skip to Main Content

بے خبر لوگ!

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

ساجد نے حساب کا آخری سوال حل کر کے اطمینان بھرا سانس لیا۔ شکر ہے یہ سوال بھی حل ہوا۔ پتہ نہیں کیوں یہ حساب کی مس اکٹھے پانچ پانچ ایکسر سائز کرنے کو دے دیتی ہیں۔ خود انہیں ایک ایکسر سائز بھی کرنی پڑے تو ماتھے پر پٹی باندھ کر دو دن لیٹی رہیں، ہونہہ۔“
یہ آخری لفظ اس نے’’بلند آواز سے سوچا“ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کمرے میں آتی ہوئی ساجد کی امی نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ”خیر تو ہے، یہ اکیلے بیٹھے کس سے باتیں کر رہے ہو؟“
”کسی سے نہیں امی۔“ ساجد گڑ بڑا گیا۔”یہ حساب کی مس ہیں نا۔ اکٹھے پانچ پانچ ایکسر سائز کرنے کو دے رہی ہیں۔ اگلے دن ایک سوال بھی کم ہو تو ہیڈ ڈاؤن کروادیتی ہیں یالڑکوں کے بالوں کی پونی بنا دیتی ہیں۔“
”اچھا اور لڑکیوں کی؟“
”لڑ کیوں کی انک سے مونچھیں بنادیتی ہیں۔ بہت ذلیل کرتی ہیں۔“
”پتا نہیں آج کل کی مسوں کو کیا ہو گیا ہے۔ خیر مشقیں کروانا تو بری بات نہیں مگر……“
”امی مشکیں کیا؟“
”مشکیں نہیں، مشقیں۔۔ اری نگوڑ ماری ایک سرسائز اور کیا!“
”ایک سرسائز نہیں امی ایکسر سائز۔“
”ہاں وہی۔ اچھا تو تمہارا اسکول کا کام ہو گیا ہو تو مجھے انڈے لا دو۔ فریج میں صرف ایک انڈا رہ گیاہے۔“
”امی ابھی مجھے سائنس کے سوال یاد کرنے ہیں۔ اگر یاد نہیں ہوئے تو پھر ٹیسٹ میں انڈا ملے گا۔وہی آپ کو لادوں گا۔“
”دیکھو تو بالشت بھر کا لڑکا۔ ساتویں جماعت میں کیا پہنچ گیا،اتنی باتیں بنانے لگا ہے۔“
”امی راشد بھیا اور ماجد بھیا بھی تو ہیں، ان سے تو آپ کسی کام کے لئے نہیں کہتیں۔“
”ارے بیٹا راشد کو اپنے موئے کمپیوٹر سے فرصت ملے تو وہ گھر کا کوئی کام کرے نا۔ رہا ماجد تو وہ کرکٹ کا ہو گیا ہے۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہیں میدان میں اپنا بستر ڈال لے۔“
”تو امی ایک میں ہی رہ گیا ہوں گھر کے کام کرنے کے لئے چھوٹا۔“
”نہیں بیٹا، ایک میں ہی رہ گئی ہوں گھر کے کام کرنے کے لئے ایک بڑی……! تم خود ہی دیکھو، تمہاری باجی گھر کے کام نہیں کرتیں۔ تمہارے ابو دن بھر دفتر میں سرکھپاتے ہیں۔ گھر آتے ہیں توپھر کام لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔“
”مگر امی! اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی کام نہیں کرتا تو آپ ان کے حصے کے کام بھی میرے اوپرڈال دیتی ہیں۔ میں بھی نہیں کرتا کام۔“
”تو مت کرو۔“ امی کی آواز غصے میں بلند ہو گئی۔”میری بلا سے۔ اس گھر میں کوئی کام نہیں ہو گا توخودہی سب کو احساس ہو گا۔ بس میں بھی کھانا نہیں پکاؤں گی۔ سب بھو کے رہنا۔“
ساجد ابھی جواب کے لئے کوئی مناسب الفاظ ڈھونڈھ رہا تھا کہ راشد بھیا آگئے۔ انہوں نے آتے ہی ہانک لگائی۔ ”ساجد! ذرا چپل لانا۔“ ساجد نے برا سامنہ بنایا اور چپل لا کر دے دی۔ پھر راشد بھیا نے دوسرا حکم جاری کیا۔”ساجد پانی پلاؤ۔“
”اونہہ! یہ بڑے بھائی تو اپنی جگہ سے ہلتے نہیں۔ اب انہیں پانی پلاؤ۔“ اس نے فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی۔ بوتل سے پانی ڈال کر آدھا گلاس بھرا۔ پھر نل سے پانی کھول کر پورا بھر دیا۔ راشد بھیا کی ہدایت یہی تھی۔ انہیں بہت ٹھنڈا پانی پی کر زکام ہو جاتا تھا۔ ایک بار وہ فریج کا ٹھنڈا پانی لے کر ان کے پاس چلا گیا تھا تو راشد بھیا اتنے چیخے چلائے تھے۔”میں بیمار پڑ جاؤں گا۔ تمہارا کیا ہے۔ لا کے ٹھنڈا پانی پلا دیا۔۔ کام چور کہیں کا۔ آئندہ مجھے مکس پانی پلایا کرو سمجھے، ورنہ بہت ماروں گا۔“
”ہونہہ! ماروں گا۔“ ساجد نے الجھ کر سوچا۔”ہر ایک مارنے کو بیٹھا ہے۔ ماجد بھیا…… ان کے جوتے پالش کرو ورنہ مار لگاؤں گا… باجی…… ان کی سہیلی سے رسالہ لادوور نہ پٹو گے۔ ابو…… تم پڑھائی کر رہے ہو یا نہیں؟ نمبر کم آئے تو چمڑی ادھیڑ دوں گا……“ ساجد یہ سوچتے ہوئے روہانساہو گیا۔
”ساجد پانی کہاں ہے؟“ راشد بھیا دھاڑے۔ ”سو گئے ہو کیا الو کہیں کے……“
”لا تا ہوں ……“ ساجد نے مری ہوئی آواز میں کہا اور فرمائشی مکس پانی لے کر راشد بھیا کی خدمت میں پہنچا جو صوفے پر بے ڈھنگے انداز سے لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹانگ کرین کی طرح اٹھا رکھی تھی۔ پانی دیکھ کر انہوں نے”کرین“ نیچے کی۔ ذرا سا اٹھ کرپانی پیا اور گلاس واپس کرتے ہوئے بولے۔ ”ذرا چائے لے آؤ۔“
”اب چائے لے آؤ۔“ساجد نے جل کر سوچا۔ خیر وہ باورچی خانے میں گیا جہاں امی کھانا پکارہی تھیں ……”راشد بھیا چائے مانگ رہے ہیں۔“
”آئے ہائے راشد بھی آگیا۔ ابھی تو روٹیاں پک رہی ہیں۔ تھوڑی دیر میں دیتی ہوں چائے۔ چھوٹاابھی سو رہا ہے۔ اٹھ گیا تو وہ بھی بھوک بھوک چلائے گا۔“
”ساجد گدھے،چائے کے لئے بولا یا نہیں؟“ یہ راشد بھیا کی آواز تھی۔
”ساجد……!“ ماجد بھیا بھی آپہنچے۔ وہ کرکٹ کھیل کر ابھی گھر میں داخل ہوئے تھے۔”میری چپلیں لے آؤ۔“
”لو ایک اور مصیبت ……“ ماجد نے جھنجھلا کر سوچا۔”ماجد بھیا چپلیں کسی ایک جگہ نہیں رکھتے کہاں تلاش کروں؟“
”ساجد! احمق چپل نہیں ملی ابھی تک۔“ ماجد بھیا چیخے۔
ساجد نے چپل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اسے نہ لی۔ آخر اس نے ایک ریٹائر ڈ قسم کی چپل لا کر ماجد بھیا کے سامنے پٹخ دی۔
”بہت خوب……! یہ چپل لائے ہو۔ دیدے پھوٹ گئے ہیں تمہارے۔ میری چپل ڈھونڈھ کر لاؤورنہ قیمہ بنادوں گا تمہارا۔“
ساجد کا منہ ذرا سا ہو گیا۔ ”یہ ماجد بھائی تو قصائی ہیں قصائی۔ ہمیشہ قیمہ بنانے کی دھمکی ہی دیتے رہتے ہیں۔“ اس نے بمشکل تمام ماجد بھیا کی چپل ڈھونڈی۔ ایک الماری کے نیچے سے ملی۔ دوسری باہر صحن کے کونے میں پڑی تھی۔ وہ چپل دریافت کرنے کی عظیم مہم سے فارغ ہوا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔
”دیکھوساجددروازے پر کون ہے…؟“ راشد بھیا نے اسے آواز دی۔
ساجد نے دروازہ کھولا۔ اس کی باجی اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ اندر چلی آئیں۔ سہیلیوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر وہ دانت کچکچاتی اندر والے کمرے میں آئیں۔
”ساجد کے بچے ……!“انہوں نے دانت بھینچ کر دھیمی آواز میں کہا۔ لیکن اس دھیمی آواز میں بھی جیسے آگ دہک رہی تھی۔ ”یہ ڈرائنگ روم دیکھا ہے تم نے؟“
”کیا ہوا باجی؟“ ساجد نے سہم کر پوچھا۔
”کیا ہوا؟ جاہل، کشن کے کور کتنے میلے ہو رہے ہیں۔ تم سے اتنا نہیں ہوا کہ کور بدل دو۔ اور وہ اخبارات کا ڈھیر دیکھا ہے تم نے میز پر…… ڈرائنگ روم تو کسی ردی فروش کی دکان لگ رہا ہے۔ میری سہیلیاں کیا سوچیں گی……؟“
”اچھی باجی، رات میں ٹھیک کردوں گا۔“
”ٹھیک نہیں کیا تو تم کو ٹھیک کردوں گی،کاہل کہیں کے۔ اچھا جاؤ بیکری سے پیٹیز اور ایک پاؤ بسکٹ لے آؤ۔ پیسے امی سے لے لینا۔“
”مگر باجی مجھے تو ابھی سائنس کے سوال یاد کرنے ہیں۔“
”سوال بعد میں یاد کرنا۔ یاد بھی کیا کرتے ہو۔ رٹا لگاتے ہو۔ پہلے یہ سامان لے آؤ…… میں اپنی سہیلیوں کو کیا خالی چائے پلاؤں گی؟“
”مگر……!“
”مگر……مگر……مگر! جب بھی تم سے کوئی کام کہا جائے مگر مچھ بن جاتے ہو……! کام چور کہیں کے۔ آنے دو ابو کو، تمہاری شکایت کرتی ہوں۔“ باجی نے ساجد کے بازو میں زور سے چٹکی لی۔
”اوہو…… ہو……“ ساجد اپنا بازو سہلاتا ہوا زور سے اچھلا۔
”جاتے ہو یا……“ باجی نے دوسری بار چٹکی لینے کے لئے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں والی انگلیاں بڑھائیں۔
”جاتا ہوں باجی،آپ سے تو اللہ بچائے۔“
”ساجد باہر جارہے ہو تو انڈے بھی لیتے آنا……“ امی نے باورچی خانے سے ہانک لگائی۔
”اور راستے میں سو مت جانا ”سوجد“ صاحب،اتنا احمق ہے کہ ہمیشہ سوتے ہوئے کام کرتا ہے۔“ باجی نے تبصرہ کیا۔
ساجد امی سے پیسے لے کر گھر سے نکلا تو اس کا ننھا سا دل غصے سے کانپ رہا تھا۔ سب لوگ میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ وہ سوچ رہا تھا۔ ہر آدمی مجھے نوکر سمجھتا ہے۔ جس کو دیکھو مجھے برا بھلا کہتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے راستے میں پڑے ہوئے ٹین کے ایک ڈبے کو غصے سے ٹھوکر لگائی۔ ڈبہ لڑھکتا ہوا سڑک کے بیچ میں جاکر رک گیا۔ اسی وقت ایک کار وہاں سے گزری۔ ڈبہ اس کے پہیوں تلے آکر بری طرح پچک گیا اور ڈبے کی شکل ہی تبدیل ہو گئی۔ ساجد کو اس عمل سے جیسے دلی سکون سا ملا لیکن اسے اب بھی غصہ آرہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر جہاں جہاں ٹین کے ڈبے یا شیشے کی بوتلیں وغیرہ پڑی نظر آئیں انہیں ٹھو کر مار کر سڑک پر لڑھکانا شروع کر دیا۔ سڑک پر بہت سے لوگ چل پھر رہے تھے مگر کسی نے اس کے مشغلے کی طرف توجہ نہ دی۔ اچانک ایک کار بہت تیزی سے آئی اور پھر ایک زور دار دھماکے کے ساتھ کار کے اگلے دونوں پہیے گھوم گئے اور پیچھے آنے والی ایک اور تیز رفتار کار، پہلی کار سے جا ٹکرائی۔ دونوں کاروں کے بریک لگنے کی چیختی آواز، پھر ٹائروں کے پھٹنے کا دھماکہ اور اس کے ساتھ ہی کاروں کی ٹکرانے کی آواز اور پھر زخمیوں کی دل دہلانے والی چیخیں۔ ساجد جیسے پتھر کا ہو گیا۔ اس میں آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی۔ چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے۔ پیچھے سے آنے والی کار اگلی کار میں دھنس گئی تھی اور اگلی کار میں سوار تین میں سے دو مسافروں کا خون پچکی ہوئی کار سے بہتا ہوا سڑک کو رنگین کر رہا تھا۔ اس کار میں ایک بچے کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔

”امی…… ابو…… آپ کو کیا ہو گیا…… امی ……ابو……“
حادثے کی جگہ مجمع لگ گیا تھا۔ کسی نے ایمبولینس کو فون کر دیا تھا۔ ذرا سی دیر میں ایمبولینس بھی سائرن بجاتی چلی آئی، مگر ٹریفک جام ایساہو گیا تھا کہ ایمبولینس کو تباہ ہونے والی گاڑیوں تک پہنچنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے۔ ”راستہ دو۔ گاڑی میں زخمی ہیں۔ ایمبولینس کوراستہ دو۔“
کچھ لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ کسی نے کہا۔”لوگوں کو تمیز ہی نہیں۔ شیشے کی بوتلیں سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔“
”ہاں اور کیا ……“کوئی بولا۔ ”بوتلوں کے ٹکڑوں سے ہی تو کار کا ٹائر پھٹا ہے، جبھی تو گاڑی گھوم گئی تھی۔ پیچھے والی گاڑی کے ڈرائیور نے بہت بچا یا مگر دونوں گاڑیاں اسپیڈ میں تھیں۔“
ساجد نے جھر جھری سی لی۔”یہ اس نے کیا کر دیا۔“ اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ اس نے قدم بڑھائے تو اسے لگا جیسے اس کے قدم اس کے قابو میں نہیں ہیں۔ حالانکہ اچھی خاصی گرمی تھی مگراسے سردی سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ جیسے تیسے بیکری پہنچا۔ پیٹیز اور بسکٹ لئے اور لڑکھڑاتا ہواگھر پہنچا۔
دروازہ کھلتے ہی باجی کی آواز آئی:
”کہاں مرگئے تھے جاہل؟“ باجی لال بھبو کا چہرہ لئے نمودار ہو ئیں۔ ساجد نے پیٹیز اور بسکٹوں کا لفافہ انہیں تھمایا اور وہیں دروازے کے قریب ہی چکرا کر بیٹھ گیا۔ باجی نے اس کا ماتھا چھوا،وہ کانپ رہا تھا۔
”ارے اسے تو بخار ہے۔ امی،ساجد کو بخار ہو گیا ہے۔“باجی نے وہیں سے امی کو آواز دی۔
ساجد کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ آسمانوں کی سیر کر رہا ہے۔ پھر اسے کچھ ہوش نہ رہا۔ ساجد نے محسوس کیا جیسے اسے کوئی ہولے ہولے ہلا کر اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔ کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ جب اس کی آنکھیں روشنی سے مانوس ہو ئیں تو اسے کمرے میں کچھ سائے سے محسوس ہونے لگے۔ وہ پھر نیم غنودگی کے عالم میں چلا گیا۔ اسے یوں لگا جیسے ابو دھیمی آواز سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ اسے چند الفاظ سمجھ میں آئے:
”تم سب نالائق…… ہر ایک…… کولہو کا بیل بنا رکھا…… دیکھا نہیں …… سوتے میں بھی بڑبڑا رہا تھا…… میں ابھی کرتا ہوں …… ابھی لاتا ہوں …… اب نہیں پھینکوں گا……“
جب ساجد کو دوبارہ ہوش آیا تو گھر کے سارے افراد اس کے گرد جمع تھے۔
”ساجد ……!کیسی طبیعت ہے؟“
ساجد کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ یہ راشد بھیا کی آواز تھی۔
”بیٹا کیا حال ہے؟“ ابو نے اس پر جھک کر کہا۔
”بیٹے تم نے تو ہمیں ڈرا دیا تھا۔ اللہ کا کرم ہے کہ تمہیں ہوش آگیا۔“ امی رندھی ہوئی آواز میں بولیں۔
”ساجد، ہم سب تم سے معافی مانگتے ہیں۔“ یہ باجی تھیں جن کے سرپر دوپٹہ اور ہاتھ میں تسبیح تھی۔
ماجد بھیا ایک طرف نظریں جھکائے کھڑے تھے۔
”ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے، اس کے ذہن پر اثر ہے۔“ ابو بولے۔ ”ہم سب نے مل کر اس کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ مجھے تو روزگار سے فرصت نہیں ملتی۔ تم لوگ ہی اس کا خیال رکھ لیتے۔ سب نے اسے مفت کا نوکر بنا رکھا تھا اور پھر مزید دکھ کی بات یہ کہ کام بھی کرواتے ہیں اور برا بھلا الگ کہتے ہیں۔ رات دن گالیاں سن کر اس بچے کے پاگل ہونے میں کوئی کسر باقی رہ گئی تھی؟“
”خبردار جو کسی نے آئندہ سے ساجد کو کچھ کہا۔“ماجد بھیا اچانک گرج دار آواز میں بولے۔”ورنہ قیمہ بنادوں گا!!“
کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔ لیکن ساجد کو ایسا لگا جیسے یہ قہقہوں کی آواز ہی نہیں بلکہ دو کاروں کی آپس میں ٹکرانے کی آوازیں ہیں۔ اس کی نظروں کے سامنے خون ہی خون پھیل گیا اور کانوں میں شائیں شائیں ہونے لگی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
کمرے میں موجود تمام افراد اسے حیرت زدہ ہو کر دیکھے جارہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top