نُقطے
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
بس میں بڑی بھیڑ تھی۔
لوگ ایک دوسرے کے ساتھ یوں جڑے کھڑے تھے جیسے برسوں کے بچھڑے گلے ملتے ہیں۔ بس میں معمول سے زیادہ بھیڑ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اسی روٹ کی ایک بس راستے میں روٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی اور اس کے مسافر بھی، پیچھے سے آنے والی اس بس میں، کسی سیلابی ریلے کی مانند گھس آئے تھے۔امین بھی اسی سیلابی ریلے میں شامل تھا، جو اپنی پشت پر لدے ہوئے وزنی اسکول بیگ کی شان میں مسافروں کے قصیدے سن رہا تھا۔ چلتی ہوئی بس کے ہچکولوں کی وجہ سے، امین کا بیگ کسی مضبوط پتھر کی طرح، کسی مسافر کی کمر یا پیٹ سے ٹکراتا تو”ہائے“ اور”اُف“ کی صدائے احتجاج کے ساتھ”اپنے پیروں پر کھڑے رہو میاں“……”ارے بھئی! اس بیگ میں کیاپتھر بھر لائے ہو؟“ قسم کے مشورے اور سوالیہ تبصرے سننے کو ملتے۔
ابھی کنڈکٹر، امین تک نہیں پہنچا تھا۔کنڈکٹر تو پچھلی بس میں بھی امین تک نہیں پہنچا تھا کہ بس ناراض ہوکر کھڑی ہوگئی تھی اور اس کے ناراض مسافروں نے شہد کی مکھیوں کی مانند، کنڈکٹر پر ہلہ بول دیا تھا۔”شہد کی مکھیوں“کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی:”او میاں سننا، میرے چار روپے واپس کرنا۔“……”بھائی صاحب، دینا ذرا کرائے کے باقی پیسے۔“……”ارے بھیا ہماری سن……!“
امین نے حالانکہ کنڈکٹر کو بس کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا لیکن اس کے کان میں کسی غیبی آواز نے کہا:”بہتی گنگا ہے،ہاتھ دھونے میں حرج نہیں۔کنڈکٹر کو کیا معلوم، تونے پیسے دیے تھے یا نہیں۔ اس بے چارے کو تو اپنا ہوش نہیں، اس کے سامنے تو بیس پچیس ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں، اگر بیس پچیس ہاتھوں میں تمہارا ہاتھ بھی شامل ہو گیا تو کنڈکٹر اسے کہاں پہچان سکے گا کہ تم نے کرائے کے پیسے دیے تھے یا نہیں۔چلو شاباش، دیر لگائی تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔“
امین کے قدم خود بخود اٹھ گئے تھے،اگلے چند لمحوں بعد وہ بھی کنڈکٹر کا”محاصرہ“ کرنے والے مسافروں میں ساتھ ہاتھ پھیلائے چیخ رہا تھا:”بھائی صاحب مجھے بھی واپس کر دیں کرائے کے پیسے……!“
کنڈکٹر نے اس سے پوچھا تھا کہ کہاں سے بس میں سوار ہوئے تھے اور کرائے کی رقم اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ تین روپے امین کے ہاتھ میں آئے تو اسے بڑی خوشی ہوئی تھی۔کسی خاص محنت کے بغیر اسے تین روپے مل گئے تھے۔ اسی ترنگ میں وہ پیچھے آنے والی اسی روٹ کی بس میں جا گھسا تھا اوراب مسافروں کی ”سیسہ پلائی ہوئی دیوار“ کی ایک اینٹ بنا ہوا کھڑا تھا۔
”کرایہ ہاتھ میں رکھنا بھائی جان!“کنڈکٹر نے ”سیسہ پلائی ہوئی دیوار“ کے عقب سے اعلان کیا۔اگلے ہی چند لمحوں میں وہ ”مسافروں کی مضبوط دیوار“ میں ”نقب لگا کر“امین کے سامنے آکھڑا ہواتھا۔
”کرایہ دینا بھائی میاں۔“کنڈکٹر نے امین کو مخاطب کیا۔امین نے یہ ظاہر کیا جیسے اس نے کنڈکٹر کی آواز سنی ہی نہ ہو، کنڈکٹر نے بے صبری سے پھر آواز لگائی۔”دوسری گاڑی کے پیسنجر کرایہ دے دیں بھائی جان۔“ پھر اس نے امین کی پشت پر تھپکی دی اور بولا:”دیر ہو رہی ہے،کرایہ نکالیں۔“
امین نے کنڈکٹر کو بڑی بے زاری سے دیکھنے کی اداکاری کی، جیسے کہہ رہا ہو، کتنی مرتبہ کرایہ لوگے؟ابھی دیا تو تھا،ایک دو مسافروں نے بھی بھیڑبھاڑ، گرمی اور بس کی سست رفتاری کا غصہ کنڈکٹر پر یہ کہہ کر اتارا:”کیا دس دفعہ کرایہ لوگے؟ایک دفعہ کرایہ لے کر یاد رکھا کرو۔“
کنڈکٹر بے چارہ شرمندہ سا ہو کر مسافروں کی بھیڑ میں کہیں غائب ہو گیا۔
امین کا اسٹاپ آیا تو وہ بڑی مشکلوں سے مسافروں کے درمیان راستہ بناتا ہوا بس سے اترا۔ آج مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی بس میں سفر، تکلیف سے بھرپور تو تھا لیکن امین کی جیب میں مفت ہاتھ آئے ہوئے تین روپے ٹھمک رہے تھے۔
راستے میں بس خراب ہونے اوردوسری بس کا انتظار کرنے کی وجہ سے امین ایسے وقت اسکول پہنچا جب اسکو ل کی گھنٹی بج چکی تھی اور تمام طالب علم، میدان میں قطار بنائے کھڑے تھے۔ امین اپنے ہم جماعتوں کی قطار کی طرف بڑھا تو راستے میں ایک استاد نے چھڑی گھما کر اسے روک دیا اور بولے:”دیر سے آئے ہو؟“
امین فوراً سمجھ گیا کہ اب تو”تواضح“ ہوگی۔ اس نے دردناک لہجے میں کہا:
”سر! ساری رات بجلی نہیں تھی، مچھروں نے جگائے رکھا، صبح آنکھ لگی تو ذرا دیر ہوگئی۔“
استاد کے چہرے پر ہمدردی کی آثار نمودار ہوگئے، وہ اسے قطار میں شامل ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
اسمبلی کے بعد تمام طالب علم قطاروں کی صورت میں، اپنی اپنی کلاسوں کی سمت روانہ ہوگئے۔پہلا پیریڈ حساب کا تھا،جس سے امین کی جان جاتی تھی۔ حساب کے استاد آئے تو انہوں نے سب سے پہلے ہوم ورک کے بارے میں ایک ایک لڑکے سے دریافت کیا۔ جس لڑکے نے ہوم ورک نہیں کیا تھا، اس کو سزا مل رہی تھی۔امین کی باری آئی تو اس نے کھڑے ہو کر بڑے ادب سے کہا:”سر! آج کل گھر میں کنسٹرکشن ہو رہی ہے، اس لیے میں ہوم ورک نہیں کر سکا۔“
حساب کے استاد نے امین کو بیٹھنے کے لیے کہااور اگلے لڑکے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ امین دل ہی دل میں اپنی کامیاب اداکاری پر خود کو داد دے رہا تھا کہ جھوٹ بھی نہیں بولا اور سزا سے بھی بچ گیا۔ دراصل گزشتہ روز ان کے مکان کے باہر ایک صاحب اپنی گاڑی، ریورس گیئر لگا کر پیچھے کر رہے تھے کہ بے دھیانی میں کار، امین کے مکان کی بیرونی دیوار سے جا ٹکرائی، جس سے دیوار کا تھوڑا سا حصہ ٹوٹ گیا تھا۔ اسی ٹوٹے ہوئے حصے کی مرمت کروائی تھی، یہی وہ گھر میں ہونے والی”کنسٹرکشن“ تھی، جس کی وجہ سے امین صاحب حساب کا ہوم ورک نہ کر سکے تھے۔
حساب کا پیریڈ ختم ہوا۔اگلا پیریڈ اردو کا تھا، لیکن اردو کے ٹیچر کسی وجہ سے نہیں آئے تھے۔ لڑکے تمام وقت ہڑبونگ مچاتے رہے یا آپس میں باتیں کرتے رہے۔امین نے بس کنڈکٹر کو ’’بے وقوف“ بنا کر تین روپے بچانے کا کارنامہ اپنے دوستوں کے سامنے مزے لے لے کر بیان کیا۔وہ کہہ رہا تھا:
”ارے کہتے ہیں، ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔“
اردو کا پیریڈ ہے تو امین محاورے بول رہا ہے۔“ جاوید نے فقرہ کسا۔
پھر امین صاحب نے اسمبلی کے میدان میں اپنی اداکاری کے بل پر، ٹیچر کی سزا سے بچنے کا قصہ سنا کر دوستوں سے داد وصول کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مکان کی اس ”کنسٹرکشن“کی تفصیل بیان کی، جس کا عذر پیش کرکے وہ حساب کے پیریڈ میں سزا سے بچ گئے تھے۔ امین کے ساتھیوں نے ”مکان کی کنسٹرکشن“ کی اصلیت جان کر قہقہوں کی صورت،میں امین کو داد دی۔ امین صاحب داد پاکر پھولے نہ سما رہے تھے۔انہوں نے اپنے ہم جماعتوں کو مزید مرعوب کرنے کے لیے اپنی ”ہنر مندی“ کے مزید دوچار واقعات سنائے۔ وہ کہہ رہا تھا:
”بھائی مجھے کیرم ویرم کھیلنا آتا نہیں ہے، مگر میرا دعویٰ ہے کہ مجھ سے کیرم میں کوئی جیت نہیں سکتا۔“
”یہ کیسے ممکن ہے؟“ ظہیر کو یقین نہ آیا۔
”سب کچھ ممکن ہے میرے دوست۔ ماہر سے ماہر چیمپئین میرے سامنے بیٹھا ہوگا اور اس کی نظر چوکنے کی دیر ہوگی۔ باتوں میں لگا کر دھیان بٹانا کیا مشکل ہے؟ بس اسی موقع پر ہم ہاتھ کی صفائی دکھا دیتے ہیں، اگلے کو پتا بھی نہیں چلتا کہ گوٹ پاکٹ میں خاموشی سے کب گئی!“
بہت سے لڑکے امین سے متاثر نظر آرہے تھے، صرف منیب نے آہستہ سے کہا:
”مگر یہ تو بے ایمانی ہے۔“
’لو ان کی سنو!“امین نے منیب کی طرف مذاق اڑانے والے انداز میں اشارہ کیا۔”کیرم میں بھی ایمان داری اوربے ایمانی ڈھونڈنے نکلے ہیں، ارے میں نے ایک گوٹ ذرا سرکا دی تو کیا کوئی بینک لوٹ لیا،ہونہہ بے ایمانی!“سب لڑکے منیب کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھ کر مسکرائے، پھر امین صاحب کی طرف متوجہ ہوگئے جو اپنا ایک اور کارنامہ بیان فرما رہے تھے:
”ایک بار تو بڑا مزا آیا۔ میں سپر مارکیٹ گیا، پین خریدنا تھا،سیلز مین نے پین دکھائے،قیمت پوچھی تو زیادہ بتا رہا تھا، کم کرنے پر تیار ہی نہ ہوا،میں نے بھی دل میں کہا، بیٹا ابھی تجھے مزہ چکھاتا ہوں،میں نے اس سے اور کچھ چیزیں دکھا نے کے لیے کہا، وہ مڑا تو میں نے صفائی سے ایک پین اپنی جیب میں پہنچا دیا۔اس کو پتا بھی نہیں چلا کہ وہ کتنے پین دکھانے کے لیے لا یا تھا،یوں ہی کچھ دیر چیزیں الٹنے پلٹنے کے بعد سوری کہہ کر چلا آیا۔“
”لیکن یہ تو……“منیب نے کہنا شروع کیا تو امین نے اس کی بات کاٹ دی۔
”بے ایمانی ہے! کہو کہو، ارے جو لوگ ہم غریبوں کا خون چوستے ہیں، ان کا مال اڑانا بالکل جائز ہے۔اس طرح تو میں نے دکانوں سے کتنی ہی چیزیں غائب کی ہیں، لوایک اور قصہ سنو، ایک بار ہم چار دوست چائے پینے گئے، چائے کا آرڈر دیا۔چائے آئی تو مجھے شرارت سوجھی، میں نے دوستوں سے کہا، اپنی اپنی پیالی اٹھا کر ذرا آڑ میں کرلو۔ایک پیالی اور اس کی ساسر الگ الگ کرکے میز پر رکھی اور بیرے کو بلاکر کہا،”تم اس کپ کی ساسر اور اس ساسر کا کپ نہیں لائے؟“وہ بھی پتا نہیں کس گاؤں سے آیا تھا، فوراً گھبرا کر ایک کپ اور ایک ساسر لے آیا۔“
کلاس روم میں پھر قہقہے بلند ہوئے،اس وقت پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔
اگلاپیریڈ اسلامیات کا تھا۔اسلامیات کے استاد مشفق لطیف کلاس روم میں داخل ہوئے، تمام لڑکے تعظیم کے طور پر کھڑے ہو گئے،مشفق صاحب نے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگے:
”بچو! آج میں کتاب کا اگلا باب پڑھانے سے پہلے، آپ لوگوں کو ایک عملی مشق میں شریک کروں گا۔“
سب بچوں نے حیرانی سے مشفق صاحب کی طرف دیکھا جو دیوار پر لگے بلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:
”کمرے میں کچھ اندھیرا سا ہو رہا ہے، شاید اس لیے کہ باہر آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ذرا کوئی یہ بتی روشن کردے۔“
کلاس کے مانیٹر شکیل نے اٹھ کر سوئچ دبا دیا۔کمرے میں روشنی پھیل گئی۔مشفق صاحب نے ایک دوسرا حکم دیا:
”اب بتی بجھادیں!“
سب نے پہلے سے زیادہ حیرانی سے، مشفق صاحب کی طرف دیکھا، لیکن وہ بالکل سنجیدہ تھے، خیر شکیل نے اٹھ کر سوئچ دبا دیا، روشن بلب فوراً تاریک ہو گیا۔اب مشفق صاحب نے تیسرا حکم دے کر بچوں کو مزید حیران کردیا، وہ کہہ رہے تھے:
”اس بلب کو ہولڈر سے نکال کرمیرے پاس لے آئیں۔“
کلاس کا سب سے زیادہ لمبے قد والا لڑکا، ارسلان اٹھا، اس نے جیب سے رومال نکال کر، اس کی مدد سے بلب کو تھاما اور اسے ہولڈر سے نکال کرمشفق صاحب کے پاس لے آیا۔ مشفق صاحب نے اسے شاباش دے کر اپنی نشست پر بیٹھنے کے لیے کہا، پھر انہوں نے اپناچھوٹا سا بیگ کھول کر اس میں سے ایک مارکر نکالا۔ تمام بچے حیرانی سے ٹکٹکی باندھے، مشفق صاحب کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مشفق صاحب نے بلب کو اپنے روما ل سے اچھی طرح صاف کیا، پھر مارکر کا ڈھکن ہٹا کر کہنے لگے:
”دیکھیے، یہ ایک مشق ہے۔ میں سیاہ رنگ کے اس مارکر سے اس بلب پر صرف ایک نقطہ ڈال رہا ہوں۔“
انہوں نے بلب پر عین اس جگہ ایک سیاہ نقطہ ڈال دیا،جہاں بلب بنانے والی کمپنی کا نشان اوربلب کی طاقت (واٹ) چھپی ہوتی ہے۔ اب مشفق صاحب نے بلب اور مارکر شکیل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
”شکیل! دائیں طرف سے شروع کریں۔دیکھیں اس کونے پر امتیاز بیٹھے ہیں، امتیاز آپ اس بلب پر لگے ہوئے سیاہ نقطے کے بالکل قریب، اس مارکر سے ایک نقطہ اس طرح لگائیں کہ پہلے والا نقطہ اس نقطے سے مل کر بڑا ہو جائے، اس کے بعد امتیاز کے برابر بیٹھے ہوئے سہیل،ایک نقطہ لگا کر پہلے والے نقطے کو بڑا کریں گے، اس طرح کلاس کے تمام لڑکوں کے پاس یہ بلب جائے گااور سب کے تعاون سے یہ سیاہ نقطہ بڑا ہوتا جائے گا۔ چلیے شروع کریں۔“تمام لڑکے تعجب سے منہ پھاڑے، مشفق صاحب کو دیکھ رہے تھے لیکن مشفق صاحب بے حد سنجیدہ تھے۔
شکیل، بلب لے کر کلاس کے ہر لڑکے کے پاس پہنچا اور سب نے مارکر سے بلب پر لگے نقطے میں، نقطے شامل کرکے، اسے بڑا کرنے کے عمل میں حصہ لیا۔ کلاس کے ساٹھ بچوں نے بلب پر نقطے لگائے تو بلب کے گرد اچھا خاصا سیاہ دائرہ بن گیا۔مشفق صاحب نے یہ عمل جاری رکھنے کا اشارہ کیا، آخر پورے بلب پر سیاہی چھا چکی تھی۔
تمام لڑکوں کی آنکھوں میں حیرت رقص کر رہی تھی۔
مشفق صاحب نے اب حکم دیا:
”ارسلان! اب اس بلب کو واپس ہولڈر میں لگا کر سوئچ آن کر دو۔“
ارسلان نے بلب کو ہولڈر میں لگا کر سوئچ دبا دیا، لیکن ظاہر ہے کہ اب کمرے میں پہلے کی طرح روشنی نہیں پھیلی۔بلب پر لگے سیاہ مارکر کے سینکڑوں نقطوں نے روشنی کا راستہ روک لیا تھا۔بلب میں سے بہت ہلکی سی روشنی اکا دکا جگہوں سے جھلک رہی تھی، جیسے باہر آنے کو بے تاب ہو۔ بلب، سورج گرہن کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔
مشفق صاحب شفقت سے مسکرائے اور بولے:
”آپ سب حیران ہوں گے کہ آج میں اسلامیات پڑھانے کے بجائے یہ کیا تماشے کروا رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں آپ کو اسلامیات ہی پڑھا رہا ہوں!“
تمام لڑکوں نے بے یقینی سے مشفق صاحب کی طرف دیکھا، وہ سنجیدگی سے کہہ رہے تھے:
”بچو! آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پہلی بار بلب کو روشن کیا تھا تو اس کی روشنی نے پورے کمرے کو منور کردیا تھا۔ آسمان پر بادل چھا جانے کی وجہ سے کمرے میں قدرے تاریکی تھی لیکن بلب روشن ہوا تو تاریکی کو بھاگتے ہی بنی۔ظاہر ہے جہاں روشنی پھیل جائے، وہاں تاریکی کا کیا کام؟“
پھر سب بچوں نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلائے۔ مشفق صاحب بولے:
”پھر بچو! آپ نے دیکھا کہ میں نے بلب کی شفاف سطح پر سیاہ مارکر سے صرف ایک نقطہ لگایا اور آپ سب نے ایک ایک نقطے کا اضافہ کرکے پہلے نقطے کو بڑا کر ڈالا، یہاں تک کہ اس بڑے سے سیاہ نقطے نے پھیل کر پورے بلب کو ڈھانپ لیا، یعنی بظاہر ایک سیاہ نقطے کی کوئی حیثیت نہیں لیکن جب سینکڑوں سیاہ نقطے ایک جگہ متحد ہو جائیں تو وہ روشنی کا راستہ روک لیتے ہیں۔ اس سے ہمیں کیا سبق ملا؟“
”سر!“ منیب نے کھڑے ہو کر کہا۔”اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب منفی کام کے لیے بھی لوگ متحد ہو جائیں تو وہ بڑی طاقت بن جاتے ہیں تو اچھے اور مثبت کام کے لیے تو لوگوں کا اتحاد بہت موثر طاقت ثابت ہو سکتا ہے۔“
”شاباش! بالکل ٹھیک،منیب! آپ نے نہایت صحیح بات کہی لیکن میں نے آج آپ لوگوں سے اتنی طویل مشق صرف وہ بات جاننے کے لیے نہیں کروائی، جو منیب نے کہی ہے……میں جس چیز کی طرف آپ سب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ ہمارے پیارے رسول ﷺ کی ایک مبارک حدیث ہے۔یہ حدیث مستند کتابوں میں موجود ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
”بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو وہ نقطہ صاف کر دیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ گناہ کرتا رہا تو اس نقطے کو بڑھا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔“حدیث کے آخری الفاظ تک پہنچ کر مشفق صاحب کی آواز بھرا گئی۔ وہ چشمہ اتار کر اپنی آنکھیں خشک کرتے ہوئے بولے:
”بچو!آپ نے دیکھا کہ پیارے نبی ﷺ نے مختصر لفظوں میں کتنی بڑی اور اہم بات ارشاد فرمادی ہے۔میں آپ کو اسلامیات کی کتاب میں ”گناہ“ کا باب پڑھانا چاہتا ہوں،اس حدیث کو سمجھانے کی غرض سے میں نے بلب کی مثال پیش کی،آپ نے دیکھ ہی لیا کہ گناہوں سے پاک دل، روشن بلب کی طرح اجالا بکھیرتا ہے لیکن جب گناہ کرنے پر ایک نقطہ دل میں لگ جاتا ہے اور پھر چھوٹے بڑے گناہ اس نقطے کو بڑا کرتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے اور دل کے شفاف شیشے کو داغدار بنا کر ایمان کی روشنی کا راستہ روک دیتا ہے۔ایک سچا اور اچھا مسلمان، اول تو گناہ سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اگر غلطی سے اس سے گناہ ہوجا ئے تو وہ فوراً توبہ اور ندامت کے آنسوؤں کے ذریعے دل میں لگنے والے داغ کو دھو دیتا ہے اور……“
مشفق صاحب کہتے کہتے رک گئے۔ کلاس روم میں ایک جانب سے سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ تمام لڑکے اس کی جانب متوجہ ہو گئے۔ وہ سب حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ ہمیشہ قہقہے لگانے والا امین، آج زار و قطار رو رہا تھا۔