skip to Main Content

جھیل کا راز

ثریّا فرّخ
۔۔۔۔۔
(1)
’’کیا بوریت ہے، آدھی سے زیادہ چھٹیاں گزر چکیں اور ہم نے اب تک کُچھ نہ کیا۔ نہ کوئی سیر نہ تفریح۔ نہ کہیں گئے نہ آئے۔‘‘ عمران نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بھئی! امّی ابّو تو گرمیوں کی چھٹیوں میں کہیں جانے کا پروگرام ہی نہیں بناتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گرمی میں گھُومنا پھِرنا ٹھیک نہیں۔ اِس سے تو اچھا ہے کہ چھُٹیاں ہوں ہی نہیں۔‘‘ آصف نے کہا۔
’’اللہ کرے سیما اور عامر آ جائیں۔ کُچھ تو بوریت دُور ہو۔ ہاں کم از کم وہی یہاں ہوں تو ہم کُچھ کھیل کود لیں۔ پچھلے سال اُن کے آ جانے سے وقت اچھّا گُزر گیا تھا۔‘‘ عمران بولا۔
عمران، آصف اور عامر ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے اور اُن میں خوب دوستی تھی۔ یہ لوگ بیراج کالونی میں رہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی کالونی تھی جس میں تھوڑے سے انجینئر اور اُن کے عملے کے لوگ رہتے تھے۔ عمران اور آصف انجینئر کے بیٹے تھے۔ اور عامر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کالونی میں رہتا تھا، جو مزدوروں کے انچارج تھے۔ سیما اُس کی بہن تھی۔
اگلے دِن سیما اور عامر آ گئے۔ عمران اور آصف بہت ہی خوش ہوئے۔ ’’میرا خیال ہے، ہم صرف تین چار دِن ہی یہاں رہ سکیں گے۔‘‘
’’کیوں۔‘‘ عمران اور آصف ایک ساتھ بولے۔ ’’کیا تُم اپنے دادا کے پاس الہٰ آباد جا رہے ہو؟‘‘
’’نہیں بھئی۔ ہم لوگوں کا اِرادہ تو علی پُور جانے کا ہے، وہاں ہماری خالہ رہتی ہیں۔ خالو جان کا تھوڑے ہی دِن ہوئے انتقال ہوا ہے۔ اُن کے بس دو ہی بچّے ہیں۔ ساجد اور سلمیٰ۔ ساجد شاید چودہ برس کا ہے اور سلمیٰ اس سے ایک سال چھوٹی ہے۔‘‘ عامر نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔ ’’تُم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ بڑا مزہ آئے گا۔‘‘ سیما نے تجویز پیش کی۔
’’چلو چلتے ہیں۔ ابّو، امّی سے پوچھ لیں۔‘‘ آصف نے کہا۔ عمران کو علی پُور کے بارے میں بہت جاننے کی جلدی تھی۔ ’’یہ کیسی جگہ ہے؟ کیا وہاں خوب گھومنے پھِرنے کی جگہیں ہیں؟‘‘
’’بس یہ سمجھ لو کہ ہماری کالونی جیسی ہی ایک جگہ ہے۔ تھوڑے سے لوگ رہتے ہیں جو کہ علی پُور ڈیم کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔‘‘ عامر نے جواب دیا۔
’’پھر کیا مزا آئے گا؟ جیسے بیراج کالونی ویسے علی پُور۔ چھوڑو نہیں جاتے۔‘‘ عمران بولا۔
سیما نے کہا۔ ’’خواہ مخواہ تُم تو بور ہو گئے۔ بڑا مزا آئے گا۔ تم چلو تو سہی۔ یہ دریا کے قریب ہی ایک خوب صورت گاؤں ہے۔ ہم دریا کے کنارے جا کر پکنک منائیں گے اور پھر سلمیٰ اور ساجد بہت ہی اچھّے ہیں۔ تُم اُن سے مل کر بہت خوش ہو گے۔ میرا خیال ہے ہماری چھٹّیاں بہت اچھّی گُزریں گی۔‘‘
’’اچھا چلو! میں امّی ابّو سے اجازت لے لوں۔‘‘ عمران نے کہا۔ ان کو علی پُور جانے کی اجازت مل گئی اور وہ خوشی خوشی جانے کی تیّاریاں کرنے لگے۔
علی پور اُن کی بستی سے صرف 270 کلو میٹر دور تھا۔ اُن کو صُبح سویرے ریل سے جانا تھا۔ کوئی تین بجے یہ لوگ شمس آباد پہنچے، وہاں سے علی پُور تک بس سے جانا تھا تاکہ رات سے پہلے پہلے یہ لوگ علی پُور پہنچ جائیں۔
’’دیکھو! ذرا احتیاط سے سفر کرنا۔ ریل جب رُک جائے تو اُترنا اور اپنے سامان کی حفاظت کرنا۔‘‘ عامرکی امی نے سمجھایا۔
’’امّی آپ فکر نہ کریں، ہم اب بچّے نہیں ہیں۔ اچھّے خاصے بڑے ہو گئے ہیں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر پھر بھی!‘‘
’’ہاں امی آپ فکر نہ کریں اور میں وہاں پہنچتے ہی آپ کو خط بھیجوں گا۔‘‘
گاڑی نے سیٹی بجائی اور آہستہ آہستہ چلنا شروع ہو گئی۔ بچّوں نے ہاتھ ہلا کر امّی ابّو کو خُدا حافظ کہا۔
آصف نے ریل چلتے ہی صُراحی اُٹھائی، نہ جانے کیسے وہ اُس کے ہاتھ سے چھُوٹ گئی اور ڈبّے میں پانی ہی پانی ہو گیا۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے نہایت ناگواری سے کہا۔ ’’کمال ہے۔ تُم نے سارا ڈبّہ گندا کر دیا۔ میرا سب سامان خراب ہو جائے گا۔‘‘
’’مُجھے بہت افسوس ہے۔‘‘ آصف نے شرمندگی کہا اور جلدی سے اُس کا سامان اُٹھا کر سیٹ پر رکھ دیا۔ سیما نے بھی جلدی سے ایک پرانا تولیہ نکالا اور فرش خُشک کرنے لگی۔ عامر نے غور سے اُس شخص کو دیکھا۔ وہ بڑے کھُردرے مزاج کا آدمی لگ رہا تھا۔ اُس کا سامنے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا اور اُس نے کان میں سونے کی بالی پہن رکھی تھی۔
اگلے ہی اسٹیشن پر عامر نے پانی کی ایک بوتل خرید لی اور اُسے بھر لیا۔ اُن کا سفر آرام سے گزرا۔ سہ پہر کو وہ شمس آباد پہنچ گئے۔ شمس آباد کے اسٹیشن پر سلمیٰ اور ساجد اُنہیں لینے آئے تھے۔ گاڑی گھنٹہ لیٹ تھی مگر یہ لوگ خوش تھے کہ سفر اچھّا گُزر گیا۔ عامر نے اپنے دوستوں کا تعارف سلمیٰ اور ساجد سے کرایا۔ اور تھوڑی ہی دیر میں یہ لوگ ایک دوسرے سے گھُل مل گئے۔
سونے کی بالی والا آدمی بھی وہیں اُترا۔ اُس کے ساتھ جو آدمی تھا ساجد نے اُس کو دیکھ کر کہا۔ ’’یہ نادر علی ہے جو سیٹھ شیر علی کا سارا کاروبار سنبھالتا ہے۔ یہ جس ٹرک میں آیا ہے اُس کا نمبر بھی مُجھے معلوم ہے۔-2425 KAA ہے۔ مُجھے پتا ہے کہ یہ بھَٹّے سے اینٹیں لے کر جا رہا ہے۔‘‘
عامر اور آصف حیرانی سے اُس کی باتیں سُن رہے تھے۔ ’’ارے! میں تو بھُول ہی گیا۔‘‘ ساجد ہنسا۔ ’’تمہیں بھی کیا پتا کہ شیر علی اور نادر علی کون ہیں؟ چلو پھر کبھی بتاؤں گا۔‘‘
اچانک ایک زور کی آواز ہوئی۔ ایک بیل گاڑی ٹرک سے ٹکرا گئی تھی۔ بیل گاڑی پر ایک بچّہ بیٹھا ہوا تھا۔ غالباً اُس نے بیلوں کو ڈنڈا مارا ہو گا تو وہ بد حواس ہو کر ٹرک سے ٹکرا گئے۔ ٹرک ڈرائیور زور زور سے چیخنے لگا۔ ’’یُوں بچّوں کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ اچھّا خاصا نُقصان کر دیا۔ اب کون بھُگتے گا۔‘‘ اِسی دوران بچّے کا باپ بھی آ گیا۔ ٹرک ڈرائیور اب اس پر غصّہ کرنے لگا۔ ’’بتاؤ اب کون یہ نُقصان پورا کرے گا۔‘‘
’’چھوڑو چھوڑو، جانے دو۔‘‘ نادر علی نے ٹرک ڈرائیور کو سمجھا بُجھا کر ٹرک میں بٹھایا۔ ٹرک ڈرائیور غصّے سے بَڑبَڑاتا ہوا ٹرک اسٹارٹ کر کے لے گیا۔ سونے کی بالی والا آدمی ایک جیپ میں بیٹھ کر چل دیا۔
ساجد اپنے مہمانوں کو لے کر تانگے میں بیٹھ گیا۔ سامان رکھنے کے بعد تانگہ ہچکو لے کھاتا کچّی پکّی سڑک پر علی پُور کی طرف روانہ ہو گیا۔ سڑک کے دونوں جانب گھنا جنگل تھا۔ یہ علاقہ بیراج کالونی سے کہیں زیادہ سر سبز و شاداب تھا۔
(2)
جلد ہی یہ لوگ علی پُور پہنچ گئے۔ ساجد کی امّی بچّوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ اُن لوگوں نے مُنہ ہاتھ دھو کر چائے پی۔ پھر سلمیٰ نے کہا۔ ’’وہ کمرہ ہے، تُم لوگ اپنا سامان وہاں رکھ دو۔ یہاں تو اتنی گرمی ہوتی ہے کہ ہم لوگ رات کو باہر سوتے ہیں۔‘‘
ساجد اور سلمیٰ کے ابّو کی پرچون کی دُکان اُن کے گھر کے ایک حصّے میں تھی۔ اُن کے اِنتقال کے بعد اُن کی امّی یہ دُکان چلاتی تھیں۔ اِس دُکان سے اُن کی گُزر بسر کے لیے اچھّی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔
آصف نے دیکھا کہ صُبح سے خاصے گاہک آ رہے ہیں۔ اُس نے پوچھا۔ ’’خالہ جان! آپ کو تو اُس دُکان سے کافی پیسے مل جاتے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں بیٹا۔‘‘ اُنہوں نے جواب دیا۔ ’’اس کی آمدنی اتنی ہے کہ ہمارا گزارا ہو جاتا ہے۔ ساجد اور سلمیٰ نے اینٹوں کے بھَٹّے کے پاس ایک ٹی اسٹال کھول لیا ہے۔ اُس سے بھی کُچھ آمدنی ہو جاتی ہے۔ اینٹوں کا بھَٹّہ سیٹھ شیر علی کی مِلکیت ہے۔‘‘
’’یہ اینٹوں کا بھَٹّہ کہاں ہے؟ اور شیر علی کون ہے؟‘‘ عامر نے کہا۔
’’تم جب یہاں رہو گے تو تمہیں شیر علی کے بارے میں بہت کُچھ معلوم ہو جائے گا۔ وہ اچھّا آدمی ہے اور ہمارے ابّو کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ اس لیے اس نے ہمیں اپنے بھَٹّے کے قریب ٹی اسٹال کھولنے دیا ہے۔‘‘
عمران نے پوچھا۔ ’’کیا یہ بھَٹّہ یہاں سے قریب ہے؟ میرا تو دِل چاہ رہا ہے کہ تمہارا ٹی اسٹال دیکھوں۔‘‘
’’ضرور ضرور!‘‘ ساجد نے کہا۔ ’’ٹی اسٹال بھی دیکھنا اور میرے دوستوں سے بھی ملنا۔ بھَٹّہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ہم لوگ صُبح ناشتہ کے بعد ہی چلے جاتے ہے ہیں۔‘‘
اگلی صُبح ناشتہ سے فارغ ہو کر ساجد اور سلمیٰ نے چائے کا سامان کیتلی، پیالیاں اور پتّی چینی دُودھ وغیرہ لیا۔ اس کے ساتھ کپڑے کے تھیلوں میں پیکٹ مونگ پھلی چنے وغیرہ لے لیے۔
’’خُدا کرے سیٹھ شیر علی ہمیں ایک کمرہ دے دیں پھر تو روز روز کی اِس زحمت سے بچ جائیں گے۔ روز سارا سامان لے جانا پڑتا ہے۔ ساجد نے کہا۔
’’سیٹھ شیر علی بڑا ہی نیک بندہ ہے۔ اللہ اس کا بھلا کرے۔ اُس نے کمرہ دینے کا وعدہ تو کیا ہے۔‘‘ ساجد کی امّی سامان سمیٹے ہوئے بولیں۔ سب سامان لے کر ساجد اور سلمیٰ، عامر، آصف، عمران اور سیما کے ساتھ اینٹوں کے بھَٹّے کی طرف چل دیے۔
راستے میں ساجد نے اپنے دوست بابو سے اُن لوگوں کو بُلوایا۔ بابو کی سائیکل مرمّت کرنے کی دُکان تھی اور اُس کا بڑا بھائی اصغر پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھا۔ بابو نے بتایا کہ ’’اصغر بھائی آج کل بہت مصروف ہیں کیوں کہ اِس علاقے میں اسمگلروں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔‘‘ اسی دوران اصغر صاحب بھی گھر سے باہر نِکل آئے اور اُنہوں نے بتایا کہ دراصل سمندر یہاں سے قریب ہے۔ اِسی لیے اسمگلروں کو گھڑیاں، سونا ،کیمرے اور بجلی کا سامان اسمگل کرنے میں بڑی آسانی رہتی ہے۔ ایک مرتبہ ڈی ایس پی عبد الرحمان صاحب کی نگرانی میں بڑا چھاپا مارا گیا مگر افسوس کہ مُخبری سے اسمگلر فرار ہو گئے۔‘‘
’’اللہ کتنا اچھّا ہو اگر ہم کسی طرح اسمگلروں کو پکڑوا دیں۔‘‘ عامر کی آنکھیں اُمّید سے چمک اُٹھیں۔ ’’نہیں بھئی۔ آپ لوگوں کو اس خطرناک گروہ سے دُور ہی رہنا چاہیے۔‘‘ اصغر نے کہا۔ اصغر کے جانے کے بعدساجد اور سلمیٰ اُن سب کو لے کر اپنے ٹی اسٹال کو چل دیے۔
(3)
اینٹوں کے بھَٹّے میں کوئی باڑ وغیرہ تو نہیں لگی تھی البتّہ باہر ایک بڑا سا نوٹس لگا تھا۔
’’غیر ضروری لوگوں کا داخلہ منع ہے۔‘‘
سامنے کی طرف کام کرنے والے مزدوروں کے مکان بنے ہوئے تھے اور پچھلی طرف چھوٹی سی عمارت تھی جس میں دفتر تھا۔ مکانوں اور آفس بلڈنگ کے درمیان ایک بڑا میدان تھا جس میں اینٹیں سوکھ رہی تھیں اور تھوڑی دور دو چمنیاں جِن سے نکلتا ہوا دھواں بتا رہا تھا کہ اینٹیں اب پک رہی ہیں۔ ایک طرف کُچھ تیار اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ آفس بلڈنگ سے تھوڑے ہی فاصلے پر بھَٹّے کے انچارج نادر علی کا گھر تھا۔ اس کے گھر کے پیچھے جنگل شروع ہو جاتا تھا ۔یہ جنگل کافی بڑا تھا اور دریا تک پھیلا ہوا تھا۔
جیسے ہی بچّے بھَٹّے کے قریب پہنچے دو کُتّوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ ساجد چِلّایا۔ ’’چپ کرو۔‘‘ پھر آصف اور عمران سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’ڈرو مت۔ یہ ابھی بھونکنا بند کر دیںگے۔ نئے لوگوں کو دیکھ کر یہ ایسے ہی بھونکتے ہیں۔‘‘ اور واقعی تھوڑی دیر میں کُتّوں نے بھونکنا بند کر دیا۔
’’میں تو ڈر ہی گئی تھی، اللہ کتنے خوف ناک کُتّے ہیں۔ تُم نے کیسے کُتّے پالے ہیں جو دوسروں کو ڈرا کر رکھ دیں۔‘‘ سیما نے کہا۔
ساجد زور سے ہنسا۔ ’’نہیں بھئی۔ یہ کُتّے ہمارے نہیں ہیں۔ اصل میں تو یہ کسی کے بھی نہیں ہیں۔ بس یہ سارا دِن یہاں رہتے ہیں اور مزدور اِن کو اپنا بچا کھچاکھانا ڈال دیتے ہیں۔ یہ سبھی کا کہنا مانتے ہیں اور اجنبی کو دیکھ کر بھونکتے ہیں۔‘‘
’’مگر بھیّا۔ یہ تو دیکھو اِن کے گلے میں پٹّے پڑے ہیں۔ کسی نہ کسی نے تو ڈالے ہوں گے۔‘‘ سیما بولی۔
’’میں نے ڈالے ہیں۔ امّی کی پُرانی ساڑھی کے باڈر کو کاٹ کر میں نے یہ خوب صورت پٹّے تیّار کیے ہیں۔‘‘ سلمیٰ نے بتایا۔
’’بھئی واہ، خاصے خوب صورت ہیں۔‘‘ سیما نے تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اب یہ سب ایک بڑے پیپل کے درخت کے نیچے آ پہنچے۔ سلمیٰ نے زمین پر جھاڑو دی۔ چولھا جلایا اور چائے کا پانی چڑھا دیا۔ ساجد نے کھانے پینے کا سامان ایک بڑی تھالی میں سجا دیا۔ تھوڑی دیر میں گاہک آنا شروع ہو گئے۔
کُچھ مزدور، مرد اور عورتیں مِل کر زمین کھود کھود کر مٹّی لا رہے تھے۔ پانی اور مٹّی کو مِلا مِلا کر گارا تیّار ہو رہا تھا جو لکڑی کے سانچوں میں ڈھالا جا رہا تھا۔ پھر ان کے اوپر ایس اے یعنی شیر علی کی مہر لگ رہی تھی اور آخر میں ان کو بھَٹّے میں پکنے بھیجا جاتا۔ پہلے تو اینٹوں کی شکل مٹیالی ہوتی۔ جب پک جاتیں تو سُرخ ہو جاتیں۔ اب اُن کو ٹرک میں لاد کر بیچنے کے لیے بھیج دیا جاتا۔
یہ لوگ بڑے اِنہماک سے اینٹیں بنتے دیکھ رہے تھے کہ کسی نے ڈانٹ کر کہا ’’تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ یہ ایک لمبے قد کا صحت مند چوکیدار تھا۔ ’’تمہیں پتا نہیں یہاں آنا منع ہے۔‘‘
عامر نے کہا۔ ’’ہم ساجد اور سلمیٰ کے ساتھ آئے ہیں۔‘‘ چوکیدار بھورے خان یہ سُن کر کہ یہ سلمیٰ اور ساجد کے مہمان ہیں، چُپ ہو گیا۔
یہ چاروں اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔ ایک جگہ اُنہوں نے پتھّر توڑنے کی مشین دیکھی۔ ’’اچھّا جب بارشیں ہوتی ہوں گی تو اینٹیں بننے کا کام رُک جاتا ہو گا۔ اس وقت مزدور پتھّر توڑتے ہوں گے۔‘‘ آصف نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہاں یہی وجہ ہے کہ سلمیٰ اور ساجد کا ٹی اسٹال سارا سال چلتا ہے۔‘‘ سیما نے کہا۔
’’ارے یہ تو وہی ٹرک ہے جسے ہم نے اسٹیشن کے سامنے دیکھا اور جس سے بیل گاڑی ٹکرا گئی تھی۔ عمران نے ٹرک پہچانتے ہوئے کہا۔ پھر ڈرائیور سے بولا۔ ’’بھائی تُم نے اُسے ابھی تک ٹھیک نہیں کرایا۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ ڈرائیور کا جواب مختصر تھا۔
’’یہ ٹرک سیٹھ شیر علی کا ہے، ہے نا۔‘‘ عامر نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ اب بھی اس کا جواب مختصر تھا۔
پھر ڈرائیور نے وہاں موجود دو آدمیوں سے کُچھ بات کی اور چلا گیا۔ طاہر نے آصف سے کہا۔ ’’تعجّب ہے ڈرائیور شاید جلدی میں تھا جو اِس قدر تیزی سے مختصر بات کر کے چلا گیا۔‘‘
بھَٹّے سے کُچھ فاصلے پر جنگل کے ایک طرف جھیل تھی۔ اچانک عامر نے جھیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ 
’’کیسی عجیب بات ہے، وہ دیکھو جھیل میں تمہیں کچھ نظر آیا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ آصف نے پوچھا۔
’’وہ جھیل کے کنارے پر جو درخت ہیں اُن کی شاخیں جھُک کر پانی کو چھُو رہی ہیں۔‘‘ عامر بولا۔
’’یہ تو عام سی بات ہے۔‘‘
’’ہاں۔ مگر اِن شاخوں پر اِس قدر سفید کپڑے کیوں بندھے ہوئے ہیں؟‘‘
اب تو سب نے غور سے دیکھا۔ واقعی یہ تو بہت ہی عجیب بات تھی۔ ہر شاخ پر بے شمار بڑے بڑے سفید رومال سے بندھے ہوئے تھے۔ 
آصف نے کہا۔ ’’میری سمجھ میں تو یہ نہیں آ رہا کہ کسی نے یہ کپڑے شاخوں پر کیوں باندھے ہیں؟‘‘
سیما زور سے ہنسی۔ ’’تُم لوگوں کو تو ہر چیز میں کوئی نہ کوئی عجیب بات نظر آتی ہے۔ چلو چھوڑو۔ سلمیٰ اور ساجد کے پاس چلتے ہیں۔‘‘
یہ لوگ واپس آ گئے۔ مگر تینوں لڑکے دیر تک اسی بات پر بحث کرتے رہے کہ درختوں پر سفید کپڑے کس نے باندھے اور کیوں؟
(4)
ایک دِن جب یہ اینٹوں کے بھَٹّے پر پہنچے تو وہاں کا منظر ہی اور تھا۔ برآمدے میں سیٹھ شیر علی، نادر علی اور ڈی ایس پی رحمان تھے۔ ساتھ ہی پولیس والا کھڑا تھا۔ یہ قریب پہنچے تو کُتّوں نے زور زور سے بھونکنا شروع کر دیا۔ سیٹھ شیر علی سخت ناگواری سے بولے۔ ’’اِن کُتّوں کو چُپ کراؤ۔ اِس قدر شور مچاتے ہیں کہ کُچھ سُنائی نہیں دیتا۔ ‘‘نادر علی نے کُتّوں کو ڈانٹا، کتّے چُپ ہو گئے۔
’’تو کل رات آپ کی تجوری سے دس ہزار روپے چوری ہو گئے۔‘‘ عبد الرحمان صاحب نے کہا۔ ’’جی نہیں دس ہزار سے بھی زیادہ۔‘‘ سیٹھ شیر علی نے جواب دیا۔ ’’اس کے علاوہ پانچ ہزار روپے اور بھی میں نے آفس کی تجوری میں رکھے تھے۔ یہ رقم ایک چمڑے کے تھیلے میں تھی۔ یہ تھیلا جرمنی سے میرے ایک دوست لائے تھے۔ میں نے یہ رقم بھی اسی تجوری میں رکھ دی تھی لیکن جاتے وقت نکالنا بھول گیا تھا۔‘‘
’’یہ بڑی ویران جگہ ہے۔ کیا آپ ہمیشہ ہی اتنی رقم آفس میں رکھتے ہیں؟‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے پوچھا۔
’’جی نہیں صاحب، یہ ویران جگہ نہیں ہے۔ یہاں مزدوروں کے گھر ہیں۔ پھر میرا رشتہ کا بھائی نادر علی بھی یہاں رہتا ہے۔ چوکیدار بھی ہے۔ یہ ایسی غیر محفوظ جگہ نہیں ہے۔‘‘ سیٹھ صاحب نے جواب دیا۔
’’اچھا۔‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے جواب دیا۔ ’’مگر آپ نے میرے سوال کا جواب تو دیا ہی نہیں کیا آپ اتنی رقم عام طور پر یہاں رکھتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، میں عام طور پر تو اتنی رقم نہیں رکھتا۔ مگر پھر بھی چوکیدار بھروسے کا آدمی ہے۔ اور دوسرے کافی لوگ بھی یہاں رہتے ہیں۔‘‘
عبد الرحمان صاحب نے اب چوکیدار سے پوچھا۔ ’’تم نے رات کو کوئی غیر معمولی بات دیکھی یا کوئی آواز سُنی؟‘‘
’’نہیں جناب، کل میں سیٹھ صاحب کے ساتھ ایک شادی پر گیا تھا۔ جب میں لوٹا تو میں نے کوئی غیر معمولی بات یا آواز نہیں سُنی۔ ویسے بھی صاحب اُس وقت بہت اندھیرا تھا۔ باہر کُچھ سُجھائی نہیں دیتا تھا۔ میں بہت تھکا ہوا تھا۔ لیٹا اور فوراً ہی سو گیا۔‘‘
’’تم کہاں سوتے ہو؟‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے پوچھا۔ ’’آفس میں جناب رات میں کم از کم ایک دو مرتبہ ٹارچ لے کر علاقے میں گھومتا ہوں۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ ڈی ای پی صاحب بولے۔ ’’جو چوکیدار رات کو سوئے وہ کس کام کا؟ خیر یہ بتاؤ کہ رات کو کیا ہوا تھا؟‘‘
’’کوئی گیارہ بجے کے قریب میں باہر نکلا تو ساجد کو دیکھا۔‘‘ چوکیدار نے بتایا۔
’’ساجد کو؟‘‘ سیٹھ شیر علی نے تعجّب سے پوچھا۔ ’’یہ رات کے گیارہ بجے یہاں کیا کر رہا تھا؟‘‘
’’وہ کہتا تھا کہ اُس کی چابی کھو گئی ہے۔ وہ ڈھونڈ نے آیا ہے۔‘‘
ڈی ایس پی صاحب نے چوکیدار سے پوچھاکہ اُسے وقت کا کیسے پتا چلا؟ بھورے خان نے بتایا کہ اس کے پاس ایک گھڑی ہے وہ وقت دیکھتا رہتا ہے۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ڈی ایس پی عبد الرحمان صاحب نے پوچھا۔
’’میں باہر نکلا۔ دروازہ بند کیا، پھر ٹارچ جلائی۔ اچانک کسی نے میرے سر پر کوئی بھاری سی چیز ماری اور میں بے ہوش ہو گیا۔ جب مُجھے ہوش آیا تو دروازہ کھُلا ہوا تھا۔ صاحب، میں اسی وقت نادر علی صاحب کے پاس گیا۔ وہ میرے پاس آئے۔ تجوری کھولی تو سارے روپے جا چُکے تھے۔‘‘
ڈی ایس پی صاحب چوکیدار کا بیان لے چُکے تو اُنہوں نے ساجد کو بُلایا۔
’’تمہارا نام ساجد ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کل رات تُم یہاں آئے تھے؟‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے پوچھا۔
’’جی جناب۔‘‘
’’تُم کس وقت یہاں آئے تھے؟‘‘
’’تقریباً گیارہ بجے۔‘‘ ساجد نے جواب دیا۔
’’کیا رات گیارہ بجے یہاں آنا ٹھیک تھا۔ کیا بہت دیر نہیں ہو گئی تھی؟ تُم رہتے کہاں ہو؟‘‘
’’جی! میں یہیں علی پُور میں رہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں صاحب کہ بہت دیر ہو گئی تھی مگر میں نے اسٹور کی چابی کہیں گِرا دی تھی۔ مُجھے یہ ضرور ڈھونڈنا تھی۔ اِس لیے کہ صُبح صُبح گاہک آنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘ 
عبد الرحمان صاحب نے پوچھا۔ ’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ تمہاری چابی یہاں گِری ہے؟‘‘
’’صاحب۔‘‘ ساجد نے کہا۔ ’’میرا ایک ٹی اسٹال ہے۔ کل صُبح میں سائیکل سے گِر گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ چابی بھی میری جیب سے نِکل کر یہیں کہیں گِری ہو گی۔ مُجھے تو چابی کھونے کا پتا ہی نہ چلا۔ جب امّاں جی نے کل رات 9 بجے مُجھ سے چابی مانگی تو اُس وقت مُجھے پتا چلا کہ چابی کھو گئی ہے میں اُسی وقت چابی ڈھونڈنے نِکل کھڑا ہوا۔‘‘
’’اگر تُم نو بجے گھر سے نکلے تو یہاں گیارہ بجے کیسے پہنچے؟ دو گھنٹے تک تُم کیا کرتے رہے۔‘‘
’’جناب، میری سائیکل کا ٹائر پنکچر ہو گیا تھا۔ اسے لے کر پہلے بابو کی دُکان پر گیا۔ وہاں چائے پینے اور باتیں کرنے میں دیر ہو گئی۔‘‘
’’اچھّا۔‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے کہا۔ مگر لگتا تھا کہ وہ مطمئن نہیں ہیں۔
ساجد نے کہا۔ ’’میرے دوست بابو کے بڑے بھائی اصغر پولیس میں ہیں۔ وہ بھی رات کو گھر نہیں تھے۔ ویسے وہ مُجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ نہ صرف مُجھے بلکہ میرے سارے خاندان کو وہ کافی عرصے سے جانتے ہیں۔‘‘
’’اچھّا ایک آخری سوال۔‘‘ ڈی ایس پی صاحب بولے۔ ’’کیا تمہیں عِلم تھا کہ تجوری میں دس ہزار روپے ہیں۔‘‘
’’نہیں جناب۔ میں سارا وقت ٹی اسٹال پر ہوتا ہوں اور مُجھے نہیں پتا کہ آفس میں کیا ہوتا ہے؟‘‘ ساجد نے جواب دیا۔ اور پھر جیسے کُچھ یاد آ گیا ہو، کہنے لگا۔ ’’ایک بات اور ہے جناب۔ میں نے چابی ڈھونڈنے کے لیے ٹارچ جلائی تو کسی نے قریب آ کر مُجھے غور سے دیکھا اور ’’ارے‘‘ کہہ کر غائب ہو گیا۔‘‘
’’کیا تُم نے اُسے دیکھا تھا؟‘‘
’’نہیں جناب۔‘‘
’’کیا تُم اس کی آواز دوبارہ سُنو تو پہچان سکتے ہو؟‘‘
’’نہیں جناب۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔
’’خیر اِس سے ہمیں کُچھ خاص مدد نہیں ملے گی۔‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے کہا۔
پھر اُنہوں نے مزدوروں اور سپروائزر سے بات چیت کی۔ اس کے بعد اُنہوں نے سب کو جانے کی اجازت دے دی۔ مگر یہ کہا کہ اُن کی اجازت کے بغیر علی پُور سے باہر کوئی نہ جائے۔
(5)
اس واقعہ کے بعد ساجد بہت چُپ چُپ اور اُداس تھا۔ اُسے اِس بات کا بہت افسوس تھا کہ چوری والی رات ہی وہ کیوں چابی ڈھونڈنے گیا۔ اس پر شُبہ کیا جا رہا ہے اور غالباً اِسی وجہ سے سیٹھ صاحب نے اُسے بھَٹّے کے پاس سے ٹی اسٹال بند کرنے کو کہا ہے۔ ساجد کی امّی اُس کی پریشانی کو سمجھ رہی تھیں۔ اِس خیال سے کہ ساجد کا دِل بہل جائے گا۔ اُنہوں نے بچّوں سے کہا کہ وہ فلٹریشن پلانٹ کے پاس جا کر پکنک منا لیں۔
اگلے ہی روز یہ لوگ پکنک منانے فلٹریشن پلانٹ روانہ ہو گئے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے پینے کا پانی علی پُور اور اُس کی بستیوں کو بھیجا جاتا اور قریبی ریلوے اسٹیشن کو بھی۔ پلانٹ تک جانے کے لیے ایک کچّا راستا تھا جو ایک چھوٹی سی پہاڑی سے ہوتا ہُوا اوپر پہنچتا تھا۔ یہاں ایک بُوڑھا چوکیدار ایک چھوٹی سی کوٹھری میں رہتا تھا۔ وہ فلٹریشن پلانٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ چوکیدار مختار حُسین کافی عرصہ سے یہاں ملازم تھا۔ پہاڑی پر پُہنچ کر بچّے ایک درخت کے نیچے گھاس پر بیٹھ گئے۔ وہاں اُنہوں نے کباب اور روغنی پراٹھے کھائے جو اُن کی امّی نے چلتے وقت اُن کے ساتھ کر دیے تھے ۔کھانے کے بعد وہ پہاڑی سے علی پُور کا نظّارہ کرنے لگے۔ یہاں سے جھیل بھی بہت صاف دکھائی دیتی تھی۔ جنگل بھی دور تک نظر آ رہا تھا۔ اچانک عامر کو کُچھ خیال آیا اور وہ چوکیدار کے پاس پہنچا اور اُس سے پوچھنے لگا۔ ’’بابا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جھیل کے پاس درختوں پر یہ سفید کپڑے کیوں بندھے ہوئے ہیں؟‘‘
’’کون سے درختوں پر؟‘‘ مختار حسین نے سوال کیا۔
’’یہ جو جھیل کے کنارے درخت ہیں اُن پر۔‘‘
’’مُجھے پتا نہیں۔ ویسے بھی مُجھے یہاں سے جھیل نظر نہیں آتی اور میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں۔ نگاہ کم زور ہے۔ جھیل پر بھی جانا نہیں ہوتا۔‘‘
عامر چوکیدار کے پاس سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور اپنے آپ سے کہنے لگا۔ ’’اللہ، بھئی میں نے تو اتنا کھا لیا ہے کہ ذرا سا ٹہلنا ضروری ہو گیا ہے۔‘‘ پھر آصف اور عمران سے بولا۔ ’’چلو یار! ذرا گھوم پھِر لیں۔‘‘ وہ دونوں راضی ہو گئے۔
’’وہ دیکھو!‘‘ آصف نے دور سے آتی ریل کی اشارہ کیا۔ ’’ریل تو بالکل ایسے لگ رہی ہے جیسے کھلونے کی ہو۔‘‘ عمران نے جواب دیا اور یہ لوگ ٹہلتے ہوئے ایک طرف کو چل دیے۔
سلمیٰ اور سیما کہنے لگیں۔ ’’بھئی ہم تو پہلے ہی اتنا چل چُکے ہیں۔ ابھی واپس بھی جانا ہے۔ تم لوگ جاؤ ہم یہیں بیٹھے ہیں۔‘‘ 
مختار حسین نے جیسے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ اُنہوں نے اچھا نہیں کیا! یہ جھیل بنا کر انہوں نے بہت بُرا کیا۔‘‘
سلمیٰ نے حیرانی سے پوچھا ’’کیوں؟ بابا جھیل بنانا تو اچھّی بات ہے۔ ایک تو پینے کے لیے پانی مل گیا، دوسرے کھیتی باڑی کے لیے۔‘‘ 
بوڑھے چوکیدار کے سر ہلایا۔ ’’نہیں بیٹی! ہم لوگوں کو اِدھر دریا پر بند باندھنا پسند نہیں آیا۔ ہم نے منع بھی کیا۔ مگر غریبوں کی سُنتا کون ہے؟ یہ انجینئر، یہ بڑے بڑے لوگ ہم پر ہنستے ہیں مگر ہم جانتے ہیں۔ یہ جھیل بنانا بہت بُرا ہوا۔ بہت ہی بُرا۔‘‘
’’مگر بابا۔‘‘ سلمیٰ نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’میری تو اب بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اِس میں بُرائی کیا ہوئی؟‘‘
مختار حسین نے کہا۔ ’’یہاں جس جگہ اب جھیل ہے پہلے بھولے شاہ کی خانقاہ تھی جس میں اُن کی چوکی رکھی تھی۔ دُور دُور سے لوگ اُس کی زیارت کرنے آتے تھے۔ یہ بہت ہی پاک جگہ تھی۔ لوگوں نے بہت شور مچایا۔ کُچھ لوگ دھرنا دے کر بھی بیٹھ گئے مگر نوجوانوں نے جو شہروں سے پڑھ لکھ کر آئے تھے کہا کہ ڈیم ضرور بنے گا۔ پھر اُن لوگوں کے کہنے پر جنگل کے چھوٹی سی عمارت بنا کر بھولے شاہ کی چوکی وہاں رکھ دی گئی۔ جب ڈیم بن گیا تو یہ جھیل بن گئی اور حضرت جی کی خانقاہ پانی میں ڈوب گئی۔ ستیاناس ہو اِن لوگوں کا۔ مُصیبت آئے گی اُن پر۔‘‘ بُڈّھا چوکیدار کہنے لگا۔
’’اللہ‘‘  سیما نے کہا۔
’’ہاں بیٹی! اب بھی جھیل کے بیچوں بیچ جہاں بھولے شاہ کی خانقاہ تھی، رات کو روشنیاں دِکھائی دیتی ہیں۔ یہ نور ہے ان بزرگ کا۔ یہ ان کی کرامات ہیں جو آدھی رات کو دِکھائی دیتی ہیں۔‘‘
دونوں لڑکیاں یہ سُن کر گھبرا سی گئیں۔ سیما نے آسمان پر گھِر کر آتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر کہا۔ ’’چلو بھئی اس سے پہلے کہ بارش شروع ہو جائے اور ہم بھیگ جائیں یہاں سے چل دینا چاہیے۔‘‘
(6)
دونوں لڑکیوں نے چوکیدار کو خُدا حافظ کہا اور کچّے راستے پر تقریباً بھاگتی ہوئی گھر چل دیں۔ اب بارش شروع ہو چُکی تھی اور تھوڑی سی دیر میں تیز ہو گئی۔ سامنے ایک کوٹھری نظر آئی۔ سیما نے کہا ’’چلو اِس میں چھُپ جاتے ہیں جب تک بارش کم ہو۔‘‘
یہ ایک پُرانی کوٹھری تھی جس میں ایک کھڑکی اورلکڑی کا ایک دروازہ تھا۔ اُس کی چھت بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی اور ٹپک رہی تھی۔ سیما نے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بھئی عجیب بات ہے ،کوٹھری میں اندر تو کوئی کنڈی نہیں البتّہ باہر کی طرف اچھّی خاصی نئی سی کُنڈی لگی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کوئی اِس کوٹھری کو باہر سے بند کرتا ہے، مگر کیوں؟‘‘
سلمیٰ نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے! یہ تو کپڑے کا وہی ٹکڑا ہے جو میں نے کُتّے کے گلے میں پٹہ بنا کر ڈالا تھا۔‘‘
’’ہاں یہ وہی ہے۔ مگر سلمیٰ یہ یہاں کیسے؟ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ کُتّے یہاں بند کیے جاتے ہیں۔ مگر کیوں؟ ہاں ہو سکتا ہے کہ چوری کی رات کو یہ کُتّے یہاں بند کر دیے گئے ہوں تاکہ نہ بھونکیں اور نہ شور ہو۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کُتّے ہر اجنبی پر بھونکتے ہیں۔‘‘
سلمیٰ نے کہا۔ ’’اب ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ بھَٹّے کی طرف سے ہوتے ہوئے گھر جانا چاہیے۔ وہیں ہمیں معلوم ہو سکے گا کہ یہ پٹّہ واقعی کُتّے کے گلے سے گِرا ہے۔‘‘
بارش جیسے اچانک شروع ہوئی تھی اُسی طرح ختم ہو گئی۔ یہ دونوں مزدوروں کے بھَٹّے پہنچیں۔ شام ہو چُکی تھی۔ مزدوروں کے گھروں سے کھانا پکنے کی خوشبوئیں آ رہی تھیں۔ اُن کے وہاں پہنچے ہی کُتّوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ مگر جب اُن پر نظر پڑی تو چُپ ہو گئے۔ سلمیٰ نے دیکھا کہ ایک کُتّے کے گلے سے پٹّہ غائب تھا۔
سلمیٰ اور سیما گھر پہنچیں تو دیکھا کہ عامر بُری طرح لنگڑا رہا تھا۔ وہ پہاڑی سے پھِسل گیا تھا اور اُس کی ٹانگ میں کافی چوٹ آئی تھی۔ کُہنیاں بھی بُری طرح چھِل گئی تھیں۔ ساجد کی امّی نے عامر کو زخمی دیکھا تو بہت خفا ہوئیں۔ اُنہیں یہ افسوس تھا کہ لڑکا چار دِن کو آیا اور زخمی ہو گیا۔ اُنہوں نے کہا۔ ’’میں تمہیں ابھی تانگے پر ڈاکٹر کے پاس بھجواتی ہوں۔‘‘
’’نہیں خالہ جان۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بس ذرا سا مرہم لگا دیں۔‘‘ عامر نے کہا۔
’’نہیں بیٹے۔ تمہارے چوٹ زیادہ لگی ہے۔ جاؤ ساجد تُم عامر کو شمس آباد لے جاؤ۔ ڈاکٹر اس کی پٹّی کر دے گا۔ خدا نخواستہ زخم پک نہ جائے۔‘‘ عامر کی امّی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
(7)
عامر کی پریشانی میں سلمیٰ کوٹھری اور پٹّے کے بارے میں بتانا بھول گئی۔ اگلی صُبح ساجد، عامر کو لے کر ہسپتال چلا گیا اور یہ لوگ بھَٹّے  پر آ گئے۔ وہاں کُتّوں پر نظر پڑتے ہی سلمیٰ کو کل کا واقعہ یاد آ گیا۔ اس نے پورا واقعہ اُن لوگوں کو سُنایا۔
’’تُم تو پوری جاسوس ہو گئی ہو۔‘‘ آصف نے سب کُچھ سُن کر کہا۔ اس روز یہ لوگ سارا دِن اپنے ٹی اسٹال پر مصروف رہے۔ شام کو جب سب لوگ گھر واپس ہوئے تو سلمیٰ نے ساجد سے پوچھا۔ ’’ساجد! کیا چوری والی رات کُتّے بھونکے تھے؟‘‘ ساجد نے کُچھ دیر سوچا۔ پھر بولا۔ ’’نہیں! میرے خیال میں کُتّے بالکل نہیں بھونکے۔ میں بھی کیسا بے وقوف ہوں۔ اب تک مُجھے اِس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔‘‘
’’جناب کُتّے تھے ہی نہیں جو بھونکتے۔‘‘ سلمیٰ نے کہا۔
پھر سلمیٰ نے پورا واقعہ سُنایا کہ کس طرح یہ لوگ بارش سے بچنے کے لیے ایک جھونپڑی میں گئیں۔ اور وہاں اُنہوں نے کُتّے کا پٹّا دیکھا اور دروازے کی باہر والی نئی کُنڈی دیکھی جس سے اُنہیں پتا چلا کہ کُتّے یہاں بند کیے گئے تھے۔
آصف نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’یہ بات طے ہو گئی کہ چور کو یہ علم تھا کہ کُتّے اجنبی پر بھونکتے ہیں اسی لیے اس نے پہلے کُتّوں کو بند کیا تاکہ وہ بھونک بھونک کر چوکیدار کو ہوشیار نہ کر دیں۔ اللہ ہی جانے کون تھا؟‘‘
عمران نے کہا۔ ’’چلو چل کے وہ کوٹھری دیکھتے ہیں۔‘‘
چناں چہ سیما ان لوگوں کو لے کر کوٹھری پہنچی۔ ’’یہ دیکھو عمران۔‘‘ سیما نے کہا۔ ’’کوٹھری کتنی پرانی اور جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ مگر کُنڈی کس قدر نئی ہے۔‘‘
’’شاباش سیما! تُم تو خاصی عقل مند ہو۔‘‘ آصف نے تعریف کی۔
’’مگر۔‘‘ عمران نے کہا۔ ’’ایک بات یہ بھی تو سوچو کہ کوئی ایک شخص صرف دس ہزار روپے چُرانے کے لیے کوٹھری میں نئی کُنڈی نہیں لگائے گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’بھئی مطلب یہ کہ کُتّے صرف اُسی رات نہیں بند کیے گئے۔ اگر ایسا ہوتا تو دروازے کے باہر پتھّر رکھ کر اُسے بند رکھا جا سکتا تھا۔ مگر یہاں باقاعدہ کُنڈی لگائی گئی ہے۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’ہم یہ معلوم کر رہیں گے اور اسی معمّے کے حل ہونے سے ساجد بے گناہ ثابت ہو گا۔ بے چارے پر خواہ مخواہ شک کیا جا رہا ہے۔‘‘
اس رات آصف اور عمران کو بالکل نیند نہ آئی۔ ساری رات وہ سوچتے رہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کُتّے کیوں بند کئے گئے۔ آدھی رات کے قریب آصف نے آہستہ سے عمران سے کہا۔ ’’چلو باہر چلتے ہیں۔ نیند نہیں آ رہی۔‘‘ 
’’ہاں بھئی۔ مُجھے بھی نیند نہیں آ رہی۔ ایک تو اتنی گرمی۔ اور پھر یہ قصّہ۔‘‘ دونوں چُپکے سے اُٹھ کر باہر جانے لگے۔ ’’نیند تو مُجھے بھی نہیں رہی، چلو میں بھی چلتا ہوں۔‘‘ عامر نے کہا۔
’’نہیں، تُم آرام کرو۔ تُم ابھی ٹھیک نہیں ہو۔‘‘ آصف اور عمران ٹہلتے ٹہلتے بھَٹّے تک جا پہنچے۔ ’’چلو جنگل کی طرف چلتے ہیں۔‘‘آصف نے کہا۔
’’ہاں چلو۔‘‘
جھیل کے قریب ٹرک کھڑا تھا۔ اگرچہ اندھیرا تھا مگر ٹرک کی پِچھلی بتّیاں جل رہی تھیں اور اس سے ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ کُچھ لوگ ٹرک کے پاس کھڑے تھے۔ یہ دونوں ایک بڑے سے درخت کی آڑ میں ہو گئے۔
پھر اُنہوں نے دیکھا کہ ٹرک کے پاس ایک آدمی نے جھیل کی طرف ٹارچ کی روشنی سے کُچھ اشارہ کیا۔ ادھر سے بھی کسی نے جواب میں کُچھ اشارہ کیا۔ ٹارچ کی روشنی میں اُنہوں نے دیکھا کہ ایک کشتی جھیل کے کنارے سے لگی ہے۔ اشارہ ملتے ہی کُچھ لوگ کشتی میں سے اینٹیں اُٹھائے ہوئے ٹرک تک واپس آئے اور تمام اینٹیں ٹرک میں بھر دیں پھر واپس کشتی میں بیٹھ گئے۔ اور کشتی خاموشی سے روانہ ہو گئی۔ اس اندھیرے میں ایک چیز نمایاں تھی، وہ درختوں کی شاخوں سے بندھے سفید کپڑے تھے۔ ان سے کشتی کو جھیل میں کنارے تک اپنا راستہ ڈھونڈنا آسان ہو گیا تھا۔
’’اچھا تو اب سمجھ میں آیا۔ یہ سفید کپڑے کیوں بندھے ہیں۔‘‘ عمران آہستہ سے بولا۔ اتنے میں آسمان پر بِجلی چمکی۔ اور دونوں لڑکوں نے نادر علی کو پہچان لیا۔ وہ ٹرک کے پاس کھڑا تھا۔ دوسرا آدمی ٹرک ڈرائیور تھا۔ اسے بھی اُنہوں نے پہچان لیا مگر یہ لوگ باقی دو لوگوں کو نہ پہچان پائے۔
اتنی رات کو یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ پھر اینٹیں بھَٹّے کی بجائے کشتی سے کیوں لائی جا رہی ہیں۔ عمران اور آصف خاصے حیران تھے۔
دو ایک جھٹکوں کے بعد ٹرک چل پڑا اور رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔
’’تمہارے خیال میں یہ سب کیا تھا؟‘‘ عمران نے پوچھا۔
’’کُچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘ آصف نے جواب دیا۔
مگر ایک بات تو بالکل سمجھ میں آ گئی کہ درختوں کی شاخوں میں سفید کپڑے اِس لیے بندھے ہیں کہ کشتی میں بیٹھے لوگوں کو جگہ کا صحیح اندازہ ہو جائے اور ہلکی سی روشنی میں بھی وہ آسانی سے کنارے تک پہنچ جائیں۔‘‘
’’مگر اِن لوگوں کو کِس کا ڈر ہے۔ یہ کیا چھُپانا چاہتے ہیں۔‘‘
پھر جیسے عمران کو کُچھ خیال آ گیا ہو۔ ’’آصف تم نے غور کیا کہ کُتّے بالکل خاموش ہیں۔‘‘
’’ہاں عجیب بات ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ کُتّے آس پاس نہیں ہیں۔‘‘
’’اگر ہم نے کُتّوں کی خاموشی کا معمّا حل کر لیا تو ہم چور کو بھی پکڑ لیں گے۔ میرا خیال ہے کہ روپے کی چوری اور اینٹوں کا یہ دھندا ایک دوسرے سے کُچھ تعلّق ضرور رکھتا ہے۔‘‘
’’ہاں یہ بات تو بالکل سمجھ میں آتی ہے کہ اِن دونوں باتوں کا آپس میں کُچھ نہ کُچھ تعلّق ضرور ہے۔ خیر چلو۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔ گھر چلیں۔‘‘
(8)
اگلی صُبح آصف اور عمران نے سیما، سلمیٰ اور عامر کو رات کا واقعہ سُنایا۔ آصف نے کہا۔ ’’ناشتے کے بعد ہم جھیل کی دوسرے طرف چلیں گے۔ اور دیکھیں گے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
’’میں بھی چلوں۔‘‘ عامر بولا۔
’’نہیں تم ابھی ٹھیک نہیں ہو۔ آصف اور عمران چلے جائیں گے۔ آصف تُم میری سائیکل لے لینا۔ اور ایک سائیکل میں بابو سے کرایہ پر لا دوں گا۔ تُم میری پلاسٹک کی پانی کی لال بوتل لیتے جانا اور کُچھ کھانے کو بھی رکھ لو۔ ہو سکتا ہے تمہیں دیر ہو جائے۔‘‘ ساجد بولا۔
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘
پھر تھوڑی ہی دیر میں ساجد سائیکل لے کر آ گیا۔ اُنہوں نے پلاسٹک کی بوتل میں پانی بھر کر سائیکل کے ہینڈل سے لٹکائی اور ایک تھیلی میں کھانے کے لیے کُچھ لے لیا اور جنگل کی طرف چل دیے۔ جنگل میں درختوں کے سائے میں اُنہیں ٹرک کھڑا نظر آیا۔ ’’یہ تو وہ ٹرک ہے جو ہمیں شمس آباد کے اسٹیشن پر نظر آیا تھا۔ اِس کا بمپر بھی ٹوٹا ہوا ہے اور بونٹ پر لوہے کے جو دو مور ہیں اُن میں سے بھی ایک آدھا ٹوٹا ہوا ہے۔‘‘ عمران نے کہا۔
جب یہ کچّا راستا ختم ہوا تو اُنہوں نے سائیکلیں ایک درخت کے سہارے کھڑی کر دیں اور جنگل کے اندر پیدل چل دیے۔
کوئی دو میل چلنے کے بعد اُنہیں جھیل کا کنارہ نظر آیا۔ کنارے پر ایک کشی بندھی ہوئی تھی جو رات کو اُنہیں نظر آ رہی تھی۔ دونوں نے قریب جا کر دیکھا۔ کشتی کے اندر اینٹوں کا چورا پڑا تھا۔
’’اب تو کوئی شُبہ نہیں کہ یہ وہی کشتی ہے جس میں اینٹیں لائی گئی تھیں۔‘‘ عمران نے کہا۔ ’’یہ دیکھو پاؤں کے نشان ہیں۔ چلو دیکھیں یہ لوگ یہاں سے رات کو کہاں گئے ہیں۔‘‘
’’ٹھہرو پہلے کُچھ کھا لیں، بھُوک لگ رہی ہے۔‘‘ کھا چُکنے کے بعد آصف اور عمران پاؤں کے نشانوں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ بارش کے بعد زمین گیلی تھی اور پاؤں کے نشان بُہت صاف تھے۔ چلتے چلتے وہ پہاڑی کے پاس پہنچ گئے۔ 
’’چلو اُوپر چلتے ہیں۔‘‘ عمران نے رائے دی۔ 
’’پانی تو پلاؤ۔ بڑی پیاس لگی ہے۔‘‘ آصف نے کہا۔ پانی اگرچہ گرم تھا مگر پھر بھی غنیمت تھا۔ پہاڑی کے اوپر ایک جھونپڑی تھی اور اُس سے دھواں نِکل رہا تھا۔
’’یقینا یہاں کوئی ہے۔‘‘ آصف نے کہا۔ ’’چلو اس سے پوچھیں یہ کشتی کس کی ہے؟ ہو سکتا اسے کُچھ معلوم ہو۔‘‘
اوپر جا کر وہ بہت حیران ہوئے۔ ’’یہ کیا؟ یہ تو اینٹوں کا بھَٹّہ ہے۔‘‘ یہ ایک چھوٹا سا بھَٹّہ تھا۔ کُچھ اینٹیں دھوپ میں سوکھ رہی تھیں اور کُچھ بالکل تیّار تھیں۔
’’اینٹوں کا بھَٹّہ اور جنگل کے بیجوں بیچ۔ اور پھر یہاں سے اینٹیں وہاں بھَٹّے  لے جانا۔ یہ چکّر کیا ہے؟‘‘ جھونپڑی کے اندر کُچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ سب کے سب اجنبی چہرے تھے۔ اُنہیں دیکھ ایک مضبوط جسم والے آدمی نے جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں، پُوچھا۔ ’’تُم کون ہو؟ یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’ہم یہاں سیر کرنے آئے ہیں۔‘‘ آصف نے جواب دیا۔
’’چلو بھاگو کہیں اور جا کر سیر کرو۔‘‘  دوسرے آدمی نے غصّہ سے کہا۔
’’مگر تُم یہاں جنگل میں اینٹیں کیوں بنا رہے ہو؟ یہ جھیل میں کیا تمہاری کشتی ہے۔ تم یہاں سے اینٹیں بڑے بھَٹّے کیوں لے جاتے ہو؟‘‘ آصف نے کئی سوال کر ڈالے۔
بڑی مونچھوں والا آدمی ایک دم کھڑا ہو گیا۔ ’’تُم کو کیسے معلوم کہ ہم یہ اینٹیں وہاں لے جاتے ہیں۔‘‘
’’کشتی میں اینٹوں کا چُورا جو پڑا ہے۔‘‘ آصف نے کہا۔
’’تم بڑے چالاک نظر آتے ہو۔ جاؤ بھاگو یہاں سے، اپنا کام کرو۔‘‘ مونچھوں والا آصف اور عمران کی طرف بڑھا۔ ’’ہم جانتے ہیں مگر یہ بتاؤ تمہاری اینٹوں پر بھَٹّے کی مہر کیوں نہیں لگی ہے۔‘‘ آصف نے قریب رکھی ہوئی اینٹوں کو غور سے دیکھتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا۔
’’تمہیں اِس سے کیا۔‘‘ اب وہ آدمی واقعی غصّے میں آ گیا تھا۔ وہ آصف کی طرف لپکا۔ آصف گھبرا کے پیچھے ہٹا تو اُس کا پاؤں ایک کچّی اینٹ سے ٹکرا گیا۔ ’’یہ کیا کِیا؟ پاجی لڑکے تُو نے ہماری اینٹ توڑ دی۔‘‘ آصف کی اِس حرکت سے اُس کا پارہ اور چڑھ گیا۔
’’مُجھے افسوس ہے۔‘‘ آصف نے کہا اور جھُک کر ٹوٹی اینٹ کو دیکھنے لگا۔ ’’ارے یہ کیا؟‘‘ اور اِس سے پہلے کہ وہ کُچھ کہتا بڑی بڑی مونچھوں والے نے اسے پکڑ لیا اور دوسرے آدمی نے جو پگّڑ باندھے ہوئے تھا عمران کو دبوچ لیا۔ ان دونوں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ان آدمیوں کی گرفت سخت تھی۔ اس کھینچا تانی میں لڑکوں کے ہاتھ سے پانی کی بوتل گِر پڑی۔ ان دو آدمیوں نے آصف اور عمران کے منہ میں کپڑا ٹھونسا اور دونوں ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔ پھر وہ اِن دونوں کو جھونپڑی میں بند کر کے چلے گئے۔ آصف اور عمران نے بہت کوشش کی مگر ان کے ہاتھ اِتنی مضبوطی سے بندھے تھے کہ کھُل نہ سکے۔ ناچار تھک کر بیٹھ گئے۔
(9)
اُدھر گھر پر عمران اور آصف کا بے چینی سے اِنتظار کیا جا رہا تھا۔ جب بہت دیر ہو گئی تو سلمیٰ پریشان ہو کر شیر علی کے بھَٹّے پر ساجد کو بتانے گئی۔
ساجد نے کہا۔ ’’میں نے تو پہلے ہی اُنہیں جنگل میں جانے کو منع کیا تھا مگر اُنہیں معمّے حل کرنے کا زیادہ ہی شوق ہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے ہم اصغر بھائی کے پاس چلیں۔ وہ ہماری کُچھ مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، یہ خیال ٹھیک ہے۔ چلو۔‘‘
تھوڑی ہی دیر میں وہ بابو کے گھر پہنچ گئے۔ اصغر ابھی ابھی ڈیوٹی سے واپس آیا تھا۔ پولیس کی وردی ہی میں تھا۔ ساجد نے سارا قصّہ اُنہیں سُنایا۔ اُنہوں نے سلمیٰ اور سیما کو گھر جانے کے لیے کہا اور خود ساجد کے ساتھ جنگل کی طرف چل دیا۔
’’میرا خیال ہے وہ دونوں جھیل کی طرف گئے ہوں گے۔‘‘ راستے میں اُنہوں نے کہا۔ ’’ان کو اصل میں تو اس کشتی کی تلاش تھی۔ رات کو اُنہوں نے جو کُچھ دیکھا تھا اُس کا کھوج لگانے گئے ہوں گے۔ ہم ادھر ہی چلتے ہیں۔‘‘
جب وہ جنگل کے قریب پہنچے تو کچّے راستے کے سِرے پر اُنہیں آصف اور عمران کی سائیکلیں درخت سے لگی نظر آئیں۔ ’’اچھّا تو یہ یہاں ہی آئے ہیں۔ اُنہیں جھیل کے آس پاس ہی ہونا چاہیے۔‘‘ 
وہیں سے یہ لوگ جھیل کے اُس کنارے پر پہنچے جہاں کشتی بندھی تھی مگر آصف اور عمران کا کہیں پتا نہ تھا۔ اصغر نے جھُک کر نرم زمین کو دیکھا۔ جوتوں کے نشانات صاف نظر آ رہے تھے۔ ’’یہ آصف اور عمران کے جوتوں کے نشان ہیں۔ چلو دیکھیں یہ کِدھر جاتے ہیں؟‘‘
جوتوں کے نشانات پر چلتے ہوئے اصغر اور ساجد اُس جگہ پہنچے جہاں آصف اور عمران نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ یہاں اُنہیں کاغذ کا وہ تھیلا ملا جس میں یہ لوگ اپنا ناشتا لے کر آئے تھے۔ اصغر نے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ دور دور تک کوئی نہ تھا۔
ساجد نے کہا۔ ’’ہمیں عمران اور آصف کو آواز دینا چاہیے۔ شاید وہ لوگ یہیں کہیں موجود ہوں اور ہماری آوازیں سُن لیں۔‘‘ اصغر اور ساجد نے زور زور سے لڑکوں کے نام لے کر اُنہیں پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ اصغر پہلی بار پریشان ہوا۔ ابھی تک اسے یہ خیال تھا کہ یہ لڑکے اپنی سیر میں لگے ہوں گے۔ پھر وہ ساجد کو لے کر پہاڑی پر گیا۔ وہ پہاڑی پر پہنچے تو اینٹوں کا بھَٹّہ اور ایک جھونپڑی اُنہیں نظر آئی۔ اب وہاں سنّاٹا تھا۔ اچانک ساجد کی نظر پلاسٹک کی اُس لال بوتل پر پڑی جو عمران پانی کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا۔
’’اصغر بھائی! یہ پانی کی بوتل ہماری ہے۔ آصف اور عمران اِس میں پانی لے گئے تھے۔‘‘ اُس نے جلدی سے جھُک کر بوتل اُٹھا لی جو اب خالی تھی۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں یہاں آئے تھے۔‘‘ پھر اُن دونوں نے آصف اور عمران کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔ آصف اور عمران نے اُن کی آواز سُنی۔ وہ بول تُو نہ سکتے تھے مگر اُنہوں نے پاؤں سے جھونپڑی کے دروازے پر ٹھوکریں مارنا شروع کر دیں۔ ٹھک ٹھک کی آوازیں سُن کر اصغر کی توجّہ جھونپڑی کی طرف گئی۔ پہلے تو سمجھا شاید اندر کوئی جانور بند ہے۔ پھر اُسے کُچھ شُبہ ہوا۔ اُس نے جھونپڑی کے دروازے کو ہاتھ سے دھکّا دیا۔ دروازہ کھُل گیا۔ اندر بالکل اندھیرا تھا۔ اصغر نے جیب سے ٹارچ نکال کر جلائی۔ ایک طرف کُچھ اوزار رکھے تھے۔ دوسری طرف ایک چٹائی بِچھی تھی۔ اُس پر آصف اور عمران رسّیوں سے بندھے پڑے تھے اور اُن کے مُنہ پر کپڑا ٹھُنسا ہوا تھا۔
’’ارے۔‘‘ اُن کے مُنہ سے نکلا۔
اب ساجد نے بھی دیکھا اور وہ دوڑ کر اُن کے پاس گیا۔ پہلے منہ سے کپڑا نکالا پھر ہاتھ کھولے۔ ’’تمہیں کیا ہوا؟ کون تمہیں باندھ کر ڈال گیا؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
آصف اور عمران بہادر لڑکے تھے مگر جو کُچھ اُن کے ساتھ ہوا اُس سے خاصے سہم گئے تھے۔ اصغر کو دیکھا تو ہمّت بندھی۔ پھر اُنہوں نے پورا قصّہ سُنایا۔
’’آپ کو پتا ہے ٹوٹی ہوئی اینٹ کے اندر کیا تھا؟ سونا۔‘‘ آصف نے کہا۔
’’سونا؟‘‘ اصغر سوچ میں ڈوب گیا۔ ’’اچھّا تو یہ کشتی سے سونا لایا جاتا ہے اور پھر یہاں اینٹوں میں چھُپایا جاتا ہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے سونا اینٹوں میں چھُپا کر جھیل کے دوسرے کنارے پر لے جاتے ہیں اور وہاں سے ٹرک میں بھرتے ہیں۔‘‘ آصف بولا۔
’’ہاں! شاید تمہارا خیال ٹھیک ہے۔‘‘ اصغر نے کہا ’’مگر تُم لوگوں نے بڑی حماقت کی جو اکیلے یہاں آ گئے۔ جب تُم نے ٹرک دیکھا تھا تو فوراً مُجھے آ کر بتانا تھا۔ یہ سونے کے سمگلر ہیں اور بہت خطرناک لوگ ہیں۔‘‘
آصف اور عمران نے سر جھُکا لیا۔ واقعی غَلَطی تو آصف اور عمران سے ہوئی تھی۔ اگر اصغر اور ساجد نہ آتے تو وہ بھوکے پیاسے مر جاتے۔
’’کیا خوب طریقہ نکالا اُنہوں نے سونا اسمگل کرنے کا۔ بہت ہی چالاک لوگ ہیں جو بھی ہیں۔ پولیس تو سڑکوں پر اسمگلروں کو ڈھونڈتی پھِر رہی ہے اور یہاں اِس طرح کام ہو رہا ہے۔‘‘
  ’’مگر۔‘‘ اصغر کُچھ سوچتے ہوئے بولا۔ ’’سونا بھری اینٹوں کی پہچان کیا ہو گی؟‘‘
آصف نے بتایا کہ جو اینٹیں اِس جنگل میں دیکھی ہیں اُن پر شیر علی کے بھَٹّے کی مہر نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ بغیر مہر کی اینٹیں سونے والی اینٹیں ہوں گی جو بھَٹّے کی اینٹوں کے ساتھ خُفیہ طور پر مِلا کر باہر بھیج دی جاتی ہوں گی۔ اصغر نے آصف کی پیٹھ تھپتھپائی، ’’شاباش! تُم بہت عقل مند ہو۔ ہر چیز پر غور کرتے ہو۔‘‘ پھر اُنہوں نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ان لوگوں کو یہاں سے گئے کم سے کم چار گھنٹے ہو چُکے ہوں گے۔ مگر اب بھی وائر لیس پر ہائی وے پولیس کو اطلاع دی جا سکتی ہے اور ٹرک پکڑا جا سکتا ہے۔‘‘
پھر وہ سب شیر علی کے بھَٹّے پر گئے۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ اصغر نے چوکیدار سے پوچھ گِچھ کی۔ اُسے کُچھ پتا نہ تھا۔ وہ کہنے لگا۔ ’’شاید نادر علی کو کُچھ پتا ہو۔‘‘
اب یہ چاروں نادر علی کے گھر پہنچے۔ اس کے گھر کی بتّیاں جل رہی تھیں اور اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ گھر پر موجود ہے۔ اصغر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ’’کون ہے؟‘‘ نادر علی باہر نِکلا۔ اصغر کو وردی میں دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’ٹرک کہاں ہے؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
’’کون سا ٹرک؟‘‘ 
’’وہ ٹرک جو اینٹیں لے جاتا ہے۔‘‘
’’آج شام تقریباً 4 بجے ڈرائیور میرے پاس آیا تھا۔ اُس نے مُجھ سے پٹرول کے پیسے مانگے اور کہنے لگا کہ دس پندرہ منٹ میں پٹرول بھروا کے آتا ہوں۔ مگر ابھی تک نہیں آیا ہے۔ مُجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہ گیا ہے؟‘‘ نادر علی نے جواب دیا۔
اصغر کو بھی اب جلدی تھی۔ اُنہوں نے ساجد سے کہا کہ وہ آصف اور عمران کو لے کر گھر جائے اور وہ خود پولیس اسٹیشن جا رہا ہے۔ آصف اور عمران جانے کے لیے مُڑے۔ اچانک آصف کو کُچھ خیال آیا۔ وہ بولا۔ ’’ٹرک کا نمبر مُجھے یاد ہے اصغر بھائی۔ وہ-2425 KAA  ہے۔‘‘
’’تم تو بڑے کام کے لڑکے ہو۔ اس سے بڑی مدد ملے گی۔‘‘ اصغر نے نمبر نوٹ کر لیا۔
(10)
گھر پہنچے تو ساجد کی امّی پریشان تھیں۔ ’’کہاں چلے گئے تھے تم دونوں؟‘‘ ساجد نے ماں کو سارا واقعہ سُنایا۔ وہ کُچھ اور بھی گھبرا گئیں۔ ’’مُجھے یہ سب پسند نہیں۔ اگر خدا نخواستہ تمہیں کُچھ ہو جاتا۔‘‘
ساجد نے کہا۔ ’’امّی! اصغر بھائی خود آئے تھے ہمارے ساتھ۔ اب وہ اپنے افسر کے پاس گئے ہیں۔ اب پولیس فوراً کارروائی کرے گی۔‘‘
اگلی صُبح بابو ساجد کے گھر آیا۔ وہ بڑے جوش میں تھا کہنے لگا۔ ’’چلو آصف تمہیں ڈی ایس پی صاحب نے بُلایا ہے۔ اصغر بھائی رات ہی اُن کے پاس گئے تھے۔ وہ شاید تُم سے پورا واقعہ سُننا چاہتے ہیں۔‘‘
آصف اور عمران سے ڈی ایس پی صاحب نے پورا واقعہ سُنا اور کُچھ سوال بھی کیے۔ پھر کہنے لگے۔ ’’یہ تو بہت ہی منظّم گروہ لگتا ہے۔ جو معلومات تُم لوگوں نے ہمیں دی ہیں یہ اُن کو پکڑنے میں بڑی مدد دیں گی۔‘‘
آصف نے کہا۔ ’’جناب، میں نے ٹرک کا نمبر بھی نوٹ کر لیا ہے۔
’’بہت اچھّا کیا تُم نے، لیکن اسمگلر تُم سے زیادہ عقل مند ہیں۔ انہوں نے اب تک نمبر پلیٹ بدل بھی لی ہو گی۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ آصف مایوس ہو گیا۔
آصف نے ڈی ایس پی صاحب سے کہا۔ ’’جناب میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے۔‘‘
’’کہو۔‘‘
’’میرا خیال ہے اینٹیں کل جنگل میں نہیں لے جائی گئی ہوں گی۔ کیوں کہ کُچھ اینٹیں جن میں سونا تھا اور کچّی تھیں اور اِس حالت میں یہ ٹرک میں رکھی جا نہیں سکتیں۔‘‘ آصف نے کہا۔
’’تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟‘‘ ڈی ایس پی صاحب بولے۔
’’جناب۔ وہ اینٹیں جو ہم نے جھونپڑی کے باہر دیکھی تھیں، اب وہاں نہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہیں کہیں چھپائی گئی ہوں گی۔‘‘ آصف نے کہا۔
’’ہاں ہو سکتا ہے؟‘‘ ڈی ایس پی صاحب بولے۔ ’’اچھا ایک بات تو بتاؤ۔‘‘
’’جی جناب۔‘‘ آصف نے کہا۔
’’تُم نے جھونپڑی کے پاس چمنیاں دیکھی تھیں؟‘‘
’’نہیں جناب۔ اور یہ بات ہم نے وہاں بیٹھے ہوئے آدمی سے پوچھی بھی تھی جس پر وہ بہت ہی ناراض ہوا تھا۔‘‘ آصف نے جواب دیا۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اینٹیں بھَٹّے میں نہیں پکائی جاتی ہوں گی۔ تاکہ اُن کے اندر جو سونا ہے، وہ پگھل نہ جائے یقینایہ اینٹیں جنگل میں ہی کہیں چھپی ہوں گی۔‘‘
’’جناب آپ جنگل کی تلاشی کا حُکم دے دیں۔‘‘ عمران نے کہا۔
’’ہاں مگر یہ جنگل بہت بڑا ہے اور اِس میں اِس طرح اینٹیں تلاش کرنا مُشکل کام ہے۔ اچھا بچّو! اب تُم گھر جاؤ۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے۔‘‘
اسی طرح دو تین دِن گُزر گئے۔ پولیس نے جنگل کا کونا کونا چھان مارا مگر اسمگلروں کا کُچھ پتا نہ چل سکا۔ سلمیٰ اور ساجد اِس بات پر بہت اداس تھے کہ سیٹھ شیر علی نے اُنہیں اِس مہینے کے آخر تک اپنا ٹی اسٹال بند کرنے کا حُکم دے دیا تھا۔ اُن کو اِس چھوٹے سے چائے خانے سے اچھّی خاصی، آمدنی ہو جاتی تھی۔
’’یہ چوری نہ ہوتی تو اچھّا ہوتا، تمہارا کام تو چلتا رہتا۔ کاش ہم تمہارے لیے کُچھ کر سکتے۔ چوری کا ہی کُچھ پتا چل جاتا۔‘‘ سیما کہنے لگی۔
ساجد نے کہا۔ ’’یہ سب اس لیے ہُوا کہ چابی کھو گئی۔ نہ چابی کھوتی نہ میں رات کو بھَٹّے پر جاتا۔‘‘
’’میرے خیال میں اسمگلروں کا اِس چوری سے کوئی نہ کوئی تعلّق ضرور ہے۔ ایک بار وہ لوگ پکڑے گئے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ آصف نے تسلّی دی۔
’’ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ عمران بولا۔
(11)
عامر کی چوٹ کو اب آرام تھا۔ چلنے پھِرنے میں بھی کوئی خاص تکلیف نہ تھی۔ اُس دِن وہ ڈاکٹر کے پاس پٹّی کروانے گیا تو تانگے والے نے اُسے ہسپتال میں چھوڑا اور کہا کہ وہ اسٹیشن سے سواریاں لے آئے۔ گاڑی آنے ہی والی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ابھی نہیں آئے تھے۔ پٹّی کرنے والے نے عامر کی پٹّی کھولی۔ زخم بھر گیا تھا۔ ’’میرے خیال میں اب آپ کو ہسپتال آنے ضرورت نہیں۔ مگر اچھا یہ ہے آپ ڈاکٹر کو دِکھا لیں۔‘‘ اس نے کہا۔
عامر پٹّی کروا کے ڈاکٹر کے انتظار میں باہر بنچ پر بیٹھ گیا۔ آدھ گھنٹہ کے بعد ڈاکٹر صاحب آ گئے۔ اُن کے ساتھ دو آدمی تھے۔ ان میں ایک کو عامر نے پہچان لیا۔ یہ سونے کی بالی والا آدمی تھا جِسے اُنہوں نے ٹرین میں دیکھا تھا۔ عامر غورسے شخص اُس کو دیکھنے لگا۔ اُس کا سا منے کا دانت ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ یقیناً وہی آدمی تھا جو اُس دِن اسٹیشن سے باہر نادر علی سے باتیں کر رہا تھا۔ عمران نے عامر کو بتایا تھا کہ جب شیر علی کے بھَٹّے میں اس رات ٹرک میں سامان لادا جا رہا تھا تو یہ شخص بھی وہاں موجود تھا۔ کیا اِس شخص کا تعلّق بھی اسمگلروں سے ہے؟ یا یہ شیر علی کا نوکر ہے۔ عامر سوچنے لگا۔
یوں لگتا تھا جسے یہ آدمی ڈاکٹر صاحب سے اچھّی طرح واقف ہے۔ ڈاکٹر صاحب اُس سے کہہ رہے تھے۔ ’’عابد صاحب، آپ کو یہاں شمس آباد میں دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ آپ کب آئے؟‘‘
’’ابھی آیا ہوں۔ دو تین دِن ہوئے۔‘‘
عامر کے کان کھڑے ہوئے۔ وہ صاف جھوٹ بول رہا تھا۔ اُسے تو شمس آباد آئے دس دِن ہو چُکے تھے۔ یہ تو ہمارے ساتھ یہاں آیا تھا۔
’’آپ کی جیپ نہیں ہے۔ آپ کس طرح آئے؟‘‘
’’ہاں جی، میری جیپ خراب ہے۔ میرے ایک دوست کا ٹرک ہے۔ راستے میں مل گیا۔ اسی پر آیا ہوں۔‘‘
’’اچھا خیر کہیے کیسے آنا ہوا۔ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب، میرے کان میں کئی روز سے درد ہے۔ ذرا دیکھ لیجیے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے کان کا معائنہ کیا اور اُس کے کان میں دوا کے چند قطرے ڈال دیے۔ ’’کل پھر دوا ڈلوا لیجیے گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور سلام کر کے باہر نکل گیا۔ عامر کو نجانے کیا خیال آیا کہ اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ اس کے جھوٹ بولنے سے شبہے میں پڑ گیا تھا۔ یوں بھی وہ آدمی صورت سے شریف نظر نہ آتا تھا۔ ہسپتال سے نکل کر وہ ایک ٹرک میں بیٹھ گیا۔ ٹرک ڈرائیور نے ٹرک اسٹارٹ کیا اور وہ ایک دو جھٹکوں کے بعد چل پڑا۔ عامر کو یاد آیا کہ اسٹیشن پر جو ٹرک اُس نے دیکھا تھا اور جو ٹرک آصف اور عمران نے جھیل کے کنارے دیکھا تھا وہ بھی ایسے ہی جھٹکے سے اسٹارٹ ہوا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ وہی ٹرک تھا۔ عامر نے اُس کا نمبر یاد کرنے کی کوشش کی۔ ’’ہاں اُس کو یاد آ گیا اس کا نمبر -2425 KAA تھا مگر اس ٹرک پر تو دوسری نمبر پلیٹ تھی -2517 KAA۔ ٹرک کا ڈرائیور بھی کوئی اور تھا مگر یہ ٹرک وہی تھا۔ سامنے کا بمپر ٹوٹا ہوا اور بونٹ پر ایک مور آدھا غائب! ہو سکتا ہے کہ ٹرک کی نمبر پلیٹ بدل دی گئی ہو۔ اس نے سوچا یقینایہ اسمگلر کا ٹرک ہے۔ ڈی ایس پی صاحب نے انہیں کہا تھا۔ وہ بڑے چالاک لوگ ہیں۔ ٹرک کی نمبر پلیٹ بدل ڈالیں گے۔ ٹرک کے چلتے ہی عامر پیچھے سے ٹرک کے اندر بیٹھ گیا۔ نیچے ایک ترپال پڑی تھی۔ عامر اُس میں چھُپ گیا۔ ٹرک انجانی سمت جا رہا تھا۔ کافی چلنے کے بعد وہ رُک گیا۔ وہ آدمی جس کو ڈاکٹر صاحب نے عابد صاحب کہہ کر پکارا تھا اور ڈرائیور ٹرک سے اُتر پڑے۔ 
کُچھ دیر انتظار کرنے کے بعد عامر نے ترپال سے جھانکا۔ اندھیرا ہو چلا تھا۔ اِرد گِرد کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ عامر نے احتیاط سے ترپال ہٹائی اور ٹرک سے اُتر آیا۔ ٹرک ایک پُرانے دو منزلہ مکان کے باہر کھڑا تھا۔ مکان کے سامنے ایک اُجاڑ سا باغ تھا مکان کی نچلی منزل میں اندھیرا تھا لیکن اوپر کی منزل میں روشنی ہو رہی تھی۔ عامر دبے پاؤں چلتا ہوا کھڑکی تک گیا جس میں ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ اندر جھانکا۔ یہ باورچی خانہ تھا اور ایک بوڑھا سا باورچی کھانا پکا رہا تھا۔ کھانے کی خوشبو ناک میں پہنچی تو خیال آیا کہ وہ بھوکا ہے۔ ’’صبر کرو۔‘‘ اس نے خُود سے کہا۔ اس کو محسوس ہوا کہ اوپر کے کمرے میں کُچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ یہ اوپر کیا ہو رہا ہے؟ ہو سکتا ہے وہ آدمی بھی اوپر ہو۔ اس نے آہستہ سے دروازے کو دھکّا دیا۔ پھر باری باری اس نے دوسرے دروازے اور کھڑکیاں دیکھیں۔ سبھی بند تھے۔ مایوس ہو کر وہ عمارت سے باہر آیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ مکان کے برابر ایک بڑا سا درخت تھا جس کی شاخیں اُوپر کی منزل کی کھڑکیوں تک پہنچ رہی تھیں۔ عامر کی ٹانگ کا زخم تو ٹھیک ہو گیا تھا لیکن ابھی تکلیف باقی تھی اس کے باوجود وہ درخت پر چڑھ گیا۔ ایک شاخ ٹیرس پر جھُکی ہوئی تھی اس پر پہنچ کر وہ آہستہ سے ٹیرس اُتر گیا۔ پھر دبے پاؤں چلتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا۔ شیشے میں سے اندر جھانکا تو دیکھا چار آدمی ایک میز کے گرد بیٹھے تھے۔ اُن میں ایک عابد تھا اور دوسرا نادر علی۔ باقی دو بالکل اجنبی تھے۔
تو یہ بات ہے۔ عابد اور نادر علی اسمگلر ہیں؟ اُس نے سوچا کہ یہ اُس رات تھے جس رات اینٹیں کشتی سے آئی تھیں۔ عابد نے اپنے شمس آباد آنے کے بارے میں بھی جھوٹ بولا تھا۔ وہ اپنی یہاں موجودگی چھُپانا چاہتا تھا۔ آصف کو چاہیے تھا کہ وہ ڈی ایس پی صاحب کو اِس آدمی کے بارے میں بتاتا۔ عامر چُپ چاپ کھڑکی سے کان لگا کر اُن کی باتیں سُننے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن وہ بالکل خاموش تھے۔ اب عامر کو اُکتاہٹ شروع ہو گئی۔ اس نے سوچا یہاں کھڑے رہنے سے کُچھ فائدہ نہیں۔ گھر واپس جانا چاہیے۔ اچانک، کمرے کا دروازہ کھُلا اور ایک شخص اندر آیا۔ یہ وہی ٹرک ڈرائیور تھا جسے اُن لوگوں نے پہلے روز اسٹیشن پر دیکھا تھا۔
عابد نے اُس سے کہا۔ ’’تم نے دیکھا۔ تمہاری حرکت سے کتنا کام خراب ہو گیا۔ دس ہزار روپے کے لالچ میں پولیس کو چوکنّا کر دیا۔ نہ تُم وہ روپے چُراتے اور نہ پولیس پیچھے لگتی۔‘‘
’’جناب مُجھے معاف کر دیں۔ مُجھے پتا نہیں تھا۔‘‘
’’تُم لوگوں میں یہی تو خرابی ہے کہ تمہیں کُچھ پتا ہی نہیں ہوتا۔‘‘ عابد نے غصّے سے کہا۔ اب نادر علی کی آواز آئی۔ ’’ہمیں ابھی کُچھ اور بھی کام کرنا ہیں۔‘‘
’’کیا کام؟‘‘ عابد نے پوچھا۔
’’وہ سونا جسے ہم نے بھولے شاہ کی چوکی کے پاس چھُپایا ہے اُسے وہاں سے ہٹا کر لے جانا ہے۔‘‘
’’ہاں ہمیں اپنا یہ ٹھکانا اب فوراً چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
عامر جس طرح درخت پر چڑھ کر ٹیرس تک پہنچا ویسے ہی نیچے واپس آ گیا۔ اس نے اللہ کا شُکر ادا کیا کہ اُسے کسی نے دیکھا نہیں، باغ کو پار کر کے وہ سڑک پر آ گیا۔ سڑک، سیدھ میں دُور تک چلی گئی تھی۔ یا اللہ کدھر جاؤں۔ اس نے سوچا پھر ایک طرف کو چلنا شروع کیا۔ چلتے چلتے اُسے ایک سنگِ میل نظر آیا جس پر لکھا تھا۔
شمس آباد:30 کلو میٹر
علی پُور :40 کلو میٹر
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ علی پُور سے بہت دُور تھا۔ اُس نے سنگِ میل کی دوسری طرف دیکھا، لکھا تھا۔ بالا پور 1 کلو میٹر۔ تو گویا یہ مکان بالا پور میں تھا۔
اللہ کرے کوئی سواری مِل جائے، عامرنے دُعا مانگی۔ اگر وہ پیدل چلا تو نجانے کب علی پُور پہنچے گا۔ اُسے تھکن محسوس ہو رہی تھی اور بھوک بھی لگ رہی تھی۔
کُچھ دیر چلنے کے بعد اُسے سڑک کے کنارے کُچھ مکان اور دُکانیں نظر آئیں۔ اگرچہ رات ہو چُکی تھی۔ مگر ایک دو دُکانیں کھُلی ہوئی تھیں۔ ایک ٹی اسٹال پر ایک آدمی چائے پی رہا تھا اور اُس کی موٹر سائیکل برابر میں کھڑی تھی۔ عامر اُس کے پاس گیا اور کہنے لگا۔
’’جناب کیا آپ مُجھے علی پور تک پہنچا دیں گے؟‘‘ اس شخص نے عامر پر ایک نظر ڈالی اور بولا۔ ’’میں تو علی پُور نہیں جا رہا ہوں۔‘‘
’’خیر اگر آپ اس طرف جا رہے ہوں تو مُجھے ساتھ لے چلیں۔ بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘
’’میں علی پُور تو نہیں جا رہا مگر میں تمہیں اس کے قریب ہی چھوڑ دوں گا۔ وہاں سے تُم پیدل چلے جانا۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔ جناب‘‘
علی پُور کے قریب پہنچ کر اُس آدمی نے موٹر سائیکل روکی اور ایک طرف مُڑ گیا۔ عامر اُسے اللہ حافظ کہہ کر تیز تیز قدموں سے علی پُور کی طرف چل دیا۔
سیما اور ساجد گھر کے باہر پریشان کھڑے تھے۔ ’’تُم کہاں رہ گئے تھے۔ اتنی رات ہو گئی؟ تُم ہسپتال میں بھی نہیں تھے۔ امّی پریشان ہو رہی تھیں۔‘‘ ساجد بولا۔
’’ہاں، میں بڑا کام کر کے آ رہا ہوں۔ میں نے اسمگلروں کا سُراغ لگا لیا ہے۔‘‘ عامر نے کہا۔
عامر کی آواز سُن کر ساجد کی امّی باہر آ گئیں۔ ’’اللہ کا شُکر ہے بیٹے تُم آ گئے۔‘‘
’’اچھّا جلدی سے بتاؤ وہ کون ہیں؟ کہاں ہیں؟‘‘ ساجد نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔
’’صبر کرو۔ سب کُچھ بتاتا ہوں۔‘‘ پھر اُس نے اپنی خالہ کے گلے میں باہیں ڈال دیں جو پریشان بیٹھی تھیں۔
’’ارے لڑکے! تُو کہاں چلا گیا تھا؟ سب کو پریشان کر ڈالا۔‘‘ خالہ نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
’’سلمیٰ، بھئی بہت سخت بھُوک لگی ہے۔ کھانا کھلاؤ۔ پھر باقی باتیں بعد میں۔‘‘
کھانے کے بعد عامر نے آصف، عمران، ساجد اور سیما کو پورا واقعہ سُنایا کس طرح سونے کی بالی والے آدمی کو اُس نے ہسپتال میں دیکھا۔ پھر جب ڈاکٹر صاحب سے جھوٹ بولا کہ اُسے یہاں آئے دو تین دِن ہی ہوئے ہیں تو اُس کو شُبہ ہوا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ پھر وہ کیسے ٹرک میں چھُپ کر اُس جگہ پہنچا جہاں اُن لوگوں کا ڈیرہ ہے۔
ساجد نے سب کُچھ سُن کر کہا۔ ’’ہمیں اصغر بھائی کے پاس ابھی جانا چاہیے۔ اور اُنہیں ساری باتیں بتانا چاہئیں۔ ان لوگوں کا ٹھکانا اور یہ بھی کہ سونا کہاں چھُپا ہوا ہے۔‘‘ عمران نے کہا۔ ’’ہاں چلو۔‘‘
’’نہیں، اِس وقت نہیں، امّی اتنی رات کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔ پہلے ہی عامر اتنی دیر سے گھر لوٹا ہے۔ کل صُبح چلیں گے۔‘‘ سلمیٰ نے سمجھایا۔
اگلے دِن سویرے ہی سویرے عامر، آصف اور عمران کو لے کر اصغر کے گھر پہنچ گیا۔ اصغر ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیّار ہو رہا تھا۔ عامر بولا۔ ’’ہم آپ کے لیے بہت اہم معلومات لائے ہیں۔‘‘
’’کیسی معلومات؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
عامر نے رات کو جو کُچھ دیکھا اور سُنا تھا وہ اصغر کو بتایا۔ جب اُس نے کہا کہ وہ ٹرک میں چھُپ کر ان کے ٹھکانے تک گیا تو اصغر نے کہا ’’تُم نے بڑی غَلَطی کی۔ یہ بڑا خطرناک تھا اگر وہ تمہیں دیکھ لیتے تو شاید مار ہی ڈالتے۔‘‘ پھر پورا قصّہ سُن کر اصغر بولا۔
’’مُجھے پہلے ہی یقین تھا کہ ساجد نے چوری نہیں کی ہے۔ اور نہ وہ کر سکتا ہے۔ اب یہ بھی پتا چل گیا کہ ہم آسانی سے اُسے تلاش کر لیں گے۔ اب یہ بھی پتا چل گیا کہ سونا بھولے شاہ کی چوکی کے پاس چھپایا گیا ہے۔ اب ہم آسانی سے اسے تلاش کر لیں گے۔ چلو ڈی ایس پی صاحب کو فوراً اطلاع دیں۔ وہ سب لوگ ڈی ایس پی صاحب کے پاس پہنچے اور اُنہیں ساری کہانی سُنائی۔
ساجد نے کہا۔ ’’جناب، کیا یہ اچھّا نہیں ہو گا کہ ہم پہلے بالا پُور جا کر اُن لوگوں کو پکڑ لیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے کہا۔ ’’یہ مکان ایک اہم شخصیت کا ہے اور عابد وہاں اُن کا مہمان ہے۔ ہم بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے نادر علی اور عابد پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ پہلے سونا تلاش کرتے ہیں پھر ان لوگوں کو پکڑیں گے۔‘‘
ڈی ایس پی رحمان نے فوراً پولیس کی دو پارٹیاں بنائیں۔ ایک کو بالا پُور جا کر اُس حویلی کی نگرانی کا حُکم دیا۔ جہاں عابد اور نادر علی ٹھہرے ہوئے تھے اور دوسری پارٹی کو وہ اپنے ساتھ لے جا کر بھولے شاہ کی خانقاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ ساجد، عامر، آصف اور عمران بھی ساتھ تھے۔
(12)
بھولے شاہ کی خانقاہ جھیل کے قریب جنگل کے ایک حصّے کو صاف کر کے بنائی گئی تھی اور اُسی میں وہ چوکی تھی جو اصل خانقاہ سے نکال کر یہاں رکھ دی گئی تھی۔ خانقاہ جھیل میں ڈوب گئی تھی۔ چوکی سنگِ مرمر کے ایک چبوترے پر درمیان میں رکھی تھی۔ چاروں طرف لوہے کا کٹہرا تھا۔ خانقاہ کے چپّے چپّے کی تلاشی لی گئی۔ خاص طور پر چوکی کے آس پاس فرش کو ٹھونک بجا کر دیکھا گیا کہ کہیں خلا تو نہیں جہاں سونا چھپایا گیا ہو۔ مگر یہ ساری کوششیں بے کار گئیں۔ سونے کا نام و نشان نہ تھا۔ پولیس پارٹی بھی مایوس ہو چُکی تھی اور بچّے بھی۔ اچانک سیما کو جیسے کُچھ خیال آیا اور بولی۔ ’’یہاں تو سونا مل ہی نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ ہم اُس کی تلاش ہی غَلَط جگہ کر رہے ہیں۔‘‘
’’غَلَط جگہ۔ کیا مطلب؟‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے پوچھا۔ ’’عامر کیوں تُم نے کیا عابد کو یہ کہتے نہیں سُنا تھا کہ سونا بھولے شاہ کی چوٹی کے پاس چھپایا گیا ہے؟‘‘ 
’’جی ہاں۔ وہ یہی کہہ رہا تھا۔‘‘ عامر بولا۔
’’مگر جناب۔‘‘ سیما جلدی سے بولی۔ ’’بھولے شاہ کی اصل خانقاہ جہاں اُن کی چوکی رکھی تھی، وہ تو جھیل کے اندر ہے۔  جب ڈیم بنا تو یہ پانی میں ڈوب گئی اور چوکی یہاں سے اُٹھا کر ایک نئی عمارت میں رکھ دی گئی۔‘‘
’’تمہیں یہ سب باتیں کِس نے بتائیں؟‘‘ ڈی ایس پی صاحب نے پوچھا۔
’’بوڑھے چوکیدار نے۔‘‘ سیما نے جواب دیا۔ ڈی ایس بی رحمان سوچ میں پڑ گئے۔ پھر بولے۔ ’’بیٹی شاید ٹھیک کہتی ہو۔ ہمیں جھیل کے اندر اصل خانقاہ میں سونا تلاش کرنا چاہیے۔ وہ جگہ زیادہ محفوظ ہے۔‘‘
ڈی ایس پی رحمن کی ہدایت پر وائر لیس پیغام پولیس ہیڈ کوارٹر بھیجا گیا اور غوطہ خور ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے۔ ڈیم کے بوڑھے چوکیدار کو بھی ایک سپاہی جا کر بُلا لایا۔ اس سے خانقاہ کا صحیح مقام معلوم کر کے غوطہ خور جھیل میں کُود گئے۔ کافی تلاشی کے بعد ایک غوطہ خور کینوس کا بڑا سا تھیلا لیے برآمد ہوا۔ جھیل کے کنارے پر جا کر جب اُسے کھولا گیا تو اُس میں سونا تھا۔
یہ تھیلا کوٹ کی شکل کا تھا جس میں آسانی سے سونا چھپایا جا سکتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں سارا سونا نکال لیا گیا۔
ڈی ایس پی رحمن نے آصف، عمران، ساجد ،عامر، سیما اور سلمیٰ سب کی بہت تعریف کی اور اُنہیں انعام میں دستی گھڑیاں دیں۔ سارے علی پور میں اِن بچّوں کی سمجھ داری اور بہادری کی دھوم مچ گئی۔
سونا مل جانے کے بعد بالا پور سے مکان کی تلاشی لی گئی اور وہاں کے تہہ خانے سے بھی بہت سی ایسی اینٹیں بر آمد ہوئیں جِن میں سونا چھُپایا گیا تھا۔ نادر علی، عابد اور لطیف گرفتار کر لیے گئے۔ لطیف نے سیٹھ شیر علی کے آفس سے چوری کا اقرار کر لیا۔ لطیف کے سامان میں سے سیٹھ صاحب کا وہ چمڑے کا پرس بھی مل گیا جو اُن کے دوست نے اُنہیں جرمنی سے تحفہ میں لا کر دیا تھا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top