skip to Main Content

جب چاند گر پڑا

کہانی: When the Moon Fell Down
مصنفہ: Enid Blyton
ترجمہ:جب چاند گرپڑا
مترجم: ریاض عادل
۔۔۔۔۔

ایک رات، جب آسمان بادلوں سے ڈھکاہوا تھا۔چودھویں کا چاند بادلوں کی اوٹ سے،اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ ایسے میں،ایک خارپشت،جس کا نام پریکلز تھا،بھونروں کی تلاش میں نکلا،تاکہ اپنے رات کے کھانے کابندوبست کرسکے۔چلتے چلتے جب وہ شاہ بلوط کے درخت کے نیچے پہنچا،تو اسی وقت شاہ بلوط کا ایک بڑا پھل،اس کی کمر سے ٹکراتاہوا،اس کے پیچھے جاگرا۔اس نے خوف زدہ ہوکرایک طرف چھلانگ لگائی۔ عین اسی لمحے،چاند بادلوں کے پیچھے جا چھپا۔
”اوہ۔۔۔“پریکلزایک دم چلایا:”چاند میری کمرپرگرگیاہے،اوہ!میں نے اسے اپنی کمر پر گرتا ہوا محسوس بھی کیا ہے۔چاند آسمان سے گرچکاہے۔مجھے یہ بات فرسکی،گلہری کو ضروربتانی چاہیے۔“
وہ فرسکی کے پاس گیا اور اس کوبتانے لگا:”فرسکی!چاند آسمان سے سیدھا میری کمر پر آکر لگا اور نیچے گرگیا،میں نے خوداسے محسوس کیا ہے۔اب تم بتاؤہمیں کیا کرناچاہیے؟“
”ہمیں یہ بات،بھورے اُلو، ہُو ہُو،کو ضرور بتانی چاہیے۔“فرسکی نے جوش وخروش سے کہا۔پھروہ دونوں اُدھرچل پڑے،جدھرایک شاخ پرہُوہُوبیٹھاہواتھا۔
”چاند آسمان سے گرچکاہے۔“فرسکی گلہری نے وہاں پہنچ کر پرجوش اندازمیں ہوہوکو بتانا شروع کیا:”وہ پریکلز کی کمرسے ٹکرایا،جسے اس نے محسوس کیا ہے۔اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“
ہُو ہُویہ بات سن کر بہت حیران ہوا۔اس نے بادلوں سے ڈھکے ہوئے آسمان کی طرف دیکھاتو وہاں اسے واقعی چاندنظرنہیں آیا۔
”ہمیں یہ بات سلائیون،نیولے کو ضرور بتانی ہوگی۔“اس نے اسی حیرت کے عالم میں کہا،اور پھر وہ تینوں اس کھیت کی جانب چل پڑے،جہاں سلائیون چوہوں کی گھات میں بیٹھا ہواتھا۔
”سلائیون سنو!“ہُو ہُوچلایا:”چاند آسمان سے گرچکاہے۔وہ پریکلز کی کمرسے ٹکرایا،جسے اس نے محسوس کیا ہے۔اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“سلائیون نے جب یہ سنا تو وہ بہت حیران ہواکہ اس نے حقیقت میں یہی سنا ہے۔
وہ خوشی سے اچھلتے ہوئے بولا:”ہمیں یہ بات ویلویٹی،چھچھوندر کو ضروربتانی چاہیے۔“
سلائیون کی بات سن کر وہ سارے تیزی سے اس کھیت کی جانب چل دیے جہاں ویلویٹی اپنے لیے سرنگ نما بل بنارہی تھی۔
”ویلویٹی سنو!“سلائیون جوش سے بولا:”چاند آسمان سے گرچکاہے۔وہ پریکلز کی کمرسے ٹکرایا،جسے اس نے محسوس کیا ہے۔اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“
”کیوں نہ ہم وہاں چلیں اور اسے مل کرڈھونڈیں!“ویلویٹی نے ایک دم ہی،سمجھ داری سے انھیں مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
پھر وہ سارے وہاں پہنچے جہاں پریکلز کی کمر پر چاند گرا تھا،اور مل کر اسے تلاش کرنے لگے۔اسی وقت ہوا کا ایک ننھاجھونکا آیا تو کچھ اور شاہ بلوط کے پھل نیچے گرے۔’بمپ!‘ایک شاہ بلوط فرسکی گلہری کی ناک سے ٹکرایا۔’بمپ‘ دوسرا شاہ بلوط سلائیون نیولے کی کمر پرلگا۔’بمپ‘ تیسراشاہ بلوط ہُو ہُو، الو کی چونچ سے ٹکرایا۔
”ارے!یہ تو شاہ بلوط گررہے ہیں۔“فرسکی نے اپنی ناک سہلائی،نیچے پڑاہوا ایک شاہ بلوط اٹھایا اور اسے کترتے ہوئے بولی:”وہ ضرور شاہ بلوط ہوگا جو تم نے محسوس کیا ہے پریکلز۔تم بھی نرے بدھو ہی ہو!“
فرسکی کا بدھو کہنا،پریکلز کو اچھا نہیں لگاتھا۔اس نے غصے سے ایک دم اپنے تمام خار کھڑے کیے اور پھر فوراًہی نیچے کرلیے:”وہ واقعی چاند تھا۔کیا مجھے چاند اور شاہ بلوط میں فرق معلوم نہیں؟“اس نے ناراض لہجے میں کہا اور ایک جانب چل پڑا۔اسی وقت بادلوں کے پیچھے سے چاندنمودارہوا،اور اس کی چاندنی سے ساراجنگل جگمگانے لگا۔
”واہ!واہ!۔۔۔“وہ سارے ہنسنے لگے:”چاند تو آسمان پر ہی ہے۔تمھیں توواقعی چاند اور شاہ بلوط میں فرق معلوم نہیں ہے بوڑھے پریکلز!“مگر ان کی یہ بات سننے کے لیے پریکلزوہاں موجود نہیں تھا۔اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے وہ بے چاراخارپشت ایک کھائی میں جاکرچھپ گیاتھا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top