skip to Main Content

چاکی اور دریا

ناول:Chike and the River
مصنف: Chinua Achebe
مترجم: سید سعید نقوی
نظرثانی: ریاض عادل
۔۔۔۔۔
گائوں سے چاکی کی روانگی
چاکی اپنی امی اور دو بہنوں کے ساتھ ایک گائوں میں رہتا تھا۔ اس گائوں کا نام اموفیاتھا۔ وہ ابھی چھوٹاساتھاکہ اس کے ابو کا انتقال ہوگیا۔ اس کی امی بہت محنت سے تینوں بچوں کو پال رہی تھیں۔ صبح اٹھ کر تینوں کے لیے ناشتہ بنانا ، انھیں تیار کرنا اور پھر اسکول بھیجناان کا معمول تھا۔ گھر میں جو پکتا تھا وہ بھی چاکی کی امی،گھر کے پیچھے باغ میں خود ہی اُگاتی تھیں۔جیسے: اروی، کیلے، مکئی، لوبیا اور دوسری کئی قسم کی سبزیاں،پھل،دالیںاوراجناس وغیرہ۔ پھر بھی انھیںکبھی پیسوں کی ضرورت پڑتی تو چاکی کی امی مچھلی، تیل، ماچس اور گھی وغیرہ خرید کر منافع پر بیچ دیتیں۔
چاکی اب گیارہ سال کا ہو چکا تھا اور کبھی اپنے گائوں سے باہر نہیں گیا تھا۔لہٰذا جب ایک دن امی نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ماموں کے پاس شہر جارہا ہے، تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ چاکی کے ماموں اونیشا نامی شہرکے ایک دفتر میں کلرک تھے۔چاکی کا دل اس چھوٹے سے گائوں میں نہیں لگتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی بڑے شہر کی سیر کرے، اس نے اونیشا کے بارے میں بہت سی اچھی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ چاکی کے گائوں میں تو جھگیوں کی چھت گیلی مٹی اور بانسوں سے بنتی تھی ،جب کہ وہاں تو گھر کے اوپر ٹین کی چھت ہوگی۔ ماموں کے نوکر، مائیکل نے اسے یہ بھی بتایا کہ وہاں تو ہر صحن میں الگ نلکا لگا ہوتا ہے۔ جب چاکی کو یقین نہیں آیا تو مائیکل نے اپنی شہادت کی انگلی منہ سے گیلی کر کے آسمان کی طرف بلند کردی(جو ایک طرح سے قسم تھی کہ وہ سچ کَہ رہاہے)۔چاکی کے گائوں میں تو صبح سویرے اٹھ کر سب کوایک چشمے سے پانی بھرنا پڑتا تھا۔ چشمے کا راستہ بھی ایسے پتھروں سے ہو کر جاتا تھا کہ اکثر بچے گر کر اپنا مٹکا بھی توڑ بیٹھتے تھے ۔ چاکی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اب اسے صبح سویرے پانی بھرنے کے لیے اٹھنا نہیں پڑے گا۔ چاکی کو یہ سب ایک خواب سا لگ رہا تھا۔
چاکی ویسے تو بہت خوش تھا ،لیکن جب شہر جانے کا وقت آیا تو وہ رو پڑا۔ اس کی بہنیں اور امی بھی رونے لگیں۔ امی نے چاکی کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے نصیحت کی:
 ـ’’ بیٹا شہر میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔برے لوگ بچوں کو اغوا بھی کر لیتے ہیں۔ ہمیشہ اپنے ماموں کی بات ماننا۔اتنے بڑے شہر میں اکیلے نہ پھرنا۔ اور خبردار! نائیجر دریا کے تو قریب بھی مت جانا۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے، کتنے ہی لو گ ہر سال ڈوب جاتے ہیں۔‘‘
چاکی ماں کی نصیحتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ روتے روتے اس کی ناک سرخ ہوگئی تھی۔
’’بس اب رو نابند کرو، تم ایک بہادر لڑکے ہو اور بہادر لڑکے رویا نہیں کرتے۔‘‘اس کی امی نے اس کا سر سہلایا۔
چاکی نے ہاتھ سے آنکھیں صاف کیں اور آنسو پوچھے۔ اس کی امی نے جیمز اوکیکی کی دکان سے لکڑی کا ایک چھوٹا سا صندوق خرید لیا تھا۔ چاکی نے اپنے کپڑے ، کتابیں ا وردوسری ضروری اشیا اس میں بھر لی تھیں۔چاکی نے امی سے وہ صندوق لیا اورجانے کے لیے تیار ہوگیا۔
’’جلدی چلو اور دیر کی تو شہر جانے والی لاری نکل جائے گی۔‘‘ماموں نے کہا۔
چاکی نے صندو ق سر پر رکھا اور ماموں کے ساتھ چل پڑا۔ لاری اڈا اس کے گھر سے تقریباً آدھامیل دور تھا۔ لاری اس قدر پرانی تھی کہ سب اسے کچھوا لاری کہتے تھے۔ کسی اونچی چڑھائی پر چڑھتی، تو اس کا کنڈکٹر ایک ڈنڈا لے کر نیچے اتر جاتا کہ اگر چڑھائی کی وجہ سے لاری الٹی چلنے لگے تو اس کے پہیوں میں پھنسا دے۔ایسی صورت حال میں اکثر ایسا ہوتاکہ مسافروں کو خود اتر کر لاری کو دھکا لگانا پڑتاتھا۔ کبھی کبھار تو اونچی چڑھائیوں پر لاری بالکل دم دے دیتی اور پھر اسے ٹھیک کرنے میں پورا دن لگ جاتاتھا۔ چالیس میل کا فاصلہ کوئی تین گھنٹوں میں طے ہوتا۔ چاکی کی قسمت اچھی تھی کہ کچھوا لاری کا موڈ اچھا تھا، ہر چڑھائی پر لاری میں پانی ضرور ڈالا گیا، لیکن اس کے علاوہ کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی۔
OOOO
چاکی اونیشا میں
چاکی کو شہر بہت عجیب سا لگا۔ کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہی نہیں تھا۔ گائوں میں تو اتنے کم لوگ تھے کہ سب کو پتاتھا، چور کون ہے اور بدمعاش کون۔ یہاں شہر میں تو لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں تھے۔ حد تو یہ کہ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے بھی ایک دوسرے سے واقف نہیں تھے۔ مائیکل تو مذاق کرنے لگا کہ ایک کمرے میں کوئی مرجائے تو دوسرے کمرے والے کو پتا بھی نہ چلے اور وہ موسیقی ہی بجاتا رہے۔ یہ سب کتنا عجیب تھا۔ 
پھر آہستہ آہستہ چاکی کا دل لگنے لگا۔ اب یہاں اسکول میں اس کے بہت سے دوست بن گئے تھے۔ ویسے تو سب بچے ہی چاکی کو بہت پسند کرتے تھے، لیکن اس کی سب سے زیادہ دوستی سیموئل سے تھی۔ دونوں ہم عمرتھے اور دونوں کو فٹ بال کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ سیموئل فٹ بال میں بہت اچھا تھا۔ جب وہ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو چکما دے کر بال نکالتا تو تماشائی دیکھتے رہ جاتے۔ اسکول کے بچوں نے سیموئل کا نام S.M.O.G رکھ دیا تھا۔ اصل میں سیموئل کا پورا نام سیمائل مادوکا اوبی تھا ،اسی وجہ سے پہلے تواس کا نام SMO پڑا ، پھر سیموئل نے سوچا اگر وہ اس میں G کا اضافہ کر لے تو S.M.O.G. بن جائے گا۔ SMOG سے Save Me O God بھی بنتا ہے، اس لیے سب سیموئل کو اسی نام سے پکارتے تھے۔ اس کا نام جیسے خوش قسمتی کی علامت بن گیا۔چوںکہ چاکی بھی فٹ بال میں بہت اچھا تھا، اس لیے سب بچے اسے بھی پیار سے ’’چاکی بہادر‘‘ کَہ کر بلانے لگے۔ چاکی کو اپنا یہ نام اس قدر پسند آیا کہ اس نے اپنی نئی کاپیوں اور کتابوں پر یہی نام لکھنا شروع کر دیا۔نائیجر دریا کے بارے میں سب سے پہلے چاکی نے سیموئل ہی سے سنا:
’’ دریا کے اُس پار جانا اور واپس آنا تو بہت آسان ہے۔‘‘سیموئل نے اسے بتایا: ’’میں خود کئی بار کشتی میں بیٹھ کر جا چکا ہوں۔ جانے کا کرایہ چھ پیسے ہے اور واپسی کا بھی چھ پیسے، بس اتنی سی بات ہے اس میں کیا مشکل ہے۔‘‘
’’ واقعی، لیکن میرے پاس تو چھ پیسے نہیں ہیں۔‘‘چاکی نے جواب دیا۔
’’ ارے تمھارے پاس چھ پیسے بھی نہیں ہیں، تم اتنے بڑے لڑکے ہو اور چھ پیسے بھی نہیں ہیں۔ کسی کو بتانا بھی نہیں ورنہ سب مذاق اڑائیں گے‘‘ ۔سیموئل نے اسے سمجھایا۔
چاکی کچھ شرمندہ سا ہوگیا۔ اس نے بات بنانے کے لیے کہا:’’ میرے پاس پیسے توہیں ،لیکن وہ ماموں کے پاس رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
’’یہ تو اچھا ہے، تم ایسا کرو ماموں سے کچھ پیسے مانگ لو۔ ایسے پیسے کا کیا فائدہ جو آدمی خرچ ہی نہ کر سکے۔‘‘ سیموئل نے اسے سمجھایا۔
’’ کچھ دنوں میں ، میںماموں سے مانگ لوں گا۔‘‘ چاکی اسے کیا بتاتا کہ اس نے ایسے ہی جھوٹ بولا تھا۔
’’آدمی اور لہریں کسی کا انتظار نہیں کرتے۔‘‘ سیموئل نے وہی محاورہ سنایا،جو اُن کے ٹیچر اکثر سنایا کرتے تھے۔ ’’اور میں نے تو سنا ہے کہ دریا پر ایک پل بھی تعمیر کیاجا رہا ہے ۔پل بننے کے بعد تو کشتیاں چلنا بند ہو جائیں گی۔‘‘
پل بننے کی بات چاکی نے پہلے بھی کسی سے سنی تھی۔ وہ تھوڑا سااداس ہو گیا۔کچھ ہی دنوں میں دریا کا ذکر پھر نکل آیا۔
’’پتا ہے دریا کے دوسری جانب کشتی ہمیں اوسابا میں اتارتی ہے۔ اوسابا سمجھو نائیجیریا کے مغربی حصے کا درمیانی علاقہ ہے۔‘‘
 کچھ دوسرے بچے جو وہاں کھڑے تھے، وہ بھی گفتگو میں شامل ہوگئے۔ لگتا تھا وہ سب ہی نائیجیریا کے اس حصے میں گھوم چکے تھے۔ ایک لڑکا ،جس کا نام ازکل تھا ، کہنے لگا:
ـ ’’دریا کے دوسری طرف جب اوسابا میں اترو تو سمجھو لاگوس کا راستہ نکل آیا۔‘‘
’’ ہاں بھئی! لندن کے بعد کوئی شہر ہے تو بس لاگوس۔ میں تو کبھی لاگوس نہیں گیا ، بس اوسابا تک گیا ہوں۔ سمجھو غریب لوگوں کا وہی لاگوس ہے‘‘ ۔سیموئل نے حسرت سے کہا، کبھی کبھی تو وہ بالکل بڑوں جیسی باتیں کرنے لگتا تھا۔
سیموئل کی بات پر سب ہنس پڑے، اس کی باتیں ایسی ہی مزے دار ہوتی تھیں، اسی لیے وہ اپنے دوستوں میں بہت مقبول تھا۔چاکی کا دماغ کہیں اور تھا۔ شاید وسطی مغربی نائیجیریا میں۔ جہاں آئل آف مین تھا، گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے جنت۔
OOOO
چاکی دریا کے کنارے
چاکی کے ماموں بہت سخت طبیعت کے آدمی تھے۔ انھیں شاید ہی کسی نے ہنستے مسکراتے دیکھا ہو۔ کبھی کبھی جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چائے یا کافی پی رہے ہوتے تو ہنس بھی لیتے۔ خاص طور پر، جب وہ اپنے دوست نوابا کے ساتھ ہوتے۔ بچوں کا کھیلنا کودنا انھیں بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ اسے وقت کا زیاں سمجھتے تھے۔ خود چاکی کو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے منع کرتے تھے۔ ان کے خیال میں بچوں کو صرف پڑھنے لکھنے میںوقت گزارنا چاہیے۔ ماموں کے دوست نوابا بھی ایسے ہی خیالات رکھتے تھے۔ نوابا کے بچے اپنے ابا کے باہر جانے کا انتظار کرتے، تاکہ وہ کھیل کود سکیں۔
چاکی کے خیالات اپنے ماموں سے بالکل مختلف تھے۔ چاکی کے ٹیچر کہتے تھے کہ پڑھو اپنے وقت پر اور کھیلو اپنے وقت پر۔ بغیر کھیل کود کے صرف پڑھائی سے بچے بقراط بن کے رہ جاتے ہیں۔ چاکی اگر اپنے ٹیچر کے خیالات سے متفق بھی تھا، تو اس میں اتنی ہمت قطعاًنہیں تھی کہ وہ اپنے ماموں سے یہ سب کَہ سکتا۔آخرایک دن چاکی نے ہمت کر ہی لی۔ اس کے ماموں، اس وقت شیو بنا رہے تھے۔ آدھے منہ پر جھاگ لگا تھا، ایک ہاتھ میں ریزر اور دوسرے میں چھوٹا سا آئینہ، جس میں دیکھ کر وہ شیو بنا رہے تھے۔ چاکی نے بہت ادب سے ان سے کچھ پیسے مانگے۔ ماموں شیو روک کرچاکی کی جانب مڑے:
’’تمھیں پیسے کس لیے چاہیے ہیں؟‘‘ ماموں نے پوچھا۔
’’ اس سے پہلے کہ پُل بن جائے ،میں ایک بار کشتی میں بیٹھ کر اوسابا جانا چاہتا ہوں۔‘‘ چاکی نے بہت سی ہمت جمع کر کے کچھ بے خوفی سے کہا۔
’’ یہ تم کیسی بے وقوفی کی بات کر رہے ہو۔‘‘ماموں نے ناراض ہو کر کہا: ’’اس سے پہلے کہ میں تین تک گنتی گنوں ،تم یہاں سے بھاگ جائو، ایک ،دو۔۔۔‘‘
چاکی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، لیکن وہ تین کی گنتی ختم ہونے سے پہلے بھاگنا نہیں بھولاتھا۔
پہلے تو چاکی نے سوچا کہ اپنی امی کو خط لکھ کر پیسے منگوا لے، پھر اسے امی کی نصیحت یاد آئی کہ دریا کے نزدیک بھی مت جانا! امی سے پیسے منگوانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، چاکی یہ سوچ کر اداس ہوگیا۔اس شام چائے پر ماموں نے اپنے دوست نوابا کو چاکی کی خواہش کے بارے میں بتایا تو وہ خوب ہنسے:
’’ شکر کرو وہ صرف اوسابا جانا چاہتا ہے اور ابھی اس نے لاگوس جانے کی خواہش نہیںکی۔‘‘
چاکی کے ماموں اکیلے رہتے تھے، ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا نوکر مائیکل گھر کے زیادہ تر کام کرتاتھا۔آگ جلانے کے لیے لکڑیاں کاٹنا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، کپڑے استری کرنا وغیرہ۔ چاکی بھی اکثر گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتاتھا۔ وہ کھانے کے برتن دھو دیتاا ور کبھی کمرے میں جھاڑو بھی دے دیتا۔ماموں کے گھر میں دو کمرے تھے، ایک میں وہ خود سوتے، اسی کمرے میں ان کا سارا سامان بھی رہتا۔ وہ ایک بڑی سی چارپائی پر سوتے تھے۔ کھانا پکانے کے برتن ، پتیلیاں اور بہت سا دوسرا سامان اسی چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا۔دوسرے کمرے کے وسط میں ایک گول میز تھی ،جس کے چاروں طرف کرسیاں لگی تھیں۔ اس کمرے میں ایک دیوار کی شیلف پر کچھ کتابیں رکھی تھیں۔ ایک کونے میں اسٹول پر ریڈیو رکھا رہتا، جب کہ دیواروں پر فریم میں تصویریںٹنگی رہتی تھیں۔ چاکی اور مائیکل اسی کمرے میں رہتے تھے۔ وہ رات کو درمیان سے میز اور کرسیاں ہٹاکر ایک کونے میں کر دیتے اور فرش پر چٹائی بچھا کر سو جاتے۔چاکی کو اس چٹائی میں اکثر کھٹمل کاٹتے۔ کبھی کبھی مائیکل دوا چھڑک کر ان کھٹملوں کو مارنے کی کوشش کرتا، لیکن وہ ایسے سخت جان تھے کہ کچھ ہی دنوں میں دوبارہ آجاتے۔چاکی کو زمین پر سونا بالکل پسند نہیں تھا۔ اسے اپنی امی کی جھگی میںرکھی بانسوں کی چارپائی بہت یاد آتی تھی۔
چاکی کو یہاں کی بہت سی باتیں پسند نہیں تھیں۔دس کمروں پرمشتمل اس عمارت میں تقریباًپچاس لوگ رہتے تھے۔ ایک ایک کمرے میں بہت سے لوگ بھرے رہتے، بچے بوڑھے عورتیںسب اس چھوٹی سی جگہ میں رہ رہے تھے۔ ایک ہی جگہ پر اتنے سارے لوگوں کے رہنے سے جھگڑے بھی بہت ہوتے۔ کسی بھی بات پر لڑائی شروع ہوجاتی، کبھی صفائی کرنے پر، کبھی جھاڑو دینے پر۔ کوئی غسل خانے میں بہت دیر بیٹھا رہے تو باقی اس سے لڑ پڑتے۔ان پچاس لوگوں کے لیے صرف دو غسل خانے تھے۔ ایک بچوں کے لیے اور دوسرا بڑوں کے لیے۔ دونوں غسل خانے بہت زیادہ گندے رہتے تھے۔ خاص طور پر بچوں کا غسل خانہ تو اتنا گندا اور بدبودار تھا کہ چاکی کو بہت گھن آتی۔ اس میں اتنی بڑی بڑی مکھیاں بھنبھناتیں کہ چاکی نے اپنے گائوں میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔ بڑے شہروں کی ہر چیز گائوں سے بہتر نہیں ہوتی۔ 
اونیشا کی کچھ چیزیں چاکی کو بہت اچھی لگتی تھیں۔ہفتے کے دن بڑا بازار لگتا ،تو مائیکل بھی سبزی ،ترکاری وغیرہ خریدنے بازار کا رخ کرتا۔ چاکی اکثر اس کے ساتھ ہو لیتا۔ مائیکل کا دکان داروںسے بھائو تائو کرنا اسے بہت اچھالگتا۔بازار دریا سے کچھ ہی دور لگتا تھا۔ جب تک مائیکل خریداری کرتا، چاکی دریا کو دیکھتا رہتا۔ دریا بہت شان سے دھیرے دھیرے سمندر کی جانب بہتا رہتا،جس میں مچھیرے اپنی نائو کبھی دریاکے بہائو کے ساتھ اور کبھی بہائو کے مخالف کھیتے نظر آتے تھے۔ دریا کے کنارے سے مچھیرے اپنی اپنی ٹوکریاں بھر کر بازار لاتے تھے۔ بہت سے مچھیرے تو کشتیوں پر ہی زندگی گزارتے تھے۔ ان کی کشتی میں ہی جھونپڑی سی بنی ہوتی تھی ،جس میں وہ ہفتوں کیا مہینوں رہ لیتے۔لیکن سب سے زیادہ مزا چاکی کو بڑی بڑی کشتیاں دیکھنے میں آتا۔ اتنی بڑی کشتیاں، جس میں بہت سے لوگ ادھر سے ادھرجا سکتے تھے۔وہ سوچتاجب یہ کشتیاں اتنی بڑی ہیں تو پانی کا جہاز کتنا بڑا ہوگا۔ چاکی کے ٹیچر نے بتایا تھا کہ جہاز صرف لاگوس ، بوروٹو یا ہارکورٹ کی بندرگاہ میں ہی آسکتے ہیں۔ لیکن ان بڑے جہازوں کی ضرورت ہی کس کو ہے۔ چاکی کے لیے تو یہی کافی تھا کہ ایک نائو میں بھی لوگ مہینوں کے لیے رہ سکتے ہیں۔ کشتیوں کو دیکھ کر چاکی کو اوسابا جانے کا خیال ستانے لگتا، لیکن پھر اسے یاد آتا کہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔’’ایک دن، ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب میں اوسابا جائوں گا‘‘ ۔چاکی نے دل میں عہد کیا۔
OOOO
گندا بچہ ایزاکیل
چاکی کودریا پار کر کے اوسابا جانے کی اتنی زیادہ خواہش تھی کہ وہ غلط کام کرتے کرتے رہ گیا۔ اس کا ایک دوست ایزاکیل بہت بگڑا ہوا بچہ تھا۔ چاکی کی طرح ایزاکیل بھی اپنی امی کا اکلوتا لڑکا تھا۔لیکن چاکی کے مقابلے میں ایزاکیل کی امی ایک امیر و کبیر خاتون تھیں۔ ان کا کپڑے کا کاروبار بہت کامیاب تھااور اسی وجہ سے ان کے پاس پیسے کی ریل پیل تھی۔ لیکن بے جا پیار و محبت میں انھوں نے ایزاکیل کو بہت بگاڑ دیا تھا۔ وہ ایزاکیل کو کسی کام سے روکتی ہی نہیں تھیں، غلط باتوں سے بھی نہیں۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ ایزاکیل برُے کام کرنے لگا تھا۔
ایزاکیل کی تین بہنیں تھیں اور گھر میں نوکر چاکر بھی موجود تھے۔ ایسے میں ایزاکیل کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتاتھا۔ برتن دھونا ہو یا پانی بھرنا، ایزاکیل گھر کے کسی کام میں ہاتھ نہیں بٹاتاتھا۔اس کی امی کہتی تھیں کہ گھر کے کام کرنا صرف بہنوں یا نوکروں کا فرض ہے۔ ظاہر ہے ایزاکیل ایک کاہل اور بگڑا ہوا بچہ بنتا جا رہا تھا۔اکثر رات کو اٹھ کر اپنے گندے ہاتھ سالن کی پتیلی میں ڈال کر اس میں سے گوشت کی بوٹیاں نکال کر کھا جاتا۔ صبح تک سالن سڑ جاتا تو اس کی ا می نوکروں کو سزا دیتیں۔ ایک دن اس کی بہنوں نے اسے رات گئے رنگے ہاتھوں پکڑا کہ اس کا ہاتھ سالن کی پتیلی میں تھا، اس کی انگلیاں سالن میں لتھڑی ہوئی تھیں، لیکن ایزاکیل نے پھر بھی جھوٹ بولا اور اس بات سے انکار ی ہو گیا کہ وہ ہی روز گندے ہاتھ ڈال کر بوٹیاں نکالتا ہے، اور اس کی امی نے اس کی بات پر یقین بھی کر لیاتھا۔
اب ایزاکیل اپنی امی کے پیسے بھی چرانے لگاتھا۔ ان پیسوں سے وہ اسکول میں مچھلی، میٹھے بسکٹ اور بادام وغیرہ خریدنے لگا۔ کبھی کبھی تو وہ سب دوستوں کے لیے پورے پورے پیکٹ خرید لیتاتھا۔ظاہر ہے وہ اپنے دوستوں میں بہت مقبول تھا۔ لیکن اس کے دوستوں کو پتا نہیں تھا کہ وہ یہ چیزیں اپنی امی کے پیسے چرا کر خریدتا ہے۔ پھر ایک دن تو اس نے حد ہی کردی۔ پہلے تو اس کے سب ساتھی سمجھے کہ اس نے بہت عقل مندی اور چالاکی کا کام کیا ہے، لیکن پھر جب پرنسپل صاحب نے سب کو سمجھایا کہ ایزاکیل نے کتنی گندی حرکت کی ہے تو سب کو پتا چلا۔
کسی طرح ایزاکیل کے ہاتھ انگلینڈ کے تین لڑکوں کے نام اور پتے آگئے۔یہ لڑکے اصل میں نائیجیریا کے بچوں سے قلمی دوستی کرنا چاہتے تھے۔ بس پھر کیا تھا، ایزاکیل نے تینوں لڑکوں کو علاحدہ علاحدہ خط بھیجے۔ایک لڑکے سے اس نے پیسے مانگے، دوسرے سے کیمرے کی فرمائش کی اور تیسرے لڑکے سے ایک جوڑی جوتے بھیجنے کو کہا۔ اس کے بدلے اس نے فرداً فرداً تینوں سے وعدہ کیا کہ وہ انھیںتیندوے کی کھال بھیجے گا۔ ایزاکیل نے اپنی زندگی میں کبھی تیندوا نہیں دیکھا تھا ، کیمرا، پیسے اور جوتے مل جانے کے بعد وہ ان لڑکوں کو تیندوے کی کھال کہاں سے بھیجتا۔کوئی ایک مہینے کے بعد انگلینڈ سے پہلا جواب آیا، تو اس میں دس شلنگ کا پوسٹل آرڈر رکھا تھا۔ ایزاکیل نے دوڑ کر اپنی ماں کو اپنی کارستانی بتائی تو وہ بہت خوش ہوئی۔ جہاں اس نے ایزاکیل کے اور بہت سے نام رکھے تھے، وہاںاس میں’’ چالاک لڑکے‘‘ کا بھی اضافہ ہو گیا۔ ایزاکیل کی امی اپنے چالاک لڑکے کو ڈاک خانے لے گئیں، تاکہ وہ اس پوسٹل آرڈر کو کیش کروا سکے۔اسکول میں اس کے دوستوں کو پتا چلا تو وہاں بھی اس کی چالاکی کی دھوم مچ گئی۔ اسی دن ایزاکیل کی دیکھا دیکھی بہت سارے بچوں نے انگلینڈ خط پوسٹ کر دیے۔
چاکی بھی دو خط بھیجنا چاہتا تھا ،لیکن اچھا ہوا اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ وہ ان پر ٹکٹ خرید کر لگا سکتا۔’’جیسے ہی میرے پاس اتنے پیسے ہوئے کہ میں ٹکٹ خرید سکوں ، میں بھی خط لکھ کر انگلینڈ سے دس شلنگ بل کہ ایک پائونڈ منگوائوں گا۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔ایک پائونڈ ہو تو میں جتنی بار چاہے دریا کے پار جاسکوں گا۔ انگلینڈ میں لوگ کتنے امیر ہوں گے کہ ایک بچے نے اتنی آسانی سے دس شلنگ ایزاکیل کو بھیج دیے۔ چاکی نے اس لڑکے کا خط دیکھا تھا، اس کی عمر صرف بارہ سال تھی۔ بارہ سال کے لڑکے کے پاس اتنے سارے پیسے ہیں کہ اس میں سے دس شلنگ اس نے یہاں بھیج دیے، واہ بھئی واہ۔ لیکن یہ بات چاکی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ بچہ تیندوے کی کھال کا کیا کرے گا۔چاکی کو تو انگلینڈ کے لوگ کچھ بے وقوف سے لگے۔
وہ تو اچھا ہی ہوا کہ چاکی کے پاس خط بھیجنے کے پیسے نہیں تھے ورنہ اسے بھی ایزاکیل اور دوسرے بچوں کے ساتھ ڈانٹ پڑتی۔ ایک دن ہیڈ ماسٹرصاحب نے ایزاکیل کو اپنے کمرے میں بلا بھیجا۔ کچھ دیر کے بعد پانچ دوسرے لڑکوں کو بھی طلب کیا گیا۔ کوئی ایک گھنٹے تک ہیڈ ماسٹر ان لڑکوں سے پوچھ گچھ کرتے رہے۔ ایک گھنٹے کے بعد ہیڈ ماسٹر نے سب کلاسیں رکوا دیں، اور اسکول میں گھنٹی بج گئی، جس کامطلب تھا کہ سب بچے جمع ہو جائیں ہیڈ ماسٹرصاحب کوئی اہم بات کرنے والے ہیں۔ ہیڈ ماسٹرصاحب بہت غصے میں تھے، ان کا منہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔
’’ـ آج میرے پاس انگلینڈ کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹرصاحب کا خط آیا ہے۔ـ‘‘ انھوں نے ہوا میں ایک خط لہرایا ،جو ایک نیلے کاغذ پر تحریر تھا۔’’ اس خط کو پڑھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ میرے اسکول میں چور اور دھوکے باز جمع ہیں۔ جیسے شیر کی کھال میں بھیڑیا۔ ذرا سوچو !تم لوگوں کی وجہ سے اسکول کی کتنی بدنامی ہوئی ہے۔‘‘ انھوں نے ایزاکیل اور دوسرے پانچ بچوں کی طرف دیکھ کر کہا، جن کی گردنیں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔ ’’ تم لوگوں نے اسکول ہی کو نہیں پورے ملک کو، پورے نائیجیریا کو بدنام کیا ہے۔‘‘ ہیڈ ماسٹر کی بات سے سب بچوں کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔’’اب انگلینڈ کے اسکول کے بچے نائیجیریا کو ہمیشہ چور اور دھوکے باز لوگوں کا ملک سمجھیں گے ،صرف ان چھ کمینوں کی وجہ سے۔‘‘ کچھ بچے ،جن کے لیے کمینہ نیا لفظ تھا، یہ سن کر ہنس پڑے۔
’’ہاں یہ کمینے ہی ہیں۔ انھوں نے تم سب کا نام بدنام کیا ہے۔ تم میں سے کچھ بچے بڑے ہوکر انگلینڈ پڑھنے بھی جا سکتے ہیں۔ اگر انگلینڈ میں انھوں نے کہیں تذکرہ بھی کیا کہ وہ نائیجیریا سے آئے ہیں ،تو آس پاس کھڑے سب لوگ اپنا اپنا پرس سنبھالنے لگیں گے کہ چور اور دھوکے باز آگئے، کیا تم لوگوں کو اچھا لگے گاـ۔‘‘
’’نہیں سر۔‘‘ لگتا تھا پورے اسکول نے ایک ساتھ چلا کر جواب دیا ہے۔
’’ یہ حال کردیا ہے ان کوڑھ مغزوں نے ہمارا۔‘‘ بچے اس لفظ کوڑھ مغز پر پھر ہنس پڑے۔چاکی کو یہ سوچ کر پسینہ آگیا تھا کہ اگر اس کے پاس ٹکٹوں کے پیسے ہوتے ،تو اس کا بھی یہی حشر ہوتا۔ اسے ایزاکیل اور ان بچوں پرکچھ کچھ رحم بھی آرہا تھا، خاص طور پر اپنے دوست SMOGپر کہ وہ بھی ان میں شامل تھا۔
’’سب سے ہلکی سزا سیموئل کو ملے گی، جب کہ سب سے کڑی سزا ایزاکیل کو دی جائے گی۔‘‘ ماسٹر صاحب نے اعلان کیا:’’ سیموئل نے صرف ایک کیمرامانگا تھا اور اس کے عوض تیندوے کی کھال بھیجنے کا جھوٹا وعدہ بھی نہیں کیا تھا۔لیکن پھر بھی کسی اجنبی سے مانگنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی بھیک مانگنے لگے۔ بھکاری کی شرم ، انا اور شخصیت سب ختم ہو جاتی ہے،۔ہم اس اسکول میں بچوں کو بھکاری نہیں بننے دیں گے۔‘‘
ماسٹر صاحب نے سیموئل کو چھ، باقی چار بچوں کو نو اور ایزاکیل کو بارہ مرتبہ چھڑی سے سزا دی۔ ایزاکیل مار کھا کر رو پڑا۔ اسی شام ایزاکیل کی امی ماسٹر صاحب کے گھر جا پہنچیں اور انھیں بہت برا بھلا کہا اور سب ذمہ داری ان پر ڈال دی۔ ایزاکیل کی پھر اسکول میں وہ عزت نہیں رہی۔ کوئی اسے تیندوے کی کھال کَہ کر پکارتا ،کوئی کمینہ، تو کوئی کوڑھ مغز۔ صرف اس کے قریبی دوست ہی ابھی تک اسے اس کے پرانے نام سے پکارتے تھے۔
تیندوے کی کھال والے واقعے کے بعد، چاکی دریا کے پار جانا بالکل بھول جانا چاہتا تھا۔بغیر کسی سے مانگے یا چوری کیے، اسے چھ شلنگ ملنے کا امکان نظر نہیں آتا تھا۔ اب کوئی مہربان خود ہی دے دے تو الگ بات ہے، لیکن ایسا کوئی مہربان بھی دور دور تک نہیں تھا۔ چاکی کوشش کے باوجود دریا کے پار جانا بھول نہیں پا رہا تھا۔اب چھٹیاں شروع ہونے والی تھیں اور آج اسکول کا آخری دن تھا۔سب اسکول کی صفائی کر رہے تھے۔ لڑکیوں نے فرش دھو کر صاف کردیے تھے ،جب کہ لڑکے سامنے کی گھاس کاٹ کر کھیل کے میدان میں اُگی جھاڑیاں کاٹ رہے تھے۔ چاکی کی کلاس آم کے باغ کے پاس کام کر رہی تھی۔ پکے آم ہاتھ بڑھا کر توڑ لینے کودل تو بہت کررہا تھا، لیکن بچوں کو آم توڑنے کی سخت ممانعت تھی۔ سب بچے مل کر کام کر رہے تھے ،اس لیے انھیںبہت مزہ بھی آرہا تھا۔ ہاتھ میں پکڑی کلہاڑیوں سے جھاڑیاں کٹ رہی تھیں۔ سب مل کر ایک گانا گا رہے تھے اور گانے کی دھن پر ایک ساتھ کلہاڑی ہوا میں بلند کردیتے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی پرانی فلم میں قیدی کھیتوں میں گا گا کر مزدوری کر رہے ہوں۔چھٹیوں سے پہلے آخری دن ایسے ہی مزے کا ہوتا ۔ کچھ کچھ نتیجے کی بے چینی بھی ہوتی ۔ حالاںکہ یہ سالانہ امتحان تو تھا نہیں، لیکن امتحان تو پھر امتحان ہے اور نتیجہ پھر نتیجہ، بے چینی تو بنتی تھی۔
’’ابراہیم!‘‘ ماسٹر صاحب کی پکار سنائی دی ،تو چاکی اور چند دوسرے بچے کھڑے ہوگئے۔ جو بچے کھڑے ہوئے تھے وہی پھنس گئے۔ ابراہیم تو کوئی تھا نہیں ۔ماسٹر صاحب نے یہ جال بچھایا تھا۔ انھیں کچھ بچے درکار تھے ،جو چند پادریوں کا سامان اٹھا کر اوکیکپی گائوں پہنچا دیں۔ 
’’ تم لوگوں کا دل کام میں نہیں لگ رہا تھا اور بلا وجہ ادھر ادھر ہر آواز پر اٹھ رہے تھے، اس لیے اب تم لوگوں کے تجسس کی یہی سزا ہے کہ تم لوگ ان پادریوں کا سامان پہنچا کر آئو۔ ماسٹر صاحب نے اس بندر کی کہاوت بھی سنائی، جس کو اپنے تجسس کی وجہ سے گولی لگ گئی تھی۔جو بچے اپنے کام میں لگے رہے تھے ان کی جان بچ گئی اور وہ چاکی وغیرہ پر ہنس پڑے۔اوکیکپی دریا کے اُس پار تھا۔ تقریباً چھ میل تک سامان ایک گاڑی میں رکھ کر دریا تک لے جایاجاتاتھا ، پھر وہاں سے دریا پار کرنا ہوتاتھا۔یہ ایک اور چھوٹا ،نکیسا نامی،دریا تھا ۔ جس جگہ گاڑی انھیں چھوڑتی، وہیں ایک پل تھا جس پر سامان جاسکتا تھا۔ لیکن پچھلی بارشوں میں وہ پل بہہ گیا۔لہٰذا اب سامان سر پر رکھ کر دریا عبور کرنا تھا۔ اگرچہ گاڑی کے ڈرائیور نے بچوں کو تسلی دی کہ لاری اڈے کے نزدیک دریا کا پاٹ بہت تنگ ہے اور وہ آسانی سے اسے عبور کر لیں گے، لیکن بچوں کو بہت ڈر لگ رہا تھا، خاص طور پر چاکی کو،کیوں کہ وہ تیرنا بھی نہیں جانتا تھا۔سامان لادنے کے بعد جب گاڑی اسٹارٹ ہوئی ،تو چاکی کو یوںلگاجیسے یہ اس کا آخری سفر ہے۔ دوسرے لڑکوں کی باتیں سن سن کر اسے اور خوف آرہا تھا ۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کیسے لوگ دریا پار کرتے ہوئے ڈوب کر مر جاتے ہیں۔
’’ دریا کے نیچے پتھر بہت چکنے ہوتے ہیں ۔ایک دفعہ پیر پھسلا تو سمجھوبس ختم۔‘‘ مارک کن اکھیوں سے چاکی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔مارک کافی لمبا چوڑا لڑکا تھا۔ پڑھائی میں بالکل کورا۔ بہت سے بچے اسے پاپا کَہ کر بلاتے تھے۔’’ میرا ایک دوست کل دریا کے اُس پار گیا تھا ۔اس نے مجھے بتایا کہ دریا پانچ فٹ گہرا ہے۔‘‘ مارک چاکی کو مسلسل ڈرائے جا رہا تھا۔
’’ پھر تو میں دریا پار کرنے سے انکار کردوں گا۔‘‘ چاکی نے ڈر کر کہا۔
’’ٹھیک ہے پھر تم اپنے حصے کا سامان لیے یہاں اس وقت تک کھڑے رہنا ،جب تک وہ پُل دوبارہ تعمیر نہ ہوجائے۔‘‘ مارک کے مذاق اڑانے پر کچھ بڑے بچے ہنس پڑے۔ لگتا تھا چاکی کو چھیڑنے میں مارک کو بہت مزا آرہا تھا۔آخر گاڑی کا سفر تمام ہوا اور وہ دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ چاکی نے دل میں سوچ لیا تھا کہ جیسے ہی پانی اس کی کمر تک پہنچے گا، وہ واپس لوٹ جائے گا۔
’’ہم سب ایک ہی کلاس کے سات بچے ہیں،لہٰذابہتر ہے کہ سارے سامان کو سات برابر حصوں میں تقسیم کر لیں اور اٹھا کر لے جائیں۔‘‘ مارک نے تجویز پیش کی۔ یہ غلط بات تھی کیوں کہ کچھ بچے کافی بڑے تھے اور زیادہ بوجھ اٹھا سکتے تھے۔ گاڑی کاڈرائیور نسبتاًرحم دل اور نیک آدمی تھا۔ اس نے چاکی کو کم سامان دیا۔سب بچوں نے کپڑے اتار ے، ان کی گٹھڑی بنا کر سر پر رکھ لی، تاکہ کپڑے نہ بھیگیںاورصرف زیرجاموں میں دریا پار کرنے لگے۔ کچھ لوگ دریا کی مخالف سمت سے اس طرف آرہے تھے۔ چاکی نے بھی ہمت کی اور سیدھا دریا میں اتر گیا۔ مارک کے مذاق اڑانے سے اسے ایسا غصہ آیا تھا کہ تیز تیز سیدھا چلتا چلا گیا۔ اس کی ہمت دیکھنے والی تھی۔ دوسرے بڑے لڑکے ،جو اس پر ہنس رہے تھے وہ اب پیچھے رہ گئے تھے۔ایک جگہ تو پانی اتنا گہرا تھا کہ چاکی کے سینے تک آگیا، مگر وہ بالکل نہیں گھبرایا بلکہ سیدھا چلتا چلا گیا۔ایک چکنے پتھر پر اس کا پیر پھسلا مگر گرنے سے پہلے ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔جلد ہی وہ دریا کے دوسرے کنارے کے نزدیک تھا۔ اس نے خشکی پر پہنچ کر پیچھے مڑ کر دیکھا، تو اس کے ساتھی لڑکے آہستہ آہستہ مشکل سے آرہے تھے۔ چاکی کو اپنے اوپر بہت فخر محسوس ہوا۔
اس تجربے نے چاکی کو بہت اعتماد دیا۔ اسے پتا چل گیا کہ اگرآدمی ہمت کرے تو کچھ بھی کر سکتا ہے، ایک دریا بھی پار کرسکتا ہے۔ اس کے ماموں ایک کہاوت سناتے تھے کہ جو آدمی بڑا دریا پار کرلے اس کے لیے ندی میں ڈوبنا بہت شرم کی بات ہے۔چاکی نے سوچا اس سے اچھی کہاوت تو میں خود بنا سکتا ہوںکہ جو آدمی دریائے نکیسا ننگے پیر چل کر عبور کر سکتا ہے، وہ ایک دن کشتی میں بیٹھ کر دریائے نائیجر بھی عبور کرلے گا۔
انھیںواپس اسکول پہنچنے تک شام کے چھ بج گئے۔ اسکول تو ظاہر ہے بند ہوچکا تھا، اس لیے وہ سب ماسٹر صاحب کے گھر پہنچ گئے تاکہ امتحان کا نتیجہ معلوم کر لیں۔ چاکی سمیت تین لڑکے پاس ہو گئے تھے،جب کہ مارک اور دو اور بچے فیل ہو گئے تھے۔ نتیجہ سنتے ہی چاکی تیزی سے گھر کی طرف بھاگ نکلا۔ اسے پتا تھا کہ مارک ،جو اس سے زیادہ طاقت ور ہے، اب اپنے فیل ہونے کا سارا غصہ اس پر اتارے گا، کیا معلوم مارنے بھی لگے۔ جب چاکی کافی آگے نکل آیا اور اسے لگا کہ وہ اب محفوظ ہے تو اس نے اپنی رفتار ذراآہستہ کر لی۔چاکی کو اپنے ٹیچر کی سنائی ہوئی وہ نظم یاد آنے لگی:
اک بچہ بالکل کورا تھا
پر، اس کو پاس تو ہونا تھا
پڑھ پڑھ کے بالکل اندھا تھا
وہ کتنی دوائیں کھاتا تھا
کہ نیند نہ اس کو آجائے
پر،اتنی دوائوں سے اپنا
وہ ذہن بھی گم کر بیٹھا تھا
اس کے ٹیچر نے یہ نظم اس وقت سنائی تھی ،جب امتحان سے بالکل پہلے، تین بچے ایسی عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگے ،جیسے پاگل ہو گئے ہوں۔ پتاچلا کہ ان تینوں نے ایک آدمی سے دوائیں اور گولیاں خرید کر کھائی تھیں۔ اس آدمی نے ان بچوں کو دھوکا دیا کہ ان دوائوں سے تمھاری یادداشت بہت تیز ہو جائے گی، جو پڑھو گے وہ سب یاد رہ جائے گا۔ مگر ان دوائوں کا ایسااُلٹا اثر ہوا کہ امتحان سے ذرا پہلے تینوں بچوں کا دماغ بالکل بند ہو گیا۔طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ تینوں کواسپتال لے جانا پڑا ،جہاں پانچ دن ان کا علاج ہوتارہا۔ڈاکٹر نے بتایا :’’ان کی قسمت اچھی تھی کہ ٹھیک ہو گئے، ورنہ ہمیشہ کے لیے پاگل بھی ہو سکتے تھے۔‘‘ امتحان میں تو ظاہر ہے وہ تینوں بری طری فیل ہوئے۔جب تک وہ اسپتال میں رہے لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں اور خوب افواہیں اڑائیں۔ کوئی کہتا وہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو گئے ہیں۔ ایکازیل نے یہ افواہ اڑائی کہ جب ہیڈ ماسٹر انھیں دیکھنے اسپتال گئے، تو ایک لڑکے نے انھیں تھپڑ ماردیا۔
 لڑکوں کے اسپتال سے آنے کے بعد بھی اسکول میں ہر آدمی انھیں ایسے دیکھتا ،جیسے وہ کوئی عجوبہ ہوں۔ ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی کہ کوئی پاگل پن کی بات تو نہیں کر رہے۔ کئی دنوں بعد لوگوں کو کہیں یقین آیا کہ بچے اب بالکل نارمل ہو چکے ہیں۔ امتحان بالکل سر پر تھے اور سب اس میں مصروف ہوگئے۔ امتحان کے بعد توسب چھٹیوں پر چلے گئے، لیکن ٹیچر اس واقعے سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے چھٹیوں کے دوران میںیہ نظم لکھی۔ کئی ہفتوں کی چھٹیاں گزار کر سب واپس آئے، تو ٹیچر نے یہ نظم سنائی،جو سب کو بہت پسند آئی۔ یہاں تک کہ وہ تینوں لڑکے بھی اس کو سن کر ہنس پڑے۔
چاکی کا گھر اب قریب آرہا تھا۔ پکی سڑک چھوڑ کر اب وہ پتھریلی پگڈنڈی پر چل رہا تھا ،جو اس کے گھرکو جاتی تھی۔ راستے میں ایک نارنگی، سڑک پر پڑی تھی۔ وہ اس سے ایسے کھیلنے لگا ،جیسے فٹ بال کھیل رہا ہو۔ ایک پیر سے کھیلتا کبھی دوسرے پیر سے۔ کبھی ایسے جھکائو دیتا ،جیسے مخالف کھلاڑی کو جھکائی دے رہا ہو۔ ایک دفعہ تو تیزی سے نارنگی کو دھکیلتے ہوئے اس نے دائیں بائیں کاٹااور ساتھ گنتا گیا، ایک دو، تین اور پھر ایسے کک لگائی جیسے گیند گول میں پھینک رہا ہو۔ وہ اسی کھیل میں مشغول تھا کہ اس کی نظر ایک سکے پر پڑی ،جو ریت میں چمک رہا تھا۔اس نے جھک کر اسے اٹھایا ،تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ایک لمحے کو لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔اس نے اپنی آنکھیں بند کرکے سکہ مٹھی میں دبا لیا۔ دوبارہ آنکھیں کھولیں تو یہ خواب نہ تھا، واقعی چھ شلنگ کا سکہ اس کی ہتھیلی پر چمک رہا تھا۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا کہ شاید اس کا مالک کہیں آس پاس ہے۔ دور دورتک کوئی بھی نہیںتھا ۔اس نے اطمینان سے سکہ جیب کے اندر رکھ لیا۔ پھروہ تیزی سے گھر کی طرف چل پڑا ،لیکن کچھ ہی قدم چل کر اس نے اپنی رفتار بڑھا دی اور بھاگنے لگا۔
OOOO
سکے کی قسمت
چاکی نے ایک ساتھ اتنے پیسے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس کے پاس ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ تین پینس اس وقت آئے تھے، جب اس نے ایسٹر پر گا کر جمع کیے تھے۔ چاکی اور اس کے دوستوںکے گروپ نے لوگوں کو ڈانس کر کے دکھایا تھا۔ اس کھیل میںگروپ کا لیڈر منہ پر ماسک لگا کر ایک گاتی ہوئی روح بن جاتا تھا، جب کہ باقی سب بچے اس روح کے خادم بن جاتے۔ چاکی بھی ایک خادم بنا تھا۔ ان کے موسیقی کے آلات بہت سادہ مگر مضحکہ خیز تھے۔ ایک ڈھول جس پر کھال چڑھی ہوئی تھی۔ تام چینی کی ایک خالی ٹرے،جسے وہ ہاتھ سے پیٹتے ،تو اس میں سے بھی مختلف سُر اور تال نکلتے۔ سگریٹ کے خالی ڈبے میں کنکر بھرکے اسے ہلا تے، تو ایک دف کی سی آواز نکلتی۔اسی طرح گاتے بجاتے چاکی کے گروپ نے لوگوں سے کچھ پیسے جمع کر لیے۔ کچھ لوگوں نے انھیں پیسوں کی جگہ کھانے کی چیزیں دی تھیں۔ چاکی کے دوستوں نے سب چیزیں ایک جگہ جمع کرنے کے بعد آپس میں بانٹ لیں۔ چاکی کے حصے میں تین پینس آئے تھے ۔تین پینس کے اس نے اخروٹ خرید لیے تھے۔
اب چاکی بڑا ہوگیا تھا اور ان باتوں کو بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔اب وہ پیسے اخروٹ پر برباد کرنے کے بجائے ا س سے اپنا خواب پورا کرتا۔لیکن یہ چھ پینس اتنے نہیں تھے کہ چاکی دریا کے پار جاسکتا۔ اس کے لیے تو پورا ایک شلنگ چاہیے تھا۔ لیکن چاکی مایوس نہیں تھا کہ قطرہ قطرہ مل کرہی تو دریا بنتا ہے۔اسے اپنی امی کی سہیلی سارایاد آئی ،جو تجارت کرتی تھی۔ سارا بہت مزے مزے کی باتیں کرتی اور کہانیاں سناتی تھی۔ ان کی سنائی ہوئی چڑیا اور دریا کی کہانی تو چاکی کوزبانی یاد تھی اوراسے اتنی پسند آئی تھی کہ اس نے کہانی میں اپنی طرف سے کچھ اضافے بھی کر لیے تھے۔
کہانی کچھ اس طرح تھی کہ ایک دفعہ ایک چڑیا اور ایک دریا میں جھگڑا ہو گیا۔ اصل میں دریا کو اپنی لمبائی اور چوڑائی پر بہت غرور تھا۔ وہ اپنے سامنے کسی کو کچھ نہ سمجھتا۔ ایک دن وہ ننھی چڑیا سے کہنے لگا:’’ تم تو کیا ،بڑے سے بڑا پرندہ بھی میرے سامنے کچھ نہیں۔ تم تو میرے سامنے ایک حقیر سا ذرہ ہو۔ کیا لمبائی ہوگی تمھاری بھلا، دو انچ ہونہہ!۔ میری لمبائی دیکھی ہے، دو ہزار چھ سو میل لمباہوں۔ میں جا فٹا جالون کی پہاڑیوں سے نکلتا ہوں، تو پانچ ملکوں کا سفر کر کے یہاں پہنچتا ہوں۔ تم حقیر چڑیا ہٹ جائو میرے سامنے سے۔‘‘
 ننھی چڑیا نے بہت اطمینان سے دریا کی بات سنی ،پھر ایک غوطہ لگا کر نیچے اتری، اور دریا سے ایک گھونٹ پانی کا بھر لیا۔ پھر اوپر اڑتے ہوئے بولی :’’ تم کتنے ہی لمبے چوڑے اور عظیم کیوں نہ ہو، اب تم ایک گھونٹ کم ہوگئے ہو۔ سمجھو ایک گھونٹ چھوٹے۔ آج صبح تم جتنے بڑے تھے ،اب میں نے تمھیں اس سے ایک گھونٹ چھوٹا کر دیا ہے۔ اب اگر مجھے پکڑ سکو تو آئو پکڑو!‘‘ یہ کَہ کر چڑیا پھُر سے اُڑ گئی۔دریا کو رنج تو بہت ہوا ،لیکن اس نے سوچا تو اسے چڑیا کی بات سچ لگی۔ اسے یہ بھی پتاچل گیا کہ دریا کتنا ہی لمبا چوڑا کیوں نہ ہو، دریا اُڑ نہیں سکتا۔
سارا آنٹی نے شاید یہ کہانی اتنی دل چسپ نہیں سنائی تھی۔ انھوں نے جب یہ کہانی سنائی تھی، تو اس میں دریا کی اصل لمبائی، پانچ ملکوں کا ذکر اور پہاڑی کا نام وغیرہ شامل نہیں تھا۔چوںکہ چاکی کو جغرافیہ سے بہت دل چسپی تھی اور اسے ملکوں، دریائوں کے متعلق بہت معلومات تھیں، لہٰذا اس نے یہ سب خود اس کہانی میں شامل کر لیا تھا۔ چاکی کو دریائے نائیجرسے جودلچسپی تھی، اس کی وجہ شاید یہ کہانی ہی رہی ہو گی۔ 
آپ کو یاد ہوگا کہ چاکی کو چھ پینس کا سکہ ملا تھا، اب اسی کا ذکر کرتے ہیں۔ چاکی نے وہ سکہ ایک کاغذ میں لپیٹ کر اپنے لنچ بکس میں رکھ لیا۔ کئی دنوں تک وہ سکہ اس کے لنچ بکس میں رکھا رہا۔ سکہ جب ایک ہفتہ لنچ بکس میںپڑا رہا،تو چاکی کو بے چینی ہونے لگی کہ کس طرح یہ چھ پینس بڑھ کر ایک شلنگ بن جائیں، تاکہ وہ نائیجر دریا کے پار جا سکے۔ اب چھ پینس بڑھانے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ وہ اس سے تجارت کرتا، کچھ خریدتا اور پھر کچھ بیچتا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ چھ پینس اتنے کم پیسے ہیں، اس سے کوئی کاروبار کیسے شروع ہوسکتا ہے۔ پھر یہ کہ اس کے ماموں کبھی اسے کاروبار نہیں کرنے دیتے۔ اسی سوچ میں آخر اسے اپنے دوست سیموئل کا خیال آیا اور چاکی اپنا مسئلہ لے کر سیموئل عرف S.M.O.Gکے پاس پہنچ گیا۔ سیموئل نے چاکی کا مسئلہ ایسے سنا ،جیسے وہ بہت عقل مند اور بڑی عمر کا آدمی ہے۔ اپنا ہاتھ تھوڑی پر رکھ کر وہ غور سے سنتا رہا پھر بولا:
’’تو چاکی تم اپنے یہ چھ پینس ایک شلنگ میں بدلنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ چاکی کو ہنسی آئی کہ پوری داستان سن کر بھی سیموئل یہ سوال کر رہا ہے۔
’’ٹھیک ہے تو اس آدمی کے پاس چلتے ہیں ،جو پیسوں کو دگنا کر دیتا ہے۔‘‘
’’ واقعی!کہاں رہتا ہے وہ آدمی؟‘‘ چاکی نے بہت خوشی سے پوچھا۔
’’ مجھے نہیں معلوم وہ کہاں رہتا ہے ،لیکن میں کل تک معلوم کرلوں گا۔‘‘ سیموئل نے اعتماد سے کہا۔بس ٹھیک ہے ، دونوں دوستوں نے فیصلہ کر لیا کو وہ کل اس آدمی کی تلاش میں جائیں گے ،جو پیسوں کو دگنا کر سکتاہے۔ یہ سوچ کر دونوں مطمئن ہوگئے اور کھیلنے لگے۔ سیموئل کی جیب میں بھی تین پینس تھے۔ابھی وہ کھیل ہی رہے تھے کہ ایک ٹھیلے والا آنکلا۔وہ ابلے ہوئے انڈے اور گوشت کی بوٹیاں بیچ رہا تھا ،جس کو سب ’’سویا ‘‘ کہتے تھے۔ سیموئل کے ذہن میں ایک خیال آیا:’’چاکی ایسا کرتے ہیں، میں تین پینس کا گوشت خریدتا ہوں اور تم تین پینس کے انڈے خرید لو۔ تم تھوڑا سا میرے گوشت میں سے لے لینا میں تمھارے انڈوں میں سے کچھ کھا لوںگا۔‘‘
’’لیکن مجھے تو کل پیسے دگنے کرانے تھے۔‘‘ چاکی نے احتجاج کیا۔
’’بچوں جیسی باتیں مت کرو۔‘‘ سیموئل ایسے بولا جیسے خود بہت بڑا ہو۔ ’’ تمھارے پاس پھر بھی تین پینس بچ جائیں گے ،جس سے تم چھ پینس کروا لینا ،اور پھر پیسے دگنے کرنے والا ہی ان چھ پینس کو ایک شلنگ بنا دے گا۔‘‘ S.M.O.G نے کہا۔
’’ ہاں یہ ٹھیک ہے ،بلکہ میں ایک شلنگ کو دگنا کر کے اس کے دو شلنگ بنوا سکتا ہوں۔‘‘ چاکی نے جواب دیا۔
’’ بالکل ٹھیک۔‘‘ S.M.O.G  بولا۔
’’ لیکن ایک ساتھ تین پینس خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم دونوں ایک ایک پینس خرچ کر لیتے ہیں۔‘‘ چاکی نے تجویز پیش کی۔
’’ پھر وہی بچوں والی باتیں۔‘‘ S.M.O.G نے مذاق اڑایا:’’ ایک پینس کا ایک انڈا آئے گا ،جب کہ تین پینس کے چار انڈے آجائیں گے۔کیا تم ایک انڈا خرید کر صرف آدھا آدھا انڈا کھانا چاہتے ہو، جب کہ ہم دونوں دو دو انڈے کھا سکتے ہیں۔ تمھیں یاد ہے آخری بار انڈا کب کھایا تھا؟ ہم دریائے نائیجر کے کنارے رہتے ہوئے چلو سے کیوں ہاتھ دھوئیں۔‘‘
چاکی نے یہ مثال پہلے بھی سن رکھی تھی۔ بلکہ جب لوگ نوابا کا ذکر کرتے تھے، تو اس کی کنجوسی ایسے ہی بیان کر تے تھے کہ دریا کے کنارے رہتا ہے لیکن چلو سے ہاتھ دھوتا ہے۔اتنا امیر نوابا کتنی کنجوسی سے رہتا ہے۔ چاکی بالکل ایسے نہیں رہنا چاہتا تھا اور نہ یہ چاہتا تھا کہ لوگ اسے نوا با کی طرح سمجھیں۔ چاکی نے تین پینس کے چار انڈے خریدے، ان میں سے دو انڈے سیموئل کو دیے اور دو اپنی جیب میں رکھ لیے۔اب وہ سویا نامی گوشت کی بوٹیاں لینے نکل پڑے۔ یہ بوٹیاں ایک سیخ میں پرو کر پکائی جاتی تھیں۔ چاکی نے پہلے یہ بوٹیاں کھائی تو تھیں، لیکن سیموئل نے کبھی اسے آدھی سیخ دے دی، کبھی ایزاکیل نے چوتھائی۔ وہ یہ سوچ کر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ اب وہ پوری سیخ کھا سکے گا۔ اس نے پہلے کبھی ایک ساتھ تین پینس بھی خرچ نہیں کیے تھے۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بہت بڑا ہو گیا ہے۔سیموئل کو پتا تھا کہ سویا کہاں ملتا ہے۔ وہ چاکی کو لے کر وہاں پہنچ گیا۔ یہاں کباب والے ،بوٹیاں تیل، نمک، مرچ اور دوسرے مصالحے لگا کر ایک سیخ میں پرو دیتے تھے۔ پھر یہ سیخیں کوئلوں پر بھونی جاتی تھیں۔
S.M.O.Gنے تین پینس کی دو سیخیںخریدیں، اور دونوں نے ایک ایک سیخ لے لی۔ چاکی کے منہ میں پانی آرہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ فوراً بوٹیاں سالم نگلنا شروع کردے۔ بوٹیاں بہت گرم تھیں، اس سے بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔لیکن سیموئل نے اسے سمجھایا، اور وہ ایک آم کے درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئے۔
’’ چاکی ہم ایسی بد تمیزی سے سڑک پر کھاتے ،تو لوگ سمجھتے ہم لوگ بالکل گنوار ہیں،اور ہماری گھر پر کوئی تربیت نہیں ہوئی، ہمیں کوئی آداب نہیں سکھائے گئے۔‘‘سیموئل نے سمجھایا۔چاکی خود ہی شرمندہ ہو رہا تھا۔ وہ سیموئل سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا۔ وہ آم کے درخت کے نیچے، ایک بڑی سی جڑ پر بیٹھ گئے ،اور سیخوں میں سے مزے دار بوٹیاں نکال نکال کر کھانے لگے۔
OOOO
چاکی اور S.M.O.G  کی لڑائی
جب دونوں دوست بوٹیاں کھا چکے، تو انڈوں کی باری آئی۔ سیموئل نے انڈوں کا ایک کھیل بتایا ، جس میں بہت مزہ آتاتھا۔ اس نے کہا:
’’ پہلے انڈوں کو آہستہ آہستہ اپنے سامنے والے دانتوں پر مار کر اندازہ کرتے ہیں کہ کون سا انڈا اچھی طرح اُبل گیا ہے۔ پھر دونوں ایک دوسرے کے سخت انڈے ٹکراتے ہیں، جس کا انڈا ٹوٹ جائے ،وہ دوسرے دوست کو اپنا ٹوٹا ہوا انڈا دے دے گا۔‘‘
 چاکی کو بھی یہ کھیل بہت دل چسپ لگا۔ چاکی نے اپنے دونوں انڈے اپنے سامنے والے دانتوں سے ٹکرا کر دیکھے، جو انڈا اسے زیادہ ابلاہوا اور سخت لگا، اس انڈے کو اس نے اپنی ہتھیلی میں بند کر لیا۔ اس طرح کہ انگوٹھے اور انگلی کے درمیان صرف انڈے کا سر نظر آرہا تھا۔ اس نے انڈے پر پھونک بھی ماری کہ جیسے ایسا کرنے سے وہ جیت جائے گا۔سیموئل بہت بے صبرا ہو رہا تھا:’’ جلدی کرو !اب زیادہ وقت ضائع نہیں کرو!‘‘ اس نے چاکی سے کہا۔
چاکی نے اپنا انڈا سیموئل کے انڈے سے ٹکرا دیا۔ ایک انڈا ٹوٹنے کی آواز آئی لیکن یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کس کا انڈا ٹوٹا ہے؟ پہلے چاکی نے اپنے انڈے کو دیکھا تو وہ صحیح سلامت تھا، پھر اس نے سیموئل کے انڈے کو دیکھا تو وہ ٹوٹ چکا تھا۔ چاکی خوشی سے اچھل پڑا۔سیموئل کو اپنی جیت کا یقین تھا، اس کا انڈا ٹوٹ گیا تو اسے یقین نہیں آیا۔ اس نے جھجکتے ہوئے اپنا انڈا چاکی کو دے دیا۔ 
’’اب دوسرا انڈا بھی ٹکرا کر دیکھتے ہیں۔‘‘ چاکی نے اپنا ہاتھ پھر بڑھایا۔
’’بالکل نہیں۔‘‘ سیموئل نے غصے سے، انگریزی میں کہا۔ وہ جب بھی غصے میں ہوتا، انگریزی بولنے لگتا۔
چاکی آہستہ آہستہ اپنے جیتے ہوئے انڈے پر سے چھلکا اتار رہا تھا۔ ’’بھئی غصہ تھوک دو، تم ہی نے تو یہ کھیل سکھایا تھا، اب ہار گئے ہو تو رو کیوں رہے ہو؟‘‘
’’ رو کون رہا ہے، تم خاموشی سے اپنا انڈا کھائو۔‘‘ سیموئل نے پھر انگریزی میں کہا۔
چاکی کو ہنسی آگئی۔ وہ خاموشی سے اپنا انڈا کھانے لگا۔ سیموئل نے اپنا انڈا درخت سے ٹکرا کر توڑا اور اسے چھیل کر کھانے لگا۔ چاکی نے ایک گانا گنگنانا شروع کردیا، جو ایک ایسے بچے کے بارے میں تھا، جو کھیل میں ہارتا تو رونے لگتا۔سیموئل کا چہرا سرخ ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کر زمین پر گری کیریوں اور آموں کو الٹنے پلٹنے لگا۔ اسے ایک زیادہ پکا ہوا ،تقریباً سڑا ،آم نظر آیا ،جسے کسی کیڑے نے ایک طرف سے کھا لیا تھا۔ سیموئل نے اس آم کو کان کے نزدیک لا کر کچھ سنا اور پھر مسکرا کر وہ آم چاکی کو پکڑا دیا۔’’ اس آم میں بھی کوئی گا رہا ہے، تم اس کا گانا سن لو۔‘‘جہاں سے کیڑے نے آم کھایا تھا وہاں گول سوراخ ہو گیا تھا۔ چاکی نے مشکوک سے انداز میں آم کو لے تو لیا لیکن اسے ذرا اپنے آپ سے دور رکھ کر دیکھنے لگا۔
’’قریب سے گانا سن لو، ڈر کیوں رہے ہو؟ انڈا کھانے والے کو تو ڈرنا نہیں چاہئے۔‘‘ سیموئل نے مذاق اڑایا۔
چاکی نے آم کے سوراخ کو اپنی ہتھیلی سے بند کیا اور آم کان کے نزدیک لایا کہ دیکھیں اس میں کون گا رہا ہے۔ جیسے ہی اس نے سوراخ پر ہتھیلی رکھی آم میں بیٹھے کیڑے نے اس کی ہتھیلی پر کاٹ لیا۔چاکی نے ہلکی سی چیخ مار کرآم دور پھینک دیا، اس کی ہتھیلی میں درد ہو رہا تھا۔سیموئل ہنسے جا رہا تھا، لگتا تھا اس پر ہنسی کا دورہ پڑگیا ہو۔ ’’ بے وقوف لڑکا۔‘‘ اس نے ہنستے ہنستے چاکی کی طرف اشارہ کیا۔
چاکی کے ہاتھ میں بہت جلن ہو رہی تھی، وہ مسلسل اپنی ہتھیلی کو کھجا رہا تھا۔ درد برداشت نہ ہوا تو وہ مڑ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ اب سیموئل کو کچھ افسوس ہوا، وہ بھی بھاگ کر چاکی کے ساتھ ہو لیا اور معافی مانگی کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پہلے تو چاکی خفا ہی ر ہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ مان گیا۔ اب اس کے ہاتھ کی جلن بھی کافی کم ہوگئی تھی۔گھر پہنچنے تک دونوں میں پھر دوستی ہوگئی تھی۔ دونوں دوست ہنس کھیل رہے تھے،۔چاکی نے ایک انڈا بھی سیموئل کو دے دیا ،یوں دونوں کے پاس پھر سے ایک ایک انڈا ہوگیا۔
OOOO
پیسے دگنے کرنے والا
سیموئل کی امی کی طبیعت خراب تھی، اس لیے اگلے دن وہ تو اپنی امی سے ملنے جنرل اسپتال چلا گیا اور چاکی کے ساتھ نہیں جا سکا ،لیکن اس نے چاکی کو راستہ بہت اچھی طرح سمجھا دیا۔چاکی کو پیسے دگنے کرنے والے کی دکان آرام سے مل گئی۔ باہر ہی بورڈ پر نمایاں حروف میں لکھا تھا:
پروفیسر چندوس
مشہور جادوگر 
 جڑی بوٹیوں سے علاج کے ماہر
آزمائش شرط ہے
بورڈ پر ہجے کی کئی غلطیاں تھیں۔وہ ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا، جو ایک آدھی آستین کی بنیان پہنے ہوئے تھا۔ یہ لباس جو کبھی سفید رہا ہوگا، اب بالکل مٹی کے رنگ کا ہو گیا تھا۔ ساتھ میں ایک لمبی نیکر ،جو گھٹنوں سے نیچے پہنچ رہی تھی۔ نیکر کسی عجیب سے کپڑے کی بنی تھی، جیسے کسی خیمے کا کپڑا ہو۔ جب وہ بیٹھا تونیکر کا کپڑا اتنا اکڑا ہوا تھا کہ اس میں سے باقاعدہ چرررر کی آواز آئی۔
’’کیا چاہیے تمھیں؟‘‘ اس نے چاکی سے پوچھا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ تم میرے پیسے دگنے کر دو۔‘‘ چاکی نے بہت اشتیاق سے کہا۔
’’کتنے پیسے ہیں؟‘‘ 
’’تین پینس۔‘‘
’’تین کیا؟‘‘
’’تین پینس۔‘‘ چاکی نے کچھ شرمندگی سے کہا: ’’میرے پاس کُل اتنے ہی پیسے ہیں۔‘‘
’’ہا ہا ہا ہا، یہ لڑکا پروفیسر چندوس کے پاس صرف تین پینس لے کر آیا ہے، ہاہاہاہا۔‘‘
’’ لیکن میرے پاس صرف تین پینس ہی ہیں۔‘‘ چاکی نے پھر کہا۔
’’ اچھا بھئی، تم مجھے پسند آگئے ہو، کیا نام ہے تمھارا؟‘‘ پروفیسر چندوس نے پوچھا۔
’’چاکی۔‘‘
’’چاکی، تم مجھے بہت پسند آئے ہو۔ یہ بتائو تمھارے ابا کیا کام کرتے ہیں؟‘‘
’’میرے ابا فوت ہو چکے ہیں۔‘‘ چاکی نے جواب دیا۔
’’ ہاں مجھے پہلے ہی غیب سے پتا چل گیا تھا، میں تو تمھارا امتحان لے رہا تھا۔‘‘ پروفیسر چندوس بولا۔
چاکی مرعوب سا ہوگیا، اسے لگا چندوس واقعی جادوگر ہے کہ اس کے ابا کے بارے میں بغیر بتائے جان گیا تھا۔
’’ پروفیسر چندوس اتنی حقیر رقم کو دگنا نہیںکرتے ،لیکن تمھاری مدد ضرور کریں گے۔ میں تمھیں ایک ایسا تحفہ دوں گا ،جس سے تمھارے پاس بہت ساری دولت آجائے گی، ادھر دیکھومیری طرف۔‘‘ پروفیسر چندوس بولا۔
چاکی بغیر پلک جھپکائے غور سے پروفیسر چندوس کو دیکھ رہا تھا۔ پروفیسر نے جیب سے ایک چھ انچ لمبی کیل نکالی اور اس کو اپنی ناک کے اندر غائب کردیا۔ جیسے وہ کیل ایک نتھنے میں سے ناک میں چڑھ گئی ہو۔
’’اب کہو مانتے ہو مجھے پروفیسر چندوس۔‘‘
’’بالکل آپ واقعی پروفیسر چندوس ہیں۔‘‘ چاکی بولا۔
’’ ہاں میں طاقت ور اور پر اسرار ہوں، چھومنتر، لائو یہ کاغذ کا ٹکڑا اٹھائو۔‘‘
چاکی نے زمین پر سے ایک گندا سا، چھوٹا کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر پروفیسر کے ہاتھ میں دے دیا۔
’’ اب پھر غور سے دیکھو۔‘‘ پروفیسر بولا۔ اس نے کاغذ کا ٹکڑا اپنی مٹھی میں بند کر کے اس پر کچھ منتر پڑھے اور پھر مٹھی پر ایک پھونک ماری۔ چاکی یہ سب بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔پھونک مار کر پروفیسر چندوس نے اپنی مٹھی کھول دی ۔ اس میں کاغذ کے ٹکڑے کی جگہ چاندی کا چھلا رکھا ہوا تھا۔چندوس نے یہ چھلا چاکی کو دے دیا۔
’’یہ جادو کا چھلا لے لو۔‘‘ پروفیسر نے کہا:’’ اس کو سات مرتبہ پانی میں ڈبو کر اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سو جانا۔صبح اٹھو گے تو وہاں تمھیں بہت سا پیسا ملے گا۔‘‘چاکی نے چھلا پروفیسر کے ہاتھ سے لے لیا۔ وہ بہت شکر گزار لگ رہا تھا۔ اس نے پروفیسر کا کئی بار شکریہ ادا کیا اور جانے کی اجازت مانگی۔
’’ضرور ضرور، لیکن جانے سے پہلے یہ جادو کی پری بھی تم سے کوئی نشانی مانگتی ہے۔‘‘
’’لیکن میرے پاس تو صرف تین پینس ہیں۔‘‘ چاکی نے کہا۔
’’یہی ٹھیک ہیں۔‘‘ صبح اٹھو گے تو پری تمھیں بہت بڑا انعام دے گی۔
چاکی نے کچھ دیر سوچا، اس کا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ یہ تین پینس بھی پروفیسر کو دے دے، لیکن پھر بھی اس نے تینوں پینس پروفیسر کو دے دیے۔گھر پہنچ کر چاکی نے بالکل ویسے ہی کیا جیسے پروفیسر چندوس نے سمجھایا تھا۔ اس نے چھلے کو سات دفعہ پانی میں دھویا، پھر اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوگیا۔ رات کوکئی دفعہ چاکی کی آنکھ کھلی۔ ہر دفعہ اسے لگتا تھا شاید صبح ہوگئی ہے۔ ایک بار تو اس نے مائیکل سے پوچھا بھی۔ مائیکل نے اسے بری طرح ڈانٹ دیاکہ اب اگر چاکی کی وجہ سے مائیکل کی نیند خراب ہوئی تو پھرچاکی کی خیر نہیں۔
آخر جب صبح ہوئی تو چاکی ایسا بے خبر سو رہا تھا کہ مائیکل نے اسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔چاکی آدھی نیند سے اٹھائے جانے پر بڑبڑاتا، آنکھیں ملتا ہوااٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں بے چینی سی تھی کہ اسے کوئی خاص بات کرنی ہے لیکن اسے یاد نہیں آرہا تھا کہ وہ خاص بات کیا ہے۔ پھر بجلی کی طرح اس کے ذہن میں پروفیسر چندوس کی بات گونجی، اس نے فوراًتکیے کو الٹ کر دیکھا، مگر وہاں صرف چاندی کی انگوٹھی ویسے ہی پڑی تھی جیسی کل رات چاکی نے رکھی تھی۔
OOOO
چاکی واپس چندوس کے پاس
چاکی کا موڈ بہت خراب تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ چندوس نے اسے اتنا بڑا دھوکا دیا ہے۔ اس نے ناشتے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ مائیکل نے پوچھا بھی کہ کیا بات ہے ؟مگر چاکی نے اسے کچھ نہیں بتایا، بس ایسے ہی غصے میں پھرتا رہا۔ کوئی دوپہر کے قریب اسے خیال آیا کہ S.M.O.G.سے مشورہ کرنا چاہیے، آخر چندوس کے پاس جانے کا مشورہ بھی تو اسی نے دیا تھا۔ چاکی سیموئل کے گھر پہنچا، تو وہ مچھلی اور بھنڈی کا شوربہ کھا رہا تھا۔ نہ جانے سیموئل کو بھوک لگی تھی یا وہ اتنی بدتمیزی سے کھارہا تھا کہ اس کی قمیص سامنے سے شوربے میں تر بتر تھی۔ چاکی نے مچھلی کا سالن دیکھا تو اس کا پیٹ شور مچانے لگا۔
’’آئو! کھانا کھائو۔‘‘ سیموئل نے اسے دعوت دی۔
’’نہیں شکریہ ۔مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ چاکی نے تکلف کیا۔
سیموئل کے ابا پاس ہی ایک چارپائی پر لیٹے تھے۔ انھوں نے چاکی سے کہا: ’’جائو بیٹا دوست کے ساتھ بیٹھ کر کچھ کھالو۔‘‘
چاکی تو جیسے اس اشارے کا منتظر تھا۔ اس نے ہاتھ دھوئے اور کھانے بیٹھ گیا۔ چاکی نے اتنی اچھی طرح کھانا کھایا کہ جب وہ کھا کر اٹھا تو اس کی قمیص پر کوئی دھبا نہیں تھا۔چاکی سیموئل کے ابو کے سامنے جادوگر سے پیسے دگنے کروانے کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا، لہٰذا اس نے گھر سے باہر نکلنے کاانتظار کیا ۔جب چاکی نے سیموئل کو چندوس کے دھوکے کے بارے میں بتایا تو اسے بھی بہت غصہ آیا: ’’میں اسے ضرور مزا چکھائوں گا۔‘‘ سیموئل غصے سے بولا۔
’’کیا تم نے کبھی چندوس سے پیسے دگنے کروائے ہیں؟‘‘ چاکی نے پوچھا۔
’’کبھی نہیں۔‘‘ سیموئل کے جواب پر چاکی حیران رہ گیا اور اسے کچھ غصہ بھی آیا۔
 ’’جب بھی مجھے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے ،میں امی سے لے لیتا ہوں ،اس لیے پیسے دگنے کروانے کی ضرورت کبھی نہیں پڑی۔‘‘ سیموئل نے وضاحت کی۔
چاکی اس بات سے مطمئن تو نہیں ہوا ،لیکن اس نے زیادہ بحث نہیں کی۔
’’تمھاری امی کیسی ہیں؟‘‘ چاکی نے پوچھا۔
’’پہلے سے بہتر ہیں، ’گٹھیا ‘انھیں بہت تنگ کرتی ہے۔‘‘
’’گٹھیاکیاہے؟‘‘ چاکی نے پوچھا۔
’’مجھے بھی صحیح نہیں پتا۔ یہ بوڑھے لوگوں کے جوڑوں میں ہونے والے دردکی بیماری کا نام ہے۔ امی کے گھٹنوں میں بہت درد ہوتا ہے۔‘‘ سیموئل نے بتایا۔دونوں دوست جادوگر کی دکان کی طرف چل پڑے۔ چاکی ذرا جلدی میں تھا، کیوںکہ اس کے ماموں کے گھر آنے کا وقت ہو رہا تھا۔
’’تم نے ماموں کو بتایا؟‘‘ سیموئل نے پوچھا۔
’’ نہیں، انھیں کیسے بتاتا؟‘‘ چاکی نے سوال کیا۔جب وہ چندوس کے پاس پہنچے ،تو وہ پانی میں بھیگی ہوئی مچھلی ،کھوپرے کے ساتھ کھا رہا تھا۔
’’کیسے آنا ہوا؟‘‘ چندوس نے ایسے پوچھا ،جیسے چاکی کو جانتا ہی نہ ہو۔
’’میں چاکی ہوں ، کل آپ کے پاس آیا تھا۔‘‘ چاکی نے اسے یاد دلایا۔
’’ مجھے نہیں پتا تم کیا کَہ رہے ہو؟‘‘ چندوس نے غصے سے کہا۔
’’لیکن تم نے کل مجھے یہ انگوٹھی بھی دی تھی۔‘‘ چاکی نے انگوٹھی جیب سے نکال کر چندوس کی طرف بڑھائی۔
’’یہ میں نے تمھیں دی تھی، پاگل ہوئے ہو کیا؟‘‘
’’ اسے میں نے تمھارے پاس بھیجا تھا اور اس نے تمھیں تین پینس دیے تھے کہ تم انھیں دگنا کردو۔‘‘ سیموئل نے مداخلت کی۔
’’لوگ روز روز حیران کرنے آجاتے ہیں۔ تو تم دونوں کل یہاں آئے تھے اور تم نے مجھے تین پینس دیے تھے۔‘‘
’’میں اس کے ساتھ نہیں آیاتھا لیکن۔۔‘‘
’’تم دونوں یہاں سے فوراًرفو چکر ہوجائو، ورنہ وہ سبق سکھائوں گا کہ بھولو گے نہیں۔ سوچو ذرا، یہ دو چھوٹے یہاں آکر الزام لگارہے ہیں کہ میں نے ان کے تین پینس کھالیے ہیں۔ تم دونوں کو ڈر بھی نہیں لگا اتنا بڑا الزام لگاتے ہوئے۔ تمہارے ابا نے تمہارے پیسے چرا لیے ہوں گے اور تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو، ٹھہرو ابھی بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کَہ کر پروفیسر چندوس اندر لپکا اور ایک کلہاڑی اٹھا لی۔ یہ دیکھ کر دونوں بچوں کے اوسان خطا ہوگئے۔S.M.O.G.فوراًبھاگ نکلا، چاکی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
OOOO
چاکی نے سائیکل چلائی
چاکی اور اس کے دوست سیموئل عرف S.M.O.G کی اسکول کی چھٹیاں ابھی چل رہی تھیں۔سیموئل نے فیصلہ کیا کہ چاکی کو سائیکل چلا نا سکھائے گا۔ سیموئل کے پاس خود بھی سائیکل نہیں تھی ۔ اس کے ابو کے مکان میں جہاں بہت سے کرائے دار رہتے تھے، وہیں ایک سائیکل مکینک بھی رہتا تھا۔ دن بھر یہ مکینک ایک درخت کے نیچے سائیکلیں مرمت کرنے کی دکان سجائے رہتا۔ گاہک اپنی اپنی سائیکل ٹھیک کروانے سارا دن آتے رہتے۔ کسی کو بریک ٹھیک کروانے ہیں تو کسی کو ٹائر میں پنکچر لگوانا ہے۔ وہ ایک ماہر مکینک تھا، جیسا بھی کام آجاتا وہ آرام سے کرلیتا۔سارا دن بھورے رنگ کی ڈانگری پہنے ،وہ سائیکلیں ٹھیک کرنے میں مصروف نظر آتا۔اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ گریس لگی ہوتی۔اس کی دکان کے سامنے، زیادہ تر سائیکلیں زمین پر الٹی کھڑی ہوتیں، پہیے ہوا میں گھوم رہے ہوتے، اس طرح وہ آسانی سے سائیکل کے ہر حصے پر کام کر لیتا تھا۔ پیچھے درخت پر اس نے ایک بورڈ لٹکا دیا تھا ،جس پر اس نے کسی پینٹر سے بڑا بڑا لکھوا لیا تھا: ’’سائیکلوں کا ڈاکٹر۔‘‘
مکینک صرف سائیکلیں ٹھیک ہی نہیں کرتا تھا، بلکہ اس کے پاس اپنی بھی پانچ چھ سائیکلیں تھیں،جنھیں وہ چھ پینس فی گھنٹہ کرائے پر چلاتاتھا۔ سیموئل نے دراصل ان ہی میں سے ایک سائیکل کرائے پر لی تھی۔ اس نے مکینک کو یہ نہیں بتا یا تھا کہ اس کے دوست کو سائیکل چلانی نہیں آتی اور وہ ابھی سائیکل چلانا سیکھے گا ورنہ مکینک یقیناسائیکل کرائے پر دینے سے انکار کر دیتا۔چاکی کو جو سائیکل ملی وہ بڑوں کی سائیکل تھی۔ اگر وہ گدی پر بیٹھتا تو اس کے پیر زمین پر نہیں لگتے۔ لہٰذا اس نے سائیکل کے پیڈلوں پر کھڑے ہو کراس طرح سائیکل چلانی سیکھی کہ اس کا بایاں پائوں پیڈل پر تھا اور دایاں پائوں سائیکل کے فریم کے دوسری طرف قینچی کی طرح تھا۔ سب لوگ اسے بندر اسٹائل کہتے تھے۔ ایک ہی ہفتے میں چاکی اس مہارت سے سائیکل چلانے لگا کہ اب وہ گرے بغیرلمبے لمبے فاصلے طے کرنے لگا۔ چاکی کا خوف دور ہوا تو اس نے سائیکل چلاتے ہوئے گیت گنگنانے بھی شروع کردیے۔ سیموئل چاکی کی اس مہارت سے بہت متاثر تھا۔ اس نے چاکی سے کہا:
’’ اب تم اتنی اچھی سائیکل چلانے لگے ہو،اس لیے اب تمھیں گلیوں سے نکل کر سڑک پر سائیکل چلانی چاہیے۔ سائیکل کی سواری کا اصل امتحان تو یہی ہے کہ آپ سڑک پرساری ٹریفک کے ساتھ سائیکل چلا سکتے ہیں یا نہیں۔‘‘
پہلے تو چاکی ڈرا ،لیکن کچھ ہچکچاہٹ کے بعد ایک چھوٹی ذیلی سڑک پر ،سائیکل چلانے پر راضی ہو گیا۔ ٹریفک کم تھا اس لیے چاکی کو سائیکل چلانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ اسے سڑک پر چلانے میں اتنا مزا آنے لگا کہ اس نے اپنی پسند کا ایک گیت گانا شروع کردیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ لوگ سائیکل چلانے کو اتنی بڑی بات کیوں سمجھتے ہیں۔ یہ تو بہت آسان ہے، مچھلی اور بھنڈی کا سالن کھا نے سے بھی آسان کہ جسے کھاتے ہوئے لوگ اپنے اوپر گرا لیتے ہیں۔ ان ہی سوچوں میں چاکی نے وہ کار بہت دیر سے دیکھی ،جو ایک دوسری گلی سے نکل کر اسی کی طرف آرہی تھی۔ وہ کار شاید اس کی سائیکل سے نہ ٹکراتی، لیکن چاکی اتنا خوف زدہ ہوا کہ اس نے بچنے کے لیے تیزی سے موڑ کاٹنا چاہا۔وہ اس تیزی میں سائیکل سنبھال نہیں سکا اور اس کی سائیکل ایک کھمبے سے ٹکرانے کے بعد ایک کھلے گٹر میں جاگری۔ چاکی کے کپڑے کیچڑ میں لت پت ہوگئے۔ حالاںکہ اس کی کہنی اور گھٹنا چھل گیا تھا ،مگر وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔سائیکل البتہ خاصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اس کا اگلا پہیا بالکل ٹیڑھا ہو گیا۔ اس کی تیلیاں ٹوٹ گئیں اور بریک بھی پھنس گئی۔ چاکی اور سیموئل نے بہت کوشش کی کہ سائیکل کو ٹھیک کر سکیں، مگر اپنی پوری کوشش کے باوجود سائیکل ان سے ٹھیک نہیں ہوئی۔آخر ڈرتے ڈرتے انھوں نے فیصلہ کیا کہ سائیکل واپس مکینک کے پاس لے جائیں اوراس سے سچ سچ سارا ماجرا کَہ دیں۔چوں کہ سائیکل اب چل نہیں سکتی تھی لہٰذا چاکی نے سائیکل سامنے سے اٹھائی اور سیموئل نے پیچھے سے۔ یوں دونوں ڈنڈا ڈولی کر کے سائیکل کو مکینک کے پاس واپس لائے۔مکینک نے اپنی سائیکل اس حال میں دیکھی تو اسے بہت غصہ آیا۔
’’چوںکہ سائیکل چاکی نے توڑی ہے لہٰذا اب وہ اسے ٹھیک کرانے کے پیسے دے۔‘‘ مکینک نے مطالبہ کیا۔
’’لیکن میرے پاس تو بالکل پیسے نہیں ہیں۔‘‘ چاکی نے گھبرا کے کہا۔
’’اس کے پاس واقعی پیسے نہیں ہیں اسے معاف کر دیجیے۔ ‘‘ مکینک کے بولنے سے پہلے ہی سیموئل بولا۔
’’پیسے نہیں ہیں تو میری سائیکل کیوں چلائی تھی۔اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس کے والدین کے پاس ہوں گے۔چلو مجھے اس کے گھر لے چلو، وہ اس کی بے وقوفی کے پیسے بھریں گے۔‘‘چاکی کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے، وہ مکینک کو ہرگز اپنے ماموں کے پاس نہیں لے جانا چاہتا تھا۔ وہ بہت گڑگڑایا اور معافی مانگی لیکن مکینک ٹس سے مس نہیں ہوا۔
’’ مجھے اپنے گھر لے کر چلو ،ورنہ میں تمھیں ابھی سیدھا پولیس اسٹیشن لے جائوں گا۔‘‘
چاکی عجب مشکل میں پھنس گیا تھا۔ لہٰذا کوئی چارہ نہ پاکر وہ مکینک کے ساتھ اس طرح چل پڑا کہ وہ آگے آگے چل رہا تھا اور مکینک آہستہ آہستہ اپنی سائیکل چلاتا ہوا آرہا تھا۔چاکی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ مکینک کو ماموں کے پاس نہیں لے کرجائے گا۔ اس لیے وہ مکینک کو گول گول گھماتا رہا۔ کبھی ایک سڑک پر مڑ جاتااور کبھی دوسری سڑک پر، ایسے لگتا تھاجیسے وہ گول گول گھوم رہے ہوں۔
’’ کہاں رہتے ہو تم آخر؟‘‘ مکینک نے جھنجھلا کر پوچھا۔
’’مجھے گھر کا نمبر تو یاد نہیں ، بس آس پاس ہی ہے وہ سامنے والی گلی میں چلتے ہیں۔‘‘ 
تھوڑی ہی دیر میں وہ گھوم کر وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔ اب تو مکینک کا غصے سے برا حال تھا۔ اس کا پورا ارادہ تھا کہ چاکی کو مزا چکھائے اور اس کی خوب پٹائی کرے۔ غصے میں وہ اس عورت کو بھی نہیں دیکھ سکاجو دکان سے نکل رہی تھی۔ اس کے سر پر ایک ٹوکری میں بہت سارا سامان جمع تھا، جو اس نے دکان سے خریدا تھا۔مکینک کی سائیکل اس سے ٹکرائی تو اس کی ٹوکری نیچے گر گئی اورٹوکری میںموجودسارا سامان سڑک پر بکھر گیا۔ اس عورت نے سرسے دوپٹہ اتارا ، جسے وہ ٹوکری جمانے کے لیے سر پر رکھے ہوئے تھی اور اس دوپٹے کو اپنی کمر کے گرد باندھ کر لڑنے کے لیے تیار ہوگئی۔ اس نے مکینک کا گریبان پکڑ کر اس پر چیخنا شروع کردیا:
’’ میں نے ابھی بیس پائونڈ کا سامان خرید کر ٹوکری میں بھرا تھا، فوراًمیرا سامان واپس کرو۔‘‘ان کے گرد لوگ اکٹھا ہونا شروع ہوگئے۔ لوگوں نے اس کاسامان اٹھا اٹھا کر ٹوکری میں واپس رکھنا شروع کر دیا۔ ٹماٹر، مچھلی، شکر قند، سب جمع ہو رہا تھا۔ 
’’میں زمین سے اٹھائی ہوئی چیزوں کا کھانا نہیں پکائوں گی۔ مجھے میرے بیس پائونڈ واپس کرو۔‘‘ 
عورت مکینک کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھی۔اس افراتفری میں چاکی کو موقع ملا تو وہ بھاگ نکلا، ایسا بھاگا کہ زندگی میں کبھی نہیں بھاگا ہوگا۔
OOOO
کنجوس تاجر
چاکی کو دریا پار کرنے کا خواب اب پورا ہوتا نہیں دکھائی دیتا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ یہ پیسے کہا ں سے حاصل کر سکے گا۔ اس نے بہتر سمجھا کہ وہ یہ خواب دیکھنا ہی چھوڑ دے۔ اس کی امی اکثر سمجھایا کرتی تھیں کہ غریب آدمی کو چاول کے خواب نہیں دیکھنے چاہییں۔ایک دن چاکی نے دیکھا کہ اس کے ماموں کا پڑوسی، نوابا پائونڈ کے نوٹوں کی گڈیاں گن رہا تھا۔ ایک آدمی کے پاس اتنے پیسے بھی ہوسکتے ہیں ، چاکی تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر نوابا اتنا امیر آدمی ہے ،تو اتنی کنجوسی سے کیوں رہتا ہے۔ وہ تو اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتا تھا۔اس کے گھر کھانے میں ہمیشہ شوربہ ہی پکتاتھا۔ اگر کبھی غلطی سے اس کی بیوی شوربے میں گوشت کے چند ٹکڑے ڈال دیتی تو وہ غصے سے چیخنے لگتا۔ کبھی کبھی تو وہ غصے میں بیوی پر ہاتھ بھی اٹھا لیتاتھا۔ اس کے بچے ہمیشہ اسکول میں پھٹے پرانے کپڑے پہن کر آتے۔ان کی فیس بھی ہمیشہ سب سے آخر میں پہنچتی۔ خود نوابا ایک پرانی، ٹوٹی پھوٹی ،موٹر سائیکل پر آتا جاتا۔ وہ تو موٹر سائیکل کے لائسنس کی فیس بھی جمع نہیں کراتاتھا۔ اگر کبھی پولیس گھیرا ڈال کر سب موٹر سائیکلوں کے لائسنس دیکھتی ،تو وہ اپنی موٹر سائیکل ہفتہ، دس دن کے لیے گھر میں بند کر دیتا۔اس کے پڑوسی پیٹھ پیچھے اسے مکھی چوس کہتے تھے۔
چاکی پیسوں کے لیے اتنا پریشان تھا کہ اپنی بے وقوفی سے یہ سمجھنے لگا کہ نوابا کے پاس اتنے پیسے ہیں، شاید وہ اس میں سے کچھ مجھے بھی دے دے۔ شام کو جب نوابا دکان سے واپس آیا تو چاکی نے بڑھ کر اسے سلام کیا اور اس کی موٹر سائیکل لے کر کھڑی کر دی۔ نوابا بہت خوش ہوا، اس نے بہت مسکرا کر اسے جواب دیا:’’ شکریہ میرے بیٹے۔‘‘ پھر تو چاکی نے یہ معمول بنا لیا۔ ایک ہفتے تک وہ روز نوابا کا استقبال کرتا اور اس کی موٹر سائیکل لے کر کھڑی کرتا۔ مگر یوںلگتا تھا کہ نوابا کو ان باتوں کا کوئی احساس ہی نہیں، اور اگراسے احساس تھا بھی تو کم از کم پیسے دینے کا ،اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ایک بار تو اس نے ایسے جیبوں میں ہاتھ ڈالا کہ چاکی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا،مگر جب ہاتھ جیب سے باہر آیا تو اس میں صرف اخروٹ کے چند دانے تھے۔ نوابا کے دماغ میں تو صرف نفع نقصان گھوم رہا ہوتاتھا۔ لگتا تھا اس کے ذہن میں ہمیشہ پیسوں کی گنتی چل رہی ہے۔ ایک دن چاکی نے سلام کیا تو اس نے جواب میں کہا پانچ پائونڈ۔
پڑوسی کا پورا نام ’’پیٹر نوابا‘‘ تھا۔ سارا شہر پیٹر نوابا کو جانتا تھا۔ ہر اتوار کی صبح وہ اپنا بہترین لباس زیب تن کر کے چرچ ضرور جاتا۔ ہر جمعہ کی شام وہ بائیبل کی کلاس میں بھی موجود ہوتا۔ چاکی کو حیرت تھی کہ اتنا کنجوس آدمی مذہب سے اتنا لگائو کیوںکررکھتا ہے۔ اکژ نوابارات گئے گھر سے نکلتا اور صبح سویرے تک واپس نہیں آتاتھا۔ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں لوگوں میں مشہور تھیں۔ کچھ کا خیال تھا کہ وہ کسی خفیہ تنظیم سے تعلق رکھتا ہے ،جس کا اجلاس صرف رات ہی کو منعقد ہوتا ہے۔ اصلیت کا کسی کو علم نہیں تھا۔ ایک رات چاکی کے پیٹ میں درد اٹھا اور اسے بار بار واش روم جانا پڑا۔ صبح چار بجے کے قریب اسے دوبارہ واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ابھی وہ رفع حاجت کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ اسے کھڑکی سے باتوںکی آواز آئی۔ اس نے جھانک کر دیکھا تو باہر گلی میں نوابا ایک اجنبی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔شاید وہ اپنی خفیہ تنظیم کے اجلاس سے ابھی واپس لوٹے تھے۔ وہ دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے، پھر وہ اجنبی واپس لوٹ گیا ،جب کہ نوابا اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ چاکی نے اس وقت تو اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن کچھ دنوں کے بعد اسے یہ واقعہ بہت یاد آیا۔
OOOO
خواب سچ ہوا
چاکی کو اچانک اس وقت موقع ملا جب وہ اس کی امید بھی نہیں کر رہا تھا۔ ہوا یوں کہ اس دن تہوار کی چھٹی تھی۔چاکی کا ماموں بھی اموفیا گیا ہوا تھا اور دوسرے دن سے پہلے اس کی واپسی کی امید نہیں تھی۔ چاکی اپنا کھا ناختم کر کے دریا کے کنارے کی طرف چل دیا۔ موسم اچھا تھا، چاکی کے پاس پیسے تو تھے نہیں لہٰذا کشتی میں دریا کے پار جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔چاکی دریا کے کنارے صرف کشتیوں کو آتے جاتے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے مائیکل کو بھی نہیں بتایا اور دریا کا رخ کیا۔دریا کے کنارے پرہمیشہ کی طرح گہما گہمی تھی۔ بڑی بڑی کشتیوں پر کاریں اور لاری ٹرک سوار کرکے دریا کے پار لے جائے جا رہے تھے۔ تین لڑکے، بالٹیاں اٹھائے ، صابن کے پانی اور کپڑے سے کاروں کو دھو رہے تھے۔ جب ایک لڑکا کار دھو چکا تو کار کے مالک نے انعام میں اسے کچھ پیسے دیے۔ وہ لڑکا خوشی خوشی بالٹی اٹھا کر اگلی کار کی طرف بڑھ گیا۔ چاکی کے ذہن میں بجلی سی کوندی کہ اسے یہ خیال کیوں نہیں آیا۔
چاکی فوراًگھر کی طرف دوڑا اور وہاں سے ایک کپڑا، بالٹی اور صابن لے کر دوبارہ دریا کے کنارے لوٹ آیا۔ لیکن اس وقت تک ساری کاریں جا چکی تھیں، صرف چند لاری ٹرک باقی رہ گئے تھے۔ چاکی کو افسوس تو ضرور ہوا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور انتظار کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد، اگلی کشتی کے انتظار میںکاریں دوبارہ آنا شروع ہوگئیں۔ لیکن یہ سب چھوٹی کاریں تھیں۔ چاکی نے انھیں جانے دیا، وہ کسی بڑی کار کا انتظار کر رہا تھا۔ یقینابڑی کارکا مالک امیر ہوگا اور کار کی صفائی کے اچھے پیسے دے گا۔ چاکی کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ تھوڑی ہی دیر میںایک بہت بڑی کار کنارے پر آکر رکی تو چاکی فوراًاس کی طرف بڑھا۔کار کا مالک واقعی امیر اور بارعب لگتا تھا۔’’ شاید یہ کوئی وزیر ہے۔‘‘ چاکی نے سوچا۔ کار کے قریب پہنچ کر چاکی کی ہمت جواب دے گئی۔ جیسے اس کی زبان اس کا ساتھ نہ دے رہی ہو۔ وہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ اتنی دیر میں ایک اور لڑکا جو نزدیک ہی منڈلا رہا تھا آکر کار کے مالک سے بولا:’’کیا میں آپ کی کار دھو کر صاف کردوں؟‘‘ کار کے مالک نے اسے بالکل نظر انداز کیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔لیکن اس لڑکے نے ہمت نہیں ہاری اور ایک مرتبہ پھر سوال دہرایا۔’’جناب آپ کی کار بہت گندی ہو رہی ہے، میں اسے دھو کر بالکل چمکا دوں گا۔‘‘ اس دفعہ اس آدمی نے لڑکے کی جانب دیکھا اور سر ہلا کر اجازت دے دی۔ وہ لڑکا بہت خوش ہوا اور مسکرا کر اپنے کام میں جت گیا۔ چاکی کو اپنے اوپر بہت غصہ آیا۔ اگروہ لڑکا یہ کام کرسکتا ہے تو میں کیوں نہیں کر سکتا۔اتنے میں اسے ایک اور چھوٹی کار آتی نظر آئی۔ چاکی اس کی طرف دوڑا۔ اب اس نے بڑی کاروں کا انتظار فضول سمجھا، اور کار کے مالک سے بولا:
’’جناب آپ کی کار بہت گندی ہو رہی ہے، آپ لاگوس جا رہے ہیں، کیا پہلے میں آپ کی گاڑی دھو دوں؟‘‘
کار کے مالک نے مسکرا کر چاکی کو دیکھا اور کہا :’’ضرور کیوں نہیں۔‘‘چاکی نے نزدیکی نلکے سے بالٹی میںپانی بھرا اور گاڑی صاف کرنے لگا۔ جلد ہی گاڑی دوبارہ چمک گئی۔ چاکی کام ختم کر کے مالک کی طرف بڑھا، وہ کسی اور سے باتوں میں مصروف تھا۔ اس نے چاکی کی طرف دیکھا بھی نہیں، صرف مسکرا کرشکریہ کَہ دیا، گویا وہ اجرت سے غافل تھا۔ چاکی کو بہت عجیب لگا ،لیکن وہ حوصلے سے وہیں کھڑا رہا، اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس پر مالک کو کچھ خیال آیا، اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے نکالے اور ان میں سے ایک چاکی کو دے دیا۔
’’بہت شکریہ جناب۔‘‘ چاکی نے کار کے مالک کا شکریہ ادا کیا۔ پھر اس نے سکہ دیکھا تو وہ ایک شلنگ تھا۔ ’’آپ کا بہت شکریہ۔‘‘ چاکی نے ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا ،لیکن اب کار کا مالک اس کی طرف متوجہ نہیں تھا ،وہ پھر سگریٹ منہ میں دبائے اپنے دوست سے محوِ گفتگو تھا۔
OOOO
چاکی کشتی میں
آخر چاکی کا خواب پورا ہو ہی گیا۔ اب وہ کشتی میں بیٹھ کر اسابا جا سکتا تھا۔ چاکی خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ وہ اچھل اچھل کر گانے لگا ’’ اک دریا اور باقی ہے، اک دریا‘‘۔یہ گیت بھی اس نے اموفیا میں اپنے اسکول سی۔ایم۔ایس مرکزی اسکول ہی میں سیکھا تھا۔اچھلتا کودتا وہ بھی دیگر مسافروں کے ساتھ قطار میں کھڑا ہوگیا۔ جب اس کی باری آئی تو اس نے اپنا شلنگ کا سکہ ٹکٹ گھر کی کھڑکی میں پیش کیا۔ ٹکٹ کلرک نے اسے اسابا کا ٹکٹ اور چھ پینس واپس کر دیے۔ چاکی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی اسابا جا رہا ہے۔ اب وہ بھی اپنے دوستوں کو بتا سکے گا کہ میں اسابا گیا ہوں اور پھر اگلا سفر لاگوس کا ہوگا ۔ کشتی آنے میں ابھی دیر تھی۔ چاکی بے صبری سے ٹہل رہا تھا اور ساتھ اپنا پسندیدہ گیت گنگناتا جا رہا تھا:
بیوی اپنی گھر میں چھوڑو
فوج میں آن ملو
اک دریا ہے اب بھی باقی ، اک دریاہے باقی
اک دریا ہے اب بھی باقی ، اک دریاہے باقی
آخر دور سے دریا میں کشتی آتی نظر آئی۔ چاکی سے وقت نہیں کٹ رہا تھا۔ کبھی وہ بنچ پر بیٹھ جاتا کبھی کھڑا ہو جاتا۔کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا کہ جب آنکھیں کھولے گا تو شاید کشتی اور قریب آچکی ہوگی۔ اس نے دو سو تک گنتی گن ڈالی۔ غرض یہ کہ وقت کاٹنے کو اس نے ہر وہ ترکیب آزماڈالی ،جو لوگ عموماًایسے موقعوں پر آزماتے ہیں۔ اس کی یہ ترکیبیں کام آہی گئیں اور کشتی رفتہ رفتہ کنارے سے آلگی۔ کشتی جب بہت دور تھی تو بہت چھوٹی لگ رہی تھی، لیکن قریب آنے پر پتا چلا کہ خاصی بڑی ہے۔ پہلے اس میں سے، اسابا سے آنے والے لوگ قطار بنائے، آہستہ آہستہ اترنے لگے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے سر پر خریدے ہوئے سامان سے بھری وہ ٹوکریاں رکھی تھیں ،جو انھوں نے اسابا سے خریداتھا۔ لوگوں کے بعد کشتی سے گاڑیاں اور لاریاں بھی ایک ایک کرکے اترنے لگیں۔کچھ گاڑیوں پر تو اتنی مٹی جمی تھی کہ چاکی کو بہت حیرت ہوئی۔ اس کے خیال میں لاگوس کی لمبی چوڑی شاندار سڑکوں پر مٹی کیسے جم سکتی ہے۔ جب اسابا سے آنے والی گاڑیاں اتر چکیں تو اونیشا سے جانے والی گاڑیاں کشتی پر سوار کی گئیں۔ ایک ایک کر کے یہ گاڑیاں کشتی پر چڑھتیں۔ بعض دفعہ تو ایسا لگتا جیسے شاید کوئی کار یا لاری گر ہی پڑے گی، مگر گری کوئی نہیں، سب گاڑیاں کشتی پر چڑھ گئیں۔ چاکی کو اپنی صاف کی ہوئی چھوٹی کار بھی نظر آئی، جو صاف ہوکر بالکل چمک رہی تھی۔ چاکی نے تو اس کار کی نمبر پلیٹ بھی یاد کرلی تھی PC 7279 ۔ اب سب سے آخری گاڑی لادی جا رہی تھی۔ اس کے شیشے نیچے اترے ہوئے تھے اور دونوں کھڑکیوں سے موسیقی پوری آواز سے گونج رہی تھی۔ لگتا تھا کہ گاڑی کا مالک موجود نہیں ہے اور اس کا ڈرائیور اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ڈرائیور نے تو لوگوں کو آدھے کرائے پر لاگوس لے جانے کی پیشکش بھی کر دی۔ جب یہ آخری گاڑی بھی چڑھ گئی تو اب مسافروں کی باری تھی۔ نیلے اور سفید یونیفارم میں ملبوس ایک آفیسر نے مسافروں کو کشتی پر چڑھنے کا اشارہ کیا۔بس پھر کیا تھا بہت سارے لوگ ایک ساتھ چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اصل میں سب ہی پہلے چڑھنا چاہتے تھے ،تاکہ انھیں اچھی جگہ ملے۔ چاکی بھی اس بھگدڑ میں آگے آگے تھا۔
آخر سب مسافر چڑھ گئے اور کشتی کا انجن اسٹارٹ ہوگیا۔ مستول کے اوپر ایک سائرن لگا تھا، وہ زور سے بجا اور پھر انجن والے کمرے سے گھنٹی بجنے لگی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ایک بہت بڑی سائیکل پر لگی گھنٹی بج رہی ہے۔ کشتی نے ساحل چھوڑا اور پہلے آہستہ آہستہ پیچھے کی جانب کھسکنے لگی۔ جب کپتان کو یقین ہوگیا کہ کشتی ساحل سے ہٹ گئی ہے تو اس نے کشتی کا رخ موڑ دیا، انجن کی آواز تیز ہوگئی اور کشتی تیزی سے اسابا کی طرف بڑھنے لگی۔چاکی کو تو ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ سب ایک خواب ہے۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ چاکی ، جسے اس کے دوست پیار سے ’’چاکی بہادر‘‘ کہتے تھے، اسابا جا رہا ہے۔ کہاں وہ اموفیا کے گائوں کا باسی چاکی، ضلع بائینو، صوبہ اونیشا، مشرقی نائیجیریا۔ نائیجیریا، جو دنیا کا ایک حصہ ہے اور دنیا اس کائنات کا حصہ ۔ چاکی اب اپنا پتا اسی مزے سے لکھتا تھا۔ یہ ترکیب اس نے اپنے دوست S.M.O.G. سے سیکھی تھی اور اسے بہت پسند آئی تھی کہ جیسے اس کے گائوں کا پتا دنیا اور کائنات سے جاملتا ہے۔ چاکی کشتی میں کھڑا نظارہ کر رہا تھا اور اس کا سینہ فخر سے یوں پھول رہا تھا جیسے وہ ہی اس دریا کا مالک ہے۔ کھلے دریا میں ٹھنڈی اور تازہ ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی تو اسے ایک اور گیت یاد آیا ،جو اس نے اموفیا میں سیکھا تھا:
چپو ، چپو ، چپو ، چلائو
دھیرے دھیرے بڑھتے جائو
ہنستے گاتے ہنستے گاتے
جیون اپنا کرتے جائو
جلد ہی چاکی گانے اور سیٹی بجانے سے تھک گیا تو سوچنے لگا کہ لاگوس میں وہ کون کون سی جگہیں دیکھنا پسند کرے گا۔ اس نے بہت سی جگہوں کے بارے میں سن رکھا تھا یا کہیں پڑھ کر معلومات حاصل کی تھیں۔ کارٹر پُل کے بارے میں اس نے ریڈیو پر ایک پروگرام سنا تھااور سوچتا تھا کہ نجانے یہ پل کیسا ہوگا۔ دوسری جگہیں ،جن کے بارے میںاسے کچھ معلوم تھا ،وہ تھیں :تنوبو اسکوائر، مارینا، تافاوا بالیوا اسکوائر، بار بیچ، یابا، اپاپا، بلدیہ کا دفتر وغیرہ۔لیکن سب سے زیادہ اسے جو چیز دیکھنے کا اشتیاق تھا وہ تھا اسٹیڈیم۔ فٹ بال کے مقابلوں کی کمنٹری N.B.C. ریڈیو پر جب بھی آتی، چاکی جیسے ریڈیو کے سامنے جم جاتا۔ اگر مقابلہ اچھی ٹیموں کے درمیان ہوتا تو اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اس کے ماموں کے ریڈیو پر کمنٹری سننے جمع ہو جاتے۔ریڈیو پر کمنٹری کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی اپنی کمنٹری بھی چلتی رہتی۔ادھر ریڈیو کا کمنٹیٹر چلاتا ’’گول ہو گیا‘‘، ادھر ریڈیو کے گرد جمع تماشائی بھی اتنے ہی زور سے چلاتے ’’گول ہو گیا۔‘‘ ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے، ایک دوسرے کو گلے لگاتے۔ لیکن یہ سب اسی وقت ہوتا ،جب ان کی پسند کی ٹیم نے گول کیا ہوتا۔ اگر مخالف ٹیم نے گول کیا ہوتا تو سب کے منہ لٹک جاتے۔
OOOO
چاکی مصیبت میں
اللہ اللہ کر کے کشتی اوسابا پہنچ ہی گئی۔ سب مسافر اتر گئے۔ چاکی نے اتر کر دیکھا تو اسے یقین نہیں آیا۔ اس کے بارے میں بہت کچھ مشہور تھا۔مگر صرف چند پرانی خستہ عمارتوں کے سوا دیکھنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ اسے واقعی بہت مایوسی ہوئی۔ ’’اب آہی گئے ہیں تو باقی بھی دیکھتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا اور باقی مسافروں کی طرح ایک چڑھائی چڑھنے لگا۔ چڑھائی کے اس طرف کچھ بہتری تو آئی، مگر وہ اونیشا والی بات نہیں تھی۔ اونیشا میں تو اتنی گہما گہمی ہوتی تھی کہ بعض سڑکوں پر انسانی ،جوش و خروش سے بھرپور، آوازوں میں کاروں کی آواز بھی ماند پڑتی محسوس ہوتی تھی۔جیب میں دونوں ہاتھ ڈالے چاکی صاحب ادھر ادھریوں گھومنے لگے جیسے کوئی معائنہ کرنے والاافسر پھر رہا ہو۔چاکی نے اپنے دوستوں سے اوسابا کے متعلق اتنا سن رکھا تھاکہ اس کی امیدیں بہت بلند ہو گئی تھیں۔ مگر یہاں آکر اسے مایوسی ہوئی۔اوباسا کے لوگ ویسے ہی تھے جیسے اونیشا کے۔ وہی رہائش، ہوا بھی وہی اور مٹی کی خوشبو بھی وہی۔ چاکی شہر میں ذرا آگے بڑھا،تو مکان اور دکانیں کچھ بہتر دکھائی دینے لگیں؛مگر یہ تواونیشاکی بعض اچھی سڑکوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔کچھ بھی ہو اب چاکی بھی واپس جاکر ویسے ہی اوسابا کی باتیں کر سکتا تھا جیسے باقی لوگ۔ یہ خیال آتے ہی چاکی نے سوچا اب اسے واپس چلنا چاہیے۔لگتا تھا وہ خاصا آگے نکل آیا ہے۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر یقین کیا کہ باقی پیسے وہیں رکھے ہیں۔ یہ اطمینان کر کے چاکی اب واپسی کی راہ چل پڑا۔ مزے مزے میں چاکی کچھ زیادہ ہی دور نکل آیا تھا۔ اس بات کا احساس ہوتے ہی چاکی ساحل کی طرف بھاگنے لگا جہاں سے کشتی ملتی تھی۔لیکن جب وہ ساحل پر پہنچا تو کشتی جا چکی تھی۔ چاکی کو کشتی بیچ دریا میں نظر آئی تو اس کے آنسو نکل ا ٓئے۔ کشتی اب تقریباًآدھا راستہ طے کر چکی تھی۔ چاکی نے گھبراہٹ میں ادھر ادھر دیکھا تو اسے ایک آفیسر نظر آیا۔اس نے آفیسر سے کہا:
’’معاف کیجئے گا جناب مجھے اونیشا جانا ہے؟‘‘
’’ تم اونیشا واپس جانا چاہتے ہو؟‘‘ جیبوں میں اپنی چابیاں ٹٹولتے ہوئے ،اس آفیسر نے پوچھا۔
اس کے ہمدردانہ لہجے سے چاکی کی امید بڑھی۔ چہرے سے ہی وہ ایک شفیق آدمی معلوم ہوتھا۔
’’ جی جناب۔‘‘ چاکی نے ادب سے جواب دیا۔
’’ مجھے بہت افسوس ہے ،اونیشا کی آخری کشتی تو جا چکی ہے۔ اب اگلی کشتی کل صبح جائے گی، تم کل صبح آجانا۔‘‘
’’لیکن میں تو اونیشا ہی میں رہتا ہوں، یہاں تو میں کسی کو جانتا بھی نہیں۔‘‘ چاکی کا لہجہ روہانسا تھا۔
’’ مجھے افسوس ہے ،لیکن میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے اپنے دفتر میں تالا لگایا اور چلا گیا۔
اب چاکی کی آنکھوں سے باقاعدہ آنسو بہہ رہے تھے۔ اسے روتا دیکھ کر ایک آدمی ،جو دریا میں نہا رہا تھا ،اپنے گرد تولیہ باندھ کر باہر نکل آیا اور اس کے نزدیک آکر بولا:
’’اوسابا آنا تو بہت آسان ہے لیکن واپسی اتنی آسان نہیں۔‘‘
چاکی کو اس آدمی سے بہت خوف آیا۔ دریا کا کنارہ اب سنسان ہو رہا تھا۔ مجھے یہاں سے کسی ایسی جگہ جانا چاہیے جہاں ذرا چہل پہل ہو۔ سر جھکائے چاکی تیزی سے اوسابا کی مارکیٹ کی طرف چل دیا۔ کوئی غور سے دیکھتا تو چاکی کے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ مارکیٹ کے پاس چاکی ایک ٹرک کی آڑ میں بیٹھ گیا اور بغیر آواز نکالے رونے لگا۔ امی کتنا سچ کہتی تھیں ،مجھے واقعی دریا کے پاس بھی نہیں آنا چاہیے تھا۔ پھر اسے اپنی امی کی ایک اور نصیحت یاد آئی کہ رونے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ سو اپنا رونا بھلا کر چاکی اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی حل ڈھونڈنے لگا۔پہلے تو اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کسی دکان دار سے اس کی دکان میں سونے کی اجازت مانگ لے۔ پھر اسے ڈر لگا کہ اگر وہ دکان دار ہی چوریا ڈاکو نکلا یا ایک برا آدمی ،جو بچوں کو اغوا کر لیتا ہے؟ بہت سوچ کر چاکی نے فیصلہ کیا کہ رات وہ ایک ٹرک میں سو کر گزار دے پھر صبح کی کشتی سے واپس چلا جائے۔ وہ مختلف ٹرکوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ اسے ایک ٹرک کا نامS.M.O.G.نمبر ایک لکھا نظر آیا۔چوںکہ یہ اس کے دوست کا نام بھی ہے، اس لیے چاکی کو لگا کہ یقینا یہ میرے لیے ایک اچھا شگون ہے۔
OOOO
چاکی کی مشکلات میں اضافہ
بازار میں چہل پہل تھی لہٰذا چاکی نے سوچا ابھی ٹرک میں سوار ہوا تو کوئی دیکھ لے گا۔ وہ بازار میں ادھر ادھر پھرنے لگا۔ دکان دار اپنی دکانیں بند کر رہے تھے۔ جن عورتوں کی چیزیں نہیں بکی تھیں وہ انھیں باندھ رہی تھیں کہ گھر لے جائیں اور کل پھر لے کر آئیں۔ آہستہ آہستہ بازار خالی ہونے لگا اور جلد ہی سنسان ہو گیا۔ شام کا دھندلکا اب رات کی سیاہی میں ڈھل رہا تھا۔ چاکی نے ادھر ادھر دیکھا اور ٹرک کی پشت سے اندر سوار ہو گیا۔ ٹرک کے اندر ایک بنچ پڑی تھی، پہلے تو چاکی اس پر لیٹ گیا، پھر اس نے سوچابنچ کے نیچے چھپ کر لیٹوں تو اور زیادہ محفوظ رہوں گا۔ یہ سوچ کر وہ بنچ کے نیچے ، ٹرک کے فرش پرلیٹ گیا۔ ٹرک کا فرش سخت تھااور چاروں طرف اندھیرا۔ چاکی کو بہت ڈر لگ رہا تھا۔ پھر مسلسل اس کے کانوں میں مچھر بھن بھن کر رہے تھے۔ انھیں مارنا فضول تھا۔ ایک تو وہ بہت زیادہ تعداد میں تھے پھر ان کو مارنے سے آواز بھی پیدا ہوتی۔ چاکی نے ایک ہاتھ سر کے نیچے تکیے کی طرح رکھا اور دوسرا اپنی ران پر، یوں وہ کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن یہ کوشش بے کار تھی۔ اسے اکثر قدموں کی آہٹ محسوس ہوتی جیسے کوئی ٹرک کے قریب آرہا ہو۔ اسے اپنی امی اور بہن کا خیال آیا، جو اس وقت کھانا کھا کر گائوں میں چین سے سو رہی ہوں گی۔ بھوک کا خیال آتے ہی چاکی اور زیادہ اداس ہو گیا۔ اسی طرح لیٹے لیٹے وہ دعائیں پڑھتا جاتا اور کبھی رونے لگتا۔ کچھ دیربعد اسے نیند آہی گئی۔ لیکن وہ اچھی طرح سو نہ سکا۔ اسے بہت برے برے خواب آتے رہے، جیسے جرائم پیشہ ، برے لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہوں ،اس کے پاس آکر چیخ رہے ہوں ،اس پر قہقہے لگا رہے ہوں۔ آدھی رات کواچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا دل بہت تیز دھڑک رہا تھا۔ تین لوگ اس کے ٹرک کے باہر باتیں کر رہے تھے۔ وہ اسی ٹرک سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ سناٹے میں چاکی ان کی پیٹھ ٹرک سے رگڑنے کی آواز تک سن سکتا تھا، حالاںکہ وہ سرگوشی میں باتیں کر رہے تھے۔ کبھی وہ مقامی بولی ایبو میں بولنے لگتے اور کبھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں۔ سرگوشی کے باوجود چاکی ان کی گفتگو کا ایک ایک لفظ سن سکتا تھا۔
’’ اس نے کہا تھا جب چرچ کی گھنٹی صبح کے تین بجائے تو آجانا۔‘‘ پہلا آدمی بولا۔’’ تمھیں اس پر بھروسا ہے؟‘‘ دوسرے آدمی نے پوچھا۔
’’ہاں میں اس پر اعتبار کرتا ہوں۔‘‘ پہلے آدمی نے جواب دیا۔
’’میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ کبھی یہ ہم کو بلاتے ہیںاور ادھر پولیس کو بھی اطلاع کر دیتے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ بھروسے کا آدمی ہو۔‘‘ دوسرے آدمی کی آواز آئی۔
’’ اگر یہ بھروسے کا آدمی نہیں ہے تو پھر ہمیں نہیں جانا چاہیے۔ میں بالکل نہیں چاہتا کہ پولیس مجھے پکڑ لے۔‘‘ اب چاکی کو تیسرے آدمی کی آواز سنائی دی۔
’’ تم لوگ تو بہت ڈر پوک ہو، بالکل عورتوں کی طرح۔‘‘ پہلا آدمی پھر بولا: ’’بس جس وقت پیسوں کی تقسیم کا معاملہ ہوگا اس وقت طاقت دکھائیں گے۔‘‘ پہلے آدمی نے مذاق اڑایا۔
’’ ہم ڈرتے نہیں ہیں۔‘‘ دوسرے آدمی نے احتجاج کیا:’’ لیکن اوئیبو کی کہاوت ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔‘‘
’’ جلد امیر بننا آسان نہیں ہے۔ دیواروں کے پیچھے رکھا پیسا چرانا تو اور بھی مشکل ہے۔ اگر ہمیں کسی کو مارنا پڑے تو وہ بھی کریں گے۔ یہ ریوالور دیکھ رہے ہو میرے ہاتھ میں، یہ میں کھیلنے کے لیے نہیں لایا۔‘‘
چاکی دم سادھے لیٹا تھا۔ اسے پتا تھا اگر اس نے ذرا سی بھی آواز نکالی تو یہ لوگ اسے گولی مار دیں گے۔ اسے تو سانس لیتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا۔ وہ بالکل چوہے کی طرح دبکا بیٹھا رہا۔ابھی ان لوگوں کی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ چرچ کا گھنٹا تین دفعہ بجا۔
’’چلنے کا وقت ہوگیاہے۔‘‘ پہلا آدمی بولا:’’ خدا نے چاہا تو سب کام خاموشی سے ہو جائے گا۔‘‘
ابھی ان کے چلنے کا سن کر چاکی خوش بھی نہیں ہوپایا تھاکہ اس کی جان ہی نکل گئی۔ کوئی اس ٹرک پر چڑھ رہا تھا۔ خوف کے مارے چاکی پسینے میں شرابور ہوگیا۔ اس نے زور سے چیخنا چاہا، مگر اس کے سوکھے گلے سے کوئی آواز نہ نکلی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور آنے والی مصیبت کے لیے تیار ہوگیا۔ ٹرک چل پڑا تو ہمت کرکے چاکی نے آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا لیکن گھپ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ اس نے اپنی آنکھیں پھر بند کرلیں۔ ٹرک میں جو بھی بیٹھا تھا وہ مسلسل کھانس رہا تھا۔چاکی اتنا خوف زدہ تھا کہ اسے پتا ہی نہیں چلا ٹرک کتنی دیر چلتا رہا۔ آخر ٹرک کی رفتا رآہستہ ہوئی اور پھر ٹرک بالکل رک گیا۔
OOOO
چوروں کی کارستانی
ٹرک جب بالکل رک گیا تو پیچھے بیٹھا آدمی کود کر نیچے اتر گیا۔ چاکی نے آنکھیں کھول کر پھر دیکھا لیکن گھپ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہیں آیا۔تینوں آدمی اب بالکل سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔کچھ دیر خاموشی رہی پھر ایک چوتھا آدمی ان سے آملا۔ چاکی تو امید کر رہا تھا کہ شاید یہ لوگ ذرا ادھر ادھر ہوں، تو وہ ٹرک سے نکل کر بھاگ جائے، اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ان لوگوں کی گفتگو سے چاکی سمجھ گیا کہ نیا آنے والا آدمی دراصل اس جگہ کا چوکیدار ہے۔
’’ یہ ریوالور میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو۔‘‘ پہلا آدمی چوکیدار سے بولا: ’’یہ میں نے کھیلنے کے لیے ساتھ نہیں رکھا ہوا۔ اگر تم نے ہم کو دھوکادیاتو میں تمھیں گولی مار دوں گا۔‘‘چاکی کو یہ پہلا آدمی ہی اس گروہ کا سرغنہ لگتا تھا۔
’’میں تمھیں دھوکا کیوں دوںگا؟‘‘ چوکیدار بولا:’’تمھارے خیال میں مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں یایہ چوکیداری کی تنخواہ سے میرے بچے کالج جاسکیں گے؟‘‘
’’اچھا چلو ہمیں دروازہ دکھائو۔‘‘ چوروں کا سرغنہ دوبارہ بولا۔
 اس نے دوسرے آدمی کو ہدایت کی کہ وہ ٹرک کے پیچھے سے بنچ نکال دے۔ یہ سن کر چاکی تو جیسے ادھ مرا ہو گیا۔ اس آدمی نے ٹرک کا دروازہ پیچھے سے پورا کھول دیا لیکن وہ اندر بنچ اتارنے نہیں آیا۔ بلکہ وہ فرنٹ سیٹ کے نیچے سے ٹارچ نکالنے، ڈرائیور سیٹ کی طرف بڑھا۔چاکی نے موقع غنیمت جانا اور پلک جھپکنے میں وہ ٹرک سے نیچے اتر چکا تھا۔ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا، لیکن یہاں ٹھہرنا موت کو دعوت دینے کے برابر تھا۔ چاکی تیزی سے ایک طرف چل پڑا۔وہ بالکل بلی کی سی چال چل رہا تھا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ ہلکی سی آواز بھی نہ نکلے۔لیکن قسمت نے چاکی کا ساتھ نہیں دیا اور اس کا پیر کسی خالی ڈبے سے ٹکرایا۔
’’کون ہے؟‘‘ ٹرک کے ڈرائیور نے چیخ کر پوچھا۔
چاکی کی آنکھیں اب اندھیرے میںکچھ کچھ دیکھنے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ڈرائیور کی آواز سن کر اس نے دوڑنا شروع کردیا اور ایک کھلا دروازہ دیکھ کر اس میں گھس گیا۔
’’کون بھاگ رہا ہے؟‘‘ ڈرائیور کی آواز دوبارہ گونجی۔
اب اس نے اپنی ٹارچ بھی جلا لی تھی اور اس کی روشنی میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ چاکی جہاں گھسا تھا وہ ایک بہت ہی چھوٹا اور تنگ کمرہ تھا،جس کا صرف ایک ہی دروازہ تھا، جہاں سے چاکی اندرآیا تھا۔ یہاں رکا رہاتو پکڑا جائوں گا۔ یہ سوچ کر چاکی اس کمرے سے نکلنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ باقی چور بھی باہر آگئے۔
’’میں ٹارچ لینے آگے کی طرف گیا تھا کہ مجھے کسی کے بھاگنے کی آواز آئی۔ ‘‘ ڈرائیور اپنے ساتھیو ں کو بتا رہا تھا۔
چاروں آدمیوں نے چاکی کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔ چاکی سانس روکے اپنی زبان دانتوں میں دبائے کونے میں کھڑا رہا۔
’’ یہاں اس وقت کون آسکتا ہے، میرے خیال میں ان مکانوں کی کوئی بلی ہوگی۔‘‘ چوکیدار نے اپنے ساتھیوں کو یقین دلایا۔
 باقی چوروں نے اس کی بات مان لی اور سب دوبارہ اس مکان میں گھس گئے، جہاں سے ابھی وہ نکلے تھے۔ چاکی کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ اسے ڈر تھا چور یہ آوا ز نہ سن لیں۔چور واپس اندر گھس گئے تو چاکی کی جان میں جان آئی۔ اتنے میں اسے سامان گھسیٹنے کی آواز آئی۔ چور گھر سے سامان نکال کر اسے ٹرک میں لاد رہے تھے۔ لگتا تھا سامان بہت زیادہ تھا کیوںکہ چوروں کو سامان لادنے میں بہت دیر لگی۔ آخر کار ٹرک دوبارہ اسٹارٹ ہوا اور چل پڑا۔ چاکی کو لگا اب وہ بالکل محفوظ ہے۔ اس کابس چلتا تو وہ خوشی سے گانے لگتا۔ ابھی وہ باہر نکلنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اسے یاد آیا کہ چوکیدار بھی یہیں ہوگا۔اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ چاکی صبح ہونے کا انتظار کرے۔ اس نے گڑگڑا کر دعا مانگنی شروع کردی کہ جلدی صبح ہوجائے۔ لگتا تھا کہ اس کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ جلد ہی پہلے ایک مرغے کی اذان سنائی دی ،پھر اس کے فوراًبعد ایک اور مرغے نے اذان دی۔ لیکن اب زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا کیوںکہ چاکی اتنا تھکا ہوا تھا کہ وہ کھڑے کھڑے ہی سو گیا۔
OOOO
چاکی ہیرو بن گیا
چاکی کی آنکھ کھلی تو بہت سے لوگ زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ پہلے تو مارے ڈر کے اس کا دم ہی نکل گیا، لیکن کمرے میں صبح کی روشنی پھیلی دیکھی تو خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ خوش خوش کمرے سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک جگہ جمع ہیں۔ ایک آدمی درخت سے بندھاہوا ہے۔ اس کے ہاتھ پشت کی طرف بندھے ہیں، اس کے منہ میں بھی لوگوں نے کپڑا ٹھونس دیا ہے۔ وہ آدمی نہ بول سکتا تھا نہ بھاگ سکتا تھا۔کسی نے مشورہ دیا کہ اس بندھے ہوئے آدمی کو کھول دیا جائے، مگر باقی لوگوں نے کہا کہ پولیس کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔چاکی ابھی سو کر اٹھا تھا،اس لیے اس کادماغ بالکل کام نہیں کر رہا تھا۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔آخر دو پولیس والے پہنچے تو لوگوں نے اس بندھے ہوئے آدمی کو کھولا۔ وہ اتنی دیر تک بندھا کھڑا تھا کہ سیدھا کھڑا بھی نہ ہوسکا اور ایک طرف کو گر گیا، وہ تقریباًبے ہوش تھا۔ ایک آدمی نے اس کے منہ پر ٹھنڈا پانی چھڑکا تو اسے ہوش آیا۔اس نے تھوڑا سا پانی پیا بھی اور لوگوں کو اپنی کہانی سنانی شروع کی:
’’ میںدکان کی چوکیداری کر رہا تھا کہ تقریباً آٹھ چور ایک ٹرک میں بیٹھ کر آئے۔ ان کے پاس ہتھیار تھے اور وہ تعدا د میںاتنے زیادہ تھے کہ انھوں نے آرام سے مجھے قابو کرلیا۔ انھوں نے مجھے اس درخت سے باندھ دیا اور پھر دکان کا دروازہ کھول کر سب سامان لوٹ لیا۔ لوٹا ہوا سامان وہ اسی ٹرک میں لاد کر لے گئے ،جس میں آئے تھے۔لوگوں کو چوکیدار کی بات پر یقین آگیا۔ پولیس والے بھی مڑ کر دکان کا معائنہ کرنے جانے لگے۔ اتنے میں ایک چھوٹا سا بچہ مجمع سے نکلا اور چیخ کر بولا :
’’ یہ جھوٹ بول رہا ہے، میں نے سب خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔‘‘
سب لوگ اس بچے کی طرف متوجہ ہوگئے، یہ بچہ ہمارا چاکی تھا۔
’’ میں نے سب چوروں کو دیکھا تھا۔ اس آدمی نے ان کی مدد کی تھی، میں نے خود اسے چوروں سے باتیں کرتے دیکھا اور سنا ہے۔‘‘
ہوسکتا تھاکہ لوگ چاکی کی بات پر یقین نہ کرتے کہ بچہ ہے، لیکن چوکیدار نے چاکی کی بات سنی تو وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اس نے بڑھ کر چاکی کا گلا پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ چاکی کو کوئی نقصان پہنچاتاایک پولیس والے نے بڑھ کر چاکی کو بچالیا۔
’’ یہ بچے کو کیوں نقصان پہنچانا چاہتا ہے؟‘‘ مجمع میں سے کوئی بولا۔
’’لگتا ہے یہ بچہ سچ کَہ رہا ہے۔‘‘ ایک اور آواز آئی۔
پولیس والے نے سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور چاکی سے کہا کہ وہ اپنی بات پوری کرے۔
چاکی کے جوش کا یہ عالم تھا کہ وہ صحیح طرح سے کہانی بھی نہیںسنا پا رہا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے اٹک اٹک کر اتنی کہانی ضرور سنا دی کہ لوگوں کو اس کی سچائی کا یقین ہو گیا۔ چاکی نے بتایا کہ ٹرک کا نامS.M.O.G. نمبر ایک ہے اور اس کے ڈرائیور کا نام اگناشس ہے۔ پھر اس نے پولیس والے کو دکھایا کہ چوری کے بعد وہ ٹرک سے اتر کر کہاں چھپا تھا۔ یہ گیراج کے کونے میں ایک کمرہ تھا۔ لوگوں نے چاکی کے لیے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ ایک لمبے آدمی نے چاکی کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں اتنا چھوٹا لیکن اتنا بہادر بچہ کہیں نہیں دیکھا تھا۔ چاکی کو سب ہیرو کَہ رہے تھے، ادھر وہ چوکیدار خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس نے اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا کہ لوگ اس کے آنسو نہ دیکھ سکیں۔پولیس نے باقی تینوں چوروں کو بھی اسی دن گرفتار کر لیا اور ان کے پاس سے چوری کا مال بھی برآمد کر لیا۔ چوروں نے بہت قیمتی قالین چرائے تھے ،جن کی مالیت لاکھوں کی بنتی تھی۔ دکان کے مالک نے چاکی کا بہت شکریہ ادا کیا۔ اس نے چاکی کو کھانا کھلایا اور خود اپنی گاڑی میں اسے کشتی تک چھوڑنے آیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی چاکی کو ایک تحفہ بھیجے گا۔ ہر جگہ چاکی کی بہادری کا چرچا ہونے لگا۔ اس کی تصویر مقامی اخبار میں چھپی، ریڈیو پر بھی اس کی بہادری کا خوب تذکرہ ہوا۔ چاکی کے اس کارنامے سے نوابا کا پول بھی کھل گیا۔ اصل میں چوروں کے اس گروہ کا سربراہ نوابا ہی تھا۔ جس دن عدالت سے چوروں کو سزا ہوئی ،اسی دن چاکی کو دکان کے مالک کا ایک خط ملا، قالین کی کمپنی نے چاکی کو انعام میں اسکالر شپ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ چاکی کے اسکول کا سارا خرچہ اب قالین کی کمپنی اٹھائے گی۔یوں دریا پار کرنے کے شوق میں چاکی ایک بہت بڑے خطرے میں گھر گیا ،لیکن اس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ گیا اور اسے انعام بھی ملا۔
٭٭٭
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top