اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
فہد اور بلال دو دوست تھے۔دونوں نے ایک ہی اسکول اور کالج سے تعلیم حاصل کی۔اتفاق سے دونوں کو ایک ہی ادارے میں ملازمت مل گئی۔ دفتر میں دونوں کا شعبہ بھی ایک ہی تھا لیکن دونوں کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ فہد کچھ خوشامدی واقع ہوا تھا جب کہ بلال کا خوشامد سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ بلال اپنے دفتری فرائض پوری ایمان داری سے انجام دینے کی کوشش کرتا۔ وہ دفتر وقت پر آتا اور مقررہ وقت پر دفتر سے گھر کے لیے روانہ ہوجاتا۔ بلال اپنی محنت اور لگن کے سبب اس ادارے کی ضرورت بن گیا تھا۔ فہد اس کے برخلاف کبھی دفتر میں شام دیر تک ٹھہرتا اور کبھی دفتر تاخیر سے آتا۔ فہد اپنے فرائض انجام دینے کے بجاے باس کو خوشامد اور جی حضوری کرکے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔ فہد اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتا تھا جبکہ بلال مطمئن رہتا اور فہد کو بھی مطمئن رہنے کی تلقین کرتا۔
”یار میں تو بس باس کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان ہی کے ہاتھ میں ہماری روزی اور رزق ہے۔وہ جب چاہیں ہمیں نوکری سے نکال سکتے ہیں۔“ فہد نے بلال سے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا۔ ”یار بُرا نہیں مانو تو ایک بات کہوں؟“ بلال نے فہد کی طرف دیکھا اور اثبات میں جواب پا کر گویا ہوا۔
”اصل میں تم باس کو خوش آمد اور جی حضوری سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ اگر تم انھیں اپنی کارکردگی سے مطمئن کرنے کی کوشش کرو تو اس طرح پریشان نہیں رہوگے۔ ویسے بھی ہماری روزی اور رزق کا بندوبست کرنے والا ہمارا حقیقی رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ ہمارا رازق تو وہ ہے جو دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کے رزق کا بندوبست کرتا ہے۔ تم اگر اپنے حقیقی رازق کو پہچان لو اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرکے رزق حاصل کرو تو تمھیں باس تو کیا دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ اپنے سے کم تر اور کمزور نظر آئیں۔ اگر تم محنت اور ایمانداری سے کام کرو تو تم اپنے ادارے اور باس کی ضرورت بن سکتے ہو۔
علامہ اقبال کہتے ہیں:
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جَم