تارس بلبا
ناول: Taras Bulba
مصنف: Nikolai Gogol
مترجم: احفاظ الرحمن
۔۔۔۔۔
آج سے 500 سال پہلے کا ذکر ہے۔ تاتاریوں کے سردار چنگیز خان کے بعد اس کے جانشین دنیا کے مختلف علاقوں میں قتل و غارت گری کا خونی ڈرامہ کھیل رہے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے روس پر حملہ کیا، اس کے جنوبی علاقوں کو ملیا میٹ کر دیا اور ہر قلعہ اور ہر شہرکھنڈر بن گیا۔
تاتاریوں کے جانے کے بعد لوگوں نے ایک بار پھر نئے جذبے کے ساتھ نئے مکانات بنا لیے۔ تباہ شدہ قصبے اور شہر دھیرے دھیرے آباد ہوتے گئے۔ ایک بار پھر چاروں طرف زندگی کی مسکراہٹیں بکھر گئیں لیکن جس طرح پرانا ملبہ نئی عمارتوں کے نیچے دب گیا تھا، اسی طرح ان کے نیک جذبے بھی نفرت کے جذبے کے نیچے دب چکے تھے۔ تاتاریوں کے حملے نے انھیں ایک سبق دیا تھا اور وہ اس بات کے قائل ہو گئے تھے کہ اس دنیا میں وہی زندہ رہ سکتا ہے جس کے ہاتھ میں تلوار ہو۔ ’انتقام‘ اور ’جنگ‘ ان کی زبانوں پر یہی دو لفظ تھے۔
تارس بلبا قازقوں کا ایک بہت نامور سردار تھا۔ وہ پیدائشی جنگ جو تھا۔ اس کی پوری زندگی میدان جنگ میں گزری تھی۔ اس کے دل میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اسے جوں ہی اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات نظر آتی ،وہ اپنی تلوار سونت لیتا۔
تارس بلبا ایک لمبا تڑنگا شخص تھا۔ اُس کاجسم فولاد کی طرح مضبوط تھا۔ کندھے چوڑے اور بازو گٹھے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں ہر وقت سرخ رہتی تھیں۔ وہ تاتاریوں سے سخت نفرت کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ قازقوں کو اپنے ملک سے باہر نکل کر تاتاریوں سے جنگ کرنی چاہیے تاکہ دور دور تک ان کی دھاک بیٹھ جائے۔
تارس بلباکے دو جوان بیٹے تھے، بڑے بیٹے کا نام ’آندرے‘ تھا اور چھوٹے کا ’اوستاپ‘۔ دونوں باپ ہی کی طرح بہادر اور نڈر تھے۔ ان دنوں وہ کِیف اکیڈمی میں تعلیم پا رہے تھے۔ کیف اکیڈی اس علاقے کی ایک بہت بڑی درس گاہ تھی جہاں دور دراز سے نوجوان تعلیم حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔
تارس بلبا کو اپنے بیٹوں کی بڑی فکر تھی۔ اسے اس بات کا دکھ تھا کہ وہ کتابوں کے بے کار کاغذوں میں اپنا سر کھپا رہے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ مرد کا صحیح مقام گھوڑے کی پیٹھ ہے، وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے جلد از جلد گھر واپس آ جائیں اور جنگی تربیت حاصل کر کے حقیقی معنوں میں قازق بن جائیں۔
جس دن آندرے اور اوستاپ اپنی تعلیم ختم کر کے گھر واپس آئے، تارس بلبا کا دل کھل اٹھا، آندرے اور اوستاپ نے اکیڈمی کے لمبے لمبے کوٹ پہن رکھے تھے، جب بلبا کی نظر ان پر پڑی تو اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
’’ واہ تم دونوں نے تو بڑے لمبے لمبے کوٹ پہن رکھے ہیں۔ ذرا میں دیکھوں تو سہی، تم اسے پہن کر دوڑ سکتے ہو یا نہیں۔ اگر تم اپنے کوٹ میں الجھ کر گر نہیں پڑے تو میرا نام بھی بلبانہیں۔‘‘یہ کہہ کر وہ زور زور سے قہقہہ لگانے لگا۔
آندرے اور اوستاپ بھی تو آخر اسی کے بیٹے تھے ،انھیں غصہ آ گیا اور ان کے چہرے سرخ ہو گئے۔ آندرے نے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔’’ ابا جان، میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرا مذاق اڑائے۔‘‘
اچھا؟‘‘ تارس بلبا ایک قدم پیچھے ہٹا اور اپنی آستین چڑھاتا ہوا اسے گھورنے لگا۔’’ میں بھی تو دیکھوں تم کتنے بہادر ہو۔ ارے تمھاری کلائیوں میں جان بھی ہے یا یونہی مرغے کی طرح اکڑ رہے ہو؟ آئو ذرادوو دو ہاتھ ہو جائیں۔‘‘
وہ دراصل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا واقعی طاقت ور اور بہادر ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ باتوں ہی کا شیر ہو۔
دونوں، باپ بیٹے ایک دوسرے سے گتھ گئے۔ چھوٹا بیٹا اوستاپ ان کے پاس کھڑا مسکراتا رہا۔
بلبا نے اپنی پوری قوت سے آندرے کے پیٹ میں مکا مارا۔ کوئی اور ہوتا تو بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑتا لیکن آندرے چٹان کی طرح اپنی جگہ کھڑا رہا۔ پھر اس نے گھما کر بلبا کے سینے پر مکا مارا۔بلبا لڑکھڑانے لگا لیکن وہ گرا نہیں۔ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کے داؤ آزماتے رہے۔آندرے کا جسم فولاد کی طرح سخت تھا اور اس کے بازوؤں میں بلا کی جان تھی۔ بلبا کو یقین ہو گیا کہ کتابوں نے اسے بز دل نہیں بنایا۔ اس کی بانچھیں کھل گئیں اور اس نے آگے بڑھ کر آندرے کو گلے لگا لیا۔
’’ تم تو بہت اچھے جنگ باز ہو۔ تم میں چیتے کی سی پھرتی ہے۔ ‘‘اُس نے پیار سے کہا۔’’ مجھے تم پر فخر ہے۔ تم ضرور قازقوں کا نام روشن کرو گے۔‘‘
بلبا نے آندرے کی پیشانی چوم لی۔ اچانک اسے اوستاپ کا خیال آیا جو الگ تھلگ کھڑا ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بلبا اس کی طرف مڑا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’’واہ، تم تو کسی شکاری کتے کے پلے نظر آ رہے ہو، کیا ارادہ ہے؟ ہو جائیں دو دو ہاتھ۔ دیکھوں تمہارے جسم میں قازقوں کا خون دوڑ رہا ہے یا نہیں۔‘‘
اتنے ہیں بلبا کی بیوی دوڑی دوڑی آئی۔ اسے ابھی ابھی اپنے بیٹوں کی آمد کی خبر ملی تھی۔ اس نے بلبا کا آخری جملہ سن لیا تھا۔
’’تم تو بالکل اجڈ ہو۔ ‘‘وہ غصے میں بلبا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔’’کبھی بیٹا بھی اپنے باپ سے لڑتا ہے؟ اور ابھی تو وہ بالکل بچہ ہے، نا سمجھ۔ اور وہ کتنی دور سے آیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اوستاپ کو گلے لگا لیا اور اُسے چومنے لگی۔
تارس بلبا ہنس پڑا اور پھر اوستاپ سے بولا۔’’ اوستاپ، اپنی ماں کی بات پر کان نہ دھرنا بیٹے۔ وہ عورت ہے، اُسے کیا معلوم کہ مرد کی زندگی کیسے بسر ہوتی ہے۔ اُس کی تو عقل ماری گئی ہے۔کیا تم چاہتے ہو کہ ساری عمر مکھیاں مارتے رہو اورلوگ تمھیں بزدل کہیں؟ یہ مرد کی شان نہیں ہے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے تارس بلبا نے اپنی نیام کی طرف اشارہ کیا جس میں تلوار لگی ہوئی تھی۔ ’’دیکھو، یہ تلوار تمہاری ماں ہے۔‘‘
دونوں بیٹے غور سے باپ کی باتیں سن رہے تھے اور ماں پریشان سی تھی۔ اسے اس بات پر غصہ آ رہا تھا کہ بلبا نے آتے ہی ان پر نصیحتوں کی بوچھاڑ کر دی ہے۔
وہ جھنجھلا کر بولی۔’’اچھا اچھا،تمہاری باتیں میں نے سن لی ہیں۔ اب انھیں گھر کے اندر تو آنے دو۔ دور دراز کا سفر کر کے آئے ہیں۔ تھک گئے ہوں گے۔‘‘
لیکن بلبا نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ وہ آندرے کی طرف مڑا اور بولا۔’’ یہ کتنی حماقت کی بات ہے کہ تم نے اپنا بہت سا قیمتی وقت کتابوں کے پڑھنے میں ضائع کر دیا۔ کتابوں میں بے کار باتیں لکھی ہوتی ہیں، تمہاری تمام کتابیں اور ان کا فلسفہ تمہارے کسی کام نہیں آئے گا۔‘‘
اس نے ایک بار پھر اپنی نیام پر ہاتھ رکھا۔’’ ان تمام چیزوں سے بہتر ایک یہی چیز ہے۔ میرا خیال کہ ہیں اب تمھیں فوجی چھاؤنی میں بھیج دوں۔تم وہاں جنگی تربیت حاصل کروگے۔ وہیں تم کو معلوم ہو گا کہ زندگی جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا نام ہے۔‘‘
ماں نے جب یہ سنا کہ بلبا اس کے دونوں بیٹوں کو پھر اس سے دور بھیجنا چاہتا ہے تو اس کا چہرہ اتر گیا اور وہ اس کے سامنے گڑ گڑانے لگی۔
’’اتنے دنوں کے بعد تو آئے ہیں۔ ابھی تو میں نے انھیں ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں اور اب تم انھیں پھر مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔
بلبا کے ماتھے کی لکیریں گہری ہو گئیں، اسے ایک دم غصہ آگیا۔ وہ بولا:
’’ا تم اپنی بکواس ختم کر چکیں یا ابھی کچھ اور باقی ہے؟ قازق کی زندگی گھر میں نہیں گزرتی۔ میدان میں خاک و خون سے کھیلنا اس کی زندگی ہے۔ میں آئندہ تمہارے منہ سے ایسے الفاظ نہ سنوں اور اب میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔‘‘
بے چاری بوڑھی عورت خاموشی سے چلی گئی۔ جانتی تھی کہ بلبا کا غصہ بہت تیز ہے اور اگر کوئی اس کی بات نہ مانے تو وہ وحشیوں کی طرح دہا ڑنے لگتا ہے۔
بلبا اپنے دونوں بچوں کی طرف مڑا۔ ’’اب آؤ میرے شیر جوانو، اندر چلو، کب تک باہر کھڑے رہو گے۔‘‘ وہ دونوں کو مکان کے سب سے عمدہ کمرے میں لے آیا۔
’’اب بتاؤ، میرے بیٹے!‘‘ اس نے آندرے سے پوچھا۔’’سچ سچ بتاؤ۔ وہ ان تمھارا وقت ضائع ہوا یا نہیں اور یہ بتاؤ اُن لوگوں نے تم سے اچھا سلوک کیا یا نہیں؟‘‘ اس کا چہرہ ایک دم سُرخ ہو گیا۔
آندرے نے نرم لہجے میں جواب دیا۔’’ جو گزر گئی سوگزر گئی۔ بیتی باتوں کو کریدنا مردوں کا شیوہ نہیں۔ وہ ہمیشہ حال پر نظر رکھتے ہیں، اور…‘‘ اس نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔’’ میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ ہرشخص کو اپنے بازو کی قوت پر بھروسا کرنا چاہیے۔ یہی اس کی بات ہے اور یہی اس کی شان۔‘‘
بلبا کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے آندرے کی پیٹھ تھپکتے ہوئے کہا۔ ’’آندرے، تم نے اب کہی سولہ آنے کی بات۔‘‘
شام کے وقت ماں ان کے آگے کھانا لگاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ وہ ایک بار پھر اپنے بیٹوں سے جدا ہو جائے گی اور دوسری طرف بلبا یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ اس کے بیٹے فوجی چھاؤنی میں تربیت حاصل کرنے کے بعد اور ہنر مند بن جائیں گے۔
کھانے کے بعد بلبا نے بیٹوں سے کہا۔’’ کل تم جنگی تربیت حاصل کرنے کے لیے یہاں سے روانہ ہو جاؤ گے اور میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘
تینوں بڑی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ باپ بیٹیوں کو ان لڑائیوں کی داستانیں سناتا رہا جن میں اس نے حصہ لیا تھا اور وہ اسے کیف اکیڈمی کی باتیں سناتے رہے۔ جب رات کافی ہو چکی تو بلبا نے آندرے اور اوستاپ سے کہا:
’’اچھا، میرے بچے، اب ہمیں چل کر سو جانا چاہیے۔ کل ہمیں یہاں سے روانہ ہونا ہے۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔‘‘
دونوں بیٹے اٹھ کر بستروں کی طرف جانے لگے۔’’ نہیں نہیں۔‘‘ بلبا چیخ پڑا۔
دونوں بیٹے حیرانی سے اس کی طرف پلٹے۔ ’’ بستروں کا سہارا مت لو، ہم کھلے آسمان کے نیچے، زمین پر سوئیں گئے۔‘‘
ماں کو رات بھر نیند نہیں آئی۔ وہ جیسے انگاروں پر لوٹتی رہی۔ وہ یہی سوچتی رہی کہ کل اس کے دونوں بیٹے پھر اُس سے جُدا ہو جائیں گے۔ وہ بار بار باہر کا چکر لگاتی اوردیر تک اپنے سوتے ہوئے بیٹوں کے چہروں کو تکتی رہتی۔ پھر ان کو ٹھیک سے کمبل اڑھاتی اور چپ چاپ واپس آ جاتی۔
۔۔۔۔۔
بلبا نے صبح سویرے ہی آندرے اور اوستاپ کو جگا دیا اور وہ سفر کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔
تینوں نے اپنے گھوڑے نکالے، ان پر زین کسی، اور پھر سوار ہوکر اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔ماں نے خاموشی سے ان کو الوداع کہی۔ وہ جانتی تھی کہ بلباآنسو دیکھ کر بھڑک اٹھے گا۔
تینوں تیزی سے گھوڑے دوڑاتے رہے ۔چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تینوں خاموش تھے اور گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بلبا نے اپنے پائپ کا کش کھینچا۔ اس کے ذہن میں جوانی کی یادیں ابھر رہی تھیں۔ جب زمین اس کے پاؤں کے نیچے لرزتی تھی۔ اس نے کتنے بڑے بڑے معرکے سر کیے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا۔’’ معلوم نہیں اب چھاؤنی میں میرے کتنے دوست موجودہوں گے۔ پرانے دوست ایک بار پھر ملیں گے، وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوں گے، واہ وا۔‘‘
دوسری طرف اس کا بڑا بیٹا آندرے، ان دنوں کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا جو اس نے کیف میں گزارے تھے۔ اچانک اُسے ایک حادثہ یاد آ گیا اور وہ مسکرا دیا۔ اگر بلبا اسے اس عالم میں دیکھ لیتا تو پاگل سمجھنے لگتا۔
ایک دن وہ کِیف کی ایک سڑک پر جا رہا تھا۔ سامنے سے ایک خوب صورت تیز رفتار بگھی آ رہی تھی۔ یہ بگھی پولینڈ کے ایک نواب کی تھی۔ آندرے اپنی دھن میں مگن تھا۔ اس نے بگھی کو اس وقت دیکھا جب وہ اس کے سر پر پہنچ چکی تھی۔ وہ اس کے نیچے آتے آتے بچا۔ اس کا خون کھول اٹھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ دونوں ہاتھوں سے بگھی کا پچھلا پہیاپکڑ لیا۔ بگھی ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ یہ دیکھ کر نواب تیزی سے گھوڑوں پر چابک برسانے لگا نے اور بگھی ایک بار پھر تیز رفتاری سے سڑک پر دوڑنے لگی۔ آندرے نے جلدی سے اپنے ہاتھ ہٹا لیے ورنہ وہ پہیوں کے نیچے آ کر کچلے جاتے، لیکن جھٹکا اتنا شدید تھا کہ وہ منہ کے بل پیچھے کیچڑ میں گر گیا۔ ایک کتے کا پلا اس کے پاس آ کر بھونکنے لگا۔ اچانک اسے ایک کھنکھناتا ہوا قہقہہ سنائی دیا۔ اس نے اٹھتے ہوئے اوپر کی طرف دیکھا۔ سامنے والے شاندار مکان کی کھڑکی میں ایک لڑکی کھڑی ہوئی ہنس رہی تھی۔ اس کی آنکھیں گہری،سیاہ رنگت کی تھیں اور وہ برف کی طرح سفید تھی۔ آندرے نے لوگوں سے پوچھا تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ شہر کوفتو کے گورنر کی بیٹی ہے۔
آندرے کو رات بھر نیند نہیں آئی۔ وہ اس لڑکی سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ اُس نے اس کا مذاق اڑایا تھا۔ چنانچہ دوسرے دن رات کو وہ گورنر کے مکان پر پہنچا اور چوروں کی طرح باغ کی دیوار پر چڑھ گیا۔ سامنے ایک بڑا سا درخت تھا جس کی ایک شاخ ایک کمرے کی کھڑکی کی طرف چلی گئی تھی۔ وہ دیوار سے کودا اور چپکے سے درخت پر چڑھ گیا۔ پھر اس شاخ پرسے ہوتا ہوا دھم سے کمرے میں کود گیا۔ گورنر کی بیٹی سنگھار میز کے سامنے بیٹھی ہوئی بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ اس نے جب کسی کے کودنے کی آواز سنی تو چونک کر پیچھے کی طرف پلٹی۔ آندرے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ گورنر کی بیٹی ڈر گئی۔ اس نے پوچھا:
’’تم کون ہو، اور یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
اور جب وہ اس کے بالکل قریب آ گیا تو اس نے پہچان لیاکہ یہ وہی نوجوان ہے جو کیچڑ میں گرا تھا۔ اب تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ آندرے بدھوؤں کی طرح اس کا چہرہ تکتا رہا۔
آخر لڑکی نے آندرے سے پوچھا۔’’ تم کون ہو اور کیا کرتے ہو؟‘‘
’’میں ایک قازق ہوں۔‘‘ آندرے نے جواب دیا۔’’ اور کیف اکیڈمی میں تعلیم حاصل کرنے آیا ہوں۔‘‘
’’ تعلیم حاصل کرنے یا کیچڑ میں گرنے؟‘‘ وہ ایک بار پر کھلکھلا کر ہنس دی۔آندرے کو بھی ہنسی آ گئی۔
’’ اگر وہ میرے ہاتھ لگ جاتا تو میں اس کے دونوں کان اکھیڑ کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا۔‘‘ آندرے نے غصے سے کہا۔
آندرے لڑکی سے اپنی توہین کا بدلہ لینے آیا تھا مگر جب اس نے لڑکی کے ساتھ باتیں کیں تو اسے معلوم ہوا کہ وہ دل کی بری نہیں۔ بہت شریف اور نیک لڑکی ہے۔ اس نے بدلہ لینے کا خیال دل سے نکال دیا۔
تھوڑی دیر بعد لڑکی نے اس سے کہا۔’’ اب تم چلے جاؤ۔ کسی نے دیکھ لیا تو چوری کے الزام میں پکڑے جائو گے۔‘‘
آندرے وہاں سے رخصت ہو گیا۔ لڑکی کی نوکرانی نے صدر دروازے تک اس کی رہنمائی کی۔ آندرے نے پہرے دار کو جگا کر دروازہ کھلوایا لیکن جب وہ باہر سٹرک پر پہنچا تو گورنر کے سپاہیوں کو شبہ ہوا کہ وہ کوئی چور اُچکا ہے۔ وہ اس کے پیچھے دوڑے اور وہ بڑی مشکل سے اُن سے جان بچا کر بھاگا۔ اگر وہ اچھا دوڑنے والا نہ ہوتا تو یقینا پھنس جاتا۔
اچانک آندرے کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ چونک پڑا، صحرا کا طویل، تین روزہ سفر ختم ہو چکا تھا۔ سامنے دریائے ڈنیپر لہریں مار رہا تھا۔ کنارے پر ایک بجرا کھڑا تھا۔ جس پر ملاح بانس لیے کھڑے تھے۔
تینوں باپ بیٹے گھوڑوں سے اتر گئے اور ان کی لگام پکڑ کر انھیں بجرے پر سوار کرانے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ انھوں نے گھوڑے خشکی پر اتارے اور ان پر سوار ہو کر چھاؤنی کی طرف چل پڑے۔ سامنے چھاؤنی کے مکانات پھیلے ہوئے تھے۔ میدان میں بہت سے لوگ بیٹھے ناچ گانے میں مشغول تھے۔ ان میں سے کچھ اپنے ہتھیار تیز کر رہے تھے۔ ایک شخص اپنی پھٹی ہوئی قمیص سی رہا تھا۔ ہر شخص کے چہرے سے جفا کشی اور بے خوفی ٹپک رہی تھی۔
تینوں باپ بیٹے گھوڑوں سے اتر گئے اور ان کی لگا میں تھامے آگے بڑھے۔ جب وہ ان لوگوں کے قریب پہنچے تو دو بوڑھے قازق تیزی سے ان کی طرف لپکے۔ بلبا نے انھیں پہچان لیا۔ یہ اس کے پرانے ساتھی تھے۔ وہ ان سے لپٹ گیا۔ ان سے اپنے دوسرے دوستوں کے بارے میں پوچھنے لگا۔
’’ برو دوفکا کہاں ہے؟‘‘ اس نے پوچھا ۔’’اور کولو پیر کا کیا بنا؟ پدسی شو کی کیا کر رہا ہے؟‘‘ وہ ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال کر گیا۔
’’ برو دوفکا کو پھانسی دے دی گئی۔‘‘ ان میں سے ایک نے بتایا۔ ’’کولو پیر کی کھال کھینچ لی گئی تھی اور پرسی شوکی کا سر کاٹ کر تاتاری اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘
’’آہ‘‘ بلبا ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولا۔’’ وہ بڑے بہادر قازق تھے۔ لیکن مجھے اُن کی موت کا زیادہ غم نہیں۔انھوں نے اپنی آزادی اور آن کے لیے قربانی دی ہے۔‘‘
اتنے میں ان کے اور بھی پرانے دوست آ گئے اور سب مل کر دیر تک پرانی باتیں کرتے رہے اور دشمن کو نیست و نابود کر دینے کے منصوبے بناتے رہے۔
تربیت کا پہلا ہفتہ بڑا جان لیوا تھا لیکن آندرے اور اوستاپ بہت جلد اس کے عادی ہو گئے۔ وہ دلیر تھے۔ صحت مندجسموں کے مالک تھے اور اُن کی ہمتیں بلند ہیں۔ وہ بہت جلد تیر اندازی اور شمشیر زنی میں ماہر ہو گئے۔
قازقوں کی تربیت کا دار و مدار تجربے اور عمل پر ہوتا تھا۔ وہ دن بھر میدانوں اور جنگلوں کی خاک ہے چھانتے پھرتے۔ جہاں کوئی جنگلی جانور نظر آتا تو اس کے پیچھے اپنے گھوڑے ڈال دیتے اور اس وقت تک چین کا سانس نہیں لیتے جب تک کہ اسے ہلاک نہ کر ڈالتے۔
بلبا اپنے بیٹوں کی جفا کشی دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سوچتا رہتا تھا کہ ابھی ان کا تجربہ کچا ہے کیونکہ وہ ابھی تک کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ اگر یونہی کچھ دن اور گزر گئے تو ان کا خون سرد پڑ جائے گا۔ اور وہ کاہل ہو جائیں گے۔
آخر ایک دن وہ جنرل کے پاس گیا۔ جنرل نے اس سے پوچھا۔
’’بلبا، خیریت تو ہے، تم کس غرض سے میرے پاس آئے ہو؟‘‘
بلبا نے جواب دیا۔’’ کیا یہ بات ہمارے لیے باعث شرم نہیں ہے کہ ہم بہت دنوں سے کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے ؟‘‘
سالار کے ماتھے پر بل پڑ گئے لیکن بلبا بالکل نہیں ڈرا۔ وہ بھی کوئی معمولی سردار نہیں تھا۔
اس نے کہا۔’’ میرے دو جوان بیٹے ہیں لیکن انھیں اب تک لڑائی کا تجربہ نہیں ہوا۔ قازق خون کو رگوں میں نہیں دوڑتے رہنا چاہیے اسے میدان جنگ میں گرنا چاہیے۔‘‘
’’ ہم ابھی لڑائی نہیں چھیڑ سکتے۔‘‘ سپہ سالار نے کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیا۔
’’ کیوں نہیں چھیڑ سکتے ؟‘‘ بلبا نے کڑک کر پوچھا۔ اسے بہت جلدی غصہ آجاتا تھا۔
’’اس لیے کہ ہم تاتاریوں سے امن کا معاہدہ کر چکے ہیں۔‘‘
’’ لیکن وہ ہمارے دشمن ہیں۔‘‘ بلبا چیخ پڑا۔’’ اور خدا کا حکم ہے کہ دشمنوں کے خلاف جہاد کرو۔ کیا یہ بات ہمیں زیب دیتی ہے کہ ہم بستروں پر پڑے پڑے مر جائیں؟‘‘
’’کچھ بھی ہو۔ ‘‘جنرل نے کہا۔’’ جنگ نہیں ہو گی۔‘‘
بلبا غصے میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس کے دل میں جنرل کے خلاف انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ جنرل کو اس کے عہدے سے ہٹا کر ہی دم لے گا۔
۔۔۔۔۔
اس واقعے کے بعد بلبا اپنے ساتھیوں کو جنرل کے خلاف بھڑکانے لگا۔ اس نے اپنے پرانے ساتھیوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر ہم آرام پسند بن جائیں گے تو تاتاری حملہ کر کے ہمیں تباہ کر دیںگے۔ دھیرے دھیرے اس کے ہم خیال لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی اور وہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتا گیا۔ جنرل کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ یہ لاوا اندر ہی اندر ابلتا رہا اور آخر ایک دن پھٹ پڑا۔
ایک دن چھاؤنی کے چوک پر چند قازق ڈھول بجانے لگے۔ یہ ڈھول اسی وقت بجایا جاتا تھا جب کسی اہم معاملے پر غور کرنا مقصود ہو۔ ڈھول کی آواز سن کر چھاؤنی کے تمام قازق جمع ہونے لگے۔ انھیں کے درمیان بلبا کھڑا پائپ پی رہا تھا۔ وہ لوگوں کی باتیں سن رہا تھا اور دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا لیکن ظاہر یہ کر رہا تھا جیسے اُسے اِس مسئلے سے کوئی واسطہ نہ ہو۔
اتنے میں جنرل اپنے مکان سے باہر نکلا۔ اس نے زرق برق لباس پہن رکھا تھا۔ وہ بڑے وقار سے چلتا ہوا ان کے درمیان آ کھڑا ہوا۔
’’اس مجمعے کا کیا مطلب؟‘‘ جنرل کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں۔
لوگ تو اس کے خلاف بھرے بیٹھے ہی تھے۔ وہ شہد کی مکھیوں کی طرح اُس سے چمٹ گئے۔
’’تم نکمے ہو۔‘‘ بلبا کا ایک ساتھی چیخ کر بولا۔
’’ تم بزدل ہو۔‘‘ دوسرا اس کے منہ کے آگے مکا لہراتے ہوئے گر جا۔ جنرل ہکا بکا رہ گیا۔
’’ ہم تمھیں سردار نہیں مانتے۔ تم بوڑھی عورت ہو اور ہمیں ایک مرد کی ضرورت ہے۔‘‘ تیسرا قازق چیخا۔
جنرل کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
’’اس کی تلوار چھین لو۔‘‘ چوتھے قازق نے کہا۔
چاروں طرف سے جنرل کے خلاف آوازیں گو نجنے لگیں۔ قازق بھیڑیوں کی طرح اس کے پیچھے پڑ گئے۔ اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ سمجھ گیا کہ اگر اس نے ذرا بھی چوں کی تو یہ لوگ اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔ اس نے چپکے سے تلوار اُن کی طرف بڑھا دی اور دم دبا کر بھاگ گیا۔
جنرل کے جانے کے بعد قازق آپس میں جھگڑنے لگے۔ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس کی سرداری پر سب کا اتفاقی ہو۔ تارس بلبا یہ چاہتا تھا کہ یہ عہدہ کوئی ایسا شخص سنبھالے جس پر اس کا اثر ہو اور جو دلیر اور لڑیّا بھی ہو۔
’’ شیلو، شیو سے اچھا سردار ہمیں نہیں مل سکتا۔‘‘ ایک قازق اپنا دایاں ہاتھ اٹھاتے ہوئے چیخ پڑا۔
’’ شیلو پر لعنت ہو۔ ‘‘دوسرا قازق چیخا۔’’ وہ کسی کام کا نہیں۔ ہم بورو ڈاٹی کو جنرل بنائیں گے۔‘‘
بلبا نے جب دیکھا کہ بنا بنایا کھیل بگڑا جا رہا ہے تو اُس نے اپنے پاس کھڑے ہوئے لوگوں سے سرگوشی میں کہا۔’’ کُر دیا گا کا نام پیش کرو۔‘‘
’’ کر دیا گا۔ کر دیا گا۔ کر دیا گا۔‘‘ بہت سے آدمی ایک ساتھ چلانے لگے۔
لیکن بوروڈاٹی اور شیلو کے حامی ان کے خلاف نعرے لگانے لگے اور پھر اُن میں سر پھٹول شروع ہو گئی۔ قازقوں کے جنگی جذبے بہت جلد ابھر آئے تھے۔ آخر اس لڑائی میں بلبا کی توقع کے مطابق کر دیا گا ہی کی فتح ہوئی۔ دس لمبے تڑنگے گراں ڈیل قازق کر دیا گا کے مکان پر گئے اور اسے پکڑ کر مجمعے میں لے آئے۔
کردیا گا حیران تھا کہ یہ تماشا کیا ہے۔ جب اسے بتایا گیا کہ وہ جنرل بنا دیا گیا ہے تو اسے یقین نہ آیا۔ اس کا حلق خشک ہو گیا۔
’’بھائیو ۔‘‘وہ گڑ گڑا یا۔’’ کیا آپ کو مجھ سے بہتر کوئی شخص نہیں ملا؟ میں تو…‘‘
’’اب زیادہ چیں چیں نہ کرو۔‘‘ ایک شخص اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔’’ اس عہدے کو قبول کر لو ورنہ تم ہماری توہین کروگے۔‘‘ ایک بوڑھے شخص نے جنرل کی تلوار اٹھا کر کر دیا گا کے ہاتھ میں تھما دی اور تمام قازق تالیاں بجانے لگے۔
آندرے اور اوستاپ نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا اس لیے وہ دیر تک اس سے لطف اٹھاتے رہے۔ قازق رات گئے تک ناچتے گاتے رہے اور پھر نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے اور وہیں زمین پر پڑ کر سو رہے۔
تارس بلبا کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ وہ دوسرے دن سے ہی کر دیا گا کو لڑائی پر اکسانے لگا۔پھر دونوں نے مل کر حملے کا منصوبہ بنایا اور کوچ کا اعلان کردیا۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوچ کرتے، ایک دن دریا کے کنارے ایک بڑی کشتی آ کر رکی۔ کشتی پر جو لوگ سوار تھے، ان کے چہرے دہشت سے زرد گئے پڑ گئے تھے۔
’’تمہیںمعلوم ہے کہ ہم پر یوکرین میں کیا بیت رہی ہے؟‘‘ کشتی میں کھڑا ہوا ایک شخص چلایا۔ قازق اپنے کام چھوڑ کر کنارے کی طرف دوڑ پڑے۔
’’ہمارا جینا دشوار ہو گیا ہے۔‘‘ وہ شخص چلایا۔’’ یہودی ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے چھکڑوں میں جوتے ہیں۔ ہم پر تھوکتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ پولستانیوں اور یہودیوں نے ہماری جان عذاب میں کر رکھی ہے۔‘‘
قازقوں کا خون کھولنے لگا۔ وہ اپنے بھائیوں کی بپتا سن کر بپھر گئے۔ ان کے دل میں پولستانیوں اور یہودیوں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ بلبا بھی وہیں موجود تھا۔ اس نے قازقوں سے کہا۔
’’ بھائیو، یہ یہودی آستین کے سانپ ہیں ۔جو یہودی چھاؤنی کے آس پاس آباد ہیں، انھیں دریائے ڈنیپر میں غرق کر دو اور ان کے مکانات کو جلا کر راکھ کردو۔‘‘
سینکڑوں قازق گھوڑے دوڑاتے ہوئے چھاؤنی کے آس پاس کی بستیوں میں پہنچے اور یہودیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارنے گئے۔ بہت سے یہودیوں کو دریا میں غرق کر دیا گیا۔ بہت سے پھانسی پر چڑھا دیے گئے اور پھر ان کے مکانات میں آگ لگا دی گئی۔
بلباایک طرف کھڑا ہوا آگ اور خون کا یہ تماشا دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک لمبا تڑنگا شخص اس کی طرف دوڑتا ہوا آیا اور اس کے قدموں میں گر گیا۔ وہ ایک یہودی تھا۔ اس کی ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں اور آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔
بلبا نے اپنی ٹانگیں جھٹک کر اسے دور ہٹانے کی کوشش کی۔
’’جناب عالی۔‘‘ وہ شخص بلبا کا دامن پکڑتے ہوئے گڑ گڑایا۔’’ آپ کا مرحوم بھائی دو روش میرا دوست تھا…‘‘
’’دوست؟‘‘ بلبا نے اسے اٹھا تے ہوئے پوچھا۔’’ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’یانکل۔ جب وہ تاتاریوں کی قید میں تھا تو میں نے اسے آٹھ سو اشرفیاں دی تھیں کہ وہ اپنی جان کا تاوان ادا کر سکے۔‘‘
اتنے میں تین قازق اس طرف آ نکلے اور تیزی سے یا نکل کی طرف جھپٹے۔ یالکل زرد پڑ گیا اور بلبا سے لپٹ کر چیخنے لگا۔
بلبا قازقوں کی طرف مڑا۔
’’ اسے میرے حوالے کر دو۔ میں اسے اپنے پاس رکھوں گا۔ یہ کہیں بھاگ کر نہیں جائے گا۔ ہم جب چاہیں گے اسے پھانسی دے دیں گے۔ ‘‘تینوں قازق چپ چاپ چلے گئے۔
جب بستی کا ایک ایک یہودی مار ڈالا گیا تو قازق اپنی چھائونی کی طرف واپس ہوئے۔ انہوں نے یہودیوں سے انتقام لے لیا تھا لیکن ابھی انھیں پولینڈ کے لوگوں کا بھی حساب چکانا تھا۔ بلبا چوکی پر پہنچا جہاں تمام قازق جنگی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ایک طرف چند قازق اپنی گاڑیوں کے پہیوں کی مرمت کر رہے تھے۔ دوسری طرف گاڑیوں میں اسلحہ بارود کے پیپے لادے جا رہے تھے۔ چند قازق صحرا کی طرف سے بہت سے بیل اور گھوڑے لا رہے تھے۔ انھیں میں بلبا کے دونوں بیٹے بھی شامل تھے۔ وہ بڑے جوش و خروش سے اپنے ساتھیوں کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
’’شاباش بہادرو‘‘ تارس بلبا ہر طرف گھومتا پھر رہا تھا۔’’ شاباش، تمھیں اپنے مضبوط بازوؤں کی قوت سے پولینڈ کی زمین کو الٹ دینا ہے۔ خون کی ہر بوند کا انتقام لینا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔
تیاریاں مکمل ہوتے ہی قازقوں کا شکر پولینڈ کی طرف کوچ کر گیا۔ یہ عظیم لشکر میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ اس شان سے آگے بڑھ رہا تھا کہ اگر کوئی پہاڑ بھی اُس کے سامنے آ جاتا تو سر جھکا دیتا۔ قازق ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ وہ بڑے بڑے صحراؤں اور دریاؤں کو پار کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ راستے میں جو شہر آیا اسے انھوں نے ملیا میٹ کر ڈالا۔
قازقوں کے حملے کی خبر دُور دور تک پھیل گئی۔جنوب مغربی پولینڈ کا ہر شخص کانپ اُٹھا۔ ان کو قازقوں کی خوں خواری کا علم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ان کا لشکر ان کی طرف آ نکلا تو ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا اور ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ اس خوف سے دیہات اور قصبوں کے لوگ بھاگ بھاگ کر بڑے شہروں اور قلعوں میں پناہ لینے لگے۔
قازق خدائی قہر کی طرح اچانک کسی بستی پر حملہ کر دیتے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ مکانوں کو جلا کر راکھ کر ڈالتے اور ہر جاندار کو تہ تیغ کر ڈالتے۔ جہاں ان کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی، وہاں جا دھمکتے اور پھر وہ جیتی جاگتی آبادی کھنڈ ربن جاتی۔
تارس بلبا قازقوں کی خوں خواری کو ہوا دیتا رہا۔ وہ خود جب تلوار سونت کر میدان میں نکلتا تو کشتوں کے پشتے لگا دیتا۔بڑے بڑے سورما اس کے سامنے آتے ہوئے گھبراتے تھے۔ اُس کے دونوں بیٹے بھی مردانگی کے جوہر دکھا رہے تھے۔ خاص کر اوستاپ تو پیدائشی جنگ جو معلوم ہوتا تھا۔ وہ ابھی صرف بائیس سال کا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی جنگی مہارت پر ہر شخص عش عش کر اٹھا۔
ان گنت دیہاتوں اور بستیوں کو تباہ و برباد کرنے کے بعد قازقوں کا ہیبت ناک لشکر ڈنبو شہر پہنچا اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ ڈنبو کا قلعہ بہت مضبوط تھا اور وہاں کے باشندے یہ تہیہ کر چکے تھے کہ جان پر کھیل کر قلعے کی حفاظت کریں گے۔
محاصرہ کئی روز تک جاری رہا۔ قازق اس کوشش میں لگے رہے کہ وہ کسی طرح قلعے کے اندر داخل ہو جائیں لیکن اس کی فصیلیں بہت مضبوط تھیں۔ انھوں نے سیڑھیوں کے ذریعے فصیلوں پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن ڈنبو کے فوجیوں نے بڑی بے جگری سے ان کا مقابلہ کیا اور انھیں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ قازق جب سیڑھیوں پر چڑھنے لگتے تو قلعے والے ان پر بڑے بڑے پتھر برساتے اور کھولتا ہوا پانی انڈیل دیتے۔ اس طرح قاز قوں کی ان کے آگے ایک نہ چلی۔
قازق اپنی کسی بھی تدبیر میں کام یاب نہیں ہوئے۔ بلبااور کر دیا گا روزانہ سر جوڑ کر بیٹھتے اور شہر کو فتح کرنے کے منصوبے بناتے لیکن ان کی کوئی چال کارگر ثابت نہ ہوئی۔ اب ان کی جیت کا دار و مدار صرف اس بات پر تھا کہ کسی طرح تنگ آ کر ڈنبو والے خود قلعے سے باہر نکل کر ان پر حملہ کریں لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب کہ محاصرہ طویل ہو جاتا اور ڈنبو والے بھوکوں مرنے لگتے۔ لیکن قازق لمبے محاصروں کے عادی نہیں تھے۔ وہ تو میدان جنگ میں دو دو ہاتھ کرنا جانتے تھے۔ وہ بہت جلد اس محاصرے سے اکتا گئے۔
آخر کار ایک دن قازقوں کے جنرل نے بلبا سے مشورہ کرنے کے بعد ا علان کیا۔ ہم ارد گرد کے علاقوں پر حملہ کریں گے تاکہ ہمارا لہو گرم رہے لیکن ہم قلعے والوں کے ایک بھی آدمی کر باہر نہیں نکلنے دیں گے۔ وہ کتوں کی طرح بھوکے نہ مریں تو میں بھی اپنے باپ کا بیٹا نہیں۔ ہم انہیں وہ مزا چکھائیں گے کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔‘‘
اس کے بعد قازقوں کا لشکر ارد گرد کے علاقوں میں پھیل گیا اور وہاں لوٹ کھسوٹ کرنے لگا۔ انھوں نے کئی قصبوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا اور سینکڑوں پولستانیوں کو اپنی تلوار کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے ڈنبو کے چاروں طرف اپنی گاڑیاں کھڑی کر دیں اور ڈنبو کی فصیلوں کو خونی نگاہوں سے تکتے رہے۔
اس طرح کئی دن گزر گئے۔ نوجوان قازق اور خاص طور سے بلبا کے بیٹے آندرے اور اوستاپ جلد ہی اس زندگی سے اکتا گئے۔ آندرے چڑ چڑا ہو گیا۔ بلبا اسے سمجھاتا کہ ہمت نہ ہارو، صبر سے کام لو۔ ایک اچھے جنگ جو کو ہر مرحلے پر مستقل مزاج رہنا چاہیے۔ ہر آزمائش پر پورا اترنا چاہیے۔ لیکن آندرے ان باتوں سے بہلنے والا نہ تھا۔
وہ جولائی کی ایک گلابی رات تھی۔ نیند آندرے کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ اٹھ کر کیمپ کے ارد گرد ٹہلنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ تمام پہرے دار اونگھ رہے ہیں۔
آندرے کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلتا رہا اور جب وہ تھک گیا تو ایک گاڑی میں لیٹ کر اونگھنے لگا۔ معلوم نہیں کب، اچانک اس کی آنکھ کھلی۔ ایک اجنبی چہرہ اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ وہ ہڑ بڑا کر کہنیوں گے بل اٹھا۔ یہ ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔
آندرے سہمی ہوئی آواز میں بولا۔’’ اگر تم کوئی پلید روح ہو تو فوراً یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ اگر انسان ہو اور زندہ ہو تو میں ابھی ایک ہی وار میںتمہارا سر قلم کیے دیتا ہوں۔‘‘
اس عورت نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر وہ اس کے قریب آئی اور آندرے نے اسے قریب سے دیکھا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ چہرہ اس کا جانا پہچانا ہے۔
’’معلوم ہوتا ہے، میں نے تمھیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے؟ ‘‘اس نے عورت سے کہا۔
’’دو سال پہلے۔‘‘ عورت نے جواب دیا۔
’’ کہاں؟‘‘ کیف ہیں۔
’’ہاں، یاد آ گیا ۔‘‘ آندرے اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔’’تم گورنر کی بیٹی کی نوکرانی ہو نا؟ لیکن یہاں کیا کرنے آئی ہو؟‘‘ آندرے نے پوچھا اور اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی اس نے دوسرا سوال کر ڈالا۔’’ تمہاری مالکن کہاں ہے؟ وہ خیریت سے تو ہے نا؟‘‘
’’ وہ شہر میں ہے۔‘‘ نوکرانی نے جواب دیا۔’’ اور اس نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ شہر کے تمام باشندے کئی دن سے بھوکے ہیں۔ ان کے منہ میں ایک کھیل تک اڑ کر نہیں گئی۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے؟‘‘
آندرے نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا۔’’ تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں ہوں؟‘‘
’’ میری مالکن نے آپ کو دوسرے قازتوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ انھوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ روٹی کا ایک ٹکڑا مانگ لاؤں۔ بھوک سے ان کی ماں کی جان لبوں پر آ گئی ہے۔‘‘
’’تم یہاں کس راستے سے آئی ہو؟‘‘ آندرے نے حیرانی سے پوچھا۔
’’میں اس سرنگ کے اندر سے آئی ہوں جو دریا کے کنارے بنی ہوئی ہے۔‘‘
آندرے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات ابھر رہے تھے۔ ڈنبو کے لوگ قازقوں کے دشمن تھے۔ اگر وہ لڑکی کی مدد کرتا ہے تو گویا اپنی قوم سے غداری کرتا ہے اور قوم سے غداری دنیا کا سب سے بڑا جرم ہے۔ دوسری طرف اس کے دل میں انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی جاگ اٹھا تھا۔ وہ ایک خوں ریز قازق ضرور تھا لیکن یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ ڈنبو والے بھوکوں مر جائیں۔ وہ بڑی دیر تک اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہا اور وہ عورت اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ آخر جیت انسانیت ہی کی ہوئی۔ وہ عورت کی طرف مڑا اور بولا۔
’’میں تمھارے ساتھ چلوں گا۔ میں ابھی سامان لے کر آتا ہوں۔ تم اس گاڑی میں لیٹ جاؤ۔ اگر کسی نے تمھیں دیکھ لیا تو بنا بنا یا کھیل بگڑ جائے گا۔‘‘
آندرے دبے پاؤں ان گاڑیوں کی طرف بڑھنے لگا جن میں غلہ بھرا ہوا تھا۔ اس کے چاروں طرف قازق پڑے سو رہے تھے۔ وہ اتنے زور سے خراٹے لے رہے تھے کہ ان کے پیچھے کی زمین کانپ رہی تھی۔ آندرے کے چہرے پر پسینے کی بوندیں اُبھر آئیں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ ایک گاڑی کے پاس پہنچا اور اس میں سے روٹیوں سے بھرا ہوا ایک بڑا تھیلا اٹھا کر واپس پلٹا۔ تمام قازق بے خبر تھے۔ لیکن وہ سوتے میں بھی کھانستے یا کروٹ بدلتے تو آندرے دم سادھ کر کھڑا ہو جاتا۔
سوئے ہوئے قازقوں کے اوپر سے ہوتا ہوا وہ اس گاڑی کے پاس پہنچا جس میں وہ عورت لیٹی ہوئی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ بیٹھی۔
’’ چپ چاپ لیٹی رہو۔‘‘ آندرے نے روٹیوں کا تھیلا اس کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں دوسرا تھیلا لے کرآتا ہوں۔‘‘
آندرے ایک بار پھر سوئے ہوئے قازقوں پر سے الانگتا پھلانگتا ایک گاڑی کے پاس پہنچا۔ اس نے ایک باجرے سے بھرا ہوا تھیلا اٹھایا اور واپس پلٹ پڑا۔ اس بار بھی اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ تمام قازق بے ہوش پڑے خراٹے لے رہے تھے۔
’’چلو!‘‘ اس نے دونوں تھیلے اٹھاتے ہوئے عورت سے کہا۔’’ فوراً یہاں سے نکل چلو۔ اب ذرا سی بھی دیر مناسب نہیں ہے۔‘‘
دونوں تیزی سے چل پڑے۔
جب آندرے اپنے باپ کے پاس سے گزر رہا تھا تو اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ جاگ گیا ہو اور کہنیوں کے بل اُٹھ کر اپنے خوں خوار لہجے میں کہہ رہا ہو۔
’’آندرے، تم تباہی کے راستے پر جا رہے ہو۔ پلٹ آئو۔‘‘
آندر ے ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا حلق خشک ہو گیا۔ اُس کی ہمت نہیں پڑی کہ پلٹ کر اپنے باپ کی طرف دیکھے۔ وہ جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔ چند لمحے بعد جب وہ دھیرے سے مڑا تو اس نے دیکھا کہ بلبا تو بے خبر پڑا سو رہا ہے۔ لیکن یہ اُس کا وہم نہیں تھا۔ کیونکہ بلبا کی آواز عورت نے بھی سنی تھی۔ شاید بلبا نے یہ بات خواب میں کہی ہو گی۔
۔۔۔۔۔
دونوں تیزی کے ساتھ سرنگ کی طرف چلنے لگے۔ عورت اس کی رہنمائی کر رہی تھی۔وہ ایک ایسی جگہ پر آئے جہاں بہت سی گھنی جھاڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ انھیں جھاڑیوں کے بیچ میں سرنگ کا منہ تھا۔ آندرے عورت کے پیچھے پیچھے سرنگ میں داخل ہو گیا۔ اندر گہرا اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
وہ بڑی دیر اندھوں کی طرح اس سرنگ میں چلتے رہے۔ آخر انھیں دور سے روشنی جھلملاتی نظر آتی ۔ سرنگ ایک خانقاہ میں نکلی جس کا دروازہ لوہے کا تھا۔
’’ہم یہاں سے شہر کے اندر داخل ہوں گے۔ ‘‘عورت نے آندرے کو بتایا۔’’ یہ ایک مذہبی خانقاہ ہے۔‘‘
عورت نے آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر بعد ایک پادری نے دروازہ کھولا۔ وہ ایک تنگ اور تاریک زینے پر کھڑا ہوا تھا۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے گھبرا کر پوچھا۔’’ تم کون ہو؟‘‘
’’خطرے کی کوئی بات نہیں۔‘‘ عورت نے آگے بڑھتے ہوئے کہا،’’ یہ میرے ساتھ ہیں۔‘‘
پادری نے خادمہ کو پہچان لیا اور انھیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔
خانقاہ سے نکل کر وہ شہر کے چوک کی طرف چلے۔آندرے نے دیکھا کہ ہر شخص کا چہرہ کمہلایا ہوا ہے۔لوگ زمین پر نڈھال پڑے تھے۔ ان کی آنکھوں کی چمک ختم ہو چکی تھی اور وہ ہڈیوں کے ڈھانچے معلوم ہو رہے تھے۔ اُسے ایسا کوئی شخص نظر نہ آیا جس کے چہرے پر خوشیوں کے آثار ہوں۔
’’ کیا پورے شہر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے؟‘‘ اس نے عورت سے پوچھا۔
’’ جو کچھ تھا، ختم ہو چکا۔‘‘ خادمہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔’’ سارے جانور ختم ہو چکے۔ گھوڑے اور کتے بھی باقی نہیں بچے۔ لوگ چو ہے تک پکڑ کر کھا گئے۔ پورا شہر بھوکا ہے بہت سے لوگ مرکھپ چکے۔ جو باقی بچے ہیں وہ مردوں سے بھی بد تر ہیں۔‘‘
’’ تو پھر وہ قلعے کے پھاٹک کھول کیوں نہیں دیتے؟ اس طرح بھوکوں مر جانے سے تو بہتر ہے کہ وہ لڑبھڑ کر مر جائیں۔‘‘
’’ہم لوگ تو حوصلہ ہار چکے تھے۔‘‘ خادمہ نے کہا۔’’ ہماری ہمتیں پست ہو چکی تھیں اور گورنر نے بھی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ قلعے کا پھاٹک کھول دے گا لیکن کل ہمیں اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا کیوں کہ کل پولینڈ کی فوج کے ایک کرنل نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں آ رہا ہے، اس لیے ہم ڈٹے رہیں۔ وہ ہمارے لیے خوراک بھی لائے گا۔ اب ہماری نگاہیں اسی پر لگی ہوئی ہیں۔‘‘
خادمہ نے ایک لال اینٹوں والے شان دار مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ یہ گورنر کا مکان ہے۔‘‘
دونوں نے تیزی سے مکان کی سیڑھیاں طے کیں۔ آندرے نے دونوں تھیلے اس کے حوالے کیے اور خود دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔
آہٹ سن کر گورنر کی بیٹی اس کی طرف دوڑ پڑی۔
’’ تم بڑے نیک دل ہو۔ ‘‘اس نے آندرے کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کیا۔ ’’مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آؤگے۔‘‘ آندرے کی زبان خشک ہو گئی تھی۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔
’’ میں تمھارا کس منہ سے شکریہ ادا کروں۔‘‘ لڑکی بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’خدا ہی تمہیں اس کا اجردے گا۔‘‘
اچانک دروازہ کھلا اور وہی نوکرانی اندر داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک سونے کی پلیٹ تھی۔ جس پر روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ آندرے کے سامنے سے گزر کر پلیٹ کو میز پر رکھنے لگی۔
’’کیا تم نے میرے ماں باپ کو بھی روٹیاں پہنچا دیں؟‘‘ لڑکی نے بے تابی سے پوچھا۔
’’جی ہاں۔ میں انھیں دے آئی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر خادمہ واپس چلی گئی۔
لڑکی جلدی جلدی روٹی کھانے لگی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دن کی بھوکی ہے۔ یہ دیکھ کر آندرے کا دل بھر آیا۔ اس نے آہستہ سے کہا:’’ تم بہت نیک دل لڑکی ہو۔ تمھارے چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت ہے ۔ اگر میں نے کبھی شادی کی تو تم سے کروں گا۔‘‘
پولستانی لڑکی نے اپنا چہرہ اس کی طرف اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔ وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اچانک اُسے کچھ خیال آ گیا اور الفاظ اس کے ہونٹوں پر مچل کر رہ گئے۔ وہ سوچنے لگی۔’’ یہ شخص قازق ہے۔ یہ لوگ بہت سنگ دل اور ظالم ہوتے ہیں۔ انھوں نے ایک عرصے سے ڈنبو کا محاصرہ کر رکھا ہے۔یہ بھی انھیں لوگوں میں سے ہے۔ وہ اپنے وطن وفادار ہو گا۔ اس کا میرا کیا ساتھ؟ یہ سوچ کر وہ روپڑی۔ آندرے بھونچکا رہ گیا۔ اس نے لڑکی کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’’تم رو کیوں رہی ہو؟‘‘
لڑکی نے روتے ہوئے کیا۔’’ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ‘‘
’’میں تمھارا دشمن نہیں ہوں، دوست ہوں۔‘‘ آندرے نے جواب دیا۔
اسی لمحے نیچے گلی سے شور و غل کی آوازیں اٹھیں اور زور زور سے بگل بجنے لگے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بڑا جشن منایا جا رہا ہو۔
خادمہ دوڑتی ہوئی اندر آئی…’’ کمک آ گئی، مدد آ گئی۔‘‘ وہ خوشی سے چلا رہی تھی۔’’ ہمارے فوجی شہر میں آ گئے ہیں۔ وہ ہمارے لیے اناج بھی لائے ہیں۔ ان کے ساتھ بہت سے قازق قیدی بھی ہیں۔ رسیوں سے بندھے ہوئے۔‘‘
لیکن وہ دونوں باتوں میں اتنے کھوئے ہوئے تھے کہ انھوں نے خادمہ کی بات نہیں سنی اور انھیں خبر تک نہیں ہوئی کہ کون آیا اور کون گیا۔
ادھر صبح جب قازقوں کی آنکھ کھلی اور انھوں نے قلعے کا شور سنا تو معلوم ہوا کہ راتوں رات شہر والوں کومدد پہنچ گئی ہے۔ ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ ا ب تک اس انتظار میں تھے کہ بھوک سے لاچار ہو کر شہر کی فوج خود باہر نکلے گی لیکن اب انھیں سامان رسد مل گیا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ کچھ اور عرصے کے لیے محفوظ ہو گئے تھے۔ جنرل کردیاگا نے تمام قازقوں کو میدان میں جمع کرنے کے بعد کہا۔
’’دیکھا، بھائیو، تمھاری آرام پسندی کی وجہ سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ تم سوتے رہے اور دشمن تمھارے سینے پر مونگ دل گیا۔ اب اپنی غفلت کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہو جائو۔‘‘
قازقوں کے سر جھک گئے۔
جب جنرل نے دیکھا کہ وہ پشیمان ہیں تو اس نے اُن کی ہمت بڑھانے کے لیے کہا۔’’ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ میرے خیال میں پولستانیوں کو زیادہ سامان نہیں مل سکا کیونکہ ان کے پاس بہت کم گاڑیاں تھیں۔ وہ بہت جلد سارا اناج ختم کر ڈالیں گے اور پھر اُن کی فوج کو مجبوراً باہر نکلنا پڑے گا۔‘‘
جنرل نے اپنی فوج کو پانچ دستوں میں تقسیم کر دیا۔ تین دستوں کو حکم دیا کہ وہ شہر کو جانے والی تینوں سڑکوں پر مورچے بنا لیں اور باقی دو دستے کیمپ کے دائیں بائیں، کمین گاہوں میں چھپ جائیں۔
یہ سنتے ہی تمام تازقوں نے اپنی تلواروں کا معائنہ کیا اور اس کے بعد گاڑیوں میں گولا بارود کے ڈبے لادنے لگے۔
قازق ان تیاریوں میں لگے ہوئے تھے اور بلبا سوچ رہا تھا کہ’’ آندرے کہاں غائب ہو گیا؟ کیا رات کواسے پولستانی پکڑ کر تو نہیں لے گئے؟‘‘ لیکن پھر اس نے خود ہی اپنے خیال کی تردید کر دی۔’’ ایسا نہیں ہو سکتا۔ کوئی مائی کا لال اسے زندہ پکڑ کر نہیں لے جا سکتا۔‘‘ وہ اسی سوچ بچار میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک اسے پیچھے سے کسی نے پکارا۔ وہ اس کی طرف پلٹا۔
یہ وہی یہودی یا نکل تھا جس کی اس نے جان بچائی تھی وہ اس کے پاس آیا اور بولا۔’’ کرنل صاحب میں شہر میں تھا۔‘‘
’’تم شہر میں تھے؟‘‘ بلبا نے بے تابی سے اس کا کندھا پکڑتے ہوئے پوچھا۔’’وہاں کا کیا حال ہے؟‘‘
یا نکل نے جواب دیا۔’’ آج صبح جب شور ہوا تو میں دوڑ کر شہر کے دروازے پر پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ شہر کے اندر ہزاروں سپاہی داخل ہو رہے ہیں۔ میں کھڑا دیکھتا رہا۔‘‘
’’ تم نے اور کیا دیکھا؟‘‘ بلبا نے اس کی بات کاٹنے ہوئے کہا۔ وہ آندرے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی ہمت نہیں پڑی۔
یانکل نے جواب دیا۔’’ میں نے آئزک، سموئیل اور راہوم کو دیکھا تھا۔‘‘
’’ان پر خدا کی مارہو۔ مجھے تمہارے یہودی کیڑوں سے کیا واسطہ؟‘‘ بلبا لال پیلا ہوتا ہوا بولا۔’’ یہ بتاؤ، تم نے وہاں کسی قازق کو بھی دیکھا تھا؟‘‘
’’قازق تو وہاں کوئی نظر نہیں آیا…البتہ!‘‘ یانکل ہکلاتے ہوئے بولا۔’’ میں نے آپ کے بیٹے آندرے کو دیکھا تھا۔‘‘
بلبا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔’’ تم نے آندرے کر دیکھا تھا؟ کیا وہ قید خانے میں ہے؟ کیا وہ رسے سے بندھا ہوا تھا؟‘‘ اس نے آگے بڑھ کر یا نکل کی کلائی پکڑ لی۔’’ سچ سچ بتانا۔‘‘
یا نکل نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔’’ کسی کی مجال نہیں کہ اسے گرفتار کر سکے۔ وہ ایک دلیر اور بہادر جوان ہے۔‘‘
’’تو تمہارا مطلب ہے، وہ آزاد تھا؟‘‘
’’جی ہاں…، وہ کسی پولستانی امیر کی طرح زرق برق لباس پہنے ہوئے تھا۔ گورنر نے اسے سواری کے لیے اپنا سب سے عمدہ گھوڑا دے دیا ہے۔‘‘
بلبا بھڑک اٹھا۔ اس کے خون کی گردش تیز ہوگئی۔ اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں اور اس نے دھاڑتے ہوئے پوچھا: ’’کیا وہ اپنی مرضی سے ان کے پاس گیا ہے؟‘‘
’’خدا ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘ یہودی جھجکتے ہوئے بولا ۔’’میرے خیال میں…شاید وہ اپنی مرضی سے ان کے پاس گیا ہے۔‘‘
’’ تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟‘‘ بلبا کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کا بیٹا قوم سے غداری کر سکتا ہے۔
’’مجھے گورنر کی ایک خادمہ نے یہ بات بتائی ہے اور آندرے نے ان لوگوں سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ تازقوں کو یہاں سے مار بھگائے گا اور…‘‘
’’تم نے خود اپنی آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا؟ ‘‘بلبا نے یہودی کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں جناب،اور انھوں نے مجھے آپ کے پاس اپنا یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ وہ آپ سب کے خلاف لڑیں گے۔‘‘
تارس بلبا کی کنپٹیاں جل اٹھیں۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے خونخوار درندے کی طرح نیام سے تلوار کھینچ لی۔ دہشت زدہ یانکل سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلا۔ بلبا کا خون کھول رہا تھا۔ اگر آندرے اس کے سامنے آ جاتا تو وہ اس کا قیمہ بنا ڈالتا۔
۔۔۔۔۔
قازق تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ شور سن کر پولستانی جنرل فصیلوں پر جمع ہو گئے۔ وہ قازقوں کی چال سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ فصیلوں پر توپیں لگی ہوئی تھیں۔ سب سے آگے وہ کرنل کھڑا تھا جو شہر والوں کے لیے مدد لایا تھا۔ وہ اتنا موٹا تھا کہ اس کے لمبے فوجی کوٹ میں سے اس کا پیٹ نکلا پڑ رہا تھا۔ اتنے میں فصیل کے نیچے سے تین قازق گزرے۔ ان کی نظر جب موٹے کرنل پر پڑی تو ان کی ہنسی نکل گئی۔
’’ دیکھو! ‘‘ایک قازق کرنل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیخا۔’’ اس مٹکے کو تو دیکھو، وہ اتنا موٹا ہے کہ اس کے پیٹ کے اندر پورے پولینڈ کی فوجیں سما سکتی ہیں۔ ‘‘اور تینوں زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔
کرنل نے ان کی آواز سنی تو ایک دم اس کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے تو پچیوں کو حکم دیا کہ ان تینوں قازقوں کو اڑا دیں۔
فائر ہوا۔ تینوں قازق بال بال بچے۔ گولا ان سے ذرا ڈور پھٹا تھا ورنہ وہ اپنے گھوڑوں سمیت اڑ چکے ہوتے۔ اس سے پہلے کہ دوسرا فائر ہوتا، وہ وہاں سے بھاگ نکلے اور اپنے دستے میں جا ملے۔
اور پھر قلعے کے پھاٹک کھلے اور پولستانی دستے باہر نکلنے شروع ہوئے۔ تمام سپاہی سر سے پاؤں تک ہتھیاروں سے لیس تھے اور یہ تہیہ کر کے آئے تھے کہ فیصلہ کن جنگ لڑیں گے۔
جب قازقوں کے جنرل کر دیاگا نے دیکھا کہ پولستانی فوج باہر نکل رہی ہے تو وہ چلایا۔’’ ساتھیو، یہ بہترین موقع ہے۔ انھیں ایک جگہ جمع ہونے کا موقع نہ دو۔ حملہ کر کے ان کی صفیں الٹ دو۔‘‘
قازق دستے چاروں طرف سے پولستانی سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے اور لڑائی شروع ہو گئی۔ قازقوں کو بہت عرصہ کے بعد اپنی تلواروں کی دھار آزمانے کا موقع ملا تھا۔ وہ خونخوار بھیڑیوں کی طرح پولستانی سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے۔ دوسری طرف پولستانی بھی قازقوں کے خلاف بھرے بیٹھے تھے۔ وہ بھی بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ مرنے والوں کی چیخوں، گھوڑوں کی ہنہناہٹ، تلواروں کی جھنکار میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ قازق سپاہی پولستانی دستوں کے اندر گھس گئے تھے اور انھوں نے ان کی صفیں الٹ دی تھیں۔ تارس بلبا ادھر اُدھر گھوڑا دوڑاتا اپنے سپاہیوں کی ہمتیں بڑھا رہا تھا۔ وہ بوڑھا ضرور تھا لیکن اس کا خون جوان تھا۔ اُس کا بیٹا اوستاپ بھی کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا۔ وہ جس طرف نکل جاتا، پولستانی سپاہی بھاگ نکلتے۔ وہ اب تک بیسیوں پولستانیوں کو خون میں نہلا چکا تھا۔ اُس کے پاس ایک لمبی سی رسی تھی۔ وہ اس کا پھندا بنا کر کسی پولستانی سپاہی کے گلے میں ڈال دیتا اور اس طرح گلا گھونٹ کر اسے مار دیتا، وہ اس طرح نہ جانے کتنے پولستانیوں کو موت کے گھاٹ، اتار چکا تھا۔
شہر یومان کے رہنے والے قازقوں کا دستہ بڑی بے جگری سے لڑ رہا تھا۔ اس کا سردار ایک نڈر اور جنگ جو شخص تھا۔ وہ بڑی مہارت سے اپنے سپاہیوں کو لڑا رہا تھا۔ وہ خود اپنی تلوار سے سات پولستانی سپاہیوں کوجہنم رسید کر چکا تھا لیکن ساتویں سپاہی کو ہلاک کرنے کے بعد وہ اپنے گھوڑے سے اتر کر اس کی قیمتی زرہ اُتارنے لگا۔ لیکن ابھی اس نے زرہ کو ہاتھ ہی لگایا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک پولستانی سپاہی نے اس کی گردن اڑا دی۔
جب یومانی قازقوں کو اس بات کا علم ہوا کہ ان کا سردار مارا جا چکا ہے تو وہ ایک جگہ جمع ہو گئے تاکہ نئے سردار کا انتخاب کریں۔ سب کی نظریں اوستاپ کی طرف اٹھ گئیں۔
’’ ہمیں اوستاپ بلبا سے بہتر شخص نہیں مل سکتا۔‘‘ سب ایک زبان ہو کر پکار اٹھے۔’’ وہ عمر میں ہم سب سے چھوٹا ہے لیکن وہ ہم سب سے عقل مند اور دلیر ہے۔ وہی ہماری کمان کر سکتا۔‘‘
تمام یومانی قازق نئے سردار کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ اوستاپ نے اپنی ٹوپی اتار کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اب وہ یومانی قازقوں کا سردار تھا۔
جب یومانی قازقوں کا نیا سردار اپنے دستے کو لے کر واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ دشمن کے سپاہی پسپاہو کر قلعے کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ قازق ان کا پیچھا کر رہے تھے اور وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے جا رہے تھے۔ انھیں پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی بھی مہلت نہیں ملی۔ موقع غنیمت تھا اس لیے قازقوں نے دوگنی قوت سے ان پر حملہ کر دیا اور انھیں چن چن کر قتل کرنے لگے۔
پولستانی سپاہی قلعے کے پھاٹک پر پہنچ کر زور زور سے چلانے لگے۔’’ پھاٹک کھولو۔ دشمن سر پر آ پہنچا ہے۔‘‘
پھاٹک کھل گیا اور وہ گرد میں اٹے ہوئے، خستہ حال اندر داخل ہو گئے۔ قازق سپاہیوں کے پہنچنے سے پہلے پھاٹک بند کر لیا گیا۔ قازق جو وہاں تک ان کاپیچھا کرتے آئے تھے، یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔
بلبا ایک جگہ گھوڑے پر سوار، فاتح قازقوں کو آتا دیکھ رہا تھا۔ اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ اچانک اسے یومانی قازتوں کا دستہ دکھائی دیا۔ سب سے آگے اس کا بیٹا اوستاپ تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یومانی قازقوں نے اسے اپنے دستے کا سردار چن لیا ہے۔ اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اوستاپ نے باپ کو دیکھ کر اپنا ہاتھ لہرایا۔ جواب میں وہ بھی بڑی گرمجوشی کے ساتھ اپنا ہاتھ لہرانے لگا۔ گویا کہہ رہا ہو۔’’ تم ہی کو میرا بیٹا کہلانے کا حق ہے۔ تم سچے قازق ہو۔ میں تم پر فخر کرتا ہوں۔‘‘
قازق مال غنیمت اکٹھا کر کے اپنے کیمپ میں چلے گئے اور رات بھر اپنی کام یابی کا جشن مناتے رہے۔
دوسرے دن دوپہر کے وقت اچانک ڈھول بجنے کی آواز سنائی دی۔ تمام قازق میدان جنگ میں جمع ہو گئے لیکن کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ انھیں کیوں بلایا گیا ہے؟ وہ ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ بلبا اور کردیا گا بھی وہیں موجود تھے اور ان کے ساتھ ایک قازق بھی کھڑا ہوا تھا۔
اس کے سر پر ٹکیاں بندھی ہوئی تھیں، سانس بری طرح پھولا ہوا تھا اور آنکھوں سے دہشت ٹپک رہی تھی۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بڑا لمبا سفر کر کے آیا ہو۔
اُس نے قازقوں سے کہا۔’’ بھائیو، ہماری چھاؤنی تباہ ہو چکی ہے۔ ہم پر تاتاریوں نے حملہ کر دیا تھا۔ انھوں نے ہمارے مکانات جلا ڈالے۔ ہم نے بڑی دلیری سے ان کا مقابلہ کیا لیکن ہماری تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ انھوں نے ہماری ایک بڑی تعداد کو تہہ تیغ کر ڈالا اور جو باقی بچے انھیں قید کر کے لے گئے۔ وہ ہمارے خفیہ خزانے بھی نکال لے گئے۔ میں اکیلا فرار ہونے میں کامیاب ہو سکا ہوں اور لگاتار دو دن اور دو راتوں سے گھوڑا دوڑاتا ہوا یہاں پہنچا ہوں۔‘‘
قازق دم سادھے تاتاریوں کے حملے کی تفصیل سن رہے تھے کہ اچانک وہ قازق جھومتا ہوا زمین پر آ گرا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اس لیے گرتے ہی اسے گہری نیند آ گئی۔
جنرل کردیا گا قازقوں سے کہنے لگا۔’’ بھائیو! آپ نے سن لیا کہ تاتاریوں نے کیا لوٹ کھسوٹ مچا رکھی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم یہاں سے فوراً کوچ کر جائیں اور تاتاریوں سے جا کر جنگ کریں۔ ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ورنہ تاتاری کہیں دور نکل جائیں گے ۔ہم انھیں ایسا سبق دیں گے کہ انہیں آئندہ ہماری طرف نگاہ کرنے کی بھی جرات نہیں ہو گی۔ ہم نے پولستانیوں کے دانت کھٹے کر دیے ہیں اور اب انھیں بھی احساس ہو گیا ہو گا کہ ہم نے ان سے بڑا بھیانک انتقام لیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈنبو کا شہر اب ویران ہو چکا ہے۔ ہم اس پر قبضہ کر کے کیا حاصل کریں گے؟‘‘
سب قازقوں نے کر دیا گا کی تجویز سے اتفاق کیا لیکن تارس بلبا کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ اس نے گرج کر کہا۔’
’تمہاری تجویز ایک حد تک ٹھیک ہے لیکن تم بھول گئے ہو کہ ہمارے چند ساتھی پولستانیوں کی قید میں ہیں۔ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ ہم ان کو یہاںکتے کی موت مرنے کے لیے چھوڑ جائیں؟ میں یہیں رکوں گا۔‘‘
کر دیا گا کو بھی غصہ آ گیا۔ اس نے چیخ کر کہا:
’’ہمارے بہت سے ساتھی تاتاریوں کی قید میں بھی تو ہیں۔ اگر ہم نے انھیں قید سے نہیں چھڑا یا تو وہ لوگ انہیں بیچ دیں گے اور وہ زندگی بھر کے لیے غلام بن جائیں گے۔ ‘‘
تارس بلبا مٹھیاں بھینچتا ہوا کردیا گا کی طرف بڑھا لیکن اس سے پہلے کہ دونوں کے درمیان جھڑپ ہوتی اور تلواریں نکل آتیں ایک بوڑھا قازق آگے بڑھا اور بولا:
’’کر دیا گا اور بلبا دونوں حق پر ہیں۔ ہمیں اپنے وہ بھائی بھی عزیز ہیں جو تاتاریوں کی قید میں ہیں اور ہم اپنے ان بھائیوں کو بھی چھوڑ کر نہیں جا سکتے جو یہاں ڈنبو میں قید ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ جو لوگ تاتاریوں کا تعاقب کرنا چاہتے ہیں وہ کردیا گا کے ساتھ چلے جائیں اور جو بلبا کی رائے سے متفق ہیں، وہ یہیں رک جائیں۔ ‘‘
یہ کہہ کر بوڑھے قازق نے گلا صاف کیا اور پھر چاروں طرف دیکھ کر بولا۔’’ جو لوگ یہاں ٹھہرنا چاہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ کسی شخص کو اپنا سردار چن لیں اور میرے خیال میں اس عہدے کے لیے بلبا سے اچھا اور کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔‘‘
بلبا کے ساتھی خوشی کے نعرے لگانے لگے۔ جلد ہی قازقوں کی فوج دو حصوں میں بٹ گئی۔ جو لوگ تاتاریوں کا تعاقب کرنا چاہتے تھے، وہ جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔
بلبا کے ساتھی کر دیا گا اور اس کے ساتھیوں کو دور تک رخصت کرنے گئے۔ کر دیا گا نے بلبا اور اس کے ساتھیوں سے کہا: ’’ہم کو اپنے تمام اختلاف بھلا دینے چا ہئیں۔ خدا بہتر جانتا ہے ،ہم اس کے بعد ملتے ہیں یا نہیں۔‘‘
’’ خدا تمھیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ ‘‘بلبا نے کہا۔
دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ تمام قازقوں نے ایک دوسرے کی پیشانی چوم کر الوداع کہی۔ کر دیا گا اور اس کے ساتھی گھوڑے دوڑاتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ بلبا اور اس کے ساتھی دیر تک ان کی طرف ہاتھ لہراتے رہے، یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
۔۔۔۔۔
جب پولستانیوں کو اس بات کا علم ہوا کہ قازق فوج کے آدھے سپاہی چلے گئے ہیں تو ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔ انھیں یقین ہو گیا کہ اب وہ قازقوں کو آسانی سے شکست دے دیں گے۔ وہ جنگ کی بھر پور تیاریاں کرنے لگے۔
ایک دن شہر کے پھاٹک کھلے اور پولستانی فوج باہر نکلنے لگی۔ ان کی کانسی کی زرہیں سورج کی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ اُن کے ہتھیار تیز اور چمکیلے تھے۔ وہ اس بار یہ فیصلہ کر کے نکلے تھے کہ یا تو قازقوں کو مار بھگائیں گے یا لڑتے لڑتے جان دے دیں گے۔ وہ اپنی تمام توپیں بھی باہر نکال لائے تھے اور انھیں ایک بلند مقام پر لگا دیا تھا۔ قازقوں کا پڑاؤ ان کے نشانے کی زد پر تھا۔
پولستانیوں نے بڑی تیزی سے حملہ کیا۔ قازق اپنی گاڑیوں پر مورچے بنائے بیٹھے تھے۔ پولستانی سپاہی جیسے ہی اُن کی زد پر آئے انھوں نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ پولستانیوں کی پیش قدمی رک گئی۔ انھوں نے آگے بڑھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن قازقوں کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ جو سپاہی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ،کتے کی موت مارا جاتا۔
یہ دیکھ کر پولستانی جنرلوں نے اپنے تو پچیوں کو محکم دیا کہ وہ قازقوں کی گاڑیوں پر گولہ باری شروع کر دیں۔ ایک دم کئی توپیں آگ اگلنے لگیں۔ قازقوں کی بہت سی گاڑیاں ہوا میں اڑ گئیں۔ ان میں سے بیسیوں ہلاک ہو گئے اور زخمیوں کی تعداد تو بے شمارتھی۔
بلبا نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی فوج خطر ے میں ہے تو اس نے فوراً حکم دیا کہ گاڑیوں کامورچہ چھوڑ کر گھوڑوں پر سوار ہو جائیں اور پولستانی توپ خانے پر حملہ کر دیں لیکن قازق بوکھلا گئے تھے۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اپنے سردار کا حکم مانتے۔ اس پر بلبا کا دلیر بیٹا اوستاپ اکیلالڑتا بھڑتا توپ خانے کی طرف جا پہنچا۔ اس نے دیکھتے دیکھتے کئی تو پچیوں کو موت کے گھاٹ اتار ڈالا۔ چھ تو پچی بارود کو فلیتہ دکھانے والے تھے لیکن عین اس وقت اوستاپ ان کے سروں پر جا پہنچا اور اُن کی گردنیں اڑا دیں۔ سب اس کی بہادری پر عش عش کر اٹھے۔ اس کے بعد وہ دوسرے تو پچیوں کی طرف بڑھا لیکن اچانک ایک پولستانی دستہ اس کی طرف جھپٹ پڑا۔ یہ دیکھ کر اس نے بھاگ جانا ہی مناسب سمجھا۔
اب پولستانیوں نے اپنی سب سے بڑی توپ سے گولہ باری شروع کر دی تھی۔ پورا میدان جنگ کانپ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے قازقوں کی آدھی فوج موت کا نوالہ بن گئی۔
یہ دیکھ کر بلبا کو یقین ہو گیا کہ اس طرح اس کی پوری فوج پولستانی توپوں کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ پولستانی سپاہیوں پرایک دم حملہ کر دیں۔ قازق تیز رفتاری کے ساتھ پولستانیوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کی صفوں میں گھس۔
قازق اس بہادری سے لڑ رہے تھے جیسے ان کا کچھ نقصان ہی نہ ہوا ہو۔ انھوں نے چاروں طرف کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے۔ دونوں طرف کے سپاہی بھوکے بھیڑیوں کی طرح اپنی تلواروں کی پیاس بجھا رہے تھے۔ بلبا اور اس کا بیٹا اوستاپ جان کی بازی لگا کر لڑ رہے تھے۔ اُنھوں نے چند لمحوں کے اندر درجنوں پولستانیوںکے سراڑا ڈالے۔ قازقوں کا پلا بھاری پڑ رہا تھا اور ممکن تھا کہ پولستانی میدان سے بھاگ نکلتے لیکن عین اس وقت شہر کے پھاٹک کھلے اور پولستانی فوج کا ایک گھڑ سوار دستہ باہر نکل کر میدان جنگ کی طرف بڑھا۔ اس دستے کا کمانڈر ایک لمبا تڑنگا نوجوان تھا جو بڑی شان سے اپنے گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بہت خوب صورت اور طاقت ور تھا۔ اس نے ایک چمک دار زرہ پہن رکھی تھی۔ سر پر فولادی ٹوپی تھی۔
جب وہ شہسوار قریب آیاتو تارس بلبا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ سکتے میں آ گیا۔ وہ نوجوان اس کا اپنا بیٹا آندرے تھا۔ وہ دشمنوں کی طرف سے لڑنے آیا تھا۔’’ غدار۔ اس نے اپنی قوم کی عزت کا سودا کیا ہے۔‘‘ بلبا کے بوڑھے جسم کا لہو ابلنے لگا۔ اس کی کنپٹیاں جل اٹھیں اور اس کا جی چاہا کہ وہ دشمنوں کی صفوں میں گھستا ہوا اس کے سر پر جا پہنچے اور اپنی خونی تلوار سے اس کی گردن اڑا دے۔
آندرے بڑی پھرتی کے ساتھ قازقوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا تھا۔ وہ جس طرف پہنچتا وہاں قازقوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے۔ اُس کے سامنے جانے پہچانے چہرے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے ساتھ مل کر وہ کئی لڑائیاں لڑ چکا تھا۔ وہ اس کے ہم قوم تھے۔ انھیں میں اس کا باپ اور بھائی بھی شامل تھے۔ لیکن اسے اس وقت کچھ بھی یاد نہیں تھا، وہ ایک دشمن کی طرح ان سے لڑ رہا تھا۔
بلبا نے اشارے سے قازق سواروں کی ایک ٹکڑی کو اپنے پاس بلایا۔
’’ اس شہسوار کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ اس نے آندرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اسے دھوکے سے اپنے پیچھے لگا کر سامنے جنگل میں لے جاؤ۔ میں بھی وہاںپہنچتا ہوں۔‘‘
تیس تیز رفتار شہسوار آندرے کے سامنے سے نکل کر جنگل کی طرف بڑھے۔آندرے نے یہ دیکھا کہ وہ لوگ بھاگ رہے ہیں تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے ڈال دیا اور اپنے ساتھیوں کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ لیکن وہ ان شہسواروں کی گرد کو بھی نہیں پا سکا۔ دیکھتے دیکھتے وہ جنگل کے اندر داخل ہو گئے۔آندرے اکیلا تھا لیکن اس کے جسم میں بھی قازقوں کا خون دوڑ رہا تھا۔ اس کے سپاہی بہت پیچھے رہ گئے تھے لیکن وہ بے دھڑک جنگل میں گھستا چلا گیا۔ وہ اپنی تلوار لہراتا ہوا بھگوڑے قازقوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک ایک مضبوط ہاتھ نے اس کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ گھوڑا پچھلی ٹانگوں پر اچھلنے لگا۔ آندرے غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے اپنی تلوار ہوا میں لہراتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا اور…اس کا خون خشک ہو گیا۔
اس کے سامنے تارس بلبا کھڑا تھا۔ اس کا باپ۔ اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ خوف کے مارے اس کا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔
’’بولو!‘‘ بلبا اس کے گھوڑے کی باگ کھینچتے ہوئے دھاڑا۔’’ اب تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘
آندرے نے کچھ کہنا چاہا لیکن الفاظ اس کے ہونٹوں پر آکر رہ گئے۔بلبا کی گرج دار آواز سن کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ چہرے پر پسینے کی بوندیں ابھر آئی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا گویا اس کے بدن میں جان نہ رہی ہو۔
’’تم نے اپنی قوم سے غداری کی ہے۔‘‘ بلبا گرجا۔اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔’’ تم نے اپنے وطن سے غداری کی ہے۔‘‘
آندرے چپ چاپ بلبا کا منہ تکتا رہا۔
’’ اب میرا منہ کیا تک رہے ہو؟ گھوڑے سے نیچے آئو اور اپنی سزا بھگتو۔‘‘
آندرے چپ چاپ گھوڑے سے اترا اور سر جھکا کر بلبا کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ اس کا باپ تھا اوروہ لاکھ غدار سہی لیکن اپنے باپ کا حکم نہیں ٹال سکتا تھا۔ اس کی نظریں اوپر نہیں اٹھ رہی تھیں۔
تارس بلبا نے پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے کندھے بندوق اتاری اور آندرے کے دل کا نشانہ باندھا۔ یہ اس کا بیٹا تھا جسے اس نے پال پوس کر بڑا کیا تھا، اس امید پر کہ وہ قازقوں کا نام روشن کرے گا۔ لیکن اس نے غداری کی…وہ غدار ہے…وہ غدارہے۔
بلبا نے گولی چلا دی۔ آندرے کے منہ سے ایک سسکی تک نہیں نکلی۔ وہ کھڑے قد سے زمین پر گر پڑا۔
بلبا دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھا۔ وہ مر چکا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے سینے سے خون کا فوارہ ابل رہا تھا۔ بلبا اس کے قریب گیا۔ ’’یہ ایک عجیب و غریب قازق تھا۔‘‘ وہ بڑبڑایا اور اس کی لاش کو وہیں چھوڑ کر پیچھے کی طرف پلٹ گیا۔
ٹھیک اسی وقت اوستاپ گھوڑا دوڑاتا ہوا وہاں آ پہنچا:’’ ابا، آپ نے یہ کیا کر دیا؟‘‘ وہ آندرے کی لاش کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’اسے آپ نے ہلاک کیاہے؟‘‘
بلبا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں باپ بیٹے اپنے ساتھیوں میں شامل ہونے کے ارادے سے میدان جنگ کی طرف بڑھے لیکن اس دوران پولستانی سپاہی جنگل کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ بیسیوں پولستانی بلبا اور اوستاپ پر ٹوٹ پڑے۔ دونوں نے بڑی بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور چند ہی لمحوں میں ان کی ایک بڑی تعداد کو ڈھیر کر ڈالا۔ لیکن ان کے چاروں طرف دشمن ہی دشمن پھیلے ہوئے تھے۔ ایک مر جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ بلبا نے اپنے دائیں بائیں بیسیوں پولستانیوں کو دوسری دنیا میں پہنچا دیا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ اوستاپ پر ایک ساتھ آٹھ دس پولستانیوں نے حملہ کر دیا ہے۔ وہ چلایا۔
’’ اوستاپ، حوصلہ نہ ہارنا۔‘‘
اوستاپ نے بڑی دلیری سے دشمنوں کے حملے کو روکا لیکن ایک تلوار آٹھ دس تلواروں کا مقابلہ کب تک کرتی۔ پھر وہ تھک بھی چکا تھا۔ اُنھوں نے اس پر اس شدت سے حملہ کیا کہ اس کی تلوار چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔
بلبا نے جب یہ دیکھا کہ اس کا بیٹا خطرے میں ہے تو وہ چیخا۔’’ اوستاپ میں آ رہا ہوں۔‘‘ اور وہ اوستاپ کی طرف بڑھنے لگا۔
اچانک اس کے سر پر کوئی بھاری سی چیز پڑی جس سے اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے ۔وہ شاہ بلوط کے درخت کی طرح دھڑ سے زمین پر آ رہا۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔
پولستانی اوستاپ کو پکڑ کر لے گئے۔ اُنھوں نے بلبا کو مردہ سمجھ کر وہیں پڑا رہنے دیا۔ کچھ دیر بعد اتفاق سے ایک قازق وہاں آ نکلا۔ اس نے بلبا کو پہچان لیا اور اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا۔
۔۔۔۔۔
بلبا کے اکثر ساتھی مرکھپ چکے تھے۔ چھائونی اس کے لیے اجنبی ہو گئی۔ اُس کے زخم بہت گہرے تھے۔انھیں بھرنے میں پورے چھ ہفتے لگے ۔اس دوران میں وہ انگاروں پر لوٹتا رہا۔ اس کا بیٹا، اوستاپ، دشمن کی قید میں تھا۔
جب بلبا کے زخم ٹھیک ہو گئے تو اس نے اپنے جسم پر ہتھیار لگائے اور گھوڑے پر سوار ہو کر یومان کی طرف روانہ ہو گیا۔ اُس نے سنا تھا کہ یانکل یہودی آج کل وہیں ہے۔ وہ دیوانہ وار گھوڑا دوڑاتا ہوا یومان پہنچا۔
اس نے یانکل کے مکان پر دستک دی۔ یا نکل نے دروازہ کھولا اور بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا۔ وہ اسے اندر اپنے کمرے میں لے گیا۔
’’یا نکل! تم میرا ایک کام کرو گے؟‘‘ بلبا نے اس سے پوچھا۔’’ تمھیں یاد ہے میں نے تمہاری جان بچائی تھی۔‘‘
’’ ہاں۔ میں آپ کا احسان مند ہوں۔‘‘ یانکل نے نرمی سے کہا۔’’ فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’ تم مجھے پولینڈ کے دارالحکومت وارسا لے چلو۔ میں اوستاپ کو ایک بار دیکھنا چاہتا ہوں۔ چاہے ایک لفظ ہی سہی، لیکن اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں خود اکیلا وہاں چلا جاتا۔ ‘‘اس نے کہا۔ ’’لیکن میرا حلیہ ایسا ہے کہ میں آسانی سے پہچان لیا جاؤں گا اور وہ لوگ مجھے گرفتار کر لیں گے۔اس کے علاوہ مجھے بہت جلدی غصہ بھی آ جاتا ہے۔ اس لیے میں کسی منصوبے پر پوری طرح عمل نہیں کر سکتا۔‘‘
’’میں حاضر ہوں جناب۔‘‘ یانکل نے جواب دیا۔’’ آپ میرے محسن ہیں۔ آپ کے لیے میری جان چلی جائے تو بھی حق ادا نہ ہو گا۔‘‘
اچانک یا نکل اچھل پڑا۔’’ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ سینے!‘‘ وہ بلبا کی طرف جھکتے ہوئے بولا۔ ’’آپ گاڑی میں لیٹ جائیں اور میں اس پر اینٹیں چن دوں گا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی اور ہم آسانی سے شہر کے اندر داخل ہو جائیں گے۔ ‘‘
’’تم جو مناسب سمجھو کرو۔‘‘ بلبا نے بے تابی سے کہا۔’’ لیکن مجھے وہاں کسی طرح پہنچا دو۔ میں اپنے بیٹے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘
وہ بڑی تیزی سے وارسا کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ یا نکل بڑی بے خوفی سے گاڑی چلا رہا تھا۔ کسی کو شبہ نہیں ہوا کہ ان کا جانی دشمن بلبا اس گاڑی میں پڑا ہوا ہے۔
وارسا پہنچ کر یا نکل نے گاڑی کو ایک تنگ سی گلی میں موڑ دیا۔ اس علاقے میں صرف یہودی آباد تھے۔ یانکل گاڑی سے اتر کربلبا کے پاس آیا اوراسے نیچے اترنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’ آپ یہاں کچھ دیر کھڑے رہیں۔ یہ یہودیوں کا محلہ ہے۔ میں ابھی تھوڑی دیر میں معلوم کر کے آتا ہوں کہ اوستاپ کہاں ہے۔‘‘
بلبا وہیں کھڑا رہا اور یا نکل چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد یا نکل واپس آیا۔’’ حضور۔‘‘یانکل نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے اپنے دوستوں سے معلوم ہوا ہے کہ وہ شہر کی جیل میں ہیں۔‘‘
’’جیل میں؟‘‘بلبا کی آنکھیں اور سرخ ہو گئیں۔’’ میرابیٹا جیل میں ہے۔‘‘
اُس کا سر جھک گیا۔ وہ آہستہ آہستہ کہنے لگا۔’’اسے کسی طرح قید سے نکال لاؤ۔ اس کے عوض میں تمھیں اپنی ساری دولت دینے کو تیار ہوں۔ میں اپنا آخری لباس تک تمہاری نذر کر دوں گا۔ بس کسی طرح اسے قید سے چھڑا لاؤ۔‘‘
یا نکل کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔’’ یہ کام تو بہت مشکل ہے۔ ‘‘اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’’کل قازق قیدیوں کو پھانسی دے دی جائے گی اور وہاں تین ہزار سپاہی پہرا دے رہے ہیں۔ ان کو جل دے کر نکل جانا کوئی معمولی بات نہیں۔‘‘
’’ کسی بھی طرح…تمھیں یہ کام کرنا ہو گا۔‘‘ بلبا نے کہا۔
’’بہت اچھا۔‘‘ یا نکل نے جواب دیا۔’’ میں کوشش کرتا ہوں۔ میں جان تک کی بازی لگا دوں گا۔‘‘
یا نکل، بلبا کو اپنے ایک دوست کے گھرلے گیا اور اس سے کہا۔’’ آپ یہاں اس وقت تک بیٹھیے، جب تک کہ میں واپس نہ آ جا ؤ ں ۔ ‘‘
بلبا ایک سٹول پر بیٹھا پائپ پی رہا تھا۔اس کے سامنے، میز پر چاندی کا شمع دان رکھا ہوا تھا اور وہ اس پر نظریں گاڑے گہرے خیالات میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہر ایک واقعہ ابھر کر اس کے سامنے آ رہا تھا ۔وہ سوچ رہا تھا۔’’ میں بھی کتنا بد قسمت ہوں۔ ایک بیٹا غدار نکلا اور دوسرا دشمن کی قید میں ہے۔ اور اب میں اس سے بھی محروم ہونے والا ہوں۔‘‘
کئی گھنٹے گزر گئے یانکل نہیں آیا۔ شام کا وقت ہو گیا اور اندھیرا پھیلنے لگا۔ بلبا بے چینی سے کمرے میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دل میں آ رہا تھا کہ باہر تلوار لہراتا ہوا نکلے اور جو بھی پولستانی نظر آئے اس کا سراڑادے۔
اچانک دروازہ کھلا۔ آنے والا یا نکل ہی تھا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ بلبا بے تابی سے اس کی طرف بڑھا۔
’’کیا خبر لائے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
یا نکل نے گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔’’ حضور وہاں تو کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ اوستاپ کو قید سے چھڑانا محال ہے۔ البتہ اس سے آپ کی ملاقات ہو سکتی ہے۔ پہرے دار بے ایمان اور لالچی ہیں۔ میں نے انھیں رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا ہے کہ وہ ہمیں اوستاپ سے ملنے کی اجازت دے دیں۔‘‘
بلبا نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ’’چلو ایسا ہی سہی۔ شاید کوئی صورت نکل آئے۔ چلو، ہمیں فوراً چل دینا چاہیے۔‘‘
یا نکل نے کہا۔’’ ہم صبح وہاں جائیں گے۔ کیونکہ ان پہرے داروں کی ڈیوٹی صبح کے وقت ہوتی ہے جنھیں میں نے رشوت دی ہے ۔‘‘
صبح کے وقت یا نکل ایک پوشاک لے کر اس کے پاس آیا:’’ آپ اسے پہن کر جرمن نواب دکھائی دیں گے اور کسی کو بھی آپ پر شبہ نہیں ہو گا۔ اگر آپ اسی حلیے میں جائیں گے تو ہر شخص آپ کو پہچان لے گا۔‘‘
بلبا نے وہ لباس پہن لیا۔ اس نے سر پر ایک جرمن ٹوپی بھی رکھ لی۔ اب وہ واقعی جرمن نواب دکھائی دے رہا تھا۔
یا نکل بلبا کو ساتھ لے کر جیل کی طرف روانہ ہوا۔ جیل کے پھاٹک پر دو پہرے دار کھڑے تھے۔ یانکل ان کے قریب گیا تو انھوں نے اسے پہچان لیا۔ وہ انھیں پہلے ہی رشوت دے چکا تھا۔ انھوں نے آہستہ سے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔’’ اندر چلے جاؤ۔‘‘
یا نکل اور بلبا اندر داخل ہو گئے اور ایک راہ داری سے گزر کر اس کوٹھڑی کی سمت بڑھے جس میں اوستاپ بند تھا۔ دروازے پر ایک سپاہی پہرہ دے رہا تھا۔
یا نکل ٹھٹک کر رہ گیا۔ بلیا نے اس کی طرف دیکھا ۔اُس کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔ یہ وہ شخص نہیں تھا جسے اس نے رشوت دی تھی ۔ شاید آج اس کی ڈیوٹی بدل گئی تھی۔
یانکل نے آہستہ سے کہا۔’’یہ وہ شخص نہیں ہے جس سے میں نے بات کی تھی، لیکن ہم کوشش کرتے ہیں۔‘‘
دونوں پہرے دار کے پاس پہنچے۔ یانکل نے بلبا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ جناب، یہ ایک جرمن نواب ہیں اور بہت دور سے آئے ہیں۔ یہ قازقوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے آج تک کسی قازق کر نہیں دیکھا۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ پہرے دار حیران ہوتے ہوئے بولا۔’’ تم انھیں کیوں دیکھنا چاہتے ہو؟ وہ آدمی تھوڑا ہی ہیں، کتے ہیںکتے۔‘‘
’’کیا کہا، کتے؟‘‘ بلبا کا پارہ ایک دم چڑھ گیا اور وہ مکا تانے ہوئے پہرے دار کی طرف بڑھا۔’’ تو نے انھیں کتا کہا ہے؟ شیطان کے بچے، توخود کتا ہے۔‘‘
’’اچھا ؟‘‘ پہرے دار دانت پیستے ہوئے بولا: ’’مجھے تو شک پڑتا ہے کہ تم بھی انھیں قازقوں میں سے ہو۔ تب ہی ان کی ہمدردی جتا رہے ہو۔ ٹھہر جاؤ، میں ابھی تمھیں بتاتا ہوں۔‘‘
یانکل کے اوسان خطا ہو گئے۔ جب اس نے دیکھا کہ بلبا کی حماقت سے بنا بنا یا کھیل بگڑا جا رہا ہے تو اس نے جلدی سے اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی نکالی اور پہرے دار کے ہاتھ پر رکھ دی۔ وہ اپنے ساتھیوں کو آواز دینے ہی والا تھا لیکن تھیلی کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’ اب تو مجھے قازقوں کے پاس پہنچا دو۔‘‘ بلبا نے اس سے کہا۔
’’کیا کیا؟‘‘ پہرے دار غصے سے دھاڑنے لگا۔’’ چپ پاپ دم دبا کر یہاں سے کھسک لو۔ اگر نہیں جاؤ گے تو میں آواز دے کر اپنے ساتھیوں کو بلاتا ہوں۔ اتنا ہی کافی ہے کہ میں اس کے عوض تمھاری جان بخشی کر رہا ہوں۔‘‘
تھک ہار کر یانکل اور بلبا واپس آ گئے۔ بلبا کاسر جھکا ہوا تھا۔ اُس کا غم سمندر سے بھی گہرا تھا۔تھوڑی دیر بعد اس کے بیٹے کو پھانسی پر چڑھا دیاجائے گا اور وہ اس کے لیے کچھ نہ کر سکے گا۔
’’آئو۔‘‘ اس نے تھکے تھکے لہجے میں یانکل سے کہا۔’’چوک کی طرف چلو۔ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اسے کس طرح پھانسی دیتے ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔
یا نکل اُسے چوک پر لے آیا جہاں اوستاپ اور دوسرے تازقوں کو شکنجے میں کسا جانا تھا۔ ہزاروں پولستانی عورتیں اور مرد چوک کی طرف امڈے آ رہے تھے، یا نکل اور بلبا بھی انھیں کے درمیان کھڑے ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد سپاہیوں کے گھیرے میں قازق قیدیوں کو لایا گیا۔ ان کے آگے اوستاپ سینہ تانے چل رہا تھا۔ وہ ذرا سا بھی خوف زدہ نہیں تھا۔ بلبا نے فخر سے اسے دیکھا۔ یہ اس کا اپنا بیٹا تھا، بہادر قازق ۔
اچانک اوستاپ چلتے چلتے رکا اور اپنا دایاں ہاتھ لہراتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے بولا۔ ’’ساتھیو، ہم تازق ہیں۔ ہم بہادروں کی موت مریں گے۔ یہ جو ہزاروں پولستانی کھڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘اس نے مجمع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ انھیں دکھا دو کہ جب بہادر قازق جان دیتے ہیں تو ان کے منہ سے ایک آہ تک نہیں نکلتی۔ بہادروں کی طرح موت کو گلے لگاؤ۔ ‘‘
بلبا کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ بڑبڑایا۔’’ بہت اچھے، میرے بیٹے۔ تم نے میرے خون کی لاج رکھ لی۔‘‘
اوستاپ کو پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا۔ جلاد نے اس کے گلے میں پھندا ڈالا اور شکنجہ کسنے لگا۔ اوستاپ کی ایک ایک ہڈی کڑ کڑا اٹھی۔ اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ وہ شخص کہاں تھا جس کا ایک معمولی سا لفظ بھی اس کے حوصلے بلند کر سکتا تھا۔’’ وہ یہاں کہاں ہو گا!‘‘ اس نے سوچا، جلاد نے شکنجے کو تھوڑا سا اور کسا۔ اوستاپ کا دم گھٹنے لگا۔ اس کی قوت جواب دینے لگی۔ اگر اس کا باپ یہاں ہوتا تو اس کا حوصلہ بلند ہو جاتا۔ کاش یہاوہ ں آ کر دیکھ لیتا کہ اس کا بیٹا بہادروں کی طرح مر رہا ہے۔
اچانک اوستاپ اپنی بچی کھچی طاقت جمع کرتے ہوئے چیخا۔’’ ابا، تم کہاں ہو؟ کاش تم میری آواز سن سکتے۔‘‘
اور پھر اسے مجمع کی طرف سے ایک آواز سنائی دی۔’’ میں تمھاری آواز سن رہا ہوں۔‘‘
یہ وہی آواز تھی جسے اوستاپ ہزاروں آوازوں میں پہچان سکتا تھا اور جسے سننے کے لیے اس کے کان ترس رہے تھے۔
اس نے بے چارگی سے اپنے باپ کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن ایک دم اس کی گردن ڈھلک گئی۔ بلبا کی آواز سن کر پولستانی سپاہی اسے گرفتار کرنے کے لیے مجمع کی طرف بڑھے۔ یانکل کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ اس نے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا لیکن بلبا غائب تھا۔
چند دنوں کے بعد تارس بلبا دوبارہ اپنے وطن میں تھا۔
بلبا وطن جا کر چین سے نہیں بیٹھا۔ اُس کے دل میں انتقام کی آگ جل رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں سے اپنے بیٹے کو مرتے دیکھا تھا۔ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گا۔ اس نے قازق سرداروں کو پولینڈ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کر لیا۔
اور پھر ایک دن قازقوں کی عظیم الشان فوج یوکرین کی سرحد میں داخل ہوئی۔ اس فوج میں ایک لاکھ چوبیس ہزار سپاہی تھے۔
قازق طوفان کی طرح بپھرتے ہوئے پولستانی شہروں پر ٹوٹ پڑے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ انھوں نے ہزاروں پولستانیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ ان کے راستے میں جو گاؤں یا شہر آتا، کھنڈر بن جاتا۔ قازقوں کی فوج کا ایک دستہ سب سے زیادہ خوفناک تھا۔ اور اس کا کمانڈر بلا شبہ وہی شخص تھا جس کا نام تارس بلبا تھا۔
بلبا پہلے سے بھی کہیں زیادہ سنگ دل ہو گیا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ پورے پولینڈ کو تہس نہس کر ڈالے۔ قازق فوجیں شہر پر شہر فتح کرتی ہوئی آگے بڑھتی رہیں۔ آخر پولستانیوں نے تنگ آ کر قازقوں سے صلح کر لی۔ لیکن بلبا اس صلح کے خلاف تھا۔ اس نے اپنے دستے کے سپاہیوں کو جمع کیا اور غضبناک لہجے میں بولا۔
’’ساتھیو، یہ صلح ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ پولستانی کتے بھروسے کے قابل نہیں ہیں۔ کل وہ ہم کو پھر دھوکا دیں گے۔ اگر آج ہم ان کے دھوکے میں آ گئے تو کل ہمیں پچھتانا پڑے گا۔‘‘
بلبا نے اپنی جوشیلی تقریر سے اپنے سپاہیوں میں آگ لگا دی اور وہ ایک زبان ہو کر پکار اٹھے۔’’ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ‘‘
قازقوں کی باقی فوج وطن واپس چلی گئی اوربلبا اپنے دستے کے ساتھ پولینڈ کے شہروں میں گھستا چلا گیا۔ اس نے اٹھارہ شہروں اور چالیس گرجوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ اس نے بچے، بوڑھے، جوان کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔ وہ اوستاپ کا انتقام لے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت وہ منظر گھومتا رہتا تھا جب اس نے اپنے بیٹے کی آخری آواز سنی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا اور وہ چلا پڑتا۔
’’ جلا کر راکھ کر ڈالو۔ کسی کو زندہ نہ چھوڑ و۔‘‘
تارس بلبا کی خوں ریزی کی داستانیں دور دور تک اور بلاپھیل گئیں۔ ہر شہر اور ہر گاؤں میں ہراس پھیل گیا ۔بوڑھے، بچے، جوان سب اُس کے نام سے کانپنے لگے۔ انھیں ہر گھڑی یہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ کہیں بلبا کی خونی فوج اُن پر حملہ نہ کر دے۔
اُدھر پولینڈ کی حکومت نے جب یہ دیکھا کہ بلبا کے ظلم حد سے بڑھ رہے ہیں تو اس نے بلبا سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا۔
بلبا کی فوج دریائے ڈنیپر کے کنارے ایک تباہ شدہ قلعے میں تھی کہ پولستانی فوجوں نے اس کا محاصرہ کر لیا۔ پولستانی فوج قازقوں سے پانچ گنا زیادہ تھی لیکن قازق چار دن تک بڑی جوان مردی کے ساتھ اس سے لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کا تمام سامان ختم ہوگیا۔
قازقوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ بلبا کے لیے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا۔ وہ اندازہ کر چکا تھا کہ اگر اُس کی فوج کچھ اور عرصہ تک لڑتی رہی تو اس کا ایک بھی سپاہی زندہ نہیں بچے گا۔
اس نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے کہا۔’’ ساتھیو! ہمارے لیے یہ بڑا آزمائش کا وقت ہے۔ اب یہی صورت ہے کہ ہم باہر نکلیں اور پولستانیوں سے لڑتے بھڑتے یہاں سے نکل بھاگیں۔ اگر تم نے ذرا سی بھی بزدلی سے کام لیا تو ہم سب کا خاتمہ ہے۔‘‘
قازقوں کی فوج سر پر کفن باندھ کر باہر نکلی۔ پولستانی دستے ان پر ٹوٹ پڑے لیکن وہ ان سے لڑتے بھڑتے راستہ بناتے آگے نکل گئے۔ اچانک بلبا کا گھوڑا رک گیا۔ وہ چلایا۔’’ ٹھہرو!‘‘ اس کے تمام ساتھی رک گئے۔
’’میرا پائپ کہیں گر گیا ہے۔‘‘ اُس نے کہا۔’’ اور میں نہیں چاہتا کہ وہ دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں میں چلا جائے۔ میں ابھی اُسے ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔‘‘
وہ گھوڑے سے اتر کر اپنا پائپ ڈھونڈنے لگا۔ لیکن اس سے پہلے کہ پائپ اسے ملتا پولستانی فوج کا ایک دستہ اس پر ٹوٹ پڑا اور پانچ چھ پولستانیوں نے اسے اپنے مضبوط بازوئوں میں جکڑ لیا۔ یہ دیکھ کر اس کے ساتھی بھاگ نکلے۔
پولستانی سپاہی غصے سے کہہ رہے تھے۔’’ یہ کتا ہے اسے مار ڈالو۔‘‘
’’ہم اسے زندہ جلا ڈالیں گے۔‘‘
بلبا نے ان کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن بے سود، میدان میں ایک ٹنڈ منڈ درخت تھا۔ سپاہیوں نے بلبا کو اس کے ساتھ باندھ دیا اور اُس کے ہاتھوں میں کیلیں جڑ دیں۔ پھر انھوں نے تنے کے گرد سوکھی لکڑیوں کا ڈھیر لگا دیا تاکہ اس میں آگ لگا کر بلباکو بھون ڈالیں۔
بلیا زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں کیلیں ٹھکی ہوئی تھیں جن سے خون بہہ رہا تھا لیکن اسے اپنی تکلیف کا احساس نہ تھا۔ اسے اپنے ان ساتھیوں کا خیال تھا جو یہاں سے اپنے وطن کی طرف بھاگ رہے تھے اور پولستانی دستے ان کا پیچھا کر رہے تھے۔
اچانک بلبا کو دریا کے کنارے چار کشتیوں کے بادبان نظر آئے اور وہ پوری قوت سے چیخ پڑا۔
’’دریا کی طرف بھاگو میرے بچو، بائیں طرف کے پہاڑی راستے پر ہولو۔ کنارے پر کشتیاں تمہارا انتظام کر رہی ہیں۔ فوراً یہاں سے بھاگ نکلو۔‘‘
بلبا کے منہ سے آخری الفاظ نہیں نکل سکے۔ اچانک ایک پولستانی سپاہی نے اس کے سر پر نیزے کا دستہ دے مارا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے۔ ہر چیز دھندلا گئی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔
اُدھر قازقوں نے تیز رفتاری سے اپنے گھوڑے پہاڑی راستے کی طرف موڑ دیے۔ پولستانی بھی تیزی سے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اُن کا پیچھا کررہے تھے۔
قازق برق رفتاری سے گھوڑے دوڑا رہے تھے کہ اچانک پہاڑی راستہ ختم ہو گیا۔ وہ جس چٹان پر تھے اُس کے نیچے دریائے ڈنیپر لہریں مری مار رہا تھا۔ پولستانی سپاہی ان کے سر پر آ پہنچے تھے۔ قازقوں نے گھوڑوں سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی۔ پولستانی سپاہی چٹان کے کنارے آ کر رک گئے اور حسرت سے قازقوں کی طرف دیکھنے لگے۔اب وہ ان کی پہنچ سے باہر تھے۔
بلبا بڑی دیر تک بے ہوش رہا۔ جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے دیکھا کہ قازق کشتیوں میں بیٹھ گئے ہیں اور پوری قوت سے چپو چلاتے ہوئے وہاں سے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔
بلبا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کا خون تیزی سے گردش کرنے لگا۔اب اسے کوئی غم نہ تھا۔ اس کے ساتھی پولستانیوں کے چنگل سے آزاد ہو گئے تھے۔
’’ الوداع، ساتھیو۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔’’ میرا خیال رکھنا۔ میرابدلہ ضرور لینا۔ اگلی بہار میں ایک بار پھر بھر پور حملہ کرنا اور پولستانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا…الوداع ۔‘‘
پولستانی سپاہی ہاتھ آتا شکار جاتے دیکھ کر آگ بگولاہو گئے۔ اُنھوں نے درخت کے گرد پھیلی ہوئی سوکھی لکڑیوں میں آگ لگا دی اور آگ کے شعلے بلبا کے جسم کی طرف لپکنے لگے لیکن اس کے منہ سے ایک آہ تک نہیں نکلی۔ اسے اطمینان تھا۔ اس کی نگاہیںان کشتیوں پر گڑی ہوئی تھیں جن پر اس کے ساتھی اپنے وطن کی طرف جا رہے تھے۔
Facebook Comments