skip to Main Content

عماد الدین زنگی ؒ

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
القدس شریف پر قابض ظام عیسائیوں کے خلاف جہاد کرنے والے پہلے جلیل القدر مسلمان حکمران
۔۔۔۔۔

’’ہمیں اب الرہا پر حملہ کر دینا چاہیے۔‘‘
حکمراں نے اپنے ماتحتوں سے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
اس طویل قامت حکمراں کا رنگ گندمی مائل سرخ تھا، آنکھیں بڑی بڑی تھیں، اور اس کا چہرہ پاکیزگی اور وجاہت کی منہ بولتی تصویر تھا۔ وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے فیصلے سے مطلع کر رہا تھا کہ ہمیں اب الرہا پر حملہ آور ہو جاناچاہیے۔
الرہا… جسے صلیبی ایڈیسہ کے نام سے پکارتے تھے، اس شہر کو اور بھی کئی نام دیئے گئے، رہا، اعزاز، (آج کل اسے فا کہتے ہیں) یہ شہر کبھی دیار بکر (موجودہ ترکی) کے نواحی علاقے میں، ایک نیم خود مختار عیسائی ریاست میں شامل تھا لیکن اب صلیبی اس پر قابض ہو کر یہاں پہلی صلیبی ریاست قائم کر چکے تھے۔ عیسائی اسے پانچواں مقدس شہر مانتے تھے۔ ان کے دیگر مقدس شہر یر و شلم (بیت المقدس) انطاکیہ، روم اور قسطنطنیہ تھے۔ صلیبیو ں نے یہاں زبر دست فوج قائم کر رکھی تھی اور وہ موصل، دیار بکر اور بغداد وغیرہ کے لیے مستقل خطرہ بنے ہوئے تھے۔ دریائے فرات کے کنارے واقع یہ شہر مضبوط فصیلوں سے گھر ا ہوا تھا۔
یہ 539ھ/1444ء ذکر ہے۔ اب سے کچھ عرصہ قبل صلیبی مسلمانوں سے ان کا قبلہ اول بیت المقدس چھین چکے تھے اور اس صدمہ سے ہر مسلمان کا دل تڑپ رہا تھا۔
حکمران نے فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا۔ فوج کے تمام سپاہی بڑی پھرتی کے ساتھ سامان جنگ سے لیس ہو کر صف بستہ ہو گئے۔ وہ اپنے سالار کے حکم کے منتظر تھے۔ تازہ دم سدھے ہوئے گھوڑے تیار کھڑے تھے۔ منجنیقیں اور دیگر اسلحہ اکٹھا کیا جا چکا تھا، مستعد سپاہی اسلامی پرچم اٹھائے چاق و چوبند کھڑے تھے اور کوئی دم میں لشکر اسلام روانہ ہوا چاہتا تھا۔
سالار نے اشارہ کیا اور نعرہ تکبیر کی گونج میں اسلامی فوج الرہا کی طرف روانہ ہوگئی۔ اُدھر الرہا (ایڈ یسہ) پر حکمراں عیسائیوں کے رہنما، جو سلن ثانی کو خبر مل گئی کہ اسلامی فوج آرہی ہے، اس کا چہرہ پریشانیوں اور تفکرات کی آماجگاہ بن گیا۔ اس نے فوج کے سالار کو بلا کر جلدی جلدی کچھ ہدایات دیں۔ تھوڑی دیر بعد جو سلن ثانی اپنے چند وفادار ساتھیوں سمیت فرار ہو کر کسی محفوظ مقام کا رخ کر رہا تھا۔
اسلامی لشکر جلد ہی الرہا کی فصیلوں تک آپہنچا۔ شہر کا محاصرہ کرلیا گیا اور مکمل ناکہ بندی کر دی گئی۔ اسلامی فوج کے سالار نے کہا، ’’ شہر کے حکام کو پیغام بھیج دیا جائے کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیں گے تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔‘‘ پیغام بھجوادیا گیا، لیکن کچھ دیر بعد ہرکارے، عیسائی حکام کا جوابی پیغام لا رہے تھے جس میں اسلامی لشکر کی پیشکش کو ٹھکرا دیا گیا تھا۔
اب جنگ کرنے میں کوئی چیز مانع نہ تھی۔ اسلامی فوج کی منجنیقیں حرکت میں آئیں۔ شہر پر حملوں کا آغاز ہو گیا۔ شہر میں اسلحہ اور خوراک کا وافر ذخیرہ موجود تھا چنانچہ شہر والے قلعہ بند ہو کر 28 دن مقابلہ کرتے رہے لیکن 29 ویں دن قلعہ میں محصور عیسائی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ اسلامی فوج شہر کی فصیلیں تو ڑ کر شہر میں داخل ہو رہی ہے۔
الرہا فتح ہو چکا تھا۔ وہی صلیبی جنہوں نے کچھ عرصہ قبل بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے، عورتوں کو ان کے سہاگ سے محروم کیا تھا، معصوم بچوں کے سروں سے والدین کا سایہ چھین لیا تھا ،اب مسلمان فوج کے رحم و کرم پر تھے۔ اسلامی لشکر کے سپاہی غم وغصہ سے بے چین تھے۔ ان کی آنکھوں میں صلیبی سپاہیوں کے لیے رحم کی کوئی علامت نہ تھی لیکن یہ اسلامی لشکر تھا جس کا ایک ایک سپاہی اپنے افسر اعلیٰ کے حکم کا پابند تھا اور وہ منتظر تھے کہ دیکھیں سالا رصلیبیوں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
سپہ سالار نے اپنی بڑی بڑی ملیح آنکھیں اٹھا ئیں۔ ان کے خوبصورت چہرے پر سکون تھا۔ انہوں نے حکم دیا ،’’جو لوگ ہتھیار پھینک دیں، انہیں کچھ نہ کہا جائے اور جن لوگوں کو قیدی بنایا گیا ہے، انہیں رہا کر دیا جائے۔‘‘
یہ اس مسلمان حکمراں کا اعلیٰ ظرف تھا اور مثالی رحم دلی کیونکہ وہ اس نبی کریم ﷺنے کی امت میں سے تھے جس نے 13 سال تک مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کو فتح مکہ کے روز معاف کر دیا تھا۔
الرہا کی فتح کوئی معمولی واقعہ نہ تھی، اس کی خبر فوراً ہی پوری دنیا میں پھیل گئی اور تمام مسیحی ممالک میں صف ماتم بچھ گئی۔ مشہور مؤرخ علامہ ابن الاثیر کے الفاظ میں’’ ایڈیسہ (الرہا) کی فتح، فتح الفتوح (فتح مبین) تھی۔‘‘ اُدھر پورے عالم اسلام میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ شعراء مبارکباد کی نظمیں کہہ رہے تھے۔ علماء و مشائخ الرہا کے فاتح کو محافظ اسلام اور مجاہد کبیر کے خطاب دے رہے تھے۔ خلیفہ بغداد مقتفی لامر اللہ بھی اس فتح سے بے حد خوش تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ الرہا کے فاتح کا نام خطبوں میں شامل کیا جائے۔
اپنے بھر پور جذبہ ایمانی، مثالی غیرت اور بے پناہ جرات سے کام لیتے ہوئے صلیبیو ں کے خلاف جہاد کا آغاز کرنے والے یہ اولین حکمران تھے، عمادالدین زنگی جنہیں بجا طور پر ملتِ اسلامیہ کا محسن قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو صلیبیو ں کی زبردست طاقت کے خلاف متحد اور منظم کیا بلکہ اپنے زیرِ انتظام علاقے میں اسلامی شریعت نافذ کر کے اسے ایک مثالی اسلامی ریاست بنا دیا۔
عمادالدین زنگی نے جب اس جہان میں اپنی زندگی کا پہلا سانس لیا تو اس وقت عالم اسلام کے بڑے حصہ پر سلجوقیوں کی حکمرانی تھی۔ سلجوقی خاندان کے ایک بہت نامور حکمران سلطان ملک شاہ سلجوقی اس زمانے میں اس حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کے دور میں مغرب میں شام، جنوب میں یمن اور عمان اور مشرق میں چین تک اسلامی مملکت کی حدود پھیل چکی تھی۔
قاسم الدولہ آقسنقر بن عبداللہ، سلطان ملک شاہ سلجوقی کے معزز مصاحب تھے۔ آقسنقر، ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ’سفید باز‘ کے ہیں۔
سلطان اپنے قابل وزیر نظام الملک طوسی کی رائے کا بڑا احترام کرتے تھے۔ طوسی کے مشورے پر سلطان نے آقسنقر کو 477ھ میں حلب اور حماۃ کا گورنر مقرر کیا۔ یہ دونوں علاقے اب شام میں شامل ہیں۔ اسی سال آ قسنقر کو اللہ نے ایک بیٹے سے نوازا۔ آقسنقر نے اپنے بیٹے کا نام عمادالدین رکھا۔ عمادالدین آقسنقر کی اکلوتی اولاد تھے۔
485ھ (1092 ء) میں ملک شاہ سلجوقی کی حیات مستعار کے دن پورے ہو گئے۔ ان کے بیٹے رکن الدین ابوالمظفر بر کیا روق نے شوال 487 ھ میں سلجوقی سلطنت کی زمام کا رسنبھالی۔
یہ وہ دور تھا جب یورپ میں بیداری کی لہریں کروٹیں لے رہی تھیں۔ اس وقت عیسائیوں کی حکومت صرف براعظم یورپ تک محدود تھی لیکن سلطان ملک شاہ سلجوقی کے انتقال کے بعد عیسائیوں نے بیت المقدس، فلسطین اور دیگر علاقوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اسی دور میں فرانس کا ایک راہب پیٹر دی ہر مٹ اٹھا۔ اس نے ملک ملک گھوم کر اپنی شعلہ بیانی سے مسیحیوں کے دلوں میں آگ بھڑکا دی۔
نومبر 1095ء میں فرانس کے شہر کلیر مانٹ میں پوپ اربن ثانی نے مسیحیوں کا بہت بڑا اجتماع بلایا۔ اس اجتماع میں عیسائی راہبوں، پادریوں اور عام لوگوں نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ شہر بھر میں جہاں دیکھو لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے۔ اسی اجتماع میں پوپ نے فتویٰ دیا کہ’’ بیت المقدس کو ’کافروں‘ کے قبضہ سے آزاد کروانے کے لیے، خداوند یسوع مسیح کے ہر پیرو کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی جان کی بازی لگا دے۔‘‘
بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے عیسائیوں نے جو جنگیں لڑیں، وہ صلیبی جنگیں کہلاتی ہیں کیونکہ کلیر مانٹ کے اجتماع میں پوپ اربن ثانی نے لوگوں کو ایک صلیب دکھا کر کہا تھا، ’’خداوند یسوع مسیح خود اپنی قبر سے یہ صلیب تمہارے سینوں پر آویزاں کرنے کے لیے نکلا ہے۔ یہی تمہاری نجات کا نشان ہے اور یہی تمہاری فتح کی ضامن ہے۔‘‘
صلیبی جنگوں کی کل تعداد آٹھ ہے اور ان کا عرصہ 1096 ء سے 1271 ء تک محیط ہے۔ ان میں سے پہلی تین جنگیں مشہور ہیں۔ اگست 1096ء میں صلیبیوں کا پہلا لشکر بیت المقدس کی سمت روانہ ہوا۔ جون 1099 میں صلیبی مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر قابض ہو چکے تھے اور کچھ ہی عرصہ بعد ان کی حکومت بالائی الجزیرہ میں ماردین سے لے کر مصر کی سرحد العریش تک پھیل چکی تھی۔
ارض مقدس میں عیسائیوں کی چار ریاستیں وجود میں آچکی تھیں جن کے صدر مقامات بیت المقدس، الرہا،انطاکیہ اور طرابلس تھے۔
یہ دور مسلمانوں کے لیے بڑا کٹھن اور کرب انگیز تھا۔ وہ اپنی نظروں کے سامنے صلیبیوں کو بیت المقدس پر قابض ہوتے اور مسجد اقصیٰ میں خون کی ندیاں بہاتے دیکھ چکے تھے۔ فی الحقیقت مسلمان بڑی بے بسی سے دو چار تھے۔
مسلمانوں کی اپنے رب سے دعائیں قبول ہوئیں اور ظلم و ستم کی اس سیاہ رات میں بالآ خرامید کی ایک کرن چمک اٹھی اور پھر اس کرن سے پھوٹنے والی کئی کرنوں نے دور دور تک اجالا کر دیا۔ جبر و استبداد کے گھٹا ٹوپ اندھیرے بھاگ کھڑے ہوئے اور ارضِ مقدس، فلسطین نور اسلام سے جگمگا اٹھی۔
شب ظلمت میں امید کی یہ پہلی کرن تھی، عمادالدین زنگی، جنہوں نے اپنی عظیم قوت ایمانی، بے مثال جرات اور قیادت کی بے پناہ صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے پے در پے حملے کر کے صلیبیو ں کے دانت کھٹے کر دئیے۔ ان کے مضبوط اقتدار کی بنیادیں ہلا دیں۔ صلیبیوں کے خلاف جس مقدس جہاد کا انہوں نے 507ھ میں آغاز کیا تھا۔ اسے پھر ان کے بیٹے نورالدین زنگی اور پھر صلاح الدین ایوبی نے دوسری اور تیسری صلیبی جنگوں میں پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ فی الحقیقت صلیبی سیلاب کے آگے بند باندھنے کے جرات مندانہ اقدام میں پہل عمادالدین زنگی ہی نے کی۔
487ھ (1094ء) میں سلجوقی سلطنت کی باگ ڈور سلطان رکن الدین ابو المظفربرکیا روق کے ہاتھوں میں آچکی تھی۔ انہوں نے امیر کر بوقا کو موصل کا امیر مقرر کر دیا تھا۔ امیر کر بوقا، عمادالدین کے والد آقسنقر کے دوست تھے۔ انہوں نے عمادالدین کو اپنے پاس بلا لیا۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اساتذہ مقرر کیے۔ ان کی رہائش، خوراک، لباس اور دیگر ضرورتوں کا اعلیٰ انتظام کیا۔
495ھ میں جرکمیش کے امیر کے لڑکے ناصر الدین کی بیٹی سے عمادالدین کی شادی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد امیر مودود موصل کی حکمرانی پر فائز ہوئے۔ وہ بڑے غیرت مند اور باہمت انسان تھے۔ انہوں نے ہی صلیبیوں کے خلاف باقاعدہ جدوجہد کی داغ بیل ڈالی۔ عمادالدین تو خود دل سے اس جہاد کے خواہاں تھے۔ ابھی صرف چند سال پہلے صلیبی لشکر بیت المقدس پر قابض ہو چکا تھا۔ اس المناک واقعہ سے عمادالدین کا دل بے حد افسردہ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ انہیں صلیبیوں کو ارض مقدس سے مار بھگانے کا موقع مل جائے۔ امیر مودود کی فوج میں شامل ہو کر انہوں نے صلیبیوں کے خلاف زبردست لڑائیاں لڑیں۔ ان لڑائیوں میں بلاد شجستان، ایڈیسا اور طبریہ کے معر کے مشہور ہیں۔
507ھ(1113ء) میں طبریہ کا معرکہ پیش آیا۔ عمادالدین اس جنگ میں نہایت بہادری سے دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے شہر کے دروازے تک پہنچ گئے اور اس میں اپنا نیزہ گاڑ دیا۔ ان معرکوں کے نتیجے میں عمادالدین کی دھاک ہر طرف بیٹھ گئی اور صلیبی ان کے نام سے خوف کھانے لگے۔
511 ھ میں سلطان محمد سلجوقی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے سلطان محمود تخت نشین ہوئے۔ انہوں نے 516ھ میں عمادالدین کو واسط کا حاکم بنایا اور ساتھ ہی بصرہ کی نیابت بھی سپرد کی۔ کچھ عرصہ بعد موصل کے امیر آقسنقر برسقی کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد صلیبیوں نے موصل کی طرف للچائی ہوئی نظروںسے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس پر موصل کے دو سرکردہ علماء کرام بہاء الدین ابوالحسن علی شہرزوری اور صلاح الدین محمد، سلطان محمود کے پاس پہنچے اور ان کو مشورہ دیا کہ موصل میں کسی تجربہ کار شخص کو حاکم بنایا جائے۔ مشیروں سے مشورہ لیا گیا تو سب نے متفقہ طور پر رائے دی کہ موصل کی امارت کے لیے عماد الدین سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے چنانچہ عمادالدین موصل کے گورنر مقرر کر دیئے گئے۔
عمادالدین نے رمضان المبارک 522ھ /ستمبر 1127ء میں موصل کا انتظام سنبھال لیا۔ اس کے ساتھ ہی سلطان محمود نے اپنے دونوں بیٹوں الپ ارسلان اور فرخ شاہ کی تعلیم عمادالدین زنگی کے سپرد کر دی اور انہیں ا تا بک کا خطاب دیا۔ ا تا بک ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ’’بزرگ اور اتالیق ‘‘کے ہیں۔ یہ لقب سب سے پہلے سلطان ملک شاہ سلجوقی نے اپنے قابل وزیر نظام الملک طوسی کو دیا تھا ،اس کے بعد سلجوقی سلطنت میں اس خطاب کو نہایت اہمیت حاصل ہو گئی اور یہ صرف اس امیر کو دیا جاتا جو بے حد محترم اور ذی عزت سمجھا جاتا تھا اور نوجوان شہزادوں کی تربیت کی نگرانی اور نگہداشت بھی اس کے سپرد کی جاتی تھی۔
مؤرخ ابن الاثیر کے مطابق یہ وہ دور تھا جب عیسائی حکمراں شہروں پر آبادی کا لحاظ کیے بغیر خراج لگا رہے تھے۔ حلب کی نصف آمدنی اسی طرح وصول کر لیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے شہر کے دروازے پر باغ کے قریب جو چکیاں تھیں ان پر بھی خراج لگادیا تھا۔
صلیبی جب چاہتے، دمشق اور حلب کی چراگاہوں میں آ گھستے اور تباہی مچاتے۔ دمشق اور حلب کے نواحی علاقوں میں عیسائیوں کی ٹولیاں روزانہ لوٹ مار کیا کرتی تھیں۔ 522ھ میں حلب سے شہریوں کا ایک وفد عمادالدین زنگی کے پاس موصل آیا اور اس وفد نے شہریوں کی مظلومیت کی داستان سنائی۔ عمادالدین زنگی نے فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا اور حلب پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اس قدر تند و تیز تھا کہ صلیبی حکمرانوں کے ہوش اُر گئے۔ عمادالدین عیسائی علاقے میں دور تک بڑھتے چلے گئے۔ یہ کسی عیسائی ریاست پر پہلا با قاعدہ حملہ تھا۔ دشمن بھاگ کھڑا ہوا اور عمادالدین زنگی نے حلب کو مستقل چھاؤنی کی حیثیت دے دی۔ وہ تقریباً ایک سال تک یہاں مقیم رہے اور اس عرصہ میں انہوں نے آس پاس کی عیسائی چوکیوں کا قلع قمع کر ڈالا۔ اگلے سال انہوں نے عیسائیوں کے زیر تسلط علاقے کے سب سے بڑے سرحدی قلعہ، حصن الا ثارب پر حملہ کر دیا۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یروشلم (بیت المقدس) کے بادشاہ بالڈون نے فوراً جاگیرداروں اور رؤسا کی کانفرنس بلائی اور ان سے صلاح مشورہ کیا کہ عماد الدین زنگی کے حملے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ آیا یہ ایک وقتی جوش ہے اور ذاتی اغراض کے پیش نظر کیا جا رہا ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی بڑا مقصد اور تحریک کارفرما ہے۔ بیشتر مشیروں کا خیال یہ تھا کہ یہ ایک وقتی ابال ہے اور بہت جلد اس آندھی کا زور ٹوٹ جائے گا لیکن بعض مشیروں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ طوفان تھمنے والا نہیں ہے اور عمادالدین وہی شیر دل سالا ر ہے جس نے طبریہ کے دروازے پر نیزہ گاڑ دیا تھا۔ شاہ بالڈون نے فیصلہ کیا کہ ایک بڑی فوج تیار کی جائے اور حصن الاثارب کی سمت کوچ کیا جائے ۔حصن الاثارب حلب سے چار میل کے فاصلے پر انطاکیہ کو جانے والے راستے پر واقع تھا۔
جب عمادالدین کو بالڈون کی فوج کی آمد کی خبر ملی تو وہ بھی اپنے سپاہیوں کو لے کر آگے بڑھے اور دل ہلا دینے والے تکبیر کے نعروں کی گونج میں دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ یہ جنگ نہایت خونریز بھی اور صلیبیوں کا اس جنگ میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ علامہ ابنِ خلدون کے مطابق لڑائی کے ساٹھ ستر برس بعد تک بھی صلیبی سپاہیوں کی ہڈیاں میدان جنگ میں بکھری رہیں۔
بالڈون کی فوج کو شکست سے دو چار کرنے کے بعد عمادالدین زنگی پھر قلعہ الا ثارب کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک زبر دست حملہ کر کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ بہت جلد قلعہ کی فصیلوں پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔ اس مضبوط قلعہ کی فتح سے صلیبی دہل کر رہ گئے۔ اب حلب اور نواحی علاقے صلیبیوں کی چھیڑ چھاڑ سے محفوظ ہو گئے تھے۔
اس دوران عیسائی فوجیں دمشق کے دروازے تک آ پہنچی تھیں۔ عمادالدین زنگی نے بحرین کا رخ کیا اور صلیبیوں کو خوفناک شکست دی۔ ان واقعات سے صلیبی اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ ان کے پادری سیاہ ماتمی لباس پہن کر یورپی ممالک جا پہنچے اور وہاں نوحے اور مرثیے پڑھنے لگے۔ اس فریاد کا اثر یہ ہوا کہ روم کے شہنشاہ شاہ فرانس نے لاکھوں سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور534ھ/ 1140ء میں ارض شام پر یلغار کر دی۔ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا اس میں شیزر کا علاقہ بھی آتا تھا۔
اس زمانے میں شیزر پر ابوالعسا کر سلطان ابن منقذ حکمراں تھے۔ انہوں نے عماد الدین سے مدد طلب کی۔ عمادالدین نے فوراً فوج کو منظم کیا اور شیزر کے قلعہ کا محاصرہ کرنے والی صلیبی فوج کی جانب روانہ ہو گئے۔ دریائے عاصی کے کنارے پڑاؤ ڈال کر انہوں نے قیصر روم کو میدان جنگ میں آنے کی دعوت دی اور کہا کہ آؤ ہم تمہاری تلواروں کا مزہ چکھیں اور تم ہماری تلواروں کا۔
شاہ روم کو قلعہ الاثارب کے عیسائیوں نے یہ کہہ کر خوفزدہ کر دیا کہ ابھی اثارب کے معرکہ میں عمادالدین زنگی کا لشکر عیسائیوں کی فوج کا قلع قمع کر چکا ہے۔ چنانچہ میدان میں مقابلہ سودمند نہ ہوگا۔ چنانچہ قیصر روم نے پہاڑوں کی سر بلندی سے مقابلے کو ترجیح دی لیکن انہیں شاید علم نہ تھا کہ زنگی بھی ان نشیب وفراز سے بخوبی آشنا ہیں۔ زنگی کا لشکر بھی پہاڑ پر چڑھ گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ دشمن اپنا سارا سامان،اسلحہ، منجنیقیں وغیرہ چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ عمادالدین نے اپنی فوج کو لے کر صلیبیوں کا دور تک تعاقب کیا۔ ہزاروں صلیبیوں کو ہلاک، زخمی یا گرفتار کر لیا اور تعاقب اس وقت تک جاری رکھا جب تک قیصر روم کی فوج شام کے ساحل پر شاہی بیڑے میں سوار ہو کر روم کی طرف بھاگ کھڑی نہ ہوئی۔ اس لڑائی میں عماد الدین کی فوج نے بڑی مقدار میں مالِ غنیمت حاصل کیا۔ اس شاندار فتح پر بہت سے مسلمان شعراء نے مبارکباد کے قصیدے لکھے۔
شیزر کے بعد عمادالدین نے قلعہ عرفہ پر حملہ کیا جو طرابلس کے عیسائی نواب کے قبضہ میں تھا۔ چند ہی دن میں یہ قلعہ فتح ہو گیا۔ پھر قلعہ بحرین کا محاصرہ کر لیا، اس سے قبل بحرین کے مضافات میں شاہ یروشلم اور شاہ فرانس کی متحدہ فوج نے عماد الدین کا مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔ قلعہ بحرین کا محاصرہ ایک ماہ تک جاری رہا جس کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔
6 جمادی الاول 539ھ /23دسمبر 1144ء کا دن وہ تاریخی دن تھا جب عماد الدین نے پہلی صلیبی ریاست کے صدر مقام الرہا کو بھی تسخیر کر لیا۔ الرہا کی فتح کے بعد عمادالدین نے دریائے فرات کے مشرقی علاقے کی طرف پیش قدمی کی اور متعدد قلعے اور شہر فتح کیے، ان میں سیروج کا مشہور قلعہ بھی قابل ذکر ہے۔
عماد الدین نے جس بھر پور طریقے سے صلیبیوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تھا وہ پوری مسیحی دنیا کو چونکا دینے کے لیے کافی تھا۔ عماد الدین صلیبی فوجوں کو ارض مقدس سے پوری طرح نکال باہر کرنے اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے کوشاں تھے۔ وہ اپنا یہ مشن جاری رکھتے لیکن 5 ربیع الآخر541ھ /14 ستمبر 1146ء کو انہیں کسی مملوک (غلام) نے شہید کر دیا۔ ان کی عمر تقریباً60سال تھی۔
اس بطل جلیل کی شہادت کی خبر پوری اسلامی دنیا میں انتہائی رنج کے ساتھ سنی گئی لیکن عیسائیوں میں مسرت کے شادیانے بجنے لگے۔ فرانسیسی مورخ مچاڈ کے مطابق:
’’ عمادالدین زنگی کی موت نے عیسائیوں کو حیات نوعطا کر دی۔‘‘
عماد الدین زنگی شریعت کی پابندی کروانے اور قوانین ِ حکومت پر عمل کروانے کے سلسلہ میں بہت سخت تھے۔ وہ سرکاری حکام اور فوجی افسروں پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ انہیں ذاتی جائیدادیں بنانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے فوج کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ کبھی فصلوں اور کھیتوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں اور شہریوں اور دیہاتیوں سے معاوضہ ادا کیے بغیر کوئی چیز نہ لیں۔ وہ کہتے تھے ،’’ جو سلطان اپنی فوج کو رعایا کی املاک اور زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہے ،وہ بڑا ظالم ہے اور ظلم کو رواج دینے کا موجب ہے۔‘‘ ان احکام کا نتیجہ یہ تھا کہ علامہ ابن الا ثیر کے مطابق، ’’جب عمادالدین زنگی کی فوج کسی دیہاتی علاقے سے گزرتی تو یوں محسوس ہوتا کہ دو رسیاں اس فوج کے دونوں جانب پھیلا دی گئی ہیں اور فوج ان کے اندر سے اپنی منزل کی طرف جا رہی ہے اور کبھی ادھر سے ادھر نہیں ہوتی۔ شہید اتابک زنگی کا انصاف مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے یکساں تھا اور رعایا کا کوئی بھی فرد خواہ اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو، عماد الدین زنگی کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا۔
عمادالدین زنگی نہایت سخی، رحم دل اور غریبوں کے ہمدرد تھے۔ وہ ہر جمعہ کی نماز سے قبل ایک سو سرخ دینار مستحقین میں تقسیم کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی وہ اپنے قابل اعتماد ماتحتوں کے ذریعہ غریبوں کی امداد کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے ماتحت افسران کو سختی سے ہدایت کر رکھی تھی کہ ان کے علاقے میں کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کے پاس کھانے کے لیے خوراک اور پہننے کے لیے لباس نہ ہو۔ عمادالدین زنگی کی سخاوت کی وجہ سے بعض مؤرخین نے انہیں ’ابوالجود‘ کا خطاب بھی دیا۔
علامہ ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ’’شہید اتابک زنگی کے دور میں موصل میں اپنے وقت کی بہترین اور انتہائی منتظم حکومت تھی۔ زنگی کو اپنی رعایا کے ایک ایک فرد کی گزر اوقات کا وسیلہ اور اس کے اخراجات کی کیفیت کا علم رہتا تھا۔ ان کے مقرر کردہ نگراں ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر قریہ میں پھیلے ہوئے تھے جو انہیں رعایا اور بستیوں کی صورت حال سے ہمیشہ باخبر رکھتے تھے۔‘‘
عمادالدین زنگی نے اس قسم کا نظام حکومت نافذ کیا تھا کہ ان کی رعایا خود کو ایک وسیع خاندان کا حصہ سمجھتی تھی جس کے سربراہ وہ خود تھے۔ شہید زنگی بے روزگاروں کو خود روز گار فراہم کرتے۔ مزدوروں اور کاریگروں کو اجرت کم ہونے کی شکایت ہوتی تو اجرت بڑھواتے۔ جن کا شتکاروں کے پاس زرعی اراضی کم ہوتی انہیں زمین دلواتے تھے۔ عمادالدین زنگی اپنا یہ قول اکثر دہرایا کرتے تھے،’’ ملک ایک باغ کی طرح ہے۔ جب تک باغبان اس کی آب پاشی اور حفاظت میں سرگرم رہے گا وہ سر سبز وشاداب رہے گا، جونہی اس نے غفلت کی، سارا باغ اجڑکر رہ جائے گا۔‘‘
عمادالدین زنگی نے جب موصل کی حکمرانی سنبھالی تو شہر کا اکثر حصہ ویران تھا۔ مساجد ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں۔ جامع عقیق سے لے کر محلہ طیاطلین تک ایک ویرانہ تھا لیکن عماد الدین زنگی نے موصل کا انتظام اس قدر عمدگی سے کیا کہ چند سال کے اندر اندر یہ ویرانہ آباد ہو گیا۔ اس سے قبل شام کا تقریباً سارا علاقہ بنجر پڑا ہوا تھا اور صلیبیوں کی لوٹ مارسے تجارت بند ہوگئی تھی۔ عماد الدین نے ایک جانب پے در پے دستے بھیج کر لوٹ مار کا یہ سلسلہ سرے سے ختم کروادیا، دوسری جانب لاکھوں افراد کو باہر سے بلوا کر دیہات میں آباد کیا۔ ہر قسم کے پھلوں کے باغات اور طرح طرح کے اناج کی فصلیں لگوا ئیں، حتیٰ کہ پیداوار اتنی بڑھی کہ پھل اور غلہ شہر سے باہر بھی بھیجا جانے لگا۔ تجارت چمک اٹھی۔ مسمار عمارتوں کی جگہ نئی اور جدید طرز کی تعمیرات نے لے لی۔ عماد الدین نے موصل کے شمال میں بھی ایک شہر آباد کیا جس کا نام خود ان کے نام پر عماد یہ رکھا گیا۔
عمادالدین زنگی ایک علم دوست حکمراں تھے۔ ان کی مجلس میں بڑے بڑے علماء اور صاحب علم افراد موجود رہتے تھے۔ انہوں نے اہم ملکی عہدوں کے لیے بھی قابل اشخاص کا انتخاب کیا تھا۔ ان میں ایک اہم شخصیت ابو جعفر محمد الجوادکی ہے جو عمادالدین زنگی کے مشرف (وزیر اعظم اور مجلس شوریٰ کے صدر) تھے۔ ابو جعفر محمد الجواد نے نہ صرف علم کی ترویج اور سر پرستی کی بلکہ رفاہ عامہ سے متعلق متعدد کارنامے انجام دیئے۔ انہوں نے خاصے فاصلے سے ایک نہر کھدوائی جو عرفات تک پانی پہنچاتی تھی۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں حاجیوں کو آرام و سہولت مہیا کرنے کے لیے کئی عمارتیں بنوائیں، مدینہ منورہ کے گرد ایک مضبوط فصیل تعمیر کروائی۔ وہ ہر سال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے مستحقین کے لیے اس قدر رقم، غلہ اور کپڑا بھیجتے تھے جو ان کی سال بھر کی ضرورتوں کے لیے کافی ہوتا تھا۔ ان مستحقین کو فراہم کی جانے والی امداد کا حساب کتاب بھی رکھا جاتا تھا اور بیواؤں، یتیموں اور محتاجوں کے کوائف محفوظ رکھے جاتے تھے۔
عمادالدین نہ صرف صاحب علم حکمراں تھے بلکہ عمل کے میدان میں بھی آگے آگے تھے۔ وہ نماز اور روزہ کو میدان جنگ میں بھی ترک نہ کرتے تھے۔
عمادالدین زنگی کی صورت میں ہمیں ایک نہایت متقی صاحب ایمان، غیرت مند اور بے انتہا دلیر سالار نظر آتا ہے۔ علامہ ابن الاثیر نے اپنی کتاب ’’تاریخ الکامل‘‘ میں عماد الدین کو ہر جگہ شہیدا تا بک، کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ابن الاثیر لکھتے ہیں ’’شہیدا تا بک کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر غیرت دینی اور شجاعت ودیعت کی تھی وہ بہت کم ناموران اسلام کے حصہ میں آئی ہے۔ ان کے جوش ایمانی کا یہ عالم تھا کہ وہ فوجوں کو لڑاتے لڑاتے اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر تنہا، دشمن کی صفوں میں جا گھتے تھے اور اپنی شمشیر خارا شگاف سے ان کو کاٹ کر رکھ دیتے تھے۔‘‘
عمادالدین زنگی چاہتے تو اپنے زیر تسلط علاقے پر اطمینان سے حکومت کر سکتے تھے لیکن ان کی غیرت ایمانی نے گوارہ نہ کیا کہ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس، صلیبیوں کے قبضہ میں رہے۔ انہوں نے انتہائی کم وسائل اور قلیل افرادی قوت کے باوجود ایک بڑی طاقت سے ٹکر لے کر اسے لرزہ بر اندام کر دیا اور اس عظیم جہاد مقدس کی بنیاد رکھ دی جس کے نتیجے میں مسلمان کچھ ہی عرصہ بعد، بیت المقدس کو صلیبیوں سے واپس لینے میں کامیاب ہو گئے۔
حوالہ کتب:
٭تاریخ دعوت و عزیمت: مولانا ابوالحسن علی ندوی
٭ تاریخ اسلام: شاہ معین الدین احمد ندوی
٭ نورالدین محمود زنگی: طالب ہاشمی
٭ تاریخ اسلام: جسٹس امیر علی ترجمہ: حسین رضوی
٭ مسلمان حکمراں: رشید اختر ندوی۔
٭ جغرافیہ خلافت مشرقی :محمد جمیل الرحمن
٭ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ: ثروت صولت
٭ دائرہ معارف اسلامیہ

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top