skip to Main Content

گُوفی نے خط پوسٹ کیا

کہانی: Goofy Posts a Letter
مصنفہ: Enid Blyton
ترجمہ:گُوفی نے خط پوسٹ کیا
مترجم: ریاض عادل
۔۔۔۔۔
”گُوفی!جلدی جاؤ اور میرا یہ خط لیٹرباکس میں ڈال آؤ۔“خالہ نے اسے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں سے اٹھاتے ہوئے کہااور ساتھ ہی سفیدرنگ کا چوکورلفافہ اسے تھمادیا۔
”میں پہلے یہ کیلاتوکھالوں۔“گُوفی نے معصومیت سے کہا۔وہ کیلا کھانے کے لیے اس کاچھلکا اتارنے ہی والاتھا۔
”تم پہلے یہ خط لے کر جاؤاور اسے لیٹرباکس میں ڈال آؤ!کہیں ایسا نہ ہوکہ ڈاک کا وقت ہی نکل جائے۔اپنا کیلا یہیں چھوڑ جاؤاورواپس آکر اسے کھالینا!“اس کی خالہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
مگر گُوفی خالہ کی بات پر عمل نہیں کرناچاہتاتھا،کیوں کہ اسے یقین تھاکہ اگر اس نے کیلا وہیں چھوڑدیا،تو اس کی غیرموجودگی میں،ہروقت کھانے کی خوش بو سونگھتا،اس کا کتا،سکیمپ،کیلا کھاجائے گا۔ لہٰذا اس نے کیلااپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیااور ایک جیب میں کیلا اور دوسری جیب میں خط ڈال کر، وہ خط پوسٹ کرنے چل پڑا۔
اگرچہ خالہ نے اسے جلدی جانے کو کہاتھامگراسے کوئی جلدی نہیں تھی۔راستے میں بہت سی چیزیں تھیں جنھیں وہ دیکھتا ہواجارہاتھا۔اس نے پڑوسیوں کی بلی دیکھی،جو اپنے پنجوں کی مددسے ایک نرم کپڑاصابن سے رگڑتی اور پھر اس کپڑے کو احتیاط سے اپنے بدن پر رگڑکر نہارہی تھی۔اس نے ایک مالی کودیکھا جو ہاتھ گاڑی میں باغیچے سے کوڑا کرکٹ اکٹھاکررہاتھا۔وہ اسے آخری خشک پتا اٹھانے تک کھڑا دیکھتارہا۔پھر اس نے کھلونوں والی دکان دیکھی،جس میں رنگ برنگے اور خوب صورت کھلونے تھے،جنھیں وہ شوق سے دیکھتارہا۔سڑک کے کنارے ایک جگہ گنداپانی کھڑاتھا، جسے اس نے دو تین دفعہ چھلانگ لگاکرعبورکیا۔
گُوفی اپنے خیالوں میں گم چلاجارہاتھا کہ اس نے ایک ہوائی جہاز دیکھا،جو ہوا میں چکرکاٹ رہاتھا۔اس کی آنکھیں جہاز پر تھیں اسی لیے وہ چلتے چلتے کسی چیز سے ٹکراگیا۔
”کیا مصیبت ہے؟“ اس کے منہ سے نکلا۔اس نے دیکھاتووہ سرخ رنگ کا لیٹرباکس تھا،جس سے وہ ٹکرایاتھا۔اور پھرپتا ہے بچو!کیاہوا؟ گُوفی نے دوبارہ جہاز کودیکھنا شروع کردیاتھا۔اسی بے دھیانی میں اس نے خط کی جگہ اپنا کیلالیٹر باکس میں ڈال دیا۔کیلااب لیٹرباکس میں پہنچ چکاتھامگر گُوفی مطمئن تھا کہ اس نے خط،لیٹرباکس میں ڈال دیا ہے،حالاں کہ وہ اس کی جیب میں پڑاہواتھا۔
وہ اسی طرح گھومتاہواگھرواپس آگیا۔اس کی خالہ نے جب اسے دیکھاتو اسے اپنے پاس بلاکر کہنے لگیں:”شکریہ گُوفی!تم نے خط وقت سے پہلے پوسٹ کردیاتھانا؟“
”جی خالہ جان!میں نے آپ کا خط تو پوسٹ کردیاہے،مگراب مجھے میراکیلانہیں مل رہا،پتانہیں کہاں ہے؟“
”کیلا توتم اپنے ساتھ لے کرگئے تھے۔“خالہ نے اسے یاددلاتے ہوئے کہا۔
”اگرمیں کیلا اپنے ساتھ لے کرگیاتھا،تو میں اسے واپس کیوں نہیں لے کرآیا؟“گُوفی نے حیرانی سے کہا۔
”تم یقیناًاسے کھاچکے ہوگے۔“خالہ نے کہا۔
”مجھے پتابھی نہیں اور میں کیلاکھاچکاہوں۔خالہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟میں نے کیلا کھایا ہے اور اس کا ذائقہ تک محسوس نہیں کیا۔آپ مجھے ایک کیلا اوردے دیں۔“گوُفی نے کہا، تو اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
”اچھا توتمھیں ایک اور کیلا چاہیے!دیکھو!اس طرح کی چالاکی سے تم مجھ سے دوسراکیلا نہیں لے سکتے ہو۔تم اچھی طرح جانتے ہوکہ تم اپنا کیلا کھاچکے ہو۔گُوفی بے وقوف مت بنو!“ خالہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
خالہ کی بات سن کر گُوفی اداس ہوگیا۔اس نے وعدہ کیاکہ وہ آئندہ کبھی چکھے بغیراور جانے بغیرکوئی چیز نہیں کھائے گا۔وہ اتناغم زدہ لگ رہاتھاجیسے ابھی روپڑے گا۔اسے کچھ بھی اچھانہیں لگ رہاتھا۔اس لیے وہ بے دلی کے عالم میں اپنے کمرے میں آگیا۔اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔جب خالہ اس کے کمرے میں آئیں اور اسے سوتادیکھا تواس کے کپڑے ہینگر پر ٹانگنے کے لیے اٹھانے لگیں، تو انھیں محسوس ہواجیسے اس کی جیب میں کوئی چیز موجود ہے۔جب انھوں نے اسے باہرنکالاتو یہ وہی خط تھا،جو انھوں نے گُوفی کو پوسٹ کرنے کے لیے دیاتھا۔خط دیکھ کر انھیں بہت غصہ آیا اور وہ گُوفی کواٹھاتے ہوئے بولیں:”گُوفی!تم تو کہہ رہے تھے کہ تم میرا خط پوسٹ کرآئے ہو،مگر یہ تو تمھاری جیب میں پڑا ہواہے۔تم بہت بُرے لڑکے ہو۔ابھی اٹھو اور کپڑے تبدیل کر کے اسے لیٹرباکس میں ڈال کر آؤ!“
”میں نے آپ کا خط خودلیٹرباکس میں ڈالاتھا۔میں بالکل صحیح کہہ رہاہوں۔مجھے اچھی طرح یادہے کہ میں نے اسے پوسٹ کردیا تھا۔“یہ کہتے ہوئے اس نے خط لیااور اسے پوسٹ کرنے لیٹرباکس کی طرف چل پڑا۔جب وہ لیٹرباکس کے نزدیک پہنچاتواس نے ڈاکیے اور ایک پولیس والے کووہاں موجودپایا۔پولیس والااکثراسے اپنی گلی میں گھومتاپھرتانظرآتارہتاتھا۔اس نے سنا،ڈاکیا پولیس والے سے کہہ رہاتھا:
”اورتمھیں پتا ہے جب میں نے لیٹرباکس کھولا تو اس میں کیاتھا؟لیٹرباکس میں ایک بڑا،پیلا کیلاپڑاہواتھا۔کیا یہ ایک شرم ناک بات نہیں ہے؟اور ایک کیلے کا ضیاع بھی۔جس نے بھی یہ حرکت کی ہے،اگر وہ میرے ہاتھ لگ جائے، تو میں اسے فوراً تمھارے حوالے کردوں گا۔“
”بالکل ٹھیک!تم اسے میرے حوالے کرنا۔اب وقت آگیاہے کہ کیلے اور اس جیسی دوسری چیزیں پوسٹ ہونابندہوجانی چاہییں۔لوگ لیٹرباکس کا منہ دیکھ کر یہ کیوں فرض کرلیتے ہیں کہ یہ اس سے کھانے پینے کاکام لیتا ہے۔“سپاہی نے غصے سے کہا۔
سپاہی کی بات سن کر لیٹرباکس کی اوٹ میں چھپے گُوفی نے کانپناشروع کردیا۔اب اسے سارامعاملہ سمجھ آچکاتھاکہ اس کا کیلا کہاں چلاگیاتھا۔ڈاکیا کبھی نہیں جان سکتاتھا کہ یہ گُوفی کا کیلا ہے،جواس نے خط کی جگہ لیٹرباکس میں ڈال دیاتھا۔اس نے فوراًخالہ کا خط باکس میں ڈالا اور ایسے گھر کی جانب بھاگنے لگاجیسے بہت سے چیتے اس کاپیچھاکررہے ہوں۔بچو!اب وہ کھانے پینے کی کوئی چیز جیب میں لے کر نہیں جاتا کہ گلی میں کھالے گا۔اب اسے ڈر لگتاہے کہ کہیں وہ دوبارہ جیب میں رکھی ہوئی چیزلیٹر باکس میں نہ ڈال دے۔بے چارہ گُوفی!!

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top