۔ ارامس بتر کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔ اسی وقت اس نوجوان نے تکیے پر سے سر اٹھایا۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ارامس کے منھ سے دبی دبی سی حیرت بھری آواز خارج ہوگئی۔ اس نوجوان کا چہرہ شہنشاہ فرانس لوئی چہار دہم کا چہرہ تھا!
’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نوجوان نے پوچھا۔
’’ تم نے اعترافات گناہ سننے والے کو ملوانے کو کہا تھا؟‘‘ ارامس نے کہا۔ اور اس کے آگے ہلکا سا خم ہوا۔ قیدی نے اپنے سامنے کھڑے اس سردمہر ،سنجیدہ اور ادھیڑ عمر شخص کو گہری نظروں سے دیکھا۔ اس میں کوئی بات ایسی ضرور تھی جو اسے مشکوک کر رہی تھی۔
’’ میں اب کافی ٹھیک ہوں۔ مجھے اب اعترافات گناہ سننے والے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
’’اس کی بھی نہیں جس نے تمہیں روٹی میں رقعہ چھپاکر بھیجا تھا؟‘‘
وہ نوجوان بری طرح سے چونک گیا۔
’’کیا تمھیں اپنے پرانے دوستوں پر کوئی اعتبار نہیں؟‘‘ ارامس بولا۔
’’کیا تم انہی میں سے ایک ہو؟… تم؟‘‘
’’ تمھیں کیا یادنہیں؟ ‘‘ارامس بولا۔ ’’جب تم ایک لڑکے ہی تھے۔ تو نائس لی سیک میں سیاہ لباس میں ملبوس ایک خاتون ایک بندوقچی کے ساتھ تمھیں دیکھنے آیا کر تی تھی۔‘‘
’’ یاد ہے! اور وہ بند قچی تم ہو۔ ہاں میں اب تمہیں پہچان گیا ہوں۔‘‘ وہ نوجوان بستر پر بالکل سیدھا تن کر بیٹھ گیا اورگہری نظروں سے ارامس کو دیکھنے لگا۔
’’ہاں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ ’’مجھے یاد ہے، مجھے خوب اچھی طرح سے یاد ہے ،تم کئی مرتبہ اس سیاہ پوش خاتون کے ساتھ آئے تھے۔ اس کے بعد تم ایک دوسری خاتون کے ساتھ بھی آتے رہے، میرا خیال ہے وہ دربارسے تعلق رکھنے والی کوئی خاتون ہوں گی۔ یہ لوگ۔ جیلر۔ ٹیوٹر اور اس جیل کا گورنرہی ایسے لوگ ہیں جن سے مجھے باتیں کرنے کا موقع ملتا رہا ہے ۔میں نائس لی سیک میں جس گھر میں رہا کرتا تھا۔ اس میں ایک باغ بھی ہوا کرتا تھا۔ جس کے گر داونچی دیوار کھڑی تھی۔ اس جگہ سے مجھے یہاں ایک قیدی کی حیثیت سے لاکر قید کر دیاگیا۔ یہاں رہتے ہوئے میں باہر کی دنیا دیکھنے کو ترس گیا ہوں۔ میرے ٹیوٹر نے بتایا تھا کہ میرے ماں باپ انتقال کر چکے ہیں۔ کیا اس نے مجھے صحیح بتایا ہے؟‘‘
’’ صرف ایک باپ۔ تمہارا باپ انتقال کر چکا ہے۔‘‘
’’اور میری والدہ؟‘‘
’’وہ بھی تمھارے لیے مرچکی ہے۔‘‘
نوجوان نے تیز نظروں سے ارامس کو گھورا۔
’’مجھے ایک خطرناک راز کو پوشیدہ رکھنے کے لیے یہاں قید میں رکھا گیا ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’ ہاں۔‘‘
’’جب سے میرے ٹیوٹر اور نرس کو مجھ سے جدا کر دیا گیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک کسی کو میرے قریب نہیں آنے دیا جاتا۔ میں کسی کے لیے ایک خطرناک دشمن ہوں، ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔ تمھارے ٹیوٹر اور نرس کو زہر دے دیا گیا تھا۔‘‘ ارامس نے پرسکون لہجے میں کہا۔
نوجوان کا چہرہ پیلا زرد پڑ گیا۔ اس نے کپکپاتا ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا۔
’’ میرا دشمن بہت طاقت ور معلوم ہوتا ہے؟‘‘
’’ہاں۔ یہ تو ہے ۔‘‘ ارامس نرمی سے بولا۔
قیدی کے ماتھے پرشکنیں ابھر آئیں۔
’’پہلے پہل میراخیال تھا کہ شاید میری حیثیت کسی قیدی کی سی نہیں۔ میرے ٹیوٹر نے مجھے ہرقسم کی تعلیم دلائی تھی۔ گھڑ سواری، تلوار بازی، کتابی علوم وغیرہ سب کچھ۔ گویا مجھے ایک نہ ایک دن باہر کی دنیا میں واپس جانا تھا ۔جب میری عمر پندرہ سال تھی تو ایک دن صبح کے وقت میں اپنے ٹیوٹر کی تلاش میں باغ میں جانکلا۔ وہاں مجھے ایک خط گھاس پر پڑاہوا ملا ۔میں نے اسے اٹھالیا۔ اس پر میرا نام لکھا ہوا تھا۔ اس خط کو پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ میرا ٹیوٹر ایک اونچے درجے کا عہدے دار تھا اور میری نرس کوئی ادنیٰ درجے کی خادمہ نہیں تھی اور میری حیثیت بھی کوئی معمولی نہیں تھی۔ کیوں کہ ملکہ، این اوف آسٹریا اور کار ڈینل مزارین وزیراعظم نے خود مجھے ان کی نگرانی میں دیا تھا۔‘‘
اتنا کہہ کر نوجوان خاموش ہوگیا۔
’’ اور پھر کیا ہوا؟‘‘ ارامس نے متانت سے پوچھا۔
’’اسی وقت میراٹیوٹر میرے پاس چلا آیا۔ اس نے جب وہ خط میرے ہاتھ میں دیکھاتو وہ بہت برافروختہ ہوا۔ میرا خیال ہے اس نے ملکہ کولکھا ہوگا کہ…‘‘
’’ اور اس واقعے کے بعد۔۔۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’تمھیں گرفتار کر لیا گیا اور بیس تیل بھیج دیاگیا۔‘‘
’’ہاں۔ یہی ہوا۔‘‘
’’ہوں ۔‘‘ ارامس پر سو چ انداز میں بولا۔ ’’جب انھوں نے تمھیں گرفتار کر کے یہاں قید کیاتو انھوں نے تمھیں اپنی صورت دیکھنے کے لیے کسی قسم کاآئینہ نہیں دیا۔ انھوں نے تمہیں پڑھنے کے لیے تاریخ کی پرانی کتابیں ہی دیں جن میں پرانے بادشاہوں، حکم رانوں کی داستانیں لکھی تھیں۔ تم موجودہ حکومت اور حکمراں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔تمھیں کیا کبھی یہ سوال نہیں ستاتا کہ آخر تمہیں اس طرح مسلسل قیدمیں کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘
’’ ستاتا ہے۔ مگر اس کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔‘‘
’’ پھرسنو!‘‘ارامس تیزی سے بولا۔’’ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ اس وقت فرانس میں کیا ہوا تھا جب تم پیدا ہوئے تھے۔ فرانس کا اس وقت کا آخری حکمران لوئی سیزدہم تھا۔ وہ ایک کمزور سا آدمی تھا۔ جو عرصے سے اولاد نرینہ سے محروم چلا آرہا تھا۔ اسے ہردم یہی غم ستاتا رہتا تھا کہ کہیں وہ اپنے خانوادے کا آخری حکمران ہی نہ ثابت ہو۔ پھر ایک دن اس کی ملکہ نے اسے یہ خوش خبری سنائی کہ اس کے ہاں ولی عہد پیدا ہونے والا ہے۔5 ستمبر 1638ء کو اس نے ایک بیٹے کوجنم دیا۔ ‘‘یہاں پہنچ کر ارامس نے کچھ توقف کیا اور اس نوجوان پر نگاہ ڈالی جو بری طرح سے کپکپا رہا تھا۔ ’’جب بادشاہ ولی عہد کی پیدائش کا جشن منا رہا تھا تو اسے دوسرے بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی۔ وہ یہ خبرسن کر بہت خوش ہوا لیکن پھر اس کے وزیراعظم کا رڈینل ریشلو نے کچھ ایسی باتوں کی طرف اشارہ کیا جس نے اس کی خوشی خاک میں ملا دی۔ فرانس میں یہ ہوتا آیا ہے کہ ہمیشہ بادشاہ کا بڑا بیٹا ہی اس کا جانشین یعنی ڈافن بنتا ہے۔ جڑواں بیٹوں کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ پہلے پیدا ہونے والے بیٹے کو ڈافن بنادیا جاتا ہے۔اپنے اس دوسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد بادشاہ بڑی پریشانی میں پڑ گیا۔‘‘ ارامس کہنے لگا۔ ’’اسے ڈر ہواکہ آگے چل کر دونوں شہزادے مل کر تخت وتاج کے لیے آپس میں جنگ کریں گے۔ اور یوں فرانس خانہ جنگی کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔ چناں چہ اس نے فیصلہ کیا کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھ کر مختلف حالات میں پرورش کیا جائے۔ چناں چہ دوسرے شہزادے کو چپ چپاتے محل سے غائب کر دیا گیا۔ اس کے بارے میں اس کی والد ہ، سیاہ پوش خاتون اور میرے سوا کسی کوعلم نہیں۔‘‘
’’ تم نے مجھے عجیب ہی کہانی سنائی ہے ،موسیو۔ تمھاری اس کہانی نے مجھ میں تجسس، دل چسپی اور انتقام کی آگ بھڑکا دی ہے۔‘‘ قیدی بولا۔
’’ یہ دیکھو۔ یہ بادشاہ کی تصویر ہے ۔‘‘ ارامس نے اپنے لبادے میں سے شہنشاہ فرانس لوئی چہار دہم کی تصویر نکال کر قیدی کی طرف بڑھادی۔ قیدی نے اس کے ہاتھ سے اس تصویر کو تقریبا! جھپٹ لیا اور گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’اور یہ موسیو۔ ایک آئینہ ہے۔‘‘ ارامس نے ملائمت سے کہا۔
قیدی نے آئینہ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور اس میں اپنی شکل دیکھتے ہوئے بادشاہ کی تصویر سے اپنا موازنہ کرنے لگا۔
’’اپنے بھائی کو دیکھو۔‘‘ ارامس بولا۔’’ تم دونوں کی آپس کی مشابہت حیرت انگیز ہے۔ ‘‘
’’ہاں واقعی ۔‘‘ قیدی بولا۔ ’’بادشاہ مجھے کبھی رہا نہیں کرسکتا۔‘‘
’’موسیو!‘‘ ارامس بولا۔ ’’تم فرانس کے بادشاہ بن سکتے ہو۔ تمھارے لیے یہ قید خانہ چھوڑنانا ممکن نہیں۔ یہاں سے تمھاری رہائی بالکل آسان ہے۔ اگر تم اپنے دوستوں کے مشورے پرچلو۔ وہ تمھارے خیرخواہ ہیں اور تمہیں تخت فرانس پر جلوہ افروز دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ تم مجھے بغاوت کی ترغیب دے رہے ہو موسیو۔‘‘ نوجوان قیدی تلخی سے بولا۔
’’ ہم صرف رعایا کے بھلے کے لیے تمہیں بادشاہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ اس کا مطلب ہے کہ میرا بھائی ایک اچھا حکمران ثابت نہیں ہورہا؟‘‘
’’ یہی سمجھو۔ اگرتم ہماری رہنمائی میں چلنے پرآمادہ ہوجاؤ تو تمھارے لیے اچھے اور بارسوخ دوستوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی ۔‘‘
’’اور میرا بھائی؟ اس کا کیا بنے گا؟‘‘
’’ اس کی تقدیر کا تم فیصلہ کرو گے۔ اچھا اب مجھے یہاں سے رخصت ہو جانا چاہیے۔ اگلی بار میں تمھیں یہاں سے نکال لے جانے کے لیے آؤں گا۔‘‘ ارامس بولا۔
نوجوان قیدی نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا پھر بولا:
’’مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ میں تم پر مکمل اعتماد کرتا ہوں۔‘‘
ارامس اس کے سامنے گھٹنوں کے بل فرش پرجھک گیا اور اس کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔
’’ میں مستقبل کے شہنشاہ فرانس کو تعظیم پیش کرتا ہوں اور اس سے اظہار وفاداری کرتا ہوں۔ اگلی بار جب میں تم سے ملوں گا تو تمہیں ’’شہنشاہ معظم‘‘ کہہ کر مخاطب کروں گا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ نوجوان قیدی کے سامنے رکوع میں جھکا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کی تیز دستک پر جیلر نے آکر دروازہ کھول دیا۔ موسیو باسیمو کا چہرہ خوف سے پیلا پڑا ہوا تھا۔
’’اس قیدی نے اپنے اعترافات گناہ کرنے میں کتنی زیادہ دیر لگائی ہے۔ لگتا ہے اس نے اپنی عمر میں بہت ہی گناہ کیے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
ارامس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اب بیس تیل سے نکل جانا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسی سازش کا تانا بانا بن رہا تھا۔ جو بہت خطرناک تھی۔ جس میں اس کی جان بھی جاسکتی تھی۔
دسواں باب:
اس واقعے کے چند دن بعد کی بات ہے۔ دارتنان تیزی سے سٹرک پر چلا جارہا تھا کہ تیزرفتاری سے چلتے چلتے وہ ایک لمبے چوڑے آدمی سے ٹکرا گیا۔ وہ آدمی اس کے سامنے سے آرہا تھا۔ اس ٹکر پر وہ آدمی بری طرح سے لڑ کھڑا گیا۔
’’ اوہ بے وقوف! کیا تمھاری آنکھیں نہیں ہیں۔ دیکھ کر کیوں نہیں چلتے؟‘‘ اس نے تکلیف سے بلبلا کر کہا۔
دارتنان ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ اس کا ہاتھ فوراًہی اپنی تلوار کے دستے پر جا پڑا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ رک گیا اور اس لمبے چوڑے آدمی کو غور سے دیکھنے لگا۔ اسی وقت وہ لمبا چوڑا آدمی مسرت سے چلا اٹھا۔
’’ دارتنان!میرے خدا یہ تم ہو؟‘‘
’’پارتھوس!‘‘ دارتنان چلایا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے اور فرط مسرت سے قہقہے لگانے لگے۔ راہ گیران کے اس ملاپ کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’تم پیرس کیسے آئے پارتھوس؟‘‘ دارتنان نے پوچھا۔
’’مجھے ارامس نے واکس میں دی جانے والی شاہی ضیافت میں شرکت کی دعوت دی ہے۔‘‘ پارتھوس نے کہا۔
’’خوب! اس جگہ تمھارا وقت خوب گزرے گا۔‘‘ دارتنان نے کہا۔
’’ میر اتو یہ خیال نہیں میرے دوست ۔‘‘ پارتھوس بولا’’۔ بات یہ ہے کہ میرے پاس وہاں قیام کے شایان شان کوئی ملبوسات نہیں۔‘‘
’’ کیا کہہ رہے ہو!‘‘ دارتنان حیرت سے چلایا۔ پھر وہ ایک دم ہی قہقہے لگانے لگا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ پارتھوس کے پاس ایک سے ایک عمدہ اورقیمتی لباس سے بھری الماریاں موجود تھیں۔
’’ ہاں، میرے پاس جو کپڑے ہیں وہ پہنے جانے کے قابل نہیں۔‘‘ پارتھوس بولا۔ ’’اور اس وقت کوئی درزی بھی مجھے بر وقت لباس تیار کر کے نہیں دے سکتا ۔‘‘
’’ چلو پھر تم میرے ساتھ بادشاہ کے خاص درزی موسیو پرسی رین کے پاس چلو۔ میں اس سے کہوں گا کہ وہ تمھارے لیے ایک لباس تیار کر دے۔‘‘ دارتنان بولا۔
پارتھوس فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔’’ بادشاہ کا اپنا درزی؟ خوب خوب چلو !میرے دوست ہم اسی کے پاس چلتے ہیں۔‘‘
بادشاہ کا درزی ریوڈی ہانور میں ایک بہت بڑے محل نمامکان میں رہا کرتا تھا۔ اس وقت گھر کے باہر بہت سے گاہک کھڑے تھے۔ انھیں بتایاکہ موسیوپرسی رین اس وقت بہت مصروف ہیں اور انہیں کوئی وقت نہیں دے سکتے۔ دارتنان پارتھوس کو ساتھ لیے اس اندرونی کمرے میں جا پہنچا جہاں موسیوپرسی رین کام کیا کرتا تھا۔ وہ اس وقت اپنی آستین اوپر چڑھائے سونے کے پھولوں والے بروکیڈ کے کپڑے کو تراش رہا تھا۔ اس نے جب دارتنان اور پارتھوس کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو اس نے کپڑے اور قینچی کو ایک طرف سرکا دیا۔
’’آہا موسیو دارتنان۔ خوش آمدید دیکھئے۔ اس وقت میں بادشاہ کے لیے لباس تیار کر رہا ہوں۔‘‘
’’ اچھا؟ مجھے بتایاگیا ہے کہ آپ بادشاہ کے لیے تین لباس تیار کر رہے ہیں۔‘‘
’’تین نہیں۔ پانچ۔ اور یہ مجھے بڑے مختصر سے وقت میں تیار کرنے ہیں۔‘‘
’’پھر بھی آپ کے پاس اتنا وقت تو ضرور ہو گا کہ آپ ان بیرن کے لیے ایک لباس تیار کرسکیں۔‘‘ دارتنان بولا۔’’ دیکھئے۔ یہ میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’آٹھ دنوں میں تویہ مشکل ہے۔‘‘
’’ ہرگز نہیں۔ میرے عزیز موسیو پرسی رین۔‘‘ دروازے کی جانب سے ایک آواز آئی۔ دارتنان نے گردن موڑ کر دیکھا۔ دروازے میں ارامس ایک نوکیلی داڑھی والے گندم گوں شخص کے ساتھ کھڑا تھا۔
’’ صبح بخیر میرے دوستو!‘‘ ارامس آگے بڑھتے ہوئے بولا ۔’’ موسیو پرسی رین۔ آپ ضروربیرن کالباس تیار کر دیجیے۔ اسے موسیوفو کے کے مہمان کے شایان شان ہونا چاہیے۔‘‘
لگتا تھا جیسے اس کا موسیو پرسی رین پر خاص رسوخ تھا۔ وہ کوتاہ قامت درزی اس کے آگے رکوع میں جھکا اور پارتھوس کو ساتھ لیے برابر والے کمرے میں چلاگیا۔
دارتنان اسی کمرے میں ٹھیرا رہا۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ار امس اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں تھا۔ شاید وہ اپنے کسی خفیہ کام سے اس درزی کے پاس آیا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر وہ خفیہ کام بھلا کیا ہوسکتا تھا۔
ارامس نے بھی تاڑ لیا کہ دارتنان اس کی اس جگہ آمد کو شک کی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اپنااضطراب چھپانے کے لیے وہ درزی کی طرف مڑا اور بولا:
’’موسیو پرسی رین۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ بادشاہ کے لیے پانچ ملبوسات تیارکر رہے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں موسیو۔‘‘ درزی بولا۔ ’’اور صرف بادشاہ اور میں ہی ان ملبوسات کے رنگوں اور ان کی سلائی اور کٹائی سے آگاہ ہیں۔‘‘
’’میں یہی بات جاننے کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘ ارامس بے حد میٹھے لہجے میں بولا۔’’ یہ موسیو لبرون ایک مصور ہیں۔ یہ بادشاہ کے ان ملبوسات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
اس کی یہ بات سنتے ہی موسیو پرسی رین کو ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ منہ پھاڑے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ہاں۔ موسیو پرسی رین۔ آپ بادشاہ کے وہ پانچوں ملبوسات موسیولبرون کو دے دیجیے۔‘‘ ارامس بولا۔
’’ کیا کہا! میں وہ ملبوسات اس آدمی کو دے دوں! موسیو آپ کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے؟‘‘ موسیوپرسی رین چلایا۔
’’ ہرگز نہیں۔‘‘ ارامس متانت سے بولا۔ ’’موسیوفو کے چاہتے ہیں کہ واکس میں بادشاہ کی تشریف آوری کے وقت وہاں بادشاہ کی ایسی تصاویرلگی ہوں جن میں بادشاہ نے یہ ملبوسات زیب تن کر رکھے ہوں۔ ہاں بتائیے موسیو پرسی رین آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
درزی نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا لیکن اس نے اسے نہ بولنے دیا اور کہنے لگا:
’’ آپ کو حق ہے کہ آپ انکار کریں۔ موسیوفو کے نے مجھ سے کہا تھا۔’’ اگر پرسی رین نے انکار کیا تو میں بادشاہ کو بتاؤں گا کہ اے شہنشاہ معظم!میں آپ کو آپ کی تصویر تحفہ میں دینا چاہتا تھا لیکن موسیو پرسی رین کو اس خیال سے اختلاف تھا۔‘‘
’’مجھے؟ نہیں میں بھلا ایسا کیوں کرسکتا ہوں؟‘‘ درزی چلایا۔’’ یہ بندوقچیوں کے کپتان اس کے گواہ ہیں کہ ابھی تو یہ بات شروع ہی نہیں ہوئی۔‘‘
دارتنان محض کندھے اچکا کر رہ گیا۔ وہ اس معاملے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ ہی رکھنا چاہتا تھا۔ اسے اس سارے معاملے میں سازش کی بو محسوس ہورہی تھی لیکن ارامس کی حرکتیں اس کی سمجھ میں نہ آرہی تھیں۔ موسیوپرسی رین بادشاہ کی ناراضگی کے خیال سے خوف زدہ ہوکر وارڈروب سے اس کے پانچوں ملبوسات اٹھالایا۔
لبرون فوراً ہی اپنے کام میں لگ گیا اوران ملبوسات کے آبی رنگوں سے نقش اتارنے لگا۔ ارامس اس کے قریب کھڑا ہوکر اس کو کام کرتے دیکھنے لگا۔ پھر ایک دم ہی اس نے اسے کام کرنے سے روک دیا۔
’’تم کوئی صحیح کام نہیں کر رہے ہو۔ رنگ حقیقی رنگوں جیسے نہیں لگ رہے۔‘‘
’’ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ موسیو لبرون بولا۔’’ بات یہ ہے کہ اس جگہ کی روشنی اچھی نہیں۔‘‘
’’ اگر ہمیں بہتر روشنی اور مناسب وقت مل جائے تو یہ کام بخوبی ہوسکتا ہے۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’لیکن بہتر یہی رہے گا موسیو پرسی رین کہ آپ انہیں پانچوں ملبوسات کے کچھ ٹکڑے کاٹ کر دے دیں۔ ان سے بھی کام چل جائے گا۔‘‘
بے چارے درزی نے بے بسی سے کندھے اچکائے اور بادشاہ کے پانچوں ملبوسات سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کرار امس کے ہاتھ میں دیے۔ اس نے احتیاط سے انھیں اپنے کوٹ کی جیب میںرکھ لیا۔
’’ اب کام بن جائے گا۔‘‘ اس نے کہا اور دارتنان سے مصافحہ کرنے کے بعد موسیو لبرون کو ساتھ لیے اس جگہ سے رخصت ہوگیا۔
’’ عجیب ہی بات ہے۔‘‘ دارتنان نے سوچا۔’’ آخر اسے بادشاہ کے ملبوسات کے ٹکڑوں کی ایسی اشد ضرورت کیوں تھی؟‘‘
درزی کے گھر سے نکل کر ارامس سیدھا موسیوفو کے کی رہائش گاہ پر جا پہنچا۔ ملازم اسے کتب خانے میں لے آیا۔ وہاں موسیوفو کے ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر بے حد فکرمندی اور پریشانی کے تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے میز پر مختلف قسم کے بلوں کا اونچا سا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ جسے دیکھتے ہوئے وہ بار بار سرد آہیں بھر رہا تھا۔ ار امس اس کے سامنے کرسی پر جا بیٹھا اور اس کی سردآہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’ میں اس وقت پرسی رین کی طرف سے آرہا ہوں۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ آپ بادشاہ کی ایک تصویر بنوانا چاہتے ہیں۔ تاکہ اسے واکس پہنچنے پر تحفہ کے طور پیش کرسکیں۔‘‘
’’تصویر؟ وہ زیادہ مہنگی نہیں ہوگی۔‘‘
’’نہیں موسیو۔ میں آپ سے اس سے کہیں زیادہ سستی چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔وہ یہ ہے کہ آپ موسیو لیونز کوخط لکھیں۔ میں ان سے ایک خط لکھوانا چاہتاہوں۔‘‘
’’ کیا؟‘‘ موسیوفو کے چلایا۔’’ کیا تم کسی کو بیس تیل میں قید کروانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ نہیں۔ بلکہ کسی کو وہاں سے نکلوانا چاہتا ہوں۔ سیلڈن نامی ایک نوجوان کو۔ جو دس سال سے جیسوئٹوں کے خلاف ایک نظم لکھنے کے جرم میں وہاں قید ہے۔‘‘
’’عجیب بات ہے!‘‘ موسیوفو کے چلایا۔ ’’بھلا یہ بھی کوئی جرم ہے۔ ایک مذہبی فرقے کے خلاف نظم لکھ دینا۔ یہ توظلم کی انتہاہے کہ وہ اس جرم میں دس سال سے سزائے قید بھگت رہا ہے۔‘‘
’’ اس کی ماں نے کل مجھ سے اس کی وہاں سے رہائی کے سلسلے میں مدد چاہی تھی۔‘‘ ارامس بولا۔
’’ بے چارہ۔‘‘ موسیو فو کے بڑبڑایا۔ پھر اس نے اپنا قلم اٹھایا اور اپنے دوست موسیولیونز کے نام خط لکھنے لگا۔
ارامس بڑے پرسکون اور مطمئن انداز میں اسے خط لکھتے دیکھتارہا۔ اس کی آنکھیں عجیب انداز میں چمک رہی تھیں۔ بادشاہ کے خلاف سازش کا جوتانابانابنا جارہا تھا۔ اسے عملی صورت دینے کا وقت قریب آرہا تھا۔
گیارہواں باب:
بیس تیل کے بڑے گھڑیال نے سات بجنے کا اعلان کیا۔ قیدیوں نے اپنی کوٹھڑیوں میں گھڑیال کی آواز سنی۔ وہاں کا اصول تھا کہ سات بجے وہاں کسی نہ کسی قیدی کو رہا کیا جاتا تھا۔ موسیوڈی باسیمونے بھی گھڑیاں کی آواز سنی اور خوشی سے اپنے ہاتھ ملنے لگا۔ یہ شام کے کھانے کا اعلان تھا۔ اس نے اپنے گلاس میں شراب انڈیلی اور غٹاغٹ اسے چڑھا گیا۔ رومال سے اپنے ہونٹ صاف کرتے ہوئے اس نے اپنے مہمان بشپ اوف وانز کی طرف دیکھا۔ جو اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ ابھی تھوڑی دیر ہوئی وہاںپہنچا تھا۔ اس نے لمبے بوٹ پہن رکھے تھے اور وہ بھورے رنگ کے لباس میں ملبوس تھا۔
’’ موسیو۔۔۔‘‘ گورنر نے اسے مخمورسی آواز میں مخاطب کیا۔’’میں دیکھتا ہوں کہ آج کی رات آپ کوئی مذہبی رہنما نہیں معلوم ہورہے بلکہ پہلے کی طرح والے ایک شان دار خوب صورت اور پروقاربندوقچی دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں بالکل۔۔۔‘‘ ارامس مسکرا کر بولا۔
’’بہت خوب!‘‘ باسیمو نے اپنے گلاس میں مزید شراب بھری اوراسے بھی غٹاغٹ پی گیا۔
ارامس باہر سے آنے والی ہراونچی اور ہلکی آواز کو بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔ وقت گزرتا گیا۔ دونوں شراب پیتے رہے۔ پھر جب ملازم شراب کی پانچویں بوتل لیے کمرے میں آیا تو باہرکسی گھڑ سوار کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ دومنٹ بعد ایک ملازم کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے ایک تہ کیا ہوا کاغذ اپنی جیب سے نکال کر گورنر کی طرف بڑھا دیا۔
’’ باہرایک قاصد آیا ہے۔‘‘
’’ بیڑہ غرق ہواس کا !‘‘موسیو باسیموچنگھاڑا۔’’ میں کل ہی اس سے ملاقات کروں گا۔‘‘
’’ احتیاط سے موسیو با سیمو!‘‘ ارامس جلدی سے بولا۔ ’’ہوسکتا ہے کہ یہ قاصد بادشاہ کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آیا ہو۔ آپ اپنا فرض ادا کیجیے۔ ‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘ با سیموگہری سانس لے کر بولا۔ پھر وہ ملازم کی طرف مڑا۔’’ لائویہ کا غذ مجھے دو۔‘‘
ملازم نے وہ تہ کیا ہوا کاغذ اس کی طرف بڑھا دیا۔ باسیمو نے اس پر سے مہر توڑی۔ اس کی تہیں کھولیں اورا سے پڑھنے لگا۔ ارامس بہ ظاہر شراب پیتے ہوئے اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’ ہا! یہ ایک قیدی کی رہائی کا حکم نامہ ہے۔‘‘ باسیموبولا۔ ’’اس پر ’’ضروری‘‘ کی مہرلگی ہے۔ یہ ہمیں بدحواس کرنے کے لیے واقعی ایک عمدہ خبر ہے۔‘‘
’’ میرے عزیز موسیو باسیمو۔ یہ اس شخص کے لیے عمدہ خبرہے جس کی رہائی کاحکم دیاگیا ہے ۔ارامس بولا۔
باسیمو اپنی کرسی میں گہرا دھنس گیا۔ اس نے دروازے کی طرف رخ کرتے ہوئے ملازم کو بلانے کے لے گھنٹی بجائی۔ شاہی حکم نامہ میز پر پڑا تھا۔ ارامس کے لیے یہ بہترین موقع تھا۔ اس نے تیزی سے ایک دوسرا کاغذ میز پر رکھتے ہوئے شاہی حکم نامہ اٹھالیا اور اسے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اسی وقت ایک ملازم کمرے میں داخل ہوگیا۔
’’فرانکواس۔‘‘ با سیمو نے اسے مخاطب کیا۔’’جاکرمیجر سے کہو کہ وہ موسیو سیلڈن کو اپنی کوٹھری سے نکال کر یہاں لے آئے۔‘‘
’’سیلڈن کو۔‘‘ ارامس چلایا۔ ’’کیا آپ نے واقعی یہی نام لیا ہے؟‘‘
’’ہاں کیوں؟ اسی شخص کی رہائی کا حکم نامہ پہنچا ہے۔‘‘ گورنرنے کہا۔
’’یقینا۔ آپ کا مطلب ہے مارشیالی؟‘‘ارامس نے پوچھا۔
’’ نہیں یہ نہیں۔ میں نے حکم نامے پر ’’سیلڈن‘‘ لکھا ہوا دیکھا ہے ۔‘‘ باسیمو نے کہا اور اپنی انگلی کھڑی کر لی۔
’’اور میں نے اس پر واضح الفاظ میں ’’مارشیالی‘‘ لکھا ہوا دیکھا ہے۔‘‘ ارامس نے دو انگلیاں کھڑی کرتے ہوئے کہا اور میز پر پڑا ہوا کا غذ اٹھالیا۔
’’اس پر واقعی ’’ مارشیالی‘‘ ہی لکھا ہوا ہے۔‘‘
’’ ذرا غور سے دیکھو ۔‘‘
’’بے شک آپ اسے دیکھ لیں۔‘‘ ارامس نے کاغذگورنر کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے اپنی نشہ بھری آنکھوں سے کاغذ کوگھورا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے ہاتھ نیچے گر گئے اور منہ کھل گیا۔
’’ہاں ہاں۔‘‘ وہ تیزی سے کہنے لگا۔ ’’اس میں لکھا ہے۔ ہاں مارشیالی ہی لکھا ہے۔ یہ وہی قیدی ہے جس نے اعترافات گناہ سننے کے لیے تمہیں بلوایا تھا۔‘‘ باسیمو نے کاغذ اٹھالیا اور احتیاط سے اس کی سطروں پر نگاہیں دوڑانے لگا۔
’’کیا آپ مارشیالی کو رہا نہیں کریں گے؟ ‘‘ارامس نے پوچھا۔
’’ نہیں موسیو۔ میں اسے رہا کرنے سے پہلے موسیو ڈی لیونز سے اس حکم نامے کی تصدیق کروںگا۔ پھر ہی اسے رہا کروں گا۔‘‘
’’ اس کا بھلا کیا فائدہ ہو گا؟‘‘
’’اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ میں اس شخص مارشیالی کے معاملے میں کوئی غلطی کرنے سے محفوظ رہوں گا۔اس کے بارے میں مجھے تقریباً روزانہ ہی احتیاط برتنے کی ہدایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
’’لیکن اگر کوئی بڑا افسرآپ کوکوئی حکم دے تو آپ فوراٍ اس کی تعمیل کریں گے۔ ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔ بالکل۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔‘‘ ارامس آگے جھک کر گورنر کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ مجھے ذرا کاغذ اور قلم تو دیجیے۔‘‘ باسیمو نے کچھ حیران کچھ پریشان ہوتے ہوئے کاغذوں کا پیڈاور قلم اس کی طرف بڑھا دیے۔
ارامس نے قلم سنبھالا اور لکھا:
’’شروع اللہ کے نام سے جوبڑی شان اور عظمت والا ہے۔ (اتنالکھ کر اس نے کاغذ پرصلیب کا نشان بنایا) یہ ہمارا حکم ہے کہ موسیو با سیمو گورنر بیس تیل کے پاس جو بادشاہ کا حکم نامہ لایا گیا ہے۔ اس پر حرف بہ حرف عمل کیا جائے اور فوراً اور بلاتاخیر کیا جائے۔‘‘
ڈی آربلے
جنرل اوف دی آرڈر۔
با سیمواپنی جگہ پر مجمدسا کھڑا تھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور اس کی آنکھیں اپنے حلقوں سے ابلی پڑرہی تھیں۔ کمرے میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس میں صرف ایک پتنگے کی بھنبھناہٹ کی ہلکی سی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ارامس نے اپنی جیب سے لاکھ کی مہر نکالی ۔خط پر مہر لگائی اور اسے باسیمو نے کپکپاتے ہاتھوں سے یہ حکم نامہ اس سے لے لیا اور بے جان سا اپنی کرسی پر گرگیا۔
’’اب بتائیے۔ کیا یہ کافی نہیں۔‘‘ ارامس نے نرمی سے کہا۔’’ موسیو با سیمو کانپتی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’میں اس صدمے سے کبھی نہ سنبھل سکوں گا کہ میں نے آپ سے برابری کا رویہ روا رکھا۔‘‘
’’ نہیں۔ آپ اس کی کوئی فکر نہ کیجیے۔بس میرے حکم نامے کی تعمیل کیجیے۔ُُ ارامس ملائمت سے بولا۔
موسیو باسیموفوراً ہی اس کے حکم کی تعمیل کے لیے کرسی سے اٹھ گیا۔ اس نے اپنے نائب کو بلایا اور اسے مطلوبہ قیدی کی رہائی کا حکم دیا۔ نصف گھنٹے بعد انھوں نے صحن میں پھاٹک کے بند ہونے کی آوازسنی۔
ارامس نے ایک کے سوا کمرے میں جلتی ہوئی تمام شمعیں بجھا دیں۔ تھوڑی دیر بعد با ہر قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ جو رفتہ رفتہ قریب آنے لگی۔
’’ جائیے اور اپنے آدمیوں سے ملیے۔‘‘ ارامس نے با سیمو سے کہا۔
باسیمو کمرے سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ قیدی کو ساتھ لیے اندر داخل ہوگیا۔ ارامس نے اسے کمرے کے ایک نسبتاً تاریک سے حصے میں کرسی پربٹھا دیا۔ باسیمو نے قیدی کو بتانا شروع کیا کہ اسے بادشاہ کے حکم کے مطابق رہا کر دیاگیا ہے۔ قیدی خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا پھراس نے ادھر ادھرکسی کو تلاش کرنا شروع کیا۔ ارامس اس کی طرف چلا آیا۔ اس پر نظر پڑتے ہی قیدی کے چہرے کا رنگ ایک دم سرخ پڑ گیا۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔
’’ خدا تمہیں اپنی حفظ وامان میں رکھے میرے دوست۔‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔
’’چلواب چلیں یہاں سے۔‘‘ ارامس نے کہا۔
باہرایک گھوڑا گاڑی کھڑی تھی۔ کوچوان کی جگہ ایک درازقد شخص نے سنبھالی ہوئی تھی۔ گاڑی میں جتے ہوئے گھوڑے بے صبری سے ٹاپیں مار رہے تھے۔ نوجوان رہا شدہ قیدی نے بیس تیل کے آٹھ بلند و بالا میناروں اور پتھریلی دیواروں پر ایک نظر ڈالی اور گاڑی میں سوار ہوگیا۔ گاڑی میں ایک شخص پہلے سے ہی موجود تھا۔
’’شہنشاہ معظم کوجیل سے رہائی مبارک ہو ۔‘‘وہ شخص بولا۔ ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ سے اپنا تعارف کراؤں۔ میں موسیو ڈی لافئیر ہوں۔‘‘
ارامس نے گاڑی میں سوار ہوتے ہی کو چوان کو آواز لگائی:
’’چلو پارتھوس۔ جلدی سے یہاں سے نکل چلو!‘‘
گھوڑے فوراً ہی حرکت میں آگئے اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ ایک مشعل بردار افسر اس کے آگے آگے چلتا ہوا ہر چوکی پراس گاڑی کو گزرجانے کی ہدایت کرتا گیا۔ یہاں تک کہ گاڑی بڑے پھاٹک سے باہرنکل آئی اور ویران سڑک پر تیزی سے دوڑنے لگی ۔شہر سے باہر نکل کر گھوڑے سرپٹ دوڑ نے لگے۔ ان کا رخ ویلینو سینٹ جارج کی طرف تھا۔ وہاں پہنچ کر کچھ دیر تازہ دم ہونے کے بعد وہ واکس کی سمت ہو لیے۔ تیز رفتاری سے سفر کرتے کرتے جب وہ سنارل کے جنگل میں داخل ہوئے تو گھوڑا گاڑی ایک دم رک گئی۔
’’کیابات ہے؟ ‘‘قیدی نے پوچھا۔
’’ شہنشاہ معظم ۔‘‘ ارامس بولا۔’’ اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے بہتر ہے کہ ہم کچھ ضروری باتیں کرلیں۔ ہم اس وقت ایک جنگل میں موجود ہیں اور یہاں کوئی بھی ہماری باتیں سننے والانہیں۔‘‘
’’کوچوان جو ہے۔‘‘
’’وہ بیرن ڈیو ویلون ہیں۔ ہم انھیں پارتھوس کہتے ہیں ۔‘‘ ارامس نے زور سے آواز لگائی۔ ’’یہاں آجائو پارتھوس!‘‘
تھوڑی دیر بعد پاڑتھوص اپنی جگہ سے اتر کر ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
’’ شہنشاہ معظم۔‘‘ وہ بھاری بیٹھی ہوئی آواز میں بولا۔’’ اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے جو آپ رہا ہوگئے۔ ‘‘
’’یہ تمھارا اور تمھارے ساتھیوں کا ایک بے حد بہادرانہ کارنامہ ہے۔‘‘ شہزادہ سنجیدگی سے بولا۔’’ میں اسے کبھی نہیں کھولوں گا۔‘‘
بارہواں باب:
جس گاڑی میں وہ چاروں آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے گرد گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی اور وہ باتیں کر رہے تھے۔
’’موسیو ۔‘‘ارامس نے کہا۔’’ آپ تاریخ فرانس سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیںکہ کسی ملک کی حکمرانی کے لیے کیسی اہلیت اور قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کا بھائی اس معیار میں پورا نہیں اتر رہا۔ وہ ایک خود غرض اور کم زور حکمراں ہے۔‘‘
’’میرے ساتھ اس نے بہت بے حد بے انصافی کی ہے۔‘‘ ایتھوس بولا۔ ’’اس نے میری بھاری خدمات اور وفاداریوں کی کوئی قدر نہیں کی۔ اس وجہ سے میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں ۔‘‘
تھوڑی دیر کے لیے ان کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔پھرا را مس بولا:
’’ آپ کا نام فلپ ہے۔ آپ لوئی سیزدہم کے بیٹے اور لوئی چہار دہم کے بھائی ہیں۔ آپ کا یہ بھائی بادشاہ ہے لیکن آپ بھی تخت فرانس پر حق رکھتے ہیں۔ آپ کی رگوں میں بھی شاہی خون دوڑ رہا ہے اور قدرت نے آپ کو اپنے بھائی جیسی چہرے مہرے کی مشابہت، آوازاور قد کاٹھ سے نوازا ہے۔ آپ کل اس کی جگہ سنبھالیں گے۔‘‘
’’اور میرا بھائی؟‘‘ شہزادے نے کہا۔ ’’کیا وہ قتل کر دیا جائے گا؟‘‘
’’ یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’اس نے آپ کی پیدائش صیغہ راز میں رکھی ہوئی ہے۔اور آپ سے نارواسلوک روا رکھا ہے۔‘‘
فلپ تلخی سے ہنسا۔
’’ کیاشہنشا ہ معظم ہمارا منصوبہ سمجھ گئے ہیں؟‘‘ ارامس نے دریافت کیا۔
’’ ہاں بتائیے آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ پارتھوس نے پوچھا۔
’’ ہاں ہاں میرے عزیز و!‘‘ شہزادہ بولا۔ ’’لیکن ہمیں اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بھی کچھ سوچنا چاہیے۔ اگر ہم بادشاہ کو قید میں ڈال دیتے ہیں تو یہ خطرہ ضرور رہے گاکہ وہ اپنا راز افشا کر دے۔‘‘
’’کس کے سامنے؟ ‘‘ارامس بولا۔’’ کیا وہ دیواروں کو بتائے گاکہ اصل بادشاہ وہی ہے۔اسے بیس تیل لے جاکر آپ والی کوٹھری میں قید کر دیا جائے گا اور وہ محافظ جو آپ کی کوٹھری پر پہرہ دیتے رہے ہیں۔ اس جگہ پہرہ دیں گے۔ اگر وہ انھیں یہ بتائے گا کہ وہ فرانس کا بادشاہ ہے تو وہ اس پر ہنسیں گے اور اس کا مذاق اڑائیں گے۔ وہاں کوئی بھی اس کی باتوں پر کان نہ دھرے گا۔ میں اسے بہ خوبی جانتا ہوں۔ وہ کم زور اعصاب کا شخص ہے۔ وہ جلدہی اس قید میں ٹوٹ پھوٹ کر رہ جائے گا۔‘‘
اسی وقت گاڑی کے باہررات کی تاریکی میں کسی پرندے کے بولنے کی تیز آواز گونجی۔ فلپ کپکپا گیا۔
’’ شہنشاہ معظم۔‘‘ ارامس کہنے لگا۔’’ میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں آپ ہر طرح سے امن و چین سے رہتے ہوئے زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ میرے پاس ایک بیگ ہے جس میں ایک ہزار پستولیں ہیں۔ اب جب کہ آپ بیس تیل سے رہا کر چکے ہیں۔ ہمیں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔بس آپ ایک لفظ کہیں۔ ہم آپ کے لیے ایک گھوڑا تیار کر کے آپ کو اس جگہ لے چلیں گے۔ اس طرح ہمیں تسلی رہے گی کہ ہم نے آپ کی خدمت کی ہے۔ اگر آپ دوسرا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تواس میں یہ خطرہ ہے کہ آپ کو تخت پر قتل کر دیا جائے یا زہر دے دیا جائے۔
کافی دیر تک گاڑی میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ پھر فلپ بولا:
’’ چلو۔ مجھے اس جگہ لے چلو جہاں فرانس کا تاج میرا انتظار کر رہا ہے!‘‘
’’کیا یہ آپ کا فیصلہ ہے موسیو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’آپ ایک عظیم حکمران ثابت ہوں گے!‘‘ارامس بولا۔’’ اگر آپ بادشاہ بن گئے تو…‘‘
’’ایسا کب ہوگا؟‘‘
’’کل رات ۔‘‘ ارامس بولا۔’’ تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ ہاں شہنشاہ معظم۔ آپ مجھے کچھ سوالات کرنے کی اجازت دیجیے۔ میں نے آپ کو جیل میں کچھ کاغذات بھیجے تھے جن میں میں نے آپ کے افراد خاندان اور درباریوں کی تفصیلات لکھی تھیں ۔‘‘
’’ میں نے یہ تفصیلات یادکرلی ہیں ۔‘‘ شہزادہ بولا۔ ’’تم مجھ سے سوالات کرو، میں جواب دیتا جاؤں گا۔‘‘
’’ہم آپ کے خاندان سے آغاز کریں گے موسیو۔‘‘
’’میری والدہ این اوف آسٹریا ہیں ۔میںان کے غموں اور بیماریوں سے بخوبی آگاہ ہوں میںانہیں اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔‘‘
’’اور آپ کا بھائی؟‘‘
’’وہ ایک حسین صورت، زرد رنگت والا نوجوان ہے۔‘‘
’’اس کی بیوی؟‘‘
’’اس سے اسے کوئی محبت نہیں۔ ‘‘فلپ نے جواب دیا۔ ’’لیکن وہ مجھ سے لوئی چہار دہم سے بہت محبت کرتی ہے۔‘‘
’’ آپ کو اس معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’وہ واقعی با دشاہ سے بہت محبت کر تی ہے۔‘‘
’’ایسی عورت کو دھوکہ دینا آسان نہ ہوگا۔‘‘ ایتھوں بولا۔
’’ وہ ایک خوب صورت عورت ہے۔اس کی آنکھیں نیلی ہیں۔ اس کی چال میں خفیف سی لنگڑاہٹ ہے۔‘‘ فلپ بولا۔
’’بہت خوب۔ آپ کیا اپنے وزرا کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘
’’ کولبرٹ ایک سیاہ بالوں والا بد بصورت شخص ہے لیکن وہ ایک ذہین آدمی ہے۔ اس کے بال اس کے ماتھے پر بکھرے رہتے ہیں۔ اس کا سرغیرمعمولی طور پر بڑا ہے۔ وہ موسیو فو کے کا جانی دشمن ہے۔ تم لوگ شاید یہ چاہتے ہو گے کہ میں کولبرٹ کو جلا وطن کر دوں؟ ہے نا؟‘‘
’’شہزادے کی ذہانت پر ارامس عش عش کراٹھا اور بولا:
’’آپ ایک عظیم حکمران ثابت ہوں گے موسیو۔‘‘
’’میں اپنے سبق اچھی طرح سے جانتا ہوں۔‘‘ فلپ بولا۔’’ اللہ کے فضل سے اور تمھاری مدد سے میں غلطیاں کرنے سے محفوظ رہوں گا۔ ہاں اب موسیو فوکے کی بات کرو۔ تمہارے خیال میں مجھے اس کے ساتھ کیاکرنا چاہیے؟‘‘
’’اسے اپنا کام کرنے دینا چا ہے یعنی اسے اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
’’بہت اچھا۔ اب بتاؤکہ میں تمہیں تمھاری ان شان دار خدمات کا کیا صلہ دوں؟ تم مجھ سے کیاطلب کرتے ہو؟‘‘
’’ موسیو ۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’فرانس کا حکمراں بننے کے بعد آپ کیا مجھے سینٹ پیٹرکا تخت عطا کر دیںگے یعنی اپنا وزیراعظم بنالیں گے؟‘‘
’’ہاں موسیو ڈی آربلے۔ تم میرے وزیراعظم یعنی کار ڈینل بنو گے اور ہر حکومتی کام میں میرے مشیر خاص ہو گے۔میں کوشش کروں گاکہ تمہیں پوپ منتخب کر لیا جائے۔ تمھاری زندگی کا یہی سب سے بڑا مقصد ہے نا؟ ‘‘
’’آپ کی ذہانت میں کلام نہیں موسیو ۔میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ ‘‘
’’ اورتم موسیوڈی لافیئر۔ تم اپنے لیے کیا طلب کرتے ہو؟ ‘‘
’’میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ میرے بیٹے کو برطانیہ سے واپس بلوالیا جائے ۔‘‘ ایتھوس بولا۔’’ اس کے بعد آپ اسے میڈ موازیل ڈی لاویلیئر کے ساتھ شادی کی اجازت دے دیں جو ملکہ کی خادمہ خاص ہے۔‘‘
نوجوان شہزاد ہ پہلی مرتبہ دل کھول کرہنسا۔
’’ بس؟ صرف اتنی سی خواہش ہے؟ ہاں موسیو پارتھوس آپ کیا چاہتے ہیں؟ ‘‘
’’میری خواہش صرف اتنی ہے شہنشا ہ معظم کہ آپ مجھے ڈیوک بنادیں۔‘‘
شہزادہ ایک بار پھرہنسا۔
’’سمجھ لوتمھاری یہ خواہش پوری ہوگئی۔‘‘ اس نے کہا۔’’پھروہ ارامس کی طرف مڑا۔ ’’موسیوتم نے کیا کہا تھا؟ میرے بھائی کو غائب کر دیا جائے گا؟‘‘
’’جی ہاں شہنشاہ معظم۔ ہم نے اس کا پورا انتظام کر لیا ہے۔ وہ جب اپنے بستر پر سوئے گاتو بادشاہ ہوگا لیکن جب بیدار ہوگا تو اپنے آپ کو ایک قیدی پائے گا۔بس اس وقت سے آپ شہنشاہ فرانس بن جائیں گے اور آپ کی رہ نمائی کے لیے ہم تینوں آپ کے قریب موجود رہیں گے۔‘‘
’’ میں اس پریقین کرلیتا ہوں۔ یہ رہا میرا ہا تھ موسیو ڈی آربلے۔موسیوڈی لافیئر۔ موسیولی بیرن۔‘‘
گہری تاریکی میں چاروں آدمیوں نے آپس میں گرم جوشی سے ہاتھ ملائے۔ اس کے بعد پارتھوس کوچوان کی جگہ پر جا بیٹھا۔ اس نے گھوڑوں کو چابک رسید کیا اور گاڑی تیزی سے جنگل سے نکل کر واکس جانے والی سڑک پر ہولی۔ جہاں ان تینوں بند وقچیوں نے بادشاہ وقت کو اغواکر کے اس کی جگہ ایک دوسرے آدمی کو شہنشاہ فرانس بنانا تھا۔
تیرہواں باب:
شہنشاہ فرانس لوئی چہار دہم واکس پہنچ چکا تھا اور اس وقت وہ اپنے دربار سے تعلق رکھنے والے امرا ووزراء اوران کی بیگمات کے ساتھ شان دار کمرۂ طعام میں کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کمرۂ طعام ایک ہال جتنا بڑا تھا اور اس کی خوب شان دار طریقے سے آرائش و زیبائش کی گئی تھی۔ اس میں خوب روشنیاں ہورہی تھیں اور صاف ستھری خوب صورت ور دیوں میں ملبوس ملازم مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھے۔ ہر کھانا بادشاہ کی پسند سے تیار کر وایا گیا تھا۔ اس دعوت میں شریک ہرشخص بہت خوش دکھائی دے رہا تھالیکن بادشاہ کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ اس کی بے پناہ سنجیدگی اور خاموشی دعوت میں موجود لوگوں کوبے چین کر رہی تھی۔
بادشاہ نے واکس پہنچنے کے بعد اس رہائش گاہ کی سیرکی تھی۔ اس نے اس کے ہر کمرے اور ہر گوشے کو دیکھا تھا۔ اس نے دیکھا تھاکہ موسیوفو کے کی یہ رہائش گاہ کسی شاہی محل سے کم نہ تھی۔ اسے خوب شان دارا ور خوب صورت انداز میں سجایا گیا تھا۔ اس کی سجاوٹ اور آرائش پر دل کھول کر دولت لٹائی گئی تھی۔ اس کا فرنیچر، قالین، سونے چاندی کے برتن، آرائشی اشیا بہت ہی بیش قیمت تھے۔ دعوت میں پیش کی جانے والی شر ابیں بہت قیمتی اور بہترین تھیں۔ جوصرف شاہی محل ہی میں استعمال ہوتی تھیں۔ پھر وہاں ملازموں کی جتنی تعداد تھی اور انھوں نے جس قسم کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ اسے بھی بادشاہ نے اچھی طرح سے نوٹ کیا تھا۔ اسے موسیو فو کے سے شدید حسد محسوس ہونے لگا تھا۔ اس کی زندہ دلی اور خوش مزاجی رخصت ہوگئی تھی اور اس کے چہرے پرشکنوں کا جال بچھ گیا تھا۔ دعوت کے دوران اس نے سب کے ساتھ انتہائی سرد مہری کا رویہ اپنائے رکھا۔
پھر جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو بادشاہ نے موسیوفو کے سے وہ کمرہ دکھانے کو کہا جو اس کے لیے تیار کیاگیاتھا۔ چناں چہ اسے بڑی عزت اور احترام کے ساتھ اس کمرے میں لے جایاگیا جو واکس کا سب سے خوب صورت اور کشادہ کمرہ تھا۔ اس کمرے کو ’’مورفیوس کا کمرہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کی گنبد نما چھت پرموسیو لبرون نے نیند کے دیوتا مورفیوس کی ایک بہت بڑی اور بہت خوب صورت تصویر بنائی ہوئی تھی اور اس کے آس پاس ایسی چھوٹی چھوٹی انسانوں، جانوروں، پرندوں، پریوں اور پھولوں کی تصویریں بنائی ہوئی تھیں جنھیں دیکھتے دیکھتے انسان نیند کی آغوش میں پہنچ جاتا تھا اور حسین خوابوں کی وادیوں میں سیر کرنے لگتا تھا۔
نوجوان بادشاہ نے چھت پر نظر ڈالی۔ اس کے دل میں حسد کی آگ کا شعلہ ایک بار پھر پوری شدت سے بھڑک اٹھا۔
’’ شہنشاہ معظم! کیا آپ اپنے ملازموں کو بلوانا چاہتے ہیں؟‘‘ موسیوفو کے نے ادب سے پوچھا۔
’’ نہیں۔ میں پہلے کچھ لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘بادشاہ بولا۔’’ کیا آپ مجھ پر اتنی مہربانی کریںگے کہ موسیو کولبرٹ کو یہاں بھیج دیں؟‘‘
موسیوفو کے اس کے سامنے تعظیماً رکوع میں جھکا اور کمرے سے نکل گیا۔
O
جب بادشاہ اپنے کمرے میں چلا گیا تو دارتنان بھی اس کمرے کے اوپر واقع کمرے میں چلا آیا۔ یہ کمرہ ’’نیلا کمرہ‘‘ کہلاتا تھا کیوں کہ اس کی آرائش و زیبائش کی ہر چیز نیلے رنگ کی تھی۔ جب ملازم نے کمرے میں داخل ہوکر اس کی آمد کا اعلان کیا توارامس اس کے استقبال کے لیے باہرنکل آیا۔
’’ خوب۔ ہماری یہ واکس میں خوب ملاقات ہوئی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’تمھیں یہ جگہ کیسی دارتنان؟‘‘
’’ بہت خوب صورت اور شان دار۔‘‘ دارتنان بولا۔ ’’ لیکن مجھے کچھ خیال گزرتا ہے کہ بادشاہ ہرگزشاہِ فرانس لوئی چہار دہم نہیں۔ُُ
’’ کیا؟ ‘‘ارامس چلا یا اور حیرت بھری نظروں سے دارتنان کو دیکھنے لگا۔
’’نہیں یہ موسیوفو کے ہے۔‘‘
ارا مس مسکرایا۔ اس نے گہری سانس لی اور بولا:
’’ آہا، تم بھی دوسرے ہی لوگوں کی مانند ہو، لیکن تم نے کیا یہ نہیں سنا کہ بادشاہ اور کولبرٹ مل کرموسیو فو کے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ یہ بات تو ہرکسی کو معلوم ہے لیکن پھر موسیو فو کے کو یہ دعوت دینے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’ تمھارے خیال میں کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ بادشاہ اس شخص کو تباہ و برباد کر دے جس نے اسے خوش کرنے کے لیے اپنا ایک ایک پیسہ خرچ کر ڈالا ہو؟‘‘
’’ بالکل صحیح۔‘‘ دارتنان بولا۔’’ لیکن مجھے یہاں کی فضا بہت پراسرا را ور عجیب سی دکھائی دیتی ہے۔ گویا کچھ ہونے والا ہو۔ تم جوکچھ کرتے دکھائی دے رہے ہو، میں اسے ہرگز پسند نہیں کرتا۔‘‘
’’ کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ ارامس نے سختی سے پوچھا۔
’’ میری چھٹی حس مجھے بتارہی ہے کہ تم یہاں کسی سازش کا تانا بانا بن رہے ہو۔ مجھے سچ بات بتائو ارامس۔ کیا تم کولبرٹ کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہو؟‘‘ دارتنان نے پوچھا۔
’’ کیوں؟ اس میں کیا کوئی نقصان ہوگا؟‘‘
’’نہیں۔ لیکن کپڑے کے وہ پانچ ٹکڑے یہاں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ دیکھو ارامس ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں ۔ مجھے سچ سچ بتائو، کیا تم بادشاہ کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہو؟‘‘
’’بادشاہ کے خلاف !‘‘ارامس حیرت بھری آواز میں چلایا۔ اس نے یہ سراسراداکاری کی تھی۔
’’دیکھوارامس! مجھ سے کچھ مت چھپاؤ۔ تم کیا بادشاہ ہی کے خلاف کسی سازش میں مصروف ہو؟‘‘
’’ تم کیا مجھ پر شک کر رہے ہو کہ میں بادشاہ کو قتل کر دوں گا۔ تم پاگل ہوگئے ہو دارتنان! اگر میں فرانس کے حقیقی بادشاہ، این اوف آسٹریا کے بیٹے کواپنی انگلی سے چھونے کا خیال بھی دل میں لاؤں تو مجھ پر خدا کا قہر ٹوٹے۔‘‘
دارتنان کو اپنے کہے پرافسوس ہونے لگا۔ اس نے ارامس کا بازو تھام لیا۔
’’میں تمھاری طرف سے بالکل مطمئن ہوں میرے عزیز دوست۔ میرا دل تمھاری طرف سے بالکل صاف ہو چکا ہے۔ میرا خیال ہے اب میں ذرا جاکر بادشاہ کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لوں۔ مجھے شایداس کے ساتھ والے کمرے میں رات گزارنی پڑے گی۔‘‘
جوں ہی وہ کمرے سے باہرنکلا اس نے تیزی سے دروازہ بند کر کے اس کی چٹخنی لگادی۔ اس کے بعد اس نے کمرے کی کھڑکیاں بھی مضبوطی سے بند کر دیں۔ پھر آ ہستگی سے پکارا:
’’ موسو!۔۔۔ موسیو۔۔۔! ‘‘
فوراً ہی کمرے میں سجی مسہری کے قریب واقع ایک چھوٹا سا دروازہ کھلا اور فلپ کمرے میں داخل ہوگیا۔ اس کے پیچھے پیچھے پارتھوس اور ایتھوس بھی کمرے میں چلے آئے۔
’’ موسیو دارتنان کو کچھ شک معلوم ہوتا ہے۔‘‘ فلپ نے کہا۔
’’آپ نے اسے پہچان لیا؟‘‘
’’ وہ میرے بندوقچیوں کے دستے کا کپتان ہے۔ اور میرابہت وفا دار ہے۔‘‘ فلپ نے کہا۔
’’ کسی کتے کی مانند وفادار۔‘‘ ایتھوس بولا۔’’ لیکن شہنشاہ معظم ایساکتا کبھی کبھی کاٹ بھی لیا کرتاہے۔‘‘
’’ایک مرتبہ وہ آپ کو بادشاہ کی حیثیت سے شناخت کرلے تو وہ کبھی آپ کے اعتمادکو دھوکہ نہیں دے گا۔ آپ آنکھیں بند کر کے اس پر بھروسہ کرسکیں گے۔‘‘ ارامس بولا۔’’ آئیے شہنشاہ معظم! آپ اس کرسی پر تشریف رکھیے۔ میں فرش کا ایک حصہ ہٹانے لگا ہوں۔ یہ دراصل نیچے بادشاہ کے کمرے کی چھت کے گند میں کھلنے والی ایک خفیہ کھڑکی ہے۔ کیا آپ نیچے کچھ دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں‘‘ فلپ بولا۔ اپنے دشمن پر نظر پڑتے ہی وہ اچھل سا پڑا تھا۔’’میں بادشاہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا آدمی بھی ہے۔‘‘
’’ وہ کون ہے؟‘‘
’’وہ۔ ہاں۔ وہ موسوکولبرٹ ہے۔ وہ بادشاہ کو کچھ کاغذات دے رہا ہے۔‘‘ وہ چاروں آدمی نیچے کا نظارہ دیکھنے کے لیے اس کھڑکی کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ ان کے کانوں میں بادشاہ کی آواز پہنچ رہی تھی۔
’’ یہ کار ڈینل کے ہاتھ کی لکھائی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ بادشاہ کہہ رہا تھا۔
’’شہنشا ہ معظم کی یادداشت ماشا اللہ بہت بہترین ہے۔‘‘ کولبرٹ نے اس کے سامنے تعظیماً رکوع میں جھکتے ہوئے کہا۔
بادشاہ ان خطوط کو پڑھنے لگا۔
’’ میں ان خطوں سے کچھ بھی نہیں سمجھ سکا۔‘‘ بالآ خر اس نے کہا۔ ’’ان میں موسیوفو کے کو دی جانے والی ایک کروڑ تیس لاکھ فرانک کی رقم کا ذکر ہے۔ یہ رقم ایک خاصی بڑی رقم ہے اور تم کہتے ہو کہ شاہی خزانے کے حسابات میں اس رقم کا کوئی اندراج نہیں۔‘‘
’’ جی ہاں۔ اور موسیوفو کے نے یہ ر قم تاحال واپس نہیں لوٹائی۔اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ رقم شاہی خزانے سے اپنی ذاتی ضروریات کے لیے نکلوئی تھی۔ ذراسوچئے توسہی شہنشاہ معظم ۔انھوں نے یہ اتنی بڑی رقم کیا اپنی اس رہائش گاہ کی شاہانہ آرائش وزیبائش پر نہ خرچ کی ہوگی؟‘‘
اس نے لفظ’’شاہانہ‘‘ پر زور دیتے ہوئے اپنی بات کہی تھی۔ بادشاہ ایک دم کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے غصے سے کرسی پیچھے دھکیل دی اور اپنے ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ کا گھونسارسید کرتے ہوئے بولا:
’’ اگر غبن ہے تواس کی تحقیق ہونی چاہیے ۔موسیو فوکے خزانے کا چور ہے۔ اگرہم اس وقت اس کی چھت تلے موجود نہ ہوتے۔‘‘
’’بادشاہ خواہ کسی کے گھر میں کیوں نہ ہو۔ وہ گھر اس کا اپنا محل ہوتا ہے۔‘‘ کولبرٹ بولا۔’’ خاص طور پر وہ گھر جو اس کے اپنے پیسے سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ ‘‘
بادشاہ چلتے چلتے ایک دم رک گیا۔
’’جاؤ موسیو کولبرٹ۔ دارتنان کو یہاں آنے کی ہدایت کرو۔‘‘
کولبرٹ کی آنکھیں اپنی فتح کے خیال سے چمک رہی تھیں۔ وہ بادشاہ کے سامنے رکوع میں جھکا اور کمرے سے نکل گیا۔ جب دارتنان کمرے کے دروازے پر آیاتو بادشاہ اس کی طرف بڑھ گیا۔ اور بولا:
’’ کیوں دارتنان۔ کتنے آدمی درکار ہوں گے؟‘‘
’’ کس کام کے لیے شہنشا معظم؟ ‘‘
’’موسیوفوکے کی گرفتاری کے لیے۔‘‘
دارتنان بدک کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’’موسیوفوکے کی گرفتاری کے لیے؟ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں شہنشاہ معظم؟‘‘
’’ہاں یہ کام ضرور ہونا چاہیے ۔‘‘ بادشاہ سختی سے بولا۔ ’’لیکن یہ گرفتاری چپ چپاتے خاموشی سے عمل میں آنی چاہیے۔‘‘
’’یہ مشکل ہوگا شہنشاہ معظم۔‘‘
’’پھر تم موسیو فو کے پراس وقت تک نظر رکھو۔ جب تک میں اس کے بارے میں کل تک کوئی فیصلہ نہیں کرلیتا۔ اب تم جاؤ اور میرے خدام سے کہہ دوکہ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ میں سونے لگا ہوں۔‘‘
دارتنان اس کے سامنے مودبانہ جھکا اور کمرے سے نکل گیا۔ بادشاہ نے کمرے کا دروازہ بندکیا۔ اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔ بستر پر بیٹھتے ہوئے اس نے فرط طیش سے قریب رکھی میز پر ایک زور دارگھونسا رسید کیا اور پورا لباس پہنے پہنے بستر پر دراز ہو گیا۔ شان دار پلنگ اس کے وزن سے چرچراگیا۔ بادشاہ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ لیے۔ تھوڑی ہی دیرمیں اس ’’کمرہ مورفیوس‘‘ میں گہری خاموشی چھاگئی۔
بادشاہ سے رخصت ہونے کے بعد دارتنان موسیوفو کے کے کمرے کی طرف روانہ ہوگیا۔ موسیوفو کے ابھی جاگ ہی رہا تھا۔ دارتنان کی دستک پر اس نے دروازہ کھول دیا اور اس پر نظر پڑتے ہیں بری طرح سے چونک گیا۔
’’ کیا بات ہے کپتان؟ کیاکوئی کام ہے مجھ سے؟‘‘
’’مجھے اپنا کمرہ پسند نہیں آیا۔‘‘ دارتنان نے کہا۔
فو کے نے گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ پھر بولا:
’’تو کیا تم یہاں سونا چا ہتے ہو؟‘‘
’’ کیا کہا آپ نے؟نہیں موسیو میں آپ کو آپ کے کمرے سے بے دخل نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ یہاں آپ کے ساتھ ہی سونا چاہتا ہوں‘‘ دارتنان بولا۔
موسیوفو کے اپنی جگہ پر منجمد سا ہوگیا۔
’’آہ! تم اس وقت بادشاہ سے مل کر آرہے ہو۔ ہے نا؟ اس نے تمہیں ہدایت کی ہے کہ تم یہاں میرے کمرے میں رہتے ہوئے مجھ پرنظر رکھو۔ تم آخر یہ کیوں نہیں کہہ ڈالتے کہ تم مجھے گرفتار کرنے یہاں آئے ہو۔ لیکن پہلے میں یہ جاننا چاہوں گا کہ میرا قصور کیا ہے؟ ‘‘
’’ یہ میں نہیں جانتا اور میں آپ کو گرفتار نہیں کروں گا۔ کم از کم آج کی رات۔‘‘ دارتنان بولا۔
’’ تو گویا کل… کل مجھے گرفتار کر لیا جائے گا؟‘‘ موسیو فو کے نے گھبرا کر پوچھا۔
’’اس کاکون جواب دے سکتا ہے۔‘‘ دارتنان بولا۔ ’’فی الحال میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے بستر پر لیٹ کر آرام سے سو جائیے۔ میں یہاں اس آرام کرسی پر سورہتا ہوں۔ میں جب سوتا رہتا ہوں تو خواہ میرے کان کے قریب کوئی توپ رکھ کر چلائی جائے میری آنکھ نہیں کھلتی۔‘‘
موسیوفو کے مسکرایا۔
’’لیکن اگر کوئی دروازہ کھلے تو اس کی آواز مجھے فوراً جگا دیتی ہے۔‘‘ دارتنان کہنے لگا۔’’ایسی آواز سنتے ہی میری نیند یک دم کوسوں دور بھاگ جاتی ہے اور میں ایک دم کچھ کرنے کے لیے مستعد ہو جاتاہوں۔‘‘
’’ موسیو دارتنان ۔‘‘ فو کے بولا۔’’ تم ایک بے حد شریف اور شائستہ مزاج آدمی ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تم سے بہت عرصے بعد متعارف ہوا۔‘‘
دارتنان نے جھک کر اسے تعظیم دی اور آرام کرسی پر نیم دراز ہوگیا۔ موسیوفو کے بھی اپنے بستر پر جاکر لیٹ گیا اور آنے والی صبح کے بارے میں پریشان کن اور ڈراؤ نے خیالات کی وادیوں میں گم ہوگیا۔
چودھواں باب:
بادشاہ لوئی چہار دہم اپنے غصے سے بہت تھکن محسوس کرنے لگا تھا۔ بستر پر لیٹتے ہی وہ فوراً ہی سوگیا۔ سوتے ہی اس نے خواب دیکھا کہ نیند کا دیوتا مورفیوس اس کے پاس چلا آیا تھا۔ اس کی آنکھیں انسانوں جیسی تھیں اور اس کے سر کے اوپر گنبد دار چھت میں کوئی چمکتی ہوئی چیزا دھرادھر حرکت کر رہی تھی۔ پھر اس کا بستر آہستہ آہستہ نیچے ہوتاگیا اور کمرہ اندھیروں میں ڈوبتاگیا۔
’’میں شاید کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ بادشاہ نے نیم بیدار سا ہوتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ ’’مجھے اب اٹھ بیٹھنا چاہیے۔ ‘‘وہ بستر پراٹھ کربیٹھ گیااور نیم تاریکی میں چاروں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ پھر ایک دم ہی اس کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔ اس کے بستر کے ایک طرف تین مسلح آدمی کھڑے تھے۔ انھوں نے اپنے چہروں کو نقابوں سے اور جسموں کو سیاہ لبادوں میں چھپارکھا تھا۔ ایک آدمی نے ہاتھ میں ننگی تلوارسنبھالی ہوئی تھی اور تیسرے آدمی نے اپنے ہاتھوں میں ایک بندوق اٹھارکھی تھی جس کا رخ بادشاہ کی طرف تھا۔ بادشاہ نے باری باری ان تینوں کی طرف دیکھا۔ پھر ان میں جوآدمی نسبتاً زیادہ لمبا چوڑا تھا،اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ تم کیا چاہتے ہو؟ مجھے بتاؤ میں اس وقت کہاں ہوں؟‘‘
لالٹین والے آدمی نے لالٹین اونچی کی۔اس کی روشنی میں بادشاہ نے دیکھا کہ وہ ایک سنگی دیواروںوالے چھوٹے سے کمرے میں موجود تھا۔
’’ یہ۔۔۔۔ یہ تو ایک کال کوٹھڑی ہے۔ ایک قید خانہ۔‘‘ وہ گھبرا کر بولا۔
’’ ہم تھیں یہاں نہیں رکھیں گے۔ بلکہ کہیں اور لے جائیں گے۔‘‘ ایک دوسرا نقاب پوش بولا۔
’’کہاں؟۔ تم مجھے کہاں لے جاؤ گے؟‘‘
’’یہ تمہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا۔ چلو تم ہمارے ساتھ چلو۔‘‘
’’ ہرگز نہیں!‘‘ بادشاہ چلایا۔ ’’میں ہرگز تمھارے ساتھ نہیں جاؤں گا!‘‘
’’ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو میرے عزیز ۔میں تمہیں اپنے لبادے میں لپیٹ کر اپنے کندھے پر لاد کر یہاں سے لے جاؤں گا۔‘‘ لمبے چوڑے نقاب پوش نے نرمی سے کہا۔ ’’یہ دیکھو۔ میرا ایک ہی گھونسہ تمھیں بے ہوش کر دینے کے لیے کافی ہوگا۔‘‘ اس نے اپنے لبادے میں سے اپنا بڑا سا طاقت ور ہاتھ نکال کر بادشاہ کو دکھایا۔ بادشاہ کپکپا گیا۔ بندوق بردار آدمی نے اسے بندوق سے چلنے کا اشارہ کیا۔
’’ کوئی ہچر مچرنہ کرو۔ چلو۔ ‘‘
بادشاہ تشدد سے ڈرتا تھا۔ اس کی چھٹی حس نے اسے بتا دیا تھا کہ اگراس نے ان آدمیوں کا کہا نہ مانا تو وہ تشدد سے بھی ہرگز گریز نہ کریں گے۔ وہ بستر سے نیچے اتر آیا۔ اس نے اپنے قدموں کے نیچے سیلن زدہ زمین محسوس کی۔لالٹین بردار آدمی آگے بڑھ گیا۔ لمبے چوڑے آدمی نے بادشاہ کو ہلکا سا ددھکا دیا۔
’’چلو۔ آگے بڑھو۔‘‘
بادشاہ لالٹین بردار آدمی کے پیچھے ہولیا۔ باقی دونوں آدمی اس کے پیچھے پیچھے آنے لگے۔ اس کوٹھڑی سے نکلنے کے بعد ایک مڑتی بل کھاتی راہداری آئی تھی۔ اس میں چلتے چلتے وہ ایک لوہے کے دروازے تک پہنچ گئے۔ لالٹین بردار آدمی نے اپنی جیب سے چابی نکال کر اس دروازے کا تالا کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھون کا بادشاہ کے چہرے سے ٹکرایا۔ اس نے کہا:
’’ کم از کم مجھے اتنا تو بتا دو کہ تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ تم آخر فرانس کے بادشاہ کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ یہ الفاظ بھول جاؤ ۔‘‘ بندوقچی بولا۔’’ تم اب ہرگز شاہ فرانس نہیں ہو۔‘‘
وہ تینوں بادشاہ کو ساتھ لیے گھاس کے ایک قطعہ کو عبور کر کے ایک گھوڑا گاڑی کی طرف، جووہاں کھڑی تھی، بڑھ گئے۔ گاڑی کے گھوڑوں کی لگامیں ایک درخت کے تنے سے بندھی تھیں۔
’’چلواندر داخل ہوجاؤ۔‘‘ لالٹین بردار نے بادشاہ سے کہا اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
بادشاہ خاموشی سے گاڑی میں سوار ہوکر اندر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد بندوقچی اور لالٹین بر دار بھی گاڑی میں چڑھ آئے اور اس کے پاس بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی گاڑی کا دروازہ فوراً ہی بند ہوگیا۔ لمبے چوڑے آدمی نے گھوڑوں کی باگیں سنبھالیں اور کوچوان کی جگہ پر جا بیٹھا۔ اس کے چابک سے ہی تنومند گھوڑے حرکت میں آگئے اور گاڑی جلد ہی تیز رفتاری سے چلتی ہوئی پیرس جا نے والی سڑک پر ہولی۔
صبح کے تین بجے گھوڑا گاڑی شہر میں داخل ہوگئی اور فیبورگ سینٹ اینٹوائن کا موڑ مڑ کر بیس تیل کی سمت ہولی۔ کوچوان نے پکار کر کانسٹیبل سے کہا۔ ’’بادشاہ کے حکم سے!‘‘ اور گھوڑا گاڑی کو بیس تیل کی بلند و بالا چہار دیواری کے اندرلیتا گیا۔ گورنر کی رہائش گاہ کے سامنے پہنچ کر اس نے گھوڑا گاڑی روک دی۔ اسی وقت ایک گارڈ اندر سے نکل کر ان کی طرف چلا آیا۔
’’ جاؤ۔ جاکر گورنر کو جگاؤ۔‘‘ کوچوان بارعب لہجے میں اس سے بولا۔
لالٹین بر دار آدمی نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نقاب پوش بند و قچی نے اپنی بندوق کی نال بادشاہ کے سینے سے لگا دی۔
’’ اگر اس نے ایک لفظ بھی کہا تو فوراً اس کے جسم میں گولی اتار دینا۔‘‘ کوچوان اپنی جگہ سے اتر تے ہوئے بندوقچی سے بولا اور اپنے چہرے سے نقاب اتارتے ہوئے گورنر کے گھرکی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اندر داخل ہوگیا۔ اسی وقت گورنر ڈریسنگ گاؤن پہنے برآمدے میں چلا آیا۔
’’اوہو۔ موسیو ڈی آربلے آپ!‘‘ وہ حیرت سے چلایا۔’’ اس وقت آپ کو مجھ سے کیا کام آن پڑا؟‘‘
’’ ایک غلطی۔ میرے عزیز موسیو با سیمو۔‘‘ ارامس بولا۔’’ لگتا ہے اس دن میں غلطی پر تھا۔ آپ کو یادہوگا کہ بادشاہ کی طرف سے مارشیالی کی رہائی کے سلسلے میں آپ کو حکم نامہ پہنچا تھا؟ تو میرے عزیز، وزارت جیل خانہ جات نے اس غلطی کی نشان دہی کی ہے۔ اب میں بادشاہ کی طرف سے آپ کے لیے یہ حکم لے کر آیا ہوں کہ اصل آدمی یعنی سیلڈن کو رہا کر دیا جائے۔ ‘‘
’’سیلڈن کو؟ کیا آپ نے واقعی یہی نام لیا ہے؟‘‘
’’ہاں۔یہ رہا حکم نامہ ۔‘‘ ارامس نے اسے حکم نامہ تھما دیا۔
’’اوہو! یہ تو وہی ہے جو میرے ہاتھوں سے پہلے بھی گزرچکا ہے۔ اس پر پڑا ہوا یہ سیاہی کانشان میں پہچانتا ہوں لیکن مارشیالی کے بارے میں کیا حکم ہے؟‘‘
’’میں اسے اپنے ساتھ یہاں لایا ہوں۔‘‘
’’ مجھے اسے دوبارہ قید میں ڈالنے کے لیے ایک نیا حکم نامہ چاہیے۔‘‘
’’ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ حکم نامہ کہاں ہے جس میں مارشیالی کی رہائی کا لکھا ہوا تھا؟‘‘
باسیمو دوڑ کر ایک لوہے کی الماری کی طرف گیا اور اس میں سے وہ حکم نامہ نکال لایا۔ ارامس نے اسے اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اوراس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ پھر اس نے ان ٹکڑوں کو لیمپ کے سامنے کرتے ہوئے جلا دیا۔
’’ میرے خدا !یہ آپ نے کیا کیا؟ ‘‘باسیمو چلایا۔
’’یہ ایک بالکل سادہ سی بات ہے۔‘‘ ارامس بولا۔’’ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو مارشیالی کی رہائی کے لیے کوئی شاہی حکم نامہ نہیں موصول ہوا اور چوں کہ میں اسے یہاں واپس لے آیا ہوں۔ اس لیے لگے گاکہ اس طرح گویا اسے کبھی یہاں سے نکالاہی نہ گیاتھا۔ بس آپ فوراً جائیں اور امارشیالی کو اس کی کوٹھری میں بندکر دیں اور اس شخص سیلڈن کو رہا کر دیں۔ سمجھے آپ؟‘‘
باسیمو نے سرکو جنبش دی۔ اس کے انداز سے بے بسی نمایاں تھی۔
ارامس آگے جھکا اور اپنا چہرہ باسیمو کے کان کے قریب لاتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ اس شخص مارشیالی اور ہمارے بادشاہ میں تھوڑی بہت مشابہت موجود ہے۔ چناں چہ ہوایہ تھا کہ مارشیالی نے رہا ہوتے ہی سب سے پہلے بادشاہ کے لباس جیسا لباس پہنا۔ پھر یوں ظاہر کرنے لگا گویا بادشاہ وہی ہے۔ بادشاہ نے جب سنا تو اسے بہت ہی غصہ آیا۔ اب آپ ذرا غور سے میری بات سن لیں۔ بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ اگر میرے یا اس کے علاوہ کسی اور شخص نے مارشیالی سے ملنے یا اس سے کسی قسم کا رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو اسے اس جرم میں سزائے موت دے دی جائے گی۔ سمجھے آپ موسیو باسیمو؟ سزائے موت!‘‘
’’ہاں ہاں سمجھا کیوں نہیں۔‘‘
’’ چلیں پھر ہم چل کر اس بدنصیب کو دوبارہ قید میں ڈالتے ہیں۔‘‘
’’ہاں ضرور۔‘‘
باسیمو نے اپنے ملازموں کو بلا کر انہیں ڈھول اور گھنٹیاں بجانے کا حکم دیا تاکہ جیل میں موجود سپاہی اور محافظ سب وہاں سے ہٹ جائیں اور اس پراسرار قیدی کی شخصیت کے بارے میں کوئی شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو۔ اس کے بعد وہ اور ارامس جس نے اپنے چہرے پر دوبارہ نقاب چڑھالی تھی۔ گھر سے نکل کر باہر کھڑی گھوڑا گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔ انھوں نے اس میں سے قیدی کو باہر نکالا۔ اس کا چہرہ لالٹین کی روشنی میں بے حد زر داورستا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے ایتھوس بھی اپنی بندوق سنبھالے گاڑی سے نیچے اترآیا۔‘‘ ’’تم۔۔۔ بدنشیب آدمی!‘‘ گورنر بولا۔ ’’چلو تمہاری کوٹھڑی تمھاری منتظر ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ انھیں ساتھ لیے ایک دالان سے گزر کر مڑتی، بل کھاتی ان پتھریلی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا جو مارشیالی کی کوٹھڑی کی طرف جاتی تھیں۔ کوٹھڑی کے دروازے پر پہنچ کر ارامس نے بادشاہ کے ہاتھ میں لالٹین پکڑا دی اور وہ بغیر کوئی لفظ کہے اندر داخل ہوگیا۔ اس کا چہرہ بے حد پیلا پڑا ہوا تھا اور آنکھیں وحشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ باسیمو نے دروازہ بند کیا۔ اس میں تالا لگایا اور ا رامس کے ساتھ واپسی کے لیے مڑ گیا۔
گھوڑا گاڑی کے قریب پہنچ کر ارامس ایتھوس کے ساتھ اس میں سوار ہو گیا۔
’’ یا درکھیے موسیو با سیمو۔ ارامس نے کھڑکی میں سے گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔’’ کہ کوئی شخص بادشاہ کی اجازت کے بغیر اس قیدی سے ملاقات نہیں کرے گا۔ اب آپ سیلڈن کو رہا کر دیجیے۔‘‘
’’ بہت اچھاموسیو۔ الوداع۔‘‘
کوچوان کی جگہ پر بیٹھے پارتھوس نے گھوڑوں کو چابک رسید کیا اورگھوڑا گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی اور جلد ہی بیس تیل کے آہنی پھاٹک سے باہر نکل گئی۔
O
شہنشا ہ فرانس لوئی چہار دہم، جو چند گھنٹے پہلے ایک بڑا عظیم و با جبروت حکمران تھا۔ جس کے اختیارات لا محدود تھے۔ اس کوٹھڑی میں سیلن زدہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کوٹھڑی کی سردی اسے اپنے جسم میں ایک بھاری بوجھ کی مانند اترتی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ کوٹھڑی کی ایک دیوار میں خاصی بلندی پر بنی ہوئی لوہے کی سلاخوں والی کھڑکی سے روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ گویا دن چڑھ رہا تھا۔ اسی وقت ایک ہلکی سی آواز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ اس نے کوٹھڑی میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ کوٹھڑی کے ایک کونے میں ایک بڑا سا چوہا بیٹھا سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا دانتوں سے کتر رہا تھا۔ اس کی کالی کالی چمک دار آنکھیں اس کوٹھری کے قیدی پر جمی تھیں۔ بادشاہ کو بے حد کراہیت سی محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک شدید قسم کا خوف اس پر حملہ آور ہو گیا۔ اس نے زور زور سے چیختے چلاتے ہوئے کوٹھڑی کے دروازے کو دھڑ دھڑانا شروع کر دیالیکن کسی نے بھی اس شوروغل کی جانب توجہ نہ دی۔ بادشاہ نے کوٹھڑی میں رکھی ہوئی کرسی اٹھائی اور اس سے دروازے پر ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ اس کے چہرے سے پسینہ بہنے لگا۔ وہ کسی پاگل آدمی کی طرح کرسی کو بار بار دروازے پر مار رہا تھا اور اونچی آواز میں چیخ چلا رہا تھا۔لیکن کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہورہا تھا۔
دو گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ اب اسے کوئی بھی بادشاہ کی حیثیت سے شناخت نہ کرسکتا تھا۔ وہ اب ایک پاگل آدمی بن چکا تھا۔ جو اپنے ناخنوں سے دروازے کو کھرچ رہا تھا اور منھ سے ڈرائونی اور خوف ناک آواز یں نکال رہا تھا۔ پھر بالآخر وہ تھک ہارگیا اور زمین پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
پندرہواں باب:
جب شہنشاہ لوئی چہار دہم اس کال کوٹھڑی میں چیخنے چلانے اور دروازہ توڑنے میں مصروف تھا تو اس وقت اس کا بھائی فلپ کمرۂ ’’مورفیوس‘‘ میں شاہانہ مسہری پرلیٹا ہوا تھا۔ اس کا سرنرم تکیے میں دھنسا ہوا تھا۔ اسے نیند نہ آرہی تھی لیکن وہ ہر آواز کو بڑی توجہ کے ساتھ سن رہا تھا۔ اس کا دل آنے والے واقعات کے خیال سے زور زورسے دھڑک رہا تھا۔ صبح ہوتے ہوتے ایک سایہ سا چپکے سے شاہی کمرے میں داخل ہوگیا۔ فلپ کو اس متوقع آمد کے بارے میں معلوم تھا۔ اس لیے اس نے کوئی حیرت ظاہر نہ کی۔
’’ہاں میوسیوڈی آربلے۔ کیا اس نے مزاحمت کی تھی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ نہیں۔ وہ اس وقت بہت بدحواس دکھائی دے رہا تھا۔‘‘
’’ کیا بیس تیل کے گورنر کو کوئی شک نہیں ہوا؟‘‘
’’ بالکل نہیں‘‘ ارامس نے کہا ۔’’ شہنشاہ معظم۔ آپ نے گزشتہ رات سونے سے پہلے…‘‘
’’میں نے اپنے بند وقچیوں کے کپتان کو ہدایت کی تھی کہ میں اس سے ملنا چاہوں گا۔‘‘ فلپ نے اس کی بات کا ٹتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
’’مجھے برابر والے کمرے میں قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ یقینا وہی ہوگا۔‘‘
’’ پھر ہمیں حملہ شروع کر دینا چاہیے۔‘‘ فلپ مضبوط لہجے میں بولا۔
’’محتاط رہیے۔شہنشاہ معظم۔ خدا کے لیے۔ دارتنان کچھ نہیں جانتا۔ اس نے کچھ بھی نہیں دیکھالیکن اس کی آنکھیں اور کان بڑے تیز ہیں۔‘‘
’’میں اب اسے کس طرح واپس بھیج سکتا ہوں۔جب کہ میں نے اسے بلایا ہے۔‘‘ فلپ بے بسی سے بولا۔
’’یہ معاملہ میں سنبھال لوں گا۔‘‘ ارامس نے جواب دیا۔ اسی لمحے دارتنان نے دروازے پر دستک دی۔ وہ صبح صادق کے طلوع ہوتے ہی اپنی آرام کرسی سے اٹھ گیا تھا اوراپنا لباس ٹھیک کر نے اورتلوار لگانے کے بعد بادشاہ کی ہدایت کے مطابق اس کے کمرے کی طرف چلا آیا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے موسیوفو کے سے کہا تھا:
’’آپ وعدہ کریں موسیو فوکے کہ آپ یہیں رہیں گے۔‘‘
’’ ضرور۔ لیکن کیا تم مجھے موسیو ڈی آربلے سے ملنے کی اجازت دو گے؟‘‘
’’ میں کوشش کروں گاکہ انھیں آپ کے پاس لے آؤں۔‘‘
بادشاہ کے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر دارتنان نے اس پر دستک دی۔ درواز کھل گیا۔ یہ دیکھ کراس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کے سامنے بادشاہ نہیں بلکہ ارامس کھڑا تھا۔
’’صبح بخیر۔ میرے عزیز دارتنان۔‘‘ ارامس نے کہا۔
’’ تم یہاں؟‘‘ دارتنان حیرت سے بولا۔ اسے حیرت اس بات کی تھی کہ آخرارا مس نے کس طرح راتوں رات بادشاہ کا قرب حاصل کرلیا تھا۔
’’کپتان !تم ایسا کروکہ بادشاہ کے کمرے میں صرف ان ہی لوگوں کو داخل ہونے دو جنھیں اس کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔‘‘ ارامس نے کہا۔
’’ لیکن۔۔۔شہنشاہ معظم نے مجھے خوداس وقت اپنی خدمت میں حاضری کی ہدایت کی تھی۔ ‘‘دارتنان بولا۔
’’چلے آؤ کپتان۔ اندر چلے آؤ۔‘‘ اندر سے بادشاہ کی آواز سنائی دی۔ دارتنان کمرے میں داخل ہوگیا۔ اس نے بادشاہ کو جھک کر تعظیم دی۔ وہ اس کی مسکراہٹ سے کچھ حیرت زدہ کچھ بدحواس ساہواجارہا تھا۔
’’ اورہاں ۔‘‘ ارامس بولا۔’’ شہنشاہ معظم تمہیں موسیوفو کے کے بارے میں اپنا حکم نامہ دے رہے ہیں۔‘‘
دارتنان نے وہ حکم نامہ لے لیا اور اس پر نظر دوڑائی۔
’’ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے ۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔’’ یعنی شہنشاہ معظم نے موسیوفو کے کو معاف کر دیا ہے؟‘‘ اس نے حیرت اور الجھن سے بادشاہ کی طرف دیکھا۔ پھر اس کے سامنے خفیف ساجھکا اور پیچھے ہٹ گیا۔
’’ٹھہرو!‘‘ ارامس بولا۔ ’’میں بھی تمھارے ساتھ موسیوفو کے کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘
وہ دونوں خاموشی سے چلتے ہوئے موسیوفو کے کے کمرے میں جا پہنچے۔ جہاں موسیوفو کے بڑی پریشانی کے عالم ٹہل رہا تھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی اس کے منہ سے مسرت بھری آواز نکلی۔
’’ توکپتان تم موسیو ڈی آربلے کو میرے پاس لے ہی آئے؟‘
’’ آپ کے لیے ایک اچھی خبر بھی ہے موسموفو کے۔ شہنشاہ کے حکم سے آپ کو با عزت بری کیا جاتا ہے۔‘‘ دارتنان بولا۔ فوکے کی نظریں ایک دم ارامس کی سمت گھوم گئیں۔
’’ہاں آپ کو موسیو ڈی آربلے کا شکرگزار ہونا چا ہیے۔‘‘ اس نے کہا اور ارامس کی جانب گھوم گیا۔’’ یہ کیا معاملہ ہے میرے دوست تمہیں بادشاہ کا قرب کیسے حاصل ہو گیا۔ جب کہ تم اپنی زندگی میں دویا تین بار ہی اس سے ملے ہو گے؟‘‘
’’ دو یا تین بار؟ نہیں! ہرگز نہیں! حقیقت یہ ہے کہ میری شہنشاہ معظم سے خفیہ طورپرآج تک سینکڑوں ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ اچھا دارتنان تم نے بادشاہ کی وہ ہدایات نہ بھلائی ہوںگی جو انھوں نے آج صبح ملاقات کے لیے آنے والوں کے بارے میں تمہیں دی ہیں؟‘‘
اس کی اس بات پر دارتنان کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔ کیوں کہ وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ بات کرنے سے ارامس کا مطلب تھا کہ اب وہاں سے چلے جانا چاہیے۔ وہ فوکے کے سامنے تعظیما ًتھوڑا ساجھکا۔ اس کے بعد اس نے جھک کرار امس کو تعظیم دی۔ پھر کمرے سے باہرنکل گیا۔ جب اس کے پیچھے درواز ہ بند ہوا توموسیو فو کے ارامس کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’کیا ہواتھا؟‘‘ اس نے تجسس سے پوچھا۔
’’آپ کو وہ کاغذات یاد ہیں۔ جو آپ کے پاس سے چوری ہوگئے تھے؟‘‘
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں؟‘‘
’’ گزشتہ رات بادشاہ نے آپ پر قومی خزانے کی چوری کا الزام لگایا تھا۔‘‘
’’ میرے خدا! پھرانھوں نے مجھے معاف کیسے کر دیا؟ کیا یہ کوئی راز ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ارامس آہستہ سے بولا۔ ’’کیا آپ نے بادشاہ لوئی چہار دہم کی پیدائش سے تعلق رکھنے والے غیر معمولی واقعے کے بارے میں کچھ سن رکھا ہے؟‘‘
فو کے نے سرکو جنبش دی۔ وہ کچھ حیران سا ہوگیا تھا۔
ارامس نے کمرے میں چل پھر کر اس بات کا جائزہ لیا کہ وہ اور فو کے واقعی اس وقت کمرے میں اکیلے تھے۔ ہر جگہ خاموشی تھی۔ پھروہ مڑا اور اس آرام کرسی کے بالکل قریب آکھڑا ہوگیا جس پر فو کے بیٹھا ہوا تھا۔
’’ میرا رازاسی سے شروع ہوتا ہے۔‘‘ارامس کہنے لگا۔ پھر اس نے دو جڑواں شہزادوں کی پیدائش سے لے کر گزشتہ رات تک کے تمام حالات فوکے کو کہہ سنائے۔ فو کے کپکپاتے جسم اور زرد چہرے کے ساتھ سب کچھ سنتا رہا۔
’’ لیکن بادشاہ ہے؟‘‘ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔’’ وہ کہاں ہے؟‘‘
’’کون سا بادشاہ؟ وہ جو آپ سے نفرت کرتا ہے یا وہ جو آپ پر مہربان ہے؟‘‘
’’ کل والا بادشاہ۔‘‘
’’وہ بیس تیل میں ہے۔‘‘
’’ میرے خدا، اسے وہاں کون لے گیا؟‘‘
’’میں اور میرے ساتھی۔ ہم اسے ’’مورفیوس کے کمرے‘‘ سے نکال کر بیس تیل لے گئے۔‘‘
فو کے کے منہ سے ایک ایسی کراہ نکلی گویا کسی نے اس پر ایک زور دار وار کر دیا ہو۔
’’یہ تمھارا کام ہے؟‘‘ اس کے منہ سے رکتے رکتے نکلا۔ ’’تم نے بادشاہ کو تخت سے اتار دیا؟اسے قید میں ڈال دیا۔ یہاں واکس میں ایسا جرم سرزد ہوا ہے؟ میری چھت تلے؟ ‘‘
’’ جرم!‘‘ ارامس نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں۔
’’ہاں ایک انتہائی نفرت انگیز جرم!‘‘ موسیوفو کے چلایا اور ایک دم ہی کرسی سے اٹھ گیا۔ اورارامس کے بالکل سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔’’ میں نے سن رکھا ہے کہ اپنی جوانی میں تم اور تمھارے دوست ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جو ہر کام کر گزرتے تھے۔ غضب خدا کا! یہ تو غداری ہے سراسر غداری!‘‘
’’ محتاط رہیے موسیو۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ ارامس بولا۔ اس کی آواز کپکپارہی تھی۔
’’ تم نے میری شدید بے عزتی کی ہے۔‘‘ فو کے چلایا۔’’ میری چھت تلے ایسا سنگین اور بھیانک جرم۔‘‘
’’ آپ اپنے حواسوں میں نہیں ہیں موسیو۔‘‘ارامس بولا۔’’ میں نے بادشاہ کو قید میں ڈال کر آپ کی زندگی بچائی ہے۔‘‘
’’یہ صحیح ہے ۔‘‘ فو کے پرسکون لہجے میں بولا۔’’ کہ تم نے میرے لیے یہ کام کیا ہے لیکن مجھے تمھاری خدمات کی ضرورت نہیں۔ تم اس گھر سے فوراً نکل جاؤ۔‘‘
ارامس اپنی جگہ پر منجمد سا کھڑارہ گیا۔
’’ تم فرانس سے نکل جاؤ۔‘‘فوکے نے کہا۔’’تمہیں چار گھنٹے کی مہلت دیتا ہوں۔ تم اور تمہارے دونوں ساتھی جہاز پر سوار ہوکر جزیرہ بیل چلے جاؤ۔ وہاں میں تمہیں ایک محفوظ پناہ گاہ مہیا کر دوں گا۔ میرے آدمی وہاں تمھاری حفاظت کریں گے۔ اب جاؤ۔ ڈی آربلے۔میں اپنے ملازموں کو حکم دیتا ہوں کہ تمھارے لیے اصطبل سے تین بہترین گھوڑے تیار کر دیے جائیں۔‘‘
’’ شکریہ۔‘‘ ارامس سرد لہجے میں بولا۔
فو کے اس کے سامنے خفیف ساجھکا۔ پھر خفیہ سیڑھیوں کے ذریعے کمرے سے غائب ہوگیا۔ وہ سیڑھیاں گھر کے اندرونی ہال میں جا نکلتی تھیں۔ ارامس تیزی سے کمرے سے باہر نکلا اور اس کمرے میں جاپہنچا جہاں ایتھوس اور پارٹھوس چھپے ہوئے تھے۔
’’کیا ہمیں اکیلے چل دینا چاہیے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔’’ یا شہزادے کوخبردار کر دینا چاہیے؟ ہم اسے دارتنان اور اس کے بند وقچیوں کی موجودگی میں بھلا واکس سے کیسے باہر نکال سکیں گے؟ کیا ہم موسیوفو کے کو اغواکرلیں ؟لیکن اس طرح تو ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا اور شدیدا فراتفری اور بد نظمی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ نہیں۔ یہ ممکن نہیں۔ ہم شہزادے کوبھی اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے ۔ ہم جزیرہ بیل فرار ہو جائیں؟ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ یہ ہر طرح سے مناسب ہے ۔شہزادے کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کارنہیں۔‘‘
ڈیڑھ گھنٹہ بعد بادشاہ کے کمرے کے ساتھ والے کمرے سے دارتنان نے تین گھڑ سواروں کو بڑی تیز رفتاری سے گھوڑے دوڑاتے ہوئے پھاٹک سے باہر نکلتے دیکھا۔
’’اوہو۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ ’’یہ تو میرے پرانے دوست ارامس،ایتھوس اور پارتھوس ہیں، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ارامس یہاں ٹھہرا ہوا ہے لیکن ایتھوس اور پارتھوس کی یہاں موجودگی میں لاعلم ہی رہا۔ یہ تینوں تو اس طرح بھاگے جارہے ہیں گویاگرفتاری کے خوف سے فرار ہور ہے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اپنے کسی اہم مشن پر جار ہے ہوں۔ میرے خدا! اس جگہ رہتے ہوئے کچھ ایسی باتیں رونما ہورہی ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آرہیں۔‘‘
لیکن اب وہ وقت تیزی سے قریب آرہا تھا جب ا سے واکس میں ہونے والی ان پراسرار باتوں کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو جاتا۔ اس دوران’’مورفیوس کے کمرے‘‘ میں بیس تیل سے رہا کیا جانے والا شہزادہ بڑی بے صبری کے ساتھ ارامس کی واپسی کا انتظار کرتا رہا۔
سولہواں باب:
موسیوفو کے اپنی گھوڑا گاڑی میں سوار بڑی تیز رفتاری کے ساتھ بیس تیل کی جانب اڑا جارہا تھا۔ اس نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اس نے اس کے تمام جسم پر لرزہ طاری کر رکھا تھا۔ فرط خوف و دہشت سے اس کی بری حالت ہوری تھی۔ اسے رہ رہ کر یہ خدشہ ستار ہاتھا کہ اس نے ایک انتہائی خطرناک جال میں اپنا سر ڈال دیا تھا اور اب جوں ہی وہ بیس تیل پہنچے گا۔ اس کی گرفتاری کا حکم نامہ اس کامنتظر ہوگا جو اسے معزول بادشاہ کے پاس پہنچا دے گا۔ اس خیال کے پیش نظر وہ ہراس چوکی پرجہاں گھوڑے بدلائے جاتے رہے،اپنے مہر شدہ احکامات دیتا گیا۔ یہ احکامات دارتنان کے نام تھے۔ بیس تیل پہنچ کر وہ اپنی حیثیت کی بدولت بلا روک ٹوک اندر داخل ہوگیا۔ اسے گورنر کی رہائش گاہ میں لے جایا گیا۔ گورنر با سیمو کی حالت اس وقت بہت خراب ہورہی تھی۔ وہ فرط خوف وگھبراہٹ سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ وہ اس وقت تو بالکل نیم جان ساہوگیا جب فو کے نے اس سے سختی سے کہا:
’’مجھے اس قیدی کے پاس لے چلو۔ جسے آج صبح موسیو ڈی آربلے نے یہاں لاکر قید کیا تھا۔‘‘
’’ اگر آپ اسے یہاں سے نکال کر لے جائیں تو یہ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ میں اس کے بارے میں آپ کو لکھنے ہی والا تھا۔ وہ شخص جب سے یہاں لایاگیا ہے۔ پاگلوں کی طرح چیخ چلا رہا ہے۔‘‘باسیمو بولا۔
’’میں خودا سے یہاں سے لے جاتا ہوں۔‘‘ فو کے بولا۔
’’ لیکن موسیو۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اسے بادشاہ کی اجازت کے بغیر ہرگز یہاں سے نہیںنکالا جاسکتا۔‘‘ باسیمو بولا۔
’’ باسیمو! ‘‘فو کے سرد لہجے میں بولا۔’’ میں تمھیں خبردار کرتا ہوں۔ اگر تم نے وہی نہ کیا جومیں کہتا ہوں تو میں تیس ہزار سپاہیوں اور دس ہزار توپوں کے ساتھ اس جیل خانے پر حملہ آور ہو جاؤں گا۔ اس جگہ پر قبضہ کرنے کے بعدمیں سپاہیوں کو حکم دوں گا کہ تمہیں پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیں۔ با سمو !تم بغاوت اور غداری جیسے جرائم کے مرتکب ہور ہے ہو!‘‘
’’ بس کیجیے موسیو! خدا کے لیے!‘‘ باسیموخوف زدہ ہوکر چلایا۔’’ میں خود آپ کو مارشیالی کی طرف لے چلتا ہوں۔‘‘
’’ جیلر سے چابیاں لے لو۔‘‘فو کے نے اسے حکم دیا۔ ’’اورا سے پیچھے رہنے کی ہدایت کر دوا ومیری اس قیدی کی کوٹھڑی تک رہ نمائی کرو۔ اس جگہ کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ یہاں سے کسی قیدی کو رہا کیا گیا ہے۔‘‘
باسیمو نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھراس نے جیلر کو بلاکر اس سے چابیاں لیں اور موسیوفو کے کو ساتھ لے کر گھر سے نکل کر جیل خانے کی عمارت کی طرف بڑھ گیا۔ جب وہ مڑتی بل کھاتی سیڑھیوں پر چڑھ کر راہ داری میں داخل ہوئے تو ان کے کانوں میں چیخنے چلانے کی آواز یں پہنچنے لگیں۔ یہ آوازیں سنتے ہی فو کے بری طرح سے کپکپانے لگا۔ اس نے رک کر با سیمو کے ہاتھ سے چابیوں کا گچھا چھین لیا۔
’’اس کوٹھڑی کی چابی کون سی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یہ رہی۔‘‘
اسی وقت اس کوٹھری سے ایک بلند چیخ کی آواز سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی اس کے دروازے پر کسی چیز کے مارے جانے کی آواز بھی بلند ہوئی۔
’’تم یہاں سے جاؤ۔ اگر تم میرے بلائے بغیر اس جگہ آئے تومیں تمھیں اس جگہ کی بد ترین کوٹھری میں پھینکوا دوں گا۔‘‘ فو کے بولا۔ باسیمو فوراً ہی اس جگہ سے بھاگ اٹھا۔
قیدی کی چیخ و پکاراب بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی۔ فو کے نے چابی تالے میں لگائی۔ اسی وقت اندر سے بادشاہ کی پکار سنائی دی۔
’’ مدد! مدد! موسیوفو کے نے مجھے یہاں قید کر وا دیا ہے! مد دگر و !میں شہنشاہ فرانس ہوں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی دروازے پر شدید ضربیں پڑنے لگیں۔ پھر فوراًہی یہ شور و غل بند ہوگیا۔ فو کے نے تالے میں چابی گھمائی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔
جب دونوں آدمی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے تو دونوں کے منھ سے خوف زد ہ سی چیخیں نکل گئیں۔ بادشاہ کالباس بری طرح سے پھٹ چکاتھا اور دھجیوں کی صورت میں اس کے جسم پرلٹکا ہوا تھا اور پسینے اور مٹی سے داغ دار ہو رہا تھا۔ اس کا چہرہ بے حد زر پڑا ہوا تھا۔ اس پروحشت ناچ رہی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ان پر خاک پڑی ہوئی تھی۔ فو کے خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھروہ بادشاہ کی طرف بڑھا۔ بادشاہ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے ٹوٹی ہوئی کرسی کا پایہ اٹھالیا۔
’’ تم کیا مجھے قتل کرنے یہاں آئے ہو؟ ‘‘اس نے چلا کر فو کے سے پوچھا۔
’’شہنشاہ معظم!‘‘ فو کے بولا۔ ’’میں آپ کا دوست ہوں۔‘‘
’’دوست! تم؟‘‘ بادشاہ نفرت بھرے لہجے میں بولا۔
’’ میں آپ کا بہت وفادار اور جاں نثار خادم ہوں۔ شہنشاہ معظم۔‘‘ فو کے بولا اور بادشاہ کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر جھک گیا۔ آپ نے یہاں بہت تکلیف اٹھائی ہے ۔میرے آقا۔ میں آپ کو یہاں سے رہا کرنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘
بادشاہ نے گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور کرسی کا پایہ ایک طرف پھینک دیا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اس نے اپنے تار تار لباس کی طرف دیکھا اور شرمندگی سے بھر گیا اور پیچھے ہٹ گیا۔فو کے کچھ نہ سمجھ سکا۔ وہ یہ نہ دیکھ سکاکہ بادشاہ کو اس کے سامنے اس حالت میں اپنے آپ کو کھڑا دیکھ کر اپناوقار مجروح ہوتا ہوا محسوس ہواتھا۔
’’ رہا کرنے کے لیے؟‘‘ بادشاہ نے دہرایا۔ ’’تو تم مجھے یہاں قید کروانے کے بعداب یہاں سے رہا کرنے کے لیے آئے ہو؟‘‘
’’یہ ہرگز ہرگز سچ نہیں؟‘‘ فو کے ناراضگی سے بولا۔ ’’آپ ایسا الزام مجھ پرنہ لگائیں۔ یہ ہرگز میرا کام نہیں تھا۔‘‘
پھر اس نے تیزی سے بادشاہ کو اس کے خلاف کی جانے والی سازش کی تفصیلات بتانی شروع کیں۔ لوئی چہار دہم بڑی توجہ سے اس کی باتیں سنتارہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بہ مشکل ہی اس کی باتوں پر یقین کر رہا تھا۔
’’میں نے سب سے پہلے جوبات سوچی ،وہ آپ کی یہاں سے رہائی تھی، شہنشاہ معظم!‘‘ فوکے نے کہا۔ ’’اب میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں ۔میں نے اس سازش کے سرغنہ کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ہی سارے منصوبے کو الٹ دیا ہے۔‘‘
’’ تم نے اس نقلی بادشاہ کو بھی بے نقاب کر دیا ہوگا؟‘‘ لوئی نے پوچھا۔
’’ نہیں شہنشاہ معظم! میں نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس سازش کاسرغنہ…‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘ بادشاہ نے پھنکار کرپوچھا۔
’’موسیوڈی آربلے۔‘‘
’’ تمھارا دوست؟‘‘
’’وہ میرا دوست پہلے تھا۔ اب نہیں۔‘‘
’’ تم واقعی بڑی بدنصیبی سے دوچار ہو گئے ہو۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔’’ اور باقی دوکون ہیں جواس کے ساتھ اس سازش میں شریک تھے؟‘‘
’’ موسیو ڈی لافیئرا ور بیرن ڈی ویلون۔‘‘
’’آہ و ہ تین!‘‘ بادشاہ تلخی سے بولا۔ ’’وہ مشہور و معروف تین دوست جو میرے باپ کی بڑی وفاداری اور جان نثاری سے خدمت کرتے رہے ہیں !ہم فوج کی ایک بھاری تعداد کے ساتھ واکس جائیں گے اورانہیں گرفتار کرلیں گے۔‘‘
’’شہنشا ہ معظم ۔‘‘فو کے سخت لہجے میں بولا’’۔ آپ کو اس کا اختیار ہے کہ آپ اپنے بھائی فلپ کی جان لے لیں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ موسیو ڈی آربلے اور اس کے ساتھیوں کی جان بخشی فرمادیں۔‘‘
’’ ہرگز نہیں! ایسا میں عمر بھر نہیں کرسکتا!‘‘ بادشاہ غصے سے بولا۔
’’ شہنشاہ معظم !مجھے معلوم تھا کہ آپ یہی کہیں گے۔ اس لیے میں نے اس کا متبادل انتظام کر لیاہے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘
’’ شہنشاہ معظم۔ میں نے موسیو ڈی آر بلے اوراس کے ساتھیوں کواپنے اصطبل کے بہترین گھوڑے دے دیے تھے تاکہ وہ جزیرہ بیل میں واقع میرے قلعے میں پناہ گزیں ہو جائیں۔‘‘
’’میری فوج اس قلعے کو فتح کر لے گی۔‘‘ بادشاہ نخوت سے بولا۔ ’’پھر یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔‘‘
’’ آپ کی ساری فوج مل کر بھی اس جزیرہ کو فتح نہیں کرسکتی۔‘‘ فو کے سرد لہجے میں بولا۔’’ یہ ناقابل تسخیر ہے۔‘‘
فرط غیظ وغضب سے بادشاہ کی آنکھوں سے چنگاریاں سی نکلنے لگیں۔ فو کے سمجھ گیا کہ وہ بازی ہارگیا تھا لیکن وہ بڑی جرات مندی سے بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔ بادشاہ نے بہ مشکل تمام اپنا غصہ ضبط کیا اورکچھ دیرکی خاموشی کے بعد پوچھا:
’’ کیا تم واکس واپس جارہے ہو؟‘‘
’’ میں شہنشاہ معظم کے حکم کا غلام ہوں۔‘‘ فوکے بولا۔ ’’میراخیال ہے آپ کو سب سے پہلے اپنا لباس تبدیل کرلینا چاہیے۔ اس کے بعد ہم واکس چلیں گے۔‘‘
’’ ہم لاورے چلتے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔ ’’میں وہاں لباس تبدیل کرلوں گا۔ آؤ۔‘‘
’’ وہ دونوں راہداری میں سے گزرکر سیڑھیاں اتر کر صحن میں کھڑی گھوڑا گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔ سیڑھیوں کے قریب کھڑا باسیمو کسی مجسمہ ٔحیرت کی طرح ساکت و صامت کھڑا مارشیالی کوایک مرتبہ پھر قید سے رہا ہوکر وہاں سے جاتے دیکھتارہا۔‘‘
سترہواں باب:
جب کافی دیر گزرگئی اورا رامس ’’مورفیوس کے کمرے‘‘ میں نہ پہنچا تو فلپ نے فیصلہ کیا کہ اسے اپنی ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے اصل بادشاہ کا کرداراداکرنا چاہیے۔ اپنے فرائض کی ادائی میں تا خیر لوگوں کو اس کی جانب سے مشکوک بناسکتی تھی۔ اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو بہت سے لوگ کمرے میں داخل ہو گئے۔ جب تک اس کے ملازمین ِخصوصی اس کالباس تبدیل کرتے رہے۔ وہ خاموش ہی رہالیکن اس نے اپنی حرکات وسکنات میں شاہی رعب و وقار ملحوظ رکھا۔ تاکہ وہ اس کی جانب سے کسی شبے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
ملازمین نے اسے شکار کالباس پہنایا۔ اس کے بعد وہ اپنے پہلے ملاقاتیوں سے ملنے کمرے میں آگیا۔ ا را مس اسے سب لوگوں کے بارے میں بتا چکا تھا۔ اس لیے اس کے لیے اپنے ان ملاقاتیوں کو پہچان لیناکچھ مشکل ثابت نہ ہوا۔ ان میں ایک این اوف آسٹریا، اس کی ماں تھی۔ اس کے ساتھ اس کا دوسرا چھوٹا بھائی ڈیوک اوف آرلینز کھڑا تھا۔ فلپ انھیں دیکھ کر مسکرایا لیکن اپنی ماں کو دیکھتے ہی اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ اپنے درباریوں کے سامنے دوستانہ انداز میں جھکا ۔جوجواباً اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے اورجھک جھک کر اسے تعظیم دیتے رہے۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ اپنی بھابی ہنر یٹا کی طرف بڑھا دیا جس نے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے اسے صبح بخیر کہی۔
کمرے میں موجو کسی بھی شخص کو اس پرکسی قسم کا شبہ نہ ہوا تھا۔ نہ کسی نے کسی غیر معمولی بات کومحسوس کیا تھا۔ اس کی ماں واکس میں کیے جانے والے شان داراستقبال کی باتیں کرتی رہی اور اس بات پر حیرانی ظاہر کر تی رہی کہ آخر وزیر خزانہ بادشاہ سے بھی بڑھ کر زیادہ شاہانہ طریقے سے کس طرح زندگی گزار رہاتھا۔ اس کے پاس اتنا مال و دولت کہاں سے آیا تھا۔
’’مادام۔‘‘فلپ بولا۔’’ میں نہیں چاہتاکہ موسیوفوکے کا برے الفاظ میں تذکرہ کیا جائے۔‘‘
اس کے یہ الفاظ سنتے ہی اس کی ماں نے اس کی اور اصل بادشاہ کی آواز میں موجود معمولی سے فرق کو محسوس کرلیا اور چونک گئی اور گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔اس نے اس کا ہاتھ اٹھالیااور ہلکے سے اس پر بوسہ دیا۔
’’ لگتا ہے شہنشاہ معظم کوکسی کا انتظار ہے۔‘‘ ہنریٹا بولی۔اس نے دیکھ لیا تھا کہ بادشاہ کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ اسے دراصل ارامس کا انتظار تھا۔
’’ میں ایک بہت معزز و محترم شخص کا انتظار کر رہا ہوں۔ تاکہ اسے آپ لوگوں سے ملوا سکوں۔‘‘ فلپ نے کہا۔’’ آہا! یہ رہا دارتنان۔ یہاں آئوکپتان۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ فرمائیے۔ ‘‘دارتنان اس کی طرف چلا آیا۔
’’ یہ موسوڈی آربلے کہاں ہیں؟ انھیں میری طرف بھیجوا دو۔‘‘
دارتنان کا خیال تھا کہ ارامس کو شاید با دشاہ نے اپنے کسی خفیہ کام سے کہیں بھیجا تھالیکن اب جب بادشاہ نے اس کی بابت دریافت کیا تو وہ الجھن میں پڑ گیا اوراسے کوئی جواب نہ دے سکا۔
’’ اور مہربانی کر کے کسی سے کہو کہ وہ موسیوفو کے کو یہاں بھیج دے۔ میں ان سے کچھ باتیں کرنا چاہتاہوں۔‘‘بادشاہ نے کہا۔
دارتنان وہاں سے چلاگیا اور اپنا کام کر کے واپس آگیا۔ نیا بادشاہ اپنے معمولات میں مصروف ہوگیا۔ اس کے اہل خاندان، اس کے درباریوں، اس کے افسروں اور ملازمین کسی کوبھی اس پرمعمولی ساشک نہ ہوسکا۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ شاہی خاندان کی آپس کی گفت گو کا سلسلہ ختم ہوتاگیا۔ فلپ اب ارامس کی غیرحاضری سے بے چینی سی محسوس کرنے لگا تھا۔ اس بے چینی اور اضطراب میں وہ اپنے بھائی اور بھابی ہنریٹا کو وہاں سے رخصت ہوجانے کا اشارہ کرنا بھی بھول گیا۔ وہ بھی اس کے اس رویے سے بہت حیران و پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ این اوف آسٹر یا اس کی طرف بڑھی اور ہسپانوی زبان میں اس کے کان میں کچھ کہا۔ فلپ کو ہسپانوی زبان نہ آتی تھی۔ اس کی رنگت ایک دم زرد پڑگئی۔ اسی وقت باہر کچھ شور سا سنائی دیا۔
’’ آہ! موسیوفو کے آن پہنچے۔‘‘ دروازے میں کھڑے دارتنان نے کہا۔
’’ ان کے ہمراہ یقینا موسیو ڈی آربلے بھی ہوں گے ۔‘‘ فلپ بولا۔
کمرے میں موجود تمام لوگوں کی نظریں دروازے کی طرف اٹھ گئیں لیکن دروازے پر جو شخص نمودار ہوا، وہ موسیوفو کے نہیں بلکہ لوئی چہار دہم تھا۔ موسیوفوکے اس کے عقب میں دکھائی دے رہا تھا۔ لوئی کا چہرہ بے حد زرد پڑا ہوا تھا اور اس پر شدید برہمی اور غصے کے تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔
مادر ملکہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ جیسے اس نے کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو۔ ڈیوک اوف ارلینز بے وقوفوں کی طرح کبھی فلپ کو کبھی لوی کو دیکھنے لگا۔ ہنریٹا ایک قدم آگے بڑھی۔ اس کا خیال تھا شاید اس نے اپنے جیٹھ کا عکس شیشے میں دیکھ لیا تھا۔ ان دونوں کے چہرے مہرے ،قد کاٹھ، جسامت ۔حتیٰ کہ لباس میں بھی حیرت انگیز مشابہت موجود تھی۔ کیوں کہ لوئی نے لادرے سے جو لباس زیب تن کیا تھا۔ وہ بھی شکار کا لباس ہی تھا اور ویسی ہی رنگت کا تھا جیسا کہ فلپ پہنے ہوئے تھا ۔کمرے میں موجود ہرشخص شدید حیرت و خوف سے گنگ ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ لوئی نے کبھی نہ سوچا تھا کہ اس کا بھائی اس سے ایسی حیرت انگیز مشابہت رکھتا ہوگا اورہر شخص اسے بہ آسانی اس کی جگہ اپنابادشاہ تسلیم کر لے گا۔
اب دارتنان کو بھی معلوم ہوگیاکہ اس جگہ ارامس کی غیر موجودگی کیا معنی رکھتی تھی اور وہاں وہ کس قسم کی سازش کی بو سونگھ رہا تھا۔
پھر لوئی نے ایک دم ہی ایک کھڑکی کھول دی۔ اور اس کے پر دے ایک طرف ہٹا دیے۔ کمرہ تیز روشنی میں نہا گیا۔ فلپ ایک دم یوں پیچھے ہٹ گیا گویا وہ تیز روشنی سے خوف زدہ ہو۔ لوئی اپنی ماں کی طرف مڑا۔
’’والدہ محترمہ!‘‘ اس نے کہا۔’’ یہاں موجودہر شخص اپنے بادشاہ کو بھول چکا ہے۔ کیا آپ بھی اپنے بیٹے کو نہ پہچانیں گی؟‘‘
این اوف آسٹریا نے بڑی بے چارگی سے باری باری اپنے دونوں بیٹوں کو دیکھا مگر اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔
’’والدہ محترمہ۔‘‘ فلپ بولا۔ ’’آپ کیا مجھے اپنا بیٹا تسلیم کریں گی؟‘‘
مادر ملکہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانچے بے جان سی کرسی پر گرگئی۔ اس کے سارے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ لوئی دارتنان کی طرف مڑا اوراس سے تیز لہجے میں بولا:
’’ کپتان ہم دونوں کے چہروں کو غور سے دیکھو اور بتاؤ کہ کس کے چہرے کا رنگ زیادہ زرد پڑا ہوا ہے؟‘‘
دارتنان کو یاد آگیا کہ وہ ایک سپاہی ہے۔ اس نے بغیر کسی تامل کے آگے بڑھ کر فلپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا:
’’موسیو۔ آپ میرے قیدی ہیں۔ ‘‘
فلپ کے منہ سے ایک گہری سانس نکلی۔ وہ بے حس وحرکت سا اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ اس کی ملامت بھری نظریں کبھی اپنے بھائی پر کبھی اپنی ماں پر پڑنے لگیں۔ انہوں نے اسے ماضی میں بھی دکھ دیے تھے۔ اب آئندہ زندگی بھی اسی طرح دکھ اور تکالیف جھیلتے گزرنے والی تھی۔ لوئی نے نظریں جھکا لیں اور اپنے بھائی ڈیوک اوف آرلینز اور بھابی ہنر یٹاکو بازوئوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر لے گیا۔ مادر ملکہ بدستورا پنی کرسی پر بیٹھی دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے سسکیاں بھرتی رہی۔
دارتنان فلپ کے سامنے تعظیماً جھکا اور بولا:
’’ مجھے معاف فرمادیجیے موسیو۔ لیکن میں ایک سپاہی ہوں اور میرا کام اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرناہے۔‘‘
’’ شکریہ موسیو دارتنان ،لیکن یہ بتاؤ کہ موسیو ڈی آر بلے کہاں گئے؟‘‘
’’ وہ ہرطرح سے محفوظ و مامون ہیںموسیو۔‘‘موسیوفو کے بولا۔’’ انھیں اوران کے دوستوں کوکسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘
’’ آپ موسیوفو کے! آپ کو تومیں بھول ہی گیا۔‘‘ فلپ اداسی سے مسکرایا۔
’’ جو کچھ ہوا ہے، میں آپ سے معذرت خواہ ہوں موسیو۔‘‘ موسیو فو کے اس کے سامنے تعظیماً جھک کربولا۔ ’’لیکن بادشاہ میرا مہمان تھا۔‘‘
فلپ نے ایک سرد آہ بھری:
’’ موسیو ڈی آربلے اوران کے دوست بہت بہادر لوگ تھے۔ شیر دل اور بہادر۔ آہ میں جب تک زندہ رہوں گا ان کے اس کارنامے کو یاد کرتا رہوں گا جس کی بدولت مجھے تھوڑے عرصے کے لیے اس دنیا کو دیکھنے کا موقع ملا۔ جسے میں اب شاید کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ چلوموسیو دارتنان۔ مجھے اپنے ساتھ لے لو۔‘‘
جب دارتنان اپنے قیدی کو ہمراہ لیے غلام گردش میں داخل ہوا تو موسیو کولبرٹ نے ایک کمرے سے نکل کراسے بادشاہ کی جانب سے ایک حکم نامہ تھما دیا۔ دارتنان نے اسے پڑھ کر فلپ کے حوالے کر دیا۔اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔
فلپ نے بادشاہ کے لکھے ہوئے اس حکم نامے پر نظر دوڑائی۔ اس میں لکھا تھا:
’’ موسیوڈی دارتنان! اپنے قیدی کو جزیرہ سینٹ مارگریٹ پہنچادیں۔ قیدی کے چہرے کو سر سے لے کر گردن تک لوہے کے ایک نقاب سے ڈھانپ دیا جائے۔ لوہے کا یہ نقاب تاعمرقیدی کے چہرے پر موجودرہے گا۔ وہ کسی بھی صورت میں اسے اپنے چہرے سے نہ ہٹائے گا۔‘‘
اٹھارہواں باب:
اس واقعے کے تین ہفتے بعداینٹی بس کی بندرگاہ پر ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔ یہ واقعہ کچھ ایسا پراسرار و حیرت ناک تھا کہ بندرگاہ پر کام کرنے والے ماہی گیر مدتوں تک آپس میں سرگوشیوں میں اس کا ذکر کرتے رہے۔ وہ بلند آواز میں آپس میں یا دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر نہ کر سکتے تھے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں انھیں سزائے موت کی دھمکی دی گئی تھی۔
اس رات اس بندرگاہ پر بادشاہ کے بندوقچیوں کا ایک کپتان آیا تھا۔ اس کا چہرہ لمبا اور سانولے رنگ کا تھا۔ آنکھیں عقاب کی طرح تیز اورچمکیلی تھیں اور اس کی ناک اوپر کی جانب مڑی ہوئی تھی۔ اس نے ایک کشتی کرائے پر لینے کی خواہش کی تھی اور کہا تھا کہ اسے حکومت کے ایک نہایت اہم کام کے لیے اس کشتی کی ضرورت تھی۔ اسے اس کشتی میں ایک آدمی کو بادشاہ کے بند وقچیوں کی نگرانی میں جزیرہ سینٹ مارگریٹ پہنچانا تھا۔ اس نے کشتی کے مالک سے کرایہ بھی طے کر لیا اور کہا کہ اسے آدھی رات کے وقت وہ کشتی در کار ہوگی۔ بھراس نے وہاں موجود ملاحوں کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس رات دیکھے جانے والے واقعے کے متعلق عمر بھرکسی سے کچھ کہا تو ان پر بادشاہ غضب ناک ہوگا اور انھیں نہایت لرزہ خیز سزائیں دی جائیں گی۔
اس کشتی کے ملاح اس رات بے چینی سے اپنی کشتی کے عرشے پر اس کا انتظار کر تے رہے۔ آپس میں سرگوشیاں کرتے رہے اور بے چینی سے ساحل پر نظریں دوڑاتے رہے۔ اس رات ہوا بالکل پرسکون تھی اور گرم تھی۔ آسمان پر اکا دکا بادلوں کے ٹکڑے تیر رہے تھے۔ وقفوں وقفوں سے بجلی چمک رہی تھی۔ آدھی رات ہوتے ہی ساحل پر ایک بند گھوڑا گاڑی آکر رکی۔ اس کے آس پاس بندو قچی گھوڑوں پر سوار چلے آرہے تھے۔ گھوڑا گاڑی کا دروازہ کھلتے ہی سب سے پہلے بندوقچیوں کا کپتان باہرنکلا۔ اس کے پیچھے پیچھے ایک آدمی بھی گاڑی سے باہر نکل آیا۔ وہ شاید کوئی قیدی تھا جو ایک لمبے سے لبادے میں ملبوس تھا۔ وہ دونوں آدمی چلتے چلتے کشتی تک آن پہنچے ۔کشتی میں سوار دو ملاحوں نے اپنے ہاتھ ان کی جانب بڑھا دیے۔ تاکہ انھیں سہارا دے کر کشتی میں سوار کر دیں۔ انھوں نے ابھی تک اس قیدی کا چہرہ نہ دیکھا تھا لیکن اسی وقت آسمان پر بجلی چمکی۔اس کی روشنی میں انھوں نے دیکھا کہ ان کے سامنے موجود چہرہ گویا کسی بھوت کا چہرہ تھا۔ جس کی طرف دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا۔ اس آدمی کا سر اور چہرہ گر دن تک لوہے کی ایک نقاب میں چھپا ہوا تھا۔ اس میں آنکھوں کی جگہ دو سوراخ بنے ہوئے تھے جن میں سے اس کی آنکھیں جھانکتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔
بند وقچیوں کے کپتان نے کشتی میں سوار ہوتے ہی ملاحوں کو اپنا کام کرنے کا حکم دیا۔ کشتی فوراً ہی ساحل سے دور ہونے لگی۔ آہنی نقاب پوش اپنا سر بلند کیے عرشے کے جنگلے سے لگا کھڑاتھا۔ ملاح کشتی کھیتے ہوئے اسے خوف بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ بند وقچیوں کا کپتان بھی بالکل خاموش تھا۔ سینٹ مارگریٹ کے جزیرے کے ساحل پر لالٹین حرکت کر رہی تھیں۔ وہاں موجود قلعے کاگورنر چوڑے چھجے کا ہیٹ اور کوٹ پہنے اپنے سپاہیوں کے ساتھ ساحل پر کھڑاکشتی کے وہاں پہنچنے کا انتظار کر رہا تھا۔ سپاہیوں کی بندوقوں کی نالیاں لیمپوں کی روشنی میں چمک رہی تھیں ۔کشتی کے ساحل پر پہنچتے ہی ڈھول اور گھنٹیاں بجنے لگیں۔ بندوقچیوں کے کپتان نے نرمی سے قیدی کا بازو چھوااور کہا:
’’تشریف لا ئیے موسیو ۔‘‘
’’ مجھے موسیو کہو نہ آپ نہ جناب۔‘‘ قیدی نے ایسی آواز میں جو وہاں موجود سب لوگوں کے دلوں میں تیر بن کر تراز و ہوگئی ،کہا۔’’ مجھے ملعون کہو، ملعون!‘‘
وہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل پر آ گئے۔ لرزتے کانپتے ملاح انھیں گورنرا وراس کے سپاہیوں کی طرف بڑھتے دیکھتے رہے۔ کپتان گورنر کو ایک طرف لے گیا۔ اس نے چند منٹ تک اس سے کچھ باتیں کیں۔ پھر چند کا غذات اس کے ہاتھ میں دے دیے۔ پھر ملاحوں نے اسے چند قدم پیچھے ہٹ کر تنی ہوئی تلوار کے ساتھ اس آہنی نقاب پوش کو سیلوٹ کرتے دیکھا۔ کچھ دیر تک وہ اسی حالت میں کھڑا رہا۔ پھر تیزی سے اپنی جگہ سے مڑا اورکشتی کی طرف بڑھ گیا۔
ملاح چپوئوں کی مدد سے کشتی کو ساحل سے دور کھیتے پانی میں دھکیلنے لگے لیکن ان کی نظریں بدستور ساحل کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ انھوں نے لیمپوں کی روشنی میں اس آہنی نقاب پوش قیدی کو گورنر کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے قلعے کے بلند و بالا پھاٹک کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ کھلے ہوئے پھاٹک تک پہنچ کر وہ رک گیا۔ اس نے گردن موڑ کر ساحل کی طرف دیکھا۔ پھراندر داخل ہوگیا۔ اس کے پیچھے پھاٹک ایک چرچراہٹ کے ساتھ بند ہوگیا۔
’’ اب یہاں ہمارا کام ختم ہوچکا ہے۔‘‘ بند وقچیوں کا کپتان بولا۔’’ چلوکشتی کو واپس موڑ دو۔‘‘
اس کا لہجہ سخت تھا لیکن ملاحوں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
انیسواں باب:
تینوں آدمی اس وقت بھوری چٹانوں سے اٹے ہوئے ساحل پر کھڑے تھے۔ سمندر کا پانی ان چٹانوں سے ٹکرا ٹکراکر واپس جارہا تھا۔ یہ چٹانیں سمندری طوفانوں کے لیے جزیرہ بیل کے لیے ایک حفاظتی دیوار کا کام دیتی تھیں۔ ان کے پیچھے جزیرے کا بلند و بالا اور سنگین دیواروں والا قلعہ دکھائی دے رہا تھا جس کی فصیلوں پر سنتری چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ مغربی سمت سورج سمندر میں ڈوبتا دکھائی دے رہا تھا۔ تینوں آدمیوں کی نظریں اس وقت مشرق کی سمت لگی ہوئی تھیں۔ وہ بڑی فکر مندی اور پریشانی کے عالم میں جہازوں کو سمندر میں ساحل کی طرف بڑھتے دیکھ رہے تھے۔ ان جہازوں کے مستولوں پر فرانس کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔
’’ پانچ! ‘‘پارتھوس جہازوں کو گنتے ہوئے چلایا۔’’ چھے! سات! آہ میرے خدا! بادشاہ نے تو ہماری گرفتاری کے لیے اپنا تمام بحری بیڑہ بھیج دیا ہے!‘‘
’’ قلعے سے جنگ کا بگل بجا دینا چاہیے۔ ‘‘ایتھوس بولا۔
’’ تم اپنی اپنی جگہوں پر جاؤ ۔‘‘ ارامس بولا۔’’ لیکن یاد رکھو کہ جوں ہی حالات ہمارے خلاف جانے لگیں۔ ہمیں فوراً ہی غار کا رخ کرنا ہے۔ جہاں ماہی گیر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔
اسی وقت قلعے سے بگل بجنے کی آواز فضا میں گونج اٹھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈھول بھی پیٹے جانے لگے اور گھنٹے بھی بجائے جانے لگے۔ ساحل پر سپاہی جمع ہونے لگے۔ توپ خانہ حرکت میں آگیااور سمندر میں آگے بڑھتے ہوئے جہازوں پر گولہ باری کی جانے لگی۔ جواباً جہازوں پر سے بھی ساحل کی جانب تو پیں داغی جانے لگیں۔ ساحلی چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں ۔سمندر میں جیسے طوفان سا آ گیا۔ ساحلی توپوں کی گولہ باری کے باوجود شاہی بیڑے کے جہاز ساحل کے قریب آکر لنگر انداز ہونے لگے اور ان میں سے سپاہی کشتیوں میں سوار ہو ہو کر ساحل پراتر نے لگے۔ ان کشتیوں پر قلعے سے تو پیں داغی جانے لگیں لیکن وہ کشتیاں ساحل کے اتنے قریب پہنچ چکی تھیں کہ قلعے سے جانے والے گولے ان سے کافی آگے سمندر میں جا جا کر گرنے لگے۔ تینوں دوست ایک تنگ سی پہاڑی گزرگاہ میں دبکے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ شاہی فوج کے سپاہی ساحل پر اتر کر ہر طرف پھیل رہے تھے۔ ان میں سے چند اس درے کی طرف بھی آ نکلے۔ ان میں سے جو سب سے آگے تھا۔ اس کی پارتھوس سے مڈ بھیڑ ہوگئی۔ اس نے اسے پکڑ لیا اوراپنے سرکے اوپر گھماکر اس کے ساتھیوں پر پھینک دیا۔ دوسرے آگے بڑھنے والے سپاہیوں کو ارامس اور ایتھوس نے بری طرح سے زخمی کر کے وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔
جزیرے کی فوج نے شاہی فوج کا ایسی بے جگری اور بہادری سے مقابلہ کیا کہ شاہی فوج مقابلہ کرنا چھوڑ کر پسپا ہوگئی۔ اس کے سپاہی کشتیوں میں بیٹھ کر جہازوں کی طرف فرار ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر جزیرے کی فوج کے سپاہی یہ سمجھ بیٹھے کہ انھوں نے شاہی فوج پر مکمل فتح حاصل کر لی ہے۔ انھوں نے اپنے ہتھیار اتار دیے اور اپنے زخمی سپاہیوں کو اٹھا اٹھا کر قلعے میں لے جانے لگے۔ اسی وقت جزیرے کے دوسری طرف سے توپوں کی شدید گولہ باری کی آوازیں گونج اٹھیں۔
’’میرے خدا!‘‘ ارامس چلایا۔’’ شاہی دستے کا حملہ اور پسپائی محض ایک فریب تھا، باقی فوج جزیرے کے دوسری طرف اتر چکی ہے چلو دوستو! غار کی طرف بھاگ چلو۔ ہماری کشتی تیار کھڑی ہے اور بادشاہ ابھی تک ہمیں گرفتارنہیں کرسکا ۔‘‘
وہ تینوں درے میں سے گزرکر غار کی سمت بھاگ اٹھے۔ شاہی فوج کے اس تازہ حملے نے جزیرے کے باشندوں کو بے حد خوف زدہ کر دیا تھا اور وہ بدحواسی کے عالم میں قلعے کی طرف بھاگ رہے تھے تاکہ اس میں پناہ لے سکیں۔ ارامس لوگوں کے ہجوم میں راستہ بناتا ہو ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گیا۔
’’میرے دوستو!‘‘ وہ چیختے چلاتے بھاگتے دوڑتے لوگوں سے مخاطب ہوا۔ تم ہماری حفاظت کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے تم نے کر لیا ہے۔ تمھاری ذمے داری اب ختم ہوتی ہے۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے جزیرہ پر قبضہ کرلیا ہے۔ اب کوئی جنگ نہیں ہوگی بلکہ قتل عام ہوگا۔ اس لیے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ۔‘‘
لوگ خاموشی سے سر جھکائے مرے مرے قدموں سے چلتے ہوئے وہاں سے جانے لگے۔ارامس چھلانگ لگاکر اس ٹیلے سے نیچے اتر آیا اور تینوں دوست قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک ویران سا میدان عبور کر کے ساحل سمندر پر واقع پہاڑی سلسلے تک آن پہنچے۔ وہاں جھاڑیوں سے اٹی ایک پہاڑی ڈھلوان میں ایک گہرا غار واقع تھا۔
’’ پہلے میں جاتا ہوں۔‘‘ ارامس بولا۔ ’’مجھے اشارہ معلوم ہے۔‘‘
ارامس کی رہ نمائی میں باقی دونوںآدمی محتاط قدموں سے چلتے ہوئے نیچائی کی طرف جانے لگے۔ کچھ دور آگے چل کر ارامس نے اپنے منھ سے الو کی آواز نکالی۔ جواباً غار کے ایک بہت دور دراز کے حصے سے بھی ویسی ہی آوازسنائی دی۔
’’کیا یہ تم ہو جیوس؟‘‘ ارامس نے چلا کر پوچھا۔
’’ہاں موسیو۔ میں اور میرے دو بیٹے۔‘‘
ارامس اور اس کے ساتھی غار میں آگے بڑھ گئے۔ کچھ دور آگے جاکر انھوں نے ایک لالٹین جلتی ہوئی دیکھی۔ اس کی روشنی میں انھیں تین آدمی وہاں کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔
’’چلو ہم کشتی کی طرف چلیں۔‘‘ ارامس بولا۔’’ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آیا اس میں ہر چیز تیار سے یانہیں؟‘‘
’’آپ یہ لالٹین لے کر اس کے زیادہ قریب مت جائیے موسیو۔‘‘ جیوس بولا۔ ’’کیوں کہ آپ کی ہدایت کے مطابق میں نے اس میں خاصی مقدار میں گولہ بارودا وراسلحہ لاد دیا ہے۔‘‘
’’ بہت اچھا۔‘‘ ارامس بولا۔
اس نے لالٹین سنبھالی اوران آدمیوں کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا غار کے دہانے تک آن پہنچا۔ باہر آسمان پر چاند چمک رہاتھا اور سمندر کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہیں ساحل پرکشتی بندھی کھڑی تھی۔ اس میں خوراک بھی تھی اور پانی کے دو مشکیزے بھی رکھے تھے۔ اس میں آٹھ بندوقیں اتنی ہی پستولیں اور کافی مقدار میں گولہ بارود بھی رکھا تھا۔
جیوس اور اس کے بیٹے کشتی کو سمندر کی جانب دھکیلنے لگے۔ اسی وقت انھیں کہیں دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوڑتے قدموں اور آدمیوں کے شور و غل کی آوازیں بھی سنائی دیں۔
’’میرے خدا!‘‘ ارامس چلایا۔ ’’وہ کتوں کے ذریعے ہمیں تلاش کر رہے ہیں۔ انھیں ہمارے فرار کا علم ہو گیا ہے۔‘‘
وہ غار کی سمت بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے ساتھی بھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہوئے غار میں آگئے اور دوسری طرف اس کے دہانے میں جا نکلے ۔کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اب کچھ بلند سنائی دے رہی تھیں۔ ان کے سامنے خالی میدان میں بے شمار لالٹینیں حرکت کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر یہ لوگ غار پر حملہ کر دیتے تو ان کا بھاگ کر اپنی کشتی تک پہنچنا اور سمندر کے راستے اس جزیرے سے فرار ہو جانا ناممکن ہو جاتا۔
’’ یہ تعداد میں کتنے ہیں؟‘‘ ایتھوس نے پوچھا۔
’’ ستر یا شایداسی۔‘‘ ارامس نے جواب دیا۔ ’’ہم ان میں سے صرف پندرہ آدمیوں کو ہی ڈھیر کر سکتے ہیں لیکن اس جگہ سے بچ نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس تمام دستے کا ہی صفایا کر دیں۔ اس کے لیے مجھے ایک تدبیر سوجھی ہے۔ ‘‘
اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایاکہ اس نے اس مقصد کے لیے کون سی تدبیر سوچ رکھی تھی۔ پھر وہ تینوں غارمیں واپس ہولیے اور اس میں دوڑتے ہوئے اس کے دوسری طرف جا نکلے اور کشتی کی طرف بڑھ گئے۔ جسے جیوس اور اس کے بیٹے ابھی تک سمندر کی طرف دھکیلنے میں مصروف تھے ارامس نے کشتی میں سے بارود کا ایک پیپا اٹھالیا۔ اس کا وزن کوئی ستر یا اسی پونڈ کے لگ بھگ تھا۔ اس میں ایک فیوز لگایا اور پارتھوس سے بولا:
’’ میرے دوست! کیا تم یہ پیپا اٹھا سکتے ہو؟ میں اس فیوز کو آگ لگاؤں گا۔ پھر تم اسے دشمنوں پر پھینک دینا۔‘‘
’’بڑی آسانی سے۔‘‘ پارتھوس بولا اور اس نے وہ پیپا اٹھالیا۔
ارامس نے اس فیوز کو شعلہ دکھایا۔ پھروہ اور ایتھوس بندوقیں سنبھالے پارتھوں کے ساتھ غارمیں داخل ہو گئے۔
شاہی دستے کے سپاہی غار میں داخل ہوگئے تھے۔ غارمیں پہنچ کر وہ لالٹینیں اونچی کر کر کے رک کر اس غار کا جائزہ لینے لگے تھے۔ ان کے کتے مسلسل بھونک رہے تھے۔ پھروہ اپنے سالار کی سربراہی میں آگے روانہ ہو گئے لیکن تھوڑی دور آگے بڑھتے ہی وہ ایک دم رک گئے۔ انھیں لالٹینوں کی روشنی میں اپنے سامنے پارتھوس، ارامس اور ایتھوس کھڑے دکھائی دیئے تھے، جوان کے آگے بڑھنے کے منتظر تھے۔ ان سپاہیوں نے دیکھا کہ پارتھوس نے اپنے ہاتھ میں ایک بھاری پیپا اٹھا رکھا تھا جس سے منسلک فیوز جل رہا تھا۔ وہ فورا ہی سمجھ گئے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ وہ چیختے چلاتے واپسی کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس طرح ان میں شدید بھگڈر مچ گئی۔اسی وقت ان کے سالار نے چلا کر کہا:
’’فائر۔۔۔!‘‘
سپاہیوں نے افراتفری کے عالم میں اپنی بند وقیں فائر کر دیں۔ غار کان پھاڑ دینے والے دھماکوں سے گونج اٹھا۔ غار کی چھت سے بڑے بڑے پتھر ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے۔ ایتھوس کے منہ سے ایک چیخ خارج ہوئی اور وہ پارتھوس پر آ گرا۔ پارتھوس نے بارود کا پیپا سر کے اوپر گھما کر چیختے چلاتے ہوئے سپاہیوں پر پھینک دیا اور ایتھوس کو اٹھا کر اپنے کندھے پرلا دا اور مڑ کر غار کے سمندر کی طرف جا نکلنے والے دہانے کی طرف بھاگ اٹھا۔ اس کے پیچھے چیخنے چلانے کی اور بھاگ دوڑ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ جوں ہی وہ غار کے دہانے سے باہر نکلا۔ غار کے اندر ایک قیامت خیز دھماکہ ہوا اور غار سے آگ دھوئیں اور ملبے کا ایک طوفان سا آسمان کی طرف لپک پڑا۔ اس کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ پارتھوس کو سمندر میں کشتی پانی میں ڈولتی دکھائی دے رہی تھی۔ ارامس دوڑتا ہوا اس کی طرف آرہا تھا۔
’’جلدی کرو! جلدی!‘‘ وہ چلایا۔
انھیں زمین اپنے پیروں تلے ہلتی محسوس ہورہی تھی۔ پہاڑ سے چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے لڑھک رہی تھیں۔ بڑے بڑے پتھران کے اردگرد سے گزر رہے تھے اور ان کے قریب آ آ کر ڈھیر ہورہے تھے۔ جوں ہی ارامس نے ایتھوس اور پارتھوس کو کندھے سے نیچے اتارا۔ ایک بہت بڑا پتھر پہاڑ کی ڈھلوان پر سے پھسلتا ہوا بڑی تیزی سے ان کی طرف آنے لگا۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ انھیں کچھ سوچنے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور وہ تینوں دم کے دم میں اس کے نیچے آکر بری طرح سے کچلے گئے۔ جیوس اور اس کے بیٹے بڑی خوف زدگی کے عالم میں اس بڑے پتھر کو برق رفتاری کے ساتھ لڑھکتے ہوئے سمندر میں جاکر تہ آب ہوتے دیکھتے رہے۔ پھر وہ کشتی سے اتر کر اس جگہ چلے آئے جہاں چھوٹے بڑے بے شمار پتھروں کے درمیان بڑے پتھر کے بناتے ہوئے راستے کے درمیان ان تین مشہور و معروف بندوقچیوں کی کچلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انھوں نے بڑ بڑاتے ہوئے ان کی اس المناک موت پر اظہارافسوس کیا۔ پھر واپس مڑ کرکشتی میں آکر بیٹھ گئے اور اس جگہ سے روانہ ہوگئے۔
جب ان تین مشہور و معروف بند و قچیوں کی موت کی خبر پیرس پہنچی اور دارتنان کو معلوم ہوا کہ اس کے جوانی کے دنوں کے پیارے دوست اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے تھے تو وہ بادشاہ سے چند دن کی چھٹی لے کر جزیرہ بیل جا پہنچا۔
جب وہ واپس آیا تو دیکھنے والوں نے دیکھاکہ وہ اپنی عمرسے کہیں زیادہ بوڑھا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بال بالکل سفید ہو چکے تھے۔ اس کے چہرے پر گہری گہری جھریاں پڑگئی تھیں اور داڑھی جھاڑ جھنکاڑ کی طرح بے تحاشا بڑھ چکی تھی اور بالکل سفید پڑچکی تھی۔ اس کی کمر جھک گئی تھی، ہر چند کہ وہ گھوڑے پر تن کر بیٹھتا تھا اور بندوقچیوں کے کپتان کی حیثیت سے اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتا تھا۔
پھر چند ماہ گزرنے کے بعد بادشاہ کے حکم سے موسیوفو کے کو گرفتار کر کے بیس تیل میں نظربند کردیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا تھا اور اس میں سے ناجائز طور پر کروڑہا فرانک اپنی ذاتی ضروریات کے لیے نکلوائے تھے۔ اب موسیو کولبرٹ کو اس کی جگہ فرانس کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔
پھر چار سال گزرنے کے بعد لوئی چہار دہم کو ولندیزیوں کے ساتھ ایک زبر دست جنگ لڑنا پڑی۔ دارتنان کو میدان جنگ میں بارہ ہزار سپاہیوں کی کمان سونپی گئی۔ اس کی فوج نے چارماہ کے اندر اندر دشمن کے بارہ قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ وہ تیرھویں قلعے کا محاصرہ کر ہی رہا تھا کہ ایک ہرکارہ تیزی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا اس کے پاس پہنچا۔
’’موسیو دارتنان! آپ کے لیے شہنشاہ معظم کی جانب سے ایک پیغام ہے!‘‘
اس نے دارتنان کو ایک خط دیا۔ دارتنان نے اس کی مہر توڑی اور اسے پڑھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھرگئی۔ اسے فرانسیسی افواج کا مارشل بنا دیاگیا تھا!
ہرکارے نے ہاتھی دانت کا بنا ہوا ایک صندوقچہ اس کی طرف بڑھا دیا۔ دارتنان نے اسے کھولا۔ اسی وقت کسی توپ کا گولہ آکر اس کے سینے پر لگا۔ وہ زمین پر گر گیا۔ صندوقچہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا۔ اس نے زمین پر سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس کے افسراس کے آس پاس جمع ہو گئے تھے۔ انھوں نے جب اس کے سینے سے خون ابلتے دیکھا تو ان کے منہ سے چیخیں نکل گئیں۔ ایک افسر اس کے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے اس کا سر اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے آہستگی سے اوپراٹھایا۔ دارتنان نے دیکھا کہ دشمن کے قلعے کی برجی پر سفید جھنڈا لہرا رہا۔یعنی دشمن کا تیرھواں قلعہ بھی فتح ہو چکا تھا۔ پھر اس کے کانوں نے ڈھول بجنے کی آواز سنی۔
یہ فرانسیسی فوج کی فتح کا اعلان تھا۔ اس کا سر پیچھے ڈھلک گیا۔ وہ سرگوشی میں بولا:
’’ایتھوس۔ پارتھوس۔ ارامس۔ میں تمھارے پاس آرہا ہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اس کے افسراور سپاہی سب سمجھ گئے کہ وہ ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوچکا تھا۔
Facebook Comments