اے حمید
۔۔۔۔۔
انمول خزانہ
سمندری جہاز ڈیون شائر سکون سے چلا جا رہا تھا۔
وہ رات ہی رات بحیرہ عرب سے نکل کہ اب مغربی افریقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کی منزل انگلستان تھی۔ یہ جہاز ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملکیت تھا اور اس میں کمپنی کے بڑے بڑے امیر سوداگر، حصے دار اور ان کی عورتیں اور بچے سوار تھے۔ یہ جہاز کوئی ڈیڑھ سوفٹ لمبا تھا اور کمپنی کا سب سے طاقت ور، مضبوط اور تیز رفتار جہاز تھا۔ سمندری ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے عرشے پر چالیس تو پیں لگی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ ہم کہانی شروع کریں آپ کو ہم یہ بتانا بہت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ زمانہ کو نسا تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کون تھی۔ آپ نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں یہ تو ضرور پڑھا ہو گا کہ پاک و ہند پر انگریزوں نے پونے تین سو برس کے قریب حکومت کی۔ انگریز سب سے پہلے پاک و ہند میں تجارت کرنے والے سوداگروں کے بھیس میں آئے۔ انہوں نے مغل بادشاہ عالمگیر سے اجازت لے کر مغربی ساحل پر اپنی تجارتی کو ٹھیاں بنائیں اور یہاں سے اونے پونے مال خرید کر انگلستان بھیجنا شروع کر دیا۔ تجارت کے ساتھ ہی ساتھ انگریزوں نے پاک وہند کی سیاست میں بھی دخل دینا شروع کر دیا۔ کچھ وقت گزر جانے کے بعد انگریزوں کے سیاسی جوڑ توڑ اور سازشیں مغل دربار تک پہنچ گئیں۔ غداروں نے ان کا ساتھ دیا اور آج سے قریباً دوسو برس پہلے یعنی 1770ء تک انگریز پاک وہند کی سرزمین پر قبضہ کر چکے تھے اور مغلیہ خاندان کی عظیم الشان حکومت سمٹ سمٹا کر دلی کے لال قلعے میں دم توڑ رہی تھی۔ اب انگریزوں نے دھڑا دھڑ یہاں سے مال و دولت، سونا جواہرات اور انتہائی قیمتی نوادرات سمندری جہازوں میں بھر بھر کر انگلستان روانہ کرنا شروع کر دیئے۔ ان میں مغل بادشاہوں کے تخت و تاج بھی تھے اور شاہان اودھ اور دکن کی سلطنت کا لوٹا ہوا بیش قیمت خزانہ بھی تھا۔
جہاز ’’ڈیون شائر‘‘ بھی ایسا ہی لوٹا ہوا قیمتی اور انمول خزانہ لیکر انگلستان کی طرف جا رہا تھا۔ یہ بہت بڑا جہاز تھا اور جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ،یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا سب سے مضبوط اور طاقتور جہاز تھا۔ اس میں آرام دہ اور خوبصورت بے شمار کیبن تھے اور نہانے کا ایک تالاب بھی تھا۔ یہ جہاز پاک وہند سے لوٹ کا مال لے کر انگلستان تک دو چکر لگا چکا تھا۔ اب وہ تیسری بار خزانہ لے کر جا رہا تھا۔ اس جہاز میں کروڑوں روپے کا سونا، چاندی، ہیرے جواہرات، قیمتی تاج، لعل و یاقوت، کمخواب سے بھرے ہوئے صندوق اور مغل بادشاہ شاہجہان کا بنایا ہوا مشہور زمانہ تخت طاؤس بھی تھا۔ جس کی قیمت کا اندازہ اس دور میں بیس کروڑ روپے لگایا گیا ہے تھا۔ جہاز مئی 1782ء میں مدراس کی بندرگاہ سے روانہ ہوا۔
مدراس سے انگلستان تک اس زمانے میں بحری جہاز چھ مہینے کا طویل سفر طے کرنے کے بعد پہنچا کرتے تھے۔ اس سفر میں جہازوں کو سمندری طوفانوں کے علاوہ بحری ڈاکوؤں سے بھی مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ جیسا کہ آپ نے جغرافیے کی کتابوں میں پڑھا ہوگا، مئی جون اور جولائی اگست کے مہینوں میں سمندر چڑھاؤ پر ہوتا ہے اور اس میں بڑے طوفان آیا کرتے ہیں۔ مگر جہاز ڈیون شائر چونکہ بہت بڑا جہاز تھا اور اس سے پہلے وہ اس قسم کے موسموں میں کئی بار سمندر میں سفر کر چکا تھا اس لیے جہاز کے کپتان کو فکر نہیں تھی۔ بحری ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنے کے لیے جہاز میں بڑی بڑی توپیں لگی ہوئی تھیں۔ اس اعتبار سے جہاز کا کپتان اور سفر کرنے والے سود اگر بڑے خوش اور مطمئن تھے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ کروڑوں روپے کے خزانے کے ساتھ خیریت سے وطن واپس پہنچ جائیں گے۔
لیکن ایک عجیب بات تھی کہ جس وقت جہاز مدراس کے ساحل سے روانہ ہوئے تو مسافر کچھ پریشان سے تھے۔ جہاز کے ملازم بھی اپنے اندر ایک ایسی بے چینی محسوس کر رہے تھے جو اس سے پہلے انہوں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ کچھ سوداگروں نے کپتان سے کہا بھی کہ سفر کا ارادہ ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ مگر کپتان نے کہا:
’’ سفر ملتوی نہیں کیا جائے گا۔ جو مسافر جہاز میں سوار ہونا نہیں چاہتا وہ اتر جائے۔‘‘
اس دو ٹوک جواب سے مسافر خاموش ہو گئے اور پھر یہ سوچ کر مطمئن سے ہو گئے کہ جہاز بہت بڑا ہے،کئی بار انگلستان کا چکر لگا چکا ہے۔ اور جہاز کا کپتان بھی تجربہ کار ہے۔ جہاز کے کپتان کا نام ’’جانسن‘‘ تھا، وہ ادھیڑ عمر کا گٹھے ہوئے جسم والا ایک مضبوط آدمی تھا۔ اس کی داڑھی بھوری اور شانے چوڑے تھے۔ بدن موسموں کی مار کھا کھا کر سخت ہو گیا تھا۔ وہ ہنس مکھ، ملنسار اور حوصلہ مند آدمی تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ملازموں کے ساتھ بڑی سختی سے بھی پیش آتا تھا۔ ذرا سی غفلت بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ کسی ملازم سے کوئی غلطی ہو جاتی تو اسے بے دریغ ہنٹروں سے پیٹنے لگتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس جہاز کا سارا عملہ بڑا فرض شناس، چوکس اور چاق و چوبند تھا۔ جہاز پر بڑی صفائی رہتی۔ کھانا وقت پر تقسیم ہوتا۔ مسافروں کو نہانے کے لیے تازہ پانی ملنا۔ کسی مسافر کو ذرا سی بھی تکلیف ہوتی تو فوراً ڈاکٹر پہنچ جاتا اور تکلیف دور کر دی جاتی۔
سارے کا سارا خزانہ جہاز کے نچلے حصے میں لوہے کے ایک کمرے میں بند تھا۔ یہ خزانہ بڑے بڑے صندوقوں میں مقفل تھا جس پر ہر سوداگر کا نام اور پتہ درج تھا۔ ابھی تک یہ خزانہ انگریزی حکومت کی ملکیت میں نہیں آیا تھا۔ اس کے مالک ایسٹ انڈیا کمپنی کے سوداگر تھے جنہوں نے یہ خزانہ چالبازی، دھو کے اور عیاری سے لوٹا تھا اور جو جہاز پہ سفر کر رہے تھے۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ ولایت جا کر یہ خزانہ حکومت کے ہاتھ بھاری رقم کے عوض فروخت کر دیا جائے۔ اور اس طرح کروڑوں روپے کما کر باقی عمر آرام و عیش سے بسر کی جائے۔ قدرت ان کے ان ارادوں پر مسکرا رہی تھی۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
جہاز کو سفر پر روانہ ہوئے ایک مہینہ گزر گیا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ انہیں تھوڑے ہی دنوں بعد کس قدر خوفناک بلاؤں کا سامنا کرنا پڑنے والا ہے۔ دن کو جہاز پر ہر طرف بڑی چہل پہل ہوتی۔ عرشے پر مسافر رنگ برنگ کی بڑی بڑی چھتریاں لگا کر ان کے سائے میں آرام کرتے۔ عورتیں اور بچے ادھر اُدھر ٹہلتے پھرتے۔ جہاز کے باورچی خانے میں سینکڑوں مسافروں کے لیے قسم قسم کے کھانے تیار ہو رہے ہوتے، طرح دار انگریز اور پر تگالی باورچی لمبی لمبی سفید ٹوپیاں پہنے ایک دوسرے سے ہنس ہنس کے مذاق کر رہے ہوتے۔ رات کو اس رونق میں اضافہ ہو جاتا۔ جہاز کے ہر کیبن، ہر کمرے میں لیمپ روشن ہو جاتے۔ ان روشنیوں کا عکس سمندر میں جھلمل جھلمل کرتا۔ جہاز کے کا من روم میں امیرکبیر سوداگر تاش کھیلتے ہوئے خوب قہقہے لگاتے۔ رات گئے تک یہ محفلیں سجی رہتیں اور جہاز سمندر میں آگے بڑھ رہا ہوتا۔
انگریز سوداگروں میں ایک ’’بلیک برڈ‘‘ نام کا سوداگر بھی تھا۔ وہ دوسرے تاجروں کی طرح زیادہ امیر سوداگر نہیں تھا۔ اس نے دلی میں ایک ہندو جواہری کو قتل کر کے ایک بیش قیمت لعل حاصل کیا تھا جو ایک گتھلی میں رکھ کر اس نے اپنی کمر کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس لعل کا ذکر اس نے کسی سے بھی نہیں کیا تھا۔ وہ بڑے سکون کے ساتھ جہاز کے جنگلے کے ساتھ لگ کر شام کو سمندر میں چلنے والی ہوا سے لطف اٹھاتا اور یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا کہ ولایت جاکر وہ لعل کو کم از کم ایک کروڑ روپے میں فروخت کرے گا۔ اس رقم سے وہ ایک محل خریدے گا جہاں وہ باقی عمر عیش و عشرت میں بسر کر دے گا۔ مسٹر بلیک برڈ کے ساتھ ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا بھی تھا جس کا نام ’’ٹام‘‘ تھا۔ ٹام مسٹر بلیک برڈ کا دور کا رشتے دار تھا اور وہ مسٹر بلیک برڈ کو چچا کہتا تھا۔ بلیک برڈ نے اس شرط پر ٹام کا کرایہ ادا کیا تھا کہ وہ ولایت جا کر ساری عمر بلیک برڈ کی خدمت کرے گا۔ٹام نے ہامی بھر لی تھی۔ اصل میں ٹام کا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ بچپن ہی میں مر گئے تھے اور اس نے بلیک برڈ کے پاس ہی پرورش پائی تھی۔ بلیک برڈ کا دلی شہر میں چھوٹا سا کاروبار تھا۔ٹام اس کے پاس نوکروں کی طرح رہتا تھا۔ بلیک برڈ واپس وطن جانے لگا تو ٹام نے اس سے درخواست کی کہ وہ اُسے بھی واپس وطن لے جائے۔
ٹام دن بھر جہاز پر بھی بلیک برڈ کی خدمت میں مصروف رہتا۔ یہ شخص اس قدر سنگ دل تھا کہ آدھی رات کو بھی ٹام کو نیند سے اٹھا کر کہتا:
’’ٹام! ارے اٹھو اور میرا سر دباؤ۔ سخت درد ہو رہا ہے۔‘‘
اور بے چارہ ٹام فوراً اٹھ کر پتھر دل چچا کا سر دبانا شروع کر دیتا۔ ٹام کی ساری عمر خدمت میں گزری تھی۔ اس نے آنکھ کھولی تواپنی ماں کو باپ کی خدمت کرتے دیکھا۔ ماں کا انتقال ہوا تو ٹام کی پرورش اس کی خالہ نے اپنے ذمے لے لی۔ کیونکہ اس کا باپ سال میں بارہ مہینے باہر رہتا تھا۔ خالہ کے انتقال کے بعد ٹام چچا بلیک برڈ کے پاس آگیا۔ اور پھر ایک روز اسے یہ خبر ملی کہ اس کا باپ برازیل کے جنگلوں میں مرگیا ہے۔ ٹام اپنے باپ کو یاد کر کے بہت رویا۔ مگر صبر کرنے کے سوا وہ کچھ بھی نہ کر سکتا تھا۔ بلیک برڈ چچا نے ٹام کو ایک زرخرید غلام کی طرح اپنے پاس رکھ لیا اور اس سے ہر طرح کی خدمت لینی شروع کردی۔
بلیک برڈ ،یوں تو بڑا خاموش طبع آدمی تھا اور جہاز پر بھی وہ زیادہ کسی سے گھل مل کر بات نہ کرتا تھا لیکن اندر سے وہ بڑا گہرا اور سازش پرست حاسد آدمی تھا۔ اسے ایک ایک بات کی خبر تھی کہ جہاز پر کس قدر سونا چاندی ،ہیرے جواہرات لدے ہیں اور کو ن کو ن سوداگر کیا کیا چیز لوٹ کھسوٹ کر ولایت لے جا رہا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ سارے کا سارا خزانہ جہاز کے نچلے حصے میں لوہے کے ایک کمرے میں بند ہے اور اس کی چابی کپتان جانسن کے ذاتی کمرے میں ہوئی ہے۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے جہاز کے کپتان نے سبھی مسافروں سے ان کی قیمتی چیزیں لے کر اپنی ذمے داری میں رکھ لی تھیں اور انہیں رسید لکھ کر دے دی تھی۔ لیکن بلیک برڈ نے اپنی کمر کے ساتھ بندھے ہوئے قیمتی لعل کو چھپائے رکھا تھا۔ اس نے کپتان کو بالکل نہیں بتایا تھا کہ وہ ڈیڑھ کروڑ روپے کی مالیت کا قیمتی پتھر چھپائے ہوئے ہے۔
اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ بلیک برڈ بے حد کنجوس اور شکی آدمی تھا۔ اسے وہم تھا کہ اگر اس نے قیمتی پتھر کپتان کے حوالے کر دیا تو وہ اسے نقلی پتھرسے بدل دے گا۔ یعنی اس کے اصلی لعل کی جگہ نقلی لعل رکھ دے گا۔ اپنا خزانہ تو اس نے اپنی کمر کے ساتھ باندھ رکھا تھا جس کی سوائے اس کے اور کسی کو خبر نہ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ دوسروں کے خزانوں پر بھی بری نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس کے دل میں بس ایک ہی خواہش مچل رہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح جہاز کے نچلے حصے میں بند خزانے تک پہنچ کر اپنی پسند کی کچھ چیزیں وہاں سے ا ڑالائے۔
یہ کام کوئی اتنا آسان نہیں تھا۔ اس لئے کہ خزانہ لوہے کی دیواروں والے کمرے میں بند تھا اور اس کی چابی کپتان کے پاس تھی۔ بلیک برڈ نے کپتان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ ایک روز جب کہ کپتان عرشے پر جنگلے کے ساتھ لگا دور بین سے سمندر میں دیکھ رہا تھا۔ بلیک برڈ بھی کھسکتا کھسکتا اس کے پاس جا پہنچا۔
’’صبح بخیر کپتان صاحب! میرا خیال ہے سمندر اسی طرح پرسکون رہا تو ہم بہت جلد ولایت پہنچ جائیں گے!‘‘
کپتان جانسن نے دور بین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا:
’’ضرور۔‘‘
بیک برڈ نے کپتان کی خوشامد کرتے ہوئے کیا:
’’اور پھر بھلا جس جہاز کا کپتان آپ ایسا بہادر اور تجربہ کار انسان ہو، اسے طوفانوں کی بھی کیا پروا!‘‘
کپتان نے مسکرا کر بلیک برڈ کی طرف دیکھا۔
’’ مسٹر! آپ کتنا سامان لے کر انگلستان جا رہے ہیں۔‘‘
’’ کچھ بھی نہیں۔ میں تو ایک غریب تاجر ہوں۔ میرے پاس سوائے ایک ملازم لڑکے کے اور کچھ نہیں۔‘‘
کپتان نے حیرانی سے بلیک برڈ کی طرف دیکھ کر پوچھا:
’’ بھلا یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ ہندوستان سے ایک انگریز تاجر خالی ہاتھ وطن واپس جائے؟‘‘
بلیک برڈ نے سینے پر صلیب کا نشان بنا کر کہا:
’’ میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میرے پاس سوائے ایک بستر اور چند کپڑوں کے اور کچھ نہیں، میں مذہبی آدمی ہوں اور ایمانداری کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اصول سمجھتا ہوں۔ میں نے آج تک حلال کی روزی کمائی ہے اور حلال ہی کھایا ہے۔ میں نے ہندوستان کی لوٹ مار میں کوئی حصہ نہیں لیا۔‘‘
کپتان مسٹر بلیک برڈ کی باتوں سے بڑا متاثر ہوا۔ وہ اپنی جہازرانی کی زندگی میں پہلے ایماندار انگریز تاجر کو دیکھ رہا تھا اور پھر مکار بلیک برڈ نے کچھ اس ماہرانہ انداز میں ایماندار آدمی کی اداکاری کی کہ کپتان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے کہا:
’’ مسٹر بلیک برڈ! مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے ساتھ کیبن میں چل کر ایک کپ چائے نوش فرمائیں۔‘‘
’’شکریہ! ضرور، ضرور‘‘
بلیک برڈ کو بھلا اور کیا چاہیے تھا۔ وہ یہی تو چاہتا تھا۔ چنانچہ وہ خوشی خوشی کپتان کے ساتھ چائے پینے اس کے کیبن کی طرف چل پڑا ۔ کپتان کا کیبن جہاز ڈیون شائر کا سب سے خوبصورت کیبن تھا۔ دیواروں کے ساتھ قیمتی صوفے لگے تھے۔ فرش پر شاندار ایرانی قالین بچھا تھا۔ ایک طرف بستر پر سرخ ریشمی چادریں پڑی تھیں۔ الماری میں جہاز کا چاندی کا ماڈل سج رہا تھا۔
’’ تشریف رکھیں مسٹر بلیک برڈ۔‘‘
تھوڑی ہی دیر میں وہاں چائے آ گئی اور کپتان اپنے مہمان کیلئے چائے بنانے لگا۔
یاقوت کی چوری
باتوں ہی باتوں میں بلیک برڈ نے خزانے کا ذکر چھیڑ دیا۔
’’کپتان صاحب! ویسے تو ہم نے ہندوستان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ہندوستان کی ہر شے ہماری ہے۔ پھر بھی ہمیں اپنے پیارے یسوع مسیح کی تعلیم کو فراموش نہیں کرنا چا ہیے۔ مگر یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ہی بعض انگریز بھائی لوٹ مار کر کے، قتل و ڈاکہ زنی کرکے مال اسباب انگلستان لے جا رہے ہیں۔ کیا انہیں اپنی موت بھول گئی ہے۔ ہائے!انسان کس قدر لالچی ہے۔ ایک نہ ایک دن ہم سب کو خدا کے حضور جاناہے۔ پھر وہاں ہم کیا جواب دیں گے؟‘‘
کپتان پائپ لگا رہا تھا۔ وہ بلیک برڈ کی بات سے بڑا متاثر ہوا۔دہ خود ایک ایماندار شخص تھا۔ اس نے کروڑوں روپے کا سامان ہندوستان سے انگلستان پہنچایا تھا مگر کیا مجال جو ایک پائی کی بھی بے ایمانی کی ہو۔ وہ چونکہ خود ایک نیک اور بھلا آدمی تھا اس لئے اسے ایسے لوگ پسند تھے جو نیکی اور بھلائی کی باتیں کر یں۔ اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا:
’’ مسٹر بلیک برڈ! آپ بالکل بجا فرماتے ہیں۔ ہم انگریزوں نے ہندوستان میں بڑا ظلم کیا ہے۔ اور جب میں سوچتا ہوں کہ میں ظالموں کی مدد کر رہا ہوں اور ان کا لوٹ مار کا سامان لے جا رہا ہوں تو یقین کریں میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔‘‘
مکار بلیک برڈ نے تیر نشانے پر ٹھیک بیٹھتے دیکھ کر کہا:
’’ آپ بہت نیک آدمی ہیں مسٹر جانسن، مجھے تو آپ کی صورت دیکھ کر ہی آپ کی اچھی سیرت کا علم ہو گیا تھا۔ لیکن آپ شرمسار نہ ہوں۔ آپ بے قصور ہیں۔ آپ کا تو پیشہ ہی جہاز چلانا اور مسافروں کو منزل پر پہنچانا ہے۔ آپ کو بھلا اس سے کیا کہ کوئی مسافر ڈاکو ہے یا شریف!‘‘
کپتان نے کہا:
’’ یہ تو ٹھیک ہے مسٹر بلیک برڈ۔ لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ میری بخشش کے لیے دعا ضرور کریں۔ اس لئے کہ آپ ایماندار اور مذہبی آدمی ہیں۔ خدا وند آپ کی دعا ضرور قبول کرے گا!‘‘
’’ میں ضرور دعا کروں گا۔‘‘
مکار بلیک برڈ نے کپتان پر اپنا خوب اثر جما لیا تھا۔ وہ چائے پر اس کے ساتھ مذہب، دین ایمان اور پرہیز گاری کی باتیں کرتا رہا۔ پھر موقع دیکھ کر بولا:
’’کپتان صاحب! آپ کو ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں نے جو آپ کی تحویل میں اپنا کروڑوں روپے کا مال دیا ہے ،وہ محفوظ رہے۔ لوگوں کو ان کی امانتیں جوں کی توں مل جائیں۔‘‘
کپتان نے فوراً جواب دیا:
’’ اس کی طرف سے تو آپ بالکل بے فکر رہیں۔ میرا ریکارڈ ہے کہ جہاز ڈیون شائر پر جب سے یہ چلا ہے ایک دھیلے کی بھی امانت میں خیانت نہیں ہوئی۔ مجھے کسی شے کا لالچ نہیں ہے۔ میں خداوند کی دی ہوئی نعمتوں سے مالا مال ہوں۔‘‘
بلیک برڈ جھٹ بولا:
’’آپ میرا مطلب غلط سمجھے ہیں مسٹر جانسن! خدانخواستہ میں آپ کی نیت پر تو شک نہیں کر رہا۔ آپ تو انتہائی نیک اور ایماندار کپتان ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہر شخص آپ کی تعریف کرتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ زمانہ بڑا خراب جا رہا ہے۔ آجکل ہر آدمی لوٹ کھسوٹ میں لگا ہے۔ جہاز پر ہر قسم کا مسافر سوار ہوتا ہے۔ آپ کو خزانے کے بارے میں بڑا چوکس اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کپتان قہقہہ لگا کر ہنس پڑا:
’’ارے مسٹر بلیک برڈ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میری ساری عمرسمندری جہازوں میں قسم قسم کے مسافروں کے ساتھ سفر کرتے گزری ہے۔میں تو انسان کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہوں کہ یہ کون ہے۔ کہاں جا رہا ہے اور کس ارادے سے سفر کر رہا ہے۔‘‘
’’ اس میں کوئی شک نہیں کپتان صاحب! لیکن اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہ بتائیں کیا آپ خزانے کی حفاظت کی طرفت سے مطمئن ہیں؟‘‘
’’کیوں نہیں! خزانہ جہاز کے تہ خانے میں جس کمرے میں بند ہے ،اس کی دیواریں اور چھت لوہے کے ہیں۔ اس میں جو تالہ لگا ہے اسے سوائے میرے اور کوئی نہیں کھول سکتا۔‘‘
’’ آپ کا مطلب ہے کہ اس میں نمبروں والا تالہ لگا ہے؟‘‘
’’ ارے نہیں مسٹر بلیک برڈ! نمبروں والا تالہ تو کسی نہ کسی نمبر پرکھل ہی جاتا ہے۔ اس کمرے میں جو تالہ لگا ہے اس کی چابی ایک خاص بٹن گھمانے سے کھلتی ہے۔‘‘
عیار بلیک برڈ نے فوراً کہا:
’’ کپتان صاحب! ہم نے ایسی بھی کئی چابیاں دیکھی ہیں۔ ‘‘
کپتان جوش میں آ کر اٹھا۔ اس نے کونے والی الماری کھول کر ایک آہنی ڈبی با ہر نکالی اور اسے لے کر بلیک برڈ کے سامنے آبیٹھا۔
’’یہ دیکھئے، اس میں وہ چابی ہے۔‘‘
اور اس کے ساتھ ہی کپتان نے ڈبی کے بائیں پہلو میں انگلی سے ایک ہلکا سا ٹہوکا دیا۔ ڈبی کا ڈھکنا کھل گیا۔ کپتان نے ڈبی کے اندر سے ایک چابی نکال کر بلیک برڈ کو دکھائی۔
’’یہ ہے جناب وہ خاص چابی۔ اب آپ اسے لے جا کر نیچے خزانے کے کمرے کے تالے میں لگا دیں اور مجھے کھول کر دکھائیں۔ میں کہتا ہوں آپ سارا دن اسے گھماتے رہیں تالہ ہرگز نہیں کھلے گا۔‘‘
بلیک برڈ نے گرم لوہے پر چوٹ مارتے ہوئے کہا:
’’اور آخر تالہ کھلے گاکیسے؟‘‘
’’یہ دیکھیے…یہ …جب تک آپ یہ بٹن نہیں گھمائیں گے تالہ ہرگز ہرگز نہیں کھلے گا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی کپتان نے جلدی سے کنجی ڈبی میں ڈال دی اور فکر مند سا ہو کر بولا:
’’ مجھے چابی کا راز اصولی طور پر آپ کو نہیں بتانا چا ہیے تھا۔ لیکن خیر آپ نیک اور بھلے آدمی ہیں۔‘‘
بلیک برڈ نے بڑی غیر دلچسپی سے کہا:
’’ کپتان صاحب! آپ بے فکر رہیں۔ بلکہ یوں سمجھیں کہ آپ نے چابی کا راز ایک پتھر کے ٹکڑے کو بتایا ہے۔ مجھے نہ آپ کی چابی سے کوئی غرض ہے اور نہ خزانے سے کوئی واسطہ ہے۔ میں تو ایک درویش اور فقیر آدمی ہوں۔ ساری عمر ہندوستان میں رہا اور آج خالی ہاتھ محض ایک ملازم اور دو جوڑ سے کپڑوں کے ساتھ واپس وطن جا رہا ہوں۔‘‘
کپتان نے مسکرا کر کہا:
’’شاید اسی لئے میں نے چابی کا راز آپ کو بتا دیا ہے۔ آپ کے لیے اور چائے بناؤں؟‘‘
’’جی نہیں شکریہ! میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہئے۔ بے سہاراملازم لڑکا میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ آپ کی پر تکلف چائے کا بہت بہت شکریہ کپتان صاحب!‘‘
’’ذرہ نوازی ہے مسٹر بلیک بر ڈ!۔ اور ہاں! میرے لئے دعا کرنی مت بھولئے گا۔‘‘
’’بھلا یہ بھی کوئی بھولنے والی بات ہے ! خدا حافظ!‘‘
’’خدا حافظ!‘‘
بلیک برڈ بڑے سکون سے پادریوں کی طرح چلتا ہوا کپتان کے کیبن سے نکل کر اپنے کیبن میں آگیا۔ کیبن میں آتے ہی اس نے بڑی پھرتی سے دروازہ بند کیا اور اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا۔ ٹام اس کے لیے پیالے میں انڈے پھینٹ رہا تھا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو تم؟‘‘
’’ جناب! آپ کے دودھ کے لیے انڈے پھینٹ رہا ہوں۔ ‘‘
’’چھوڑو انہیں اور وہ… وہ میری ڈائری مجھے دے دو۔‘‘
ٹام نے الماری میں سے بلیک برڈ کی سبز جلد والی ڈائری نکال کر اسے دی۔ بلیک برڈ ڈائری کی ورق گردانی کرتا رہا۔ پھر اس نے ایک جگہ گول دائرے کا نشان ڈال کر آگے کچھ الٹے سیدھے نشان لگائے اور ڈائری رکھ دی۔
’’لائو مجھے انڈے اور دودھ دے دو۔‘‘
ٹام اپنے آقا کے لیے دودھ میں انڈسے حل کرنے لگا اور بلیک برڈ کے مکار دماغ نے بڑی تیزی سے سوچنا شروع کر دیا کہ کپتان کے کیبن سے چابی کس طرح اڑالی جائے۔ بہ ظاہر یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ جس ڈبی میں خزانے کی چابی رکھی ہوئی تھی اسے کھولنے کا راز بلیک برڈ کو معلوم ہو چکا تھا۔ خزانے کا تالہ کھولنے کے راز سے بھی وہ واقف ہو گیا تھا۔ اب سوال صرف یہ تھا کہ کپتان کے کیبن سے یہ چابی کس وقت اڑائی جائے، وہ چاہتا تھا کہ چابی اس وقت چوری کر ے جب کپتان اپنے کیبن سے کم از کم دو گھنٹوں لیے باہر جا چکا ہو۔ یعنی جس وقت وہ چابی لے کر نیچے تہ خانے میں جائے تو اس وقت سے لے کر تہ خانے سے واپس آکر چابی کیبن میں رکھنے تک کپتان واپس نہ آئے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ کپتان کی روزمرہ کی مصروفیات کا غور سے مطالعہ کیا جائے۔
چنانچہ بلیک برڈ نے ایسا ہی کیا۔ ایک دو روز کی نگرانی کے بعد ہی بلیک برڈ کو معلوم ہو گیا کہ سارے دن میں شام چار بجے سے لے کر ساڑھے چھ بجے تک کپتان اپنے کیبن سے غیر حاضر رہتا ہے۔ اس وقت وہ جہاز کے ڈیک، کچن اور مشین روم کا معائنہ کرتا ہے۔ بلیک برڈ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ چوری کے لیے یہی وقت چنے گا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران میں اس نے کپتان کے ساتھ گھل مل کر اپنے تعلقات کو اور بھی بڑھا لیا۔ اب وہ بلاروک ٹوک کپتان کے کیبن میں داخل ہو جاتا۔ ایک روز آسمان پر بادل چھا رہے تھے۔ سمندر کی لہریں دور دور سے آ کر جہاز کے پیندے سے ٹکرا رہی تھیں۔ بلیک برڈ اپنے کیبن میں بستر پر لیٹا پرانا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اخبار پڑھتے پڑھتے اس نے جیب میں سے چاندی کی گھڑی نکال کر وقت دیکھا۔ چار بج کر دس منٹ ہو چکے تھے۔ وقت ہو چکا تھا۔
بلیک برڈ نے چشمہ لگا کر سر پر ہیٹ رکھا اور اپنے کیبن سے باہر نکل گیا۔ لمبی راہداری میں سے گزر کر وہ بائیں پہلو کو گھوم گیا۔ ذرا آگے جاکر لکڑی کی بڑی خوبصورت سیڑھی اوپر چلی گئی تھی۔ بلیک برڈ سیڑھی پر سے ہو کر اوپر والی راہداری میں آ گیا جس کے فرش پر قالین بچا تھا، اب تین کیبن چھوڑ کر سامنے کپتان کا کیبن تھا۔
بلیک برڈ ایک لمحے کے لیے رک گیا۔ اس نے جیب سے لو ہے کی تار نکال کر مٹھی میں سنبھال لی اور راہداری میں ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ چپکے سے کپتان کے کیبن کے دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا اور اس نے جلدی سے تار تالے کے سوراخ میں گھمائی۔ کھٹاک سے دروازہ کھل گیا۔ بلیک برڈ پلک جھپکنے میں کیبن کے اندر تھا۔ اندر جاتے ہی اس نے صندوق میں سے ڈبی نکال کر کھولی اور اس میں سے چابی لے کر جیب میں رکھ لی، پھر اس نے کیبن میں سے جھانک کر راہداری میں دائیں بائیں دیکھا۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ باہر نکل آیا۔ کپتان کاکیبن اس نے ویسے ہی دوبارہ بند کر دیا۔
اب اس کے سامنے ایک ہی مرحلہ تھا۔ جہاز کے نچلے حصے میں جا کر خزانے کے کمرے میں داخل ہونا اور اس سے کوئی قیمتی ہیرا چرا کر لانا۔ بلیک برڈ راہداری سے نکل کر سیڑھیاں اترتا ہوا جہاز کے نچلے حصے میں آگیا۔ جہاز کے نچلے حصے کی فضا مرطوب تھی اور کافی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ خزانے کے کمرے تک پہنچنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ اس لئے کہ بلیک برڈ کئی بار اس کمرے کا جائزہ لے چکا تھا۔ یہ آہنی دیواروں، چھتوں اور درواز ے والا کمرہ جہاز کے عقبی حصے میں تھا اور یہاں تک پہنچنے کے لیے مال گودام سے ہو کر ایک تنگ سے راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ بلیک برڈ گودام میں سے بھی نکل گیا اور یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ راستے میں اسے کوئی بھی واقف کار اور اس کا جاننے والا نہ ملا۔ بلیک برڈ بڑے آرام اور سکون کے ساتھ خزانے کے کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا۔ یہاں کچھ اندھیرا تھا۔ اور یہ بلیک برڈ کے لیے بہت موزوں تھا۔ اس نے جیب سے چابی نکال کر اس کا بٹن دبایا اور تالے کے سوراخ میں لگا کر گھمائی۔ کھٹاک کی آواز آئی اور دروازہ کھل گیا۔
دروازہ کیا کھلا گویا علی بابا اور چالیس چور کے غار کا دروازہ کھل گیا۔ بلیک برڈ نے اندر داخل ہو کر اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔ اس کے سامنے کمرے میں جا بجا سونے چاندی کے نوادرات کا ڈھیر لگا تھا۔ وہ جلدی جلدی ان چیزوں کو دیکھنے لگا۔ وہ کوئی بھی بھاری بھر کم یا ایسی چیز نہیں چرانا چاہتا تھا جو اس کی جیب میں نہ آ سکے۔ بلیک برڈ کی تیز نگاہیں ایک انتہائی قیمتی جڑ اؤ ہار پر پڑیں۔ یہ ہار ایک صندوقچی میں بند تھا جس کا ڈھکنا شیشے کا تھا۔ اُس نے تارکی مددسے صندوقچی کا تالہ کھولا اور جڑاؤ ہار کو غور سے دیکھنے لگا۔ اسے ہیرے موتیوں کی خاص پہچان تھی۔ ہار کے درمیان میں لگے ہوئے ایک بہت ہی قیمتی یاقوت کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔
یہ یاقوت بے حد انمول اور نادر روزگار تھا۔ ولایت میں اس کی قیمت بڑی آسانی سے وہ ستر ہزار پونڈ تک وصول کر سکتا تھا۔ بلیک برڈ نے تھوڑی سی کوشش کے بعد ہار میں سے یاقوت نکال لیا۔ اس قیمتی پتھر کو اس نے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھااور بڑے محتاط قدموں کے ساتھ چلتا دروازے کے پاس آ کر رک گیا۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی شخص کسی سے باتیں کر رہا ہے، اس کا اندیشہ درست تھا۔ جہاز کے دو ملازم مال گودام میں کچھ سامان نکال رہے تھے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے۔ بلیک برڈ دم بخود ہو کر کھڑا رہا۔ چند لمحوں کے بعد ان کی آوازیں دور ہوتے ہوتے بالکل غائب ہو گئیں۔ بلیک برڈ نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس نے بڑے سکون سے دروازہ کھولا۔ باہر نکلا۔ آہستہ سے دروازہ بند کر کے تالہ لگایا۔ چابی جیب میں ڈالی اور واپس کپتان کے کیبن کی طرف پل پڑا۔ جب وہ کپتان کے کیبن میں داخل ہو کر صندوق میں چابی رکھنے کے بعد واپس پلٹ رہا تھا تو اسے یوں سنائی دیا جیسے کوئی دروازے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا حلق ایک دم خشک ہو گیا اور دل دھڑکنے گا۔ مگر قدموں کی آواز راہداری میں دور ہٹتے ہٹتے گم ہو گئی۔ بلیک برڈ نے سکون کا سانس لیا اور جلدی سے کپتان کے کیبن کو تالہ لگا کر راہداری میں لمبے لمبے قدم اٹھاٹا غائب ہو گیا۔
عذابِ الٰہی
جہاز مڈ غاسکر کو بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔
اب وہ جنوبی افریقہ کی نچلی تکون کا چکر کاٹ کر کیپ آف گڈ ہوپ کی خطرناک ساحلی چٹانوں کے قریب سے گزر رہا تھا۔ یہ خطرناک چٹا نیں ساحل کے ساتھ ساتھ سمندر کے نیچے چالیس میل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ بریڈز ڈراپ کا ڈینجر پوائنٹ نکل چکا تھا۔ جہاز کا کپتان برج پر دور بین لئے صبح سے کھڑا تھا اور سمندر کا مسلسل جائزہ لے رہا تھا۔ یہاں سے گزرتے ہوئے اسے ہر وقت چوکس رہنا پڑتا تھا ۔ ذراسی بے احتیاطی سے جہاز سمندر میں چھپی ہوئی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو سکتا تھا۔ لیکن تجربہ کار کپتان جانسن ہمیشہ بڑی مہارت کے ساتھ جہاز ڈیون شائر کو ان خونی چٹانوں سے نکال کر لے گیا تھا۔ وہ آج بھی مطمئن تھا۔ اسے اپنے تجربے اور مہارت پر پورا بھروسہ تھا ۔ بلیک برڈ بھی ٹام کے ساتھ عرشے کے جنگلے کے ساتھ لگا دور کیپ ٹاؤن کے ساحل کی سیاہ لکیر کو دیکھ رہا تھا۔ جہاز کے دوسرے مسافر بھی وہاں کھڑے جائزہ لے رہے تھے۔ ان سب کو علم تھا کہ وہ ایک انتہائی خطرناک سمندری کھاڑی کو عبور کر رہے تھے۔کمز ور دل تاجر اور عورتیں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھیں کہ جہاز خیریت سے گزر جائے۔ ٹام کے سنہری بال سمندر کی ہوا میں اس کے ماتھے پر لہرا رہے تھے ۔ بلیک برڈ کے چہرے پر فاتحانہ چمک تھی۔ قیمتی یاقوت اس کی تھیلی میں انمول لعل کے ساتھ اس کی کمر میں بندھا تھا۔ یاقوت کی چوری کا کسی کو بالکل علم نہیں ہوا تھا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا تھا۔ کوئی خزانے کے آہنی کمرے کی جانچ پڑتال کرتا تو حقیقت سامنے آتی۔
دو پہر کا وقت تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ سمندر ہلکی ہلکی موجیں اٹھ رہی تھیں۔ ہوا بڑے سکون سے چل رہی تھی۔ کپتان دور بین آنکھوں سے لگائے برج پر کھڑا تھا اور جہاز کے انجینئر کے ساتھ ساتھ احکام دے رہا تھا۔ کپتان کے حکم کے مطابق ایک تنومند انجینئر جہاز کی چرخی کو کبھی دائیں اور کبھی بائیں گھما رہا تھا۔ جہاز کے پھولے ہوئے بادبانوں میں سے کچھ بادبانوں کو لپیٹ دیا گیا تھا۔ جہاز سائمن سٹون کے علاقے سے نکل کہ اب کانسٹن ٹائین کے حلقے سے گزرنے لگا تھا۔
اچانک کپتان نے چلا کر کہا۔
’’ نارتھ ویسٹ۔۔۔۳ڈگری۔‘‘
اور اس کے آرڈر کے ساتھ ہی جہاز تین درجے کا زاویہ بناتے ہوئے شمال مغرب کی طرف گھوم گیا۔ کپتان کو اچانک جہاز کے بالکل سامنے ایک سیاہ چٹان سی ابھرتی دکھائی دی تھی۔ جہاز اس سیاہ چٹان سے بچ کر آگے نکلا تو چٹان نے سمندر میں غوطہ لگا دیا۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت بڑی ویل مچھلی تھی جو بھٹکتی ہوئی ادھر آ نکلی تھی۔ کپتان نے دور بین سے دیکھا۔ ویل مچھلی کوئی دو میل کے فاصلے پر جا کر ایک بار پھر ابھری۔ اس کے سر سے پانی کا ایک زور دار بلند فوارہ چھوٹا اور مچھلی غوطہ لگا کر سمندر میں غائب ہو گئی۔
نائب انجینئر نے کپتان سے کہا:
’’ کیپ گڈ ہوپ میں ویل مچھلیاں کبھی نہیں آتیں۔ یہ کہاںسے آگئی؟‘‘
کپتان نے دوربین لگا تے ہوئے کہا:
’’معلوم ہوتا ہے ویل زخمی ہے۔ وہ راستہ بھول گئی ہے۔ یقیناوہ گڈ ہوپ کی سمندری چٹانوں سے ٹکرا کر مر جائے گی۔ ویل مچھلی جہاز کے مسافروں نے بھی دیکھی تھی۔ وہ زور زور سے خوش ہو کر تالیاں بجانے لگے۔ ٹام نے بلیک برڈ سے کہا:
’’چچا! کیا اس مچھلی کا بھی گوشت کھایا جاتا ہے؟‘‘
بلیک برڈ نے ہنس کر کہا:
’’ تم نرے بدھو کے بدھو ہو۔ احمق ویل مچھلی کا گوشت نہیں کھایا جاتا۔ بلکہ اس کی چربی سے تیل حاصل کیا جاتا ہے جو کارخانوں میں کام آتا ہے۔‘‘
جہاز کی رفتار بہت ہی سست تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ پھونک پھونک کر سمندر میں قدم رکھ رہا ہے۔ ایسے خطرناک ساحلی سمندروں میں جہاز اسی محتاط رفتار کے ساتھ گزرا کرتے ہیں۔ اگر ذرا سی بھی رفتار تیز ہو جائے اور جہاز ساحلی چٹانوں کی وجہ سے سمندر میں پیدا ہونے والے بھنور میں پھنس جائے تو اس کا چٹانوں سے ٹکرا کر ڈوب جانا یقینی ہوتا ہے۔
ڈیون شائر دوپہر تک خطرے سے نکل چکا تھا۔
جہاز کا کپتان مسٹر جانسن دور بین گلے میں لٹکائے برج سے نیچے اتر آیا تھا اور مسافروں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرمایہ دار تاجر مصیبت سے نکل آنے کی خوشخبر ی سن کر بڑے ہشاش بشاش تھے اور ایک دوسرے کو رات کے کھانے کی دعوتیں دے رہے تھے۔ بلیک برڈ کو تو پہلے ہی معلوم تھا کہ کپتان ایک تجربہ کار ملاح ہے اور اُسے کیپ گڈ ہوپ کے سمندروں کا بڑا تجربہ ہے۔ وہ اپنے کیبن میں آ کر بستر پر نیم دراز ہو گیا اور لندن میں چھپنے والا ایک پرانا اخبار نکال کر پڑھنے لگا۔ اس اخبار میں مسٹر سمتھ اینڈ سنز ایک اشتہار چھپا ہوا تھا۔ یہ کمپنی پاک و ہند پر انگریزوں کے عیارانہ قبضے کے بعد بنی تھی اور اس کا کام ہی لوٹ مار میں حاصل کئے ہوئے مال کو اونے پونے خریدنا تھا۔ بلیک برڈ اس سے پیشتر بھی سمتھ اینڈ کمپنی کو جانتا تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈاکو نما تاجروں سے ہندوستان میں لوٹا ہوا مال خرید کر سرکارِ انگریزی کے ہاں مہنگے داموں فروخت کرتی ہے۔
بلیک برڈ بستر پر لیٹے لیٹے ہنس دیا۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنا مال اس کمپنی کے ہاتھوں فروخت نہیں کرے گا بلکہ بلا واسطہ حکومت سے رابطہ قائم کر کے محکمہ نوادرات سے بات کرے گا۔ اس طرح اُسے اپنے لعل اور یاقوت کے زیادہ دام وصول ہونے کی توقع تھی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ ہیروں کو ایک نظر دیکھا جائے، اس خواہش کے پیدا ہوتے ہی اس نے اپنے کیبن کو اندر سے تالہ لگایا اور کمر کے ساتھ لپٹی ہوئی گتھلی نکال کر سامنے رکھ لی۔ کیبن کے گول گول سوراخ میں سے سورج کی کرنیں اندر آ رہی تھیں۔ یاقوت اور لعل کے گتھلی سے باہر نکالتے ہی بلیک برڈ کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ ان قیمتی پتھروں میں سے رنگ برنگ کی تیز کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ سرخ لعل تو ایک گہرے سرخ گلاب کی مانند نظر آ رہا تھا جس کے اندر کئی چھوٹے چھوٹے سورج روشن ہوں۔ یہی حال یاقوت کا تھا۔ اسے خیال آیا اگر کسی وجہ سے کپتان خزانے کے کمرے میں چلا گیا اور اسے معلوم ہوگیا کہ جڑاؤ ہار میں سے قیمتی یاقوت غائب ہے تو کیا ہوگا؟
یہ اتنی بڑی چوری کا انکشاف ہوگا کر کپتان جانسن ایسے ایماندار شخص کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔ وہ کسی صورت بھی اتنی بڑی بدنامی اور اس قدر شرمناک الزام اپنے سر پر لینے کو تیار نہ ہوگا۔ وہ یقینا جہاز کو روک دے گا اور تمام مسافروں کے سامان کی تلاشی لے گا۔ اور اگر یاقوت پھر بھی نہ ملا تو وہ ایک ایک کی جامہ تلاشی لینے سے بھی گریز نہ کرے گا۔ بلیک برڈ کے جسم میں ایک سنسنی سی پھیل گئی اور وہ پریشان ہو گیا۔ جس طرح کہ چور پکڑے جانے کے خیال سے پریشان ہوا کرتے ہیں۔ اس کا دل چاہا کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے لندن پہنچ جائے اور کسی کے ہاتھ نہ آئے۔ پھر اس نے سوچا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ بھلا کپتان کو کیا پڑی ہے کہ خزانے والے کمر سے میں جا کر تلاشی لیتا پھرے۔
’’ٹھک۔ٹھک۔ٹھک!‘‘
بلیک برڈ کا دل اچھل کر حلق کے قریب آ گیا۔ درواز سے پر کوئی دستک دے رہا تھا۔ اس نے بڑی پھرتی کے ساتھ قیمتی پتھروں کو دوبارہ گتھلی میں بند کرکے اپنی کمر کے ساتھ باندھا اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ ٹام ایک رقعہ لے کر اندر آیا۔
’’چچا جان! یہ خط کپتان صاحب نے دیا ہے۔‘‘
بلیک برڈ کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ اور کانپتی انگلیوں سے خط کھولا اور پڑھنے لگا۔ صرف ایک سطر لکھی تھی:
’’ محترمی و قابل عزت بلیک برڈ صاحب!
مجھے بے حد خوشی ہوگی اگر آپ چائے میرے ساتھ بیٹھ کر نوش فرمائیں۔
آپ کا
کپتان جانسن بروک۔‘‘
بیک برڈ کی جان میں جان آئی۔
’’یہ خط تمہیں کپتان نے کب دیا؟‘‘
’’ابھی ابھی چچا جان۔ میں را ہداری میں سے گزر رہا تھا کہ کپتان صاحب مجھے ملے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ کیبن میں لے گئے اور یہ خط اپنے ذاتی پیڈ پر لکھ کر دیا۔‘‘
’’ا چھا دیکھو۔ میرے آنے تک تم کیبن میں ہی رہنا۔ تم نے کھانا کھا لیا؟‘‘
’’کھا لیا چچا جان!‘‘
بلیک برڈ نے ٹام کوجھڑک کر کہا۔
’’ تمہیں ہزار بار منع کیا ہے کہ مجھے چچا جان مت کہاکرو۔سر کہا کرو۔ جناب کہا کرو۔ سمجھے؟‘‘
’’سمجھ گیا چچا…معاف کیجئے گا۔ سمجھ گیا جناب۔‘‘
بلیک برڈ نے کپڑے تبدیل کئے۔ چھڑی ہاتھ میں لے کر سر پر باولر ہیٹ رکھا اور کپتان کے کیبن کی سمت روانہ ہو گیا۔ بے چارہ ٹام کیبن میں چیزوں کو قرینے سے رکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ چچا جان اس سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اسے اپنا بھتیجا سمجھنے کی بجائے ایک گھٹیا نوکر کیوں سمجھتے ہیں؟ اس کا دل اپنے مرحوم ماں باپ کی محبت سے بھر آیا۔ اگر اس کے ماں باپ زندہ ہوتے تو اسے یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔ وہ اپنی خیالات میں گم کام کرتا رہا۔
اُدھر مسٹر بلیک برڈ نے کپتان کے کیبن کے باہر کھڑے ہو کردرواز ے پر آہستہ سے دستک دی۔
’’ کون؟‘‘ اندر سے کپتان کی آواز سنائی دی۔
’’ میں، مسٹر بلیک برڈ سر!‘‘
’’ تشریف لائیے۔‘‘
اور بلیک برڈ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ کپتان نے انتہائی خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم کیا۔ وہ کرسی پر بیٹھا ایک رجسٹر میں کچھ لکھ رہا تھا۔ بلیک برڈ کی آمد کے ساتھ ہی اس نے رجسٹر بند کر دیا اور اٹھ کر ہاتھ ملایا۔
’’ تشریف رکھئے مسٹر بلیک برڈ۔‘‘
’’شکریہ کپتان صاحب!‘‘
بلیک برڈ سنہری پھول دار حاشیے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
کیبن کی گول آہنی ڈھکنے والی کھڑکی کھلی تھی جس میں سے سمندر کی تازہ اور ٹھنڈی ہوا اندر داخل ہو رہی تھی۔ کپتان نے گھنٹی بجائی۔ نوکر کو چائے لانے کا کہا اور خود مسٹر بلیک برڈ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔
بلیک برڈ نے مسکرا کر کہا:
’’خداوند کا بڑا ہی شکر ہے کہ جہاز خیریت کے ساتھ کیپ گڈ ہوپ کے خطرناک سمندر سے نکل گیا۔‘‘
’’ ہاں مسٹر بلیک برڈ، ہمیں ہر حالت میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آپ شاید پہلی بار میرے جہاز پر سفر کر رہے ہیں۔ میں ان سمندروںکا عادی ہوں۔‘‘
’’سبھی مسافروں کو آپ ایسے ماہر اور تجربہ کار کپتان پر بڑا فخر ہے۔ کسی مسافر نے بھی ایک لمحے کے لیے پریشانی کا اظہارنہیں کیا۔‘‘
بلیک برڈ کپتان کی خوشامد کر کے اسے خوش کر رہا تھا۔ وگرنہ حقیقت یہ تھی کہ جہاز جب ساحلی چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا تو سب سے زیادہ وہی پریشان تھا۔
’’مسٹر بلیک برڈ! سمندر کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ ایک محبت کرنے والی ماں کی طرح بھی ہے اور ایک ظالم دشمن بھی ہے۔ ‘‘
ہمیں سمندر سے زیادہ کپتان کی شفقت پر بھروسہ ہے۔‘‘
بلیک برڈ نے مسکرا کر کہا۔ کپتان اپنی تعریف پر خوش ہوا۔ اتنے میں خوش پوش بیرا چاندی کے قیمتی سیٹ میں چائے لے کر آ گیا۔ کپتان نے چائے بنائی اور دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ کھلی گول کھڑکی میں سے سمندر کی جانب سے ہوا آ رہی تھی۔ کپتان چائے کی دوسری پیالی بنا رہا تھا کہ اچانک وہ یوں چونکا جیسے فضا میں کچھ سونگھ رہا ہو۔ پھر اس کے چہرے پر ایک تاثر پیدا ہوا۔ بلیک برڈ نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا۔
’’ خیریت تو ہے کپتان صاحب؟ ‘‘
’’فضا میں طوفان کی بو ہے۔‘‘
اور اس کے ساتھ ہی جہا ز آہستہ آہستہ ایک طرف کو ڈولنے لگا اور ساتھ ہی کھڑکی میں سے آتی ہوئی دھوپ غائب ہوگئی۔بادلوں کا ایک غلاف سا سورج کے آگے آگیا تھا۔
’’ شاید طوفان آ رہا ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر کپتان اٹھا اور بلیک برڈ سے معذرت کر کے کیبن سے باہر نکل گیا۔
جہاز ڈوب گیا
کپتان تیزی سے ڈیک پر آگیا۔
اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھا ئیں۔ بادلوں کا ایک غلاف آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ فضا میں ایک خوفناک طوفان کے آثار تھے۔ ہوا کی رفتار میں بھی تیزی آگئی تھی۔ دور بادلوں میںبجلی بار بار چمک رہی تھی۔ کپتان نے فورا ًحکم دیا کہ جہاز کو90 ڈگری شمال مغرب کی طرف موڑ دیا جائے۔ جہا ز اس تیزی سے موڑا گیا کہ اسے جہاز کے مسافروں نے بھی محسوس کیا۔ جہا زکے ملازم بڑی چابک دستی کے ساتھ ڈیک پر ادھر سے ادھر بھاگنے لگے تھے۔ مسافروں میں بھی کچھ کچھ بے چینی کے اثرات پیدا ہونے شرو ع ہو گئے تھے۔ انہیں بار بار یہ وہم آ رہا تھا کہ انہوں نے جہاز پر سوار ہو کر سخت غلطی کی ہے۔ وہ جہاز پر نہ ہی سوار ہوتے تو اچھا تھامگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ اپنی لاکھوں کروڑوں روپے کی جائیداد کے ساتھ سمندر کے بیچ میں سفر کر رہے تھے اور سمندر میںایک زبردست طوفان آنے والا تھا۔
اب ہوا کی تیزی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ آسمان کو بادلوںنے ڈھانپ لیا تھا۔ بجلی چمکنے لگی تھی۔ بادل گرجنے لگے تھے۔ سمندر کے پانی میں اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگی تھیں اور جہاز نے ڈوبنا شروع کر دیا تھا۔ کپتان بار بار حکم دے رہا تھا۔ اس نے جہاز کی رفتار بڑھا دی تھی۔ جہاز پہلے سے زیادہ رفتار کے ساتھ ساحل سے دور ہٹنے لگا تھا۔ کپتان کا خیال تھا کہ وہ طوفان سے پہلے پہلے جہاز کو ساحل سے جس قدر بھی دور لے جائے اچھا ہے۔ کاش اسے خبر ہوتی کہ سمندر کے وسط میں ایک خوفناک طوفان اس کا انتظار کر رہا ہے۔
جوں جوں جہاز کھلے سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا سمندر کی موجیں بپھرتی جا رہی تھیں۔ اب جہاز نے ایک کھلونے کی طرح لہروں پر ادھر سے ادھر ڈولنا شروع کر دیا تھا۔ کپتان نے چلاکر کہا:
’’ جہاز کو، 70 ڈگری مشرق کی طرف موڑا جائے؟‘‘
اور اس نئے حکم کے ساتھ ہی جہاز نے کھلے سمندر سے منہ موڑ کر جنوبی افریقہ کے مغربی ساحل کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ کپتان نے کھلے سمندر میں جاکر لنگر انداز ہونے کا خیال ترک کر دیا تھا۔ اب اس کا خیال تھا کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے ساحل کے قریب پہنچ کر کسی چٹان کے ساتھ جہاز کو لنگر انداز کر دے اور کشتیوں کے ذریعے جتنا بھی ممکن ہو سکے لوگوں کے خزانے کوساحل تک پہنچا دے۔اس کے سالہا سال کے تجربے نے بتا دیاتھا کہ یہ طوفان موسم کا سب سے بڑا طوفان ہے اوراور جہاز کوشدیدنقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ جہاز آہستہ آہستہ ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آسمان کو بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا اور دُور ساحل کی سیاہ لکیر دکھائی دے رہی تھی۔
مسافروں میں اب بے چینی کھل کر سامنے آگئی تھی۔ امیر تاجر اور مسافر بے حد پریشان ہو رہے تھے۔ اُنہیں اپنے بال بچوں کی فکر بھی تھی اور زیادہ کروڑوں روپے کے زر و جواہرات اور سونے چاندی کے خزانے کی فکر تھی جسے وہ ہندوستان سے لوٹ کر اپنے ساتھ لے جا رہے تھے۔ بلیک برڈ پر بھی پریشانی طاری تھی اور وہ کبھی اپنے کیبن میں آتا اور کبھی ڈیک پر کھڑے ہو کر سمندر میں ابھرتی ہوئی بڑی بڑی لہروں کا جائزہ لیتا۔ کپتان اس وقت بے حد مصروف تھا۔ وگرنہ بلیک برڈ چاہتا تھا کہ کپتان سے مل کر طوفان کی شدت اور نوعیت کے بارے میں کچھ دریافت کرے۔ ویسے بلیک برڈ خود بھی اندازہ لگا چکا تھا کہ طوفان شدید آ رہا ہے، اور جہاز کو سخت خطرہ لاحق ہے۔
ٹام جہاز کے وسط میں لنگر پھینکنے والی مشین کے پاس کھڑا خوفزدہ نگاہوں سے آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے طوفان کو دیکھ رہا تھا۔ اب
سمندر میں بڑی بڑی لہریں پیدا ہونے لگی تھیں۔ یہ موجیں دور دور سے امڈ امڈ کر آتیں اور جہاز سے ٹکرا کر اُسے کھلونے کی طرح پر ے پھینک دیتیں۔ بادلوں میں ایک مہیب کڑک پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ جہاز کے ملازم بھاگ دوڑ میں لگے تھے۔ پانی کی ایک بہت اونچی لہر دور سے جھاگ اڑاتی ہوئی آئی اور بڑے زور کے ساتھ جہاز سے ٹکرا گئی۔ اُس کی شدید ٹکر سے جہاز کھلونے کی طرح اُچھل کر ٹیڑھا ہو گیا اور ایک طرف کو جھک گیا۔ عورتوں کے منہ سے بے اختیار چیخیں نکل گئیں اور مسافروں کے چہرے زرد پڑ گئے۔ کپتان جانسن بھی بے حد پریشان تھا مگر اُس نے اپنی پریشانی پر قابو پا رکھا تھا اور بڑی ذے داری اور محنت کے ساتھ جہاز کو ہر ممکن طریق سے بچانے کی جد و جہد میں مصروف تھا۔ اپنی سمندری زندگی میں وہ کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ کپتان کو محسوس ہو رہا تھا کہ یہ طوفان بے حد خوفناک ہے۔ اس سے بڑے طوفان سے اُسے اپنی زندگی میں کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ اُس نے اندر ہی اندر تمام خلاصیوں اور ملازموں کو حکم دے رکھا تھا کہ اس کے ایک ہی اشار سے سے حفاظتی کشیتوںکو فوراً سمندر میں اتار دیا جائے۔
خلا صیوں نے جان بچانے والی کشتیوں کے آدھے رسے کھول رکھے تھے اور کشتیاں جہاز کے ڈولنے کے ساتھ ہی ادھر سے اُدھر ڈول رہی تھیں۔ مسافروں میں بد حواسی پھیل گئی تھی۔ ہر کوئی جان بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر کے بارے میں غور کرنے لگا تھا۔ بادل زور زور سے گرج رہے تھے۔ بجلی بار بار کڑک رہی تھی۔ بارش موسلا دھار ہو رہی تھی۔ ہوا نے اب تیز آندھی کی شکل اختیار کر لی تھی۔ طوفان کے شور میں مسافروں کی آوازیں دب گئی تھیں ۔سمندر میں زبردست سیلاب آگیا تھا۔ پہاڑ پہاڑ ایسی لہریں دور دور سے آتیں اور جہاز کو اچھال کر پھینک دیتیں۔ کپتان جہاز کو بڑی مشکل سے قابو میں کئے ہوئے تھا۔
لیکن اُس پر یہ کھلی حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ اب کوئی معجزہ رونما ہو تو وہ جہاز کو ساحل تک پہنچا سکتا ہے۔ وگر نہ اس خطر ناک طوفان سے بچ نکلنا محال نظر آتا ہے۔ اُس نے مسافروں کو حکم دیاکہ وہ سب اپنے اپنے کیبنوں میں چلے جائیں اور عرشے پر ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر اس کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔
’’ آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ سمندر کے اس حصے میں اکثر طوفان آیا کرتے ہیں۔ آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ خداوند نے چاہا تو ہم بہت جلد ساحل پر پہنچ جائیں گے۔‘‘
مگر ہوتا یہ تھا کہ جہاز جتنا ساحل کے قریب ہوتا، سمند ر کی طوفانی لہریں اُسے اتنا ہی ساحل سے دُور لے جا رہی تھیں۔ کپتان کے بار بار حکم دینے پر مسافر عرشے سے ہٹ کر اپنے اپنے کیبنوں میں چلے گئے۔ وہ بے حد پریشان تھے اور بعض تو گھٹنوں کے بل جھک کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ عورتوں نے بچوں کو اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔ بچوں کے چہروں پر بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ انہوں نے رونا شروع کر دیا تھا اور مائیں انہیں چپ کرانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ بلیک برڈ بھی اپنے کیبن میں پریشانی کے عالم میں بستر پر لیٹا خدا سے دعائیں مانگ رہا تھا۔ ٹام کونے میں گرے ہوئے برتنوں کو اُٹھا اُٹھا کر الماری میں بند کر رہا تھا۔ اُسے بھی چکر آ رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھا۔ بلیک برڈ نے چیخ کر کہا:
’’الماری سے مجھے برانڈی نکال کر دو۔ میرا سر چکروں سے پاگل ہواجا رہا ہے۔ ‘‘
ٹام نے الماری کھول کر برانڈی نکالی اور بڑی مشکل سے ایک گلاس میں ڈال کر اسے دی۔ بلیک برڈ ایک ہی سانس میں سارا گلاس پی گیا۔ پھر وہ اٹھ کر کیبن میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ اس طرح بھی اُسے چین نہ آیا تو وہ بستر پر اکڑوں بیٹھ گیا۔
’’ کم بخت اس طوفان کو بھی اب ہی آنا تھا۔‘‘
ٹام نے چہرے پر زبر دستی شگفتگی پیدا کرتے ہوئے کہا:
’’ سرا گھبرائیے نہیں۔ کپتان صاحب بڑے لائق آدمی ہیں۔ وہ جہاز کو طوفان میں سے نکال کر لے جائیں گے۔‘‘
’’ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ طوفان کپتان کے بس کا روگ نہیں ہے۔‘‘
پھر بلیک برڈ نے اچانک ٹام کی طرف دیکھ کر کہا:
’’ادھر آئو ٹام۔‘‘
ٹام اس کے قریب آگیا۔ بلیک برڈ نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
’’ٹام اگر جہاز ڈوب گیا تو ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
ٹام نے عرشے پر بندھی ہوئی کشتیاں دیکھ رکھی تھیں۔ اس نے جھٹ کہا کہ ہم جان بچانے والی کشتیوں میں سوار ہو کر ساحل پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن بلیک برڈ کو معلوم تھا کہ جہاز پر مسافروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سارے کے سارے مسافر کشتیوں میں نہ آ سکیں گے ۔ پھر بھی اس نے سوچا کہ کچھ بھی ہو، خواہ اسے ٹام کو یہیں چھوڑنا پڑے۔ وہ کسی نہ کسی طرح کشتی میں سوار ہو کر ساحل تک پہنچ جائے گا۔ بپھرے ہوئے طوفان میں الجھ کر کشتی ڈوب گئی تو وہ کیا کرے گا ؟ اس کی تو ساری عمر کی کمائی، لعل اور قیمتی یاقوت اس کے ساتھ ہی سمندر میں ڈوب جائیں گے۔
پھر اس نے خیال ہی خیال میں دیکھا کہ اس کی کشتی ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی ہے اور وہ پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔ بلیک برڈ کا سانس رکنے لگا۔ اس نے ٹام کے شانوں کو جھنجوڑکر کہا:
’’نہیں نہیں، ٹام! ہم زندہ رہیں گے۔ ہم سمندر میں نہیں ڈوبیںگے۔ ہم سمندر میں نہیں ڈو بیں گے۔‘‘
اچانک بادل زور سے گر جا اور ایک پہاڑ ایسی لہر بڑے قیامت خیز شور کے ساتھ جہاز سے ٹکرائی اور جہاز ایک طرف کو جھک گیا۔ کیبن کا سارا سامان اور برتن فرش پر گر پڑے۔ ٹام نے کرسی کو تھام لیا۔ بلیک برڈ کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ دوسری لہر آئی اور جہاز کو دوسری طرف اچھال کر نکل گئی۔ اب جہاز پوری طرح طوفان کے خونی پنجے میں جکڑا گیا تھا۔ عرشے پر مسافر پریشانی کے عالم میں نکل آئے تھے۔ کپتان برج پر کھڑا چیخ چیخ کر ملازموں کو حکم دے رہا تھا۔ سب سے بڑی پریشان کن بات یہ تھی کہ جہاز بڑی تیزی کے ساتھ بھٹکتا ہوا ان ساحلی چٹانوں کی طرف بڑھ رہا تھا جن سے ٹکرا کر کئی جہاز تباہ ہو گئے تھے۔
کپتان بڑی شدت سے کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح جہازان سمندری چٹانوں کے ساتھ ٹکرانے سے بچ جائے لیکن طوفان کا زور اس قدر زیادہ تھا کہ وہ بھی جہاز کے ساتھ بے بس ہو گیا تھا۔ موت کے خوف سے مسافروں کے چہرے زرد ہو گئے تھے۔ انہیں موت بالکل سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔ اچانک ایک بہت بڑی لہر اٹھی اور جہاز کے ساتھ اس زور سے ٹکرائی کہ جہاز ایک طرف کو تیزی سے گھوم گیا اور اس کا ایک حصہ سمندر میں ڈوب گیا۔
’’ کشتیاں پانی میں اتار دو۔ جہاز چھوڑ دو۔‘‘
کپتان کے اس حکم کے ساتھ ہی ہر طرف بھگدڑ مچ گئی۔کشتیاں پانی میں اتار دی گئیں، اور گھبرائے ہوئے مسافروں نے ان میں چھلانگیں لگانی شروع کر دیں۔ کئی مسافر سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ جہاز کے مستول ٹوٹ کر گر پڑے اور اس کے نیچے دب کر کئی مسافر مر گئے۔ ہر طرف ایک قیامت برپا ہوگئی۔ جہاز تیزی کے ساتھ سمندری چٹانوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا کپتان کو ڈر تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جہاز ایک بہت بڑی چٹان کے ساتھ ٹکرا گیا۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور جہان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ مسافر کھلونوں کی طرح سمندر میں گرنے اور ڈوبنے لگے۔ چیخ و پکار سے ایک کہرام مچ گیا۔ جہاز دیکھتے دیکھتے ڈوب گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس قدر عظیم الشان اور مضبوط جہاز کو سمندر کی بڑی بڑی موجوں نے نگل لیا۔ اب سطح سمندر پر صرف دو تین کشتیاں تھیں جو طوفانی موجوں پر ڈولتی ہوئیں ساحل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو کشتیاں ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں۔ ان کشتیوں کے مسافر سب کی آنکھوں کے سامنے سمندر کی لہروں میں ڈوب گئے۔ کوئی ایک بھی جان نہ بچا سکا۔
صرف ایک کشتی بچ سکی تھی جس میں جہاز کا کپتان، بلیک برڈ، ٹام، کچھ نوجوان عورتیں اور مرد سوار تھے۔ طوفان کی شدت ویسے ہی تھی۔ بارش موسلا دھار ہو رہی تھی۔ بادل زور زور سے گرج رہا تھا۔ بجلی چمک رہی تھی۔ سمندر میں اٹھتی ہوئی بڑی بڑی موجیں کشتی کو ایک تنکے کی طرح بہاتی ہوئیں ساحل کی طرف لے جا رہی تھیں۔ کپتان کشتی میں کھڑا تھا اور دو خلاصی چپوئوں کی مدد سے بڑی مشکل سے اسے ساحل کی طرف لے جانے اور چٹانوں سے بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ جب کوئی چٹان کشتی کے قریب آتی تو عورتوں کی چیخیں نکل جاتیں۔ ایک بوڑھا مسافر اپنے آپ کو سنبھالتے سنبھالتے سمندر میں گر پڑا۔ اور طوفانی لہریں اسے دورلے گئیں۔ کشتی میں بیٹھا ہوا کوئی شخص بھی اسے نہ بچا سکا۔ مسافر ہاتھ باندھے آسمان کی طرف منہ کئے دعاؤں میں مصروف تھے۔ بچے رو رہے تھے۔ عورتوں کے چہروں پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی۔ کپتان کا حوصلہ بلند تھا۔ جہاز کے غرق ہونے کا اسے بے حد صدمہ تھا۔ سب سے بڑھ کر مسافروں کو یہ صدمہ تھا کہ ان کے کروڑوں روپے کی مالیت کی جائیداد جہاز کے ساتھ ہی سمندر میں غرق ہو گئی تھی۔ اب ساحل بہت قریب آگیا تھا۔ ایک بہت بڑی لہرنے اچھل کر کشتی کو ساحل پر لا پھینکا۔ مسافر کشتی سے نکل کر ساحل کی ریت پر گر پڑے۔
لالچ بری بلا ہے
افریقہ کا یہ ساحل بے آباد تھا۔
کپتان نے ساحل پر آتے ہی سب سے پہلا یہ کام کیا کہ تمام مسافروں کو ایک جگہ اکٹھا کیا۔ انہیں سرکاری طور پر اطلاع دی کہ جہاز ڈیون شائر جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملکیت تھا ،طوفان میں گر کر ڈوب گیا ہے۔ مسافروں کی چیخیں نکل گئیں۔
’’ ہمارا سامان کہاں ہے؟‘‘
’’ ہمارے جواہرات کہاں ہیں؟‘‘
’’ ہمارا خزانہ کہاں ہے؟‘‘
کپتان نے بڑی مشکل سے لوگوں کو چپ کرایا۔
’’ مجھے بڑا افسوس ہے کہ آپ بجائے خدا کا شکر ادا کرنے کے کہ آپ کی جانیں بچ گئی ہیں۔ آپ ابھی تک دولت کے پیچھے پڑے ہیں۔ آپ کی ساری کی ساری دولت جہاز کے نچلے تہہ خانے میں محفوظ ہے۔ ہم جلدی ہی کسی بڑے شہر پہنچ کر کمپنی کی طرف سے غوطہ خوروں کی خدمات حاصل کریں گے اور سارے خزانے کو سمندر کی تہہ سے نکال لائیں گے۔ آپ کی دولت بہت جلد آپ کو واپس مل جائے گی۔‘‘
لیکن مسافروں کو معلوم تھا کہ جو دولت سمندر کی تہ میں ایک بار غرق ہو جائے وہ دوبارہ ہاتھ نہیں آیا کر تی۔ ان تمام پریشان حال مسافروں میں اگر کوئی مسافر مطمئن تھا تو وہ بلیک برڈ تھا۔ اس کی دولت اس کی کمر کے ساتھ لپٹی ہوئی اس کے پاس موجود تھی۔ یہ اس کی عقلمندی تھی کہ اس نے زیادہ لالچ نہیں کیا تھا وگرنہ اس کا بھی حشر وہی ہوتا جو دوسرے مسافروں کا ہوا۔ پھر بھی بلیک برڈ اپنی خوشی کو چھپائے ہوئے تھا اور دوسرے مسافروں کے ساتھ وہ بھی جھوٹ موٹ کاپریشان بنا ہوا تھا۔
شام ہونے سے پہلے پہلے کپتان تمام مسافروں کو لے کر ساحل کے قریب ہی جنگل میں آگیا۔ یہاں اس نے دوسرے جہازیوں کے ساتھ مل کر درختوں کی شاخیں کاٹ کر عورتوں اور بچوں کے لیے الگ اور مردوں کے لیے الگ جھونپڑیاں بنا ڈالیں۔ پھر انہوں نے وہاں آگ کا بہت بڑا الائو روشن کر دیا۔ درختوں سے کچھ جنگلی پھل توڑ کر انہوں نے پیٹ کی آگ بجھائی ۔کپتان بلیک برڈ کے ساتھ آگ کے پاس بیٹھ کر گفت گو کرنے لگا۔
’’اس جنگل میں صرف اتنے پھل موجود ہیں کہ ہم لوگ بڑی مشکل سے ایک ہفتہ یہاں گزارہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں یہاں کچھ بھی کھانے کو نہ ملے گا۔‘‘
یہ تو ٹھیک ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہاں سے کس طرف کو جائیں۔ یہاں سے مغربی افریقہ کا قریبی شہر کتنی دور ہوگا؟‘‘
بلیک برڈ کے اس سوال پر کپتان نے جیب سے ایک مومی نقشہ نکال کر زمین پر پھیلا دیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔
’’ اس نقشے کی رو سے ہم بریڈسٹون کے علاقے میں ہیں۔ یہاں سے قریبی شہر صرف ’’کیپ ٹاؤن‘‘ ہے جو یہاں سے سترہ سو میل کے فاصلے پر ہے۔‘‘
’’خدایا! اتنی دور؟‘‘
بلیک برڈ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
’’ کپتان صاحب! یہ سترہ سو میل کا فاصلہ ہم لوگ پیدل کیسے طے کریں گے۔ اور پھر ان بچوں اور عورتوں کا کیا حشر ہوگا؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم ان دشوار گزار جنگلوں میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ اتنا لمبا فاصلہ طے کر سکیں گے؟ اور پھر ہمیں کوئی خبر نہیں راستے میں کیسے کیسے مردم خود قبیلے آباد ہیں۔‘‘
کپتان گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
’’آپ کا اندیشہ بجاہے مسٹر بلیک برڈ۔ لیکن اس کے سوا اور چارہ بھی کوئی نہیں۔ اگر ہم نے اسی جگہ ٹھہرے رہنے کا فیصلہ کیا تو ہم سب ایک دن بھوک اور پیاس سے دم توڑ کر مر جائیں گے۔ ‘‘
’’مگر سوال یہ ہے کہ ہم سفر کس طرح کریں گے؟‘‘
’’پیدل چلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔‘‘
بلیک برڈ نے پوچھا:
’’ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم کشتی میں سوار ہو کر ساحل کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف چلنا شروع کر دیں؟‘‘
کپتان نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’’ بلیک برڈ صاحب! آپ کو شاید معلوم نہیں کہ کشتی میں سوار ہو کر کھلے سمندر کی طرف جانا آسان ہے لیکن ساحل کے ساتھ ساتھ تر چھی لہروں کا سینہ چیر کر چلنا ناممکنات میں سے ہے۔ ایسے مخالف رخ کے سفر میں تو بھاپ کا انجن بھی جواب دے جاتا ہے۔‘‘
’’پھر آپ ہمیں کیا مشورہ دیتے ہیں کپتان صاحب؟ ‘‘
کپتان سوچنے لگا۔ اس نے ٹوپی اتار کر اپنے بال کھجائے اور دوبارہ سر پر ٹوپی اوڑھتے ہوئے بولا:
’’ میرا خیال ہے کہ ہم ابھی یہاں دو ایک روز آرام کرتے ہیں۔ اتنی دیر میں شاید کوئی جہاز ادھر سے گزر ے۔ ہم دھواں اڑا کر اسے اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔‘‘
بلیک برڈ نے سوال کیا:
’’ اور اگر اس دوران میں کوئی بھی جہاز ادھر سے نہ گزرا تو اس صورت میں کیا ہوگا؟‘‘
’’ اس صورت میں ہمیں ایک ہفتے کے بعد یہاں سے کو چ کر کے کسی ایسے جنگل میں پڑاؤ ڈالنا ہوگا جہاں ہمیں جنگلی پھل اور پانی مل سکے۔‘‘
’’ کپتان صاحب! آپ تو ایسی باتیں کر رہے ہیں جیسے ہم لوگ جنگل میں پک نک منانے آئے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ ہم ان کمزور عورتوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح جنگل میں زیادہ دیر زندہ رہ سکیں گے؟ اور پھر کیا ان جنگلوں میں درندے ہمیں زندہ چھوڑیں گے؟ اور پھر آپ اس حقیقت سے آنکھیں کیوں بند کر رہے ہیں کہ جنوبی افریقہ کے یہ علاقے آدم خور قبیلوں سے بھرے پڑے ہیں۔‘‘
کپتان نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا:
’’ مسٹر بلیک برڈ! مجھے خوشی ہے کہ آپ بہت زیادہ حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں اسی انداز میں سوچنا ہو گا۔ جو کچھ بھی ہے ہمارے سامنے ہے۔ ہماری راہ میں بڑی مصیبتیں اور پریشانیاں ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہمیں مسافروں کی جان بچانی ہے اور انہیں کسی نہ کسی طرح حفاظت سے کیپ ٹاؤن تک پہنچانا ہے۔ ‘‘
’’مگر کیسے؟ کیسے کپتان صاحب؟‘‘
’’اپنی ہمت ہے۔ خدا پر بھروسے سے۔‘‘
کپتان کے اس جواب کے بعد بلیک برڈ کوئی سوال نہ کر سکا۔ اصل بات یہ تھی کہ بلیک برڈ کو مسافروں کی جان کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی فکر اسے یہ تھی کہ کسی طرح وہ اپنی جان اور اپنی دولت بچا کر افریقہ کے مہذب شہر کیپ ٹاؤن پہنچ جائے۔ تاکہ وہاں سے کسی جہا ز میں سوار ہو کر لندن پہنچ سکے۔
لیکن ابھی لندن اور کیپ ٹاؤن کا شہر ایک خواب معلوم ہو رہا تھا۔ انمول لعل اور لاکھوں روپے کی مالیت کا یاقوت بلیک برڈ کی کمر کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ اسے تسلی بھی تھی اور غم بھی تھا۔ پر یشانی بھی تھی کہ کہیں کوئی مسافر راتوں رات اسے ہلاک کر کے اس کی کمر کے ساتھ لپٹی ہوئی اس کی دولت چھین کر نہ لے جائے۔ پھر وہ سوچتا کہ اس نے تو کسی کو بھی اپنی چھپی ہوئی دولت کے بارے میں نہیں بتایا۔ پھر اپنے آپ ہی اسے خیال آیا کہ کیا خبر کسی نے مخبری کر دی ہو۔ کیا خبر انہی مسافروں میں کسی کو علم ہو کہ بلیک برڈ کی ساری کی ساری دولت محفوظ ہے جب کہ ان کی زندگی بھرکی پونجی سمندر میں غرق ہو گئی ہے۔ یہ تو بہت بڑی بات ہوگی۔
کپتان نے الاؤ میں لکڑی ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ بلیک برڈ صاحب! اب آپ بھی آرام کریں۔ صبح سوچیں گے کہ اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔‘‘
’’مجھے تو نیند نہیں آ رہی کپتان صاحب۔‘‘
کپتان نے ذرا سا مسکرا کر کہا:
’’ آپ تو اس جہاز کے واحد مسافر ہیں جس کا کچھ بھی نقصان نہیں ہوا۔ آپ کو تو نیند آجانی چاہیے۔ نیندیں تو ان مسافروں کی اڑ چکی ہیں جو ہندوستان سے کروڑوں روپے کی دولت لوٹ کھسوٹ کر ولایت لے جا رہے تھے۔‘‘
بلیک برڈ نے کہا:
’’آپ کا فرمانا بجا ہے کپتان صاحب! خداوند کا شکر ہے کہ میں نے لالچ نہیں کیا۔ اور مدراس سے صرف یہ تین کپڑے پہن کرچلا تھا۔ پھر بھی جب ان عورتوں اور بچوں کو پریشان دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔‘‘
’’یہ اس لیے کہ آپ ایک نرم دل دیندار انسان ہیں۔ کاش جہاز کے سبھی مسافر آپ ہی کی طرح ہوتے۔ میرا خیال ہے شاید پھر ہمارا جہاز کبھی غرق نہ ہوتا۔ آپ کا کیا خیال ہے بلیک بر ڈ صاحب؟ ‘‘
بلیک برڈ نے چونک کر کہا:
’’ آپ ٹھیک فرما رہے ہیں۔ بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں۔ اچھا۔ شب بخیر۔ میرا خیال ہے ہمیں سونے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
’’ خدا حافظ!‘‘
کپتان وہیں زمین پر لیٹ گیا اور بہت جلد وہ خراٹے لینے لگا۔ لیکن بلیک بر ڈ کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ ٹام ذرا پرے الاؤ کے پاس بیٹھا سو رہا تھا۔ دوسری جانب جھونپڑوں میں عورتیں اور بچے بھی تھوڑا بہت کھا پی کر اب آرام کر رہے تھے۔ مردوں کے جھونپڑوں میں مسافر نہیں سوئے تھے۔ ادھر سے تیز تیز باتیں کرنے، موسم اور طوفان کو کوسنے، کپتان کو برا بھلا کہنے کی آواز میں آ رہی تھیں۔
دو مسافر تو اس صدمے سے ہی مرگئے کہ ان کی دولت سمندر میں غرق ہو گئی ہے۔ وہ کشتی میں حفاظت کے ساتھ ساحل پر پہنچ گئے تھے۔ مگر جب کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز غرق ہو گیا ہے تو وہ دل کو پکڑ کر ایسے گرے کہ پھر نہ اٹھ سکے۔ ہائے ری دولت! تونے کتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انسان سونے کی تلاش میں نکلے اور آخر خاک میں مل جائے۔ سونا تو نہ مل سکا لیکن اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، دانا لوگوں نے سچ فرمایا ہے کہ انسان کو دنیا میں رہ کر نیک اور سادہ زندگی بسر کر نی چاہیے، دولت کا لالچ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دولت ہی دنیا میں سب کچھ ہوتی تو اللہ کے نیک بند ے اولیاء اللہ اور بزرگان دین اور نبی، سارے کے سارے دولت مند ہوتے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان لوگوں نے بڑی ہی سادہ زندگی بسر کی ،ہمیشہ سچ بولا۔ انسانوں کے دکھ درد میں کام آئے۔ خدا کو یاد رکھا اور یوں رہتی دنیا تک اپنا نام روشن کر گئے۔ مگر جو لوگ شیطان کے بہکانے میں آجاتے ہیں وہ دولت کا لالچ کرتے ہیں اور دولت کی خاطر بڑبرے سے برا کام کر کے دوزخ میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی بھی دوزخ ہی ہوتی ہے۔ انہیں نہ دن کا چین نصیب ہوتا ہے نہ رات کا آرام۔ یہی حال ڈوبے ہوئے جہاز کے مسافروں کا تھا جو افریقہ کے خوفناک جنگل میں بے یارو مددگار پڑے اپنی دولت کو یاد کر کے رو رہے تھے۔
بلیک برڈ کی موت
دوسرے دن موسم خوشگوار ہو گیا۔
آسمان پر سے بادلوں کا غلاف ہٹ گیا اور سورج چمکنے لگا۔ طوفان گزر جانے کے بعد سمندر بھی پرسکون ہو گیا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے کبھی کوئی طوفان نہیں آیا تھا۔ ڈیون شائر ڈوب چکا تھا۔ جہاز ساحل سے پندرہ میل کے فاصلے پر سمندر کی تہ میں چٹانوں میں ٹوٹ پھوٹ کر پھنساہوا تھا۔ خزانے کے کمرے کا لوہے کا دروازہ دھماکے سے ٹوٹ گیا تھا اور سارا سونا، جواہرات کے صندوق اور تاج و تخت طاؤس سمندر کی تہہ کے ساتھ پتھروں میں پڑا تھا۔ اس خزانے کے مالک مسافر ساحل کے جنگل میں پریشان حال بیٹھے اپنی قسمت کو رو رہے تھے۔ کپتان اور بلیک برڈ صلاح مشورے کے بعد وہاں سے کوچ کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ کپتان نے اعلان کر دیا تھا کہ ہم لوگ جنگل جنگل کیپ ٹاؤن کا رخ کریں گے جو یہاں سے سترہ سو میل کے فاصلے پر ہے۔ کسی مسافر کو یقین نہیں تھا کہ وہ خیریت کے ساتھ منزل پر پہنچ جائے گا۔ دولت تو ان کی سمندر میں غرق ہو گئی تھی۔ اب انہیں اپنی زندگی کی بھی امید نہیں تھی۔ عورتوں اور بچوں کا تو برا مال ہو رہا تھا۔ کپتان نے انہیں بے حد تسلی دی تھی۔ مگر سوائے بلیک برڈ کے ایک بھی مسافر ایسا نہیں تھا جس کے دل میںامید کی ایک کرن بھی روشن ہو۔ بلیک برڈ دل میں مطمئن تھا۔ اس مکاراور خود غرض شخص نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی جان اور دولت بچائے گا۔ اس مقصد کے لیے اگر اسے سارے مسافروں کو قتل بھی کرنا پڑ گیا تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ حقیقت میں بلیک برڈ کو دولت کی ہوس نے انسان سے جانور بنا دیا تھا۔ اس کے دل میں تو اس قسم کے ظالمانہ ارادے تھے مگر قدرت نے اس کے بار ے میں کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا تھا۔
دوپہر کے وقت لوگوں نے جنگل سے کچھ پھل توڑے اور کھاپی کر وہاں سے کوچ کرنے کی فکر میں لگے تھے کہ اچانک انہیں دور سے ڈھول کی آواز سنائی دی۔ سب کے کان کھڑے ہو گئے۔ ڈھول کی آواز جنگل کے درمیان سے آ رہی تھی۔ کپتان نے موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے فوراً حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کو جھونپڑیوں میں چھپا دیا جائے۔ بلیک برڈ بھی پریشان ہو گیا۔
’’ کپتان! آپ کا کیا خیال ہے۔ یہ ڈھول کی آواز کیا ہے؟‘‘
کپتان نے گہرا سانس بھر کر کہا:
’’ اس کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ جنگلی لوگوں کو ہماری آمد کا پتہ چل گیا ہے اور وہ ہماری تلاش میں ادھر آ رہے ہیں۔ ‘‘
’’کیایہ لوگ ہمیں ہلاک کر دیں گے؟‘‘
’’ میرا خیال ہے کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔‘‘
’’میرے خدا؟ ‘‘
بلیک برڈ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ است اپنی موت آ نکھوں کے سامنے ناچتی نظر آئی۔
’’ یہ تو بہت برا ہو گا کپتان صاحب۔‘‘
’’ پہلے ہمارے ساتھ کیا اچھا ہو رہا ہے مسٹر بلیک برڈ! ہمارا جہاز ڈوب چکا ہے۔ ہم جنگل میں اکیلے ہیں۔ ہمیں ہر مصیبت کے لیے تیاررہنا چاہئے۔‘‘
’’مگر ہم نہتے ہیں۔ ہم جنگلیوں کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے؟‘‘
’’ہم مقابلہ تو کسی صورت میں نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ تو پھر۔ کیا ہم ہلاک کر دیئے جائیں گے؟‘‘
’’ ہم ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’ کپتان صاحب! وہ وحشی ہیں۔ ہم ان کی زبان بھی نہیں جانتے۔ بھلا ا نہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم پر حملہ کر یں۔ جیسا کہ ہم نے سن رکھا ہے ہمارے ساتھ ویسا ہی ہوگا۔ یہ جنگلی ہماری عورتوں کو اغوا کر لیں گے۔ بچوں اور آدمیوں کو مار ڈالیں گے اور بس۔‘‘
’’ ہمیں خدا سے دعا مانگنی چاہیے۔‘‘
وحشیوں کے ڈھول کی آواز اب قریب سے قریب ہو رہی تھی۔ اور ان کے جنگلی نعروں کی آواز یں بھی ساتھ ہی سنائی دینے لگی تھیں۔ مسافر وںکا خوف کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ انہوں نے نیم مردہ عورتوں اور بچوں کو جھونپڑیوں میں چھپا کر اوپر درختوں کی شاخیں ڈال دی تھیں۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ جنگلیوں کا مقابلہ کیونکہ کیا جائے کہ بے شمار تیران کے درمیان آکر زمین پر گڑ گئے۔ بلیک برڈ کے ہونٹوں سے چیخ نکل گئی۔ وحشی جنگلی چیختے چلاتے ان کے قریب پہنچ گئے تھے۔ بلیک برڈ نے ٹام کو پڑا اور گھسیٹتا ہوا ایک طرف لے گیا۔ یہاں جھاڑیوں کی اوٹ تھی۔ اس نے جھنجھوڑ کر کہا:
’’ سنو ٹام! میری ایک امانت اپنے پاس رکھو۔ ہو سکتا ہے جنگلی تمہیں بچہ سمجھ کر چھوڑ دیں۔‘‘
اتنا کہہ کر بلیک برڈ نے کمر پر سے پٹکا اتار کرگتھلی نکالی اور اس میں سے قیمتی لعل اور یاقوت نکال کر ٹام کو دیتے ہوئے کہا:
’’ یہ دونوں ہیرے میری امانت ہے جو تمہارے پاس رہے گی۔ اسے اپنے جوتوں میں چھپا لو۔ خبردار کسی قیمت پر بھی اسے باہر مت نکالنا۔ جلدی سے اب انہیں چھپا لو۔‘‘
ٹام بے چارہ حیران ہی رہ گیا کہ اس کے چچا کے پاس اتنے قیمتی ہیرے کہاں سے آگئے۔ اسے تو یہ خیال تھا کہ اس کا چچا تین کپڑوں میں سفر کررہا ہے۔ مگر یہ وقت سوچنے اور غور کرنے کا نہیں تھا۔ وحشی سر پر آن پہنچے تھے۔ ٹام نے فوراً ہیرے لے کر انہیں اپنے جوتوں میں چھپا لیا۔
’’اگر انہوں نے میری تلاشی لی تو کیا ہوگا؟‘‘
بلیک برڈ نے قریباً چیخ کر کہا:
’’ ایسا نہیں ہوگا۔ کبھی نہیں ہوگا۔ وہ تمہاری تلاشی نہیں لیں گے۔‘‘
اچانک چھ سات جنگلی وحشی اس کے ارد گر د آ کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے دونوں کو گرفتار کر لیا اور جھاڑیوں سے باہر لے آئے۔ ادھر دوسرے حبشی جنگلی بھی موجود تھے۔ انہوں نے سارے مسافروں کو کپتان سمیت گرفتار کر لیا تھا۔وحشیوں نے جھونپڑیوں میں سے عورتوں اور بچوں کو بھی نکال لیا تھا۔ بچے رورہے تھے اور عورتوں کے چہرے پر موت کی زر دی تھی۔ ایک مسافر نے اونچی آواز میں چیخ کر حبشی سے کچھ کہنا چاہا۔ اس ظالم نے پلک جھپکنے میں نیزہ اس کے سینے میں گھونپ دیا۔ مسافروہیں تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا۔ باقی مسافر سہم گئے۔
جنگلی حبشی سارے مردوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے جنگل میں اپنے قبیلے کی جھونپڑیوں کی طرف چل پڑے۔ یہ جھونپڑیاں کافی دور جنگل میں ایک جگہ بنی تھیں۔ یہاں جنگلیوں کے سردار نے اپنے جھونپڑے سے نکل کر قیدیوں کو دیکھا اور ان عورتوں کو دیکھ کر اپنے زرد زرد دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ جنگلیوں نے فوراً ساری کی ساری عورتوں کو الگ کر کے ایک جھونپڑی میں بند کر دیا۔ سردار نے دوسرے ہاتھ سے اشارہ کیا تو حبشی وحشیوں نے مردوں کا قتل عام کرنا شروع کر دیا۔ دیکھتے دیکھتے انہوں نے دس بارہ تاجروں کے سینوں میں نیزے گھونپ دیتے، ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی۔ لاشیں تڑپنے لگیں۔ کپتان نے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کچھ کہا۔ بلیک برڈ دوزانو ہو کر زمین پر گر پڑا۔ حبشی سردار نے ہاتھ اوپر اٹھایا۔ قتل عام رک گیا۔ پھر اس کے حکم سے تمام باقی مسافروں کو ایک جھونپڑے میں قید کر کے ڈال دیا گیا۔
یہ سارے کا سارا دردناک حادثہ اتنی جلدی ہو گیا کہ کپتان کے ہوش و حواس گم ہو کر رہ گئے۔ اس نے بڑے بڑے سمندری طوفانوں کا مقابلہ کیا تھا اور کبھی پریشان نہیں ہوا تھا۔ لیکن اتنے سارے آدمیوں کو بیک وقت قتل ہوتے اور خاک وخون میں تڑپتے دیکھ کر وہ بھی خوفزدہ ہو کر رہ گیا۔ بلیک برڈ کا بھی دہشت سے چھوٹا سا منہ نکل آیا تھا۔ ٹام بچوں کے ساتھ الگ قید کر دیا گیا تھا۔ بلیک برڈ کو اپنے ہیروں کا غم کھائے جا رہا تھا۔ وہ اس خیال سے پچھتانے لگا کہ اس نے ناحق ٹام کو ہیرے دے دیئے مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ اسے اتنا معلوم تھا کہ ان وحشیوں سے اب اس کی جان نہیں بچ سکتی۔ یہ آدم خور سارے مردوں اور بچوں کو قتل کر کے عورتوں کے ساتھ شادیاں کرلیں گے۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ باقی لوگ اگر مرتے ہیں تو مر یں لیکن اسے کسی طرح وہاں سے جان بچا کر نکل بھاگنا چاہیے۔ کپتان اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھا تھا۔
’’ کپتان صاحب! اب کیا ہوگا؟‘‘
کپتان نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا:
’’وہی جو میری، آپ کی اور ان سب لوگوں کی قسمت میں لکھاہے۔‘‘
’’قسمت تو اچھی نہیں ہماری۔ اگر قسمت ساتھ دیتی تو ہمارا جہازکیوں غرق ہوتا۔‘‘
’’بہر حال اب ہمیں اپنی موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔‘‘
’’ کیا یہاں سے فرار ہونا ممکن نہیں؟‘‘
کپتان نے حیرانی سے بلیک برڈ کی طرف دیکھا اور کہا:
’’ یہاں سے فرار ہونا بھی اپنی موت کو بلانا ہے۔ اس جنگل میں چاروں طرف ان وحشی حبشیوں کی حکومت ہے۔ کوئی درخت ایسا نہیں جس کی شاخوں میں ان کا کوئی نہ کوئی حبشی زہرمیں بجھا ہوا تیر لئے نہ بیٹھا ہو۔‘‘
’’کچھ بھی ہو میں ان وحشیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونا نہیں چاہتا۔ ‘‘
بلیک برڈ نے جھنجلا کر کہا۔ کپتان نے اسے سمجھایا کہ اس طرح جذبات میں آنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں عقل سے کام لے کر ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا۔ اور کوئی ایسی تدبیر نکالنی ہوگی جس سے سردار کے دل میں ہم رحم کا جذبہ پیدا کر کے مسافروں کی جانیں بچا سکیں۔ مگر بلیک برڈ پر کپتان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ کسی طرح اکیلے ہی یہاں سے نکل جائے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ رات کو وہاں سے فرار ہو جائے گا۔ اس نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ جھونپڑے کے باہر صرف ایک ہی پہرے دار ہے جو نیزہ ہاتھ میں لئے باہر بیٹھا ہے۔ اب بلیک برڈ رات کا انتظار کرنے لگا۔
جنگل پر بہت جلد رات چھا گئی۔
جب ہرطرف گہرا سناٹا طاری ہو گیا تو بلیک برڈ نے لیٹے ہی لیٹے سر اٹھا کر اپنے اردگر ددیکھا۔ کپتان گہری نیند میں کھویا خراٹے لے رہا تھا۔ وہ آہستہ سے اٹھا۔ اس نے ایک درز میں سے باہر دیکھا۔ پہریدار حبشی بھی ایک پتھر سے ٹھیک لگائے سو رہا تھا۔ بڑا سنہری موقع تھا۔ بلیک برڈ اس موقع کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ وہ رینگتا ہوا ایک طرف سے جھونپڑے سے باہر آگیا۔ اب اس نے اس جھونپڑی کی طرف رینگنا شروع کر دیا جہاں ٹام قید تھا۔ یہ جھونپڑی وہاں سے کوئی پچاس قدموں کے فاصلے پر تھی۔ وہ رینگتا رینگتا اس جھونپڑی کے پاس پہنچ گیا۔ بلیک برڈ کا سانس پھول گیا تھا۔ اس نے ایک پل کے لیے رک کر سانس درست کیا اور جھونپڑی کی پچھلی طرف سے جا کر ٹام کوآہستہ سے آواز دی۔
اتفاق کی بات تھی کہ ٹام ابھی تک جاگ رہاتھا۔ ٹام نے اپنے چچا کی آواز سنی تو اسے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ وہ اپنے چچا کی لالچی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا۔ اسے معلوم تھا کہ چچا کی دولت اس کے پاس ہے اور وہ اپنی دولت کی تلاش میں اس کے پاس ضرور آئے گا۔ ٹام نے جھونپڑی کے ایک سوراخ میں سے جھانک کر باہر دیکھا۔ اس کا چچا زمین پر لیٹا، سر اٹھائے، اندھیرے میں اسے گھوررہا تھا۔ اس نے سرگوشی میں کہا:
’’اندر آ جاؤ چچا! سب بچے سو رہے ہیں۔ ‘‘
اور بلیک برڈ کسی بہت بڑے سانپ کی طرح رینگتا ہوا جھونپڑی کے اندر آگیا۔ اندر آتے ہی اس نے آہستہ سے کہا:
’’ٹام! میری امانت واپس کر دو۔‘‘
’’مگر چچا! تم اسے لے کر کیا کروگے؟‘‘
’’ میں یہاں سے بھاگ رہا ہوں۔ لاؤ میری امانت !‘‘
ٹام جوتے میں سے دونوں ہیرے نکال کر چچا کو دینے ہی لگا تھا کہ باہر پہرے دار کی آواز سنائی دی۔ ٹام اور بلیک برڈ وہیں سہم کر رہ گئے۔وہ زمین پر یوں لیٹ گئے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ پہرے دارکی آواز دور چلی گئی۔
بلیک برڈ نے سرگوشی میں کہا:
’’ لاؤ میرے قیمتی ہیرے۔ جلد ی کر و۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ۔‘‘
ٹام نے دونوں ہیرے چچا کے حوالے کر دیئے۔ بلیک برڈ نے ہیرے اپنی جیب میں رکھے اور اسی طرح رینگتا ہوا جھونپڑے سے باہر نکل گیا۔ ٹام نے چچا کو دیکھا کہ وہ جنگل کی طرف رینگ رینگ کر جارہا تھا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد وہ رات کے اندھیرے میں گم ہو گیا۔ ٹام جھونپڑی میں لیٹ کر دیر تک چچا کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اسے بھی چچا کے ساتھ ہی بھاگ جانا چاہئے تھا۔ مگر اب وقت گزر گیا تھا۔
بلیک برڈ رات کے اندھیرے میں تھوڑی دور تک جنگل میں رینگتا چلا گیا۔ پھر جب اسے احساس ہوا کہ وہ خطرے سے باہر نکل آیا ہے تو وہ اٹھا اور اس نے جنگل میں ایک طرف بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا۔ ساری رات وہ جنگل میں بھاگتا رہا اور وحشی حبشیوں سے کافی دور نکل آیا۔ آخر وہ تھک گیا اور ایک جگہ بے جان پتھر کی طرح زمین پر گر گیا اور لیٹ کے لمبے لمبے سانس لینے لگا۔
کافی دیر بعد جب اس کے ہوش و حواس ٹھکانے آئے تو وہ اٹھا اور ایک طرف کو روانہ ہو گیا۔ جس وقت صبح کی روشنی نمودار ہوئی تو وہ ایک ایسے جنگل سے گزر رہا تھا جس کے گھنے درختوں پر لمبی لمبی بیلیں لٹک رہی تھیں اور ارد گرد بے شمار ٹیلوں پر گہری سبنر کائی اگی ہوئی تھی۔ اسے بڑی سخت پیاس لگ رہی تھی۔ وہ پانی کی تلاش میں ایک طرف گھومنے لگا۔ اسے ایک بندر دکھائی دیا جو اسے دیکھ کر خو خو کرتا ایک طرف بھگ گیا۔ بلیک برڈ کو یقین ہو گیا کہ ادھر ضرور پانی ہوگا۔ کیونکہ بندر ایسی جگہوں پر کبھی بسیرا نہیں کرتے جہاں پانی موجود نہ ہو۔ کچھ دور چلنے کے بعد پانی تو نہ ملا مگر ایک جگہ اسے جنگلی بیروں کے بے شمار درخت نظر آئے۔ یہ درخت بیروں سے لدے ہوئے تھے۔ بلیک برڈ نے بیر توڑ توڑ کر کھانے شروع کر دیئے۔ جب اس کا پیٹ بھر گیا تو اب اسے پانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بیر کھانے کے بعد پیاس کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ یونہی ادھر ادھر گھوم پھر کے پانی کی تلاش کرنے لگا۔ ایک چٹان کے عقب میں اسے پانی کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ بلیک برڈ چٹان کے پیچھے چکر لگا کر آیا تو یہ دیکھ کر اسے بے حد خوشی ہوئی کہ وہاں پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ بہہ رہا تھا۔ بلیک برڈ نے اس چشمے پر بیٹھ کر جی بھر کر پانی پیا۔ منہ ہاتھ دھویا۔ اور جیب میں سے ہیرے نکال کر انہیں غور سے دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی ۔وہ اس خیال سے بے حد خوش ہو رہا تھا کہ وہ اتنے بڑے سمندری طوفان سے بھی لاکھوں پونڈ کی دولت بچا کر لے آیا ہے جب کہ اس کے ساتھی تباہ ہو گئے تھے۔ اس نے یا قوت اور لعل کو پانی سے دھوکر اچھی طرح چمکایا اور اپنے جوتوں میں آگے کر کے چھپا دیا۔ اس کام سے اطمینان حاصل کر لینے کے بعد وہ اٹھا اور آگے چل پڑا۔ ابھی وہ مشکل سے دس قدم ہی چلا ہو گا کہ سن کر کے ایک زہریلا تیر پیچھے سے آیا اور بلیک برڈ کی پشت میں کھب کو اس کے دل سے پار ہوتا ہوا باہر نکل آیا۔بلیک برڈ کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اس کے حلق سے چیخ بھی نہ نکل سکی۔ وہ بے جان ہو کر پتھر کی طرح زمین پر گرا اور اس کی لاش لڑھک کر چٹان کے پہلو سے لگ گئی۔ دوسرے ہی لمحے ایک طرف سے حبشی نمودار ہوا۔ اُس نے تیر بلیک برڈ کی بے جان لاش میں سے کھینچا، اس کی لاش پر تھوکا اور واپس چل دیا۔ بلیک برڈ کی بھرائی ہوئی لاش کا منہ کھلا تھا۔ آنکھیں پتھر بن کر باہر کو نکل آئی تھیں اور اس کے جوتوں میں لاکھوں پونڈ کے قیمتی ہیرے ویسے کے ویسے چھپے ہوئے تھے۔
کیپ ٹاؤن
کپتان کو بلیک برڈ کی موت کی خبر سن کر بڑا دکھ ہوا۔
وہ بلیک برڈ کو ایک ایماندار انسان سمجھتا تھا۔ اسے کیا خبر تھی کہ وہ اس کے خزانے میں سے قیمتی یاقوت لے کر فرار ہوا تھا کہ جنگل میں وحشی حبشی کے تیر کا نشانہ بن گیا۔ بلیک برڈ کے فرار نے حبشیوں کے سردار کو غصے سے دیوانہ کر دیا۔ اس نے حکم دیا کہ تمام قیدی مردوں کو ہلاک کر دیا جائے۔ اس خبر نے مسافروں میں ایک کہرام مچا دیا۔ عور تیں بین کرنے لگیں۔ مگر ان وحشی حبشیوں کے آگے ان کا کوئی بس نہ چل سکتا تھا۔ٹام کو ا ب افسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے چچا کے ساتھ ہی فرار کیوں نہیں ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ چچا جنگلیوں کے پنجے سے نکل چکا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ اس کے لالچی اور خود غرض چچا کی لاش جنگل میں پڑی تھی اور اس پر چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ بہر حال ٹام نے فیصلہ کر لیا کہ اب جب کہ سردار نے ان سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیا ہے تو وہ وہاں سے ضرور بھاگ جائے گا۔
اچانک ایک طرف سے شور بلند ہوا۔ معلوم ہوا کہ حبشیوں نے مسافروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت جھونپڑی کے باہر کوئی پہرے دار نہیں تھا۔ سب جنگلی قتل عام میں لگے تھے۔ ٹام نے اس موقع کو غنیمت جانا اور چپکے سے سب کی نظریں بچا کر جھونپڑی سے رینگتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اس کے کانوں میں ہلاک ہوتے ہوئے آدمیوں کی چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اسے اچھی طرح علم تھا کہ اگر وہ پکڑا گیا تو وحشی اسے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ پھونک پھونک کر رینگتاگیا۔ یہاں تک کہ وہ جنگل کے کنارے پہنچ گیا۔ جب اس کے چاروں طرف لمبی لمبی جھاڑیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اورجھکے ہی جھکے بھاگنے لگا۔
جب وہ تھک گیا تو ایک جگہ بیٹھ کر دم لینے لگا۔ اس نے درخت کے پیچھے چھپ کر دیکھا کہ کوئی جنگلی اس کا تعا قب تو نہیں کر رہا۔ سارا جنگل سنسان تھا۔ دور سے کسی وقت ایک چیخ کی آواز گونج جاتی تھی۔ ٹام ڈر گیا اور جلدی سے اٹھ کر دوبارہ بھاگنے لگا۔ وہ بھاگتا گیا بھاگتا گیا اور اس نے جنگل کا کافی فاصلہ طے کر لیا۔ شام ہو رہی تھی جب وہ جھونپڑے سے فرار ہوا تھا۔ اب رات کے سایوں نے جنگل پر گہری تاریک چادر پھیلانی شروع کر دی تھی۔ ٹام نے رات کسی درخت پر سو کر گزارنے کا فیصلہ کیا۔ مگر پھر اسے خیال آیا کہ اسے جتنی جلدی ہو سکے جنگلی حبشیوں کے قبیلے سے دور نکل جانا چاہیے۔ اس خیال کے آتے ہی ٹام نے رکنے کی بجائے جنگل میں آگے چلنا شروع کر دیا۔
جنگل کافی گھنا تھا۔ جنوبی افریقہ کے جنگل بڑے گھنے ہوتے ہیں اور وہاں ہر قسم کے درندے پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ ٹام کی خوش نصیبی تھی کہ وہ ساحل سمندر کے جنگل کا سفر کر رہا تھا اور ان جنگلوں میں شیر ،ہاتھی اور چیتے نہیں ہوتے۔ یہ درندے عام طور پر گھنے جنگلوں کے وسطی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ ٹام رات بھر چلتا رہا۔ اسے راستے کا کوئی علم نہیں تھا۔ مگر وہ ایک انداز ے کے مطابق سمندر سے دور تر ہوتا جا رہا تھا۔ آسمان پر تارے چمک رہے تھے اور ان کی ہلکی ہلکی روشنی میں جنگل میں اندھیرا کم ہو گیا تھا اور ٹام جھاڑیوں میں سے بخوبی اپنا راستہ بنا رہا تھا۔
صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلی تو ٹام اس مقام پر پہنچ چکا تھا جہاں بیروں کے درخت جنگلی بیروں سے لدے پھند ے کھڑے تھے۔ ٹام نے جلدی جلدی جنگلی بیر کھا کر پیٹ بھرا اور آگے روانہ ہو گیا۔ ایک ٹیلے کا موڑ کاٹتے ہوئے اسے پانی کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ ٹام کو آدھی رات سے پیاس لگی تھی۔ وہ پانی کی آواز کا تعاقب کرتا اسی چشمے پر نکل آیا جس کے پانی سے بلیک برڈ نے اپنی پیاس بجھائی تھی۔ وہ بلیک برڈ کی لاش سے بالکل بے خبر چشمے کے پانی پر جھک کر چشمے سے پانی پینے لگا۔ جب وہ جی بھر کر پانی پی چکا تو اس نے منہ ہاتھ دھویا اور ابھی اس نے آگے چلنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ ایک بہت بڑا گدھ پھڑ پھڑاتا ہوا اس کی دا ہنی جانب والی جھاڑیوں سے نکل کر اڑگیا۔
ٹام نے جھاڑیوں کے عقب میں پلٹ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ سامنے چٹان کے پہلو میں اس کے چچا کی لاش پڑی تھی۔ لاش کا رنگ نیلا پڑ گیا تھا اور اس کے ہونٹ کھلے تھے۔ آنکھیں ابل کے باہر آ گئی تھیں۔ ٹام کو جو سب سے پہلا خیال آیا وہ ہیروں کا تھا۔ اس نے ایک کے لاش کی کمر کوٹٹولا۔ ہیر سے غائب تھے۔ کمر کے ساتھ بندھی ہوئی گتھلی خالی تھی۔ ٹام سمجھ گیا کہ جنگلی اس کے چچا کو مار کر ہیرے چرا کر لے گئے ہیں۔ اسے بڑا افسوس ہوا کہ چچا کی جان بھی گئی اور ہیرے بھی ہاتھ سے نکل گئے۔ اس نے سو چا کہ چچا کی لاش کو جنگلی درندوں اور گدھوں سے بچانے کے لیے کسی گڑھے میں دفن کر دینا چاہیے۔ چنانچہ اس نے لاش کو دونوں بازوئوں سے پکڑکر ایک طرف آہستہ سے گھسیٹا۔ وہ لاش کو ایک گڑھے میں لے آیا۔ جب اس نے لاش کو گڑھے میں اتارا تو لاش کے پاؤں میں سے جوتا نکل گیا۔ جوتے کے نکلتے ہی قیمتی لعل اور یاقوت لڑھک کر باہر آگئے۔ ٹام کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنے قیمتی ہیرے لاش کے جوتوں میں ہوں گے۔ ٹام نے جلدی سے دونوں ہیرے اٹھا کر اپنی جوتی میں چھپا لئے۔ اس کے بعد لاش کو گڑھے میں ڈال کر اوپر جھاڑیاں اور پتے بکھیر دیے۔
اس نے ہاتھ اٹھا کر چچا کی روح کو ثواب پہنچایا۔
اب وہ ایک پل کے لیے بھی وہاں رکنا نہیں چاہتا تھا۔ اگر جنگلی لوگ وہاں تک آکر اس کے چچا کو ہلاک کر سکتے ہیں تو وہ ٹام کا پیچھا کر کے اسے بھی ہلاک کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اس خیال کے ساتھ ہی وہ وہاں سے تیز تیز قدم اٹھاتا جنگل کی طرف چل پڑا۔ جنگلی لوگ یقینا ٹام کا تعاقب کرکے اُسے ہلاک کر دیتے اگر وہ جہاز کے مسافروں کو قتل کرنے میں مصروف نہ ہوتے۔ ٹام کو بالکل خبر نہیں تھی کہ پیچھے جہاز کے مسافروں اور عورتوں بچوں کے ساتھ کیا بیت رہی تھی۔ وہ اس قیامت میں اپنی جان بچا کر بھاگ رہا تھا اور چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ہوسکے ان خونخوار وحشیوں سے بہت دور نکل جائے۔ وہ سارا دن جنگل میں چلتا رہا۔ اب وہ بہت تھک گیا تھا۔ اس نے راستے میں جنگلی بیر کھا کر اپنی بھوک مٹائی تھی۔ پانی ایک گدلے جوہڑ کا پیا تھا۔ وہ تھک بھی گیا تھا اور اسے نیند بھی آرہی تھی۔ مگر وہ کسی درخت پر یا کسی کھلی جگہ پر سونے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ اسے اس حقیقت کا علم ہو چکا تھا کہ جنگلی لوگ بڑے ہوشیار ہیں اور وہ کسی بھی وقت جنگل کے کسی بھی علاقے میں پہنچ سکتے ہیں۔ وہ برابر چلتا رہا۔ آخر کار جب اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اس کے پاؤں شل ہوگئے تو وہ ایک جگہ درخت کے ساتھ ٹیک لگا کہ بیٹھ گیا۔ چلنے میں سب سے زیادہ اسے جوتے میں رکھے ہوئے قیمتی ہیرے تنگ کر رہے تھے۔ اس نے ایک پل کے لیے جوتے اتار دیئے اور ہیرے اپنی جیب میں رکھ لئے۔ جب وہ تھوڑی دیر سستا چکا تو جوتے پہن کر پھر سفر پر روانہ ہو گیا۔
ٹام کو مصیبتیں برداشت کرنے کی تو عادت تھی مگر اس قسم کے جنگلوں میں سفر کرنے کا تجربہ بالکل نہیں تھا۔ یہ اس کی سخت جانی تھی جو اسے اتنے دشوار گزار جنگل میں آگے بڑھائے چلے جا رہی تھی۔ اس کی جگہ کوئی نرم و نازک مزاج والا کسی امیر تاجر کا بیٹا ہوتا تو شاید وہ تھکن اور خوف سے بے ہوش ہو چکا ہوتا۔ دوسری رات سر پر آرہی تھی۔ اس دورا ن میں ٹام ایک پل کے لیے بھی نہ سویا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہ رات سو کر بسر کر ے گا اور اگلی صبح کو اپنا سفر دوبارہ شروع کرے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے مناسب جگہ کی تلاش شروع کر دی۔ وہ رات کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے کسی موزوں جگہ پر اپنا ٹھکانا بنا لینا چاہتا تھا۔ اس نے اردگرد پھیلے ہوئے ٹیلوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ ایک جگہ اسے دو ٹیلوں کے درمیان ایک غار سا نظر آیا۔ وہ اس غار میں بنا سوچے سمجھے گھس گیا۔ اس کے غار میں داخل ہوتے ہی ایک جنگلی بلی میاؤں میاؤں کرتی باہر کو بھاگی۔ ٹام کو یقین ہوگیا کہ اگر اس کھوہ میں جنگلی بلی رہتی ہے تو یہاں کسی جنگلی درندے کا اندیشہ نہیں ہے۔ وہ نیم تاریک غار میں گھس کر ایک جگہ دیوار سے ٹیک لگا کر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر بعد وہ دنیا سے بے خبر گہری نیند سو رہا تھا۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو غار کے باہر صبح کی روشنی پھیل چکی تھی اور چمکیلی آنکھوں والی بلی غار کے کنارے پر کھڑی اُسے حیرانی سے تک رہی تھی۔ ٹام جلدی سے اُٹھا۔ اسے اٹھتے دیکھ کر بلی بھاگ گئی۔ ٹام غار سے نکل کر باہر آگیا۔ جنگل میں چاروں طرف دن کا اجالا پھیل رہا تھا۔ سورج کی روشنی گھنے درختوں سے چھن چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی۔ درختوں پر جنگلی چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ٹام کے دل میں بے پناہ خوشی اور زندہ رہنے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اس نے لپک کر چشمے کا پانی پیا۔ منہ ہاتھ دھویا۔ جنگلی پھل کھا کر بھوک مٹائی اور خدا کا نام لے کر آگے چل پڑا۔
اب وہ آدم خور جنگلی لوگوں کے قبیلے سے بہت دور نکل آیا تھا۔ جنگل کے جس علاقے میں سے اب وہ گزر رہا تھا وہ ایک امن پسند حبشی قبیلے کا علاقہ تھا۔ اس قبیلے کا تعلق وسطی افریقہ کے مشہور خولانی قبیلے سے تھا۔ یہ لوگ مسلمان تھے اور جنگل میں مویشی پال کر اور تھوڑی بہت کھیتی باڑی کر کے بسر اوقات کرتے تھے۔ خولانی قبیلے کے مسلمان پکے مسلمان تھے۔ یہ لوگ بہادر، نڈر، سچے اور ایماندار تھے۔ ٹام کو ان کے بارے میں بالکل علم نہ تھا۔ اس کے خیال میں افریقہ کے سبھی حبشی قبائل وحشی اور آدم خور تھے۔ دوپہر تک وہ جنگل کے پرپیچ اور دشوار گزار راستوں پر چلتا رہا۔ دوپہر کے بعد جب وہ جنگل میں سے باہر نکل رہا تھا تو اچانک ایک وحشی ٹیلے پر سے چھلانگ لگا کر اس کے سامنے آ گیا۔ ٹام کا تو دم ہی نکل گیا۔ مگر یہ خولانی قبیلے کا وحشی نوجوان تھا۔ اس نے ٹام کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اشاروں ہی اشاروں میں اسے بتایا کہ وہ اس کی جان کا دشمن نہیں۔ پھر بھی ٹام کو یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ بادل نخواستہ حبشی وحشی کے ساتھ چل پڑا۔
یہ حبشی نوجوان ٹام کو لے کر اپنے قبیلے میں آگیا۔
یہاں قبیلے کے سردار نے ٹام کو اپنے جھونپڑے میں بلایا۔ سردار ایک خوش اخلاق ادھیڑ عمر کا آدمی تھا جس نے گلے میں بے شمار کوڑیوں کی مالائیں پہن رکھی تھیں۔ اس کے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں اور سر پہ مور کے پروں کا بڑا سا تاج پہن رکھا تھا۔ ٹام ان کی زبان نہیں سمجھتا تھا۔ پھر بھی سردار کے پوچھنے پر کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آ رہا ہے۔ ٹام نے اسے اشاروں سے ہی بتایا کہ وہ مدراس سے ایک جہاز پر سوار ہوا تھا جو افریقہ کے مغربی ساحل پر طوفان میں گھر کے ڈوب گیا۔ اب وہ پیدل چل کر کیپ ٹاؤن پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیپ ٹاؤن کا نام سن کر سردار نے حیرت کا اظہار کیا اور اشاروں میں ہی اسے بتایا کہ کیپ ٹاؤن تو وہاں سے بہت دور ہے۔ ٹام نے کہا کہ چاہے کیپ ٹاؤن کتنی ہی دور کیوں نہ ہو اسے ہر حالت میں وہاں پہنچنا ہے۔
سردار نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا۔ ساتھی ٹام کو ساتھ لیکر ایک جھونپڑے میں چلا گیا۔ یہاں اس کی خاطر تواضع موٹے ابلے ہوئے چاولوں اور شکر قندی سے کی گئی۔ اس کے بعد اسے جنگلی پھل کھلائے گئے۔ٹام نے جوتے میں چھپے ہوئے ہیروں کے بارے میں سردار کو کچھ نہ بتایا۔ حالانکہ اگر وہ سردار کو بتا بھی دیتا کہ وہ اپنے جوتوں میں دو بڑے ہی قیمتی ہیرے چھپا کرلے جا رہا ہے تو وہ اسے کچھ بھی نہ کہتا بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان ہیروں کی حفاظت کا اہتمام کراتا۔ اس لیے کہ جیسا ہم بیان کر چکے ہیں خولانی قبیلہ مسلمان قبیلہ تھا اور یہ لوگ انتہائی ایماندار اور بہادر ہوتے ہیں۔ وہ رات ٹام نے جھونپڑی میں بسر کی اور آرام سے سویا۔
صبح وہ اٹھا تو وہ ہشاش بشاش تھا۔ اس کی تھکن اتر چکی تھی۔ وہ بہت جلد وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ مگر اب سردار کی زبانی اسے معلوم ہوا کہ آگے بے حد گھنا اور خطرناک جنگل شروع ہو رہا ہے اور وہ اسے اکیلا کبھی عبور نہیں کر سکتا۔ یہ ایک نئی مشکل آن پڑی تھی۔ سردار نے فوراً ایک ڈولی کا انتظام کیا۔ ڈولی میں کھا نے پینے کا کافی سامان لاد کر ٹام کے ساتھ چھ سات آدمی کئے اور اسے بڑی گرمجو شی سے رخصت کیا۔ ٹام ڈولی میں مزے سے بیٹھ گیا۔ کہاروں نے ڈولی اٹھالی اور یہ سفر شروع ہو گیا۔
دودن دو راتیں ڈولی میں سفر کرنے کے بعد یہ قافلہ ایک دریا کنارے آ کر رک گیا۔ یہاں خولانی قبیلے کے لوگوں نے ٹام کو ایک دوسرے قبیلے والوں کے سپرد کیا اور خود واپس چلے گئے۔ دوسرے قبیلے والوں نے بھی ٹام کی بڑی خاطر مدارت کی۔ اسے اپنے خاص مہمان کی طرح رکھا۔ اگلے روز اسے اپنے کچھ آدمیوں کے ساتھ کشتی میں سوار کرا کر رخصت کیا۔ یہ کشتی کا سفر دریا میں تین روز تک جاری رہا۔ چوتھے روز دریا ایک چھوٹے سے قصبے کے قریب پہنچا تو قبیلے کے لوگ ٹام کو قصبے کے ایک بوڑھے آدمی کے حوالے کر کے واپس چلے گئے۔ یہ ادھیڑ عمر کا آدمی اس قصبے کا چو ہدری تھا۔ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول لیتا تھا۔ ٹام نے اسے بتا دیا کہ وہ کیپ ٹاؤن جانا چاہتا ہے۔ بوڑھے نے اسے تسلی دی اور کہا کہ قصبے میں ہر ہفتے کے بعد ایک بڑی کشتی آیا کر تی ہے۔
’’ یہ کشتی تمہیں سمرسٹ ٹاؤن تک لے جائے گی۔ وہاں سے تم گاڑی میں سوار ہو کر تین دن کا سفر طے کرنے کے بعد کیپ ٹاؤن پہنچ جاؤ گے۔‘‘
اتوار کی شام کو ایک بڑی سی کشتی دریا کنارے آن لگی، بوڑھے نے ٹام کو اس کشتی میں سوار کر وا دیا۔ اس کا کرا یہ بھی بوڑھے نے ہی ادا کیا بلکہ ٹام کو کیپ ٹاؤن تک کا سفر خرچ بھی دے دیا۔ جب تک کشتی دریا میں نظروں سے اوجھل نہ ہو ئی نیک دل بوڑھا کنارے پر کھڑا ٹام کو ہاتھ ہلا ہلا کر رخصت کرتا رہا۔ ٹام اس بوڑھے کے ہمد ردانہ سلوک اور انسان سے محبت کے جذبے سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ زندگی بھر اس کے احسان کو ہرگز فراموش نہیں کر سے گا۔
کشتی ساری رات اور اگلا سارا دن بھی دریا میں چلتی رہی۔ وہ کئی جنگلوں کے درمیان سے گزری۔ راستے میں ٹام نے دریا میں ان گنت دریائی گھوڑے اور مگر مچھ دیکھے جو کنارے کی دھوپ میں بے سدھ لیٹے ہوئے تھے۔ ایک دو جگہوں پہ اس نے لمبے خم دارسفید دانتوں وا لے ہاتھیوں کو بھی دیکھا جو دریا کنارے پانی پی رہے تھے۔ دوسری رات کے سفر کے بعد کشتی دن چڑھے سمرسٹ ٹائون پہنچ گئی۔ یہ ایک خاصا آباد قصبہ تھا جہاں بڑی رونق تھی۔ یہاں سے ٹام کو چھ گھوڑوں کی ایک مسافر گاڑی میں جگہ مل گئی۔ اس گاڑی میں کل سات مسافر سوار تھے جو سب کے سب کیپ ٹاؤن جا رہے تھے۔ ایک مسافر نے ٹام سے باتیں کرنے کی کوشش کی، ٹام نے اس کے ساتھ زیادہ بے تکلف ہونے کی کوشش نہ کی۔ بس رسمی سی دو چار باتیں کیں اور خاموش ہو گیا۔ مگر اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص ٹام کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ جب ٹام اس کی طرف دیکھتا تو وہ نظر یں کھڑکی سے باہر کر لیتا۔ یہ ایک پکی عمر کا گھنگھریالے بالوں والا حبشی تھا جو سفید انگریزی سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ مسافر گاڑی سارا دن سفر کرتی رہی۔ رات کو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ ٹام سرائے کے کونے میں آ کر لیٹ گیا۔ وہ سوٹ والا حبشی بھی اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا اور اس کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولا:
’’ معلوم ہوتا ہے تم اکیلے سفر کر رہے ہو۔ مگرتم اتنا لمبا سفر اکیلے کیسے کر رہے ہو؟ کیا کیپ ٹاؤن میں تمہارے ماں باپ رہتے ہیں؟‘‘
ٹام اس مکار آنکھوں والے حبشی کی کسی بات کا جواب دینا نہیں چاہتا تھا مگر اس چالاک شخص نے سوالوں کی کچھ ایسی بوچھاڑ کر دی کہ ٹام کو جواب دینا ہی پڑا۔
’’ جی ہاں! میرے والد صاحب کیپ ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ میری خالہ سمرسٹ ٹاؤن میں رہتی ہے۔ میں اس سے ملنے گیا ہوا تھا۔‘‘
سوٹ والا حبشی بولا:
’’میرا نام نپٹو ہے۔ میں کیپ ٹاؤن میں ٹھیکے دار ہوں۔اچھا مسٹر ٹام یہ بتاؤ کہ تمہارے کپڑے اتنے میلے کیوں ہیں؟ کیا تمہاری خالہ نے تمہیں نئے کپڑے نہیں دیے؟‘‘
ٹام گھبرا گیا۔ یہ کم بخت نپٹو تو پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔
’’میری عادت ہے میں کپڑے بہت جلد گندے کر دیتا ہوں۔ ‘‘
’’او۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں بھی جب تمہاری عمر کا تھا توایسا ہی کرتا تھا۔ کیا تمہیں مچھلی کے شکار کا شوق ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’ اور شیر کے شکار کا؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’مگر مچھ کے شکار کا؟‘‘
’’ جی نہیں۔ بالکل نہیں۔‘‘
اور میرا خیال ہے کہ ہاتھی کا شکار بھی تم نے کبھی نہیں کیا ہوگا۔ مجھے ہاتھی کے شکار کا بہت شوق ہے۔ پچھلے برس میںنے دو ہاتھی مارے تھے اور ان کے دانت کیپ ٹاؤن میں جا کر بیچے تھے۔ کیپ ٹاؤن میں تمہارے والد کیا کرتے ہیں بھلا؟‘‘
ٹام بڑی مشکل میں پھنس گیا تھا۔ اب وہ کیا بتاتا کہ اس کے والد کیپ ٹاؤن میں کیا کرتے تھے؟ اس کے والد کا تو بچپن ہی میں انتقال ہو چکا تھا اور خود ٹام زندگی میں پہلی بار کیپ ٹاؤن جا رہاتھا۔ اس نے یونہی کہہ دیا۔
’’میرے والدقیمتی پتھروں کا کاروبار کرتے ہیں۔‘‘
اس پر وہ حبشی نو جوان اچھل پڑا۔
’’ارے! یہ تو بہت ہی اچھا ہوا۔ میرے پاس کچھ ہیرے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کیپ ٹاؤن جا کر انہیں تمہارے والد صاحب کو دکھاؤں۔ کیا تم اس سلسلے میں میری کچھ مدد کرو گے ٹام؟‘‘
ٹام کو مجبوراً کہنا پڑا:
’’ کوشش کروں گا۔‘‘
’’ شکریہ!‘‘ پھر اس حبشی نپٹو نے ادھر ادھر دیکھ کر ٹام کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
’’کیا تمہارے پاس بھی کوئی ہیرا ہے؟‘‘
اس اچانک سوال پر تو ٹام کا خون خشک ہو گیا اور اس کی جوتی میں چھپے ہوئے دونوں ہیرے گول سرخ انگار ے بن کر اس کے پاؤں میں سلگ اُٹھے۔ اس نے بے اختیار ہو کہ اپنا پاؤں کھینچ لیا اور بولا:
’’ کیوں۔ بھلا میرے پاس ہیرے کہاں سے آگئے؟ ہیرے تو والد صاحب اپنے پاس رکھتے ہیں۔‘‘
اس پر حبشی عیاری سے مسکرایا اور بولا:
’’ ارے میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا۔ بھلا تمہاری عمر کے لڑکے کے پاس ہیرے کہاں سے آگئے؟ اچھا اب تم آرام سے سو جاؤ۔ میں بھی ادھر جا کر سوتا ہوں۔‘‘
حبشی نوجوان ٹام کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر چلا گیا اور ٹام کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ حبشی نوجوان کو اس کے جوتوں میں چھپے ہوئے ہیروں کا علم ہو گیا ہے۔مگر سوال یہ تھا کہ اسے پتہ کیسے چلا؟ ٹام نے تو اس کے سامنے ایک پل کے لیے بھی جوتے پاؤں سے نہیں اتارے تھے۔ نہیں نہیں اس عیار حبشی کو کچھ بھی معلوم نہیں۔ وہ یو ں ہی اس کے ساتھ ٹھٹھا کر رہا تھا۔ ویسے بڑا چالاک آدمی ہے۔ ٹام نے اتنا کہہ کر دل کو تسلی دے لی۔ مگر وہ ساری رات تقریباً جاگتا رہا۔ وہ حبشی نوجوان سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چا ہتا تھا۔ ذرا سی اُسے اونگھ آتی تو وہ فوراً ہوشیار ہو کر سر کو جھٹک دیتا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اگر وہ سو گیا تو حبشی اس کے ہیرے چرا کر رفو چکر ہو جائے گا۔ ٹام نے ساری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹ دی۔
خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔ گھوڑا گاڑی تیار کی گئی۔ مسافر اس میں سوار ہوئے۔ حبشی نوجوان بھی سوار ہو گیا۔ وہ ٹام کی طرف دیکھ کے برابر مسکرائے جا رہا تھا۔
گھوڑا گا ڑی کیپ ٹاؤن کی طرف روانہ ہو گئی۔
نوعمر شہزادہ
کیپ ٹاؤن پہنچ کر گاڑی سرائے میں ٹھہر گئی۔
یہ ایک تھکا دینے والا لمبا سفر تھا۔ مسافروں کے کپڑے گرد سے اٹ گئے تھے۔ ٹام نے گاڑی سے اتر کر کپڑوں کو جھاڑا اور سرائے سے باہر نکل آیا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کد ھر جائے کہ وہ ہی حبشی نوجوان اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
’’معلوم ہوتا ہے تمہارے والد صاحب کو تمہارے آنے کی خبر نہیں ہوئی۔ وگرنہ وہ تمہارے لیے ضرور اپنی خاص گھوڑا گاڑی بھیجتے۔‘‘
ٹام پر یشان ہو گیا تھا اس مکار حبشی ہے۔ اس نے اسے جھاڑتے ہوئے کہا:
’’آخر آپ کو اس سے کیا دلچسپی ہے کہ میرے والد صاحب میرے لیے گاڑی بھیجتے ہیں یا نہیں؟ برائے مہربانی آپ میرے معاملات میں دخل نہ ہی دیں تو بہتر ہے۔ خدا حافظ!‘‘
اتنا کہہ کے ٹام ایک طرف کو چل پڑا۔ وہ سڑک پر کافی دور تک چلتا گیا۔ پھر اس نے موڑ گھومتے ہوئے دیکھا تو حبشی کچھ فاصلے پر برابر اس کا پیچھا کررہا تھا۔ٹام خوف زدہ سا ہو کرایک دم بھاگ اٹھا۔ اسے کیپ ٹاؤن کی سڑکوں سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ وہ بھاگتے بھا گتے دو چار سڑکیں گھوم گیا اور آخرایک گلی میں آکر چھپ گیا۔ کافی دیر وہاں چھپے رہنے کے بعد وہ باہر نکلا تو اس حبشی نوجوان کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ٹام بڑا خوش ہوا کہ ایک بلائے ناگہانی سے چھٹکارا حاصل ہوا۔ اب وہ بڑے اطمینان سے کیپ ٹاؤن کی سڑکوں پر گھومنے لگا۔ یہ خاصا بڑا شہر تھا۔ سڑکیں پکے پتھر کی بنی ہوئی تھیں اور بہت سی گھوڑا گاڑیاں اور شاندار بگھیاں آجا رہی تھیں، دکانوں پر افریقی، سوڈانی، مصری اور مراکشی لوگوں کے ساتھ ساتھ انگریز مرد اور عورتیں بھی سودا سلف خرید رہی تھیں۔ ٹام نے انگریز مرد اور عورتوں کو دیکھا تو اسے بہت حوصلہ ہوا۔ وہ اس کے اہل وطن تھے۔ وہ انہیں اپنا دکھ سکھ کہہ سکتا تھا۔ ان سے اسے ہمدردی کی توقع تھی، مگر وہ ہیروں کا راز انہیں بھی نہیں بتانا چاہتا تھا۔
ٹام سارا دن کیپ ٹاؤن کے بازاروں اور گلی کوچوں میں مٹرگشت کرتا رہا۔ تیسرے پہر وہ گنجان شہر سے باہر کے علاقے میں نکل آیا۔ یہاں انگریزی طرز کے پرانے بنگلے بنے ہوئے تھے۔ ایسے بنگلے اس نے ہندوستان کے ساحلی شہروں میں دیکھے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہاں انگریز لوگ رہتے ہیں۔ ایک بنگلے کے باہر ایک ادھیڑ عمر کی عورت آنگن کی الگنی پر سے سوکھے ہوئے کپڑے اتار رہی تھی۔ ٹام کو بہت بھوک لگی تھی۔ اس نے ادھیڑ عمر کی انگریز عورت کو جاکر سلام کیا۔ اس عورت نے ٹام کی طرف شفقت بھری نظر سے دیکھا۔
’’تم کون ہو اچھے لڑکے؟ ‘‘
ٹام کو عورت کے اس محبت بھرے انداز سے حوصلہ ہوا۔ وہ اس کے پاس چلا گیا۔
’’میرا نام ٹام ہے مادام۔ میں ہندوستان سے ایک بحری جہاز میں انگلستان جانے کے لیے سوار ہوا تھا۔ جہاز سمندر میں غرق ہوگیا ۔ میں بڑی مشکل سے جان بچا کر یہاں تک پہنچا ہوں۔‘‘
اس عورت نے حیرانی سے ٹام کو دیکھا۔ جلدی جلدی سوکھے ہوئے کپڑے ٹو کری میں رکھے اور ٹام کو مکان کے اندر لے گئی۔
’’ میرے بچے اندر آجاؤ۔ تم بڑے بہادر لڑکے ہو۔ تمہیں ضرور بھوک لگی ہو گی۔ پہلے کچھ کھا لو۔ پھر باتیں کر یں گے۔‘‘
بنگلے کا ڈرائنگ روم بڑی خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ ہر شے اپنی اپنی جگہ پر سلیقے سے رکھی تھی۔ مادام نے ٹام کو میز پر بٹھایا اور اس کے سامنے بھنی ہوئی بطخ کا گوشت اور ڈبل روٹی دودھ رکھ دیا۔
’’ کھاؤ میرے بچے۔ تمہارے کپڑے بھی تو پھٹ گئے ہیں۔ میں تمہارے لیے کپڑے لاتی ہوں۔ ‘‘
مادام اندر چلی گئی۔ ٹام کو بڑی بھوک لگی تھی۔ اس نے جلدی جلدی ڈبل روٹی کے ساتھ بطخ کا گوشت کھانا شروع کر دیا۔ ایک عرصے کے بعد اسے یہ نعمتیں کھانے کو ملی تھیں۔ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ اتنے میں مادام ڈرائنگ روم میں نمودار ہوئی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا انگر یز بھی تھا جس کی مونچھیںگھنی تھیں۔
’’ ہنری! یہ ہے مسٹر ٹام۔‘‘
’’ہیلو ٹام۔‘‘
’’ ہیلو سر۔‘‘
’’ مسٹر ٹام۔تم کون سے جہاز میں سفر کر رہے تھے؟‘‘
’’ اس جہاز کا نام ڈیون شائر تھا جناب۔‘‘
بوڑھے ہنری کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’ارے! تو کیا ڈیون شائر سمندر میں غرق ہو گیا؟ وہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی کا سب سے بڑا جہاز تھا۔ ‘‘
’’ڈیون شائر میری آنکھوں کے سامنے غرق ہوا جناب۔ اسے خوفناک طوفان نے گھیر لیا۔ دیکھتے دیکھتے وہ سمندری چٹانوں سے ٹکرایا اور اس کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ ہم لوگ بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچا سکے۔‘‘
’’کپتان اور باقی مسافروں کا کیا ہوا؟‘‘
’’ بہت سے ڈوب گئے۔ جو باقی بچے انہیں کپتان ساحل پر لے کر آ گیا۔ مگر افسوس کہ انہیں وحشی آدم خوروں نے ہلاک کر دیا۔‘‘
بوڑھے ہنری نے افسوس کا اظہار کیا اور ٹام سے پوچھا کہ کیپ ٹاؤن میں وہ کسی کو جانتا ہے۔ ٹام نے جب اس نیک دل بوڑھے کو بتایا کہ اس کا اس دنیا میں ایک ہی چچا تھا جسے آدم خوروں نے قتل کر دیا تو انہوں نے اس سے بڑی ہمدردی کی اور کہا:
’’ بیٹے!اس گھر کو تم اپنا ہی گھر سمجھو۔ ہم دونوں میاں بیوی سالہا سال سے اس گھر میں اکیلے رہتے ہیں۔ ہم یہ سمجھیں گے کہ ایک مدت کے بعد ہمیں اپنا کھویا ہوا بیٹا مل گیا ہے۔‘‘
ٹام کو زندگی میں پہلی بار ماں باپ کی شفقت ملی تھی۔ اس کے دل میں ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کے لیے بے حد پیار کا جذبہ بیدار ہو گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے اپنے ماں باپ بوڑھے ہو کر اس کی آنکھوں کے سامنے آگئے ہوں۔ مادام نے ٹام کو اپنے سینے سے لگا کر بڑا پیار کیا۔ ٹام کو اپنی ماں یاد آگئی۔
’’تم بڑے بہادر بیٹے ہو ٹام۔ افریقہ کے خطرناک جنگل عبور کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘
ٹام نے غسل کیا۔ نئے کپڑے پہنے۔ جوتے میں سے قیمتی پتھر نکال کر اپنی جیب میں رکھے اور سو گیا۔
اگلے روز وہ اٹھا تو بے حد تروتازہ محسوس کر رہا تھا۔ اُسے مادام کے گھر میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا۔ بوڑھا ہنری بندرگاہ پر نوکری کرتا تھا۔ اب اسے پنشن ملتی تھی۔ ٹام کے ساتھ دونوں میاں بیوی بے حد محبت کرتے تھے۔ حالانکہ ٹام سے انہیں کوئی لالچ نہیں تھا۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ اس اثنا میں ٹام نے انہیں کچھ نہ بتایا کہ اس کے پاس دو انتہائی قیمتی پتھر موجود ہیں۔ وہ اس راز کو افشا کرتے ہوئے گھبرا رہا تھا۔ لیکن ایک روز اس نے دونوں میاں بیوی کے سامنے یہ راز اگل دیا۔
اس روز بوڑھا ہنری ٹام کو اپنے ساتھ ایک دفتر میں لے گیا جہاں جاکر اس نے اپنے ایک حلفیہ بیان پر دستخط کئے۔ اس بیان کی رو سے اس نے اپنی وصیت میں مرنے کے بعد آدھی جائیداد غریبوں کے ہسپتال کے نام اور آدھی جائیداد اپنی بیوی اور ٹام کے نام چھوڑ دی تھی۔ ٹام بوڑھے ہنری کی اس قربانی سے بڑا متاثر ہوا۔ اس نے گھر واپس آتے ہی مادام اور بوڑھے ہنری کو بتا دیا کہ اس کے پاس دو انتہائی قیمتی ہیرے موجود ہیں۔ جب اس نے سرخ رنگ کا شاندار لعل اور یاقوت جیب میں سے نکال کرمیز پر رکھے تو دونوں میاں بیوی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
’’مائی گاڈ! یہ تو بڑے قیمتی ہیرے معلوم ہوتے ہیں۔ میرے بچے! یہ تمہیں کہاں سے مل گئے؟‘‘
ٹام نے سچ بولتے ہوئے انہیں صاف صاف ساری کہانی سنادی کہ کس طرح اس کا چچا ان ہیروں کولے کر ہندوستان سے چلا۔ پھر کس طرح جہاز غرق ہوا۔ پھر وہ آدم خور وحشیوں کے قیدی بنے۔ پھر کیسے ایک رات اس کا چچا ہیرے لے کر فرار ہوا اور راستے میں حبشیوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ بوڑھے ہنری اور مادام نے اس کی کہانی پر اعتبار کر لیا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ٹام جھوٹ نہیں بولتا۔ ٹام نے کہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ ان پتھروں کو کسی جوہری کے پاس بیچ دیاجائے۔‘‘
بوڑھا ہنری یاقوت کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا:
’’ کیپ ٹاؤن کا ایک پرانا جو ہری میرا اپنا آدمی ہے۔ کل اس کے پاس تمہیں لے چلوں گا۔‘‘
دوسرے دن ٹام بوڑھے ہنری کے ساتھ جوہری کی دکان پر گیا۔ جوہری بھی ہنری کی عمر کا تھا اور اس کی بھوؤں کے بال بھی سفید ہو گئے تھے۔ علیک سلیک کے بعد ہنری نے ٹام کا اس سے تعارف کر وایا اور پھر کہا:
’’ اس نوجوان لڑکے کو افریقہ کے جنگلوں سے دو قیمتی پتھر ملے ہیں۔ یہ انہیں تمہارے پاس فروخت کرنا چاہتا ہے۔ ذرا دیکھ کر بتائو تو ان کی قیمت کیا ہوگی؟‘‘
اور جب ٹام نے لعل اور یاقوت بوڑھے جوہری کی میز پر رکھے تو جوہری کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ وہ کتنی ہی دیر بت بنا لعل اور یاقوت کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے ٹام کی طرف حیرت سے دیکھا اور بولا:
’’بیٹے تم بڑے خوش قسمت ہو۔ یہ ہیرے تو کسی شہنشاہ کے تاج میں لگنے کے قابل ہیں۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں اس سے زیادہ قیمتی ہیرے نہیں دیکھے۔
بوڑھا ہنری بولا:
’’اگر یہ سچ ہے تو کیا خیال ہے ان دونوں پتھروں کی قیمت کیا ہو گی ؟‘‘
’’قیمت؟‘‘ بوڑھا جو ہری پر تنک کر بولا۔’’ اس کی قیمت تو کوئی بادشاہ ہی ادا کر سکتا ہے۔‘‘
’’پھر بھی تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر تم اسے خرید و تو کتنی رقم اداکر سکتے ہو؟‘‘
بوڑھے جوہری نے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوڑھے ہنری کی طرف دیکھا:
’’پیارے ہنری! تم میرے پچاس سال کے پرانے دوست ہو۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کتنا دولت مند ہوں اور کتنا غریب ہوں۔ اگر میں اسے خرید بھی لوں تو اس وقت زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ پونڈ ادا کر سکتا ہوں۔‘‘
ایک لاکھ پونڈ کا سن کر بوڑھا ہنری غش کھاتے کھاتے بچا۔ وہ ذرا لڑکھڑا ضرور گیا اور کان پر ہاتھ رکھ کر بولا:
’’کیا کہا۔ ایک لاکھ پونڈ!‘‘
’’ہاں پیارے ہنری، ایک لاکھ پونڈ۔ اس کے لیے بھی مجھے اپنافارم فروخت کرنا ہوگا۔ نقد ادائیگی میں صرف پچاس ہزار پونڈ کی کرسکتا ہوں۔ بولو۔ کیا منظور ہے؟‘‘
ہنری نے ٹام کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ چونکہ مال اُس کاہے اس لیے وہی اس بارے میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ٹام نے ہامی بھر لی۔ سودا طے ہو گیا۔ اسی وقت ایک دستاویز لکھی گئی۔ دوپہر کو عدالت کی طرف سے اس پر مہر بھی لگا دی گئی۔ شام کو بوڑھے جوہری نے پچاس ہزار پونڈ ادا کر دیئے اور پچاس ہزار پونڈ کا اقرار نامہ لکھ دیا۔
اتنے ڈھیر سارے سونے کے پائونڈ لے کر ٹام اور ہنری گھر آئے تو بوڑھی ما دام دنگ رہ گئی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ دوسرے دن بوڑھے ہنری نے پہلا کام یہ کیا کہ ساری کی ساری رقم ٹام کے نام سے بنک میں جمع کر وا دی۔ کچھ رقم ٹام نے اپنے پاس رکھ لی۔ اس رقم سے اس نے اپنے اور ہنری مادام کے لیے بہترین کپڑوں کی پوشاکیں سلوائیں۔ اپنے اور ہنری کے لیے نئے ہیٹ اور بوٹ خریدے۔ اس رات انہوں نے رات کا کھانا ایک شاندار ہوٹل میں کھایا۔ ٹام نئے اور قیمتی کپڑوں میں نوعمر شہزادہ معلوم ہو رہا تھا جو کسی یورپی ملک سے کیپ ٹاؤن، شہر میں سرکاری دورے پر آیا ہو۔
جہاز باؤنٹی کی آمد
ایسٹ انڈیا کمپنی کے مشہور و معروف جہاز ’’ڈیون شائر‘‘ کو سمندر میں ڈوبے آٹھ برس گزر گئے تھے۔ اس دوران میں سارے یورپ میں جہاز کی غرقابی پر بڑا واویلا مچا۔ کسی کو خبر تک نہ ہو سکی کہ جہاز کے مسافروں پر کیا بیتی۔ کپتان کہاں گم ہو گیا اور خزانہ کہاں چلا گیا۔ کمپنی کے کارندوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ جہاز کا ڈوبا ہوا خزانہ سمندر سے نکالا جائے مگر وہ ہر بار ناکام رہے۔ جب بھی کوئی جہاز وہاں آتا تو سمندر میں ایسا طوفان اٹھتا کہ یا تو وہ جہاز غرق ہو جاتا اور یا خوفزدہ ہو کر وا پس بھاگ جاتا۔ ملاح اور جہاز کے کپتان سمندر کے اس حصے کی طرف جاتے ہوئے گھبرانے لگے تھے، انہیں یقین سا ہو گیا تھا کہ سمندر میں ڈوبے ہوئے خزانے پہ بدروحوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ روحیں کسی کو بھی اس خزانے تک پہنچنے نہیں دیتیں۔
اس دوران میں ایک جہاز ’’باؤ نٹی‘‘ کے کپتان نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈوبے ہوئے خزانے کو ضرور ڈھونڈھ نکالے گا۔ اس کا کپتان ’’مسٹر الفرڈ‘‘ تھا جو ایک بہادر اور نڈر کپتان تھا۔ اسے بدروحوں پر بالکل یقین نہیں تھا۔ کمپنی نے اسے ہر طرح کی سہولت دینے کا اعلان کر دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر وہ خزانہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اسے خزانے کا چوتھائی حصہ انعام کے طور پر دے دیا جائے گا۔ کپتان الفرڈ اپنا جہاز باؤنٹی لے کر جنوب مغربی افریقی کے سمندروں کی طرف چل پڑا۔ آپ نے اپنی کتابوں میں جہاز باؤ نٹی کا حال ضرور پڑھا ہوگا۔ یہ وہی مشہور تاریخی جہاز تھا جس کی بغاوت کا ذکر ہمیں انگریزی تاریخ میں ملتا ہے۔ باؤنٹی جہاز بہت بڑا جہاز تھا۔ یہ کسی طرح بھی ’’ڈیون شائر‘‘ سے کم نہیں تھا۔ اس پر بھی بحری ڈاکوؤں سے بچنے کے لیے بڑی بڑی توپیں لگی ہو ئی تھیں۔ اس کا عملہ بڑا تجربہ کار اور بہادر تھا۔ کپتان الفرڈ بذات خود اس مہم کی نگرانی کر رہا تھا۔ انگلستان کے ساحل سے چل کر یہ جہاز سفر کرتا ہوا کوئی دو مہینوں میں اس مقام پر پہنچا جہاں آٹھ نو برس پہلے ڈیون شائر غرق ہوا تھا۔ کپتان نے گیارہ میل دور جہاز کو لنگر انداز کر دیا۔
اب کپتان غوطہ خوروں کو سمندر کے نیچے خزانے تک پہنچانے کی تیاریاں کرنے لگا۔ کپتان غوطہ خوروں کو لے کر ایک کشتی میں سوار ہوا اور ساحلی چٹانوں والے علاقے میں اس جگہ آگیا جہاں جہاز ڈوبا تھا۔ اسے یقین تھا کہ خزانہ ابھی تک وہیں سمندر کی تہہ میں موجود ہوگا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ خزانہ جہاز کی نچلی تہہ کے ایک لوہے کے کمرے میں بند تھا۔ کپتان کے اندازے کے مطابق جہاز کی دوسری اشیا سمند ر میں بہہ کر آگے نکل سکتی تھیں مگر لوہے کا کمرہ بھاری ہونے کی وجہ سے آگے نہیں کھسک سکتا تھا۔ سب سے پہلے اس نے دو غوطہ خوروں کو نیچے بھیجا۔ غوطہ خور نیچے جا کر چٹانوں میں جہاز کے ملبے کو تلاش کرتے رہے۔دو روز اسی تلاش میں گزر گئے۔تیسرے روز جہاز کا ملبہ مل گیا۔ جہاز کے کئی ٹکڑے ہو گئے تھے۔ غوطہ خوروں نے اوپر آکر کپتان کو اطلاع دی کہ جس کمرے میں خزانہ ہے وہ دو چٹانوں کے بیچ میں پھنسا ہوا ہے۔ کپتان نے حکم دیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو خزانے تک پہنچ کر اسے حاصل کیا جائے۔ غوطہ خوروں نے ایک بار بھر سمندر میں ڈبکی لگائی اور غوطہ لگا کر تہہ میں پہنچ گئے، وہ کئی چٹانوں میں سے گزر کر آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں خزا نہ موجود تھا۔ ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ لوہے کے کمرے کا دروازہ ٹوٹ کر ریت میں دھنسا ہوا ہے اور خزانے کے جواہرات اور سونے کی موٹی موٹی سلاخیں ادھر ادھر تہہ میں بکھری پڑی ہیں۔ انہوں نے جلدی جلدی دو چار سونے کی سلاخیں اٹھائیں اور اوپر آگئے۔
کپتان الفرڈ نے سونے کی سلاخیں دیکھیں تو خوشی سے ایک نعرہ لگایا۔ اب وہ دوسرے غوطہ خوروں کو بڑے بڑے تھیلے دے کر نیچے بھیجنے لگا۔ تا کہ جتنی جلدی ہوسکے سارا خزانہ او پر لایا جائے۔
غوطہ خوروں نے تھیلے اپنی کمر کے سامنے باندھے اور وہ غوطہ لگانے کے لیے پر تول ہی رہے تھے کہ یکا یک سمندر میں طوفان آ گیا ۔ آسمان پر ایک بھی ٹکڑا بادل کا نہیں تھا۔ ہوا بھی تیز نہیں چل رہی تھی۔ کسی طرف بھی سمندری طوفان کے آثار نہیں تھے لیکن اس کے باوجود سمندر میں پہاڑ ایسی موجیں اٹھنا شروع ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان خوفناک شور مچاتی لہروں نے کشتی کو کپتان اور غوطہ خوروں سمیت الٹا کر رکھ دیا۔ کشتی کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ غضب ناک لہریں کشتی کو بار بار پٹخا رہی تھیں۔ کپتان اور غوطہ خور بڑی مشکل کے ساتھ سمندر میں تیر کر اپنے جہاز تک پہنچے۔ وہ دس میل تک سمندر میں تیرتے چلے گئے۔ جب وہ اپنے جہاز پر پہنچے تو ان کے سانس اکھڑے ہوئے تھے اور یوں لگتا تھا کہ ابھی ان کا دم نکل جائے گا۔
کپتان حیران تھا کہ یہ طوفان کہاں سے آگیا۔ ملاحوں نے سن رکھا تھا کہ ڈیون شائر کے ڈوبے ہوئے خزانے پر بدروحوں کا قبضہ ہے، اب جو بغیر کسی بادل اور آندھی کے طوفان آیا تو انہیں یقین ہو گیا خزانے پر بدروحوں نے قبضہ جما رکھا ہے اور اگر انہوں نے دوبارہ غوطہ لگایا تو رو حیں ان سے ضرور انتقام لیں گی اور انہیں ہلاک کر دیں گی۔ وہ ڈر گئے تھے مگر کپتان نے حوصلہ نہیں ہارا تھا۔ وہ ایک بار پھر خزانے کو حاصل کرنے کی تیاریاں کرنے لگااور پھر اب تو اس نے اپنی آنکھوں سے سونے کی سلاخیں دیکھ لی تھیں۔ اب وہ کسی طرح بھی اس مہم سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھا۔ افسوس کہ سمندر سے حاصل کی ہوئی سونے کی سلاخیں واپس سمندر کی نذر ہو گئی تھیں۔ پھر بھی کپتان کو یقین تھا کہ وہ انہیں دوبارہ حاصل کر لے گا۔ وہ طوفان گزر جانے کا انتظار کرنے لگا۔
رات بھر سمندر میں طوفانی کیفیت رہی۔ صبح ہوئی تو سمندر ایک بار پھر سکون کی حالت میں تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں کبھی کوئی طوفان نہیں آیا۔ کپتان نے حکم دیا کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غوطہ خور تیار ہو جا ئیں۔ ملاح بڑے وہمی تھے۔ غوطہ خور بھی ذرا ہچکچائے ۔ مگر کپتان کی ایک ہی ڈانٹ نے ان کے دلوں سے سارے وہم نکال دیئے۔ انہوں نے غوطہ خوری کا سامان پہنا۔ کشتی میں سوار ہوئے اور کپتان کے ساتھ اسی مقام پر آگئے جہاں کل انہیں سونے کی سلاخیں ملی تھیں۔ انہوں نے کپتان کے اشارہ کرنے پر چمڑے کے تھیلے کمر کے ساتھ باندھے اور سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ یہ دو غوطہ خور تھے۔ رات کے طوفان نے سمندر کے پانی کو کچھ گد لا کر دیا تھا۔ پھر بھی سطح پر چمکتی ہوئی تیز دھوپ کی روشنی صاف نیچے تک آرہی تھی اور انہیں سمندر کی ہرشے دکھائی دے رہی تھی۔ جب وہ ان چٹانوں کے درمیان پہنچے جہاں کل جہاز کا خزانہ انہوں نے دیکھا تھا تو وہ یہ معلوم کرکے حیران رہ گئے کہ وہاں کوئی بھی خزانہ نہیں تھا۔ لوہے کاآہنی کمرہ کھسک کر بہت پیچھے پتھروں میں جا چکا تھا۔ اور کل جو سمندر کی تہہ میں سونے کی سلاخیں بکھری ہوئی تھیں آج ان میں سے ایک بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
غوطہ خور سطح سمندر پر نکل آئے۔ انہوں نے ساری صورت حال سے کپتان کو باخبر کیا۔ کپتان پہلے تو بڑا حیران ہوا کہ خزانہ وہاں موجود نہیں، پھر اس نے غوطہ خوروں کو ڈانٹ کر کہا:
’’خزانہ کہیں نہیں جا سکتا۔ وہ ضرور وہیں کہیں ہوگا۔ اسے دوبارہ جاکر تلاش کرو۔‘‘
غوطہ خوروں نے ایک بار پھر ڈبکیاں لگا دیں۔ اب وہ آہستہ آہستہ سمندر کی تہہ میں ان گہری چٹانوں کے پاس اترنے لگے جہاں خزانہ کھسک کر چلا گیا تھا۔ یہاں پانی کا دباؤ زیادہ تھا اور غوطہ خوروں کو نیچے جاتے ہوئے دقت محسوس ہو رہی تھی۔ پھر بھی وہ کپتان کے حکم کے مطابق برابر نیچے گہرے پانیوں میں اُترتے چلے جا رہے تھے۔ دونوں غوطہ خور ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک انہیں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بہت بڑا سایہ ان کے اوپر سے گزر گیا ہو۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف تعجب سے دیکھا۔ مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ پھر آگے بڑھنے لگے۔ اب انہیں چٹانوں کے بیچ میں بکھرا ہوا خزانہ صاف نظر آنے لگا تھا۔ ان کی آنکھوں میں کامیابی کی چمک آگئی۔ ابھی وہ خزانے سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ وہی سایہ ایک بار پھر ان کے اوپر سے گزرا۔ انہوں نے چونک کر دیکھا تو اُن کے بدن میں خون جم گیا۔ سامنے کوئی بارہ چودہ فٹ کے فاصلے پر ایک بہت بڑی شارک مچھلی اپنے خونی دانت کھولے ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ انہوں نے پریشان ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اوپر اٹھنے کا اشارہ کیا۔ ابھی وہ اوپر اٹھ ہی رہے تھے کہ شارک نے ان پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ وہ سنبھل بھی نہ سکے اور شارک ایک غوطہ خور کی پوری کی پوری ٹانگ کاٹ کر آگے نکل گئی۔ غوطہ خور تڑپنے لگا۔ پانی میں خون پھیل گیا۔ دوسرے غوطہ خور نے اسے سنبھالا دیا اور اوپر اٹھانے لگا۔
اب شارک دوسری بار حملہ کرنے کے لیے آئی۔
اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اور لمبے لمبے دانتوں میں غوطہ خور کے خون کا نشان تھا۔ انسانی خون کے ذا ئقے نے شارک کو پاگل کر دیا تھا۔ وہ پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھی اور اپنے بلیڈ ایسے تیز دانتوں سے زخمی غوطہ خور کی کمر کو دو حصوں میں کاٹ کر آگے بڑھی دوسرے غوطہ خور نے دہشت زدہ ہو کر رسی زور سے کھینچی اور اسے فوراً اوپر کھینچا جانے لگا۔ لیکن شارک اسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔ اس نے ایک غوطہ خر کو تو ہلاک کر دیا تھا۔ اب دوسرے غوطہ خور کو صاف بچ کر جاتے دیکھ کر وہ غصے میں دیوانی ہو گئی۔ اس نے دوسرے غوطہ خور پر بھی حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اس قدر شدید اور خوفناک تھاکہ پانی ہی میں غوطہ خور کی چیخ نکل گئی۔ مگر وہاں اس کی چیخ سننے والا سوائے اس کے اور کوئی نہیں تھا۔ چیخ کی آواز بھی نہ نکل سکی۔ صرف اس کے منہ کے آگے پانی میں چند بلبلے سے اٹھے اور پھٹ گئے۔ اُس پر نیم بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے خون پھیلتا نظر آیا۔ یہ خون اس کے اپنے جسم کا خون تھا۔
شارک نے پیچھے سے حملہ کر کے اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی تھیں۔ غوطہ خور پر غنودگی اور نقاہت طاری ہونے لگی۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے خزانے کی بدرو حیں اس کی آنکھوں کے سامنے سے قہقہے لگاتی ہوئی گزر رہی ہیں۔ رسی کے ذریعے سے اسے برابر اوپر کھینچا جا رہا تھا۔ مگر وہ بے ہوش ہو چکا تھا اور اس کی گردن لٹک گئی تھی، شارک ایک بار پھر حملہ کے لیے بڑھی۔ اب کے اس کے چھریوں ایسے دانت رسی کو کاٹتے ہوئے غوطہ خور کے سینے میں اتر گئے۔ دونوں غوطہ خور مر گئے اور شارک انہیں دانتوں میں دبا کر بھاگ گئی۔
اوپر سطح سمندر پر کپتان خود رسی کھینچ رہا تھا۔ اسے اچانک محسوس ہوا جیسے رسی ہلکی ہو گئی ہے۔ اور پھر رسی کا خون آلود سرا اس کے ہاتھ میں آ گیا۔ دونوں غوطہ خور سمندر کی تہہ میں رہ گئے تھے۔ کپتان ابھی اس المناک حادثے پر غور ہی کر رہا تھا کہ سمندر کا پانی خون آلود ہو گیا۔ ملاحوں کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
’’ شارک نے انہیں کھا لیا۔‘‘
’’خاموش!‘‘ کپتان نے چیخ کر کہا۔
لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد کپتان کو بھی یقین کرنا پڑا کہ اس کے دو بہترین غوطہ خوروں کو شارک مچھلی نے ہلاک کر دیا ہے۔ اسے بے حد دکھ ہوا۔ مگر وہ اپنی ضد پر برابر قائم تھا۔ خزانے کی تلاش ترک نہیں کی جائے گا۔ کل میں خود نیچے اتروں گا۔ اتنا کہہ کر وہ کشتی کو لے کر واپس اپنے جہاز باؤ نٹی پر آگیا۔ ساری رات جہاز پر ایک سوگ کی سی حالت طاری رہی۔ ملاح اپنے ساتھی غوطہ خوروں کی موت پر غمگین رہے۔ کپتان اپنے کیبن میں بیٹھا اگلے روز سمندر میں غوطہ لگانے کے بارے میں غور کرتا رہا۔
طوفانی لہر
سمندر پر دھوپ خوب چمک رہی تھی۔ کپتان نے ایک لمبا چھرا اپنے پہلو سے لٹکایا۔ چمڑے کا تھیلا ہاتھ میں لیا اور سمندر میں غوطہ لگا گیا۔ کپتان ایک بہادر آدمی تھا اور اس سے پہلے بھی وہ مقابلہ کر کے کئی شارک مچھلیوں کو ہلاک کر چکا تھا، اس کے دل میں شارک مچھلی کا ذرا سا بھی خوف نہیں تھا۔ اس کے ذہن پر تو ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح خزا نے کا سونا اور جواہرات حاصل کئے جائیں۔ اور پھر اب جب کہ اس نے سونے کی سلامیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھیں اسے کوئی بھی طاقت سمندر میں اترنے سے باز نہ رکھ سکتی تھی۔ کروڑوں پونڈ کا خزانہ اگر وہ تلاش کر لیتا تو کمپنی کے معاہدے کے مطابق وہ اس کے چوتھائی حصے کا حقدار تھا۔ جو اتنا کافی تھا کہ جس کی مدد سے وہ اپنا ایک ذاتی جہاز خرید کر تجارت کر سکتا تھا۔ اس خیال نے اسے مزید قوت عطا کی اور وہ بڑی تیزی سے سمندر کے نیچے اترنے لگا ۔سمندر کی تہہ میں لہریں پر سکون تھیں۔ سطح پر چمکتی ہوئی تیز دھوپ کی روشنی میں اسے ہرشے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ چھوٹی چھوٹی بے شمار مچھلیاں اس کے سامنے سے گزر رہی تھیں۔ کپتان برابر نیچے اترتا گیا۔ اب اسے پانی کا دباؤ محسوس ہونے لگا تھا اور اس کی رفتار سست ہو گئی تھی۔ کافی نیچے جا کر اسے ڈوبے ہوئے جہاز کے مستول نظر آئے۔ اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ وہ بہت چوکس تھا اور چاروں طرف بڑے غور سے دیکھتا جا رہا تھا کہ کہیں کو ئی شارک اس پر اچانک حملہ نہ کر دے۔ لمبا چھرا اس کے داہنے ہاتھ میں تھا۔ وہ شارک کے مقابلے کے لیے با لکل تیار تھا۔ مگر شارک دو غوطہ خوروں کو ہلاک کر نے کے بعد بہت دور سمندری چٹانوں کی طرف جا چکی تھی۔ اب ایک اور بلا اس کاانتظار کر رہی تھی۔
کپتان جہاز کے ملبے میں پہنچ گیا تھا۔ اُسے چٹان کے بیچ میں ایک توپ پھنسی ہوئی نظر آئی۔ وہ اس توپ کے اوپر سے گزر گیا۔ اب اسے دو بڑے بڑے پتھروں میں پھنسا ہوا لوہے کا وہ کمرہ دکھائی دیا جس میں خزانہ بند تھا۔ لوہے کا دروازہ ٹوٹ چکا تھا اور سمندر کی لہریں خدا جانے اسے بہا کر کہاں لے گئی تھیں۔ کپتان آہستہ آہستہ لوہے کے کمرے کے پاس آگیا۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ اندر ایک بھی صندوق نہیں تھا۔ اس نے حیرانی سے چاروں طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ یا خدا خزانہ کدھر گیا ۔ایکبارگی اس کی نگاہ داہنی جانب چٹانوں کے درمیان ریت میں دھنسی ہوئی سنہری سلاخوں پر پڑی۔ وہ تیزی کے ساتھ اس طرف بڑھا۔ یہ سونے کی سلا خیں تھیں جو آدھی ریت میںدھنس چکی تھیں۔ کپتان نے چمڑے کا تھیلا کمر کے ساتھ سے کھولا اور سونے کی سلاخوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ابھی اس کا ہاتھ سونے کی سلاخوں کو چھوا بھی نہیں تھا کہ ایک زبردست گڑگڑا ہٹ کی آواز پیدا ہوئی اور پھر جیسے سمندر کے نیچے زلزلہ آ گیا۔ کپتان جس چٹان پر کھڑا تھا وہ ایک طرف کو لڑھک گئی اور کپتان نیچے گر پڑا۔ ابھی وہ اٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اچانک اسے ایک طرف سے سمندر کی تہہ پھٹتی نظر آئی۔ ایک خوفناک گرج پیدا ہوئی اور چٹان کے پرخچے اڑ گئے۔ چاروں طرف سمندر میں بھونچال سا آ گیا تھا۔ ہرشے تہس نہس ہو رہی تھی۔ سمندر کی تہہ سے گرم گرم لاوے کی بوچھاڑ بلند ہوئی اور پانی ایکدم گرم ہوگیا۔ کپتان کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ اس نے رسی کو زور سے کھینچا اور اوپر کی طرف غوطہ لگا دیا۔ اوپر سمندر کی سطح پر کشتی میں بیٹھے ہوئے ملاحوں نے کپتان کا اشارہ پاتے ہی بڑی تیزی سے رستی کھینچنی شروع کر دی۔
طوفان اوپر بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ اور جب کپتان تھکا ماندہ، خالی ہاتھ کشتی میں واپس آیا تو سمندر میں طوفانی لہریں اٹھنے لگی تھیں۔ آسمان پر سیاہ بادل گرج رہے تھے۔ بجلی کڑک رہی تھی اور کشتی کھلونے کی طرح سمندر کی طوفانی موجوں پر اچھل رہی تھی۔ کپتان نے چیخ کر کہا:
’’واپس جہاز پر چلو۔ جلدی۔‘‘
اور ملاحوں نے بڑی برق رفتاری سے کشتی کو جہاز کی طرف کھینا شروع کر دیا۔ لیکن سمندری موجیں ہر قدم پر کشتی کو روک رہی تھیں۔ ایسے لگتا تھا جیسے سمندر کشتی کو غرق کر دینے کی فکر میں ہے۔ جہاز بھی کافی دور تھا۔ پھر ایک قیامت خیز موج اٹھی اور اس نے کشتی کو اٹھا کر دور پھینک دیا۔ کشتی بے کسی کے عالم میں ایک چٹان سے ٹکرائی اور اس کے ٹکڑ ے دور دور تک اڑ گئے۔ اس حادثے میں کپتان کے سوا سارے ملاح ہلاک ہو گئے۔ کپتان کشتی میں سے اچھل کر سمندر میں گر پڑا اور بڑی دقت کے ساتھ طوفانی موجوں سے لڑتا اپنی جان بچا کر جہاز پر پہنچا۔
جہاز بھی طوفان میں بری طرح ڈول رہا تھا۔ موجیں اسے لکڑی کے کھلونے کی طرح کبھی دائیں کبھی بائیں پھینک رہی تھیں۔ کپتان نے جہاز پر سوار ہوتے ہی محسوس کر لیا کہ اگر اس نے ذرا بھی دیر کی تو طوفان اس کے جہاز کے بھی پر خچے اڑا دے گا۔ اس نے حکم دیا کہ جہاز کا لنگر اٹھا دیا جائے۔ ملاح لنگر اٹھانے کے لیے آگے بڑھے تو ایک ہیبت ناک لہر اٹھی اور جہاز کے اوپر سے دوسری طرف گزر گئی۔ اس طوفانی لہر کی لپیٹ میں آکر بارہ ملاح سمندر میں غرق ہو گئے۔ کپتان نے خود چرخی سنبھال لی اور چیخ کر کہا:
’’بادبان سمیٹ کر لنگر اٹھا دو۔‘‘
مگراب لنگر اٹھانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ کیونکہ ایک بہت بڑی طوفانی موج نے جہاز سے ٹکرا کر اس کے لنگر کو توڑ ڈالا تھا اور اب جہاز بے رحم موجوں کے رحم و کرم پر سمندر میں ایک لکڑی کے چھوٹے سے صندوق کی مانند تیر رہا تھا۔ آندھی کے شور اور موجوں کے چیخ چیخ کر جہاز سے ٹکرانے کی آوازوں سے وہاں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سمندر کے نیچے کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا تھا۔ لہروں میں جا بجا بڑے بڑے بھنور پیدا ہو رہے تھے۔ کئی جگہوں پر پانی کھولنے لگا تھا اور بھاپ کے بادل اٹھ رہے تھے۔ بے شمار مردہ مچھلیاں بپھرتی موجوں پر تیرتی نظر آ رہی تھیں۔ کپتان کو صرف ایک ہی بات کا ڈر تھا کہ کہیں سمندر کے نیچے سے کوئی جزیزہ نہ ابھر آئے۔ ایسی صورت میں اس کے جہاز کے پرخچے اڑ جاتے۔ وہ تیز بارش، طوفانی آندھی اور اندھے سمندری طوفان میں بڑی مہارت اور ہمت کے ساتھ چرخی گھما گھما کر جہاز کو طوفان سے نکال کر کھلے سمندر کی طرف لے جانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ اگر جہاز کے بادبان کھلے ہوتے تو وہ یقیناالٹ کر پانی کی تہہ میں غرق ہو چکا ہوتا۔ لیکن بادبانوں کے سمٹ جانے سے ایک اور مشکل یہ پیدا ہو گئی تھی کہ جہاز کی رفتار سست ہو گئی تھی۔ اب وہ موجوں کے رحم وکرم پر تھا۔ موجیں جہاز کو ادھر سے ادھر بے بسی کے عالم میں اچھال رہی تھیں۔ کپتان ہر ممکن طریقے سے جہازکو سمندری چٹانوں سے بچانا چاہتا تھا۔ اس کی یہی کوشش تھی کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے ساحل سے دور کھلے سمندر میں نکل جائے۔ اور آخرایک طویل جد وجہد کے بعد وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔
جہاز باؤ نٹی کھلے سمندر میں آگیا تھا جہاں طوفان کا زور ساحلی چٹانوں کے مقابلے میں نسبتاً کم تھا۔ کھلے سمندر میں آتے ہی کپتان نے جہاز کے بادبان کھول دینے کا حکم دے دیا۔ بادبان کھول دیئے گئے اورجہاز پوری رفتار کے ساتھ انگلستان کی طرف روانہ ہو گیا۔
اس کے بعد کافی عرصے تک کسی کو ڈیون شائر جہاز کے ڈوبے ہوئے خزانے کو تلاش کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ مگر چھ سال بعد ایک ڈچ جہازران نے ہمت کی اور اس جگہ اپنا جہا ز لے کر پہنچ گیا جہاں اٹھارہ برس پیشتر ڈیون شائر ڈوبا تھا۔ لیکن اسی روز رات کے بارہ بجے سمند رمیں پہلے سے بھی زیادہ شدت کا طوفان اٹھا اور ڈچ جہاز کا لنگر ٹوٹ گیا۔ اس جہاز کو بچانے کی بہت کوشش کی گئی مگر وہ چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ اس جہاز کی غرقابی اور ڈچ ملاح کے عبرت ناک انجام کے بعد ایک بار پھر خاموشی چھا گئی اور لوگوں کو یقین ہو گیا کہ واقعی بدروحیںخزانے کی حفاظت کرتی ہیں۔
ادھر ہمارا نو عمر شہزادہ ٹام اب جوان ہو گیا تھا۔ بوڑھا ہنری اور مادام ہنری فوت ہو چکے تھے۔ ٹام نے ہیروں کے عوض ملی ہوئی دولت سے بہت بڑا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ اس نے اپنا ایک چھوٹا سا جہاز بنا لیاتھا۔ کیپ ٹاؤن میں ہر کوئی اس کی ایمانداری،سچائی اور خوش اخلاقی کی تعریف کرتا تھا۔ ٹام مادام اورہنری کا مخلص بیٹا ثابت ہوا تھا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ ان دونوں نیک دل بوڑھوں کی قبروں پر خالص سنگ مرمر کا گنبد بنوا دیا تھا بلکہ ان کے نام سے شہر میں ایک بہت بڑا ہسپتال بھی بنایا تھا جہاں بیماروں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ ٹام اپنے اس محسن کو بھی نہیں بھولا تھا جس نے مصیبت اور بدحالی میں اس کی مدد کی تھی اور اسے کرایہ دے کر کشتی میں سوار کرا یا تھا۔ ٹام خاص طور پر اس بوڑھے سے ملنے گیا اور قصبے میں اس کے لیے نیا مکان بنوایا۔ اسے ایک خوبصوت کشتی بنوا کر بھی دی۔ اس کے بعد ٹام نے افریقہ کے جنگلوں میں خولانی قبیلے کا سفر بھی کیا اور جس سردار نے اس کے ساتھ شفقت کا سلوک کیاتھا اسے بیش بہا تحفے دیئے۔
پیارے بچو! ٹام نے اپنی باقی زندگی کیپ ٹاؤن میں بڑی نیکی اور خوش اخلاقی سے بسر کی۔ آج اس واقعے کو کافی عرصہ بیت گیا ہے مگر کیپ ٹاؤن میں اس کے بنائے ہوئے ہسپتال میں آج بھی مریض علاج کروا کر شفا پاتے ہیں اور ٹام کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں، اس لئے کہ دنیا میں انسان کوئی بھی نیکی کرتا ہے تو وہ ضرور زندہ رہتی ہے اور لوگ اس نیک انسان کو ہمیشہ اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ادھر مغربی افریقہ کے سمندر میں آج بھی ڈیون شائر جہاز کا ڈوبا ہوا خزانہ موجود ہے۔ مگر کسی کو جرات نہیں ہو سکی کہ سمندر کی عمیق ترین گہرائیوں میں اتر کر اسے حاصل کر سکے۔