skip to Main Content

قطرے

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

کیا بچے، کیا بڑے، سب ہی شکیب کے غصے سے ڈرتے تھے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا کہ شکیب صاحب کا موڈ کس وقت آف ہو جائے گا اور کس وقت آن ہو جائے گا۔ کچھ بچوں کے خیال میں شکیب کا موڈ ہر وقت فیوز ہی رہتا تھا۔ دادی جان کہتیں:
”اے لو! ایسا بھی کیا غصہ…… اللہ بخشے تمہارے دادا بھی بڑے غصے والے تھے۔ مگر صرف اس وقت غصہ دکھاتے تھے جب کوئی جھوٹ بولے، کسی کو دھوکا دے، نماز نہ پڑھے یا کوئی اور غلط کام کرے، مگر یہ شکیب اللہ کی پناہ…… یہ تو اپنے دادا سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔ بلکہ میں تو کہوں کہ نانا کا غصہ بھی اس میں آگیا ہے،بالکل ان ہی پر گیا ہے۔“
”ارے چھوڑیے اماں آپ تو ہر وقت میرے ابا کے غصے کے طعنے دیتی رہتی ہیں۔“
شکیب کی امی سن لیتیں تو کہے بنا نہ رہتیں۔
”کبھی آپ نے اپنے پوتے کو دیکھا ہے،اللہ بچائے، توبہ توبہ! ارے……! بات کرتا ہے تو منہ سے انگارے گرتے ہیں انگارے ……!!“
”خیر بہو، اس عمر میں سب ہی بچے ضدی ہوتے ہیں۔ بڑا ہو گا تو آپ ہی سنبھل جائے گا۔“
”کہاں اماں! اتنابڑا تو ہو گیا ہے اب اور کتنا بڑا ہو گا جو اس کے سنبھلنے کا انتظار کریں۔سچی اماں، میں تورو جاتی ہوں اس کی عادتوں سے…… مجال ہے جو ماں باپ کا کوئی ادب اس کے دل میں ہو…… نہ بڑوں کا لحاظ، نہ چھوٹوں کا……“
”امی مجھے……!!“
”لیجیے، صبح ہوگئی۔“
”صبح؟ اچھا خا صادن چڑھ آیا ہے۔“ دادی جان گردن بڑھا کر دیوار پر لگی گھڑی پر نظرڈالتیں۔ ”بارہ بجنے کو آرہے ہیں اور یہ نگوڑ مار ابھی تک پڑا ہورہا تھا۔“
”وہی تو کہہ رہی ہوں کہ آپ کے لاڈلے کی صبح ہو گئی ہے۔“
”امی سنتی نہیں ہیں آپ! اپنے کانوں کا علاج کرائیں۔“ شکیب کی جھنجلائی ہوئی آواز آئی۔
”ہاں بیٹا تم پڑھ لکھ کر ای۔این۔ٹی اسپیشلسٹ بن جانا، پھر تم ہی سے علاج کرواؤں گی، مفت۔“
”امی آپ کو مذاق سے فرصت نہیں ہے۔مجھے ناشتہ چاہیے۔“
”ناشتہ تو خیر میں بنا دوں گی لیکن یہ فرمایئے کہ دانت بھی صاف کرتے ہیں یا نہیں،اور شایدآپ بستر سے اٹھ کر باتھ روم وغیرہ بھی جاتے ہیں، کہیے تو کل سے آپ کا بستر و ہیں باتھ روم میں لگا دیا کروں!!“
”امی……“ شکیب چڑ جاتا۔”آپ کو ہر وقت مذاق سو جھتا رہتا ہے۔ مجھے ناشتہ چاہیے،مجھے گیارہ بجے ٹیوشن پڑھنے جانا تھا۔میں نے پر چہ لکھ کر لگا دیاتھا،آپ نے اٹھایا ہی نہیں، سب لوگ سوتے رہتے ہیں۔“
”ماشاء اللہ! لوگ سوتے رہتے ہیں اور میرا بیٹا بے چارہ رات بھر جاگتا رہتا ہے، الوجوٹھہرا…! ارے الو کسی اور کو بنانا،لار ہی ہوں ناشتہ، مگر یہ نہ ہو کہ روز کی طرح ناشتہ پڑا ٹھنڈا ہوتا رہے اور آپ تکیہ میں منہ دیے پڑے رہیں۔“
گھر میں تقریباً اسی طرز کے مکالموں کا تبادلہ روز ہی ہو تا تھا۔ اب تو گھر کے بچوں کو اس موقع پر بو لے جانے والے کئی مکالمے یاد ہو گئے تھے۔ جب کبھی کوئی بچہ ایسے موقع پر شکیب کی نقل اتار تا تو اس کی شامت آجاتی۔ شکیب صاحب بستر سے اچھلتے اور کراٹے کے انداز میں اپنی ٹانگ نقل اتارنے کی جرات کرنے والے کے منہ تک لے جاتے۔ ظاہر ہے کہ یہ تو ہین کسی سے برداشت نہیں ہوتی۔ جواب میں وہ بھی کوئی جلا بھنا سا جملہ کہہ دیتا، بس یہ کہنے کی دیر ہوتی اور شکیب صاحب کے غصے کا گراف اچانک آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔ ایسے موقع پر کوئی بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کر تا تو پچھتاتا، کیونکہ غصے میں شکیب صاحب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے قائل تھے۔
شکیب صاحب کی بد دماغی اور بد تمیزی کی شہرت دور دور تک تھی۔ اسکول میں بھی لڑ کے اس سے بات کرتے ہوئے۔ ”جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔“ والا انداز اختیار کر لیتے، لیکن پیٹھ پیچھے اسے برابھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے۔ شکیب کو معلوم نہیں اس بات کا احساس تھا یا نہیں کہ اسے کوئی پسند نہیں کرتا اور جو لڑکے اس کے قریب آنے کی کو شش کرتے بھی ہیں تو اپنی اپنی غرض سے آتے ہیں۔ کسی کو نوٹس کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی کمپیوٹرپر گیم کھیلنا چاہتا ہے۔ کسی کو اپنے دوستوں کو پٹوانا ہوتا ہے…… تاہم شکیب کی امی اور ابو شکیب کی نا فرمانیوں، بد تمیزی اور غصے سے نالاں رہنے کے باوجود اس کے لیے فکر مند رہتے تھے۔
شکیب کی امی کا خیال تھا کہ شکیب کو ”ک“ سے شروع ہونے والے کاموں سے خاص دلچسپی ہے، مثلاً کر کٹ، کراٹے، کمپیوٹر گیم، کھانا اور کا ہل پڑے رہنا۔ اسکول سے ملنے والا ہوم ورک تو وہ اپنے کزن کو ڈرا دھمکا کر ان سے کروالیا کرتا تھا۔ دن کا بڑا حصہ سوتے ہوئے گزر تا، شام کو شکیب انگڑائی لے کر اٹھ کر بیٹھتا۔ گھر میں فرمائش پوری کروانے اور چھوٹے بھائی بہنوں کومار پیٹ کا ”یومیہ کوٹا“فراہم کرنے کے بعد وہ کراٹے سینٹر چلا جاتا۔ گھر والے سکون کا سانس لیتے کہ ”کچھ دیر تو امن رہے گا۔“
رات میں دوستوں کے ساتھ نائٹ کرکٹ میچ کھیل کر شکیب صاحب گھر واپس آتے، گھر والے سانس روک لیتے ……کھانا منگوا کر تناول فرمانے کے بعد شکیب صاحب کمپیوٹر کے آگے جم جاتے۔ ان کو کمپیوٹر پر نت نئے گیم کھیلنے کا شوق تھا۔ پھر یہ ہو تا کہ سب لوگ بستروں پرچلے جاتے لیکن شکیب صاحب کمپیوٹر پر کسی جنگی کھیل میں بڑھ چڑھ کر داد شجاعت دے رہے ہوتے۔ شکیب کی امی اکثر اس کے ابو سے کہتیں:
”آپ نے تو شکیب کو بالکل چھوڑ دیا ہے۔ اس کو بٹھا کر سمجھا ئیں، اگر محنت نہیں کی تو میٹرک کرنا بھی مشکل ہے۔ نویں میں تو چلیے کمپیوٹر کی وجہ سے اچھے نمبر آگئے…… ویسے وہ ذہین بہت ہے۔ آپ کو یاد ہے جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن ……“
”بس بس……! پانچ سو مرتبہ ان محترم کی ذہانت کے قصے سن چکا ہوں۔“ابو چڑ جاتے۔”ایسی ذہانت کس کام کی جو انسان کو بد تمیز اور نافرمان بنادے! جس کی وجہ سے برے بھلے کی تمیز ہی اٹھ جائے۔ تم نے دیکھا نہیں،و ہ ہر ایک کو دکھ دیتا ہے، ہر ایک کو ستاتا ہے۔“
”اب میں کیا کروں؟ کوئی میں نے تو اسے یہ باتیں نہیں سکھائیں۔“ امی روہانسی ہو جاتیں۔
ایک دن شکیب صاحب نے ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ کمپیوٹر اٹھا کر بیرونی کمرے میں لے گئے۔ شام کو وہ کرکٹ کھیلنے یا کراٹے سینٹر جانے کی بجائے کمپیوٹر چلا کر بیٹھ جاتے۔ محلے کے لڑ کے آکر گھنٹوں گیم کھیلتے رہتے۔دوتین دن کے بعد انکشاف ہوا کہ شکیب صاحب نے با قاعدہ کلب قائم کر لیاہے۔ کمپیوٹر پر آدھا گھنٹہ کھیلنے کے پانچ روپے وصول کیے جار ہے ہیں۔
چند روز بعد اسکول گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے بند ہو گیا۔ اب تو شکیب صاحب کا کمپیوٹر خوب چل نکلا۔ بچے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے،دوسرے بچوں کو گیم کھیلتا دیکھ کرلطف اندوز بھی ہوتے رہے۔ کبھی اپنے ماہرانہ مشورے پیش کرتے، کبھی اناڑی بن کر کھیلنے والے کو طعنے دیتے۔شکیب کی بد مزاجی اور غصے کے باوجود بچے کمپیوٹر گیم کے شوق میں بیٹھے رہتے۔
اس دن بڑے ماموں آئے ہوئے تھے۔ تمام رشتہ داروں میں شکیب بس ایک ان ہی سے ڈرتا تھا۔اس دن تو وہ بیرونی کمرے ہی میں بیٹھا،گیم کھیلنے والوں کو ڈانٹتا پھٹکارتا رہا، گھر کے اندرہی نہ آیا۔امی اپنے بڑے بھائی سے شکیب کی سخت مزاجی کارونارونے لگیں۔ بڑے ماموں بولے:
”ارے شگفتہ تم بلاوجہ فکر کرتی ہو، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے، اس عمر میں سب بچے اسی طرح کرتے ہیں، کم یا زیادہ!“
امی بلبلا کر بولیں۔”چھوڑیے بھائی جان، آپ یہاں رہتے نہیں ہیں نا، اس لئے ایسی بات کر رہے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں اس لڑکے نے سب کا جینا عذاب کر رکھا ہے۔“
”او ہو“بڑے ماموں مسکرائے۔”مجھے سب رپورٹس ملتی رہتی ہیں، مگر تم یہ تو دیکھو کہ وہ کس قدر بلا کا ذہین ہے۔ مجال ہے جو اس کے سامنے کوئی شرارتی سے شرارتی بچہ چوں بھی کر جائے۔ قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتیں عطا کی ہیں، بس صرف ان صلاحیتوں کا رخ موڑنے کی ضرورت ہے۔ تم نے دیکھا نہیں ہر سال عید الا ضحی پر وہ سات آٹھ گایوں اور چار چھ بکروں کا انتظام کئی دن تک کس خوبی سے سنبھالتا ہے، البتہ……“
بڑے ماموں کچھ کہنے لگے مگر شکیب کی غصہ میں بھری آواز سن کررک گئے۔وہ شاید باتھ روم جانے کے لئے اندر آیا تھا اور کسی نے غلطی سے ہاتھ روم کانل پوری طرح بندنہیں کیا تھا۔ ٹونٹی سے پانی بہہ رہا تھا۔ اب گھر کے بچوں کی شامت آئی ہوئی تھی۔ شکیب صاحب ایک ایک بچے کو تھپڑ مار کر اس سے پوچھ رہے تھے۔ ”ہاتھ روم کانل کس نے کھولا تھا؟ تمیز نہیں ہے۔ اندھے ہوگئے ہیں، پتا ہے تھر اور بلو چستان میں پانی بالکل نہیں ہے، لوگ دور دور سے ایک صراحی بھر کر لارہے ہیں،اور تم لوگ جاہل، عقل نہیں، نل کھولتے ہیں تو بند کرنا بھی نہیں آتا۔آئند ہ اگر کسی نے نل ٹھیک طرح سے بند نہ کیا تو گردن اتار دوں گا۔“
شکیب صاحب بچوں کی مرمت کے دل پسند مشغلے سے فارغ ہو کر اپنے”کلب“ میں واپس جانے لگے تو بڑے ماموں پر ان کی نظر پڑ گئی جو مسکراتے ہوئے ان ہی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”السلام علیکم بڑے ماموں۔“شکیب نے جلدی سے سلام کر کے نکل جانا چاہا۔
”و علیکم السلام، بھئی یہاں تو آؤ تمہاری شکل دیکھنے کو ترس گئے۔“ بڑے ماموں نے اس کو بلا لیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ آکر ماموں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
”آؤبیٹھو!“ ماموں بسکٹ کی پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔”سنا ہے تم نے کلب ولب بنالیا ہے۔ کتنی آمدنی ہورہی ہے کلب کو روزانہ؟“

”کچھ نہیں ماموں، کبھی تیس، کبھی چالیس، ویک اینڈ پر ساٹھ بھی ہو جاتی ہے۔ اصل میں سامنے کی کچی آبادی میں غریب لوگ رہتے ہیں۔ یہاں ہمارے سارے پڑوسیوں کے پاس تو اپنے اپنے کمپیوٹر ہیں۔ کچی آبادی کے غریب لڑکے آکر گیم کھیلتے ہیں، مگر ہیں بڑے سڑے ہوئے۔ کوئی جوتے پہن کر قالین پر چڑھ آتا ہے، کوئی بالوں میں ایک لیٹر تیل چپڑ لیتا ہے، کسی کے ناخن اتنے بڑے بڑے ہوتے ہیں اور پھر ان میں میل بھر ا ہوا، اخ……“ شکیب نے پر اسامنہ بنایا۔
”ہوں۔“ ماموں نے سامنے رکھی پیالی اٹھا کر چائے کی چسکی لی۔”اچھا ابھی بچوں کو کیوں مار پیٹ رہے تھے؟“
”ارے ماموں آپ نہیں جانتے، اس گھر کے بچے تو گدھے ہیں گدھے!نل کھولتے ہیں تو ٹھیک طرح سے بند نہیں کرتے۔پانی ضائع ہوتارہتا ہے۔ آپ خود سوچیں ماموں، ایک سیکنڈ میں اگر پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع ہو تا ہے تو ایک منٹ میں 60 قطر ے ضائع ہو جائیں گے اور پھر ایک گھنٹے میں کتنے؟“اس نے جلدی سے حساب لگایا۔”ہاں! تین ہزار چھ سو، اور ایک دن میں ……ٹھہریے کیلکولیٹر لاکر آپ کو بتاتا ہوں۔“ وہ لپک کر کیلکو لیٹر لے آیا۔ اس نے کیلکولیٹر کے چند بٹن دبائے اور بولا۔”دیکھیے ماموں، 24 گھنٹوں میں 86ہزار 400 قطرے ضائع ہو جائیں گے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اگر ایک سیکنڈ میں ایک قطرہ ٹپکے اور یہاں تو لوگ ٹونٹی صحیح طرح بند نہیں کرتے، عقل تو ان کے گھٹنوں میں ہے گھٹنوں میں، ار ے اگر ٹونٹی خراب ہے تو نل کے نیچے کوئی بالٹی ہی رکھ دے۔کم از کم پانی تو ضائع نہ ہو۔یہی پانی کسی کام آسکتا ہے۔“
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔“ماموں نے سر ہلایا۔”مجھے بڑی خوشی ہے کہ تمہیں ایک بہت اہم مسئلہ کا احساس ہے اور تم لوگوں کو اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کر رہے ہو،مگر بیٹے شکیب تم نے بھی تو ٹونٹی کھلی چھو ڑ ر کھی ہے اور پانی بہہ کر ضائع ہو رہا ہے۔“
”میں!ماموں میں!“ شکیب نے بڑی مشکل سے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔”میں نے کب ٹونٹی کھلی چھوڑی؟ آپ کو کس نے بتایا؟ یہ ضرور کم بخت سہیل نے آپ سے کہا ہوگا، چغل خور کہیں کا……!“
”نہیں نہیں، سہیل یا گھر کے کسی بچے نے مجھ سے نہیں کہا۔ یہ تو میں نے خود دیکھا ہے کہ تم پانی بہنے کی کوئی فکر نہیں کرتے۔“ماموں اطمینان سے بولے۔
”ماموں آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ان جاہلوں کی طرح نہیں۔“ شکیب نے غصے سے کھولتے ہوئے کہا۔
”ذرا صبر بیٹے، نام تو تمہارا شکیب ہے جس کے معنی معلوم ہیں تمہیں؟ شکیب کا مطلب ہے صبر و تحمل، بر داشت، مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ تم نے اپنے نام کی لاج نہیں رکھی۔ تم میں توبلا کا تحمل ہونا چاہیے تھا۔ خیر! اس پر پھر کسی وقت بات کریں گے۔ میں تو صرف یہ بتارہا تھا کہ تم بھی دوسروں کی طرح روزانہ 86 ہزار400 قطرے ضائع کر رہے ہو۔“
”مگر ماموں۔“ شکیب نے غصے سے پہلو بد لا۔ اس کا چہر ہ سرخ ہو گیا تھا۔
”صبر بیٹے!تم نے غور نہیں کیا۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو زندگی دی ہے،وہ دراصل پانی کے ایک ٹینک کی طرح ہے، جس کی ٹونٹی کھلی ہوئی ہے۔ کوئی انسان چاہے تو بھی اس ٹونٹی کو بند نہیں کر سکتا جس سے ہر سیکنڈ میں ایک قطرہ ٹپک رہاہے، یعنی 24 گھنٹوں میں 86 ہزار 400 سیکنڈاس ٹونٹی سے ٹپک کر ضائع ہورہے ہیں۔ جو لوگ عقل مند ہوتے ہیں وہ اس ٹونٹی سے ٹپکنے والے وقت کے قطروں کا درست استعمال کرتے ہیں لیکن جن کو عقل نہیں ہوتی وہ وقت جیسی قیمتی دولت کو بہنے دیتے ہیں، ضائع ہو جانے دیتے ہیں، سمجھ رہے ہونا بیٹے؟“
”جی……!“ شکیب نے آہستہ سے کہا۔
”ہر انسان کو24 گھنٹوں کے 86 ہزار 400 سیکنڈ برابر ملتے ہیں البتہ یہ کچھ پتا نہیں کہ کون انسان کتنی زندگی لے کر دنیا میں آیا ہے۔ کون جانے اس کی زندگی کا ٹینک کب خالی ہو جائے اور اس سے وقت کے قطروں کا ٹپکنا بند ہو جائے۔ آخرت میں انسان سے لازمی پو چھا جائے گا کہ دنیا میں تمہیں جو زندگی ملی تھی، تم نے اپنے وقت کا استعمال کس طرح کیا۔ تمہیں جو صلاحیتیں ملی تھیں، ان سے کس کو فائدہ پہنچایا اور کسے نقصان سے دوچار کیا، اس لئے بیٹا، ٹونٹی سے بہنے والے پانی کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے ٹینک سے ٹپکنے والے لمحوں کی بھی قدر کرو ……کیا سمجھے؟“
وہ ماموں کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہا تھا اور اسے سمجھ بھی آرہا تھا۔ جب ماموں اپنی بات پوری بتا چکے تو انہوں نے دیکھا شکیب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ماموں نے اسے خوشی سے گلے لگالیا۔ اس رات شکیب خلاف معمول جلدی سو گیا۔ اگلے دن امی فجر کی نماز کے لئے اٹھیں تو انھوں نے حیرانی سے دیکھا کہ شکیب وضو کر رہا ہے۔ اگلا دن مزید حیرانیاں لے کر آیا۔ شکیب صاحب نے کلب کا نام ”جوائے کلب“سے بدل کر”بزم ساتھی“ رکھ دیا تھا۔ محلے بھر میں خبر پھیلی ہوئی تھی کہ شکیب نے اپنی بزم کے تحت اپنے گھر کے بیرونی کمرے میں، کمپیوٹر کلاسز کا آغاز کر دیا ہے، اس کے علاوہ بزم کے تحت قریبی پارک میں کراٹے کلاسز اور کرکٹ کی کو چنگ بھی ہوا کرے گی۔ یہ تمام کلاسیں شکیب اور ان کے دوست لیا کریں گے…… اور اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ان تمام کلاسوں میں شرکت کے لئے شکیب نے کوئی فیس نہیں رکھی تھی۔ صرف ایک شرط رکھی تھی اور وہ تھی:
”پانچوں وقت نماز با جماعت میں شرکت……!“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top