skip to Main Content

علم کا سمندر

کلیم چغتائی

…..
آپ کے شاگردوں کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ ہے

…..

بازار میں بڑی رونق تھی۔
دکانوں پر گاہکوں کی ریل پیل تھی۔ دکاندار، خریداروں کو مال کی خصوصیات سے آگاہ کررہے تھے۔ انھیں مال خریدنے پر آمادہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اچانک ایک بزرگ بازار میں تشریف لائے، ان کا رنگ گندمی تھا، شانے چوڑے اور دانت اُجلے تھے۔ انھوں نے سادہ لباس پہن رکھا تھا۔
بزرگ بازار میں پہنچ کر پکارے:
”تم لوگوں کو کس چیز نے مجبور کر رکھاہے؟“
لوگوں نے پوچھا: ”کس چیز سے؟“
بزرگ نے فرمایا: ”وہاں مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہورہی ہے اور تم لوگ یہاں بیٹھے ہو۔“
لوگ یہ سن کر مسجد کی طرف دوڑ پڑے لیکن مسجد میں تو ایسی کوئی بات نہ تھی صرف چند افراد نماز پڑھ رہے تھے، کچھ لوگ قرآن پاک پڑھ رہے تھے، چند افراد، حلال و حرام کے مسائل پر گفتگو کررہے تھے۔ لوگ حیران اور ناخوش ہو کر واپس چلے آئے۔ بزرگ سے شکایت کی کہ مسجد میں تو صرف چند افراد نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہیں اور کچھ حرام و حلال کے مسائل پر گفتگو کررہے ہیں۔ آپ نے تو کہا تھا کہ مسجد میں میراث رسول صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم ہورہی ہے۔ بزرگ نے فرمایا:
”تم لوگوں پر افسوس ہے، یہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے۔“
یہ بزرگ تھے صحابی رسولؐ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ۔ آپ کا مرتبہ علم حدیث میں بہت بلند ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کا تعلق یمن کے قبیلہ دوس سے ہے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ کا نام عبدشمس تھا لیکن چوں کہ آپ نے بچپن سے ایک بلی پال رکھی تھی، اس لیے لوگ آپ کو ابو ہریرہؓ کہنے لگے۔ عربی میں بلی کو ’ہرہ‘ کہتے ہیں۔
قبیلہ دوس کے ایک صاحب طفیل بن عمر مکہ مکرمہ گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام پاک کی آیات سن کر مسلمان ہوگئے۔ واپس آئے تو اپنے قبیلے میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے۔ سات ہجری (628) میں غزوہ خیبر ہوا تو حضرت طفیل اپنے قبیلے کے اَسی (80) افراد کو لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خیبر پہنچے۔ حضرت ابو ہریرہؓ ساتھ تھے۔ خیبر پہنچ کر حضرت ابو ہریرہؓ بھی ایمان لے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدشمس سے بدل کر عمیر رکھ دیا لیکن لوگ آپ کو ابو ہریرہ ہی کہتے رہے۔ ایمان لانے کے بعد حضرت ابو ہریرہؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در کے ہو کر رہ گئے۔ علم دین حاصل کرنے کی شدید تڑپ رکھتے تھے اس لیے مسجد نبویؐ کے ایک گوشے میں رہنے لگے۔ وہاں چند اور صحابہؓ بھی رہ رہے تھے۔ ان کے لیے مسجد میں ایک چبوترہ بنادیا گیا۔ عربی زبان میں چبوترے کو ’صفہ‘ کہتے ہیں اس لیے اس چبوترے پر رہنے والے صحابہ کو ’اصحاب صفہ‘ کہا جانے لگا۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی والدہ ابھی تک ایمان نہیں لائی تھیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ ان کے لیے فکر مند تھے۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ اللہ نے قبول کی۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی والدہ مسلمان ہوگئیں۔ اب حضرت ابو ہریرہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ دعا فرمائیں، اللہ تعالیٰ میری اور میری ماں کی محبت تمام مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔
حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا: ”اس کے بعد کوئی ایسا مسلمان نہیں تھا جس نے مجھے دیکھا ہو اور مجھ سے محبت نہ کی ہو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہؓ کو اصحاب صفہ کے منتظم کی حیثیت دے رکھی تھی۔ جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے یا کسی دوسرے کام کے سلسلے میں اصحاب صفہ کو جمع کرنے کا ارادہ فرماتے تو حضرت ابو ہریرہؓ کو حکم دیتے کہ اصحاب صفہ کو بلالائیں۔
حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو انھوں نے حضرت ابوہریرہؓ کو بحرین کا والی (گورنر) مقرر کردیا۔ ایک مدت بعد وہاں سے لوٹے تو کچھ رقم پاس تھی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ”یہ رقم کہاں سے آئی؟“حضرت ابو ہریرہؓ نے مناسب جواب دیا۔ تحقیق پر بات درست نکلی۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو دوبارہ بحرین کا والی بنانا چاہا لیکن آپ نے انکار کردیا۔
حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں بھی حضرت ابو ہریرہؓ الگ تھلگ زندگی بسر کرتے رہے۔ بعد میں آپ مدینہ کے والی مروان کے قائم مقام رہے۔ ستاون ہجری (677ء) میں بیمار ہوگئے۔ لوگ عیادت کے لیے آئے تو رونے لگے۔ رونے کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا: ”میں دنیا کی دلفریبی پر نہیں روتا بلکہ اس بات پر کہ میں اس وقت دوزخ اور جنت کے درمیان ہوں، معلوم نہیں کس راستے پر جانا ہوگا۔“
آپؓ کا انتقال ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو سعید خدریؓ جیسے صحابہ کرامؓ نماز جنازہ اور تدفین میں شریک تھے۔ آپؓ کو جنت البقیع (مدینہ منورہ) میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ نے 78 سال کی عمر پائی۔
حضرت ابو ہریرہؓ کے بغیر حدیث نبویؐ کا ذکر نامکمل ہے۔ آپؓ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو ہریرہؓ علم کا ظرف ہیں۔“ (بخاری)
عام طور پر لوگ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوالات پوچھتے ہوئے جھجک محسوس کرتے تھے لیکن حضرت ابو ہریرہؓ نے پانچ ہزار تین سو چوہتر احادیث رسولؐ بیان فرمائیں حالاں کہ آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیگر کئی صحابہ کرامؓ کے مقابلے میں کم عرصہ گزارا۔ اس کی وجہ حضرت ابو ہریرہؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ مہاجرین تو اپنے کاروبار میں لگے رہتے تھے، انصار زراعت کی دیکھ بھال میں مصروف ہوتے تھے، میں سارا وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارتا تھا، دوسری بات یہ کہ جن باتوں کو دوسرے لوگ بھول جاتے تھے، میں انھیں یاد رکھتا تھا۔“
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہؓ سے فرمایا۔”تم اس مال غنیمت کا سوال کیوں نہیں کرتے، جس کا سوال تمھارے ساتھی کرتے ہیں۔“ حضرت ابو ہریرہؓ نے عرض کیا:
”میری درخواست تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہ علم سکھائیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔“
یہ سن کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چادر پھیلاؤ۔“ حضرت ابو ہریرہؓ نے چادر پھیلادی، پھر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم فرمانے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات ختم فرمائی تو ہدایت کی کہ اس چادر کو اکٹھا کرکے اپنے جسم کے ساتھ لگالو۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے ایسا ہی کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں۔ ”اس کے بعد میرے حافظے کا یہ حال تھا کہ جو کچھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے، اس میں ایک حرف بھی نہیں بھولتا۔“
حضرت ابو ہریرہؓ کے علم سے بڑے بڑے صحابہ کرامؓ نے فائدہ حاصل کیا ہے۔ آپؓ کے شاگردوں کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ ہے۔ آپؓ کا شمار مدینہ منورہ کے فقہاء میں ہوتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرامؓ کی جس جماعت کو فتویٰ دینے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس کے ایک رکن حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی تاہم آپؓ فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ دیگر مذاہب پر بھی آپ کی نظر تھی اور تورات کے مسائل سے خاصی واقفیت تھی۔
حضرت ابو ہریرہؓ بہت عبادت گزار تھے۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے۔ ہر ماہ کے شروع میں تین روزے رکھتے۔ ذکر اللہ کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپؓ پر اپنی لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے۔

٭……٭

اس تحریر کے مشکل الفاظ
ابو ہریرہؓ: ”ہرہ“ عربی میں ”بلی“ کو کہتے ہیں اور
ابو عربی میں ”والا“ کو کہتے ہیں یعنی ”بلی والے“
منتظم: انتظام کرنے والا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top