احساس
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
’’پوں، پوں ،پوں…! ‘‘خالد صاحب کار چلاتے ہوئے بار بار ہارن بجارہے تھے۔ ان کا بیٹا شاہد بستہ لیے ساتھ بیٹھا تھا۔ شاہد کے اسکول میں ابھی ابھی چھٹی ہوئی تھی۔ اس لیے بہت سے بچے سڑک پر نظر آرہے تھے۔ کچھ بچے سڑک پار کر رہے تھے۔
اچانک سڑک پر کچھ بھینسیں آگئیں۔ ’’افوہ! پتا نہیں لوگ بھینسوں کو کھلا کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ سڑکیں گاڑیوں کے لیے ہیں یا بھینسوں کے لیے؟‘‘خالد صاحب بڑبڑائے۔
’’پوں ،پوں ،پوں…! ‘‘خالد صاحب نے اپنی کار کا تیز آواز والا ہارن بجانا شروع کر دیا۔ مگر بھینسوں کو پوں پوں سے بھی دلچسپی نہ تھی، وہ اسی طرح چلتی رہیں۔ جب انہوں نے کئی بار مسلسل ہارن بجایا تو شاہد سے رہا نہیں گیا اور وہ بول ہی پڑا۔’’ ابو! کیا ہسپتال کے قریب ہارن بجانا چاہیے؟ مریضوں کو تکلیف نہیں ہوتی ہو گی کیا؟‘‘ خالد صاحب نے شرمندہ ہو کر شاہد کو دیکھا اور کھنکھارے اور ہارن بجانا بند کرکے کار ایک طرف سے نکال لی۔
بڑی سڑک پر آنے کے بعد خالد صاحب نے ایک بڑی عمارت کے قریب کار روک دی۔ شاہد کو لے کر وہ عمارت کی پہلی منزل پر پہنچ گئے۔ ایک دفتر میں خالد صاحب کو کوئی ضروری کام تھا۔ شاہد باہر رک کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ دو تین منٹ بعد سائرن کی تیز آواز سنائی دی۔ شاہد نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا ایک ایمبولینس نیچے کھڑی سائرن بجا رہی تھی۔ خالد صاحب کی کار ایمبولینس کے راستے میں اس طرح کھڑی ہوئی تھی کہ ایمبولینس اس عمارت میں داخل ہی نہیں ہو سکتی تھی۔
’’ہو سکتا ہے کسی کی جان خطرے میں ہو۔‘‘شاہد نے سوچا۔ وہ تیزی سے دفتر کے اندر چلا گیا، جہاں اس کے ابو کاغذات پھیلا کر کسی سے بات کر رہے تھے۔ ’’ابو جلدی آئیے۔‘‘ شاہدنے کہا اور خالد صاحب گھبرا کر اٹھے۔ شاہد تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔ خالد صاحب اس کے پیچھے تھے۔
’’ابو جلدی سے کار ہٹالیں ایمبولینس کو گزرنے کا راستہ نہیں مل رہا۔‘‘ شاہد نے کہا۔
خالد صاحب نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور کار چلا کر پیچھے لے گئے۔ ایمبولینس تیزی سے عمارت میں داخل ہو گئی۔ خالد صاحب نے کار ذرا آگے لے جا کر پارک کر دی۔
وہ واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی عمارت سے باہر نکلی اور تیزی سے نکلتی چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد خالد صاحب کو معلوم ہوا کہ ایمبولینس کسی ایسے مریض کو لینے آئی تھی جس کی زندگی خطرے میں تھی، انہیں یہ سوچ سوچ کر شرمندگی ہوتی رہی کہ ان کے گاڑی غلط کھڑی کرنے کے باعث ایمبولینس کا راستہ رک گیا۔
وہ تو شکر ہے کہ شاہد نے دیکھ لیا ورنہ مریض کی جان بھی جاسکتی تھی۔ اس احساس کے ساتھ ہی انہوں نے شاہد کو پیار کیا جس کی ذہانت کے باعث نہ صرف ایمبولینس مریض تک بروقت پہنچ گئی بلکہ ٹریفک کے بھولے ہوئے سب قاعدے قوانین بھی انہیں یاد آگئے۔