skip to Main Content

چچا چونچ

میرزا ادیب

۔۔۔۔۔

عمر دین کا ’دلبر‘
اس قصبے کا نام ہے ”نورو پیر“۔اس نام کی وجہ یہ ہے کہ بہت مدت ہوئی،یہاں ایک بزرگ آئے تھے۔کسی دور دراز علاقے سے۔اس جگہ آکر انہوں نے لوگوں کو نیک بننے کی تلقین کی تھی اور انہیں بتایا کہ اللہ کو یاد کس طرح کیا جاتا ہے اور اُس کی عبادت کس طرح کی جاتی ہے۔ جب یہ بزرگ فوت ہوئے تو انہیں یہیں دفن کر دیا گیا،یہاں رہنے والوں نے ان کا نام،زندہ رکھنے کے لیے اس علاقے کا نام ”نورو پیر“ رکھ دیا اور اُس وقت سے لے کر اب تک اس قصبے کا یہی نام مشہور ہے۔
یہ قصبہ کافی ترقی یافتہ سمجھاجاتا ہے،کئی سال ہوئے یہاں بجلی پہنچ چکی ہے،کہیں کہیں کھیتوں میں ٹریکٹر بھی نظر آجاتا ہے۔ٹیوب ویل بھی دکھائی دے جاتے ہیں،ہر گلی میں دو چار پکے مکان بھی بن گئے ہیں اور قصبے کے قریب جو ایک نہر گزرتی ہے اس کے کنارے اُونچے کر دیئے گئے ہیں تاکہ جب کسی سال بارش زیادہ ہو اور نہر میں طغیانی آجائے تو ارد گرد کے کھیتوں اور مکانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور قصبے کے لوگ اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہیں۔
تو یہ ہے قصبہ ”نورو پیر“ کا مختصر سا ذکرِ۔ آج سے چالیس پینتالیس برس پہلے کی بات ہے جب اس قصبے نے کوئی ترقی نہیں کی تھی اور سارے قصبے کے پکے مکانوں کی تعداد بس اتنی تھی کہ انہیں آسانی کے ساتھ انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا،نہر کے کنارے ایک لڑکا بیٹھا تھا جو بار بار سر اُٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگتا تھا۔ظاہر ہے وہ کسی کا انتظار کر رہا تھا۔کس کا انتظار کر رہا تھا؟ یہ بات آپ کو بڑی جلدی معلوم ہوجائے گی، پہلے ذرا اُس لڑکے کا حلیہ ملا حظہ فرمایئے۔بڑی لمبی ناک،قد لمبا اور پتلا دبلا، چلتا تھا تو یوں لگتا تھا کہ ابھی گرا کہ گرا۔آنکھیں چھوٹی چھوٹی، ماتھا بھی چھوٹا،بال گھنگھریلے،کبھی چوٹ آئی تھی اور اس چوٹ کا نشان دائیں گال پر تھا۔لمبی ناک ہی کی وجہ سے اسے پہچانا جاتا تھا۔ ماں باپ نے اس کا نام رکھا تھاعمر دین، مگر قصبے کے بہت کم لوگ ہوں گے جو اسے اس کے اصلی نام سے پکارتے تھے۔کسی شریر بچے نے اُس زمانے میں جب اس کی عمر دس گیارہ سال کی ہوگی اسے چونچ دین کہہ دیا تھا تو بس وہ دن اور آج کا دن،اس کے ہم عمر تو بھولے سے بھی اس کا اصلی نام نہیں لیتے تھے۔گھر میں صرف ماں تھی جو اسے عمر یا عمر دینا کہہ کر پکارتی تھی یا قصبے کے کچھ بزرگ تھے،جو اسے عمر دین یا عمر کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
جب عمر دین پیدا ہوا تو اس کے والدین نے اتنی خوشی منائی۔اتنی خوشی منائی کہ سارے قصبے میں اس کی دھوم مچ گئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ان کا پہلا بچہ تھا اور شادی سے پندرہ سال بعد ہوا تھا۔بچہ اکلوتا ہو تو ماں باپ کو اُس سے بڑی محبت ہوتی ہے اوریہی حال عمر دین کے ماں باپ کا تھا۔دونوں اسے دیکھ کر جیتے تھے اور اس کی ہر ضد پوری کرتے تھے مگر ان کی خوشی زیادہ دیر تک سلامت نہ رہ سکی،عمر دین عام لڑکوں سے مختلف تھا۔پتا نہیں کیا بات تھی کہ وہ بڑی عجیب عجیب حرکتیں کرتا تھا۔ماں کوئی سودا سلف لانے کے لیے گھر سے باہر جاتی تھی تو وہ چارپائی سے اُتر کر چنگیری سے روٹی نکالتا تھا اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے کووں کے آگے ڈالنے لگتا تھا۔ ماں آتی تو کہتی، ”عمر دینا! تیرا بیڑا غرق ہو۔یہ روٹی تیرے باپ کے لیے تھی، وہ دوکان سے گھر آئے گا تو کیا کھائے گا؟“
اسے چارپائی سے زیادہ مٹی کے اُوپر بیٹھنے میں مزا ملتا تھا،کپڑے گندے ہوجاتے تھے مگر وہ مٹی کے ساتھ کھیلنے میں بڑی دلچسپی لیتا تھا۔باپ نے بار بار کوشش کی کہ وہ بھی کسی وقت دکان پر بیٹھ جایا کرے لیکن اسے تو دکان پر بیٹھنے سے وحشت ہوتی تھی۔باپ گھر آتا تھا تو وہ جس دوست کو بھی قریب سے گزرتے ہوئے دیکھتا تھااُسے بلا لیتا تھا اور اُس سے کھیلنے یا باتیں کرنے لگتا تھا۔گاہکوں کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اُس کاباپ اسے دکان پر بیٹھنے ہی نہیں دیتا تھا۔
ماں نے مسجد میں جا بٹھایا کہ مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھے مگر وہ پہلے دن ہی اس طرح رونے لگا کہ مولوی صاحب نے بیزار ہوکر اسے گھر واپس بھیج دیا۔عمر دین کو گھر کا کام کرنے،پڑھنے لکھنے،دکان پر بیٹھنے کا کوئی شوق نہیں تھا،شوق تھا تو کووں اور کتوں کے آگے روٹی کے ٹکڑے ڈالنے کا اور مٹی کے ساتھ کھیلنے کا۔
جب عمر دین کی عمر گیارہ برس کی ہوئی تو اس کا والد فوت ہوگیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باپ کے مرنے پر وہ دکان پر بیٹھتا اور باپ کی طرح لوگوں کو دالیں،گھی، چینی وغیرہ دیتا لیکن اسے دکانداری سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔اس لیے اس کی ماں نے دکان قصبے کے ایک آدمی کو دے دی اور دکان کے اندر جتنا مال پڑا تھا اس کی قیمت وصول کرلی۔
دکان بیچ کر جتنی رقم ملی تھی۔اُس سے کب تک گزارا ہوسکتا تھا؟بے چاری بیٹے سے مایوس ہوکر گھر میں لوگوں کے کپڑے سینے لگی۔ لوگوں کے گھروں میں جاکر کام کرنے لگی۔اس سے گھر کا خرچ نکل آتا تھا۔عمر دین کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی کہ ماں کیا کرتی ہے اور کیا نہیں کرتی اور گھر کا خرچ کس طرح چلتا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد بھی اُس کی عادتوں میں کوئی فرق نہ پڑا تھا۔
مگر عمر دین ایک دم ”چونچ دین“ کیسے بن گیا؟ قصہ اصل میں یوں ہوا کہ آٹھ نو سال پہلے تو اُس کا قد عام لڑکوں جیسا تھا۔اس کے بعد نہ جانے کیا بات ہوئی کہ وہ ایک دم لمبا ہوگیا اور اُسی نسبت سے اُس کی ناک بھی لمبی ہوگئی،ناک پہلے بھی تھی مگر اس کے بعد تویوں محسوس ہوتا تھا کہ اُس کی لمبائی کم از کم دوگنی ہوگئی ہے۔
ایک دن ایسا ہوا، اُس کی اپنے ایک پرانے دوست شبراتی سے لڑائی ہوگئی۔شبراتی حلوائی کی دکان سے گرم گرم جلیبیاں خریدنا چاہتا تھا اور اُس کے پاس صرف دو آنے تھے۔اسے اور دو آنوں کی ضرورت تھی۔اُس نے عمر دین سے مانگے۔عمر دین کی جی میں دو آنے چھوڑ چار آنے تھے لیکن وہ جلیبیوں کے بجائے گرم گرم چنے کھانا چاہتا تھا۔اس پر دونوں میں تکرار ہوگئی۔ شبراتی غصے میں بولا۔ ”میں جلیبیاں لوں گا۔“
”نہیں چنے“عمر دین نے کہا۔
”نہیں جلیبیاں بہت میٹھی ہوتی ہیں“ عمر دین بولا۔
”چنے بے حد اچھے ہوتے ہیں“ عمر دین بولا۔
اس پر شبراتی کو اور غصہ آگیا اور وہ کھڑے ہوکر کہنے لگا۔
”تم تو نرے چونچ دین ہو۔“ اس کا یہ کہنا تھا کہ اُس وقت ایک لڑکا احمد جو قریب سے گزر رہا تھا۔ زور سے ہنس پڑا۔
”واہ واہ چونچ دین۔چونچ دین“ اُس نے تالیاں بجائیں اور اُسی دن شام سے پہلے پہلے عمر دین چونچ دین بن چکا تھا۔
تو یہ تھا عمر دین المعروف بہ چونچ دین جو اپنے قصبے میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا اور کسی کا انتظار کر رہا تھا۔
اُسے انتظار کرتے کرتے آدھ گھنٹہ گزر گیا تھا اور آنے والے ہر لمحے کے ساتھ اُس کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی۔وہ زیادہ انتظار نہ کر سکا اور اپنی جگہ پر اُٹھ بیٹھا۔ اتنے میں پیپل کے درخت کے نیچے شبراتی دکھائی دیا۔اُس نے ہاتھ میں ایک رسی پکڑ رکھی تھی۔عمر دین نے جیسے ہی اپنے پرانے دوست کو دیکھا، فوراً بھاگا اُس کی طرف اور جب وہاں پہنچا تو شبراتی سے نہیں کسی اور سے لپٹ گیا۔
بھلا کس سے لپٹ گیا؟
”ڈھینچو ں۔ڈھینچوں۔ ڈھینچو ں۔ڈھینچوں۔“
ارے یہ کیا۔عمر دین تو ایک گدھے کی گردن میں ہاتھ ڈالے ہوئے کھڑا ہے اور گدھا ہے کہ اُس کے پیار کاجواب ”ڈھینچوں ڈھینچوں“ کر کے دے رہا ہے۔
” بس چونچ میاں! بس“ شبراتی نے عمر دین کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا مگر عمر دین گدھے کی گردن چھوڑتا ہی نہیں تھا۔
”ہائے میرا دلبر۔“ عمر دین نے گدھے کی پیشانی پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔دلبر کے معنی ہیں دل لے جانے والا اور وہ گدھے کو ہمیشہ سے اسی نام سے پکارتا تھا۔اسے اپنے گدھے سے بے حد محبت تھی۔گویا اُسے دیکھ کر جیتا تھا۔گدھا اُسے کبھی نہیں کہتا تھا۔دلبر کہتا تھا۔یہ لفظ اُس نے کسی فلمی گیت میں سنا تھا۔
”یار شبراتی! رات میرے دلبر کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟“ عمر دین نے پوچھا۔
”پوچھ لو اپنے دلبر سے“ شبراتی نے جواب دیا۔
عمر دین اپنا منہ گدھے کے لمبے کان کے قریب لے گیا۔ ”کیوں دلبر رات سوگئے تھے نا۔ مجھے تو ساری رات نیند نہیں آئی۔میرا دل کہتا تھا۔ پتا نہیں میرے دلبر کا کیا حال ہے۔جی چاہتا تھا بھاگ کر تمہارے پاس پہنچ جاؤں پر وہ اماں ہے نا۔اُس نے دروازے کے آگے اپنی چارپائی بچھالی تھی۔کہتی تھی خبر دار جو تو باہر نکلا۔ٹانگیں توڑ دوں گی تیری، یار شبراتی! میرا دلبر بھوکاتو نہیں ہے؟“

”کہاں بھوکا ہے۔ اسے تو میں نے حلوہ بھی کھلایا تھا۔“ شبراتی نے گپ ماری۔ وہ عمر دین کو خوش کرنا چاہتا تھا اور اُس میں اُس کی اپنی غرض بھی نہ تھی۔ وہ دلبر کو جو کچھ کھلاتا تھا۔اُس کی قیمت عمر دین سے وصول کر لیتا تھا۔ اس میں اس کا فائدہ ہی فائدہ تھا۔ کیوں کے وہ دلبر کو کھلاتا گھاس تھا اور پیسے وصول کرلیتا تھا اچھی اچھی چیزوں کے اور عمر دین سے جو کچھ وصول کرتا تھا۔ اس سے زیادہ تر موسیٰ حلوائی کی دکان سے ریوڑیاں خرید لیتا تھا اور مزے مزے سے کھاتا رہتا تھا اور یہ دلبر کہاں سے آگیا تھا؟یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔
جس زمانے میں عمر دین کے والد کا انتقال ہوا، عمر دین کو بڑا دکھ ہوا۔ عمر دین کی ماں اپنے بیٹے کو جب بھی بد دعا دیتی تھی یا پریشان ہوکر اُس کے ایک آدھ تھپڑ مار دیتی تھی تو عمر دین کا باپ فوراً اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا اور پھر روتے ہوئے بیٹے کے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگتا تھا۔عمر دین کے باپ کو یہ بات پسند نہ تھی کہ اُس کی بیوی یا کوئی اور عمر دین کو ستائے یا تنگ کرے۔اُسے اپنے بیٹے سے بڑی محبت تھی اور اسی محبت کی وجہ سے وہ بیٹے کی ہربے وقوفی پر ہنس دیتا تھا۔اچھا تو ذکر ہے اُس زمانے کا۔عمر دین کو گھر میں باپ نظر نہیں آتا تھا۔تو وہ گھر سے دور کہیں جا بیٹھتا تھا اور گھنٹوں اسی طرح بیٹھا رہتا تھا۔ اُس کی ماں ڈھونڈتی ہوئی وہاں آجاتی تھی اور اُسے گھرلے جاتی تھی یا شبراتی وہاں پہنچ جاتا تھا اور اُسے اس بات پر مجبور کردیتا تھا کہ وہ اپنے گھر چلا جائے۔
ایک روز وہ ندی سے کچھ دور پیپل کے درخت کے سائے میں بیٹھا تھا۔اُس دن تو نہ تو اُس کی ماں وہاں آئی اور نہ شبراتی۔یقینا دونوں اُس کو کہیں اور تلاش کر رہے ہوں گے۔اُنہیں کیا خبر تھی کہ وہ جس کی تلاش میں ادھر اُدھر گھوم رہے ہیں۔وہ پیپل کے درخت کی گہری چھاؤں میں لیٹا ہوا ہے اور دور سے نظر نہیں آسکتا۔
اُس روز عمر دین کو اپنا باپ بہت یاد آیا۔صبح اُس نے گھڑے سے گلاس میں پانی اُنڈیلتے ہوئے گھڑاتوڑ ڈالا تھا، اس پر اُس کی ماں نے اُسے برا بھلا کہا تھا اور وہ اس معاملے میں حق بجانب بھی تھی۔کیونکہ گھر میں جو شخص کما کر لاتا تھا وہ تو دنیا سے چلا گیا تھا اور وہ لوگوں کے کپڑے سی کر صرف اتنا کما سکتی تھی کہ دو وقت کی روٹی مہیا کر سکے۔گھڑا ٹوٹ گیا تو اُسے دکھ ہوا کہ نیا گھڑا لانے کے لیے کہاں سے پیسے آئیں گے؟
عمر دین اُسی وقت گھر سے نکل آیا تھا اور صبح سے وہیں بیٹھا تھا۔اچانک ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز اُس کے کان میں آئی۔ اُس نے سر اٹھا کر دیکھا تو کچھ دور ایک گدھے کو پایا جو بھاگا جا رہا تھا۔وہ گدھے کو دیکھ رہا تھا کہ اُس کی نظر ایک چھوٹے سے گدھے پر پڑی جو اُس گدھے کے پیچھے جا رہا تھا۔معلوم نہیں اُس وقت کیا بات تھی کہ یہ بچہ گدھا اُسے بہت ہی پیارا لگا۔وقتی طور پر وہ باپ کی موت کا صدمہ اورماں کی گالیاں اور بد دعائیں بھول گیا۔بچہ گدھا اپنی ماں یا باپ کے عقب میں اُچھلتا کودتا ہوا کافی دور چلا گیا۔عمر دین ٹکٹکی باندھ کراُسے دیکھتا رہا۔ اُس کا جی چاہتا تھا کہ بھاگ کر جائے اور اُسے اپنی گود میں اُٹھا لے۔ یہ خواہش اپنے دل میں لے کر وہ اُٹھ بیٹھا اور بچہ گدھے کے پیچھے بھاگنے لگا۔ گھر میں اس کی ماں نے مرغیاں پال رکھی تھیں۔ ماں کو جب بھی مرغیوں کو بلانے کی ضرورت محسوس ہوتی وہ کہتی ”آ۔آ۔آ“ اور مرغیاں بھاگی ہوئی اُس کی طرف آجاتیں۔عمر دین نے سوچا وہ بچہ گدھے کی طرف منہ کر کے”آ۔ آ“ کہے گا تو بچہ مرغیوں کی طرح بھاگ آئے گا اس کی طرف اور وہ اُسے جلدی سے گود میں اُٹھا لے گا چنا نچہ اُس نے بچہ گدھے کی طرف منہ کر کے ”آ۔ آ۔آ۔ آ“ کہا ایک بار نہیں کئی بار مگر اُس بدبخت پر تو کچھ اثر ہی نہ ہوا۔ بجائے اس کے کہ اُس کی طرف آئے وہ اور دور ہوگیا۔اب تو عمر دین سے صبر نہ ہوسکا۔بھاگا اس کے پیچھے۔ بچہ بڑا شریر معلوم ہوتا تھا۔شرارت سے ذرا رک جاتا اور جب عمر دین اُس کے قریب پہنچ جاتا تو وہ پھر بھاگنے لگتا اور دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں جا پہنچا۔
عمر دین بھاگتے بھاگتے تھک گیا۔پسینہ پسینہ ہوگیا۔سانس پھول گئی لیکن بچہ ہاتھ نہ آیا۔
ادھر سے شبراتی کا ابا گھر کی طرف لوٹ رہا تھا۔ اس نے جو عمر دین کو بے تحاشا بھاگتے ہوئے دیکھا تو آواز دے کر بولا۔
”عمر دین بیٹا!“
عمر دین نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔ اسے ہر بار یقین ہو جاتا تھا کہ بچہ اس کے ہاتھ آجائے گا۔ مگر بچہ فوراً دور چلا جاتا تھا۔
”یہ تماشا کیا ہے۔“ شبراتی کے والد نے دل میں سوچا۔ ”یہ بے وقوف اس طرح بھاگ کیوں رہا ہے۔ اوہ یہ تو گدھے کے بچے کو پکڑنے کی کوشش کررہا ہے۔“ اور یہ دیکھ کر وہ بلند آواز سے بولا۔
”عمر دین ٹھہر جاؤ۔ میں لے آتا ہوں بچہ۔“ عمر دین نے آواز سن لی اور رک گیا تو شبراتی کا ابا تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔
”او پاگل یہ کیا ہو رہا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ……بچ…… ہ“ عمر دین کی سانس اس طرح پھول رہی تھی کہ فقرہ مکمل کرنا اس کے لئے مشکل تھا۔وہ کہنا چاہتا تھا ”وہ بچہ۔“
شبراتی کا ابا زور سے ہنس دیا۔
”یار! تجھے جو بات بھی سوجھتی ہے۔نرالی ہی سوجھتی ہے۔ لینا ہے تو ہرن کا بچہ لے۔یہ گدھے کا بچہ……“
”یہ…… یہ……بچہ……“
”تو یہ بچہ ضرور لے گا؟“
”ہا……ں“
”پاگل ہو گیا ہے۔ گدھے کے بچے کو کیا کرے گا۔ یہ بڑا ہو کر گدھا بنے گا۔“
”بن جائے۔“
گھوڑے کا بچہ پسند نہیں؟“
”نہیں“ اور یہ کہہ کر عمر دین پھر بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا کہ شبراتی کے ابا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے زبردستی اس کے گھر لے گیا۔ گھر کے آنگن میں عمر دین کی ماں فاطمہ مشین چلا رہی تھی۔ شبراتی کاا با بولا۔
”فاطمہ بہن کچھ اور سنو۔ تمہارا لاڈلا بیٹا گدھے کے بچے پر عاشق ہوگیا ہے۔“
عمر دین کی ماں کچھ سمجھ نہ سکی، بولی۔ ”کیا بات ہے بھائی جی۔“
شبراتی کے ابا نے اسے سارا قصہ سنا دیا۔
”تو گدھا ہے جو گدھے کے بچے کو پسند کرتا ہے؟“ ماں نے پوچھا۔
”ہاں میں گدھا ہوں۔“
شبراتی کا ابا ہنس پڑا۔ ”تو بہن سن لیا۔ تمہارا بیٹا گدھا ہے۔“
ماں کہنے لگی۔”گدھا ہی ہوتا تو اچھا تھا۔ سخت تنگ کر دیا ہے اس نے۔“
شبراتی کا ابا عمر دین سے مخاطب ہوا۔ ”عمر دین بیٹا! میں دو چار ماہ تک تیرے لیے گھوڑے کا بچہ شہر سے لے آؤں گا۔ میرے بھائی کی جو گھوڑی ہے نا اُس کا بچہ ہوا ہے۔ لے آؤں گا تمہارے لیے۔ سن لیا نا گدھا ودھا کیا ہوا۔ گھوڑی کا بچہ دیکھے گا تو خوش ہو جائے گا۔ یہ بچہ بڑا ہوگا تو اس پر بیٹھ کر سیر بھی کرنا۔“ عمر دین نے یہ فقرہ سنا ضرور مگر اس پر اثر خاک بھی نہ ہوا۔ اس کو تو ایک ہی ضد تھی۔”میں گدھے کا بچہ لوں گا۔“ ماں نے پیار سے، ڈانٹ ڈپٹ کر بالآخر پٹائی کر کے اسے بہتیرا سمجھایا کہ ایسی ضد پاگل بچے کیا کرتے ہیں۔ انسان کے بچوں کو گدھوں کے بچوں سے کیا واسطہ؟ شبراتی کے ابا اور دوسرے لوگوں نے بھی بار بار سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ عمر دین نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔ ماں مجبور ہوگئی اور اس لئے مجبور ہوگئی کہ عمر دین نے اپنی ضد کی وجہ سے روٹی کھانی بھی چھوڑ دی تھی۔ وہ منو کمہار کے ہاں گئی اور اُس سے کہا۔
”وے ویر! (اے بھائی) میرا ایک کام کرے گا!“
منو نے حقے کا لمبا کش لیا اور پوچھا۔ ”کیا کام ہے عمر کی ماں!“
”کیا کہوں اس لڑکے نے تو میری ناک میں دم کر دیا ہے۔ ہر روز دکھ دیتا ہے۔ اب کہتا ہے مجھے وہ لے دو۔“
”وہ کیا؟“
”وہ، اب میں کیا کہوں۔ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کہتا ہے گدھے کا بچہ لے دو۔“
منو کمہار زور سے ہنس پڑا۔
”اسے کیا کرے گا؟“
”جانے میری جوتی کیا کرے گا اور کیا نہیں کرے گا۔ ویر میری بات مان لے۔ نہیں مانے گا تو وہ رو رو کر جان ہلکان کر لے گا۔ روٹی کھانا بھی چھوڑ دی ہے اس نے۔“

”اچھا بہن! لے جا بچہ!“
”ہائے میں کیسے پکڑوں۔ بلی کا بچہ پکڑنا بھی مشکل ہوتا ہے اور یہ توہے گدھے کا بچہ۔“ عمر دین کی ماں نے کہا۔
منو نے اسے یقین دلایا کہ شام تک بچہ اس کے گھر پہنچ جائے گا اور وہ منو کو دعائیں دیتی ہوئی گھر لوٹ آئی۔
شام کو منو نے اپنے وعدے کے مطابق گدھے کا بچہ عمر دین کے گھر پہنچا دیا۔ گدھے کا بچہ گھر میں پہنچنے کو تو پہنچ گیا مگر سوال یہ پیدا ہوا کہ اُسے رکھا کہاں جائے اور کیسے رکھا جائے۔ گدھے کا بچہ تو ایک منٹ وہاں ٹھہرنے کو تیار نہیں تھا۔ منو نے اسے رسی کے ساتھ چارپائی سے باندھ دیا اور عمر دین کی ماں کی دعائیں لے کر چلا گیا۔
عمر دین کو گدھے کا بچہ کیا ملا۔ ایک ایسا خزانہ مل گیا۔ جس کا اس نے کبھی خیال بھی نہیں کیا تھا۔ وہ بڑے پیار سے اپنا ہاتھ بچے کے سر پر پھیرنے لگتا۔ مگر بچہ اُچھل پڑتا۔ وہ اُس سے پوچھتا۔
”کیا حال ہے میاں؟“
بچہ اس کا کیا جواب دیتا۔ عمر دین کو محسوس ہوا کہ بچہ بھوکا ہے۔ اُسی وقت کوٹھری کے اندر گیا۔ ماں سے چوری چوری اُس نے سوا روپیہ جمع کر رکھا تھا۔ اُس نے سارے پیسے اپنے کرتے کی جیب میں ڈالے اور موسیٰ حلوائی کی دکان پر جا پہنچا۔
”جلیبیاں گرم ہیں؟“ اُس نے حلوائی سے پوچھا۔
”ایسی گرم ہیں چونچ میاں کہ کھاؤ گے تو یاد کرو گے!“ عام طور پر عمر دین کو کوئی چونچ دین یا چونچ میاں کہتا تو وہ لڑپڑتا۔ مگر اُس وقت اسے ان باتوں کی پروا نہیں تھی کہ کون اسے کن الفاظ سے مخاطب کر رہا ہے۔ اس نے جیب سے سارے پیسے نکالے اور حلوائی کے حوالے کردیے۔
”چونچ میاں! آج اپنی نانی کا ختم دلوا رہے ہو!“ عمر دین کو اس بات پر بھی غصہ آیا۔ لیکن اس نے غصے کا اظہار بالکل نہ کیا۔
حلوائی نے جلیبیاں لفافے میں ڈال دیں اور عمر دین خوشی خوشی گھر آگیا۔
عمر دین کو جلیبیاں بہت پسند تھیں اور اُس کا خیال تھا کہ گدھے کا بچہ بھی بڑے شوق سے یہ جلیبیاں کھا لے گا چنانچہ اس نے لفافہ پھاڑ کر بچے کے آگے رکھ دیں۔ بچے نے ان جلیبیوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
”کھاؤ اچھے اچھے بھائی!“ عمر دین نے بڑے پیار سے کہا۔
”لعنت تجھ پر۔ گدھے کو اپنا بھائی بناتا ہے۔“ اس کی ماں نے گھر کے اندر قدم رکھتے ہوئے کہا۔ وہ کسی کے گھر سلے ہوئے کپڑے دے کر واپس آرہی تھی۔ اُس کی نظر ابھی جلیبیوں پر نہیں پڑی تھی۔جیسے ہی اُس نے جلیبیوں کو دیکھا،اُس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
”بیڑا غرق ہو تیرا، ہمیں سوکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے اور تو گدھے کو جلیبیاں کھلا رہا ہے۔“
یہ کہہ کر ماں نے جلیبیوں کا لفافہ اُٹھانے کی کوشش کی مگر عمر دین بھلا کب برداشت کر سکتا تھا کہ اُس کا ”بھائی“ جلیبیوں سے محروم رہ جائے۔ اُس نے ماں کو روک کر کہا۔
”ماں! یہ جلیبیاں میں اپنے پیسوں کی خرید کر لایا ہوں۔“
”پھر تو یہ گدھے کے بچے کو کھلائے گا؟“
”ہاں یہ کھائے گا۔“
”تیرا دماغ چل گیا ہے۔ تیری کھوپڑی میں بھوسا بھر گیا ہے۔“
ماں نے دوبارہ کوشش کی کہ لفافہ اُچک لے لیکن عمر دین بچے اور ماں کے درمیان آکر کھڑا ہوگیا۔
اتنے میں شبراتی کا ابا بھی آگیا۔ اُس نے جواب یہ تماشا دیکھا تو بولا۔
”عمر دین! بیٹا! ایک بات بتاؤ گے؟“
”جی ہاں“
”بیٹا! گدھا یہ ہے یا تم ہو۔ ارے احمق! کبھی گدھے نے جلیبیاں بھی کھائی ہیں۔ گدھے گھاس کھاتے ہیں۔ گھاس دو اسے، شوق سے کھائے گا۔ جلیبیاں اُٹھا لو۔“
”مگر میں تو جلیبیاں بڑے مزے سے کھاتا ہوں۔“ عمر دین نے لفافہ بچے کے اور قریب کرتے ہوئے کہا۔
”یہ بتاؤ تم انسان ہو یا گدھے ہو؟“
اس کا جواب عمر دین کی ماں نے دیا۔”گدھا ہے گدھا، انسان کہاں ہے؟“ اور اُس نے لفافہ اُٹھا لیا۔
اس پر عمر دین رونے لگا۔
”ہائے میرا بچہ بھوکا رہے گا۔“
ماں کو غصہ تو بہت آیا مگر بیٹے کی اس فقرے پر بے اختیار ہنس پڑی۔ شبراتی کا ابا بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔ اُس نے اپنا ہاتھ عمر دین کے سر پر رکھ دیا۔
”رو نہیں عمر دین! تیرا بچہ کیا کھائے گا۔ اس کا فیصلہ مجھ پر چھوڑ دے۔“
”ہائے ویر! کیاکہہ رہے ہو۔ یہ اس کا بچہ ہے؟“
”بہن! گدھے کا بچہ ہے یا اس کا ہے۔ بات ایک ہی ہے۔“
عمر دین کی ماں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ ”اپنی ہی اولاد گندی ہو تو کسی کا کیا قصور؟“
شبراتی کے ابا نے سمجھ لیا کہ عمر دین کی ماں کو دکھ پہنچا ہے۔ اُس نے روتے ہوئے عمر دین کا ہاتھ پکڑاا ور اُس سے کہنے لگا۔
”عمر دین آؤ میرے ساتھ“
”میں نہیں جاؤں گا!“
”بھئی تمہارے بچے کو بھی لیے چلتے ہیں۔ وہاں جا کر کھلا ئیں گے۔ پلائیں گے اور کیا چاہتے ہو؟“
اور اُس نے ایک ہاتھ سے عمر دین کا ہاتھ اور دوسرے ہاتھ میں گدھے کے بچے کی رسی پکڑی اور چلنے لگا۔ وہ جا رہے تھے کہ عمر دین کی ماں بولی۔
”خبردار اس منحوس کو میرے گھر میں نہ لانا۔“
”اچھا بہن!“ شبراتی کے ابا نے کہا۔
گدھے کا بچہ شبراتی کے گھر میں پرورش پانے لگا۔ عمر دین بڑی مشکل سے اپنے گھر میں رات گزارتا تھا اور صبح ہوتے ہی شبراتی کے یہاں چلا جاتا تھا۔ اس کی اماں گدھے کو دیکھنابھی پسند نہیں کرتی تھی۔ کیونکہ ایک شام عمر دین اُسے اپنے گھر لے آیا تھا اور اُس نے دولتی جھاڑ کر چولہے سے ہانڈی گرا دی تھی۔
اُس دن عمر کی ماں غصے سے جل بھن کر کباب ہوگئی۔ اس نے کپڑے دھونے والا ڈنڈا پکڑا اور گدھے کو بددعائیں دیتی ہوئی بھاگی اُس کی طرف۔ وہ اُسے مار مار کر ادھ مو ا کر دیتی۔ مگر عمر دین ماں کے سامنے آگیا۔
”ماں! مجھے مار لے، اسے چھوڑ دے۔“
”چل ہٹ نامراد، میں اس کا کچومر نکال کر چھوڑوں گی،آج یہ زندہ نہیں بچے گا۔“
خوش قسمتی سے اس وقت ایک ہمسایا آگیا اور اُس نے عمر دین کی ماں کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ اس دن فاطمہ نے اعلان کر دیا کہ اگر یہ منحوس شکل والا گدھا پھر کبھی ادھر آیا تو وہ اس کے دو ٹکڑے کر دے گی۔
گدھے کا بچہ پرورش پاتا رہا اور ایک دن پورا گدھا بن گیا۔
عمر دین کو اپنے گدھے سے اتنا پیار تھا کہ اس کے بس میں ہوتا تو وہ اسے فوراً اپنے گھر میں لے آتا۔ مگر ماں کے ڈر سے وہ اسے اس وقت اپنے ہاں لاتا تھا جب اس کی ماں گھر نہیں ہوتی تھی اور جیسے ہی ماں کی آواز سنتا تھا گدھے کو لے کر کھسک جاتا تھا۔
شبراتی کا باپ درزی تھا۔ قصبے کے سب سے بڑے بازار میں اُس کی دوکا ن تھی۔ شبراتی صبح سویرے جا کر باپ کی دکان کھول کر کچھ دیر وہاں بیٹھتا تھا۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد باپ آجاتا تو وہ دکان سے باہر نکل آتا۔ اس کے بعد وہ دوپہر تک آزاد رہتا تھا۔ دوپہر کو ایک پرائمری سکول میں جاتا۔ مگر وہاں سے تھوڑی دیر کے بعد آجاتا۔ اُسے پڑھنے لکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ باپ کی مار کے ڈر سے مدرسے میں جاتا تھا اور وہاں لڑکوں سے باتیں کر نے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا تھا۔

عمر دین اور شبراتی کی آپس میں بڑی محبت تھی۔ عمر دین اس سے تین سال بڑا تھا اور دونوں کے گھر ایک دوسرے کے قریب واقع تھے۔
عمر دین پہلے پہل تو گدھے کے بچے کو بچہ کہتا تھا۔ مگر وہ جب بڑا ہوگیا۔ تو ایک دن شبراتی نے اُس سے کہا۔
”یار! اب تو یہ بچہ نہیں ہے۔ اس کا کوئی نام ہونا چاہیے۔“
دونوں اس کا نام سوچنے لگے۔
شبراتی کوآلو کچالو بہت پسند تھے۔ کہنے لگا۔ ”اس کا نام آلو کچالو رکھ دیا جائے!“
”پاگل ہوگئے ہو۔ آلو کچالو کبھی نام ہوسکتا ہے؟“ عمر دین نے کہا۔
”پکوڑا کیسا نام ہے؟“ شبراتی نے پوچھا۔
”پکوڑا؟ اُوں ہوں۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت اور پیارا ہے، میرا بچہ“
”اور پکوڑا بھی تو بڑا مزے دار ہوتا ہے۔ آج صبح میں نے رات کی روٹی کے ساتھ کھایا تھا۔ اماں نے توے پر گرم کیا تھا۔ اسے بھی تو توے پر گرم ……“
عمر دین کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس نے شبراتی کو فقرہ مکمل کرنے ہی نہ دیا۔ ”تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ میرے پیارے کو توے پر گرم کروگے۔ میں تجھ کو پکڑ کر چولہے میں ڈال دوں گا۔“
عمر دین نے اپناہاتھ شبراتی کی گردن کی طرف بڑھایا۔ شبراتی اُٹھ کر پرے چلا گیا۔
ایک نیولا جلدی سے ایک گڑھے میں سے نکلا اور غائب ہوگیا۔
”نام تو سوجھ گیا ہے میرے یار!“ شبراتی نے کہا۔
”کیا سوجھا ہے۔ خبردار کوئی اوٹ پٹا نگ بات نہ کرنا۔“ عمر دین اپنے گدھے کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا تھا اور بڑے پیار سے اس کی گردن پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔
”نیولا کیسا نام ہے؟“
”شبراتی!“ عمر دین نے کہا۔ ”نیولا ہوگا تمہارا بھائی۔“
شبراتی تو تھا ہی شریر۔ جھٹ بول اُٹھا۔ ”تم میرے بھائی ہو۔“
عمر دین نے اس کے فقرے کی طرف توجہ نہ کی۔ وہ بڑا پریشان تھا۔ گدھے کا کوئی بہت اچھا سا نام رکھنا چاہتا تھا۔یہ بات اُسے بالکل پسند نہیں تھی کہ لوگ اسے گدھا کہیں۔ وہ خاموش رہا اور اپنا ہاتھ گدھے کی گردن پر پھیرتا رہا۔ اس کے دماغ میں بھی کئی نام آرہے تھے مگر کوئی نام بھی اسے پسند نہیں آیا تھا۔ شبراتی ذرا دور کھڑا ریوڑیاں چبا رہا تھا۔ اُسے ریوڑیاں کھانے کا بڑا شوق تھا۔ ماں سے جو کچھ ملتا تھا اُس سے ریوڑیاں خرید لیتا تھا، اور انہیں جیب میں ڈال کر آہستہ آہستہ کھاتا رہتا تھا۔
”چونچ میاں! ریوڑیاں کھاؤ گے؟“
عمر دین اپنی فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔
”تمہارا گدھا کھائے گا؟“
”میں کہتا ہوں! میرے اس بچے کو گدھا مت کہا کرو! سو بار کہہ چکا ہوں۔“
”تو پھر کیا کہا کروں؟“
اتفاق سے اس وقت ندی کے کنارے کوئی شخص ایک گیت گاتا ہوا جارہا تھا۔ جس میں لفظ ’دلبر‘ استعمال ہوا تھا۔
عمر دین کے ذہن میں روشنی کی ایک کرن چمک اُٹھی۔ ”دلبر!“ اس نے کہا۔
”دلبر ……؟ ٹھیک نہیں ہے۔“
”ہوں!“
”شبراتی!“
”ہوں“
”دلبر کیسا نام ہے!“
”دلبر ……؟ گدھے کا نام……؟ تمہارے دماغ میں توڑی بھری ہوئی ہے۔“
”بس یہی نام مجھے پسند ہے۔“
اور اُس دن فیصلہ ہوگیا کہ عمر دین کے گدھے کا نام دلبر ہوگا۔
گدھے کا نام رکھنے کی خوشی میں اُس دن شبراتی نے موسیٰ حلوائی سے ڈھیر ساری ریوڑیاں خریدیں اور اپنی دونوں جیبیں بھر لیں۔ ریوڑیاں خریدنے کے لئے سارے پیسے عمر دین نے دیئے تھے۔
عمر دین کو اپنے دلبر سے اتنا پیار تھا کہ ہر وقت اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کی ماں کو اس سے نفرت تھی۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ دلبر کو اس کے گھر کے دروازے کے باہر باندھا جائے۔ کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ اس کے بیٹے کی آوارہ گردی میں اس نامراد گدھے کا بڑا حصہ ہے۔ اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ گدھے کو ندی میں دھکا دے دیتی یا قصبے سے باہر نکال دیتی۔ اس کے برعکس عمر دین کو اپنے دلبر سے اتنی محبت تھی کہ اسے سوائے اس کے اور کسی کا خیال ہی نہیں آتا تھا۔ رات کو جب بھی اُس کی آنکھ کھلتی تھی، وہ یہ بات سوچنے لگتا تھا کہ اس وقت اُس کے دلبر کی کیا حالت ہوگی……؟ سو ررہا ہوگا یا جاگ رہا ہوگا۔ شبراتی نے اسے کہاں باندھا ہوگا۔ شبراتی دلبر کو اپنے گھر کے سامنے ایک پیپل کے درخت سے باندھ دیتا تھا۔ عمر دین کہتا تھا۔”شبراتی میرے بھائی اسے گھر کے اندر لے جایا کرو۔“ مگر شبراتی ماں باپ کے ڈر سے اندر نہیں لے جاتا تھا۔
شبراتی کے مزے ہی مزے تھے۔ وہ عمر دین کے دلبر کی حفاظت کرتا تھا۔ اس لئے اُسے یہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ ریوڑیوں کے لیے جتنے پیسوں کی ضرورت ہو عمر دین سے لے لے۔ عمر دین اس کا ہر مطالبہ پورا کرتا تھا۔ ضد کر کے ماں سے پیسے لے لیتا تھا۔ ماں دیتی تھی تو کہتا تھا۔
”ماں! نہ دے پیسے۔ میں چلا ہوں ندی میں چھلانگ لگانے۔“
ماں ڈر جاتی۔ اس کی یہی تو ایک اولاد تھی۔
”دفع دور۔ اللہ کی تجھ پر پھٹکار۔“ ماں کہتی۔
”تو جو پیسے نہیں دیتی میں ندی میں ڈوب کر مر جاؤں گا۔“
اور عمر دین کی یہ دھمکی کارگر ثابت ہوتی۔ اس کی اماں کسی نہ کسی طرح پیسوں کا انتظام کر دیتی۔
لوگوں نے اس سے کہا تھا کہ ہم گدھا کہیں باہر جا کر چھوڑ آتے ہیں۔ مگر وہ یہ مانتی نہیں تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتی تھی۔ گدھے میں تو اس کے بیٹے کی جان ہے۔ گدھے کے گم ہو جانے سے اسے بڑا صدمہ ہوگا۔اور وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی کہ اُس کے بیٹے کو صدمہ پہنچے۔

گھر میں چور
دسمبر کا مہینہ ختم ہو رہا تھا۔ نومبر میں تو سردی کچھ زیادہ نہیں تھی مگر دسمبر کے دوسرے ہفتے میں پانچ روز تک مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ اور ایک روز تو اولے بھی پڑے تھے۔ لوگ صبح آٹھ نو بجے سے پہلے گھروں سے باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ عمر دین کی ماں کو اپنے بیٹے کی فکر ہر وقت پریشان رکھتی تھی۔ عمر دین کا جسم بہت کمزور تھا اور وہ ڈرتی تھی کہ اگر اُسے بخار ہوگیا،وہ اور کمزور ہو جائے گا۔ شہر جا کر وہ اپنے ایک دور کے رشتہ دار سے ایک بڑا کوٹ لے آئی تھی اور چاہتی تھی کہ یہ کوٹ عمر دین پہن کر اپنی چارپائی کے اُوپر بیٹھا رہے یا لحاف میں گھسا رہے اور عمر دین یہ سوچتا رہتا تھا کہ اتنی سردی میں اُس کے دلبر کا کیا حال ہوگا۔ اسے سردی لگتی ہوگی تو کیا کرتا ہوگا۔اس کا جی چاہتا تھا کہ بڑا کوٹ اُسے جا کر پہنا دے مگر ماں سے ڈرتا تھا۔
ایک روز سردی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ تھی اور عمر دین چولھے کے پاس بیٹھا تھا۔ ماں روٹیاں پکا رہی تھی۔عمر دین نے ماں سے پوچھا۔ ”ماں! بڑی سردی ہے نا؟“
”ہاں! بڑی سردی ہے۔ تیرا کوٹ کہاں ہے؟“ ماں نے جب دیکھا کہ اس نے کوٹ نہیں پہن رکھا تو یہ سوال کیا۔
”ماں! وہ چارپائی پر ہے۔“ عمر دین نے جواب دیا۔
”نامراد میں تیرے لیے اتنی دور سے لائی اور تو پہنتا ہی نہیں، سردی لگ جائے گی، بخار ہو جائے گا۔“
”اچھا ماں! میں پہن لیتا ہوں۔ ماں سردی سب کو لگتی ہے نا……؟“
”سب کو لگتی ہے۔ کیوں تو یہ کیوں پوچھا ہے؟“ ماں نے پوچھا۔
”ماں! سردی جانوروں کو بھی لگتی ہے نا؟“
اس نے سمجھ لیا کہ اس کے بیٹے کا مطلب کیا ہے۔ ڈانٹ کر بولی۔ ”خبردار جو تو گھر سے باہر نکلا۔ وہ مردار جہاں ہے ٹھیک ہے۔ گدھوں کو سردی نہیں لگتی۔ سن لیا۔ ان بے شرموں کی کھال بڑی موٹی ہوتی ہے۔ جا! کوٹ پہن کر آ۔“
عمر دین اپنی جگہ سے اُٹھا اور چارپائی کے پاس گیا۔ کوٹ اُٹھا کر پہنا اور واپس آکر چوکی پر بیٹھ گیا۔
”تو جاتا کیوں نہیں اپنی چارپائی پر؟“
”ماں! میں ذرا شبراتی کو دیکھ آؤں؟“
ماں نے ہاتھ میں چمٹا پکڑ لیا اور غصے سے کہا ”اگر تو نے ضد کی تو چمٹے سے تیری کھال اُدھیڑ دوں گی۔“
عمر دین خاموشی سے دوسری طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں شبراتی آگیا۔
”میرا دلبر کہاں ہے؟“ عمر دین نے شبراتی کو دیکھتے ہی پوچھا۔
اس سے پہلے کہ شبراتی کوئی جواب دیتا، عمر دین کی ماں بولی۔ ”اسے تو بس اُس نامراد ہی کی پڑی رہتی ہے۔ بتارے! کیسا ہے اس کا دلبر؟“
”راضی خوشی ہے اور سلام کہتا ہے۔“ شبراتی نے ہنستے ہوئے کہا۔ مگر عمر دین کا چہرہ اُداس ہی رہا۔
”روٹی کھائے گا شبراتی!“
”نہیں خالہ! کھا کر آرہا ہوں۔“
”کیا پکایا ہے تیری ماں نے آج؟“
”آلو پالک۔ پوری دو روٹیاں کھائی ہیں۔ ماں نے کہا تھا کہ خالہ کے لیے لے جا۔ مجھے یاد ہی نہ رہا۔“
”اچھی بات تم دونوں کو کبھی یاد نہیں رہتی۔“ماں بولی اور روٹی توے سے اُتار کر چولہے کے کوئلوں پر سینکنے لگی۔ اس کا دھیان روٹی میں تھا۔ عمر دین نے موقعے کو غنیمت جانا۔ شبراتی کے کان میں کچھ کہا اور شبراتی ہنس پڑا۔
ماں نے غور سے اُس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ”کیا کہتا ہے یہ؟“
”کچھ نہیں خالہ“
”تم ہنسے کس بات پر ہو؟“
”میں نہیں ہنسا خالہ!“
”جھوٹ بولتے ہو! ہنسے ہو اور کہتے ہو، میں نہیں ہنسا۔ یاد رکھو تم شرارتوں سے باز نہ آئے تو گرم کوئلے تمہارے ہاتھوں پر رکھ دوں گی۔“
عمر دین اُٹھ کر اپنی چارپائی پر چلا گیا۔ شبراتی بھی وہیں پہنچ گیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈال رکھے تھے۔
ماں نے چنگیر میں روٹیاں رکھیں اور ایک روٹی کے اُوپر ماش کی دال ڈال دی۔ خود اُٹھی اور بیٹے سے بولی۔ ”لے کھا لے! کھاتے ہوئے باتیں نہ کر۔روٹی تن بدن کو نہیں لگتی۔“
عمر دین نے شبراتی سے کہا۔ ”کچھ کھا لے۔“ اور شبراتی تو تھا ہی اس موقع کی تلاش میں، اس کے ساتھ کھانے بیٹھ گیا۔
روٹی کھانے کے بعد عمر دین نے اصرار کر کے ماں سے اتنی اجازت لی کہ شبراتی کو گلی میں چھوڑ آئے۔ کیونکہ شبراتی نے اُس سے کہا تھا۔ ”مجھے گھر سے باہر چھوڑ آ۔“
ماں نے روٹی کھائی۔ برتن اکٹھے کیے۔ اپنا بستر بچھایا اور لیٹ گئی۔ پورے ایک گھنٹے کے بعد عمر دین گھر میں آیا۔ ماں نے ڈانٹا ڈپٹا اور کہا۔ ”لحاف میں گھس کر سو جا۔“ اور وہ لحاف میں گھس گیا۔
عمر دین کی ماں جب چارپائی پر لیٹتی تھی تو اُسے فوراً نیند نہیں آتی تھی۔ کچھ دیر تک جاگتی رہتی تھی اور طرح طرح کی باتیں اس کے دماغ میں آتی رہتی تھیں۔ اس دن بھی وہ سوچتی رہی کہ اُس کا بیٹا کب کمانے کے قابل ہوگا۔ کب وہ آرام سے بیٹھے گی۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں نیند آگئی اور وہ سو گئی۔
آدھی رات گزری تھی کہ اسے یوں لگا، جیسے دالان، میں کوئی چیز گر پڑی ہے۔ مگر اُسے نیند بڑے زور کی آرہی تھی۔ اس لیے اس نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ یہ اس کا وہم ہے۔ دالان میں کوئی چیز نہیں گری۔ آواز پھر آئی۔ مگر اس مرتبہ بھی اس نے آواز کو اپنا وہم ہی سمجھا۔
اس کے بعد یوں لگا، جیسے برتن گر رہے ہیں۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔ قریب سے ”دھڑ دھڑ“ کا شور بلند ہو رہا تھا۔ اس کے ذہن میں فوراًخیال آیا کہ گھر میں چور آگیا ہے اور چیزیں لے جا رہا ہے۔ اُس نے بے اختیار ”چور! چور!“ کا شور مچانا شروع کر دیا اور لالٹین کی طرف بھاگی۔ لالٹین کو پکڑ کر بتی اُونچی کرنا چاہتی تھی کہ لالٹین اس کے ہاتھ سے گرکر بجھ گئی۔ اس کی چمنی ٹوٹ گئی۔
اب تو وہ اور بلند آواز سے ”چور! چور!“ کہنے گی۔
سب سے پہلے بابا رحیم آیا۔ بابا رحیم محلے کی مسجد کا امام تھا اور فاطمہ ہی کی گلی میں ریتا تھا۔
”فاطمہ! کہاں ہے چور؟“ بابا رحیم نے پوچھا۔
”یہیں کہیں ہے۔ میرے برتن لے گیا ہے۔ ہائے میرا سامان۔“ فاطمہ نے دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”لالٹین کہاں ہے؟“ بابا رحیم نے پوچھا۔
”ٹوٹ گئی ہے۔“
”فاطمہ کیا ہوا؟“ یہ آواز مولا بخش کی تھی جو دکاندار تھا اور فاطمہ کی آواز سن کر آگیا تھا۔
”خدا کے لیے چور کو پکڑو…… میرا سامان …… مجھ غریب بیوہ کا گھر تباہ ہوجائے گا۔“ فاطمہ نے کہا۔
مولا بخش یار کہیں سے لالٹین لے کر آ!“ بابا رحیم نے کہا۔
”نہ نہ۔ اللہ کے واسطے کوئی نہ جائے۔ چور بھاگ جائے گا۔“ فاطمہ بولی۔
اتنے میں محلے کے اور لوگ بھی آگئے۔
ہر ایک کہہ رہا تھا۔ چور کہاں ہے……مگر نہ تو فاطمہ جواب دیتی تھی اور نہ کوئی اور۔ ہر ایک دوسرے کا نام لے کر کہہ رہا تھا۔ ”لالٹین لاؤ! “ لیکن لالٹین کوئی بھی نہیں لا رہا تھا۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر ایک ہنگامہ برپا تھا۔
اچانک فاطمہ کو اپنے بیٹے کا خیال آہی گیا۔

”عمر دین!“
عمر دین کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔
”عمر دین …… بیٹا عمر دین!“
اب کے بھی اس کے کان میں بیٹے کی آواز نہ آئی۔
”ہائے، ہائے …… میرا بیٹا کہاں گیا؟“ فاطمہ کو گھر کے سامان کے ساتھ ہی بیٹے کی بھی فکر پڑگئی۔
”یار! لالٹین تو لاؤ۔“ مولا بخش نے کہا۔
اس کے بعد کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ”لالٹین لاؤ…… لالٹین لاؤ!“
خدا خدا کر کے حاجی معراج دین لالٹین لے آیا۔
”چور جانے نہ پائے! “ بابا رحیم نے کہا۔
”میرا سامان…… میرا عمر دین……“ فاطمہ رونے لگی۔
”فاطمہ! چور پکڑ لیا ہے!“ مولا بخش نے کہا۔
”کہاں ہے؟“ ایک ساتھ کئی لوگوں نے پوچھا۔
”یہ رہا چور!“ سب دالان میں پہنچ گئے۔ وہاں اُنہوں نے دیکھا کہ مولا بخش عمر دین کے دلبر کی گردن پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔
”یہ یہاں کیسے آگیا؟“ فاطمہ کا غصے سے براحال ہورہا تھا۔اور لوگ زور زور سے ہنس رہے تھے۔
گدھے نے دالان میں رکھے ہوئے کنستروں کو لاتیں مار مار کر شور برپا کر دیا تھا۔
”عمر دین کہاں ہے؟“ فاطمہ نے پوچھا۔
مولا بخش نے لالٹین کو کو اُوپر اُٹھایا…… عمر دین ایک طرف سہما ہوا کھڑا تھا۔
”عمر دین یہ! کون لایا؟“ فاطمہ نے پوچھا۔
”میں اماں …… سردی…… بڑی……“
”تیرا بیڑا غرق ہو عمر دین! تو میری جان لے کر ہی چھوڑے گا۔ ہائے او میرے اللہ! میں کدھر جاؤں ……مر جاؤں ……“ فاطمہ سینے پر دوہتھڑ مار کر زور زور سے رونے لگی۔اگر مولا بخش فاطمہ کا ہاتھ نہ پکڑ لیتا۔ تو فاطمہ ضرور اپنے بیٹے کی پٹائی کر دیتی۔ وہ گدھے کو ایک منٹ کے لیے بھی اپنے گھر میں دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن بابا رحیم اور مولا بخش کے کہنے پر اُس نے یہ بات مان لی کہ گدھے کو رات بھر کے لیے وہیں رہنے دیا جائے۔ گھر سے باہر نہ نکالا جائے اور صبح ہوتے ہی اُسے نکال دیا جائے!

گدھا طوطا بن گیا
رات جو واقعہ ہوا۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عمر دین کی اماں گدھے سے زیادہ بیزار ہوگئی۔ وہ تو اب اس کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتی تھی۔ وجہ اس بیزاری کی صرف یہ نہیں تھی کہ جب یہ واقعہ ہوا تو وہ آدھی رات کے بعد ایک منٹ بھی نہ سوسکی بلکہ یہ بھی کہ لوگ اُس کے پاس آتے تھے اور افسوس کا اظہار اس طریقے سے کرتے تھے کہ اُسے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ مثلاًکوئی آکر یہ کہتا۔ ”بہن! سنا ہے کہ رات تمہارے گھر میں چور آگیا تھا۔ کچھ نقصان تو نہیں ہوا؟“
ظاہر ہے وہ اس بات سے انکار کرتی اور کہتی۔
”چور نہیں آیا تھا …… میرا نامراد بیٹا گدھا لے آیا تھا گھر میں۔“
”بس…… گدھا؟“ آنے والا ہنس کر کہتا۔
”نامراد کو گدھے سے بڑا پیار ہے!“
”تو بہن تم اس گدھے کو گھر میں ہی رکھ لو نا؟“
یہ بات سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ واہ کیسا شاندار مشورہ دے رہا ہے۔ ”تو بہن تم اس گدھے کو گھر میں ہی رکھ لو نا۔“ گویا لوگوں کو یہ کہنے کا موقع دوں کہ دیکھو اس گھر میں انسان کی بجائے ایک گدھا رہتا ہے۔
کوئی اور آتا تو کہتا۔
”شکر کر فاطمہ! گھر میں چورنہیں آیا تھا۔ چور آتا تو نہ جانے کتنا نقصان ہو جاتا۔“
”جی ہاں چور نہیں آیا تھا۔“ فاطمہ کہہ دیتی۔
”فاطمہ! تمہارے بیٹے کو گدھے سے اتنی محبت کیوں ہے؟ توبہ! توبہ! گدھے کو گھر کے اندر لے آیا تھا۔“
اس کا وہ کیا جواب دیتی۔ آہ بھر کر خاموش ہو جاتی۔ اس قسم کی باتیں سن سن کر وہ تنگ آگئی تھی۔
اُس دن جانے کتنے لوگ اُس کے پاس آئے اور اپنی باتوں سے اس کے دل پر چرکے لگاتے رہے۔ لوگوں پر تو غصہ اتار نہ سکی اپنے بیٹے سے بولی۔ ”دیکھ نا مراد! پھر کبھی تم نے اس کالے منہ والے گدھے کا نام لیا تو میں تیرا سر پھوڑ دوں گی!“
عمر دین نے یہ الفاظ سنے تو بھاگا بھاگاشبراتی کے ہاں پہنچا اور اُسے بتا دیا کہ اماں گدھے سے کس قدر ناراض ہے۔
”یار شبراتی!“
”کہو۔ کیا معاملہ ہے؟“
”اماں میرے دلبر کا نام سننا بھی نہیں چاہتی۔ کیا کروں؟“
”اس لیے اس کا نام سننا نہیں چاہتی کہ وہ تمہارا گدھا جو ہے نا وہ……“
”وہ کیا شبراتی؟“
”وہ گدھا ہے!“ شبراتی نے زور سے قہقہہ لگایا۔
عمر دین کو بڑا افسوس ہوا کہ اُس کا دوست بھی اُس کا مذاق اُڑاتا ہے۔ وہ روٹھ کر جانے لگا تو شبراتی نے جلدی سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”جانے دو مجھے۔ میں اب کبھی تم سے نہیں بولوں گا، تمہارے پاس نہیں آؤں گا، میرے دلبر کو گدھا کہتے ہو اور ہنستے ہو۔“
”یار ٹھہرو تو……کچھ سوچتے ہیں۔“
اور عمر دین اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اُسے امید تھی کہ شبراتی کوئی نہ کوئی اچھی سی تجویز سوچ لے گا۔ دونوں دیر تک سوچتے رہے۔ کبھی شبراتی کہتا۔ اسے منو کمہار کے ہاں چھوڑ آتے ہیں۔ کبھی کبھی جا کر دیکھ لیا کرنا۔ کبھی اس کے دماغ میں تجویز آتی کہ خالہ سے کہہ دیا جائے کہ گدھا مرگیا ہے، اُس کا غصہ دور ہو جائے گا۔ عمر دین کو دونوں تجویزیں پسند نہیں تھیں۔ آخر میں شبراتی نے کہا۔
”چونچ میاں!“
”کہو“
”ارے چاچا چونچ! ایک ایسی تجویز سوچی ہے کہ سنو گے تو یاد کرو گے کہ میرا بھی ایک سچا دوست شبرات علی یعنی شبراتی ہے۔“

”کیا تجویز ہے؟“
”چار آنے کی ریوڑیاں!“
”منظور…… چار آنے کی نہیں آٹھ آنے کی۔“
”خالہ کو اس بات پر غصہ آتا ہے کہ گدھا ہے، اگر وہ گدھا نہ رہے تو وہ خوش ہو جائے گی۔“
”کیا بکواس کرتے ہو! گدھا نہ رہے، گدھا کیوں نہ رہے؟“ عمر دین نے اعتراض کیا۔
”میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ گدھا مر جائے، گدھا زندہ رہے جس طرح زندہ ہے، مگر وہ گدھا نہ رہے تو……“
شبراتی نے تاڑ لیا کہ اس کے الفاظ عمر دین سمجھ نہیں سکا۔ بولا، ”کوئی ایسی بات سوچو کہ گدھا دیکھنے میں گدھا نظر نہ آئے۔“
”تم مذاق کرتے ہو شبراتی!“
شبراتی نے قسم کھا کر اُسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ اُس کا مذاق نہیں اُڑا رہا بلکہ سنجیدگی سے کہہ رہا ہے۔
”مگر یہ کس طرح ہو کہ گدھا، گدھا نظر نہ آئے۔ جانور انسان کیسے بن سکتا ہے؟“
”کچھ اور تو بن سکتا ہے نا……“ شبراتی ذرا رکا پھر بولا۔
”دیکھو چاچا چونچ! گدھا اس لیے گدھا ہے کہ اس کا رنگ کا لا ہے۔ بڑا برا لگتا ہے۔ ہم یوں کریں کہ اس کا کالا رنگ اُتار دیں۔ یعنی وہ کالا نہ رہے۔ اسے خوبصورت بنا دیں تو مزا آجائے گا۔ کیوں کیسی کہی؟“ عمر دین پاگلوں کی طرح شبراتی کو دیکھنے لگا۔
”یہ کام یوں ہو گا۔“ شبراتی نے چٹکی بجائی۔
”خدا قسم!اسے اتنا خوبصورت بنا دوں گا۔اتنا خوبصورت بنا دوں گا کہ لوگ دیکھ کر حیرا ن رہ جا ئیں گے۔پھر وہ کہیں گے،واہ واہ! کتنا پیارا جا نور ہے،یہ گدھا کہا ں ہے،یہ تو کچھ اور ہے۔“
”شبراتی! میں تمہیں پورے روپے کی ریوڑیاں دوں گا۔“
”پورے روپے کی! بھولنا نہیں۔“
”بالکل نہیں بھولوں گا!“
”سنو میرے چاچا چونچ! تمہارے گدھے پر رنگ پھیر دیا جائے تو اس کا کالا اصل رنگ دور ہو جائے گا۔“
”کیا پاگل پن ہے!“
”تم پاگل ہو خود، بات پوری سنتے ہی نہیں۔ میاں چونچ چاچا! اس پر رنگ پھیر دیا جائے تو اس کا کالا رنگ باقی نہیں رہے گا، رنگ رنگ دار ہو جائے گا۔ تم نے ٹھیکے دار صاحب کا مکان دیکھا ہے نا اندر جا کر؟“
”دیکھا ہے۔“
”پہلے اتنا خوبصورت لگتا تھا جتنا اب لگتا ہے؟ کیوں کہ۔ سفیدی کرائی گئی ہے نا۔ اس پر رنگ پھیر دیں گے تو یہ یوں لگے گا، جیسے …… جیسے…… جیسے……“
شبراتی کے ذہن میں کوئی مثال نہیں آئی تھی۔
”کیسا لگے گا؟“ عمر دین نے پوچھا۔
”جیسے طوطا“ شبراتی بولا۔
”ہاں طوطا لگے گا۔“
”میرا دلبر طوطا لگے گا؟“
عمر دین یہ نہیں جانتا تھا کہ گدھا طوطا کیوں کر نظر آسکتا ہے، مگر وہ یہ ضرور چاہتا تھا کہ وہ خوبصورت نظر آنے لگے۔
وہ دیر تک باتیں کرتے رہے اور آخرمیں طے یہ ہوا، کہ بازار سے سرخ، نیلا اور سبز رنگ خریدے جائیں، عمر دین گھر سے چائے والے پیالے لائے، ان رنگوں کو ان پیالیوں میں گھولا جائے اور برش سے یہ رنگ گدھے کے بدن پر پھیر دیے جائیں، گدھا رنگا رنگ ہو جائے گا۔ برش کہیں سے بھی نہیں مل سکتا تھا اس لیے شبراتی نے کہا۔ برش کی بجائے کہیں سے روئی لے آئیں گے اور عمر دین کو اپنے گھر کے اُس لحاف کا خیال آگیا۔ جس سے بڑی آسانی کے ساتھ روئی نکالی جا سکتی تھی۔
عمر دین نے اصرار کر کے ماں سے ایک روپیہ لیا۔ چار چار آنے کے تینوں رنگ خریدے گئے اور چار آنے شبراتی نے اپنی جیب میں رکھ لیے کہ ان سے ریوڑیاں خریدی جائیں گی، بھلا وہ ریوڑیاں کیسے چھوڑ سکتا تھا؟
عمر دین ماں سے چوری تین پیالے بھی لے آیا۔ یہ سارا انتظام کرنے کے بعد وہ گدھے کو ندی کے کنارے لے گیا۔ وہاں اُنہوں نے پیالوں میں رنگ گھولے اور طے یہ ہوا کہ عمر دین گدھے کی رسی پکڑے اور شبراتی اس کے بدن پر رنگ ملے۔
اتفاق سے اس دن کئی لڑکے نہر میں نہا رہے تھے۔ اُنہوں جو گدھے کو دیکھا تو وہاں آگئے۔
”چلو کہیں دور چلتے ہیں!“ شبراتی نے عمر دین سے کہا۔
وہ ذرا دور چلے گئے۔ لڑکے نہانے لگے۔ عمر دین اور شبراتی کا خیال تھا کہ لڑکے اس جگہ نہیں آئیں گے، مگر وہ آگئے۔
عمر دین اور شبراتی وہاں سے بھی چلے گئے، مگر مصیبت یہ تھی کہ لڑکے اُن کا پیچھا چھوڑتے ہی نہیں تھے۔
شبراتی نے تنگ آکر کہا۔ ”چلو ٹھیک ہے، یہیں رنگ پھیرتے ہیں۔“
عمر دین نے گدھے کی رسی پکڑلی۔ شبراتی نے روئی سرخ رنگ میں رنگ لی اور اُسے لگا پھیرنے گدھے پر۔لڑکے ہنس پڑے اور گدھا گھبرا گیا، اس نے دولتی جھاڑی، شبراتی جلدی سے پیچھے ہو گیا ورنہ گدھے کی لات اُس کے پیٹ پر پڑتی۔
شبراتی نے پھر روئی کو پیالے میں ڈالا اور گدھے پر پھیرنے ہی کو تھا کہ گدھے نے دو لتی جھاڑی۔ اب کے گدھے کی لات شبراتی کے پیٹ پر جا لگی اور وہ ”ہائے“ کہہ کر بیٹھ گیا۔ لڑکے جو یہ تماشا بڑے شوق سے دیکھ رہے تھے، شبراتی کی طرف بھاگے۔
”کیا ہوا؟“
شبراتی جو پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا تھا اب جلدی سے اُٹھ بیٹھا۔
”تم کرنا کیا چاہتے ہو؟“ ایک لڑکے نے پوچھا۔
”دیکھ نہیں رہے، اس پر رنگ پھیرنا چاہتے ہیں۔“ شبراتی نے کہا۔
”گدھے پر رنگ پھیرو گے؟“ وہ لڑکا زور سے ہنسا اور باقی لڑکے بھی ہنسنے لگے۔ ”لو سنو گدھے پر رنگ پھیریں گے۔گدھے پر رنگ…… آہا ہا ہا ہا۔“
عمر دین گدھے کی رسی پکڑے چپ چاپ کھڑا تھا۔
شبراتی نے ایک بار پھر کوشش کی کہ گدھے پر رنگ پھیرے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔
”یوں نہیں ہوگا۔“ ایک لڑکے نے کہا۔
”پھر کیسے ہوگا؟“ شبراتی نے پوچھا۔
”پہلے صابن مل کر اسے نہلاؤ، جب اس کا بدن صاف ہو جائے گا تب رنگ چڑھاؤ؟“ دوسرے لڑکے نے مشورہ دیا۔
صابن تو نہ شبراتی لایا تھا اور نہ عمر دین۔ خوش قسمتی سے ایک لڑکے کے پاس صابن تھا۔اُس نے عمر دین سے کہا۔”چاچا! یہ لے لے۔ کیا یاد کرے گا کہ کس نواب سے واسطہ پڑا تھا۔“

اب سوال یہ تھا کہ گدھا تو اس کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی ہاتھ رکھے، اسے صابن مل کر کیسے نہلایا جائے۔
”ہم سب اسے پکڑ لیتے ہیں اور شبراتی تم اس پر صابن لگاؤ۔“ ایک لڑکے نے کہا۔
بس اب کیا تھا، کسی نے گدھے کا ایک کان پکڑ لیا، کسی نے دوسرا، کسی نے اس کی گردن پر ہاتھ رکھ دیا اور چار لڑکوں نے بیٹھ کر اس کی ایک ایک ٹانگ پکڑ لی۔ یہ تو ہوگیا مگر نہر سے پانی کیسے لایا جائے۔ ایک لڑکا گھر سے بالٹی لایا تھا۔ کیونکہ نہانے کے بعد اسے اس میں ندی کی گیلی مٹی لے جانا تھی۔ کام بن گیا۔ شبراتی نے بالٹی پانی سے بھری اور جیسے ہی اس نے پانی گدھے پر ڈالا، گدھا اُچھلا، اس نے اپنی ٹانگیں چھڑانے کی کوشش کی، ایک ٹانگ چھڑا لی اور جس لڑکے نے یہ ٹانگ پکڑ رکھی تھی اس کے منہ پر ماری، وہ چیخ اُٹھا اور پکارا۔ ”ہائے مرگیا!“ باقی لڑکے گھبرا گئے، ان کے ہاتھ ڈھیلے پڑگئے، گدھے نے دولتی جھاڑی اور ایک پیالا جو پاس پڑا تھا، الٹ گیا اور رنگ بہہ گیا۔
وہ لڑکا جس کے منہ پر گدھے نے لات ماری تھی زور زور سے چیخ رہا تھا۔ لڑکے اسے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگے۔ گدھے نے جو نجات پائی تو بھاگنے لگا اور عمر دین اس کے پیچھے دوڑنے لگا۔ بڑی دور جا کر وہ اس قابل ہوا کہ اس کی رسی پکڑ سکے۔
اس کا دم پھولا ہوا تھا اور وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ لڑکے بھاگ کر آئے اور گدھے کو مکے مارنے گے۔ عمر دین رو رو کر کہنے لگا۔ ”مت مارو، میرے دلبر کو مت مارو۔“ اور پٹائی بند ہو گئی۔

دلبر کی بیماری
دوسرے دن کا واقعہ ہے۔
عمر دین صبح کے وقت اپنی چارپائی پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ اس کے آگے چنگیر میں رات کی مکھن کے ساتھ گرم کی ہوئی روٹی پڑی تھی اور روٹی کے اُوپر ساگ بھی تھا۔ عمر دین رات کی کراری روٹی کے ساتھ ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا اور اُس کی ماں اُس کے لیے ٹھیکیدار صاحب کے گھر سے دوسرے تیسرے دن تھوڑا سا مکھن مانگ کر لے آتی تھی اور یہ مکھن عمر دین ہی کو ملتا تھا۔ وہ اس میں سے ذرا برابر بھی نہیں لیتی تھی۔
ٹھیکیدار کا اصل نام غلام محمد تھا مگر سب لوگ انہیں ٹھیکیدار صاحب ہی کہتے تھے۔ وہ کارپوریشن کے ٹھیکیدار تھے۔ پکی سڑکیں بناتے تھے اور نلکے وغیرہ لگوانے کا کام بھی انہی کے سپرد تھا۔ چار یا پانچ سال میں اُنہوں نے ٹھیکیداری سے اتنا کمالیا تھا کہ اب اُن کے گھر کے آگے ہمیشہ دو بھینسیں بندھی رہتی تھیں۔ ٹھیکیدار صاحب کی بیوی عمر دین کی ماں کی بچپن کی سہیلی تھی، اس لیے وہ ہر روز لسی دیتی تھی اور کبھی کبھی مکھن بھی اس میں ڈال دیتی تھی۔
عمر دین نے ابھی آدھی روٹی ہی کھائی تھی کہ شبراتی آگیا اور آتے ہی عمر دین کی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ عمر دین نے ادھر اُدھر دیکھا کہ اس کی ماں تو قریب نہیں ہے اور جب دیکھا کہ ماں باہر دالان میں جھاڑو دے رہی ہے تو شبراتی کہنے لگا۔
”یار! میرا دلبر ٹھیک ہے نا!“
شبراتی بولا۔ ”ٹھیک ہے، پر یار……“
”کیا ہوا؟“ عمر دین فکر مند ہوگیا۔ وہ لقمہ منہ کی طرف لے جا رہا تھا مگر اب لقمہ حلق سے نیچے اُتارنا اس کے لیے مشکل ہوگیا۔
”ٹھیک ہے۔“ شبراتی نے بات ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ دراصل مکھن والی کراری روٹی اُسے بھی پسند تھی۔
”مزیدار ہے؟“ اُس نے پوچھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عمر دین روٹی کا کچھ حصہ اسے بھی دے دے، لیکن اسے تو اپنے دلبر کے سوا کوئی بات سوجھ ہی نہیں رہی تھی، بولا۔ ”سچ سچ بتا میرے دلبر کو ہوا کیا ہے؟“
شبراتی کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے بغیر کسی تکلیف کے روٹی کا ایک لقمہ توڑا، اس پر تھوڑا سا ساگ رکھا اور اسے منہ میں ڈال لیا۔ عمر دین بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ اس کے سوال کا جواب دے اور شبراتی تھا کہ لقمہ نگلنے میں مصروف تھا۔ جب وہ لقمہ نگل چکا تو روٹی کا دوسرا لقمہ توڑنے لگا۔
عمر دین کو غصہ آگیا۔ اس نے چنگیر شبراتی کی گود میں رکھ دی۔
”یار بتانا۔ میرے دلبر کو کیا ہوا ہے؟“
”کچھ کھاتا نہیں ہے!“ شبراتی نے اطلاع دی۔
”ہیں …… کچھ کھاتا نہیں ہے!“ عمر دین اس کے الفاظ سن کر تڑپ اُٹھا ”کیوں نہیں کھاتا!“
”میں کیا بتاؤں۔ کیوں نہیں کھاتا!“
”میں نے چنے دیئے تھے، وہ ڈالے اس کے آگے؟“
شبراتی نے عمر دین کی ماں کو اندر آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
”آگئے ہو صبح ہی صبح بدبخت۔“
”سلاماں لیکم خالہ جان!“
”ماں کچھ نہیں دیتی ……؟ میرے بچے کا حصہ کھا رہا ہے!“
”نہیں خالہ! میں تو دو روٹیاں کھا کر آیا ہوں!“ شبراتی نے جھوٹ بولا اور چنگیر عمر دین کے زانو پر رکھ دی۔
جھاڑو ابھی عمر دین کی ماں کے ہاتھ میں تھی، وہ دالان کی صفائی کرتے کرتے شبراتی کی آواز سن کر اندر آگئی تھی۔ جب شبراتی نے چنگیر دوبارہ عمر دین کو دے دی تو وہ کمرے سے نکل کر پھر دالان میں چلی گئی۔ اب کے شبراتی نے چنگیر کو تو ہاتھ نہیں لگایا البتہ روٹی اُٹھا لی۔
”بڑی مزیدار ہے!“
”بے چارا بھوکا ہوگا میرا دلبر؟“
”بھوکا ہے تو میں کیا کروں!“
شبراتی کی اس بات پر عمر دین کو بڑا غصہ آیا۔
”تو بڑا ظالم ہے۔ چھوڑ میری روٹی!“ عمر دین نے اس کے ہاتھ سے روٹی واپس لینے کی کوشش کی، مگر شبراتی بھلا کب دینے پر تیار ہوسکتا تھا؟

”یار توتو یونہی ناراض ہو جاتا ہے۔“ اور یہ کہہ کر شبراتی جلدی سے روٹی کھانے لگا۔
تھوڑی دیر بعد جب عمر دین کی ماں گھر سے باہر سرکاری نلکے کے نیچے بیٹھ کر رات کے جھوٹے برتن مانجھنے لگی تو عمر دین اور شبراتی باہر آگئے۔ ماں اپنے کام میں مصروف تھی۔ وہ اُنہیں دیکھ ہی نہ سکی اور وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔
شبراتی کے گھر کے پاس درخت کے ساتھ گدھا بندھا تھا۔ اس کے آگے گھاس، چنے، مرمرے اور نہ جانے کیا کچھ پڑا تھا۔
عمر دین نے اس کی گردن کو تھپتھپا یا۔
”کھالے، میرے دلبر کھالے۔“
گدھے نے اپنی گردن ہلائی جیسے کہہ رہا ہو۔ ”نہیں کھاتا۔“
عمر دین نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے ذرا جھکانے کی کوشش کی تو گدھا دولتیاں جھاڑنے لگا۔ وہ تو شبراتی کی خوش نصیبی تھی کہ وہ صرف ایک ہی دولتی کھا کر پیچھے ہٹ گیاورنہ اس کا برا حال ہوجاتا۔ کیونکہ گدھا ابھی تک دو لتیاں جھاڑ رہا تھا۔
شبراتی نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ لیا۔ ”ہائے مر گیا۔“
عمر دین نے ایک لمحے کے لیے اپنے دوست کو دیکھا اور پھر اپنے دلبر کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
”چونچ کے بچے! میں تیرے گدھے کو مار ڈالوں گا۔“ شبراتی دھاڑا اور بھاگ کر ایک ڈبل اینٹ اُٹھا لایا۔ عمر دین نے جلد سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”پاگل ہوگئے ہو یار، یہ تو بے چارا بے زبان ہے۔“
”میں اس کو روز چارہ کھلاتا ہوں اور اس نے میرے پیٹ پر لات ماری ہے۔ میں اس کا کچومر نکال دوں گا۔“
شبراتی کافی غصے میں تھا، عمر دین نے اس کی منت سماجت کی تو اُس نے اینٹ پھینک دی۔
دونوں گدھے سے ذرا دور گھاس کے اُوپر بیٹھ گئے۔
”اب کیا کریں؟“ عمر دین نے پوچھا۔
”چونچ میاں! میری مانو، اسے چھوڑ دو۔“ شبراتی نے مشورہ دیا؟“
”کیوں چھوڑ دوں؟“
”یار یہ بالکل گدھے کا بچہ ہے۔ کسی کتے کو پالو۔ کہیں سے ہرن کا بچہ لے آؤ۔ ہائے کتنی اچھی آنکھیں ہوتی ہیں اُس کی اور یہ ……“ شبراتی گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگا۔
”چپ…… بکو اس مت کرو۔ یہ تو میری جان ہے۔“
”تم تو ہوہی چاچا چونچ۔“
عمر دین کسی گہری فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اُس نے یا تو شبراتی کے لفظ سنے ہی نہیں یا ان کی طرف توجہ کرنی مناسب نہ سمجھی۔
”شبراتی! میرے پیٹ میں درد ہوا تھا نا تو میری ماں نے مجھے سونف دی تھی۔ اس سے درد جاتا رہا تھا۔“
”تو کیا گدھے کو بھی سونف دو گے؟“
”میرا خیال ہے، اس کے پیٹ میں درد ہے، اس لیے چارہ نہیں کھاتا، تم یہیں ٹھہرو میں اپنے گھر سے سونف لے آتا ہوں۔“
شبراتی نے دایاں ہاتھ لہرا کر عمر دین کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ بھلا کہاں رکنے والا تھا۔ منٹوں میں کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ اس کے جانے کے بعد شبراتی کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور گدھے کا سر نیچے جھکانے لگا۔گدھا روز سے ہنہنا یا اور دولتیاں جھاڑنے لگا۔ شبراتی کو غصہ جو آیا تو اس نے کس کر ایک مکا اس کی پیٹھ پر مارا، گدھے پر کیا اثر ہوسکتا تھا البتہ اُس کا ہاتھ دکھنے لگا۔
”او بے حیا۔ بے شرم۔“ عمر دین واپس آچکا تھا اور اس نے شبراتی کو مکا مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
”بڑے گدھے ہو، بے زبان جانور کو کون مارتا ہے؟“
”میں اسے مار ڈالوں گا۔“ شبراتی نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں لہراتے ہوئے کہا۔
”اگر اب کے تم نے میرے دلبر کو ہاتھ لگایا تو میری تمہاری دوستی ختم!“
شبراتی اس بات سے ڈر گیا۔ عمر دین کے ساتھ دوستی ختم ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس سے ہر روز کسی نہ کسی بہانے جو پیسے بٹورتا رہتا ہے، اس سے محروم ہو جائے گا۔ ویسے بھی عمر دین سے اس کی دوستی اس وقت قائم ہوئی تھی جب وہ چار پانچ سال کا بچہ تھا۔
” بولو مارو گے میرے دلبر کو؟“
”ماروں گا…… مار ڈالوں گا۔“
”تو میری تم سے کٹی ہمیشہ کے لیے۔“
شبراتی اس کے پاس آگیا ”نہیں چاچا! میں نہیں ماروں گا۔“
”وعدہ کرتے ہو؟“
”ہاں …… وعدہ کرتا ہوں“
عمر دین خوش ہو گیا۔ وہ گھر سے سونف کرتے کی جیب میں لے آیا تھا۔ جلدی میں کسی کاغذ میں بھی نہ ڈال سکا تھا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر تھوڑی سی سونف نکالی اور اسے جھولی میں ڈال دیا، پھر دوبارہ یہی عمل کیا، جب سارے سونف اس کی جھولی میں آگئی تو وہ گدھے کے آگے کھڑا ہو گیا۔
”شبراتی! تم پیار سے ذرا اس کا سر جھکاؤ۔“
”وہ کیوں؟“
”سونف کھائے گا نا“
”کھا چکا …… اچھا تم بھی یاد کرو گے کہ شبراتی بات نہیں مانتا تھا۔“ اور یہ کہہ کر شبراتی گدھے کے پاس گیا اور اس کی گردن جھکانے لگا۔ ”اے گدھے کے بچے! کھالے سونف۔“
شبراتی نے اُس کا سر جھکا یا، مگر وہ پھر اپنی حالت پر آگیا۔
”یوں کام نہیں چلے گا۔“ شبراتی نے کہا اور گدھے کے دونوں کان پکڑ لیے۔
”نہ یار۔ میرے دلبر کو تکلیف ہوگی۔“
”کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔“ شبراتی بولا۔
گدھے کا سر جھکنے کو تو جھک گیا، مگر صرف ایک منٹ کے لیے، اس ایک منٹ میں عمر دین نے جھولی اس کے منہ سے لگا دی۔ گدھا بدکا، اس نے اپنے کان چھڑانے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا سر زور سے جھولی کے ساتھ لگا۔ عمر دین کے ہاتھوں سے کرتے کے دونوں کنارے چھٹ گئے، اور ساری کی ساری سونف نیچے چارے میں مل گئی۔
شبراتی نے زور سے قہقہہ لگایا۔
”ہے نا آخر گدھا!“
عمر دین کبھی چارے پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی اپنے دلبر کو دیکھنے لگتا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب کرے تو کیا کرے۔ اسے یقین تھا کہ سونف کھانے سے دلبر کی حالت ٹھیک ہوجائے گی اور وہ پہلے کی طرح شوق سے چارہ کھانے لگے گا، لیکن سونف تو چارے میں مل گئی تھی اور چارے میں سے اسے نکالنا مشکل تھا بلکہ ناممکن تھا۔ عمر دین نے سوچا وہ کسی دکان سے سونف خرید کر لے آئے اور اپنے دلبر کو کھلادے، اب یہی طریقہ اختیار کیا جاسکتا تھا، اس کے سوا وہ اور کیا کام کر سکتا تھا۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا، اپنی خالی جیب دیکھ کر وہ شبراتی کی طرف مڑا۔
”شبراتی یار! تمہارے پیسے آج کام آئیں گے۔ سونف خرید کر لا دو۔“

شبراتی نے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب سے باہر نکالا تو اس کی ہتھیلی پر دو ریوڑیاں پڑی تھیں۔
”میں ریوڑیاں کیا کروں گا۔ سونف کے لیے پیسے چاہئیں!“ عمر دین نے کہا۔
”چاچا! صبح میرے پیسوں سے اماں نے دال منگوائی تھی۔“
”جھوٹ بولتے ہو۔“
”اللہ پاک کی قسم۔ ایک پیسہ بھی نہیں میری جیب کے اندر، یہ ریوڑیاں تو دال کے ساتھ مجھے جھونگے میں ملی تھیں۔“
عمر دین پھر سوچنے لگا۔شبراتی اسے کنکھیوں سے دیکھنے لگا، ایک آدھ منٹ کے بعد عمر دین ایک طرف جانے کے لئے مڑا۔
”کہاں جاتے ہو؟“ شبراتی نے پوچھا۔
”خانی سے اُدھار سونف لاتا ہوں“
خانی عمر دین کی گلی میں ایک دکان دار تھا، نام تھا اس کا خان محمد مگر سب لوگ اسے خانی خانی کہتے تھے۔
”ارے خانی ادھار نہیں دے گا“ شبراتی ریوڑیاں منہ میں ڈالتے ہوئے بولا۔
عمر دین کو اب یاد آیا کہ اس کی ماں نے خانی کو منع کر دیا تھا، کہ اس کے بیٹے کو کوئی چیز بھی اُدھار نہ دی جائے کچھ اور مایوس ہو کر وہ وہیں بیٹھ گیا، جہاں کھڑا تھا۔ شبراتی نے ریوڑیاں کھالی تھیں اور وہ بھی اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”سنو چا چا! تم فکر بالکل نہ کرو۔ بھوک زور سے لگے گی تو خود بخود کھا لے گا۔“
شبراتی نے اپنی طرف سے عمر دین کی فکر دور کرتے ہوئے کہا۔
”اگر اسے بھوک نہ لگے تو……“
”نہیں کھائے گا؟“
”کب تک نہیں کھائے گا؟“
”نہیں کھائے گا اور بالکل نہیں کھائے گا اور پھر یہ……مر جائے گا“
عمر دین نے جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”تم بڑے گدھے ہو؟“
”ہیں میں گدھا ہوں۔ یار پھر مجھے کھلاؤ پلاؤ نا، اس جانور کو کیوں کھلاتے ہو؟“
”شبراتی! خدا کے لیے کچھ کرو، دیکھو بے چارہ کتنا کمزور ہو گیا ہے۔“ عمر دین کا چہرہ لٹک گیا تھا۔
شبراتی اس کی فکر مندی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
وہ اپنے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں سر کے بالوں میں پھیرنے لگا۔
”میں بتا دوں پیسے سونف خریدنے کے لیے کہاں سے مل سکتے ہیں!“
”بتاؤ۔ بتاؤ۔“
”اپنی اماں سے مانگو۔“
عمر دین کا سارا شوق ختم ہوگیا۔
”شبراتی! بہت برے دوست ہو۔ میں اتنا دکھی ہوں اور تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔ شرم کرو“
”چاچا…… تو نرا چونچ ہے۔ بابا! جس طریقے سے میں کہتا ہوں۔ اپنی اماں سے مانگو بھلا کس طرح؟“
عمر دین نے اسے فقرہ مکمل نہ کرنے دیا۔
”بتاؤ،بتاؤ۔ کیا طریقہ ہے؟“
”طریقہ ہے …… بر…… خور……دار…… جاؤ گھر۔ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر، یوں۔“ شبراتی نے کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”اچھا؟“
”کمر جھکا لو اور یوں کہو۔ ہائے اماں! مر گیا، ہائے،ہائے،ہائے او مر گیا۔ہائے۔ہائے۔ہائے ۔“
عمر دین اس کی ہیئت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑا۔
”ہنستے ہو‘ نہیں بتاتے ہم طریقہ“شبراتی کو غصہ آگیا۔
”خدا کے لیے بتاؤ“ عمر دین نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔
”جب تم بار بار ہائے، ہائے کرو گے تو اماں کہے گی کہ کیا ہوا میرے لال کو، ہائے میں مر جاؤں، ہائے میں صدقے جاؤں، اُس وقت تم کہنا۔میرے پیٹ میں بڑا درد ہو رہاہے۔ اماں کہے گی میں جاتی ہوں کیم کے پاس۔تم کہنا، نہیں ماں۔ سونف، کھا کر آرام آجائے گا۔ میں کہوں گا، میں سونف لا دیتا ہوں۔ یوں کام بن جائے گا!“
”پاگل ہوگئے ہو؟ وہ سونف تو مجھے کھانی پڑے گی، دلبر کو کہاں ملے گی!“ عمر دین نے اعتراض کیا۔
”صبر کرو۔ تم تھوڑی سی سونف کھانا اور ٹھیک ہو جانا، پھر ہم یہاں آجائیں گے اور مزے ہو جائیں گے۔“
”ٹھیک ہے یار!“
”کیوں۔ مانتے ہو نا ہمیں۔“ شبراتی نے فخریہ انداز میں کہا۔ عمر دین اثبات میں سر ہلانے لگا۔ دونوں اُسی وقت عمر دین کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابھی گھر کا دروازہ کچھ دور ہی تھا کہ عمر دین نے اپنا دایاں ہاتھ پیٹ پر رکھ لیا۔ کمر جھکا لی اور ہائے ہائے کرنے لگا۔
شبراتی نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور یوں شکل بنالی، جیسے عمر دین کو تکلیف ہے اور یہ دیکھ کر اُسے بھی تکلیف ہو رہی ہے۔
عمر دین کی ماں باورچی خانے میں چولہے کے اندر لکڑی ڈال رہی تھی۔ اس نے جب پاؤں کی آہٹ سنی تو بولی۔
”آگئے ہو نامراد! نہ باز آنا اپنی حرکتوں سے۔ ابھی سر توڑتی ہوں تمہارا۔“ عمر دین ڈر کر باہر جانے لگا۔
”ٹھہرو چا چا! سونف کہاں سے لوگے؟“ شبراتی نے آہستہ سے کہا۔
عمر دین نے جھٹ اپنا ہاتھ دوبارہ پیٹ پر رکھ دیا اور زور زور سے ہائے کرنے لگا۔
”اماں مرگیا“ عمر دین نے کہا۔ اماں باورچی خانے سے باہر آگئی۔
”کیا ہوا میرے لال کو!“ اس نے پریشان ہو کر پوچھا ”کیا ہوا؟“
”مرگیا، میں مرگیا اماں“
”مریں تمہارے دشمن، کیسی بری بات منہ سے نکالنا ہے۔“
”اماں …… ہائے …… میں مرجاؤں گا۔“اور یہ کہتے ہوئے عمر دین نے خود کو چارپائی پر گرا دیا۔ ماں اس پر جھک گئی۔
”خالہ! اس کے پیٹ میں درد ہے“ شبراتی نے کہا۔
”میں نے صبح کہا تھا رات کی روٹی مت کھا، تازہ پکا دیتی ہوں پر نامراد کسی کی مانتا تھوڑی ہے۔ شبراتی بیٹا کیم مستی کو لے کر آؤ، کہنا جلدی چلو، عمر دین کی ماں بلاتی ہے۔“ ماں نے شبراتی سے کہا۔
”نہ…… نہ…… اماں نا“ عمر دین بیٹھ گیا۔

”کیا ہے میرے بچے!“
”سونف بس“
”نہیں بیٹا! سونف سے کیا ہوگا، کیم مستی دوا دے گا، آرام آجائے گا، میں خود جاتی ہوں۔ شبراتی اس کے پاس بیٹھ“ اور ماں سچ مچ جانے لگی۔
”نہ ماں …… مجھے …… سونف…… سے…… آرام آجائے گا۔“
عمر دین نے ماں کو روکتے ہوئے کہا۔ ماں رک گئی۔
”خالہ! یہ راستے میں ہی کہہ رہا تھا کہ سونف کھاؤں گاتو آرام آجائے گا۔“
”اچھا سونف بھی کھالے“ یہ کہہ کر ماں تیزی سے باورچی خانے میں گئی۔
”سونف کون کھا گیا؟“ ماں نے وہیں سے کہا، ادھر عمر دین نے شبراتی سے اس کے کان میں کہا۔ ”اماں سے کہو۔ میں سونف لاتا ہوں“ اُسی وقت ماں باہر آگئی۔ عمر دین کو اور تو کچھ نہ سوجھا ہائے اللہ کہہ کر دھم سے چارپائی پر گر پڑا۔
”اللہ تیری خیر“ ماں تیزی سے عمر دین کے پاس پہنچی۔
”خالہ یہ اُٹھنا چاہتا تھا۔ کہتا تھا مجھے اُٹھاؤ۔“
”ماں نے پہلے اپناہاتھ عمر دین کے ماتھے پر رکھا، پھر پیٹ پر، پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہی عمر دین چیخ اُٹھا ”ہائے مرگیا“
”میں جاتی ہوں کیم مستی کو لانے!“
”اماں! سونف دے“
”سونف پتہ نہیں کون کھا گیا ہے۔ چڑیل صغریٰ آئی تھی“
”ہاں خالہ میری بہن سونف کھا جاتی ہے، گھر میں بھی سونف نہیں چھوڑتی۔ خالہ میں بازار سے لے آتا ہوں۔ ایک منٹ میں۔“
”لے آ…… جلدی کر“ اور ماں نے اپنے دوپٹے کے پلو کی گرہ کھول کر کچھ پیسے نکالے، چار آنے کی سونف لے آ۔“ ماں نے کہا۔
”اچھا خالہ“ شبراتی نے پیسے پکڑے اور دروازے میں سے نکل گیا۔
”اماں! پانی!“
”پانی پیٹ درد میں ٹھیک نہیں ہے!“ ماں نے کہا۔
”اماں! پیاس لگی ہے“
”چائے بنادوں۔ گھر میں دودھ بھی ہے“
”بنادے اماں! پر آرام سونف ہی سے آئے گا۔ بنا دے چائے اماں۔‘‘
”زیادہ درد تو نہیں ہے؟“ ماں نے فکر مندی سے کہا۔
”پہلے سے کچھ کم ہوگیا ہے۔“
ماں باورچی خانے میں چلی گئی …… اور عمر دین شبراتی کا انتظار کرنے لگا۔ عمر دین ویسے تو چارپائی پر لیٹا تھا۔ مگر اپنے دلبر کا خیال کر کے بے چین ہو رہا تھا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے بیٹھ کر کہا۔
”اماں!آؤ۔“
ماں باورچی خانے سے باہر آگئی۔
”کیوں عمر دین!“
”اماں! درد کم ہوگیا ہے۔ میں جاتا ہوں“
”کیا باؤلا ہو گیا ہے تو، ابھی درد سے تڑپ رہا تھا اور اب کہتا ہے میں جاؤں باہر۔ کیوں موت کو بلا رہا ہے، بھلی نیت سے لیٹ جا۔ آج تو گھر سے باہر نہیں جاسکتا!
ماں کا یہ حکم سن کر عمر دین پریشان ہوگیا۔
”اماں! میں کہتا ہوں ……“
”میں کہتی ہوں آرام سے لیٹ رہ۔ تیرا دھیان اُس مردار میں ہے، مجھے تو اُس نے پاگل ہی کردیا ہے، میں کہے دیتی ہوں خبردار جو تو اُس کے پاس گیا۔ شرم نہیں آتی تجھے! بیٹھ آرام سے، درد سے مرا جاتا ہے اور جاتا ہے گھر سے باہر“
عمر دین نے اسی میں اپنی بہتری سمجھی کہ چپ چاپ لیٹا رہے اور ماں کے سامنے باہر جانے کا نام ہی نہ لے۔
ماں اُسے ڈانٹ ڈپٹ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ وہ ابھی اندر ہی گئی تھی کہ گدھے کو بد دعائیں دینے لگی۔اللہ کرے مرجائے، منحوس، کالے منہ والا، سارا دودھ بہہ گیا ہے۔ مجھے تو یہ لڑکا زندہ نہیں چھوڑے گا۔ کبھی کسی نے گدھے سے بھی پیار کیا ہے، ہر وقت گدھے کی پڑی رہتی ہے۔ ناکارہ کہیں کا۔“
قصہ یہ ہوا تھا کہ ماں جب بیٹے کے بلانے پر باہر آئی تھی تو دودھ اُبل کر بہنا شروع ہوگیا تھا، اور آدھا ضائع ہوگیا تھا۔
ایسی حالت میں وہ ماں سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا، ڈرتا تھا کہ کہیں ماں کو زیادہ غصہ نہ آجائے، وہ بار بار دروازے کی طرف دیکھتا تھا۔ شبراتی ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔اچانک وہ آگیا اور دروازے پر رک کر اُسے بلانے لگا۔
عمرد ین آہستہ سے اُٹھا۔ باورچی خانے میں سے جھانک کر دیکھا۔ماں وہ دودھ دیگچی میں سے نکال کر گلاس میں ڈال رہی تھی، جو بہنے سے بچ گیا تھا۔اب اس نے دیگچی میں پانی ڈالا اور اسے چولہے کے اُوپر رکھ دیا۔عمر دین دو تین منٹ تک ماں کو کام کرتے ہوئے دیکھتا رہا،پھر پیچھے ہٹ گیا۔
شبراتی اُسے زور زور سے ہاتھ ہلاکر بلا رہا تھا۔
عمر دین کو ماں سے بھی ڈرآتا تھا اور اپنے دلبر کی بھی فکر تھی، وہ کشمکش میں مبتلا تھا کہ دلبرکے پیار نے جوش مارا اور بے اختیار دروازے پر آگیا۔
”چل بھی یار مجھے بڑا ضروری کام ہے“ شبراتی نے کہا۔
عمر دین باہر آگیا۔ ”لے آئے ہو؟“
”کیوں نہیں یہ دیکھو“ شبراتی نے عمر دین کو ایک پڑیا دکھائی جو وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھا۔”لے پکڑ لے“ شبراتی نے پڑیا اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
”میں جاتا ہوں“
”کہاں جاتے ہو تم!“ عمر دین نے پوچھا۔
”یار چونچ! مرے ابا نے کہا تھا آٹھ آنے کے کوئلے لے کر فواًدکان پر پہنچ جانا، مجھے یاد ہی نہ رہا، ابا کی استری ٹھنڈی پڑی ہوگی۔“
”دلبر کو سونف کھلانے کے بعد چلے جانا“ عمرد ین کے لہجے میں التجاتھی۔

”نہیں چونچ میاں! ابا مارے گا۔ پہلے ہی بڑی دیر ہوگئی ہے۔“ اور شبراتی جانے لگا۔
”جلدی آجانا“۔عمر دین نے اُسے تاکید کی۔
”بڑی جلدی آجاؤں گا۔“
شبراتی چلا گیا اور عمر دین اپنے دلبر کی طرف لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔
گدھا ویسے کا ویسا کھڑا تھا۔ وہ چارے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں تھا۔عمر دین نے پڑیا بائیں ہاتھ میں پکڑ لی اور دایاں ہاتھ اُس کی گردن پر پھیرنے لگا۔
”میرے اچھے دلبر! سونف کھا لے۔“
دلبر نے کچھ ایسی حرکت کی جیسے کانپ گیا ہے۔
”دلبر یار! کیا ہوا تجھے، پر فکر نہ کر، یہ سونف بڑی اچھی چیز ہے۔“ اور اُس نے پڑیا کھولی اور ایک لمحے کے لیے اسکی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ کیونکہ کاغذ میں سونف کی بجائے ریوڑیاں نظر آرہی تھیں۔اگر اس وقت شبراتی اُس کے سامنے ہوتا تو وہ اُس کی گردن مروڑ دیتا۔ وہ سوچنے لگا۔
شبراتی نے چار آنے لیے تھے سونف لانے کے لیے اور وہ لے آیا ہے ریوڑیاں، بدمعاش ہے پکا، دھوکا کیا ہے میرے ساتھ۔ میں اس سے کبھی نہیں بولوں گا۔اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ریوڑیاں پھینک دے یا جیب میں رکھ لے اور اس کے دلبر کا کیا بنے گا۔
دلبر مزے سے کھڑا تھا مگر وہ سوچنے لگا کہ اس کا دلبر سخت تکلیف میں ہے۔کھا سکتا نہیں کیونکہ پیٹ میں درد ہے، اور جب کھائے گا نہیں تو کمزور ہو جائے گا۔
اس کا جی چاہا کہ شبراتی کے پیچھے بھاگے اور جہاں بھی وہ مل جائے، اُسے خوب پیٹے۔ وہ قدم اُٹھانے ہی والا تھا۔ کہ اس کی نظر ماں پر پڑگئی، جو ہاتھ میں کپڑے دھونے والا ڈنڈا اُٹھائے تیزی سے اس کی طرف آرہی تھی۔
عمر دین کے دل میں آئی کہ فوراً بھاگ جائے مگر ماں نے وہیں سے پکارا۔
”ٹھہر جا نا مراد! توڑتی ہوں تیرا سر۔“
عمر دین کی ہمت جواب دے گئی۔ماں اس کے پاس گئی۔
”مردار تیرے تو پیٹ میں درد ہو رہا تھا، دھوکا دیا ہے، بے شرم۔“ ماں نے ڈنڈا بلند کیا۔ عمر دین نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ ماں نے ڈنڈا مارے بغیر نیچے کر لیا اور دائیں ہاتھ سے بیٹے کے سر کے بال پکڑ لیے۔
”ہائے۔اماں!“ عمر دین چیخا۔
”ہائے۔ اماں!“ ماں نے اُس کی نقل اُتاری۔”میں پوچھتی ہوں۔ مجھے دھوکا کیوں دیا تھا۔“ ماں نے اس کے بال ذرا زور سے کھینچے۔
”اوئی۔ مرگیا، اماں!“ ماں نے بال چھوڑ دیئے۔
”بکتا کیوں نہیں، جھوٹ کیوں بولا؟“
”جھوٹ نہیں بولا میں نے، درد ہو رہا تھا، پھر کم ہوگیا۔“
”تو یہاں اس کے پاس کیا کرنے آئے تھے!“ ماں گدھے کی طرف بڑھی۔ وہ اس ارادے سے آگے بڑھی تھی کہ زور سے گدھے کے ڈنڈا مارے گی لیکن عمر دین یہ کیسے برداشت کر سکتا تھاکہ اس کے سامنے اس کی ماں دلبر کو تکلیف پہنچائے۔اس نے جلدی سے ڈنڈا پکڑ لیا۔
”بڑا پیار ہے اس سے؟“
عمر دین اس کا کیا جواب دے سکتا تھا۔ خاموش کھڑا رہا۔اُسے ریوڑیوں کا بالکل خیال ہی نہیں رہا تھا جو اُس کی مٹھی میں سے نکل کر زمین پر گر پڑی تھیں۔
”چل گھر میرے ساتھ!“ ماں نے حکم دیا۔
”اچھا۔اماں تو چل۔میں آتا ہوں!“
”تو یہاں کیا کرے گا؟“
ماں کے اس سوال پر عمر دین بیٹھ گیا اور ریوڑیاں اکٹھی کرنے لگا۔
”تونے تو سونف کے لیے چار آنے لیے تھے۔ ریوڑیاں منگوالی تھیں،بے حیا، نامراد“
”شبراتی ریوڑیاں لے آیا تھا“
”کہاں ہے یہ لفنگا، میں نے اس کے باپ سے سو بار کہا ہے،کہ اسے کہیں سکول میں بٹھا دے،ایک دن پکا بدمعاش بن جائے گا۔ مگر اس کا باپ سنتا ہی نہیں، تو کیوں اُس سے بولتا ہے، منع نہیں کیا تمہیں؟“
عمر دین خاموشی سے ریوڑیاں جمع کرتا رہا۔ماں بولتی رہی، شبراتی پر لعنت ملامت بھیجتی رہی۔
”اب اُٹھے گا بھی یا نہیں؟“
”اماں تو چل میں آجاؤں گا۔“
”بالکل نہیں، میں لے کر جاؤں گی تجھے، اُٹھ بیٹھ دیکھ ڈنڈا ہے میرے ہاتھ میں۔“
عمر دین اس ڈرسے کہ کہیں ماں آج ڈنڈا مار ہی نہ دے، چپ چاپ اُٹھ بیٹھا، ریوڑیاں اس نے کرتے کی جیب میں ڈال دیں۔
جب وہ ماں کے ساتھ گھر جانے کے لیے قدم اُٹھانے لگا تو اس کے دلبر نے اُس کی طرف دیکھا۔ عمر دین کو یوں محسوس ہوا، جیسے کہہ رہا۔ ”مجھے اس حال میں چھوڑ کر جا رہے ہو؟“ اس کے قدم رک گئے۔
”کیا ہوا تجھے! ماں گرجی۔“
”اماں ……میں …… ڈرا……“
ماں نے اس کی گردن دبوچ لی۔ ”خبردار جو کچھ کہا آنے دے شبراتی کے بچے کو۔اس کا سر نہ پھوڑا تو میرا نام فاطمہ نہیں ہے“
عمر دین ماں کے آگے آگے چلنے لگا۔
گھر میں داخل ہوکر ماں نے ڈنڈا چارپائی کے اُوپر رکھ دیا اور دروازہ بند کر دیا۔
”لیٹ مردار۔ چائے گرم کر کے لاتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ باورچی خانے کے اندر چلی گئی۔ دو تین منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور شبراتی اندر آگیا۔
”بھاگ جا۔ اماں آج بڑے غصے میں ہے، وہ ڈنڈا۔“
”کوئی فکر نہ کرو۔ وہ ریوڑیاں کہاں ہیں؟“

”سونف کہاں ہے؟“
”سونف …… آہا ہا ہا……“ شبراتی زور سے ہنسا۔
”تیری آج پٹائی ہوگی۔“
”ہونے دو۔ پر جلدی سے ریوڑیاں دے دو۔ میں نے سوچا وہ گدھا ودا سونف کیا کھائے گا، ریوڑیاں خرید لاتا ہوں۔ وہ نہیں کھائے گا پر میں تو کھاؤں گانا۔ کیوں اُستاد۔ کیسی کہی؟“
”میں بتاتی ہوں کیسی کہی۔“
عمر دین اور شبراتی دونوں نے ایک دم باورچی خانے کے دروازے کی طرف دیکھا۔ ماں ایک ہاتھ میں جوتا اور دوسرے میں چائے سے بھرا ہوا مٹی کا پیالہ لیے آرہی تھی۔
شبراتی اسے دیکھتے ہی بھاگا، اور باہر نکل گیا۔ ماں کہتی ہی رہی۔ ”نامراد ٹھہر جا، نکالتی ہوں تیرا کچومر۔“
”شبراتی بھاگ گیا تو ماں نے جوتا نیچے پھینک دیا اور اُسی وقت پہن لیا۔
”تو باز آئے گا یا نہیں؟“ وہ اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر گرجی۔
”اماں! میں کیا کرتا ہوں؟“
”تو کیا کرتا ہے، تجھے خبر نہیں، ناک میں دم کر دیا ہے میرا، وہ تو مر کر دکھوں سے چھوٹ گیا پر مری جان پر آبنی ہے۔“
لگتا تھا ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئی ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ عمر دین کے پاس آئی۔
”لے پی“
عمر دین نے پیالے پر نظر ڈالی۔ پیالہ گرم چائے سے لبالب بھرا ہوا تھا۔
”اماں ……“ وہ کہنا چاہتا تھا کہ میں اتنی چائے کیسے پیوں کہ ماں نے اسے گھور کر دیکھا اوروہ اپنا فقرہ بھی مکمل نہ کر سکا۔
اُس نے پیالہ ہاتھ میں لے لیا اور اُسے دیکھنے لگا۔
”پیتا کیوں نہیں؟“ ماں نے ڈانٹ کر پوچھا۔
”اماں بہت زیادہ ہے۔“
چائے ہے، کوئی زہر تو نہیں، پی، جلدی کر“
”عمر دین نے پیالہ ہونٹوں سے لگا لیا۔ مگر جلدی سے الگ کر دیا۔
”اماں بڑی گرم ہے“
”بہت گرم ہے؟“
”بہت زیادہ“
”اچھا! دے مجھے، ٹھنڈی کر کے لاتی ہوں“ ماں نے پیالہ پکڑا اور باورچی خانے کی طرف جانے لگی۔ جیسے ہی اس نے باورچی خانے میں قدم رکھا، شبراتی آدھمکا۔
”یار! ریوڑیاں“
”دوں آواز اماں کو!“ عمر دین نے اسے ڈرانے کے لیے کہا۔
شبراتی نے ہاتھ جوڑ دیے اور ریوڑیاں عمر دین کی جیب میں سے نکالنے لگا۔ باورچی خانے میں کوئی برتن گرا۔ شور ہوا تو شبراتی نے جیب سے ہاتھ نکال کر بھاگنا چاہا مگر عمر دین نے تو اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”چھوڑ یار!“ شبراتی نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔عمر دین نے اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ شبراتی جو اسے دیکھ کر بھاگا تو راستے میں ایک دیگچی پڑی تھی اس سے ٹھو کر کھا کر گر پڑا۔
”بھاگ کہاں بھاگتا ہے؟“ ماں بولی۔
”شبراتی اُٹھ بیٹھا، اُس نے ساری ریوڑیاں ایک دم منہ میں ڈال لیں مگر ماں اس کے سر پر آپہنچی تھی۔ اس نے ہاتھ میں چائے کا پیالہ تھام رکھا تھا دوسرا ہاتھ جو اُس نے شبراتی کو پکڑ نے لے لیے اُس کی طرف بڑھایا تو پیالہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور دھم سے شبراتی کے سر پر گرا۔ گرم چائے اس کے سر سے لگی تو وہ درد سے تڑپ اُٹھا۔ آوازیں نکال نہیں سکتا تھا کہ منہ میں ریوڑیاں بھری تھیں۔ عمر دین کی ماں کو احساس ہو گیا کہ شبراتی کو تکلیف ہوئی ہے۔
”ہائے میں مرگئی، شبراتی بیٹا!“
شبراتی جلن محسوس کر کے اپنے ہاتھ زور زور سے سر پر پھیر رہا تھا۔
”ماں صدقے، ماں واری“ اور عمر دین کی ماں خود بھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
”شبراتی!“
شبراتی اپنے سر پر، سینے پر اور پیٹ پر جلدی جلدی ہاتھ پھیر رہا تھا، کہتا کچھ نہیں تھا، ماں پریشان ہوگئی۔
”شبراتی۔ شبراتی میرے لال!‘‘
شبراتی کیا بولتا۔ عمر دین بھی اُس کے پاس آگیا تھا۔
”ہائے اللہ۔ یہ بولتا کیوں نہیں۔“ ماں نے عمر دین سے پوچھا۔ شبراتی نے موقع غنیمت جانا۔ بھاگ کر درووازے سے نکل گیا۔ ماں حیران پریشان کھڑی رہ گئی۔

دلبر کا علاج
عمر دین اور شبراتی گدھے کے پاس کھڑے تھے۔
”نہیں کھائے گا چاچا۔ نہیں کھائے گا۔“ شبراتی نے کہا۔
”میرا دلبر نہیں کھائے گا تو کیا ہوگا؟“ عمر دین نے بڑی فکر مندی سے کہا۔
”نہیں کھائے گا تو ہوگا کیا!…… مر جائے گا۔“ یہ کہہ کر شبراتی نے قہقہہ لگایا اور جلدی سے پیچھے ہٹ گیا کہ عمر دین غصے میں اُسے کہیں پیٹ ہی نہ ڈالے مگر عمر دین تو گدھے کے چارہ نہ کھانے پر اتنا فکر مند ہوگیاتھا کہ اس نے شبراتی کی بات ہی نہ سمجھی۔ برابر گدھے کی بیٹھ تھپتھپا تا رہا۔
کچھ وقت اور گزر گیا۔ یوں لگتا تھا کہ اس صدمے کی وجہ سے عمر دین رو پڑے گا۔ شبراتی نے دل میں طے کر لیا کہ وہ اب اپنے دوست کو پریشان نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس نے ہمدردی سے کہا۔
”چاچا عمر دین! پتا لگتا ہے اسے کچھ زیادہ ہی تکلیف ہے۔ علاج کروانا چائیے!“
”علاج کروانا چائیے؟“
”علاج نہیں ہوگا تو ٹھیک کیسے ہوگا؟“ شبراتی نے کہا۔وہ اپنا کیم مستی ہیں نا۔ اس کے پاس لے جاتے ہیں!“
عمر دین سوچ میں پڑگیا۔
یہ کیم مستی کو ن تھا! اصل میں قصہ یہ تھا کہ قصبے میں ایک پرانا حکیم رہتا تھا، جو حکیم تھا نہیں مگر بن بیٹھا تھا۔ جس نے اپنے مطب کے باہر جو سائن بورڈ لگا رکھا تھا،اس پر اپنا نام یوں لکھویا تھا۔
حکیم مسیح الزماں علی احمد امرتسری
مسیح الزماں نام نہیں لقب ہے، جس کا مطلب ہے زمانے کا مسیح اور مسیح حضرت عیسیٰ کو کہتے ہیں، جو مردے زندہ کر دیا کرتے تھے تو مسیح الزماں کا مطلب ہوا ایک ایسا حکیم جس کو لوگوں کا علاج کرنے میں مہارت حاصل ہو اور جس کے علاج سے لوگ بڑی جلدی شفایاب ہو جائیں، تو مسیح الزماں لقب تھا۔ حکیم صاحب کا نام تھا ”علی احمد“۔ لوگوں نے سمجھا مسیح الزماں نام ہے۔ اتنا مشکل نام اپنی زبان سے ادا کرنا مشکل تھا۔ اس لیے وہ حکیم صاحب کو کیم مستی کہنے لگے۔
حکیم صاحب کو اپنی بڑائی جتانے کا بڑا خبط تھا۔ ہر وقت اس دھن میں لگے رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دوسروں پر اپنا رعب جماتے رہیں اور بتاتے رہیں۔کہ وہ بے مثال حکیم ہیں اور اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
شبراتی نے گدھے کو کیم مستی کے پاس لے جانے کی تجویز بتائی تو عمر دین کے دماغ میں بات آگئی۔
”کیم علاج کرے گا؟“ عمر دین نے پوچھا۔
”کیوں نہیں کرے گا۔ کیم علاج نہیں کرتے تو کیا کرتے ہیں؟“
”ٹھیک ہے یار!“
عمر دین نے گدھے کی درخت سے بندھی ہوئی رسی کھول دی اور تینوں حکیم صاحب کے مطب کی طرف جانے لگے۔ حکیم صاحب کا مطب ایک دکان کے اندر تھا، مطب کے دروازے پر چق پڑی رہتی تھی، مریض آتے تھے اور چق اُٹھا کر اندر چلے جاتے تھے، اُن کے آگے ایک چھوٹی میز پڑی رہتی تھی۔ حکیم صاحب خود ذرا بلند جگہ پر دری کے اوپر بیٹھتے تھے۔ ان کے آگے ایک چھوٹی سی میز پڑی رہتی تھی، اس میز پر قلم دان اور کاغذوں کے علاوہ دو تین کتابیں بھی نظر آتی رہتی تھیں۔ میز کے پاس ایک حقہ بھی رہتا تھا۔ حکیم صاحب مریضوں کو ایک ایک کر کے اپنے پاس بلاتے تھے اور جو مریض پاس آتا تھا اُسے غور سے دیکھنے سے پہلے حقے کا ایک لمبا کش ضرور لگاتے تھے۔ مریض کے لیے حکیم صاحب سے ذرا دور نیچے زمین کے اُوپر دو بینچ بچھے ہوئے تھے۔ انہی بینچوں پر مریض آکر بیٹھے تھے اور اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔
یہاں تو حکیم صاحب اور مریض بیٹھتے تھے، دوا خانہ مطب کی پچھلی طرف واقع تھا، مطب کے اندر جانے کے لیے تو مریضوں کو دو سیڑھیاں طے کرنا پڑتی تھیں لیکن دوا خانے کے ساتھ کوئی سیڑھی نہیں تھی۔اس جگہ کسی زمانے میں کسی زمیندار کی بھینس بندھی رہتی تھی۔ وہ زمیندار مرگیا، تو زمیندار کے جس بیٹے کے حصے میں یہ بھینس آئی،وہ اسے یہاں سے اپنے ہاں لے گیا اور یوں یہ جگہ کرائے پر حکیم صاحب کو مل گئی۔
شبراتی اور عمر دین گدھے کو اپنے ساتھ لے کر حکیم صاحب کے ہاں پہنچنے کو تو پہنچ گئے مگر اب سوچنے والی بات یہ تھی کہ اسے مطب کے اندر کیسے لے جائیں اور حکیم کو کیسے کہا جائے کہ اس کا علاج کیجئے۔ معاملہ مشکل تھا۔ اس لیے وہ مطب سے کچھ دور ہی ٹھہر گئے اور اس معاملے پر غور کرنے لگے۔
”کیم سے کہیں وہ باہر آجائے!“ یہ تجویز عمر دین کی تھی۔
”پاگل ہوگئے ہو۔ کیم باہر آکر کبھی بیمار کو دیکھتا ہے۔“ شبراتی نے عمر دین کی تجویز رد کر دی۔کئی منٹ تک دونوں سوچتے رہے۔ آخر اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ عمر دین اندر جائے اور شبراتی گدھے کو لے کر دوا خانے کے پاس ٹھہرے۔ جب حکیم صاحب فارغ ہو کر گھر کو جانے لگیں تو ان سے دلبر کی تکلیف بیان کر دی جائے۔ اس طرح نہ تو حکیم صاحب خاص طور پر باہر آئیں گے اور نہ انہیں گدھے کو اندر لے جانے کی ضرورت ہوگی۔
اس تجویز کے مطابق شبراتی دلبر کو دوا خانے کے پاس لے گیا اور عمر دین چق اُٹھا کر اندر چلا گیا۔ حکیم صاحب اپنی جگہ پر بیٹھے تھے اور بنچوں پر کئی مریض دکھائی دے رہے تھے۔ عمر دین بھی ایک بنچ پر بیٹھ گیا اور حکیم صاحب کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
حکیم صاحب نے حقے کا لمبا کش لگایا اور ایک پاس بیٹھے ہوئے مریض کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”اے میاں! صبح گاجریں کھائی تھیں؟“
’’جی ہاں کھائی تھیں؟“ مریض نے جواب دیا۔
حکیم صاحب نے باقی مریضوں کی طرف اس انداز سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں۔ ”میں فواً ہر بات سمجھ لیتا ہوں۔“
”زیادہ کھالی تھیں؟“ حکیم صاحب نے فرمایا۔
”جی زیادہ تو نہیں …… بس ……“
اس سے پہلے کہ مریض گاجروں کی تعداد بتائے حکیم صاحب فوراً بول اُٹھے۔
”میں کہتا ہوں اتنی گاجریں کھالی ہیں جو ہضم نہیں ہوسکیں اور اب آئے ہو حکیم صاحب کے پاس کہ پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ حکیم بے چارا کیا کرے۔ کیسے تم گنواروں کو سمجھائے کہ مولیاں اور گاجریں زیادہ نہیں کھانی چاہئیں۔ اس سے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے۔ اچھا۔“ یہ کہتے ہوئے حکیم صاحب نے ایک بوتل ڈیسک کے قریب سے اُٹھائی۔ اس کے منہ سے کاک ہٹایا اور مریض کو مخاطب کر کے کہا۔
”دو گولیاں پانی سے کھالو۔ آرام آجائے گاَ“
”ارمان آجائے گا نا؟“ مریض نے پوچھا۔
”آرام کیوں نہیں آئے گا۔ حکیم صاحب کے پاس آئے ہو۔ حکیم صاحب دوا دے رہے ہیں۔یہ پوچھتا ہے آرام آجائے گا۔ ہونہہ چل بھاگ یہاں سے۔ چار آنے نکال جیب سے اور دیکھ!“
”جی کیم جی“ مریض نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اُس سے پیسے نکال کر گنے۔
”یہ چار آنے۔“

”رکھ دو ڈیسک پر، آئندہ پیٹ میں درد نہیں ہونا چاہئے۔“
”اور جو ہونے لگا تو……؟“ مریض نے مسکرا کر کہا۔
”ہونے لگے گا تو آجانا۔ چل میرا وقت بہت قیمتی ہے وقت ضائع نہ کر۔ یاد رکھو حکیم صاحب کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے، کم بات کرو، دوائی لو اور چلتے بنو، کئی بار سمجھایا ہے مگر تم نہیں سمجھتے!“
”عمر دین چپ چاپ بیٹھا تھا اور اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ حکیم صاحب اُس کی طرف دیکھیں تو وہ اپنی تکلیف اُنہیں بتائے۔ اس کی اپنی تکلیف کیا تھی۔ یہی کہ اس کا دلبر بیمار ہے، کھاتا پیتا کچھ نہیں، بھوکا ہے۔“
پہلا مریض اُٹھا تو دوسرا مریض آبیٹھا۔
”جی فرمائیے کیا حکم ہے؟“ حکیم صاحب نے مریض کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کھانسی آتی ہے دوا سے کھتم نہیں ہوئی۔“
”کھانسی آتی ہے۔ دوا سے ختم نہیں ہوئی۔ مجھے بتاؤ روٹ ایک دم منہ ڈال لیتے ہو؟“
”روٹی!“
”ہاں روٹی نہیں دیکھی کبھی، کھاتے کیا ہو، کیا ڈبل روٹی۔ کہتا ہے روٹی؟ سبحان اللہ حضور نے روٹی نہیں دیکھی۔ کیسے کیسے مسخرے آجاتے ہیں۔“
مریض ہنس پڑا۔
”روٹی کھاتا ہوں۔“
”تو میں نے حضورکی خدمت میں عرض کیا ہے کہ روٹی ایک دم منہ میں ڈال لیتے ہو؟“
”نہیں!“
”روٹی ایک دم منہ میں نہیں ڈالتے اور فرماتے ہیں کھانسی ایک دم ختم ہوجائے سب …… حان…… اللہ……سبحان اللہ۔“
”میرا مطلب ہے کیم جی۔ کھانسی کم نہیں ہوئی۔“
”ہوجائے گی، نسخہ ہے؟ کہاں ہے نسخہ، نکالو۔ جلدی کرو، نسخہ نکالو، آیا ہے حکیم صاحب کے پاس اور نسخہ جیب میں نہیں ہے، بھائی نکالو بھی، میرا وقت بہت قیمتی ہے۔“
مریض نے کرتے کی جیب میں سے ایک مڑا تڑا کاغذ نکالا۔
”یہی دوا لے جاؤ، آرام آجائے گا، اور نکالو پیسے!“
”کتنے پیسے جی!“
”پہلے نہیں دیے تھے۔ پوچھتے ہو کتنے جی۔ تم لوگوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ حکیم صاحب کا وقت کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ اگر پرانے مریضوں کوہر وقت دوا کی قیمت بتانے لگوں تو اتنے سارے مریضوں کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ تمہیں یاد نہیں کل آئے تھے تو کتنے پیسے دیے تھے؟“
”چھ آنے۔“
”جب یاد ہے تو مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جاؤ۔ جاؤ۔ اُٹھو۔ دوا استعمال کرو۔ کھانسی وانسی ختم ہو جائے گی۔“
مریض نے پیسے نکالے اور انھیں ڈیسک پر رکھتے ہوئے دروازے میں سے نکل گیا۔
حکیم صاحب نے بیٹھے ہوئے مریضوں پر ایک نظر ڈالی۔عمر دین پر ان کی نظر پہنچ کر رک گئی۔
”تو کون ہے لڑکے؟“ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”جی یہ فاطمہ کا لڑکا ہے۔ چاچا۔“ ایک مریض بولا۔
”چاچا کیا؟“
”چاچا چونچ!“ مریض نے ہنس کر بتایا۔
”چاچا چونچ…… واہ وا…… بہت اچھا نام ہے چونچ ہے بھی بڑی شاندار۔کیوں میاں!“
عمر دین گھبرا گیا۔
”تو چاچا چونچ۔“ حکیم صاحب نے عمر دین کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی!“
”پہلی مرتبہ آئے ہو شاید!“
”جی اماں آیا کرتی ہیں۔“
”اور آج اماں کا بیٹا کیسے آیا ہے؟“ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”جی وہ ……“ عمر دین اس سے آگے کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
”جی وہ……“ حکیم صاحب نے عمر دین کی نقل اُتاری۔ سارے مریض بے اختیار ہنس پڑے اور عمر دین کی یہ حالت تھی کہ اُس کا جی چاہتا تھا، فوراً اُٹھے اور دروازے میں سے نکل جائے، مگر معاملہ اُس کے دلبر کا تھا، کیسے باہر نکلتا؟ چپ چاپ بیٹھا رہا۔
”میاں صاحب زادے! کوئی تکلیف ہے یا یونہی سیر کے لیے آئے ہو۔ یہ جگہ سیر کے لیے کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ کھیتوں میں جاؤ۔ درختوں کے نیچے گھومو۔ یہ حکیم صاحب کا مطب ہے۔ سمجھے میاں صاحب زادے۔“
عمر دین حکیم کے سوال پر اور گھبرا گیا۔
”وہ باہر ہے!“
حکیم صاحب کے ماتھے پر شکنیں پڑگئیں۔ ”کون باہر ہے!“
جی وہ…… جی“ عمر دین بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہہ سکا۔
”تو اُسے اندرلے کر آؤ، باہر کیا کر رہا ہے، اندر آکر بیٹھے بینچ پر۔ اپنی تکلیف بتائے دوا لے جائے۔ آرام آجائے گا، یہی طریقہ ہے۔ سب کرتے ہیں!“
”اچھا جی“ عمر دین یہ کہہ کر اُٹھ بیٹھا، وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے مریض کو اندر کس طرح لائے۔ ایک اور مریض حکیم صاحب کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”بخار ہے!“
”بخار ہے …… ہونہہ…… کھایا کیا تھا رات کو؟“
”مولیاں ……؟“
”مولیاں کھالی تھیں، گنوارو! تم سے بار بار کہتا ہوں مولیاں مت کھایا کرو۔ پروا نہیں کرتے کچر کچر کھانے لگتے ہو مولیاں گاجریں اور کچھ نہیں ملتا؟“
”کیم جی۔ مولیاں گوشت میں پکی تھیں۔“
”مولیوں کے ساتھ گوشت تھا۔ اور گوشت کے ساتھ مولیاں تھیں۔ تم نے مولیاں کھالیں اور گوشت چھوڑ دیا؟“
”نہیں کیم جی، بوٹیاں کھائیں۔“
”اچھا کھائی ہوں گی۔ سنا ہے تمہاری بیوی مولیاں گوشت پکانے میں ماہر ہے۔ یار کسی دن کھلادے نا۔“
”اچھا جی، ہانڈی اُٹھا لاؤں گا۔“

”ہانڈی نہیں،سالن لانا، ہانڈی لے کر کیا کریں گے کسی صاف ستھرے برتن میں سالن لے آنا مکھن وغیرہ ڈال کر، اچھا آگے آؤ، دکھاؤ اپنی نبض۔“
حکیم صاحب نے مریض کی نبض پر اُنگلیاں رکھ دیں۔
”پیٹ میں درد؟“
”جی نہیں۔“
”سر میں درد؟“
”جی نہیں۔“
حکیم صاحب نے بوتل اُٹھائی جس میں سے پیٹ درد کے مریض کو دو گولیاں نکال کر دی تھیں۔
”دودھ کے ساتھ کھانا، ایک صبح، ایک دوپہر، ایک شام۔“
”دوپہر کو دودھ۔“
”دودھ نہ سہی، پانی سہی، پانی بھی نہ ملے تو ویسے ہی منہ میں ڈال لینا، گھل جائے گی اور میں نے کیا کہا ہے؟“
مریض سوچنے لگا۔
”اور میں نے کہا ہے؟“ حکیم صاحب نے دوبارہ پوچھا۔
”بھول گیا ہے …… میں نے کہا ہے نا کسی دن……“
مریض کو یاد آگیا۔ ”اچھا جی! مولیاں گوشت لاؤں گا۔“
عمر دین اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ حکیم صاحب کی نظر اس پر پڑی۔
”کیا سوچ رہے ہو میاں، کیا معاملہ ہے؟“ حکیم صاحب نے مریضوں کی طرف دیکھا۔
”مریض باہر حکیم اندر…… کیا بات ہے۔“ یہ لفظ سن کر مریض ہنس پڑے۔ ابھی وہ ہنس ہی رہے تھے کہ حکیم صاحب کا آدمی جو دوا خانے کا انچارج تھا۔ گھبرایا ہوا اندر آیا اور بولا۔
”حکیم صاحب …… گدھا ……“
”ارے کیا گدھا……!“ حکیم صاحب نے پوچھا۔ ”بے شرم، بے حیا کہتا ہے حکیم صاحب گدھا۔“ حکیم صاحب گرجے۔
”ہوگا گدھا تیرا باپ، اس گستاخی پر نکال دوں گا دوا خانے سے گدھا کہیں کا۔“
”اندر آگیا ہے جی، سامان تباہ کر دیا ہے، بوتلیں ……“
”کیا کہا …… کیا؟“
”اندر آگیا جی۔ گدھا اندر آگیا ہے دوا خانے میں۔“
عمر دین نے یہ بات سنی تو بھاگا وہاں سے۔ گدھا ابھی اندر چیزیں گرا رہا تھا۔ شبراتی نے اُس کا کان پکڑ رکھا تھا اور اُسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
عمر دین کو یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی کہ شبراتی اس کے دلبر کاکان کھینچ رہا ہے۔ جس سے اُسے درد ہو رہا ہوگا۔
”کیا کرتے ہو شبراتی!“
شبراتی نے جو عمر دین کی آواز سنی تو گدھے کا کان چھوڑ دیا۔ گدھے نے کان چھڑاتے ہی باہر کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ عمر دین اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگا۔
حکیم صاحب دوا خانے میں آگئے۔ ان کے ساتھ تمام کے تمام مریض بھی وہاں پہنچ گئے۔
بوتلیں اور مرتبان فرش پر پڑے تھے۔ کئی بوتلیں گر کر ٹوٹ چکی تھیں، ایک الماری بھی گر پڑی تھی۔ اپنے دوا خانے کی یہ حالت دیکھ کر غم اور غصے سے حکیم صاحب کانپنے لگے۔
”ربانی!“
”جی حکیم صاحب!“ دوا خانے کا انچارج بولا۔
”تم کہاں مر گئے تھے۔ گدھا ادھر آیا کیسے؟“
”جی آگیا، پتا نہیں کیسے آگیا!!!“
”اتنا نقصان ہوگیا ہے، تاوان تیرا باپ دے گا؟“ حکیم صاحب ربانی کی طرف غضبناک نظروں سے دیکھتے ہوئے گرجے۔
”میرا باپ کیوں دے گا، گدھے کا مالک دے گا جس نے گدھے کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔“ ربانی نے جواب دیا۔
”گدھے کہاں ہے؟“
ٍ ”بھاگ گیا ہے، اس لڑکے نے اس کا کان پکڑ رکھا تھا۔“ ربانی نے شبراتی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
”کیوں او نالائق! تیرا گدھا ہے؟“ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”جی میرا نہیں …… وہ ہے نا…… جی چاچا…… چونچ،اس کا ہے۔“
”کیا بک بک لگا رکھی ہے، بتا اس گدھے کا مالک کون ہے!“
”جی وہ …… وہ جی…… اے عمر دین جی۔“
”عمر دین جو ابھی اندر بیٹھا تھا؟“
”جی ہاں۔“
”ربانی اسے پکڑ لاؤ۔“
”کیم جی! وہ گدھے کے پیچھے بھاگ گیا ہے۔“ شبراتی نے خبر دی۔
”ربانی! اسے پکڑ لاؤ، جہاں کہیں ہے لے کر آؤ، سارا دوا خانہ تباہ کر دیا ہے، جاؤ ربانی!“ ربانی جانے لگا۔
”دوڑو…… بھاگو …… فواً کان پکڑ لاؤ۔“
”کس کو جی…… گدھے کو یا……“
”ارے نالائق! حو بھی ہاتھ آئے اُسے لے آؤ۔“
ربانی تیز تیز قدم اُٹھانے لگا اور اُس کے ساتھ تماشا دیکھنے کے لیے کئی مریض اور دوسرے لوگ بھی گدھے کی تلاش میں چل پڑے۔

دوسرا علاج
دوسرے دن کی بات ہے۔.
عمر دین کو اُس کی ماں نے کوٹھری کے اندر بند کر دیا تھا اور وہ بری طرح رو رہا تھا۔ کبھی غصے میں آکر زور زور سے دروازے پر لاتیں بھی مارنے لگتا مگر دروازہ تو کھل ہی نہیں سکتا تھا، کیونکہ باہر سے بند تھا۔ عمر دین کوٹھری میں ایک گھنٹے سے بند تھا اور اُسے سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اُس کا دلبر نہ جانے کہاں چلاگیا تھا۔ حکیم صاحب کے آدمی گدھے کو پکڑنے گئے تھے، وہ تو اُنہیں کہیں بھی نظر نہ آیا۔ البتہ عمر دین اُنہیں بھاگتا ہوا نظر آگیا اور اُسی کو پکڑ وہ حکیم صاحب کے پاس لے آئے۔ حکیم صاحب کی کئی بوتلیں فرش پر گر کر ریزہ ریزہ ہوچکی تھیں، کئی مرتبان ٹوٹ گئے تھے، اس نقصان پر اُن کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔ عمر دین کو دیکھتے ہی اُن کے غصے کاپارہ چڑھ گیا۔ گرج کر بولے۔ ”میں تم سے ایک ایک پائی وصول کروں گا۔ تمہارے گدھے نے میرا نقصان کیا ہے۔“ اور وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی ماں کے پاس لے آئے تھے۔ عمر دین رو رہا تھا اور اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا، وہ اپنے دلبر کو ڈھونڈنا چاہتا تھا، لیکن حکیم صاحب اس کا ہاتھ کسی صورت بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ ماں نے اُسے کوٹھری میں لے جا کر باہر سے دروازہ بند کر دیا اور اب وہ کوٹھری کے اندر قید تھا اور باہر حکیم صاحب تھے، عمر دین کی ماں تھی اور شبراتی کا ابا فیروز دین تھا جو یہ واقعہ سن کر وہاں پہنچ گیا تھا۔ حکیم صاحب کو اپنے نقصان کی پڑی تھی۔ بار بار کہہ رہے تھے، میرا دو سو روپے کا نقصان ہوگیا ہے، اتنی قیمتی دوائیں ضائع ہوگئی ہیں، ان کی قیمت میں کس سے وصول کروں گا۔ قیمت وصول ہو بھی جائے تو کیا ہے، قیمتی دوا بڑی مشکل سے تیار ہوتی ہے۔ اس پر بڑا روپیہ، وقت صرف ہونا ہے اور اُدھر عمر دین کی ماں تھی کہ بیٹے کو بددعائیں دے رہی تھی اور اپنی غریبی کا رونا رو رہی تھی۔ شبراتی کا ابا حکیم صاحب کو سمجھا رہا تھا کہ بیوہ عورت دو سو روپے کی رقم کہاں سے دے سکتی ہے، یہ بے چاری تو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ بھرتی ہے، نقصان گدھے نے کیا ہے اور گدھا بے عقل جانور ہے، مگر حکیم صاحب اپنی رٹ لگائے جا رہے تھے۔
”اگر جانور کسی کا نقصان کرتا ہے، تو اُس کی ذمے داری جانور کے مالک پر ہوتی ہے کہ وہ نقصان پور اکرے، یہ قانون ہے، اصول ہے۔“
”پر نامراد عمر دین گدھے کا مالک کہاں ہے؟“ فیروز دین کہہ رہا تھا۔ حکیم صاحب یہ بات سن کر تلملا اُٹھے۔ فیروز دین کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’فیروز! مجھے پاگل مت سمجھو، بچہ نہیں کہ حقیقت سمجھ ہی نہ سکوں۔ سب لوگوں نے کہا ہے کہ یہ گدھا عمر دین کا ہے۔ اور وہ اُسے دلبر کہتا ہے۔ دلبر کا مطلب جانتے ہو کیا ہے۔ ”معشوق“ یعنی کہ یہ لڑکا گدھے کو اپنا مشعوق سمجھتا ہے۔ لاحول ولا……“
”میرا عمر دین تو پاگل ہے۔“ ماں بولی۔
”پاگل ہے یا پاگل نہیں ہے، مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میرا نقصان ہوا ہے اور جس نے نقصان کیا ہے اُس سے پوری پوری قیمت وصول کروں گا“ حکیم صاحب نے کہا۔
”حکیم جی! نقصان جس نے کیا ہے اُسے پکڑو“ فیروز دین نے مسکرا کر کہا۔
”کس نے نقصان کیا؟“ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”گدھے نے کیاہے اور کس نے کیا ہے؟“
”ٹھیک ہے وہ کہاں ہے؟“
”ہمیں کیا پتا کہاں ہے اور کہاں نہیں ہے!“ ماں بولی۔
”اچھا تمہیں پتا نہیں ہے کہ کہاں ہے، اور یہ تمہاری کوٹھری کے اندر کون ہے؟“
”عمر دین ہے جی“ فیروز نے جواب دیا۔
”تو میں کس کو پوچھ رہا ہوں ……؟“
”گدھے کی بات نہیں کر رہے؟“ فیروز دین نے پوچھا۔
”گدھے کی بات نہیں کر رہا، عمر دین کو لاؤ میرے سامنے، جلدی کرو۔“
ماں گھبرا گئی۔ ”اس سے کیا کہیں گے کیم جی!“
”میں کہتا ہوں اُسے لاؤ یہاں، ابھی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں اس سے کیا کہتا ہوں اور کیا نہیں کہتا ہوں۔“
ماں عمر دین کو باہر لانے میں ہچکچا رہی تھی۔ اُسے ڈر تھا کہ حکیم صاحب اُس کے بیٹے کو پیٹنا نہ شروع کر دیں۔ وہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ فیراوز اُٹھا اور کوٹھری کی طرف جانے لگا۔
”نہ نہ ویر، اسے نہ لاؤ“ ماں اُس کے پیچھے پیچھے جانے لگی۔
”فکر نہ کرو بہن فاطمہ! میں جو یہاں ہوں۔“ اور شبراتی کے ابا نے کوٹھری کا دروازہ کھول دیا۔ عمر دین بھاگ کر باہر آیا اور دوڑنے ہی والا تھا کہ فیروز دین نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”جاتے کہاں ہو…… ادھر چلو۔“
”میرا دلبر، ہائے میرا دلبر“ عمر دین اپنا ہاتھ چھڑا کر گھر سے باہر نکلنا چاہتا تھا، مگر فیروز نے بڑی مضبوطی سے اسے پکڑ رکھا تھا۔
گھر کے باہر بہت سے لوگ جمع ہوگئے تھے، وہ تمام دیکھنے کے لیے آئے تھے، اگر اُنہیں فاطمہ کا ڈر نہ ہوتا تو وہ فوراً اندر آجاتے۔
حکیم صاحب نے عمر دین کو غضبناک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”عمر دین! میں تمہارے گدھے کو مار دوں گا۔“
”نہ نہ! خدا کے لیے نہ! میں مر جاؤں گا میرے دلبر کو کچھ نہ کہیں۔“ عمر دین زور زور سے رونے لگا۔
”تم گدھے کے مالک ہو……؟“ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”نہیں نہیں“ عمر دین چلایا۔
”گدھے کے مالک نہیں ہو تو کیا ہو؟“
”وہ میرا ہے …… میرا دلبر ہے …… میرا ہے…… میرا ہے۔“
حکیم صاحب نے شبراتی کے ابا کو مخاطب کر کے کہا۔ ”دیکھ لیا میاں فیروز، تم کہتے ہو یہ گدھے کا مالک نہیں ہے۔“
”جی مالک تو نہ ہوا نہ“ فیروز دین یہ الفاظ کہتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
”مالک نہیں ہے تو اس کا سر ہے؟“ حکیم صاحب سخت غصے میں تھے۔
”پتا نہیں سر ہے اس کا یا پیر ہے، مالک نہیں ہے!‘‘
”مالک کے سر پر سینگ لگے ہوتے ہیں کیا؟ میرے نقصان کا یہی ذمے دار ہے اور میں اس سے سب کچھ وصول کروں گا۔“
”تو وصول کرلیں حکیم صاحب!“ فیروز دین نے کہا۔
”ہائے ہائے یہ کہاں سے دے گا، اس نے تو آج تک ایک پیسہ بھی نہیں کمایا“ ماں بولی۔
”اس کی ماں نقصان پورا کرے!“
حکیم صاحب کے یہ الفاظ سن کر فیروز دین کو بھی غصہ آگیا۔
”حکیم صاحب آپ بھی غضب کرتے ہیں یہ بیچاری کہاں سے دے سکتی ہے۔ بیوہ عورت ہے، نہ جانے کس طرح گھر کا خرچ چلاتی ہے، یہ سو دو سو کی رقم کہاں سے دے سکتی ہے؟“
”بڑے ہمدرد بنتے ہو تو تم دے دو۔“
”میں کیوں دوں؟“

”تو اور کون دے گا؟“
اب حکیم صاحب اور فیروز دین میں تلخ کلامی ہونے لگی۔ حکیم صاحب نقصان کی پوری رقم وصول کرنے پر تلے ہوئے تھے اور فیروزکہتا تھا۔ نقصان جس نے کیا ہے اُس سے وصول کرو۔
باہر لوگ بڑے مزے سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔
اتفاق سے اُس وقت ٹھیکیدار صاحب اُدھر سے گزر رہے تھے۔ اُنھوں نے فاطمہ کے دروازے پر اتنے لوگوں کو دیکھا تو وہاں آگئے اور پوچھا۔ ”کیا ہوا ہے۔ اتنے لوگ یہاں کیوں جمع ہیں؟“ ایک شخص نے مختصر طور پر اصل واقعہ سنا دیا۔
”ہٹو،مجھے اندر جانے دو۔“ اور ٹھیکیدار صاحب اندر آگئے۔
حکیم صاحب اور فیروز دین میں تلخ کلامی اتنی بڑھ گئی کہ لگتا تھا دونوں گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ ٹھیکیدار صاحب اندر آگئے تو عمر دین کی ماں جو حکیم صاحب کی منت سماجت کر رہی تھی: فوراً اُن کی طرف لپکی۔ ”ٹھیکیدار جی، خدا کے واسطے کیم جی کو سمجھاؤ۔“
”اچھا اچھا……“ اور ٹھیکیدار صاحب نے حکیم صاحب سے کہا۔
”حکیم صاحب! اس بے چاری عورت کو کیوں ستا رہے ہیں آپ؟“
”جی کہتا ہے، دو سو روپے دو، میں کہاں سے دوں، میں تو اللہ جانے کس طرح اپنا اوراس نامراد کا دوزخ بھرتی ہوں“ یہ کہتے ہوئے ماں نے زور سے عمر دین کی پشت پر دوہتر مارا……عمر دین گرتے گرتے بچا۔
”میری بات سنو فاطمہ! ہاں تو حکیم صاحب! آپ کیا کہتے ہیں؟“
”کہنا کیا ہے سر اپنا، ٹھیکیدار صاحب! آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی جانور کسی کا نقصان کرے تو اس کی ذمے داری جانور کے مالک پر ہوتی ہے۔“
ٹھیک ہے!“ ٹھیکیدار صاحب نے کہا۔
”نقصان گدھے نے کیا ہے اور گدھے والا یہ ہے۔“ حکیم صاحب نے عمر دین کی طرف اشارہ کیا۔
”ٹھیک ہے۔“
”کیسے ٹھیک ہے ٹھیکیدار جی……؟ یہ پاگل……“
”ٹھیکیدار صاحب نے فاطمہ کو خاموش کرنے کے لیے ہاتھ بلند کیا۔
حکیم صاحب خوش ہوگئے۔ ”آپ بڑے عقل مند ہیں ٹھیکیدار جی! بتائیے میں کیا کروں؟“
”تم کچھ نہ کرو!“ ٹھیکیدار صاحب نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا۔
حکیم صاحب گھبرا گئے۔
”کیا مطلب؟“
”حکیم صاحب! آپ کا نقصان میں پورا کروں گا۔“
حکیم صاحب نے ٹھیکیدار صاحب کی طرف ذرا غور سے دیکھا، وہ اُن کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اصل میں واقعہ یہ تھا کہ حکیم صاحب کا نقصان ہوا ضرور تھامگر اس قدر نہیں جس قدر وہ لوگوں کو بتا رہے تھے۔ اب انہوں نے سوچا کہ ٹھیکیدار صاحب تو عام لوگوں میں سے نہیں ہیں، وہ اگر نقصان پورا کریں گے تو یہ بھی دیکھیں گے کہ حقیقت میں نقصان ہوا کتنا ہے، یہی بات حکیم صاحب کو پریشان کر رہی تھی۔
”حکیم صاحب! آپ گھبرایئے نہیں، میں آپ کا نقصان پورا کیے دیتا ہوں۔ بتایئے کتنے روپوں کی ضرورت ہے آپ کو؟“ ٹھیکیدار صاحب نے پوچھا۔
”نہیں ٹھیکیدار صاحب! آپ کیوں نقصان پورا کریں گے!“
”دیکھئے نا حکیم صاحب!“ٹھیکیدار نے بڑی نرمی سے کہنا شروع کیا۔ ”آپ کی چیزیں ضائع ہوگئی ہیں، گدھے کو کیا عقل، گدھا تو گدھا ہوتا ہے نا حکیم صاحب!“
”جی ہاں، جی ہاں! گدھا تو گدھا ہوتا ہے، مجھے تو یہ بات معلوم نہیں تھی، آج معلوم ہوئی کہ گدھا گدھا ہوتا ہے۔“ حکیم صاحب نے ٹھیکیدار صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”اور گدھا نقصان پورا نہیں کر سکتا، یا کرسکتا ہے!“ یہ لفظ کہتے ہوئے ٹھیکیدار صاحب ہنس رہے تھے۔
”جی نہیں پورا کرسکتا، مگر گدھے کا مالک۔“
”گدھے کا مالک …… اور اگر وہ بھی گدھا ہو تو۔“
ٹھیکیدار صاحب کی اس بات پر حکیم صاحب گھبرا گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہیں۔ ٹھیکیدار صاحب نے ان کے دائیں شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔”میں نے جو کہا ہے حکیم صاحب کہ یہ کام میں کروں گا۔ کتنا روپیہ چاہئے؟ سو، دو سو، تین سو؟“
”اچھا جی۔“
”تو آجائیے میرے غریب خانے پر۔“ ٹھیکیدار صاحب جانے لگے ……”کچھ روپے تو اس وقت لے لیں۔“ اور ٹھیکیدار صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور اُنہیں حکیم صاحب کے حوالے کردیا۔
حکیم صاحب نے دیکھ لیا کہ دس دس کے نوٹ ہیں اور کافی ہیں۔
”بس جی!ور میں کچھ نہیں لوں گا۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔“
”خدا تیرا بھلا کرے، اللہ کرے تو بادشاہ بن جائے۔“ ماں نے دعا دی۔ ایک بہت بڑے بوجھ سے نجات حاصل کرنے پر اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ ٹھیکیدار صاحب جانے لگے۔ ماں اُنہیں دعائیں دے رہی تھی اور ہاتھ سے اپنے آنسو بھی پونچھتی جاتی تھی۔
”خد کا شکر ہے، آئی بلا ٹل گئی۔“
”آئی بلا کہاں ٹلی ہے۔ میں کہتی ہوں اس نامراد کا کیا ہوگا!“ اور ماں نے عمر دین کی پیٹھ پر زور سے ہاتھ مارا۔ عمر دین بلبلا اُٹھا۔
حکیم صاحب کا غصہ ختم ہوچکا تھا۔اب ان کے اندر ہمدردی پیدا ہوگئی تھی۔ نوٹ انہوں نے جیب میں ڈالے اور بڑی نرمی سے عمر دین کی ماں کو مخاطب کیا۔
”فاطمہ بہن! یہ قصہ کیا ہے آخر؟“
”کیم جی۔ یہ نامراد نہ گھر کا کام کرتا ہے نہ پڑھتا ہے، دُلےّ سا ئیکلوں والے کے پاس چھوڑ آئی تھی کہ کام سیکھے اور میں بھی چار پیسوں کی صورت دیکھوں پر ایک دن بھی وہاں نہیں بیٹھا، بھاگ آیا۔“
”عبداللہ کی دکان سے باگ آیا تو کہیں اور بندوبست کر لیتیں!“ حکیم صاحب نے کہا۔
”اور کہاں بندوبست کرتی، کہیں بیٹھتا ہی نہیں ہے، اسے توبس وہ چاہئے!“
”وہ کیا!“
”حکیم صاحب اسے گدھے سے بڑا پیار ہے، ایسا لگتا ہے گدھے میں اس کی جان ہے، اس کے بغیر اسے آرام نہیں آتا۔“ فیروز دین نے کہا۔
کیم جی کچھ سوچ میں پڑ گئے۔
”دماغی فتور!یقینا دماغی فتور…… اور کچھ نہیں …… سولہ آنے دماغی فتور“ حکیم صاحب کی یہ بات ماں کی سمجھ میں نہ آئی۔
”کیا کیم جی؟“
”میں کہتا ہوں یہ دماغی فتور ہے، دماغ کا فتور یعنی کہ فتور…… دماغ کا۔“ حکیم صاحب نے اپنے دائیں کان کے اُوپر سر کو اُنگلی سے چھو کر کہا۔ ”یہاں فتور ہے۔“
ماں بھلا یہ دماغی فتور کا مطلب کیسے جان سکتی تھی، وہ پاگلوں کی طرح حکیم صاحب کو گھورے جارہی تھی۔ ”یہ پھتور کیاہوتی ہے؟“اس نے پوچھا۔
حکیم صاحب ہنس پڑے۔
فیروزدین بولا۔”حکیم صاحب! اُس کا علاج نہیں ہوسکتا؟“
”کیوں نہیں ہوسکتا؟“ حکیم صاحب نے جواب دیا۔
”آپ بڑے حکیم ہیں، اس کا علاج کریں۔“

”خدا کے لیے الاج کریں۔ میں بڑی تنگ آگئی ہو ں۔“ ماں پھر رونے لگی۔
حکیم صاحب جو بڑی سنجیدگی سے اس مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے، فرمانے لگے۔ ”یہ گدھا جو ہے نا، اس کے باپ کو اس سے بڑا پیار تھا۔ یہ باپ یعنی گدھے کا باپ مرگیا، مرگیا مگر چونکہ اسے اپنے بیٹے سے بڑا پیار تھا وہ اپنا پیار تمہارے لڑکے کو دے گیا ہے۔“
”ماں کی سمجھ میں یہ بات بالکل نہ آئی۔ وہ حکیم صاحب کی طرف اس انداز سے دیکھ رہی تھی جیسے حکیم صاحب نے اسے حل کرنے کے لیے کوئی معما دے دیا ہو اور وہ یہ معما حل کرنے سے قاصر ہو۔
حکیم صاحب چند لمحے ماں کی بات کا انتظار کرتے رہے مگر جب اُس نے اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکالا تو وہ بولے۔
”نہیں ……یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آئی، وہ باپ …… گدھے کا تیرے بیٹے کے اندر چلا گیا ہے۔“
ماں یہ فقرہ سن کربے چین ہوگئی۔ ”ہائے اللہ! حکیم جی! وہ گدھا میرے بیٹے میں کیسے چلا گیا؟“
حکیم صاحب کا فقرہ سن کر فیروز دین بھی ہنسنے لگا۔”واہ حکیم جی! کیا بات کہی ہے، گدھا لڑکے کے اندر چلا گیا ہے۔“
حکیم صاحب اپنے علم کی یہ توہین کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ کڑک کر بولے”تم لوگ ہوجاہل، عالم فاضل آدمیوں کی باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ میں نے لڑکے کی اصل بیماری بتائی ہے تاکہ اس کا علاج کیا جاسکے اور تم میرا مذاق اُڑانے لگے ہو…… سبحان اللہ……کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔“
حکیم صاحب ناراض ہوکر چلے گئے۔
اُن کے جانے کے بعد ماں ماتھے پر ہاتھ رکھ کر وہیں بیٹھ گئی۔ فیروز دین اسے تسلی دے رہا تھا، مگر وہ تھی کہ بالکل خاموش تھی، جب فیروز دین نے کہا۔”اچھا بہن! میں چلتا ہوں، عمر دین کو سمجھاؤں گا۔“ تو ماں نے ادھر اُدھر دیکھا۔ ”ارے، عمر دین کہاں گیا،“ عمر دین وہاں تھا ہی نہیں۔
”لو دیکھ لو، نامراد بھاگ گیا ہے۔“
”میں دیکھتا ہوں کہاں ہے اور کام کرنے کے بعد حکیم صاحب کے پاس بھی جاؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ تمہارے لڑکے کا علاج کرے۔“
فیروز دین اپنی دکان پر چلا گیا، ماں اکیلی رہ گئی، وہ گھر سے باہر نکل آئی، ابھی تک لوگ مکان کے پاس کھڑے تھے۔ ماں کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا تھا، اس لیے کسی کی ہمت نہ پڑی کہ اس سے کچھ پوچھے، گھر سے باہرتو وہ نکل گئی، مگر اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کدھر جائے، بیٹے کو ڈھونڈے یا حکیم صاحب کے پاس جائے۔
وہ بغیر کسی ارادے کے قدم اُٹھانے لگی۔ یکایک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ ٹھیکیدار صاحب کے پاس کیوں نہ جائے۔ وہ مہربان ہیں اُن سے کہوں گی کہ حکیم صاحب کو میرے پاگل بیٹے کا علاج کرنے کی تاکید کریں اور وہ اُن کی بات فواً مان لیں گے۔
یہ سوچ کر وہ ٹھیکیدار صاحب کی حویلی میں داخل ہو گئی۔ ٹھیکیدار صاحب باہر جانے ہی والے تھے، تانگے میں بیٹھنے کی تیاری کررہے تھے کہ ماں پہنچ گئی۔ ٹھیکیدار صاحب نے تانگے کے پاس رک کر اُس کی بات سنی اور وعدہ کیا کہ وہ حکیم صاحب کو سمجھا دیں گے اور حکیم صاحب آج ہی سے علاج شروع کردیں گے۔
یہاں سے مطمئن ہو کر وہ قصبے کے بڑے بازار میں آگئی۔اُس نے دیکھا کہ کئی لڑکوں نے اس کے بیٹے کو گھیر رکھا ہے، ایک لڑکا بڑے زور سے کہہ رہا ہے۔
”چاچا چونچ! چا چا چونچ!!“
عمر دین لاکھ پاگل سہی، مگر تھا تو اُس کا بیٹا، ماں بے تاب ہوگئی، تیزی سے آگے بڑھی اور بولی۔
”نامراد و! چھوڑو میرے بچے کو…… تماشا بنا رکھا ہے۔“ لڑکوں نے ماں کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگے۔ عمر دین بھی نہ جانے کیا سوچ کر ایک طرف جانے لگا، مگر ماں نے اُس کا بازو پکڑ لیا۔
”جاتا کہاں ہے؟ چل گھر۔“
”اماں …… میرا دلبر کہاں گیا؟“
”گیا تیر ادلبر چولہے میں۔ بے حیا کو شرم نہیں آتی“ اور ماں زبردستی عمر دین کو گھر میں لے آئی۔
ٹھیکیدار صاحب نے حکیم صاحب کو تاکید کردی کہ وہ عمر دین کا باقاعدہ علاج کریں اور قیمتی سے قیمتی دوا کی قیمت بھی وہ ادا کردیں گے۔ حکیم صاحب کو سنہری موقع ملا اور اُنہوں نے معمولی دواؤں کے بھی کافی روپے وصول کرلیے۔
عمر دین کو دوا پلانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ حکیم صاحب نے جو پڑیاں دے رکھی تھیں، وہ ماں نے اپنے تکیے کے نیچے محفوظ کر لی تھیں۔ پڑیوں کے علاوہ ایک بوتل تھی جس میں شہد جیسی کوئی شئے بھری ہوئی تھی، رنگا رنگ گولیاں بھی تھیں۔ حکیم صاحب کی ہدایت یہ تھی کہ ہر روز صبح سویرے آدھ پاؤپانی دیگچی میں ڈال کر اسے اتنا گرم کیا جائے کہ وہ اُبلنے لگے، اس وقت ایک پڑیا اس میں ڈال کر دیگچی کو چولہے سے اُتار کرایک طرف رکھ دیا جائے۔جب پانی ٹھنڈا ہو جائے تو ایک ایک گھونٹ کر کے عمر دین کو پلایا جائے۔ بعد میں تین گولیاں دی جائیں اور گولیوں کے بعد شہد یا وہ جو کچھ بھی تھا، اسے چٹایا جائے۔ بے چاری ماں نہ جانے کس کس طرح بیٹے کو دوا کھانے پر رضا مند کرتی تھی۔ عمر دین دوا کھاتے وقت بہت ضد کرتا تھا۔ یہ کڑوی کسیلی دوا اُسے بالکل پسند نہیں تھی اور دوا کھانے کے بعد یوں منہ بنا لیتا تھا جیسے ابھی قے کر دے اگا۔
عمر دین کو دوا استعمال کرتے ہوئے پندرہ دن گزر چکے تھے، مگر اس پر ذرہ برابر اثر نہیں پڑا تھا، اپنے دلبر کے لیے اُس کی محبت ویسی تھی، وہ دوا کھانے کے بعد گھر سے باہر نکل جاتا تھا، کبھی شبراتی کو ساتھ لے کر گلیوں، بازاروں، باغوں اور کھیتوں میں اپنے دلبر کو ڈھونڈتا تھا اور کبھی اکیلا یہ کام کرتا تھا، گدھا نہ جانے کہاں غائب ہوگیا تھا، کون اُسے پکڑ کر لے گیا تھا، وہ ہر زور اس کمہار کے ہاں جاتا تھا، جہاں سے اُس کی ماں اسے پکڑ لائی تھی، مگر گدھا واپس کیسے آسکتا تھا؟
ماں نے جب دیکھا کہ دواؤں کا اس کے بیٹے پر کوئی اثر نہیں پڑا تو حکیم صاحب سے کہنے لگی۔
”کیم مستی جی! وہ نامراد تو ویسے کا ویسا ہے۔ گدھے بنا مر اجاتا ہے۔“
حکیم سوچ کر بولے۔ ”اب اس کا دوسرا علاج ہوگا!“
عمر دین اُس وقت گھر کے اندر آیا اور چپ چاپ ایک پیڑھی پر بیٹھ گیا۔ نہ تو حکیم صاحب کی نظر اُس پر پڑی اور نہ ماں کی۔
”یہ دوسرا علاج کیا ہوگا جی؟“ ماں نے پوچھا۔
”دواؤں سے فرق نہیں پڑا۔ اس گدھے کی روح بڑی زبردست معلوم ہوتی ہے، اب اس کا علاج یہ ہے کہ نہر کی دوسری طرف جو جنگل ہے، اس میں ایک درویشن آدمی رہتا ہے۔ اللہ کا بڑا نیک بندہ ہے، وہ جس کے حق میں دعا کرتا ہے پوری ہو جاتی ہے۔ اگر یہ درویشن تمہارے بیٹے کے حق میں دعا کرے تو یہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا، دعا کا بڑا اثر ہوتا ہے۔“
ماں حکیم صاحب کی بات بڑے غور سے سن رہی تھی۔ ”حکیم جی! وہ درویش ہے کہاں؟“
”میں نے تمہیں بتایا تو ہے کہ جنگل میں رہتا ہے۔ جنگل میں اور ہر ایک سے نہیں ملتا، خاص خاص آدمیوں سے ملتا ہے۔“
”جنگل تو بڑا لمبا چوڑا ہے، کہاں ملے گا وہ؟“
حکیم صاحب نے ماں کو غصے سے دیکھا۔ ”یہ کام میرا نہیں ہے، بیٹے کو تندرست کروانا چاہتی ہو توڈھونڈو……“ اور یہ کہہ کر حکیم صاحب چلے گئے۔
ماں نے مڑ کر دیکھا تو عمر دین کو پیڑھی کے اُوپر بیٹھے ہوئے پایا۔

”آگیا ہے آوارہ گرد، سارے جہاں کی خاک چھان کے۔ تو باز نہیں آئے گا اپنی حرکتوں سے۔“
ماں کا ہاتھ اُٹھا مگر نہ جانے کیا سوچ کر اس نے اپنے بیٹے کو مارا نہیں۔شاید اُس نے سوچا ہوگا کہ درویش کے دعا مانگنے کے بعد یہ ٹھیک ہوجائے گا، ماروں کیوں؟
رات ہوئی تو عمر دین نے چپ چاپ روٹی کے دونوالے منہ میں ڈالے اور اپنی چارپائی پر چلا گیا۔ ماں نے بہتیرا کہا۔ ”کھاتا کیوں نہیں، بھوکوں مرنے کا ارادہ ہے کیا۔“مگر اُس نے کوئی بھی جواب نہ دیا۔
ماں بھی جھوٹے برتن مانجھ کر اور اُنہیں چارپائی کے اُوپر رکھ کر تھک ٹوٹ کر بستر پر لیٹ گئی۔بہت زیادہ تھکاوٹ کے بعد اسے جلدی نیند آجاتی تھی مگر اس رات وہ دیر تک جاگتی رہی اور جنگل میں جانے کا پروگرام بناتی رہی۔
کمرے کے اندر دروازے کے ساتھ لالٹین لٹک رہی تھی۔ ماں رات کو لالٹین بجھاتی نہیں تھی، اتنی نیچی کر دیتی تھی کہ بڑی ہلکی روشنی لالٹین کے ارد گرد پڑ سکتی تھی۔ بتی اس وجہ سے نہیں بجھاتی تھی کہ رات کو ایک مرتبہ اُٹھ کر عمر دین کو دیکھ لیتی تھی کہ چارپائی پر ہے نا، کہیں پاگل پن میں باہر تو نہیں چلا گیا، جب سے اُس کا گدھا گم ہوا تھا، اُس کا پاگل پن کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا۔
عمر دین لیٹنے کو تو لیٹ گیا تھا، لیکن اُس کی آنکھوں میں نیندکہاں! بار بار کروٹ لیتا تھا، سوچتا تھا اس کا دلبر کہاں گیا، کون اُس کو پکڑ کر لے گیا ہے۔ کہیں وہ نہر میں تو نہیں ڈوب گیا۔
یہ بات سوچتا ہوا سو گیا، یکا یک اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
ماں جو ابھی تک جاگ رہی تھی، چیخ کی آواز سن کر فوراًاُٹھی۔ لالٹین کے پاس گئی۔ اُس کی بتی اُوپر کی اور لالٹین ہاتھ میں لے کر بیٹے کی چارپائی کی طرف آئی۔
عمر دین اُٹھ کربیٹھا ہوا تھا۔
”کیاہوا عمر دین بیٹا؟“
’عمر دین بڑا بے چین دکھائی دیتا تھا، ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔
ماں نے لالٹین برتنوں والی میز کے اُوپر لٹکا دی اور عمر دین کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
”بتانا بیٹا! کیا بات ہے بتاتا کیوں نہیں؟“
”اماں وہ نہر میں ……!“ عمر دین یہی لفظ منہ سے نکال سکا۔
”وہ کو ن؟“
ماں سمجھ گئی کہ اس کے بیٹے نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ اُس کے پاس بیٹھ کر تسلی دینے لگی۔
”نہیں میرے راجہ! وہ نہر میں نہیں ڈوبا، تو نے کوئی خواب دیکھا ہے۔“
”پھر وہ کہاں گیا؟“ عمر دین نے پوچھا۔
”وہ گیا ہے جنگل میں، صبح ہم جائیں گے۔“
”کہاں؟“
”جنگل میں بیٹا! اب تو سوجا، اللہ خیر کرے گا، سوئے گا نہیں گا تو بیمار ہوجائے گا۔ لیٹ جا۔“
عمر دین نے ماں کا کہنا مان لیا اور لیٹ گیا۔
”سو جا میرے اچھے بیٹے!“
یہ کہہ کر ماں نے لالٹین کی بتی نیچی کر دی اور اُس کو دروازے کے ساتھ لٹکا دیا اور آپ بھی چارپائی پر جاکر لیٹ گئی۔

الہ دین کا چراغ
عمر دین لیٹنے کو تو دوبارہ لیٹ گیا مگر اُس کی آنکھوں میں نیند کہاں، وہ سوچتا تھا۔ ”ماں نے کہا ہے میرا دلبر جنگل میں چلا گیا ہے اور صبح ہم بھی جائیں گے اور کیم نے کہا ہے کہ جنگل میں ایک درویش بیٹھا ہے وہ دعا کرے گا، وہ سوچ کر عمر دین کچھ اور فکر مند ہوگیا اور جب اُس نے یہ بات سوچی کہ اس کا دلبر جنگل میں کیا کر رہا ہے، بھوکا ہے یا اُس نے کچھ کھایا بھی ہے تو اُس کی بے چینی اتنی بڑھ گئی کہ وہ چارپائی کے اُوپر بیٹھ گیا۔ اُس نے دیکھا کہ لالٹین میں سے روشنی کی ایک باریک سی لکیر نکل رہی ہے جو ماں کے چہرے پر پڑ رہی ہے۔ ماں کی آنکھیں بند ہیں، وہ سو رہی ہے۔ عمر دین اس قدر بے قرار ہوگیا تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اسی وقت جنگل میں چلا جائے اور اپنے دلبر کو ساتھ لے کر واپس آجائے، مگر وہ یہ بات بھی جانتا تھا کہ اگر وہ اُٹھ کر دروازے پر پہنچا تو ماں کو فوراًمعلوم ہوجائے گا کہ وہ باہر جا رہا ہے اور یہ معلوم ہوتے ہی وہ گالیاں دینے لگے گی اور ممکن ہے پیٹنا بھی شروع کردے، وہ لیٹ گیا۔ کافی دیر گزر گئی مگر سونہ سکا۔ اچانک اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ جنگل میں تو شیر بھی ہوتا ہے۔ شیر گدھے کو کھاجاتا ہے، کہیں کسی شیر کی نظر اُس کے دلبر پر نہ پڑجائے، ورنہ اُسے کھاجائے گا۔ اس خیال کے آتے ہی اُس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ ماں گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔
”کیا ہوا عمر؟“
عمر دین خاموش رہا…… ماں اُس کے پاس آگئی۔
”بتاؤ ہوا کیا ہے؟“
عمر دین نے اب کے بھی کوئی جواب نہ دیا، لیکن اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، ماں تڑپ اُٹھی۔
ٍ اُس نے عمر دین کی پیشانی چومی۔
”روتا کیوں ہے میرے لال؟“
”ماں جنگل میں شیر بھی ہوتا ہے؟“ آخر اس نے یہ فقرہ کہہ ہی دیا۔
ماں نے اُسے تسلی دینے کے لیے کہا۔ ”پگلے! ان چھوٹے جنگلوں میں شیر کہاں، شیر بڑے جنگلوں میں ہوتے ہیں اور بڑے جنگل بہت دور ہیں۔“
عمر دین کسی قدر مطمئن ہوگیا۔
”اب سوجا۔“

عمر دین لیٹ گیا۔ ماں بھی اپنی چارپائی پر چلی گئی، مگر وہ باربار سر اُٹھا کر عمر دین کو دیکھ لیتی تھی کہ کہیں جاگ تو نہیں رہا، مگر وہ جاگ ہی رہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اُس کی آنکھیں بند تھیں۔ صبح ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی کہ اُس کی آنکھ لگ گئی۔ اُس نے خواب میں دیکھا کہ گھر سے دور ایک بیابان میں چلا جارہا ہے۔ چاروں طرف اُونچے اُونچے درخت کھڑے ہیں اور دور دور تک کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا۔
ایک جگہ رک کر وہ اپنے دلبر کو دیکھتا ہے کہ بھاگا جا رہا ہے، دلبر کچھ دیر تو نظر آتا رہتا ہے پھر نظروں سے اُوجھل ہوجاتا ہے۔ عمر دین اُسے زور زور سے آوازیں دیتا ہے۔ ”دلبر…… دلبر…… دلبر۔“ گدھا نظر نہیں آتا۔
”عمر دین بیٹا!“
عمر دین اُٹھا، اب اُس نے دیکھا کہ وہ کسی جنگل میں نہیں، اپنے گھر میں ہے اور چارپائی پر لیٹا ہے، پاس ماں کھڑی ہے۔
”بیٹا! یہ دلبر دلبر کیا کہہ رہے تھے۔ کہیں خواب دیکھا ہے؟“
”نہیں اماں“ عمر دین نے جھوٹ بولا۔
”اچھا اب اُٹھ بیٹھ، میں آگ جلاتی ہوں، رات کی دو روٹیاں پڑی ہیں، گرم کرتی ہوں۔ٹھیکیدار کے گھر سے لسی لے آؤں، تیرے لیے، مکھن بھی لاؤں گی، مزے سے کھانا روٹی پر رکھ کر۔“
ماں دروازے میں سے نکل گئی تو عمر دین بھی باہر نکل آیا۔ شبراتی ڈول میں لسی لے کر اپنے گھر جا رہا تھا۔ عمر دین کو گھر کے باہر پا کر وہ رک گیا۔ عمر دین دوڑکر اس کے پاس چلا گیا۔
”تمہاری ماں ٹھیکیدار کے گھر گئی ہے نا؟“ شبراتی نے پوچھا۔
”ہاں، شبراتی! اماں مجھے جنگل میں لے جائے گی درویش کے پاس۔“
”تو پاگل جوہوگیا ہے۔“
”میں پاگل ہوں!“
”اور کیا، ابا کہتا تھا عمر دین سے بول چال بند کر دے، وہ پاگل ہے،اگر اُس نے مجھے یہاں دیکھ لیا تو مارے گا۔“
عمر دین اُسے آوازیں دیتا رہ گیا اور وہ اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔
”شبراتی نے بڑی بُری خبر سنائی ہے۔ اب وہ مجھ سے ملتے ہوئے گھبرائے گا، کیونکہ اُس کے باپ نے مجھے پاگل کہا ہے، کیا میں پاگل ہوں؟ نہیں، میں پاگل نہیں ہوں۔ دلبر سے پیار کرتا ہوں اس لیے پاگل ہوں۔“
…… اور اُسے یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ وہ چلاجارہا ہے اور گھر سے کافی دور ہوگیا ہے، جب اُسے احساس ہوا کہ وہ بے خبری کی حالت میں چلتا رہا تو اُسے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ افسوس اس وجہ سے ہوا کہ ”اماں لسی لینے گئی ہوئی ہے، واپس آئے گی تو مجھے نہ پا کر کیا کہے گی“۔ وہ واپس آنے والا تھا کہ اُس کی نظر سامنے پڑی۔
دور ایک پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ پہاڑ کی چوٹیاں دکھائی نہیں دیتی تھیں، ادھر اُدھر چھوٹے چھوٹے درخت نظر آرہے تھے۔
وہ کئی منٹ پہاڑی سلسلے کو دیکھتا رہا۔ اسے یوں لگا جیسے پہاڑ ااسے اپنی طرف بلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ تمہارا دلبر ہمارے آس پاس بھاگ رہاہے۔ آؤ اسے لے جاؤ اور وہ واپس آنے کی بجائے ایک طرف جانے لگا۔
وہ چلتا گیا، چلتا گیا، ایک ایسی جگہ پہنچ گیا، جہاں نہ آدم تھا نہ آدم زاد۔ اس کی ماں نے ایک مرتبہ اُسے ایک کہانی سنائی تھی کہ ایک بادشاہ کا بیٹا ہرن کے پیچھے گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے کسی ویرانے میں پہنچ گیا جہاں درختوں کے سواا ور کچھ نہیں تھا۔ عمر دین نے سوچا۔ شہزادہ جس ویرانے میں پہنچا تھا وہ یہی جگہ ہوگی۔
اب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا، صبح اُس نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، اس لیے بھوکا تھا، مگر وہاں کھانے کو کیا تھا، پانی بھی نہیں تھا کہ اُسی سے اپنا پیٹ بھر لیتا۔ وہ کچھ دور آگے چلا گیا۔
”یہیں کہیں درویش ہوگا۔ میں اُس سے کہوں گا۔ درویش جی! میرا دلبر مجھے مل جائے اور وہ دعا کرے گا تو دلبر چلا آئے گا، میں اُس کی رسی پکڑوں گا اور اُسے اپنے گھر لے آؤں گا، اماں حیران ہوجائے گی، سب حیران ہوجائیں گے۔“
مگر اس جگہ تو کوئی انسان موجود ہی نہیں تھا۔ اُس سے چند گز کے فاصلے پر کوئی جانور بھاگ کر غائب ہوگیا۔
”کیا یہ میرا دلبر تو نہیں تھا؟“
تھکاوٹ کے باوجود وہ اُدھر جانے لگا، جہاں وہ جانور غائب ہوگیا تھا۔
چلتے چلتے وہ پسینے میں شرابور ہوگیا۔ سورج اُس سر کے اُوپر چمک رہا تھا اور گرمی سے اُس کا برا حال تھا۔ اُس کی ٹانگوں میں آگے چلنے کی سکت باقی نہیں تھی،اس لیے ایک بہت اُونچے درخت کے نیچے بیٹھ گیا، درخت کے نیچے چھاؤں تھی، اُس نے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے اور یہ پیسنے سے تر ہوگیے، چھاؤں میں بیٹھنے کی وجہ سے اُسے ذرا سکون ملا۔ جس سے وہ آگے چلنے کے قابل ہوگیا۔
مگر اب سوال یہ تھا جائے تو کدھر جائے۔ چاروں طرف درخت ہی درخت تھے، کوئی مکان نہیں تھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ ارد گرد کوئی انسان آباد نہیں ہے۔ اُسے توقع تھی کہ وہ درویش کے پاس پہنچ جائے گا، لیکن اب تک تو درویش کہاں کوئی آدمی بھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ بھوک اور پیاس سے اُس کی حالت بڑی خراب ہوگئی تھی۔ وہ چند منٹ وہاں کھڑا سوچتا رہا کہ کہاں جائے مگر کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ اتنے میں نہ جانے کونسا جانور بھاگتا ہوا اُس کے قریب سے گزرا گیا۔ ڈر کے مارے اُس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اُس جانور کے بعد ایک اور جانور اور اس کے بعد ایک اور جانور لیکن وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔عمر دین درخت سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ جانور گائے جتنا تھا اور گائے ہی کی شکل صورت کا تھا۔ یہ جانور دیکھے بغیر ایک طرف غائب ہوگیا۔ اُس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور اب وہ پچھتا رہا تھا کہ اکیلا کیوں اس ویرانے میں چلا آ یا تھا، کسی جانور نے اُسے دیکھ لیا تو پھر کیا ہوگا؟
درخت کے سائے سے نکل کر وہ پھر دھوپ میں آگیا اور جدھر اُس کا رخ تھا اُدھر قدم اُٹھا نے لگا۔ صبح سے چل رہا تھا اور اُس وقت تک نہ جانے اپنے گھر سے کتنی دور نکل آیا تھا۔ دور ایک مکان دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی اور وہ اُسی طرف جانے لگا۔ اُس نے سمجھا تھا کہ تھوڑی دیر بعد اپنی منزل پرپہنچ جائے گا مگر ہوا یہ کہ جیسے جیسے وہ چلتا جاتا تھا، مکان اُس سے دور ہوتا جارہا تھا۔
اب سورج ڈھلنا شروع ہوگیا تھا۔ دھوپ میں پہلی سی گرمی نہیں رہی تھی۔ وہ چلتا گیا اور آخر کار ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں کوئی مکان تو نہیں تھا البتہ کسی پرانی عمارت کا کھنڈر ضرور نظر آرہا تھا۔
دو تین منٹ کھنڈر کے قریب رک کر اس نے سوچا اندر جائے کہ نہ جائے۔صرف چار پانچ قدم اُٹھا کر وہ اندر جاسکتا تھا اور وہ اندر چلا گیا۔
کسی زمانے میں یہ کوئی خاص عمارت ہوگی اور اس میں لوگ رہتے ہوں گے مگر اب تو وہ صرف ایک بھیانک کھنڈر تھا۔ فقط ایک کمرے کی چھت سلامت تھی۔ باقی کمروں کی دیواریں گر چکی تھیں۔ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اور دوسرے کمرے کے بعد تیسرے کمرے میں چلاگیا۔ تیسرے کمرے کے ایک کونے میں ایک دروازہ تھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ درویش جسے وہ ڈھونڈتے ہوئے اس کھنڈر میں آگیا ہے، اسی دروازے کے پیچھے بیٹھا ہے اور اُس نے دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلا تو چند سیڑھیاں اُس کے سامنے تھیں۔ یہ سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ وہ سیڑھیاں طے کر کے نیچے چلا گیا۔ اندھیرے میں اُسے کچھ بھی نہ دکھائی دیا۔ اچانک اُس کا پاؤں کسی سخت چیز کے ساتھ لگا۔ اُس نے جھک کر وہ چیز اُٹھائی اور گھبرا کر باہر نکل آیا۔
یہ ایک مٹی کابڑا سا دیا تھا۔

وہ اس دیے کو دیکھتا تھا اور اسے الہ دین کے چراغ کی کہانی یادآرہی تھی۔
بچپن میں کئی بار اُس کی ماں نے اُسے یہ کہانی سنائی تھی کہ الہ دین ایک غریب درزی مصطفی کا بیٹھا تھا جو کا م کاج بالکل نہیں کرتا تھا، ایک مرتبہ افریقہ کا جادوگر آیا اور اُسے اپنے ساتھ لے کر کسی جنگل میں پہنچ گیا۔ وہاں جادوگرنے الہ دین کو ایک غار میں اُتارا۔ اُس نے کہاجوچراغ تمہیں ملے وہ مجھے دے دو……
……الہ دین نے کہا پہلے باہر نکالو پھر چراغ دوں گا۔جادو گر نہ مانا اور چلا گیا۔ الہ دین کے ہاتھ سے چراغ گر پڑا تو ایک جن سامنے آگیا……
اور جب اُسے کہانی کایہ حصہ یاد آیا، اُس نے وہ مٹی کا دیا زور سے پکڑ لیا کہ کہیں گر نہ پڑے۔ دراصل وہ جن سے ڈرتا تھااور سمجھتا تھا کہ یہ بھی کوئی ویسا ہی چراغ ہے جیسا الہ دین کو اس غار میں ملا تھا۔
وہ کھنڈر سے باہر آگیا۔ اب وہ واپس گھر جاناچاہتا تھا۔ مگر واپس جانے کے لیے کونسا راستہ اختیار کرے یہ وہ نہیں جانتا تھا۔
ایک بار اُس کے جی میں آئی کہ چراغ کوزمین پر رگڑے اور جب جن سامنے آئے تو اُ س سے کہے۔ ”مجھے اُٹھا کرمیرے گھر پہنچا دو۔“ بھوک اور پیاس کی شدت میں وہ دلبر کو بھی بھول چکاتھا۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ چراغ کو رگڑنا ہی چاہتا تھا کہ اُس کی نظر سامنے پڑی۔ دو بڑی بڑی آنکھیں بڑے خوفناک انداز میں اسے دیکھ رہی تھیں۔ اُس کاہاتھ وہیں کا وہیں رک گیا۔
وہ آنکھیں اُس سے کچھ فاصلے پر چمکتی رہیں۔ یہ ایک جانور کی آنکھیں تھیں۔ وہ سمجھ نہ سکا کہ یہ کیا ہے اور کیوں اسے اس طرح دیکھ رہاہے۔
اُس نے خوف زدہ ہو کراپنی نگاہیں جھکالیں اورجب دوبارہ سامنے دیکھا تو وہ آنکھیں غائب ہوگئی تھیں۔ چلنے کی ہمت نہ ہونے کے باوجودوہ چلنے لگا۔ ایک بار اور اُس نے چراغ زمین پر رگڑنا چاہا۔ جیسے ہی جن کی خوفناک صورت کا خیال اس کے ذہن میں آیا وہ ڈر سے کانپ گیا۔ اس نے چاہا کہ چراغ کو زمین پر رکھ کر آگے چلاجائے۔ مگر اس میں خطرہ یہ تھا کہ چراغ جب زمین سے لگے گا تو جن آموجود ہوگا اور عمر دین جن کے تصور ہی سے ڈرتا تھا۔
نہ جانے وہ اپنے گھر سے اوردورہوگیاتھا یا اس راستے پروہ گامزن تھا جو اس کے گھر کی طرف جاتا تھا۔
دھوپ کی رنگت بدلتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ جنگل سے دھوپ غائب ہوگئی، ہوا تیز ہونے لگی، پھر اندھیرا چھا جانے لگا۔
عمر دین اپنا عام لباس پہنے ہوئے تھا۔ کرتہ اور تہمد۔ سر پر پگڑ ی بھی نہیں تھی۔
اندھیرا گہراہونے لگا۔ ہوا تیز سے تیز تر ہوگئی، بادل زور سے گرجا اور سینے میں اُس کادل دہل گیا، اندھیرا اس قدر بڑھ گیا تھا کہ راستہ ہی دکھائی نہیں دیتا تھا۔
تیز ہوا آندھی بن گئی تھی اور اتنی زبردست تھی کہ وہ محسوس کرنے لگا کہ ابھی وہ اُڑکر کہیں سے کہیں جا پہنچے گا۔
چراغ اُس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور اندھیرے میں چلاجا رہا تھا۔
بجلی چمکی تو وہ سر سے پاؤں تک کانپ اُٹھا اور گرتے گرتے بچا۔
اب بارش شروع ہوگئی تھی، ہوا کی لہریں اُس کے جسم میں داخل ہوکر اذیت پہنچا رہی تھیں، کپڑے بھیگ گئے تھے۔ اس حالت میں چلنا بہت مشکل تھا، بجلی چمکی تو اُس نے دیکھا کہ وہ ایک درخت کے نیچے پہنچ گیا ہے۔ اس نے ایک ہاتھ درخت کے تنے سے لگا دیا۔ دوسرے ہاتھ میں تو چراغ رکھا تھا۔
پانی برستا رہا…… برستا رہا…… بادل گرجتے رہے۔ بجلی چمکتی رہی۔
اُس نے دل ہی دل میں دعا مانگی، ”اللہ میاں! مجھے میرے گھر پہنچا دے۔ میری ماں مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ھوگئی ہوگی۔“
اپنی ماں کا خیال کر کے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔وہ چاہتا تھا کہ دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پہنچ جائے اورپھر کبھی جنگل میں آنے کانام بھی نہ لے۔
بارش کم ہونے لگی۔ یہاں تک کہ تھم گئی۔ لیکن تیز ہوا کے جھونکے برابر چل رہے تھے۔ کپڑے بھیگ کر بوجھل ہوگئے تھے اور جوتوں میں پانی بھرگیا تھا۔
وہ چلنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ تھوڑی دور آگے کسی جانور کی ایک خوفناک آواز بلند ہوئی۔ وہ بے اختیار بھاگنے لگا…… اور بھاگتے ہوئے ایک درخت سے ٹکرا کر گر پڑا۔ زمین پر گرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ ایک بڑی سی خوفناک شکل والا جن اُس کے قریب آگیا ہے اوراُس نے خوف زدہ ہوکر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

نیا علاج
عمردین کی ماں کی بے چینی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ دو دن گزر چکے تھے اوراُس کا بیٹا کہیں بھی نظر نہیں آیا تھا۔ حیران تھی کہ اس کا عمر دین گیا کہاں ہے۔ کہاں غائب ہوگیا ہے۔کیاکسی شخص نے اسے چھپارکھا ہے؟ قصبے میں اس کی کسی سے دشمنی بھی نہیں تھی کہ اُسے دکھ دینے کے لیے اس کے بیٹے کو اپنے گھر میں بند کر لیتا۔ قصبے میں جتنے لوگ بھی اسے جانتے تھے وہ سب اس کا ادب کرتے تھے اور اُس سے ہمدردی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور یہ بات بھی نہیں تھی کہ عمر دین نے کوئی لمبا سفر اختیار کرلیاہو۔ ماں بیٹے میں کبھی کبھی تلخ کلامی ضرور ہوجاتی تھی۔ ماں اُسے بڑی سخت قسم کی بد دعائیں دیتی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اُسے اپنے گلے سے لگا لیتی تھی کیوں کہ دنیا میں یہی اس کا واحد سہاراتھا۔ یہی اس کے دل کاسرور اور اس کی آنکھوں کا نور تھا۔
اس کے تمام ہمسائے عمردین کو ڈھونڈ رہے تھے اور فاطمہ خود ادھر اُدھرپھر رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائے اور اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے کیا کرے۔ اس کے دل کا چین اور رات کی نیند ختم ہوگئی تھی۔دو راتوں سے وہ جاگ رہی تھی، چارپائی پرلیٹتی تھی تو اس خیال سے فوراًاُٹھ بیٹھتی تھی کہ نہ جانے اس وقت اس کے بیٹے کا کیا حال ہو گا اور وہ کس مصیبت میں پھنسا ہوگا۔
یہ بات سوچتے ہی وہ دروازے میں سے نکل جاتی تھی اور جو شخص بھی سامنے دکھائی دیتا تھا اُس سے پوچھتی تھی۔
”کچھ پتا چلا میرے عمر کا!“
وہ شخص نفی میں سر ہلاکرآگے چلا جاتاتھا۔
عام خیال یہ تھا کہ عمردین اپنے گدھے کی تلاش میں کہیں دورچلا گیا ہے اور چونکہ وہ کبھی اپنے قصبے سے باہر نہیں نکلااس لیے گھر کاراستہ بھول گیا ہے، واپس نہیں آسکا اور کہیں بڑی دور بھٹکتا پھر رہا ہے۔ سارے قصبے میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ درزن فاطمہ کا اکلوتا بیٹا دو روز سے گم ہے اور اس کے ہمسائے لڑکے کو ڈھونڈ رہے ہیں۔جہاں بھی کوئی اس قسم کا واقعہ ہوتا ہے تو لوگ طرح طرح کی افواہیں اُڑانے لگتے ہیں۔ مثلاً کوئی کہتا تھا وہ کسی بچوں کو اغوا کرنے والے گروہ کے قبضے میں چلا گیا ہے اور یہ گروہ اسے بیچنے کے لیے دور دراز شہر میں لے گیا ہے۔

کسی دوسرے کی رائے تھی کہ وہ نہر میں نہانے کو اُترا ہو گا اور ڈوب گیا ہو گا۔
یہ اور اس کے ساتھ اور یہ بھی کئی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ کہنے والے کہتے تھے کہ اگر خدا نخواستہ عمردین زندہ نہ رہا تو اُس کی بد نصیب ماں بھی زندہ نہیں رہ سکے گی۔
تیسری صبح آئی تو فاطمہ کچھ کھائے پیئے بغیر ٹھیکیدار کے ہاں پہنچ گئی۔ ٹھیکیدارصاحب بڑے اثرو رسوخ کے آدمی تھے۔انہیں فاطمہ سے ہمدردی بھی تھی۔ جب سے اُنہوں نے سنا تھا کہ عمر دین گھر سے غائب ہے، اُنہوں نے اپنے آدمیوں کو ادھر اُدھربھجوا رکھا تھا کہ عمردین جہاں کہیں بھی دکھائی دے اسے فوراًپکڑ کر واپس لے آئیں۔ انہوں نے پولیس چوکی میں بھی عمردین کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوا دی۔
اتفاق کی بات کہ جس وقت فاطمہ ٹھیکیدارصاحب کے ہاں پہنچی وہ خود ہی اس کے پاس آنے کی تیاری کر رہے تھے۔
”فاطمہ بہن! تمہارا عمردین مل گیا ہے!“
فاطمہ بے تاب ہوگئی۔
”میراعمردین مل گیاہے۔اللہ تیرا لاکھ شکر ہے۔“ ٹھیکیدار کے الفاظ سنتے ہی فاطمہ نے آسمان کی طرف دیکھا اوراللہ کا شکر ادا کیا۔ خوشی سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”کہاں ہے میرابیٹا!“ اُس نے پوچھا۔
”ایک سپاہی نے اطلاع دی ہے کہ وہ ڈسپنسری میں ہے۔“
”ڈسپنسری میں!“
”ہاں بہن۔“
فاطمہ دو تین بار دوا لینے کے لیے ڈسپنسری میں جا چکی تھی اور اُسے معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ دروازے کی طرف جانے لگی تو ٹھیکیدار صاحب بولے۔
”ذرا ٹھہر جاؤ فاطمہ! میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ!“ اور اُنہوں نے پگڑی سر پر رکھی، اپنی چھڑی ہاتھ میں لی اور چلنے لگے۔
فاطمہ کاجی چاہتا تھاکہ اس وقت اُس کے پر لگ جائیں اور وہ پرندوں کی طرح اُڑ کر ڈسپنسر ی میں چلی جائے اور اپنے لاڈلے کو سینے سے لگا لے۔
ڈسپنسری کچھ دور نہیں تھی مگر فاطمہ کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ آج راستہ بہت لمبا ہوگیا ہے، کہیں ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ راہ میں جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ عمر دین کاپتہ چل گیا ہے اور وہ اس وقت ڈسپنسری میں ہے تووہ بھی فاطمہ اور ٹھیکیدار کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ لڑکوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بھاگنے لگے کہ فاطمہ اور ٹھیکیدار سے پہلے ہی وہاں پہنچ جائیں۔
آخر راستہ ختم ہوا۔ فاطمہ تیزی سے اندر گئی،عمردین ایک چارپائی کے اُوپر لیٹا ہوا تھا، اُس کی آنکھیں بند تھیں۔ ماں نے اسے دیکھا اور زور زور سے کہنے لگی۔
”عمر……عمردین …… میرے بیٹے …… میرے لال عمر دین۔“
مگر عمر دین نے آنکھیں نہ کھولیں۔ یہ دیکھ کر فاطمہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیااور اسے ہلانے لگی تھی کہ ڈسپنسری کے کمپونڈر نے کہا۔
”اماں! ابھی ابھی سویا ہے نہ ہلاؤ اور اُس نے،بتایا کہ جب بھی اس کی آنکھ کھلتی ہے۔ ”جن، جن“ کہنے لگتا ہے۔“
”جن، جن کیا؟“ ٹھیکیدار نے پوچھا۔
”پتا نہیں جی کیا بات ہے، معلوم ہوتا ہے ڈر گیا ہے“ کمپونڈر نے جواب دیا۔
”یہ یہاں آیا کیسے!“
کمپونڈرنے جواب دیا۔ ”محکمہ جنگلات کا ایک افسر اپنی گاڑی میں چھوڑ گیا ہے، وہ کہتا تھا کہ”یہ لڑکاجنگل میں بے ہوش پڑا ملاتھا“ اور اس لیے چھوڑ گیا ہے کہ کسی نے اُسے بتایا تھاکہ یہ اس قصبے کا ہے۔“
”یہ جنگل میں لینے کیا گیا تھا!“ ٹھیکیدار نے بے ہوش عمردین کے چہرے پر جھکتے ہوئے کہا۔
”اُسی بلا کے پیچھے گیا ہوگا؟“ عمردین کی ماں نے کہا۔ بلا سے اُس کی مراد گدھا تھا۔ جس کی جدائی میں اُس کا بیٹا بہت پریشان ہو گیا تھا۔
ٹھیکیدار تو چند منٹ ٹھہر کر چلے گئے مگر عمر دین کی ماں بھلا کہاں جاسکتی تھی۔ وہ بار بار بیٹے کو بلاتی تھی مگر عمر دین ابھی تک ہوش میں نہیں آیا تھا۔ آدھ گھنٹے کے بعد اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ حیرت سے ادھر اُدھر دیکھا۔
ماں کی جان میں جان آئی اور وہ عمر دین کے دونوں بازو پکڑ کر بولی! ”عمر دینا! کیا ہو گیا ہے تجھے بیٹا! دیکھ میں تیری ماں ہوں۔“
عمر دین ٹکٹکی باندھ کرماں کو دیکھ رہا تھا۔اس کے منہ سے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں نکلا تھا۔
”عمردینا! عمر دینا۔“
عمردین کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور وہ بڑی آہستہ سے بولا۔
”اماں!“
”میں صدقے۔ میں واری۔ عمر دین بیٹا۔ ہوا کیا تھا؟“
”جن آگیا تھا“ عمر دین کی آواز کسی قدر بلند ہو گئی تھی۔
”جن کہاں بیٹا؟“
”وہ دیا…… الہ دین والا دیا……“
ماں کچھ بھی نہ سمجھ سکی کہ الہ دین والے دیے سے اُس کی کیا مراد ہے۔
”اماں کہاں ہے وہ!“
”کیا میرے بیٹے؟“
”وہ دیا کہاں ہے؟“
ماں نے ادھر اُدھر دیکھا۔
”عمر دین نے اپنے جسم کے کسی حصے میں درد محسوس کرتے ہوئے کہا۔
ماں چارپائی کے پاس فرش پر بیٹھ گئی۔ اتنے میں شبراتی بھی آگیا۔ شبراتی کے آتے ہی عمر دین کی حالت پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔
”چا چا چونچ! یار تو کہاں چلا گیا تھا؟“
عمر دین نے کوئی لفظ نہ کہا۔ لیکن اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
تھوڑی دیر بعد عمر دین کی حالت اور بہتر ہوگئی اور اُس کی ماں کچھ لوگوں کی مددسے اپنے بیٹے کو گھر لے آئی۔
شام تک عمر دین کی حالت اور بہتر ہوگئی۔ اُس وقت اُس نے بتایا کہ وہ جنگل میں کس غرض سے گیا تھا اور کیسے کھنڈر کے تہ خانے میں سے الہ دین والا دیا ملا تھا۔ یہ سن کر شبراتی زور سے ہنس پڑا۔ ماں بھی ہنسنے لگی مگر عمر دین سنجیدہ ہی رہا۔ وہ ابھی تک سوچ ہی رہا تھا کہ جنگل میں جب وہ درخت سے ٹکڑا کر گر پڑا تھا تو دیا زمین سے جا لگا تھا اور اُسی وقت ایک خوفناک جن اُس کے سامنے آگیا تھا۔
”چاچا چونچ! یار وہ الہ دین والا چراغ لے آتے۔ مزے سے پلاؤ، قورمہ، برفی منگواتے!“
”وہ جنگل ہی میں رہ گیا ہے۔“
”اچھا ٹھیک ہو جاؤ…… جا کر لے آئیں گے!‘‘

”خبردار مردار! جنگل کا نام مت لے۔ کیا پٹی پڑھا رہا ہے اسے۔“ ماں جو بیٹے کے لیے کھچڑی پکا رہی تھی۔ شبراتی کے الفاظ سن کر بولی۔
کھچڑی پک گئی تو عمر دین نے بہ مشکل تین یا چار چمچ منہ میں ڈالے۔ شبراتی دیر تک اُس کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ وہ توجانے کانام ہی نہیں لیتا تھا مگر اُس کاباپ بیٹے کولینے کے لیے وہاں آگیا اور وہ باپ کے ساتھ چلا گیا۔
”بیٹا!اب سو جا۔“ ماں نے لالٹین کی بتی ذرا نیچی کر دی تاکہ روشنی کم ہوجائے اور اُس کا بیٹا آرام سے سو جائے۔
”نیند آرہی ہے نا!“ ماں نے پوچھا۔
ؑ عمر دین پر غنودگی طاری تھی۔اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ماں نے جب دیکھا کہ عمر دین کی آنکھیں بند ہوگئی ہیں تو یہ سمجھ کر اپنی چارپائی پر چلی گئی کہ وہ اب ساری رات سوتا رہے گا۔ وہ دو راتوں سے جاگ رہی تھی، اس لیے چارپائی پر لیٹتے ہی اُس کی آنکھ لگ گئی۔
وہ سو رہی تھی کہ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اُس کا بیٹا چیخیں مار رہا ہے، فوراً جاگ اُٹھی، بیٹے کی چارپائی کے پاس آئی۔ لالٹین کی بڑی مدھم روشنی میں اُس نے دیکھا کہ اُس کا بیٹا کانپ رہا ہے، وہ اس وقت لالٹین لے آئی۔ اُس کی بتی اُونچی کی۔
”عمردینا! عمر دینا!“
عمر دین کانپ رہا تھا۔
ٍ ”عمر دینا! میرے لال! بات کیا ہے؟“
”اماں!“
”ہاں میرے لال!“
”وہ …… جن“
”عمر دینا …… جن کہاں؟“
عمردین نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
ٍ ”کیوں بیٹا! آنکھیں کھول،دیکھ تو اپنے گھر میں ہے، جنگل میں نہیں، مجھے نہیں پہچانتا،میں تیری اماں ہوں عمردین! …… عمردینا!“
عمردین نے آنکھیں کھول دیں اورآہستہ آہستہ ماں کو بتانے لگا کہ وہ کیوں جنگل میں گیا تھا، اور کہاں اسے ایک چراغ ملا تھا، یہ چراغ الہ دین کا تھا۔ جس کو رگڑنے سے جن آجاتا ہے اور جب وہ ایک درخت سے ٹکرا کر گر پڑا تھا تو جن سامنے آگیا تھا۔
ماں بڑے غور سے اُس کی باتیں سنتی رہی، جب وہ اپنا حال بیان کرچکا تو وہ بولی۔ ”عمر دینا! وہ چراغ واغ وہیں رہ گیا۔ اب کبھی جن تیرے پاس نہیں آئے گا، ہمیں کسی جن کی ضرورت نہیں۔“
اس کے بعد عمر دین نے کوئی بات نہ کی۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور تھوڑی دیر بعد سوگیا۔ ماں نے لالٹین کی بتی نیچی کی۔ اسے اپنی جگہ پر لٹکایا اور اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔ ہر گھڑی اُسے اس بات کا دھڑکا لگا تھا کہ ابھی اُس کا بیٹا چیخ مار کر جاگ اُٹھے گا اور اُسے لالٹین لے کر اُس کے پاس جانا پڑے گا۔ مگر آدھ گھنٹہ گزر گیا اور عمر دین سویا رہا۔ اس کی ماں سوچنے لگی کہ اب وہ کیا کرے، کیا صبح اُسے جنگل میں درویش کے پاس لے جائے یا وہاں جانے کا خیال ہی دل سے نکال دے۔ عمر دین نے ابھی تک اپنے دلبر کے بارے میں کوئی لفظ اپنے منہ سے نہیں نکالا تھا اوراس سے اُمید بندھی تھی کہ شاید اب وہ اپنے گدھے کو بھول جائے گا اور اس کی تلاش میں پہلے کی طرح پریشان نہیں ہوگا۔ شبراتی صبح سویرے وہاں آگیا۔ اسے عمر دین کے قریب چھوڑ کر فاطمہ سلے ہوئے کپڑے اپنے گاہکوں کو دینے چلی گئی اور جب آئی تو وہ ایک حلوائی سے گرم گرم حلوہ لے آئی۔جسے اُس نے تھالی میں ڈال کر عمر دین کے آگے رکھ دیا۔ عمر دین حلوہ بڑے شوق سے کھایا کرتا تھا، مگر اُس نے ماں سے کہہ دیا ”اماں! میں حلوہ نہیں کھاؤں گا، تاہم ماں کے بے حد اصرار پر اُس نے تھوڑا سا کھالیا۔“ شبراتی نے کہا ”خالہ! میں اور عمر دین باہر گھومنے جاتے ہیں۔“
فاطمہ نہیں چاہتی تھی کہ عمر دین کو باہر جانے کی اجازت دے لیکن عمر دین کی ضد بڑھتی گئی اور وہ اُسے گھر سے باہر جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئی۔
جب عمر دین اور شبراتی ندی کے کنارے پہنچے تو عمر دین بے چین ہوگیا۔
”میرا دلبر کہاں گیا شبراتی؟“
”یار اب دفع کرو اسے مر کھپ گیا ہوگا۔“
”نہیں یار! وہ بے چارہ بھوکا تھا۔“
”تو بھوک سے مر گیا ہوگا۔“
”بھوک سے مر گیا ہوگا۔ ہائے اللہ“ عمر دین رونے لگا۔
شبراتی کو اس بات کا خیال ہی نہیں تھا کہ دلبر کے ذکر سے رو پڑے گا۔ اُسے اور تو کچھ نہ سوجھا۔ کہنے لگا۔”روتا کیوں ہے چاچا چونچ! ہم جنگل میں جائیں گے!“
”دلبر مل جائے گا نا؟ عمر دین نے پوچھا۔
”دلبر ملے گا کہ نہیں، پتا نہیں۔ شیر ضرور ملے گا!“
”کیا کہا۔“
”شیر …… شیر …… اتنا بڑا…… آدمی کو دیکھتے ہی ہڑپ کر جاتا ہے، ابا کہتا تھا وہ کئی لوگوں کو کھا چکا ہے۔“ عمر دین پر خوف طاری ہوگیا۔
”شکر کرو تمہیں شیر نے دیکھا نہیں، دیکھ لیتا تو اب تم اُس کے پیٹ میں ہوتے۔“
عمر دین کو خیال آیا۔ شیر سچ مچ دیکھ لیتا تو کیا ہوتا۔ وہ تو ایک منٹ میں اسے چیرپھاڑ ڈالتا۔
”چلو گے جنگل میں؟“ شبراتی نے پوچھا۔
”وہاں شیر ہے …… تم کہتے ہو!“
”تو کیا میں جھوٹ بولتا ہوں، کسی سے بھی پوچھ لو۔ لوگ شہر سے آئے تھے کہ اسے پکڑ کر چڑیا گھر کے پنجرے میں بند کردیں مگر وہ اتنا زبردست ہے کہ اُن کے قابو ہی نہیں آیا اور وہ لوگ ڈر کر چلے گئے، شاید پھر کبھی آئیں گے۔“
”چلو گھر چلیں“ عمر دین اور خوف زدہ ہوگیا۔
اتنے میں عمر دین کی ماں فاطمہ آگئی۔
”خالہ! اب یہ کبھی گدھے کو ڈھونڈنے جنگل میں نہیں جائے گا۔ وہاں خالہ! شیر ہوتا ہے نا…… یہ بڑا سا ہاتھی جتنا۔“
فاطمہ اپنی ہنسی روک نہ سکی۔
”ہاتھی جتنا بڑا شیر؟“

فاطمہ نے عمر دین کی طرف دیکھا، اُسن کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔
”دفع دور ہونا مراد! میرے بچے کو ڈرا رہا ہے۔“
”اچھا خالہ! میں نہیں ڈراتا۔ چاچا چونچ! ہم جنگل میں جائیں گے، دلبر کو ڈھونڈنے۔“
”لعنت تجھ پر۔“
”خالہ تو خود ہی کہتی ہے جنگل میں شیر ہے نہیں۔“
فاطمہ نے اس میں بھلائی دیکھی کہ شبراتی شرارت سے جو کچھ کہہ رہا ہے، اُس کی تائید کر دے۔ اگر وہ اس کے خیال کو جھٹلاتی ہے تو اُس کا بیٹا پھر کسی دن جنگل میں چلا جائے گا۔
”چل اب گھر چل“ وہ بولی۔
تینوں گھر پہنچ گئے، شبراتی چلا گیا، فاطمہ نے دیکھا کہ اُس کا بیٹا چپ چپ ہے، اس سے اس کی فکر بڑھ گئی، کہیں وہ گدھے کا خیال تو نہیں کر رہا، شیر کے خیال نے اسے ڈرا تو نہیں دیا۔
”عمر دین کھاؤ گے نا حلوہ گرم کر کے لاؤں؟“
عمر دین اس مرتبہ بھی خاموش رہا۔ فاطمہ نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور جیسے ہی اُس کی اُنگلیاں عمر دین کے ہاتھ کو چھونے لگیں اُسے یوں لگا۔ جیسے یہ انگلیاں گرم توے سے جا لگ ہیں۔
”ہائے عمر دینا! تجھے تو بخار ہوگیا ہے“ فاطمہ گھبرا گئی کیونکہ عمر دین کا بدن بہت گرم تھا۔ وہ حکیم صاحب کی طرف جانا چاہتی تھی مگر اُس وقت گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ بیمار لڑکے کو کس کے حوالے کر کے جاتی؟ فاطمہ نے عمر دین کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے زور زور سے کہا۔
”عمر دینا! میرے بچے!“ لیکن عمر دین کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی۔ ماں کی پریشانی اور بڑھ گئی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اُس وقت شبراتی آگیا۔ اُس نے جو فاطمہ کو اس قدر پریشان پایا تو بولا۔ ”خالہ! کیا بات ہے!“
فاطمہ نے کہا۔ ”دیکھ تیرا یار بولتا ہی نہیں۔ اللہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے۔“ شبراتی نے بھی عمر دین کو بلایا مگر اُس کی آنکھیں بند تھیں اور اُس کا ماتھا بڑا گرم تھا۔ شبراتی نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ پھر بھی عمر دین پر کوئی اثر نہ ہوا۔ فاطمہ کی پریشانی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے شبراتی سے کہا۔ ”شبراتی! جا بھاگ کر۔ کیم مستی کو بلا لا۔ ہائے میرے اللہ۔ میرے بچے کو کیا ہو گیا ہے۔“
شبراتی تو پہلے ہی اس کام کے لیے تیار تھا۔فوراً دروازے سے نکل گیا۔ شبراتی کے جانے کے بعد فاطمہ گلاس میں دودھ لے آئی اور چمچ سے اُس کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگی۔ دودھ کے چند ہی قطرے عمردین کے منہ کے اندر گئے ہوں گے۔ کیونکہ وہ منہ کھولتا ہی نہیں تھا۔ فاطمہ نے گلاس نیچے زمین پر رکھ دیا اور ہاتھ سے عمر دین کا بازو ہلا ہلاکراسے بلانے لگی۔اتنے میں شبراتی کا باپ فیروز آگیا۔ شبراتی نے اُسے بتا دیا تھا کہ عمر دین کی کیا حالت ہے اور خالہ کتنی پریشان ہے۔ اس نے آتے ہی فاطمہ کو تسلی دی۔ ”کوئی فکر کی بات نہیں بہن! بخار اُتر جائے گا!“ اور یہ کہتے ہوئے اُس نے بھی عمر دین کے ماتھے کو ہاتھ سے چھوا اوراسے آواز دی۔ اب کے عمر دین نے آنکھیں کھول دیں۔ فاطمہ کو ذرا اطمینان ہوا اور اُس نے زمین سے گلاس اُٹھا لیا۔
”کیا کرنے لگی ہے بہن!“
”دودھ بھی نہیں پیتا“
”بہن!تو بھی اول درجے کی پاگل ہے۔ رات کا دودھ گرم بھی نہیں کیا اور لے آئی ہے بیمار بچے کو پلانے۔ جا گرم کر کے لا!“ فیروز نے کہا۔
”میں بڑی گھبرا گئی تھی …… جان ہی نکل گئی تھی میری!“
”تیری جان تو یونہی نکل جاتی ہے ……جاگرم کرکے لا۔ میں پلاؤں گا اپنے بیٹے کو۔“
فاطمہ گلاس لے کر چلی گئی۔ فیروز عمر دین کی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
”عمر دین!“ اُس نے عمر دین کے چہرے پر جھک کر بڑے پیار سے کہا۔
”جی!“ عمر دین کے ہونٹوں سے ہلکی سے آواز نکلی۔
”کیا بات ہے بیٹا؟“
عمر دین نے نفی میں سر ہلا دیا۔ زبان سے کوئی آواز نہ نکالی۔
”تو ڈر گیا ہے نا۔ یار! تو بھی عجیب آدمی ہے۔ بھلا بہادر لڑکے بھی ڈرتے ہیں؟“
فیروز نے بے تکلفی کے انداز میں اس قسم کی باتیں کیں تو عمردین کی حالت بدلنے لگی۔ وہ اب ہر بات کا جواب دینے لگا۔
فاطمہ دودھ گرم کر کے لے آئی۔ فیروز نے خود اپنے ہاتھ میں گلاس لے لیا۔
”اُٹھ بیٹھ یار!“ فیروز نے کہا۔
”لیٹا رہنے دے!“ فاطمہ نے مشورہ دیا۔
”تو مت مشورہ دے فاطمہ! میں جانوں اورمیراکام۔دیکھ میراچھا بیٹا کس طرح دودھ پیتا ہے۔“ اور واقعی عمر دین بیٹھ گیا۔ اُس نے دو گھونٹ دودھ پی لیا۔
”اور بیٹا؟“
”بس چاچا!“
”ارے چاچا میں ہوں یا تو ہے …… چاچا چونچ۔ واہ بھئی واہ!“ فیروز ہنس پڑا۔ عمر دین کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
”لے بہن سنبھال اپنے بیٹے کو، میں چلا، کاریگر انتظار کر رہا ہوگا، بہت کام کرنا ہے آج تو۔“ فیروز نے کہا۔ گلاس فاطمہ کے ہاتھ میں دیا اور عمردین سے مخاطب ہوکر بولا۔”میں جارہا ہوں۔“ پھر ذرا ٹھہر کر کہنے لگا۔”اب میری بہن کو پریشان نہ کرنا، سن لیا۔“
عمردین نے اثبات میں سر ہلا دیا اور فیروز چلا گیا۔
فاطمہ نے چاہا کہ بیٹے کو کچھ اور دودھ پلا دے۔ اس غرض سے چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر دین نے اُس کا ارادہ بھانپ لیا۔
”نہیں اماں! میں دودھ نہیں پیوں گا۔“
”پی لے نا۔ تیرے لیے حلوہ بھی بناؤں گی،میٹھی روٹی بھی پکاؤں گی، کھچڑی بھی پکاؤں گی، پکوڑے بھی بناؤں گی۔ ہیں نا …… کھائے گا نا…… کھائے گا نا میرا بچہ۔“
”کچھ ہمیں بھی ملے گا کہ نہیں؟“

فاطمہ نے دروازے کی طرف دیکھا۔ حکیم صاحب اندر آچکے تھے اور اُس کا فقرہ سن چکے تھے۔
”آؤ کیم جی……“
حکیم صاحب نے عمر دین کے چہرے کو چند لمحے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔
”جنگل میں چلا گیا تھا“ فاطمہ نے حکیم صاحب کو ساری بات سنانی چاہی مگر حکیم صاحب نے اُسے ٹوک دیا۔
”شبراتی مجھے سب کچھ بتا چکا ہے۔“
شبراتی جو حکیم صاحب کے قریب کھڑا تھا۔ بولا،”خالہ! میں نے کیم جی کو سب کچھ بتا دیا ہے۔“
حکیم صاحب عمر دین کے بالکل قریب پہنچ گئے۔
ٍ ”ٹھیک، ٹھیک“ حکیم صاحب نے کہا۔
”بڑا تیز بخار ہے …… کیم جی…… پہلے تو آنکھیں ہی نہیں کھولتا تھا۔“
”ٹھیک، ٹھیک“
”بات ہی نہیں کرتا۔“
”مجھے معلوم ہے۔“
”دودھ بھی نہیں پیتا تھا۔“
حکیم صاحب کو غصہ آگیا۔ ”فاطمہ! میں جانتا ہوں، تومت بول، مجھے بیمار کی حالت پر غور کرنے دے۔“
اور حکیم صاحب بڑے غور سے عمر دین کے چہرے کو دیکھنے لگے۔
”کیم جی! کچھ کھاتا ہی نہیں“ فاطمہ بولی۔
”چپ کر فاطمہ! چپ کر جا، مجھے غور کرنے دے، معاملہ بڑا پیچیدہ ہے تونہیں سمجھتی۔میرا وقت ضائع مت کر۔ حکیم صاحب کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔“
”پاجیدہ کیا حکیم صاحب جی!“
”پاجیدہ نہیں، پیچیدہ …… پے چیدہ یعنی پیچیدہ……یعنی کہ ……یعنی کہ پے۔چی۔دہ۔“
”پے۔چی۔دہ۔“ اور یہ کہتے ہوئے شبراتی بے اختیار ہنس پڑا۔
”چپ کرگدھے!‘ ‘
”کیم جی! گدھا تواس کاہے۔ “
”تو بھی گدھا ہے…… اول درجے کا گدھا، خدا کی پناہ۔کن گدھوں سے واسطہ پڑا ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر گدھا ہے۔“
”کیم جی!“ فاطمہ نے آہستہ سے کہا۔
”کیا ہے؟“ حکیم صاحب گرجے۔
”کیم جی! گدھا، گدھا مت کہیے۔ اسے وہ یاد آجائے گا۔“
”وہ تو اس کے اندر ہے“ حکیم صاحب نے اُسی طرح بلند آواز سے کہا۔
”ہائے اللہ……وہ اس کے اندر ہے؟“ فاطمہ نے زور سے اپنے ماتھے پر مارا۔
عمر دین یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ مگر اُس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ اُس پر کسی بات کا اثر نہیں ہو رہا۔
حکیم صاحب ایک دو منٹ نہ جانے کس مسئلے پر غور کرتے رہے، پھر بولے۔
”اب کوئی نہ بولے، مجھے معلوم کرنے دو کہ اصل میں معاملہ کیا ہے۔“ اور یہ کہہ کہ وہ آگے بڑھ کر عمر دین کے چہرے کے قریب پہنچ گئے۔
”عمر دین بیٹا!“
”جی!“
”جو میں کہتا جاؤں تم بھی کہتے جاؤ …… شاباش کہو عمر دین بیٹے! الف سے اللہ۔“
عمر دین چپ چاپ حکیم صاحب کو دیکھتا رہا۔
”میں کہتا ہوں کہو الف سے اللہ۔“
”الف سے……“
”اللہ بیٹا …… اللہ…… ہم سب کو پیدا کرنے والا، پالنے والا اللہ۔ رحیم۔ کریم، کہو الف سے اللہ۔“
”عمر دین نے کہا،”الف سے اللہ۔“
”شاباش، اب کہو ب سے ……ب سے بکری۔“
”ب سے بکری“ عمر دین نے کہہ دیا۔
”واہ…… واہ تم تو بہت ہی اچھے بچے بن گئے ہو۔ اب کہو ج سے جانور۔
”ج سے جانور۔“
”ج سے جانور ……اور د سے دلبر۔“
”ج سے جانور“ عمر دین نے حکیم صاحب کا فقرہ دہرایا۔
”یہ بھی کہو نا…… د سے دلبر۔“
عمر دین نے یہ فقرہ نہ دہرایا۔
”کہو بیٹا …… د سے دلبر۔“
حکیم صاحب نے کئی بار یہ فقرہ کہا مگر عمر دین نے تو اپنی آنکھیں ہی بند کر لی تھیں۔اسے یہ فقرہ نہ دہرانا تھا نہ دہرایا۔ حکیم صاحب! فاطمہ سے مخاطب ہوا۔ ”دیکھ لیا فاطمہ! میرا خیال بالکل صحیح نکلا“
”کیا خیال کیم جی؟“
”یہ خیال کہ دلبر اس کے اندر ہے“ حکیم صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔
”دلب …… وہ گدھا نامراد۔کیم جی خدا کا خوف کرو خدا کو جان دینی ہے۔“
حکیم صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
”فاطمہ! تو نہیں جانتی، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تیرے بیٹے کے اندر ایک گدھے کی روح چلی گئی ہے۔ اور اب بھی کہتا ہوں کہ اس کے اندر گدھے کی روح موجود ہے۔ تو نہیں مانتی!“
”کیم! بھلا یہ کوئی ماننے کی بات ہے؟“ فاطمہ نے کہا۔
”اچھا تو نہیں مانتی تو آزما لے۔“
”وہ کس طرح۔“
”تیرا بیٹا کیا چیز بڑے شوق سے کھاتا ہے؟“
”حلوہ کھاتا ہے“ فاطمہ نے جواب دیا۔
ٍ ”پھر یوں کر کہ ایک پلیٹ میں حلوہ رکھ دے اور دوسری میں گھاس۔“
”دوسری میں کیا؟“ فاطمہ نے پوچھا۔

”گھاس …… تو نہیں جانتی گھاس کیا ہوتی ہے۔ گدھا کیا کھاتا ہے۔ چارہ، گھاس۔“
”ہائے، ہائے گھاس کیوں رکھوں؟“
”فاطمہ!تو اپنے بیٹے کا علاج کرانا چاہتی ہے کہ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے تو بیٹے کو مریض ہی رکھنا چاہتی ہے۔ تیری مرضی۔ میں تو چاہتا تھا کہ اس کا علاج کروں اور یہ بالکل ٹھیک ہوجائے مگر تو نہیں چاہتی، میں جانتا ہوں“ اور حکیم صاحب دروازے کی طرف جانے لگے۔
”کیم! خدا کے لیے نہ جاؤ“ فاطمہ نے کہا۔
حکیم صاحب کے قدم رک گئے۔
”اگر تو علاج چاہتی ہے تو جس طرح میں کہتا ہوں اس طرح کر، تیرا بیٹا بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ فاطمہ میرے اندر علم ہے اور یہی علم مجھ سے کہتا ہے کہ یہ کر اور وہ کر۔تو ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتی۔یہ بڑی اُونچی باتیں ہیں۔ سمجھ لیا کہ نہیں!“
فاطمہ نے آہستہ سے کہا۔ ”سمجھ لیا“
”بس ایک تھالی میں حلوہ…… اور دوسری……“
حکیم صاحب نے لفظ منہ سے نکالا ہی نہیں تھا کہ شبراتی جلدی سے بول اُٹھا۔”گھاس میں لے آؤں گا۔“
” شام کے وقت آؤں گا۔“ یہ کہہ کر حکیم صاحب صاحب چلے گئے۔
حکیم صاحب کے جانے کے بعد فاطمہ حیران تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے، حکیم صاحب اس کے بیٹے کا عجیب طرح علاج کر رہے تھے۔ بھلا گھاس سے کیا ہوگا۔ مگر جب اُس کو حکیم صاحب کے یہ الفاظ یاد آئے کہ ”فاطمہ! تو ان باتوں کو نہیں جانتی۔ یہ بڑی اُونچی باتیں ہیں تو وہ حکیم صاحب کی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔“
”خالہ گھاس لے آؤں!“
”اے دفعان ہو“ فاطمہ نے کہا، شبراتی کو ہونے والے واقعے کا بڑا انتظار تھا، وہ فوراً گھاس لینے کے لیے چلا گیا۔
فاطمہ نے چولہے میں آگ جلائی، آگ جلاتے وقت اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ اپنے بیٹے کی طرف سے پریشان تھی۔
جب حلوہ پک گیا تو اس نے دیگچی چولھے سے اُتار دی اور ایک تھالی میں حلوہ ڈال دیا۔
”اماں حلوہ!“ عمر دین نے حلوے کی خوشبو سونگھ لی۔
”کھائے گا بیٹا!“
”نہیں“
فاطمہ کا دل بیٹے کی ”نہیں“ سن کرمایوس ہوگیا۔
شبراتی ایک بڑے رومال میں گھاس لے آیا۔ فاطمہ نے گھاس پر نظر ڈالی تو اسے یہ سوچ کر دکھ ہوا کہ کہیں حکیم اس کے بیٹے کو گھاس ہی نہ کھلا دے۔ انسان بھلا گھاس کس طرح کھا سکتا ہے!
ابھی شام ہونے میں کافی دیر باقی تھی کہ حکیم صاحب آگئے اور اُنہوں نے آتے ہی کہا۔
”دونوں چیزیں لے آؤ۔“
”کیم جی حلوہ!“ فاطمہ نے پوچھا۔
”حلوہ لاؤ۔“
فاطمہ تھالی میں حلوہ لے کر آگئی اور عمر دین کی چارپائی کے پاس کھڑی ہوگئی۔
”وہ نہیں منگوایا؟“ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”کیا کیم جی؟“
”گھاس …… گھاس…… کہا تھا گھاس منگواؤ، کیوں نہیں منگوایا؟“
شبراتی جھٹ بول اُٹھا، ”کیم جی! وہ میں لے آیا ہوں۔“
”لاؤ وہ بھی!“ حکیم صاحب نے حکم دیا۔
فاطمہ کیا کرتی گھاس بھی لے آئی، رومال میں بندھا ہوا۔
”فاطمہ تجھے کب عقل آئے گی، اسے بھی حلوے کی طرح تھالی میں ڈال کر لا!“
فاطمہ گھاس بھی تھالی میں لے آئی۔
حکیم صاحب نے دونوں تھالیاں عمر دین کی چارپائی پر رکھ دیں۔
”اب کوئی نہ بولے، بلکہ سب کے سب باہر چلے جاؤ۔“
وہاں محلے کے کئی لوگ آگئے تھے تماشا دیکھنے کے لیے، حکیم صاحب نے ان سب کو دروازے میں سے نکال دیا، فاطمہ سے کہا۔ ”فاطمہ! تو یہیں رہ اور دیکھ اللہ کی قدرت کا تماشا۔“
عمر دین بہت گھبرا رہا تھا کہ یہ اس کے ساتھ کیاہورہا ہے۔
حکیم صاحب نے عمردین کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا شروع کردیا۔
”اگر تو حلوہ کھانا چاہتا ہے تو حلوہ کھا لے، گھاس پسند ہے تو گھاس۔“
فاطمہ خاموش نہ رہ سکی۔
”حکیم جی! میر ابچہ آدمی ہے، آدم زاد ہے۔“
”تو چپ نہیں کرے گی،کیا بیٹے کی جان گنوا کر رہے گی؟“
حکیم صاحب کے یہ الفاظ سن کر فاطمہ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔
عمردین کی سمجھ میں حکیم صاحب کی بات آئی ہی نہیں تھی، وہ کبھی ماں کو دیکھتا تھا اور کبھی حکیم صاحب کو۔کھاؤ بیٹا کھاؤ۔ حکیم صاحب نے پیار سے عمر دین کو مخاطب کیامگر عمردین اُسی طرح پریشان بیٹھا رہا۔
شبراتی کو جوشرارت سوجھی تو حکیم صاحب سے بولا، ”کیم جی! میں کھلاؤں اسے؟“
”کیا کھاؤ گے۔“
”حلوہ!“
”چل پیچھے ہٹ حلوہ کھلانے والا۔“
شبراتی اور کچھ نہ کہہ سکا۔
کئی منٹ گزر گئے اور حکیم صاحب عمردین کو بار بار کہتے رہے، کھاؤ بیٹا، کھاؤ نا۔“
عمر دین تنگ آگیا، آخر اس نے کہہ دیا۔ ”میں نہیں کھاتا۔“
حکیم صاحب نے جیسے ہی یہ الفاظ سنے کہنے لگے۔
”دیکھا! میں نہ کہتا تھا، یہ حلوہ نہیں کھائے گا، کہتا ہے نا، میں نہیں کھاتا۔“
”کیم جی! اس نے یہ کب کہا ہے کہ میں حلوہ نہیں کھاتا؟“فاطمہ بولی۔
”تو پاگل ہے اصل معاملہ نہیں سمجھ سکتی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ حلوہ نہیں کھاتا اور کھائے بھی کیسے، اس کے اندر تو گدھے کی روح چلی گئی ہے“ حکیم صاحب نے کہا۔

”تو اب کیا ہوگا؟“ فاطمہ نے حکیم صاحب سے پوچھا۔
”اب صحیح علاج ہوگا، میں اپنے گھر جا کر اس معاملے پر غور کرتا ہوں کہ علاج کیسے ہونا چاہیے، میرے گھر میں میرے دادا جان کی بہت قیمتی کتابیں پڑی ہیں۔ اُنھیں بھی دیکھتا ہوں، کسی کتاب میں سے کوئی بہت اچھا نسخہ مل جائے گا۔“
حکیم صاحب جانے لگے مگر دروازے پر پہنچ کر رک گئے۔
”دیکھو بہن! گھاس والی تھالی کہیں سنبھال کررکھ اور حلوہ آدھا اپنے پاس اور آھا میرے گھر بجھوا دیے، غور کرتے کرتے تھک جاؤں گا تو ذرا منہ میٹھا کر لوں گا۔ اچھا۔“
حکیم صاحب چلے گئے۔
عمر دین کی یہ حالت تھی کہ اُس کے منہ سے کوئی لفظ ہی نہیں نکلتا تھا۔ فاطمہ نے اُسے بار بار بلایا مگر وہ نہ بولا، اس پر فاطمہ ڈر گئی اسے حکیم صاحب کی اس بات پر یقین آ گیا کہ اس کے بیٹے کے اندر ضرور گدھے کی روح چلی گئی ہے، اس لیے وہ اتنا بیمار ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد حکیم صاحب دوبارہ آگئے۔
”دیکھ بہن! تیرے بیٹے کا علاج ہوجائے گا۔ انشا اللہ بالکل ٹھیک ہوجائے۔ میرے ساتھ ایک سائیں آئے گا۔ جو ولی اللہ ہے۔ یہ سائیں تیرے بیٹے کی روح نکال کراپنے اندر ڈال لے گا۔“
”میرے بیٹے کی روح…… ہائے اللہ…… روح کے بغیر انسان زندہ کیسے رہ سکتا ہے؟“ فاطمہ نے گھبرا کر کہا۔
”تو بات سمجھتی ہی نہیں، تیرے بیٹے کی اپنی روح نہیں ہے، گدھے کی روح ہے، سمجھ لیا!“
”اچھا گدھے کی روح۔“
”اس کے لیے تجھے تھوڑا سا خرچ کرنا پڑے گا۔“
”اچھا جی!“
”دو سیر مٹھائی، اُتنا ہی پھل اور بیس روپے بس۔“
فاطمہ حیران ہوکر حکیم صاحب کو دیکھنے لگی۔
”بہن!یہ سائیں جو ولی اللہ ہے، یہ مٹھائی وغیرہ اپنے مریدوں کو کھلائے گا یا فقیروں میں بانٹ دے گا۔“
فاطمہ اب بھی خاموش رہی۔
”تھوڑی دیر بعد، میں اور سائیں جی آئیں گے، گھاس والی تھالی عمر دین کی چارپائی پر رکھ دینا اور ساری چیزیں بھی، سمجھ لیا نا۔“
فاطمہ خاک سمجھتی، چپ چاپ سنتی رہی۔
بے چاری نے بیٹے کی خاطر اب تک جو کچھ جمع کیا تھا اور جو اس نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا، وہ خرچ کرنے لگی۔ مٹھائی بھی آگئی، پھل بھی آگیا اور بیس روپے بھی اُس نے الگ رکھ دیے۔
یہ کام کرتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اور وہ اُوپر دیکھ کرکہتی تھی۔
”اے مولا کریم! میرے بیٹے کوٹھیک کر دے۔ مولا کریم! میرے بچے کو تندرست کر دے۔“
مٹھائی اور پھل شبراتی خرید کر لایا تھا…… اور اب وہ اپنے دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا، شام کے قریب حکیم صاحب آگئے۔ ان کے سا تھا ایک بوڑھا شخص بھی تھا، جس کی یہ لمبی داڑھی تھی۔ حکیم صاحب بڑے ادب سے اس کے پیچھے پیچھے قدم اُٹھا رہے تھے۔
”سب کچھ ٹھیک ہے؟“ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”جی ہاں۔“
”بہت اچھی بات ہے، اب یہ دروازہ بند رہے گا۔“
”اورمیں کیم جی! اپنے بیٹے کے پاس نہیں بیٹھوں گی؟“
”فاطمہ تیرا تو دماغ خراب ہوگیا ہے! سائیں جی کو آزادی سے اپنا کام کرنے دے!“ حکیم صاحب نے ذرا غصے سے کہا۔
حکیم صاحب نے ادھر اُدھر دیکھا، ایک تھالی میں مٹھائی پڑی تھی اور دوسرے میں پھل نظر آرہے تھے، پھل والی تھالی میں روپے بھی پڑے تھے۔ حکیم صاحب نے جب اطمینان کرلیا کہ جو کچھ مانگا تھا مل گیا ہے۔ تو فاطمہ سے نرمی کے ساتھ بولے۔
”فاطمہ بہن!اب تو باہر چلی جا۔“
”اور میں تو یہاں رہوں گا نا“ شبراتی نے پوچھا۔
”تو چاچا لگتا ہے عمر دین کا،کہتا ہے میں یہاں رہوں گا۔ چل بھاگ یہاں سے!“ حکیم صاحب نے شبراتی سے کہا۔
سائیں ایک طرف چپ چاپ کھڑا تھا اور آہستہ آہستہ کچھ پڑھ رہا تھا۔
ماں اور شبراتی باہر جان لگے تو عمر دین زور زور سے رونے لگا۔ وہ ڈرتا تھا نہ جانے حکیم صاحب اور سائیں کیا کرنے والے ہیں۔
”نہ رو میرے لال!نہ رو!“ فاطمہ نے بیٹے کے پاس جا کر کہا۔
”تو نہ جا“ عمر دین نے کہا۔
”کیم جی! کہتا ہے تو نہ جا۔“ فاطمہ نے کہا۔
”اچھا تو نہ جا، ہم چلے جاتے ہیں۔ چلو سائیں جی چلیں“ حکیم صاحب نے سائیں کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”نہیں، نہیں میں جاتی ہوں“ اور فاطمہ عمر دین کو اُسی حالت میں چھوڑ کر بالکل نکل گئی۔
شبراتی پہلے ہی وہاں پہنچ گیا تھا۔ حکیم صاحب نے اندر سے دروازہ بند کر دیا۔
فاطمہ اور شبراتی دالان میں کھڑے تھے۔
”شبراتی!“
”جی خالہ“
”سائیں کوئی بزرگ لگتا ہے!“
”کیم کہتا ہے ولی اللہ ہے!“
”میرا بیٹا ٹھیک ہوجائے تو مجھے سب کچھ مل جائے گا۔“
فاطمہ نے پچاس ساٹھ روپے خرچ کر دیئے تھے۔ یہ رقم اُس نے ایک ایک پیسہ جوڑ کر جمع کی تھی۔
شبراتی کی ماں بھی آگئی۔
”فاطمہ! سنا ہے کوئی سائیں بابا آیا ہے۔“شبراتی کی ماں نے کہا۔
”کیم لایا ہے۔“

”اچھا اللہ فضل کرے گا۔“
شبراتی نے کمرے کی دیوار کے ساتھ کان لگا دیے۔
”میرا بچہ رو تو نہیں رہا!“ فاطمہ کو اپنے بیٹے کی فکر ستا رہی تھی۔
”کوئی آواز نہیں آرہی“ شبراتی نے کہا۔
”سائیں عمل کر رہا ہے، بہن یہ عمل بڑا زبردست ہوتا ہے۔“ شبراتی کی ماں نے کہا۔
یکایک اندر سے بلند آواز آئی۔
”نکل آ …… نکل آ“
”خالہ!یہ سائیں کی آواز ہے۔“
فاطمہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
دو تین منٹ بعد دروازہ کھلا، حکیم صاحب دروازے پرآئے اور بولے۔
”مبارک ہو فاطمہ!سائیں جی کاعمل کامیاب ہوگیا ہے۔“
”اللہ تیرا شکر ہے“ فاطمہ نے کہا اور کمرے کے اندر جانے لگی۔
”ابھی نہیں، ایک صاف ستھری چادر دے دو، سائیں جی گدھے کی روح اپنے اندرداخل کر رہے ہیں۔ چولہے میں آگ جلا، جلدی کر۔“
یہ کہہ کہ حکیم صاحب نے دروازہ اندر سے بند کردیا۔
شبراتی اندر سے مٹی کا چولہا لے آیا۔فاطمہ نے سوکھے ہوئے اُپلے اس میں ڈالے، ان پر مٹی کا تیل چھڑکا اور ماچس کی تیلی جلا کر آگ لگا دی۔
دروازہ کھل گیا۔
حکیم صاحب نے اپنے شانے پر ایک گٹھڑی اُٹھا رکھی تھی، اس میں مٹھائی اور پھل تھے۔ وہ آئے تو زور سے بولے۔ ”پیچھے ہٹ جاؤ۔“ حکیم صاحب کے پیچھے سائیں آیا۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔
اور وہ گدھے کی طرف آواز نکال رہا تھا۔ ڈھینچوں …… ڈھینچوں …… ڈھینچوں …… ڈھینچوں“ وہ چولھے کے پاس آکر زور زور سے سانس لینے لگا۔ پھر سیدھا کھڑا ہوگیا۔
”جل گئی…… جل گئی…… گدھے کی روح آگ میں جل گئی۔“ حکیم صاحب بولے۔ ”بس بالکل تندرست ہے۔“
فاطمہ اندر کمرے میں بھاگی، عمر دین زور زور سے رو رہا تھا۔

؎

علاج ہوگیا
ماں کو کمرے کے اندر آتے دیکھ کر عمر دین اور زور زور سے رونے لگا، فاطمہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ انگلیوں سے اُس کے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسو پونچھے۔ ”نہ رو میرے لال روتا کیوں ہے! سائیں جی وہ گدھے کی روح لے گئے ہیں۔“
ماں نے دلاسا دیاتو عمر دین نے رونا بند کر دیا۔ اب شبراتی یہ چاہتا تھا کہ فاطمہ کہیں چلی جائے اور وہ عمر دین سے پوچھے کہ سائیں نے اس میں سے گدھے کی روح کو کس طرح نکالا تھا اور وہ روح کس طرح نکلی تھی، مگر فاطمہ تو لگا تار اپنے بیٹے کو تسلی دے رہی تھی اور کمرے سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ شبراتی سے صبر نہ ہوسکا۔اُس نے عمردین سے پوچھ ہی لیا۔
”یار!سائیں جی کرتے کیا رہے ہیں؟“
عمر دین چند لمحے تو حیرت سے شبراتی کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر کہنے لگا۔
”خبر نہیں“
”اتنی دیر سائیں اور کیم جی یہاں رہے اور تجھے خبر ہی نہیں۔“
”میں نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔“
شبراتی طرح طرح کے سوال کر رہا تھا، لیکن عمر دین ہر سوال کا یہی جواب دیتا تھا کہ اُسے کسی بات کی خبر نہیں ہے۔
فاطمہ نے دیکھا کہ عمر دین کا چہرہ سرخ ہے اور آنکھیں سوجھی ہوئی ہیں۔
”ابھی تیرا بخار نہیں اُترا۔“
”خالہ! اُتر جائے گا۔ اسے حلوہ دے۔“ شبراتی کو اُمید تھی کہ فاطمہ بیٹے کے لیے حلوہ لے کر آئے گی تو اُسے بھی اُس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے گا۔

فاطمہ نے حلوے کا برتن تلاش کیا، پیڑھی کے اُوپر نظر آگیا مگر خالی پڑاتھا۔
”حلوہ کھائے گا!“ اُس نے بیٹے سے پوچھا۔
”کھائے گا، کیوں نہیں کھائے گا۔“ شبراتی نے عمر دین کی بجائے اپنی طرف سے جواب دے دیا۔
” کھائے گا نا!“ فاطمہ نے دوبارہ پوچھا۔ وہ اپنے بیٹے کے منہ سے ہاں، کا الفاظ سننا چاہتی تھی۔
عمر دین نے اُس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔
”میں تیرے لیے چائے بناتی ہوں۔“
شبراتی کو بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ چائے زیادہ شوق سے نہیں پیتا تھا۔
اس سے پہلے کہ فاطمہ چائے بنا کر لائے، عمر دین کو نیند آگئی اور فاطمہ نے اُسے جگانا مناسب نہ سمجھا۔
اُس نے شبراتی کو بھی باہر بھیج دیا، تاکہ عمر دین کو جگانے کی کوشش نہ کرے۔
گدھے کی روح نکالنے کا واقعہ پیر کے روز ہوا اور اُسی شام پورے قصبے میں یہ بات پھیل گئی کہ ایک سائیں نے فاطمہ کے بیٹے کے جسم میں سے گدھے کی روح نکال دی ہے،جس نے بھی یہ خبر سنی وہ عمر دین کو دیکھنے کے لیے بیتاب ہوگیا۔
اب ہوا یہ کہ شام ہی کولوگ وہاں آنے لگے۔
ٰٓایک عورت نے کہا۔ ”شکر کر بہن تیرے بیٹے کی مشکل دور ہوئی۔“
ایک شخص نے اپنی ہمدردی کا اظہار یوں کیا۔
”بے چارے نے بڑی تکلیف اُٹھائی ہے۔ انسان کے جسم میں گدھے کی روح چلی جائے تو کیا ہوتا ہے۔“
یہ فقرہ سن کر ایک لڑکا بولا:
”گدھے کی روح تو انسان کو گدھا بنا دیتی ہے۔“
فاطمہ طرح طرح کے فقرے سن کر سخت بیزار ہوگئی تھی، مگر ضبط کر رہی تھی، جب ایک لڑکے نے یہ فقرہ کہا تو صبر نہ کرسکی، بڑے غصے سے بولی۔
”گدھا ہوگا تو، تیرا کوئی اور، میرا بیٹا تو چنگا بھلا ہے۔“
”خالہ! میں نے صرف یہ کہا ہے کہ اس کے اندر گدھے کی روح چلی گئی تھی“ لڑکے نے کہا۔
”چپ کر کے بیٹھ، میرے منہ سے کچھ سن کر رہے گا۔“
”کیا تیرے بیٹے میں گدھے کی روح نہیں تھی؟“ لڑکے نے سوال کیا۔
”گدھے کی روح ہوگی تیرے اندر ……“
”خالہ! میرے اندر تو اپنی روح ہے، گدھے کی روح تیرے بیٹے کے اندر چلی گئی تھی اور سائیں جی اُسے نکال کر لے گئے ہیں۔“
”دفع دور ہوتا ہے یا نہیں!“ فاطمہ کاجی چاہتا تھا کہ اسے دھکے دے کر قصبے ہی سے نکال دے۔
”میں تیرے گھر میں تو نہیں ہوں، خدا کی زمین پر کھڑا ہوں۔“
بات بڑھتی جا رہی تھی لوگوں نے دونوں کو چپ کرانے کی کوشش کی، مگر وہ چپ نہ ہوئے۔ اس پر ایک بوڑھا شخص لڑکے کو زبردستی اپنے ساتھ لے گیا اور اس طرح ان میں زیادہ تلخی پیدا نہ ہو سکی۔
فاطمہ لوگوں کے فقرے سنتی تھی اور خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی تھی، کس کس کو جواب دیتی۔ اس کے گھر میں آنے والوں کی زبان تو بند ہی نہیں ہوتی تھی۔ ہر شخص اپنی طرف سے ہمدردی کا اظہار کرتا تھا، مگر ہمدردی کے اس اظہار سے اسے بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ سمجھتی تھی لوگ تماشا دیکھنے کے لیے آرہے ہیں اور کسی کو بھی اس سے سچی ہمدردی نہیں ہے۔
سارا دن فاطمہ کے گھر میں لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔ لوگ تماشا دیکھنے کے لیے آتے رہے اور فاطمہ ان لوگوں سے اس قدر پریشان ہوگئی کہ اُس کا جی چاہتا تھا کہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے اور کسی ایسی جگہ چلی جائے جہاں قصبے کا کوئی آدمی بھی نہ پہنچ سکے۔ شام کے قریب وہ بہت تھک چکی تھی، اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ بیٹھ کر عمر دین سے کچھ کہے سنے اور اُس کا دل بہلائے۔ اُس نے کھچڑی پکائی اور تھالی میں لے کر عمر دین کے آگے رکھ دی۔“
”کھا لے بیٹا!“
عمر دین لیٹا ہوا تھا، وہ ماں کے الفاظ سن کر بیٹھ گیا اور کھچڑی کی ایک چمچ منہ میں ڈال کر پھر لیٹ گیا۔
”کھالے نا، کیوں نہیں کھاتا؟“
”میں نہیں کھاتا۔“
فاطمہ بھی بھری بیٹھی تھی، بیٹے کی بات بھی برداشت نہ کر سکی۔
”کھاتا کیوں نہیں …… کھچڑی ہے…… زہر تو نہیں۔“
عمر دین ڈر کر بیٹھ گیا، اُس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور یہ آنسو کھچڑی کی تھالی میں ڈوب رہے تھے۔ وہ ساتھ ساتھ کھچڑی بھی کھا رہا تھا۔
یہ حالت دیکھ کر فاطمہ کو بڑا دکھ ہوا، اُس نے جھٹ پٹ آگے بڑھ کر بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔
”ماں قربان جائے۔ کیوں روتا ہے، دفع کر لوگوں کو، اللہ ان کی زبانوں میں کیڑے ڈالے۔“
فاطمہ لوگوں کو بدد عا دینے کے بعد عمر دین ہی کی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”میں تجھے کھلاتی ہوں!“
”نہیں ماں! بس“
اور عمر دین نے اپنا سر تکیے پر رکھ دیا۔
فاطمہ نے تھالی زمین پر رکھ دی اور وہیں چارپائی پر لیٹ گئی۔ دن بھرکی تھکی تھی، فوراًسوگئی۔
”اماں!“
فاطمہ کو یوں لگا جیسے عمر دین نے اُسے پکارا ہے، اُس نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں کھولیں اور پھر بند کر لیں، اُس نے سوچا تھا کہ اس کے بیٹے نے اسے پکارا نہیں، یہ صرف اس کا وہم ہے۔
”اماں …… اماں“
عمر دین نے اُس کا شانہ ہلاتے ہوئے کہا۔ فاطمہ نے آنکھیں کھول کر اُس کی طرف دیکھا۔
”عمر دینا تونے بلایا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”ماں! کوئی دروازے پر ہے!“
”اب بھی دفع دنان نہیں ہوتے، مرتے بھی نہیں، جان چھوٹے ان سے، سوجا۔ خود دفع ہوجائے گا۔“
مگر دروازے پر پھر دستک ہوئی۔

”اماں! کھول دے دروازہ۔‘‘
”نہیں، چلا جائے گا۔“ یہ کہہ کر فاطمہ نے ایسی حالت بنا لی جیسے سو رہی ہو۔
عمر دین اُٹھا، فاطمہ کو اُس کے اُٹھنے کی خبر نہ ہوئی، دروازے پر پہنچا۔
”کون ہے؟“
باہرسے آواز آئی۔ ”دروازہ کھول دے بیٹا۔“
عمر دین آواز پہچان نہ سکا۔ اُس نے دروزہ کھول دیا۔ سامنے ماسٹر قدیر کھڑے تھے۔
ماسٹر قدیر قصبے کے ایک چھوٹے سے اسکول میں پڑھاتے تھے۔ کسی بچے سے فیس نہیں لیتے تھے، ان کی تھوڑی سی زمین تھی جو انہوں نے اپنے کسی عزیز کے حوالے کر رکھی تھی۔ ان کا یہ عزیز اس زمین میں کھیتی باڑی کرتا تھا اور ماسٹر صاحب کو ان کا حصہ باقاعدہ پہنچا دیا کرتا تھا۔ یہی ماسٹر قدیر کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا۔وہ اپنی آدھی آمدنی اسکول پر خرچ کر دیتے تھے۔
فاطمہ نے دو تین بار کوشش کی تھی کہ عمردین کو ماسٹر قدیر کے اسکول میں داخل کرا دے لیکن عمر دین وہاں چند منٹ بھی نہیں بیٹھ سکا تھا۔ اب جو عمر دین نے ماسٹر صاحب کو دیکھا تو وہ ڈر گیا۔ نہ جانے ماسٹر صاحب اسے اپنے اسکول میں داخل کرنے کے لیے آئے ہیں یا صرف اُسے دیکھنے کے لیے آئے ہیں،جس طرح سارا دن لوگ آتے رہے ہیں۔
فاطمہ بھی جاگ اُٹھی تھی، اُس نے وہیں سے کہا۔
”ماسٹر جی! صبح آئیے، ہمیں سونے دیں۔ دن کو تماشا دیکھ لیں آکر۔“
”میں تماشا دیکھنے کے لیے نہیں آیا، جو کچھ میں نے سنا ہے، اس سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔ حکیم اور اس کے دھوکا باز ساتھی نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ غضب خدا کا کبھی گدھے کی روح بھی انسان میں آتی ہے۔ لا حولا ولا قوۃ…… فاطمہ بہن تجھے کیا ہوگیا تھا۔ اتنی عمر گزارنے پر بھی تجھے عقل نہ آئی۔“
”تو تو کیا کرنے آیا ہے!“فاطمہ کو ماسٹر قدیر کی بات پر بڑا غصہ آیا۔
”بہن! میں چاہتا ہوں کہ آئندہ آپ لڑکے کا ایسا علاج نہ کرائیں۔“
”علاج نہ کرواؤں“ فاطمہ نے پوچھا۔
”ہمارا عمر دین بیمار نہیں، اگر بیمار ہے تو میں اس کا علاج کروں گا۔“
”نہ بابا! ہم نہیں علاج کرواتے!“ فاطمہ نے بیزار ہو کر کہا۔
ماسٹر قدیر آگے بڑھ آئے۔
”اچھا بہن فاطمہ! تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو، عمردین بیٹا! ماسٹر صاحب نے عمردین کے بالکل پاس آکر کہا۔
عمر دین نے ماسٹر کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ آخر اس سے انہیں کیا کام ہے۔
”دیکھو بیٹا!“
”جی!“
”یہ بات میں صرف تمہیں سے کہہ سکتا ہوں۔ اپنا کان قریب لاؤ“ اور ماسٹر صاحب نے اپنے ہونٹ عمر دین کے کان سے لگا دیے۔ نہ جانے انہوں نے کیا کہا۔ان کے ہونٹ حرکت کرتے رہے اور پھر وہ عمر دین کی چارپائی سے ذرا ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔
فاطمہ حیرت سے کبھی ماسٹر صاحب کو اور کبھی عمر دین کو دیکھتی تھی۔
”کیا ہے ماسٹر جی!“
”یہ معاملہ میرا اور عمر دین کا ہے، تم مت پوچھو اور عمر دین کسی کو بتائے گا بھی نہیں کہ میں نے کیا کہا ہے۔ کیوں عمر دین بیٹا!“ عمر دین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”تو اب میں جاتا ہوں۔ سلام علیکم“ یہ کہہ کر ماسٹر صاحب چلے گئے۔
”کیا کہتا تھا ماسٹر!“ ماسٹر صاحب کے جانے کے بعد فاطمہ نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔
عمر دین نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”بتاتا کیوں نہیں عمر دینا!“
”نہیں بتاتا“
فاطمہ نے اصرار کرنا مناسب نہ سمجھا، وہ جانتی تھی ماسٹر صاحب نے اس کے لڑکے کو کوئی اچھی بات ہی بتائی ہوگی اور یہ بات عمر دین خود بتا دے گا۔
صبح ہوئی تو عمر دین نے دیکھا کہ اس کی ماں سو رہی ہے۔ اسے بھوک لگی تھی، ماں کے جاگنے کا انتظار کیے بغیر وہ خود اُٹھا اور چولہے کی طرف گیا، ایک دیگچی میں دودھ پڑا تھا پاؤ ڈیڑھ پاؤ، چنگیر میں روٹی بھی تھی جو سوکھ چکی تھی۔ عمر دین نے ماچس ڈھونڈی۔ ادھر اُدھر سے اُپلوں کو ہٹا کر دیکھا، چولہے کے چاروں طرف نظر ڈالی مگر ماچس کہیں بھی دکھائی نہ دی۔ اُس نے دودھ دیگچی میں سے گلاس میں ڈالا اور ایک گھونٹ پی لیا، پھیکا تھا۔ اب وہ چینی کا ڈبہ ڈھونڈنے لگاجو اسے لکڑی کی میز کے اُوپر نظر آگیا۔ اس نے ڈبہ اُٹھایا لیکن ہوا یوں کہ اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی اور ڈبہ زمین پر گر پڑا۔ دھم کی آواز سن کر اسکی ماں کی آنکھ کھل گئی۔
”کون ہے!“
”اماں!“
”ہاں بیٹا! ماں صدقے، ماں واری“ فاطمہ کو چینی کے نقصان کا کوئی خیال نہ ہوا۔ اُسے بڑی خوشی ہوئی کہ اُس کا بیٹا تندرست ہوگیا ہے۔ وہ فوراًاُٹھ بیٹھی۔
”کیا ہے عمر دین!“
”اماں! بھوک لگی ہے۔“
”میں چائے بناتی ہوں، حلوہ کھائے گا، کھچڑی پکا دوں!“فاطمہ نے ایک ہی سانس میں تینوں چیزیں گنوا دیں۔
”دودھ اماں!“
”اچھا گرم کر کے دیتی ہوں۔“
”اماں چینی ……“
”چینی لے آؤں گی، میرا لال میٹھا دودھ پیئے گا۔ آکے بیٹھ جا اپنے بستر پر، ماں صدقے جائے۔“
عمر دین واپس اپنی چارپائی پر جا بیٹھا۔
فاطمہ نے چنگیر ہٹائی، ماچس مل گئی، چولہے میں اُپلے رکھے، اُن پرمٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگا دی۔ گلاس میں سے دودھ دوبارہ دیگچی میں ڈالا اور دیگچی چولہے کے اُوپر رکھ دی۔

فاطمہ کے ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے۔ وہ یقینابیٹے کے تندرست ہونے پر خدا کا شکر ادا کر رہی تھی۔ بیٹے کو ٹھیک دیکھ کر اسے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ وہ اس سے یہ بھی نہیں پوچھ سکی کہ رات کو ماسٹر نے اسے کیا کہا تھا۔ یہ بات ہی اُس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔ وہ دن بڑی اچھی طرح گزرا۔ فاطمہ سائیں جی کی بڑی ممنون تھی، جس نے اس کے بیٹے کے جسم میں سے گدھے کی روح نکالی تھی۔ وہ اس دوپہر کے وقت حکیم صاحب کے پاس گئی اور بولی۔
”کیم جی! سائیں جی کہاں پر ہے ان کا شکریہ ادا کروں۔“
حکیم صاحب کا چہرہ خوشی سے سرخ ہوگیا۔
”سائیں جی بڑی دور رہتے ہیں، مٹھائی ان کوبھیجنا چاہتی ہوتو مجھے دے دینا، پہنچا دوں گا۔“
”میں خود کچھ لے کر جاؤں گی۔“
”تو کہاں جائے گی۔ فاطمہ! وہ نہ جانے کہاں کہاں جنگلوں،بیا با نو ں میں گھو متے پھر تے ہیں۔ہما ری طر ح د نیا دار نہیں ہیں ولی اللہ ہیں مشکل سے انہیں ڈھو نڈ و ں گا۔“
”اچھا“ فا طمہ لو ٹنے لگی۔
”کچھ لا ئی ہو تو دے دے“حکیم صا حب نے کہا۔
”کچھ لائی تو نہیں ہوں،لے آؤں گی۔“
”جلد ی لا نا،میں آ ج شا م کو ان کے پا س جا ؤ ں گا۔“
فا طمہ نے سر ہلا یا اور اپنے گھر آ گئی۔
دوسر ے دن عمر دین نے اپنی ما ں سے ایسی با ت کہی کہ وہ حیر ان رہ گئی۔اُسے یقین نہیں آ تا تھا کہ اُ س کا بیٹابھی اپنے منہ سے ایسے الفا ظ نکا ل سکتا ہے۔
”بیٹا! تو پڑھے گا اسکول میں؟“
”ہا ں اما ں!“
اس وقت شبر اتی بھی آ گیا۔
”سنا شبر اتی!“
”کیا خا لہ؟“
”میر ا بیٹا پڑ ھے گا!“
شبر اتی نے زور سے قہقہہ لگا یا، عمر دین کو غصہ آ گیا۔
”تو ں ہنستا کیو ں ہے“
”تو پڑ ھے……“
فا طمہ نے اپنے بیٹے کے سر پر پیا ر سے ہا تھ پھیر تے ہو ئے کہا،”کیا پڑ ھنے وا لو ں کے سرو ں پر سینگ ہو ئے ہیں؟……میں آ ج ہی وہ لا ؤ ں گی،وہ کیا ہو تا ہے کے ……اے……دا……“
”کید ہ خا لہ“
اتنے میں دروازے پر دستک ہو ئی،فا طمہ نے کھو لا تو ما سڑ صا حب کھڑے تھے۔
”ما سٹر جی! یہ کہتا ہے میں پڑ ھو ں گا، کیدہ لا تی ہوں۔“فا طمہ نے خوش ہو کر کہا۔
”فا طمہ بہن!یہ کید ہ کیا چیز ہو تی ہے؟“
”وہ جو بچے پڑھتے ہیں۔“
”وہ ہو تا ہے قا عد ہ، بڑا کاف ……یہ دیکھو۔“
ما سڑ صا حب خود قا عد ہ لے آ ئے تھے۔
”لو بیٹا! کل صبح سو یر ے آ جا نا،اور فا طمہ!تم نے ایک خبر سنی؟“ما سٹر صا حب نے قا عدہ عمر دین کو دیتے ہو ئے فا طمہ سے پو چھا۔
”کو نسی خبر ما سٹر جی؟“
”وہ سا ئیں گر فتا ر ہو گیا ہے۔“
فا طمہ سمجھ نہ سکی کہ ما سٹر صا حب کہہ کیا رہے ہیں۔
”کیا؟ما سٹر جی!“
”تم نے سنا نہیں وہ سا ئیں جس نے تمہا رے بیٹے کے جسم میں سے گد ھے کی روح نکا لی تھی،اُسے پو لیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ ایک جگہ جوا کھیل رہا تھا۔اب نہ کبھی اُسے گھر پر بلا نا۔“
”ہا ں خا لہ!آج پو لیس کے سپا ہی اسے با زار میں لے جا رہے تھے۔“شبر اتی نے کہا۔
ما سڑ صا حب چلے گئے۔فا طمہ کو یقین ہی نہیں آ تا تھا کہ ما سٹر صا حب نے جو خبر سنا ئی ہے وہ سچی ہو سکتی ہے۔شبرا تی کو بیٹے کے پا س چھو ڑکر وہ ٹھیکیدار صاحب کے ہا ں پہنچی۔
”سنا ہے آپا آ ج پولیس کے سپا ہی با زارمیں پھر رہے تھے“اس نے ٹھیکیدار کی بیو ی سے پو چھا۔
”ہا ں معلو م ہے وہ کسے پکڑ کر لے گئے ہیں۔تمہا رے سا ئیں جی کو!“
”اچھا آپا!“
”اور کیا!جوا کھیل رہا تھا۔“
فاطمہ نے اس کے بعد کسی سے کچھ نہ کہا۔واپس اپنے گھر آگئی۔اس نے دیکھا کہ عمردین اور شبراتی قا عدے کی تصو یر یں دیکھ رہے ہیں۔
”خا لہ!یہ کہتا ہے میرا دلبر زندہ ہے۔“شبراتی نے کہا۔
”ہا ئے مر گیا“دوسرے لمحے ہی شبرا تی درد سے بلبلا اُٹھا۔
”کیا ہوا تجھے؟“
”عمر دین نے میرے پیٹ پر مکا مارا ہے……!“
”کیو ں عمر دینا!مکا کیوں مارا ہے؟“
ماں کے اس سوال پر عمر دین تو خا موش رہا،مگر شبراتی اپنے پیٹ پر ہا تھ رکھ کر ذرا دور کھڑاہو گیا۔
”خا لہ یہ کہتا ہے میرا دلبر مل جائے گا!“شبرا تی نے عمر دین کی طرف غصے سے دیکھ کر کہا۔
”اب تو چپ ہو تا ہے یا نہیں؟“فا طمہ بالکل نہیں چا ہتی تھی کہ کوئی شخص بھی اُس کے بیٹے کے سا منے گد ھے کا نا م لے،کیو نکہ وہ سمجھتی تھی گدھے کا نام لینے سے اُس کے بیٹے کا پا گل پن دوبا رہ پیدا ہو جا ئے گا۔رات گزری،صبح ہوئی۔
فا طمہ نے دیکھا کہ عمر دین لو ٹے میں پا نی لے کر صحن میں گھڑے کے پا س بیٹھ گیا ہے اور منہ پر چھپا کے ما ر رہا ہے۔ وہ حیرا ن ہو گئی کیو نکہ اس سے پہلے کبھی اُس کے بیٹے نے اپنی مرضی سے منہ نہیں دھو یا تھا۔
منہ دھو کر عمر دین نے کرتے سے پو نچھا اور واسکٹ پہننے لگا۔واسکٹ پہن کر اُس نے با لو ں میں کنگھی کی۔فا طمہ بڑی دل چسپی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
کنگھی کرنے کے بعد وہ چولھے کے پا س چوکی پر بیٹھ گیا۔
”اما ں!میں جا ؤ ں گا!“
یہ فقرہ سنتے ہی ما ں کو غصہ آگیا۔
”نا مراد!یہ صبح ہی صبح اس کے پا س جا نے کی تیا ری ہو رہی تھی۔خبردا ر!اس کے گھر میں نہیں جانا۔“
”اما ں کس کے گھر۔“
”شبراتی کے گھر اور،اور کس کے گھر؟“
”نہیں اماں!وہا ں نہیں۔“
”کہا ں جا ئے گا پھر؟اُس مر دود کو ڈھو نڈ ے گا؟“
”نہیں اما ں ……نہیں،میں اسکول میں جا ؤ ں گا۔“
ما ں کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ الفا ظ اس کے بیٹے نے کہے ہیں،اُ س نے گھور کر عمر دین کو دیکھا۔
”کہا ں جا ئے گا؟“

”ما سٹر قد یر کے اسکول!“
”تو جا ئے گا ……اسکول میں جا ئے گا۔“
عمر دین نے اثبا ت میں سر ہلا دیا۔
”میں تجھے خود چھوڑکر آؤں گی۔دودھ پی لے پہلے“فا طمہ نے چو لھے پر سے توا ہٹادیا اور دودھ دیگچی میں ڈال کر چو لہے کے اُ وپر رکھ دیا۔
”اما ں ما سٹر نے کہا تھا جلدی آنا۔“
”بس بیٹا!ابھی دودھ دیتی ہوں۔“
جب تک دیگچی چولہے کے اُوپر رہی،فا طمہ آہستہ آہستہ کچھ کہتی رہی۔وہ یقینا خدا کا شکر ادا کر رہی تھی،جس نے اُ س کے بیٹے کو یہ تو فیق دی تھی کہ خودسکول جا نے کی تیا ر ی کر رہا تھا۔یہ ایک ایسی خوشگوار تبدیلی تھی جس کا اس نے پہلے کبھی خیا ل ہی نہیں کیا تھا۔
عمر دین نے دودھ کا آدھا گلاس پیا،ما ں چاہتی تھی کہ وہ سا ر ا دودھ پی لے،مگر اس نے اس سے زیا دہ نہ پیا۔دودھ پینے کے بعد ماں اور بیٹا گھر سے با ہر آگئے۔با ہر آکر فا طمہ نے مولا بخش کی بیو ی کو آوازدے کر کہا۔”میں جا رہی ہوں،گھر کا خیا ل رکھنا“
اسکول گھر کے قر یب ہی تھا۔یہ اسکول کیا تھا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا،جس کی زمین پر پھٹا پرا نا ٹاٹ بچھا تھا۔ چند لڑکے ٹاٹ کے اُوپر بیٹے تھے اور ماسٹر قدیر بھی ٹاٹ پر بیٹا نظر آرہا تھا۔
جسے ہی ما ں اور بیٹا اندر پہنچے،سب لڑکے ایک دم کھڑے ہو گئے۔
”عمر دین بیٹا!یہ لڑکے کھڑ ے ہو کر کہہ رہے ہیں۔”خوش آمدید“ما سٹر صا حب نے کہا۔
عمر دین پر یشان ہو گیا۔اسے کیا معلوم کہ خو ش آمدید کا مطلب کیا ہے۔
”خوش آمدید کا مطلب سمجھتے ہو عمر دین!“
”نہیں سمجھتا ما سٹر جی!“ما ں نے کہا۔
”فاطمہ بہن!“ما سٹر صاحب نے فاطمہ کو مخا طب کر کے کہا۔
”جی!“
”اب تم جا ؤ……“
”نا ما سٹر!میں یہیں بیٹھوں گی اور اُسے سا تھ لے کر جا ؤں گی۔“
ما سٹر قدیر نے فاطمہ کو اصرار کر کے گھر بھیج دیا۔وہ جب کمرے سے با ہر نکل گئی تو انہوں نے اشا رے سے عمر دین کو اپنے قریب بلایا۔
”بیٹھ جاؤ لڑکو!“ما سٹر صاحب کا حکم سن کر لڑکے بیٹھ گئے۔
”عمر دین بیٹا!یہ لڑ کے جو یہا ں بیٹھے ہیں تمھارے ساتھی ہیں۔تمہا رے دوست ہیں۔تمہیں خوش آمدید کہیے ہیں،یعنی کہتے ہیں تمہا ر آنا مبا رک……تمہا رے آنے سے ہمیں بڑی خوشی ہو ئی ہے……سمجھ لیا نا۔“
”ہوں!“
”ہوں نہیں بیٹا!بڑوں سے گفتگو کریں تو جی کہا ں کرتے ہیں۔کہو!جی۔“
”جی“
”شا با ش!“
ما سٹر صا حب نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”اب میری با ت غور سے سنو،میں نے تم سے رات وعدہ کیا تھا کہ تمہا را دلبر تمہیں مل جا ئے گا۔کہا تھا میں نے؟“
”ہوں“
”پھر ہوں ……بیٹا!جی کہو،اب بھولنا نہیں۔اچھا تو میں نے کہا تھا،تمہا ر ا جو دلبر ہے۔وہ تمہارے گھر میں آجا ئے گا۔تم یہ چاہتے ہو نا!“
”ہوں ……نہیں جی ……جی“
لڑکے ہنس پڑے۔
”ہنسو نہیں بچو!ہما را عمر دین بہت ہی اچھا لڑکا ہے ہم اسے اس کا دلبر منگوا دیں گے۔صر ف چند روزکے اندر اندر۔
عمر دین ابھی تک گھبرا رہا تھا۔
”لو عمر دین!اب تم اپنے نئے دوستو ں کے سا تھ کھیلو میں تھوڑی دیر بعدآؤ ں گا“یہ کہہ کر ما سٹر قدیر چلے گئے۔عمر دین کی گھبراہٹ دورہی نہیں ہوتی تھی۔یہا ں تک کہ با رہ بج گئے۔ماسٹر صا حب آگئے اور وہ عمر دین کو خودسا تھ لے کر اسے اس کے گھر پہنچا آئے۔
دوسرے دن عمردین ما ں کے سا تھ آگیا،ما ں چلی گئی۔ماسٹر صا حب نے عمر دین کو اپنے پا س بلا لیا۔اُن کے ہاتھ میں قاعدہ تھا۔ دو ورق اُلٹ کر اُنہوں نے قاعدے کا ایک صفحہ عمر دین کو دکھا یا،اس صفحے پر گدھے کی تصویر بنی تھی۔
”بیٹا!کہو،ہے نا تمہارے دلبر کی تصویر!“
عمر دین نے تصویر کی طرف غور سے دیکھا۔اُسے محسوس ہوا،جیسے یہ تصویر واقعی اُس کے دلبر کی ہے۔
”یہ دلبر کیا ہے؟“ما سٹر صاحب نے پوچھا۔
”دلبر……دلبر ہے!“
”ٹھیک ہے بیٹا!دلبر،دلبر ہے۔مگر یہ ہے کیا؟بلی ہے،شیر ہے،انسا ن ہے یا کوئی مرغ ہے،بطخ ہے؟“
”وہ ہے جی……“
”وہ کیا؟“
”وہ……“
”کہو گدھا“
”جی“
”دال سے دلبر اور گ سے گد ھا،دلبر گدھا،گدھا دلبر،یوں ٹھیک ہے نا۔کتنا پیارا ہے۔“ما سٹر صا حب نے غور سے،عمر دین کو دیکھا اور کہا۔”……بچپن میں مجھے بھی ایک گدھے کے بچے سے پیا ر تھا،تمہا را دلبر بھی پہلے بچہ تھا۔ہے نا؟“
”جی“
”پھر بڑا ہوگیا،لو آج تم یہ اپنے گھر لے جاؤاور اس کی تصویریں دیکھو۔“
ما سٹر جی نے قا عدہ عمر دین کو دے دیا۔
گھر آکر عمر دین تصویریں دیکھتا رہا۔شبراتی بھی آگیا اور وہ بھی تصویریں دیکھنے لگا۔
تین دن گزرگئے،ما سٹر صاحب عمر دین کو مزیدار اوردلچسپ کہا نیا ں سنا تے رہے،پھر اُنھوں نے عمر دین کو الف سے آم،ب سے بلی پڑھا نا شروع کردیا۔
دن گزرتے گئے اور عمر دین کا شوق بڑھتا گیا،وہ خود بخود سبق یا د کر لیتا تھا۔
ایک دن اُنہوں نے عمر دین کو بڑے پیا ر سے بلا یا۔
”عمر دین!مجھے اپنا وعدہ یا د ہے،ایسی چیزتمہیں مل جا ئے گی کہ اپنے دلبر کو ایک منٹ میں اپنے گھر میں بلا لو گے۔“
”جی!“
”وہ یوں عمر دین بیٹا!تم نے بتا یا تھا کہ جنگل میں تمھیں الہ دین کا چراغ ملا تھا،ملا تھا نا؟“
”ملا تھا“
”یہ چراغ تم وہیں جنگل میں چھوڑآئے تھے۔اگر تمہیں یہ چراغ مل جا ئے تو!“
”الہ دین کا چرا غ؟“
”ہا ں بھئی الہ دین کا چراغ،اسے ذرا رگڑوگے توجن آجائے گا، اسے جو حکم دوگے،فوراًپورا کر دے گا۔یہ چرا غ تمہا رے لیے ہے۔“
عمر دین نے گھر آکر اپنی ما ں کو بتا یا ”ما سٹر جی کے پا س الہ دین کا چرا غ ہے“
”اُن کے پا س الہ دین کا چراغ کہا ں سے آگیا؟“

”پتانہیں اماں!مگر اُن کے پا س ہے ضرور!“
تین ماہ گزرگئے۔عمر دین نے قا عدہ ختم کرلیا۔
”عمر دین!تم نے پہلی سیڑی طے کر لی ہے۔یہ چراغ ساتو یں سیڑھی کے بعد تمہیں ملے گا۔“
عمر دین با قاعدہ اسکول میں جا نے لگا۔شبرا تی نے جب دیکھا کہ اُس کادوست اسکول میں جا رہا ہے تو وہ بھی اس کے سکول میں داخل ہوگیا ِ۔
جب عمر دین نے ساتویں کا امتحان پا س کر لیا تو ما سٹرقدیر اسے اپنے گھر لے گئے۔
”بیٹا عمر دین!“
”جی ما سٹر جی!“
”میں نے تم سے کہا تھا کہ جب تم ساتو یں سیڑھی پر چڑھ جا ؤگے تو تمہیں الہ دین کا چرا غ دوں گا ……آؤمیرے ساتھ،میں اپنا وعدہ پورا کروں۔“
ما سٹر صاحب اپنے مکا ن کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگے۔عمر دین ان کے پیچھے پیچھے قدم اٹھانے لگا۔ سیڑھیا ں طے کرنے کے بعد ما سٹر صاحب نے اوپر کے کمرے میں قدم رکھا اور عمر دین کو بھی وہاں آنے کے لیے کہا۔عمر دین کمرے کے اندر چلا گیا۔
کمرے کے درمیان ایک میز بچھی تھی۔ماسٹر صاحب نے میز کے اوپر رکھی ہوئی ایک کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”بیٹا،عمر دین! یہ ہے الہ دین کا چراغ،اس سے جو کام چاہو، لے سکتے ہو۔اپنے قصبے میں روشنی پھیلا سکتے ہو، جہالت دور کر سکتے ہو، کھیتوں کی فصل دوگنی کر سکتے ہو، عزت و آبروحاصل کر سکتے ہو، بیٹا!وہ چراغ جسے الہ دین کا چراغ کہتے ہیں۔وہ صرف کہانی میں ہے، یہ اصل چراغ ہے۔
……اور اس کی روشنی کبھی ختم نہیں ہوتی۔کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟“
”جی ہاں“عمر دین نے کہا اور دونوں کمرے سے نکل آئے۔

چالیس سال بعد
قصبہ نوروپیر بہت ترقی کر چکا ہے۔اب یہاں کچے راستے نہیں ہیں۔ہر طرف سڑکیں بن چکی ہیں۔قصبے میں بجلی بھی پہنچ گئی ہے۔
یہاں کئی شاندار عمارتیں بھی نظر آرہی ہیں۔ان میں بہت شاندار عمارت ایک ہائی اسکول کی ہے۔ اس کا نام ”عمر دین ہائی اسکول“ ہے۔
یہ ہائی اسکول ایک شخص عمر دین اور شب رات علی نے بنوایا ہے۔عمر دین اس کے ہیڈ ماسٹر اور شب رات علی سیکنڈ ماسٹر ہیں۔ نورو پیر کے ارد گرد جتنے قصبے آباد ہیں وہاں کے رہنے والوں کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کروائیں کیوں کہ یہاں کے ماسٹر صاحبان بڑے شوق سے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ان سے بڑی محبت کا سلوک روا رکھتے ہیں۔
عمر دین کو سب لوگ بڑے ادب سے ”میاں جی“کہتے ہیں۔ وہ جدھر سے بھی گزرتے ہیں۔لوگ اٹھ اٹھ کر انہیں سلام کرتے ہیں۔
ایک روز کا ذکر ہے۔
دوپہر ڈھل چکی ہے۔لڑکے اپنے اپنے گھروں میں پہنچ چکے ہیں۔اسکول کے ہیڈ ماسٹر میاں جی اور سیکنڈ ماسٹر شب رات علی اسکول کے گراؤنڈ میں پھر رہے ہیں۔
اچانک ایک طرف سے”ڈھینچوں ڈھینچوں“کی آواز آتی ہے۔
شب رات علی دور کھڑے ہوئے گدھے کی طرف ایک اشارہ کرکے کہتے ہیں:
”میاں صاحب! ادھر دیکھئے……“
”دیکھ رہاہوں۔“
”یہ آپ کا دلبر ہے!“
عمر دین مسکرانے لگتے ہیں، انہیں پرانی باتیں یاد آجاتی ہیں اور وہ وہیں گھاس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ دونوں پرانے دوست دیر تک پچھلی باتیں یاد کرتے رہتے ہیں اور ہنستے رہتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top