جنت کا میوہ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”دادی جان السلام علیکم! آپ ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی تھیں؟“ انورنے دادی جان کو دیکھ کر پوچھا۔
”وعلیکم السلام! ہاں بیٹے، میری ہڈیوں کے جوڑوں میں تکلیف رہنے لگی تو تمہارے ابا جان اصرار کر کے مجھے لے گئے تھے۔“دادی جان نے جواب دیا۔
”ڈاکٹر صاحب نے دوا دی؟“ انور نے پوچھا۔
”ہاں، دی ہے، کچھ دوا اپنے پاس سے دی ہے اور تین دوائیں بازار سے خریدنی ہیں۔“
”لائیے، پرچی مجھے دیجیے، میں بازار سے دوائیں لے آتا ہوں۔“ انور نے ہاتھ بڑھا دیا۔
”ذرا ٹھہر جاؤ، ابھی ایک ساتھ اتنی دوائیں میں نہیں کھاؤں گی۔ مجھے تو تم بازار سے انجیر لا دو۔“ دادی جان نے مسکرا کر کہا۔
”انجیر؟“
”ہاں، ہاں، یہ بہت کام کی شے ہے۔ اس میں اللہ نے بڑی خوبیاں رکھی ہیں۔ جانتے ہو، اسے عربی میں کیا کہتے ہیں؟“
”مجھے نہیں معلوم۔“
”اسے عربی میں ’تین‘ کہتے ہیں، یہ جنت کا میوہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک سورۃ کا نام ’سورہ التین‘ رکھا اور پھر اپنی کتاب میں تین، یعنی انجیر کی قسم بھی کھائی،تم نے پڑھا ہوگا۔
وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ۔۔۔۔۔۔“
”جی ہاں، دادی جان، میں نے پڑھی ہے یہ سورۃ، مگر آپ دوا کی بجائے، انجیر کیوں کھانا چاہ رہی ہیں؟“
”اس لیے بیٹے کہ اللہ نے انجیر میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ یہ جوڑوں کے درد کو دور کر دیتی ہے، میں نے ایک حدیث نبوی پڑھی ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انجیر کھایا کرو، اگر مجھ سے کہا جائے کہ کیا کوئی پھل جنت سے زمین پرآ سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ ہاں، یہی ہے۔ یہ بلاشبہ جنت کا پھل ہے۔ اسے کھایا کرو کہ یہ بواسیر کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور گٹھیا میں مفید ہے۔“ (الاثیمی، ابن السنی)
”بہت اچھا، میں ابھی بازار جا کر انجیر خرید لاتا ہوں۔“ انور نے چپل پہنتے ہوئے کہا۔
”یہ لو پیسے لیتے جاؤ۔“دادی جان نے کہا۔
انور نے انجیر دیکھی تو تھی لیکن کھانے کا موقع پہلی بار ملا تھا۔ اسے انجیر کا ذائقہ بہت پسند آیا۔ ویسے تو وہ انجیر دادی جان کے لیے لایا تھا لیکن دادی جان نے ایک انجیر اسے بھی دے دی تھی۔ انور کا جی چاہ رہا تھا کہ ایک انجیر اور کھالے۔ دادی جان نے انجیر کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر کپڑے کو کمرے میں لٹکی ایک زنجیر سے باندھ دیا تھا۔ انور نے دیکھا کہ دادی جان سو رہی ہیں تو وہ انجیر کھانے کے ارادے سے اس زنجیر تک پہنچا جس سے بندھے کپڑے میں انجیریں موجود تھی۔ اس نے زنجیر کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی:
”بُری بات! بغیر اجازت اس طرح کوئی چیز لینا چوری ہے۔“
انور نے گھبرا کر پیچھے دیکھا، میز پر ناشپاتی کی سی شکل کا کوئی پھل موجود تھا۔ انور نے ڈر کر کہا:
”ک۔۔۔ کون ہیں آپ؟“
”میں انجیر ہوں!“
”یہ کیسے ہو سکتا ہے، میں آج ہی تو دادی جان کے لیے انجیر لایا تھا وہ تو گول اور چپٹی سی تھی۔“
”وہ خشک انجیر ہے، میں تازہ انجیر ہوں! مجھے سکھا دیا جاتا ہے تو دبا کر چپٹا کر دیا جاتا ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟“
”میں انور ہوں۔“
”انور میاں، تم تو اچھے لڑکے ہو، پھر یہ چپکے سے دادی جان کی انجیریں کیوں نکال رہے تھے؟“
”م۔۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ دراصل، انجیر کا ذائقہ مجھے بہت اچھا لگا تھا۔“
”تو دادی جان سے اجازت لے کر کھا لیتے، اس طرح گناہ نہ ہوتا بلکہ ثواب ملتا۔“
”آپ نے درست کہا، میں اب ایسا ہی کروں گا۔“
”شاباش۔“
”اچھا، مجھے اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔“
”میری کہانی سننا چاہتے ہو، اچھا سنو۔ اللہ نے مجھے بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے، میں اچھی غذا بھی ہوں اور دوا بھی۔ مجھے اللہ نے جنت میں پیدا کیا،پھر دنیا والوں کے لیے زمین پر اتار دیا۔ میں ہزاروں سال سے اس زمین پرہوں۔ ایک دلچسپ بات سنو، یونان کے ایک بادشاہ نے تو اپنے تمام شہریوں کو حکم دے دیا تھا کہ وہ روزانہ انجیر کھایا کریں۔“
”کیوں؟“ انور نے حیرانی سے پوچھا۔
”اس لیے کہ بادشاہ کو یقین تھا کہ انجیر تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ یونان میں تو انجیر کو اتنی اہمیت حاصل تھی کہ اولمپک کے کھلاڑیوں کو تربیت کے دوران میں خاص طور پر انجیر دی جاتی تھی اور اولمپکس میں پہلا درجہ حاصل کرنے والے کھلاڑی کو تمغے کے طور پر انجیر دی جاتی تھی۔“
”یہ بتائیے کہ انجیر کے درخت کہاں کہاں پائے جاتے ہیں؟“
”مغربی ایشیا میں بہت ہیں، بحیرہ روم کے قریبی ملکوں میں بھی ہیں۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں بہت انجیر پیدا ہوتی ہے۔“
”انجیر کا درخت کتنا بلند ہوتا ہے؟“
”عام طور پر بیس پچیس فٹ۔۔۔ پچاس فٹ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔“
”اچھا یہ بتائیے کہ انجیر کا ذائقہ تو مزے کا ہوتا ہے، اس کے فائدے کیا ہیں؟“
”فائدے تو اللہ تعالیٰ نے مجھ میں بہت رکھ دیے ہیں۔“ انجیر نے مسکرا کر کہا۔”کسی دوسرے پھل یا سبزی کے مقابلے میں، میرے اندر ریشہ زیادہ ہوتا ہے جو صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ مجھے کھانے والوں کو قبض نہیں ہوتا۔ اگر آپ چوتھائی پیالی یعنی چالیس گرام انجیر کھا لیں تو آپ کو پانچ گرام ریشہ حاصل ہو جائے گا۔ آپ کے جسم کو روزانہ پچیس گرام ریشے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریشے کے علاوہ آپ کو اتنی مقدار میں انجیر سے روزانہ ضرورت کا چھے فی صد کیلشیم، چھے فی صد لو ہا اور سات فی صد پوٹاشیم مل جائے گا۔ اگر آپ آدھی پیالی انجیر کھا لیں تو سمجھیں آپ کو اتنا کیلشیم مل جائے گا جتنا آدھی پیالی دودھ پینے سے حاصل ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ کیلشیم آپ کی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے۔“
”دادی جان بتا رہی تھیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انجیر کھانے کی ہدایت فرمائی ہے۔“ انور نے کہا۔
”دادی جان بالکل ٹھیک کہتی ہیں۔ انجیر کو آپ نے جنت کا میوہ قرار دیا ہے۔ انجیر میں مٹھاس موزوں مقدار میں ہوتی ہے اور لحمیات اور چکنائی کو ہضم کرنے والے کیمیائی اجزاء معقول مقدار میں ملتے ہیں۔ اسی لیے کھانا کھانے کے بعد انجیر کھانے سے کھانا ہضم ہو جاتا ہے۔ انجیر میں اللہ نے ایک خاص قسم کا دودھ رکھا ہے، جو قبض کو دور کر دیتا ہے۔ انجیر کے چھوٹے چھوٹے دانے پیٹ میں جا کر پھول جاتے ہیں اور قبض کو ختم کر دیتے ہیں۔ تم نے حکیم جالنیوس کا نام سنا ہے؟“
”ہاں سنا ہے۔“
”حکیم جالنیوس نے کہا ہے کہ انجیر بھوک لگاتی ہے، سکون پہنچاتی ہے، سوزش اور ورم کو دور کرتی ہے، جسم کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ کچھ مدت کھائی جائے تو پتے اور گردوں سے پتھریاں گلا کر نکال دیتی ہے۔ انجیر دماغی قوت کو بھی بڑھاتی ہے۔“
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ انجیر بہت کام کی چیز ہے۔“ انور نے کہا۔
”اس میں کیا شک ہے۔“انجیر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
تو پھر کیوں نہ میں آپ کو کھالوں۔“ انور نے انجیر کی طرف ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لیا۔ اس نے انجیر کو منہ میں رکھ لیا اور چبانے کی کوشش کی مگر اس کے دانت کسی سخت چیز سے ٹکرا کر رہ گئے۔ درد سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے اپنے منہ سے وہ سخت چیز نکالی۔ وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سوتے میں اس نے اپنے بستر کے قریب میز پر رکھی ہوئی پتھر کی ناشپاتی اُٹھا کر منہ میں رکھ لی تھی۔