skip to Main Content

انگریزی اور ہم دیسی

خادم حسین مجاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انگریزی ایسی چیز ہے جس کے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں اور جس کا ساتھ نبھانا بھی مشکل ہے۔ بات صرف زبان کی ہوتی تو خیر تھی مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے اختیار کریں تو اس کے ساتھ اس کا کلچر بھی آجاتا ہے۔ اس لیے اول اول علما نے اسے حرام قرار دیا مگر پھر یہ خود ہی حلال ہوتی چلی گئی لیکن اب یہ مجبوری سے نکل کر ہماری زندگی میں فیشن کے طور پر داخل ہوگئی ہے حتیٰ کہ اگر کسی کو انگلش نہیں بھی آتی ہو تو وہ اسے بولنا ضروری خیال کرتا ہے۔ جس سے بعض اوقات بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ 
ایک دن شام کی سیر کے دوران ایک شاعر دوست کے صاحب زادے سے ملاقات ہوگئی جو میٹرک کا امتحان دے کر تازہ تازہ فارغ ہوئے تھے۔ وہ ہر وقت درست یا غلط انگریزی کے استعمال کی تاک میں رہتے تھے لوگ انھیں پڑھا لکھا سمجھیں۔ جب میں نے پوچھا ’’کیا ہورہا ہے برخوردار؟‘‘ تو جھٹ سے بولے “Nothing just enjoying your self” اس جملے میں my self کی جگہ your self استعمال کرنے کی جو حماقت اس نے کی اس کا صحیح لطف تو انگریزی جاننے والے ہی اُٹھاسکتے ہیں باقی احباب کے لیے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ’’کچھ نہیں بس آپ کو لطف اندوز کررہا ہوں۔‘‘ 
ایس ایم ایس اور ای میل کی بدولت انگریزی کی ایک اختصار شدہ شکل وجود میں آگئی ہے۔ جس میں you کو u، your کو UR، فور کو 4، eye کو I، why کو Y، we کو V اور اوکے کو K لکھا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اسی وجہ سے انگریزی کے پرچے میں فیل ہوگئے کیوں کہ وہ ایس ایم ایس بہت کرتے تھے اور پیپر میں بھی ایس ایم ایس والی انگریزی لکھ آئے تھے اسی تناظر میں ہم اپنے ایک لکھاری دوست عارف انیس کو RF19 لکھا کرتے تھے اور وہ بڑا خوش ہوتے تھے۔
انگلش میں تلفظ کا معاملہ بڑا گھمبیر ہے کیوں کہ یہ بھی اُردو کی طرح بے شمار زبانوں کا ملغوبہ ہے۔ اس لیے اس میں تلفظ کے کوئی لگے بندھے قواعد نہیں مثلا Put میں U پیش کی آواز دیتا ہے اور But میں زبر کی۔ اس کے علاوہ اس میں اُردو کی طرح ایک آواز کے لیے ایک سے زائد حروف رائج ہیں مثلاً ف کے لیے ph اور f، ش کے لیے sio, c, sh, tio، ک کے لیے ch, k, c وغیرہ ان میں C ایسا حرف ہے جس سے س کی حتیٰ کہ ش تک کی آواز لی جاتی ہے جس سے بڑی اُلجھن پیدا ہوتی ہے۔ 
ہمارے ایک دوست اسکول کو سچول اور فیکلٹی کو فیسلٹی پڑھتے ہیں۔ اب امریکن انگلش سے کچھ آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس میں photo کو colour foto کو school کو skool لکھا جارہا ہے لیکن یہ کوششیں اس طرح کامیاب نہیں ہوئیں اور ہم آج تک س کی آواز کے لیے ص، س، ث اور ض کی آواز کے لیے ظ، ز، ذ کے استعمال کرنے اور اُلجھنے پر مجبور ہیں۔ اگر ایسا ہوجاتا تو کچھ حروف تہجی کم ہونے سے طلبہ کی اُلجھن تو کم ہوجاتی، ان کے لیے تو اُردو اور انگلش کے خاموش الفاظ بھی کم مسئلہ نہیں جو لکھنے ضروری ہیں اور پڑھنے غیر ضروری جیسے انگریزی کے wrong اور knife میں w اور k اور اردو کے عبدالشمس میں ل غیر ضروری ہے۔
امریکن انگلش کے استعمال سے آسانی کے ساتھ کچھ مشکل بھی پیدا ہوئی ہے۔ جیسے Schudle کو اب تک شیڈول پڑھا جاتا تھا۔ اب یہ سکیجیول ہوگیا ہے۔
آج کل انگریزی ماڈرن ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے کئی ہوشیار لوگ اپنے دقیانوسی ناموں پر انگلش کا خول چڑھا کر ماڈرن ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگ عموماً اپنے دقیانوسی نام کے انگریزی مخفف کے ساتھ کوئی ماڈرن سا نام یا تخلص لگا کر ماڈرن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب انگلش کا پردہ اٹھایا جائے تو نیچے سے ان کے دقیانوسی نام سامنے آجاتے ہیں جیسے ایم ڈی اختر مولا داد اختر نکلیں گے، ایم ڈی چوہان موج دین چوہان اور اے ڈی سومرو اللہ ڈنو سومرو وغیرہ۔
ہمارے ملک میں سرکاری اسکولوں میں نرسری سے انگلش میڈیم کا آغاز ہوگیا ہے۔ انگریزی کی تدریس تو عرصے سے جاری ہے۔ اب تو شاید آئندہ اردو بھی انگلش میں پڑھائی جانے لگے، یوں ممکن ہے اردو واقعی قومی زبان کا درجہ حاصل کرلے جو کہ اب تک نہیں کرسکی اور اس بات پر اب ہنسی تو کیا رونا بھی نہیں آتا کہ ہماری قومی زبان تو اردو ہے مگر کاروبار مملکت انگریزی میں چل رہا ہے۔ اور وہ بھی اس ملک میں جہاں درست اُردو بولنے والے بھی خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اول و آخر دیسی ہیں۔ پنسل تراش کو شارپنر اور مٹانے والے کو ریزر کہہ کر ہم انگریز نہیں بن سکتے۔ نہ ہی مشکل انگریزی اصطلاحات ہماری دیسی زبان پر چڑھ سکتی ہیں جیسے سبسٹریکشن(منفی) ایکسبکریشن (نظام اخراج) وغیرہ۔ 
ترقی کرنے والوں نے ہمیشہ مادری زبان میں پڑھ کر ہی ترقی کی ہے جن کی مادری زبان انگریزی ہے ان کے لیے بنایا گیا نصاب پڑھ کر ہمارے بچے فیل بھی ہورہے ہیں اور ساتھی ہی اپنی زبان اُردو سے بھی جارہے ہیں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top