گناہ کی دوا
کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
اشعث بن قیسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:۔
’’جو شخص کسی کا مال جھوٹی قسم کھا کر مار لے گا۔ وہ اللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر پیش ہو گا۔
(سنن ابی دائود، معارف الحدیث جلد نمبر 2صفحہ 207)
۔۔۔۔۔
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ ظفار گھر کے بیرونی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ اسے پیچھے سے امی کی آواز سنائی دی۔
’’جی وہ میں…!‘‘ ظفار کہتے کہتے چپ ہو گیا۔
’’بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ امی نے دوبارہ پوچھا۔
’’وہ میں سعادت کے پاس جا رہا ہوں…!‘‘ ظفار نے آہستہ سے کہا۔
’’کوئی ضرورت نہیں…!‘‘ امی نے سختی سے کہا۔ ’’چلو جا کر ہوم ورک مکمل کرو…!‘‘
’’وہ میں نے کر لیا ہے…!‘‘ ظفارنے بتایا اور اجازت طلب نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو۔ اب جائوں…!
’’جب ایک بار کہہ دیا تو تمہاری سمجھ میں نہیں آتا۔ جائو جا کر پڑھو…!‘‘
’’جی…!‘‘ ظفار نے آہستہ سے کہا اور واپس اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
سعادت اور سعید دونوں اس کے تایا کے بیٹے تھے اور ظفار اور ظفر دونوں بھائی ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ سب اکٹھا مزے سے رہتے تھے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا اور پھر اچانک ایک واقعہ ہو گیا۔
ظفر کے والد عبد الرحمن اور سعادت کے والد عبد الرحیم دونوں سگے بھائی تھے ان کے والد عبد الحق صاحب ایک اچھے کاروباری آدمی تھے۔ ان کا ایک بہت بڑا جنرل سٹور تھا جس پر دونوں بیٹے کام کرتے تھے۔ عبد الرحیم بڑے تھے۔ لاڈلے زیادہ تھے اور مزاج کے بھی تیز تھے جبکہ عبد الرحمن صلح جو نرم مزاج انسان تھے۔
پہلے سب ایک مشترکہ مکان میں رہتے تھے۔ مگر پھر ان کے سامنے رہنے والے رحمت صاحب ملک سے باہر جانے لگے تو ان کا مکان عبد الحق صاحب نے خرید لیا۔ یہ مکان پہلے مکان کے مقابلے میں چھوٹا تھا اور صرف تین کمروں اور باورچی خانے وغیرہ پر مشتمل تھا جبکہ پہلا مکان دو منزلہ تھا اور کافی کشادہ تھا۔
جب مکان خرید لیا تو عبد الحق صاحب نے یہ مکان عبد الرحمن اپنے چھوٹے بیٹے کو دے دیا اور خود بڑے بیٹے کے ساتھ رہنے لگے۔ مگر دونوں گھرانوں کا ملنا جلنا ایک سا تھا عبد الحق صاحب کبھی ایک بیٹے کے گھر دوپہر کا کھانا کھاتے تو دوسرے بیٹے کے گھر رات کا کھانا۔
غرض دن یونہی ہنسی خوشی گزر رہے تھے۔
ایک دن عبد الحق صاحب جو تہجد میں وضو کرنے اٹھے تو بجلی گئی ہوئی تھی۔ اندھیرے میںٹھوکر لگی تو توازن برقرار نا رکھ سکے اور گر پڑے۔ گھٹنے میں بری طرح چوٹ آئی آہٹ سن کر عبد الرحیم کی بھی آنکھ کھل گئی۔
اور انہوں نے جلدی سے اٹھ کے باپ کو سنبھالا۔ مگر ان سے قدم زمین پر رکھا نہیں جا رہا تھا۔ ذرا دیر میں گھٹنا سوج کر پھول گیا۔ صبح دن نکلنے پر ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو اس نے ایکسرے کروایا۔ معلوم ہوا کہ گھٹنے کی ہڈی چٹخ گئی ہے۔ پلاسٹر چڑھانا پڑے گا۔
دو دن ہسپتال میں رہے۔ پھر ڈاکٹر نے پلاسٹر چڑھا کر چھٹی دے دی۔ مگر دو ہفتے مکمل آرام کرنا تھا۔
عبد الحق صاحب گھر واپس آ گئے۔ دونوں بیٹوں نے تسلی دی اور سٹور کا کام سنبھال لیا۔
مگر عبد الحق صاحب کے بیمار پڑتے ہی عبد الرحیم بھائی سے صرف بڑے بھائی بن گئے۔ اب وہ سارا دن سٹور کے کیش پر بیٹھ کر نگرانی کرتے رہتے اور عبد الرحمن سارا دن سٹور میں بھاگ دوڑ کرتے رہتے۔
عبد الرحمن اپنے بھائی سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی کڑوی باتیں بھی ہنس کر نظر انداز کر دیتے۔
ایک دن گھر آئے تو عبد الحق نے بیٹے سے کہا۔ ’’کئی دن ہو گئے ہیں میں عبد الرحیم کے گھر نہیں گیا۔ آج مجھے وہاں لے چلو…!‘‘
’’چلیں جیسے آپ چاہیں…!‘‘ عبد الرحیم نے فوراً ہی کہا اور والد کو لیکر عبد الرحیم کے گھر چلے آئے۔
عبد الرحیم ابھی ہی سٹور سے لوٹے تھے اور منہ ہاتھ دھو رہے تھے۔
وہ والد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
عبد الحق نے کہا۔ ’’کیا بات ہے تم دو تین دن سے گھر نہیں آئے؟‘‘
’’ابو بس صبح صبح سٹور کھولنے جاتا ہوں تب آپ سو رہے ہوتے ہیں رات دیر ہو جاتی ہے۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ عبد الحق نے حیرت سے بڑے بیٹے کو دیکھا۔
عبد الرحیم نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’ابو جی آپ آرام کریں میں پھر آتا ہوں…!‘‘
’’بھائی جان کھانا تو کھا لیں…!‘‘ عبد الرحمن نے بھائی کو روکا۔
’’نہیں گھر جا کے کھائوں گا۔ بیوی بچے سارا دن انتظار کرتے ہیں…!‘‘ عبد الرحیم نے کہا اور تیزی سے باہر نکل گئے۔
عبد الحق صاحب کو عبد الرحمن نے جلدی سے اس کمرے میں لٹایا۔ جس میں ساتھ ہی غسل خانہ بنا ہوا تھا۔
ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ عبد الرحمن کی بیگم کھانے کی ٹرے لے آئیں۔ اتنی دیر میں ظفار اور ظفر بھی دادا جان… دادا جان کہتے ہوئے آ گئے۔ دونوں بچے دادا جان سے بہت محبت کرتے تھے۔
امی نے کہا۔ ’’دادا جان کھانا کھا لیں تو تمہیں دادا جان کے پائوں دبانے ہیں…‘‘
’’بالکل…!‘‘ ظفار نے کہا۔ ’’میں دادا جان کا ایک پیر دبائوں گا…!‘‘
’’ایک کیوں؟‘‘ امی نے حیرت سے پوچھا۔
’’بھئی دوسرے پر پلاسٹر چڑھا ہے نا…!‘‘ وہ معصومیت سے بولا۔
سب ہنسنے لگے۔
ادھر جب عبد الرحیم گھر پہنچے تو بیگم نے کہا۔ ’’اچھا ہوا آپ انہیں بھائی کے گھر چھوڑ آئے میں تو تنگ آ گئی تھی خدمت کرتے کرتے…!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ عبد الرحیم نے ناگواری سے کہا۔
’’لو جی گھر پر رہو تو معلوم ہو کہ ابا جان دن میں پچاس پچاس مرتبہ تو آوازیں لگاتے ہیں۔ پانی لے آئو۔ چائے بنا دو۔ کھانا لا دو۔ ارے جائے نماز کہاں ہے۔ اب میں گھر کے کام کروں یا ابا جان کی خدمت میں ہاتھ باندھی کھڑی رہوں…!‘‘
عبد الرحیم خاموش رہے۔ ویسے بھی ان کی بیگم زبان کی بہت تیز تھیں۔
’’بس اب جب تک ابا جان ٹھیک نا ہو جائیں لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سامنے ہی تو گھر ہے جب چاہو دیکھ آئو…!‘‘
وہ تھوڑی دیر انہیں کھڑی دیکھتی رہیں پھر پائوں پٹختے ہوئے باورچی خانے میں چلی گئیں۔
٭٭٭
دن گزرتے رہے۔ اس دوران ایک مرتبہ عبد الحق بڑے بیٹے کے گھر گئے مگر بہو کا رویہ دیکھ کر خاموش چلے آئے۔ بڑھاپا ہو اور پھر بیماری۔ انسان جلدی رنجیدہ ہو جاتا ہے۔
عبد الحق چپ چپ رہنے لگے۔ حالانکہ عبد الرحمن اور دونوں پوتے ان کی چھوٹی بہو ان کی بڑی خدمت کرتے تھے۔ دونوں بچے تو جیسے ان کے گرد ہی پھرتے رہتے تھے۔
مگر اس کے باوجود عبد الحق صاحب کا دل اداس اداس رہنے لگا۔
اس دوران ایک دن ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا اور طبیعت زیادہ خراب ہو گئی… تب عبد الرحیم ضد کرکے باپ کو اپنے گھر لے گئے۔
یہ بات تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اس ضد کے پیچھے ان کی چالاک بیگم کا ہاتھ ہے۔
عبد الرحیم کے گھر منتقل ہونے کے چند ہی دن کے بعد عبد الحق صاحب کا انتقال ہو گیا اور یہیں سے دونوں بھائیوں کے درمیان اختلافات پیداہو گئے سب سے پہلے تو انہوں نے مکان پر قبضہ کر لیا۔ پھر سٹور سے بھائی کو فارغ کر دیا۔
عبد الرحمن نے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا۔ ’’تمہیں معلوم نہیں کہ ابا جی نے یہ مکان اور دکان مجھے سنبھالنے کو دیا تھا اور ویسے بھی انہوں نے انتقال سے چند روز قبل مجھے یہ دونوں چیزیں دے دی تھیں۔‘‘
’’بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ عبد الرحمن نے احتجاج کیا۔ ’’ابا جی نے تو ہمیشہ یہی کہا کہ دکان دونوں بھائیوں کی برابر ہے…!‘‘
’’اچھا…؟‘‘ عبد الرحیم ہنسنے لگے۔ ’’کوئی گواہ ہے تمہارے پاس؟‘‘
’’وہ آپ کے سامنے ہی تو کہتے تھے…!‘‘ عبد الرحمن نے بھائی کو یاد دلایا۔
’’بالکل کہتے تھے مگر آخر وقت میں انہوں نے یہ کہا کہ تم سنبھالو تو کیا میں جھوٹا ہوں…!‘‘ عبد الرحیم غصے میں آ گیا۔
اس وقت دکان میں دو تین جاننے والے بزرگ موجود تھے۔
انہوں نے سائیڈ پر رکھا ہوا قرآن شریف تھام لیا۔’’ اگر تم کہتے ہوتو میں قسم کھاتا ہوں کہ ابا جی نے یہ مجھے دی ہے…!‘‘
عبد الرحمن بھائی کی اس حرکت پر ہکا بکا رہ گئے۔ مگر بھلا قرآن مجید ہاتھ میں لے کر کون جھوٹ بول سکتا ہے۔
ان کا تو ایمان تھا کہ قرآن مجید کے بعد تو کسی گواہی، کوئی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں۔
وہ بولے۔ ’’بھائی جان بڑا والا گھر اور یہ دوکان آپ کو مبارک ہو۔ مجھے اب اجازت دیجئے…!‘‘ وہ کہہ کر اٹھے۔ دکان کی چابیاں بھائی کے سامنے رکھیں اور دکان سے باہر نکل آئے۔
دکان میں موجود دو تین جاننے والوں نے یہ سارا معاملہ دیکھا مگر کیا بولتے جب عبد الرحیم نے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر قسم کھا لی۔
عبد الرحمن گھر پہنچے تو بڑے اداس تھے۔ بیگم نے پوچھا تو انہوں نے سب بتا دیا۔
ان کی بیگم نے فوراً کہا۔ ’’ابا جی تو نا انصافی کر ہی نہیں سکتے ضرور بھائی جان غلط کہہ رہے ہیں…!‘‘
’’دیکھو رشیدہ…!‘‘ عبد الرحمن نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’بھائی جان جھوٹ کہہ رہے ہیں یا سچ۔ مگر قرآن مجید اور قسم کے سامنے میں ان کے متعلق اب ایک لفظ نہیں کہوں گا۔ مجھے اپنے رب کو منہ دکھانا ہے۔ اس کے پاک کلام اور نام کے آگے میرا سر جھکا ہے۔‘‘
’’آپ سچ کہتے ہیں۔ اللہ بہتر کرے گا…!‘‘ رشیدہ بیگم ٹھنڈی سانس بھر کے بولیں اور کھانا نکالنے کیلئے باورچی خانے چلی گئیں۔
٭٭٭
رشیدہ بیگم کے بھائی کو اللہ نے بڑا خوشحال بنایا تھا۔ انہوں نے ایک بڑے اچھے علاقے میں اپنا دو منزلہ گھر بنایا تھا اور نیچے ہال بنایا تھا کہ کرائے پر دے دیں گے۔
جب ان کو یہ صورتحال معلوم ہوئی تو وہ فوراً بہن بہنوئی کے پاس آئے اور نیچے ہال کی چابی عبد الرحمن کو دی اور بولے ’’بھائی جان نیچے ہال آپ کیلئے خالی ہے۔ نیا علاقہ ہے۔ کوئی اچھا جنرل سٹور نہیں ہے وہاں آپ بسم اللہ کیجئے…!‘‘
عبد الرحمن حیران اپنے سالے کا منہ دیکھنے لگے۔
رشیدہ بیگم نے مسکرا کے کہا۔’’ جمیل بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن دکان میں مال بھرنے کیلئے ایک بڑی رقم درکار ہے وہ کہاں سے لائوں گا…؟‘‘
’’اس کی فکر مت کیجئے۔ ابو نے انتقال سے پہلے رشیدہ کا حصہ نقد بنک میں محفوظ کروایا تھا وہ آپ کی امانت ہے…‘‘ جمیل بھائی نے کہا۔
رشیدہ بیگم نے بھی کہا۔ ’’آپ کو بتایا تو تھا کہ ابو جان نے مجھے جائیداد میں سے حصہ دے دیا ہے مگر آپ نے سنا ہی نہیں…!‘‘
’’مگر ایک شرط پر…!‘‘ عبد الرحمن ہنس کر بولے۔
’’کون سی شرط…!‘‘
’’میرے کاروبار میں تم آدھے کی حصے دار ہو گی۔ کیوں جمیل میاں؟‘‘
جمیل بھائی بولے۔ ’’یہ تو آپ دونوں کی مرضی۔ میں تو اپنے فرض سے آزاد ہو گیا۔‘‘
’’بس اب رشیدہ کا فرض رہ گیا ہے…!‘‘
’’کونسا فرض بھائی جان…؟‘‘ رشیدہ بیگم نے چونک کر بھائی سے پوچھا۔
’’چائے پلانے کا فرض…!‘‘ وہ اداس سا منہ بنا کر بولے اور سب ہنسنے لگے۔
٭٭٭
جب نیت نیک ہو بھروسہ اللہ پر ہو تو سب کچھ ہو جاتا ہے۔ عبد الرحمن چونکہ سٹور چلا رہے تھے سب میں ان کی جان پہچان تھی مہینے بھر میں ہی عبد الحق عبد السلام سٹور کا آغاز ہو گیا۔
عبد الحق تو عبد الرحمن کے والد کا نام تھا اور عبد السلام رشیدہ بیگم کے والد صاحب کا۔
رشیدہ بیگم نے سٹور کے نام کا بورڈ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
عبد الرحمن بولے۔ ’’بھئی یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ تمہارے والد بھی تو میرے والد ہی ہیں نا…!‘‘
دونوں بچے ظفر اور ظفار بہت خوش تھے۔ یہ جگہ تو ان کے پہلے والے سٹور سے بھی بہت بڑی تھی۔
٭٭٭
عبد الرحیم پیسے گن رہے تھے کہ اچانک گاہک نے پوچھا۔ ’’رحیم بھائی یہ ہاتھ پر نشان کیسا…؟‘‘
’’ارے یار یہ ایک دانہ نکلا تھا۔ اب سفید سفید سا نشان چھوڑ گیا ہے…‘‘ انہوں نے پیسے دراز میں ڈالتے ہوئے کہا۔
کچھ دن پہلے ان کے چند دانے نکلے تھے جو پانی والے تھے وہ خشک ہو گئے مگر نشان چھوڑ گئے۔
ایک دن انہوں نے قمیص اتاری تو بیگم نے کہا۔ ’’یہ آپ کی پیٹھ پر دھبے کیسے ہیں لال لال سفید سفید سے؟‘‘
’’پتا نہیں…!‘‘ عبد الرحیم بولے۔ ’’مجھے کہاں نظر آئیں گے بھلا؟‘‘
’’یہ تو ہاتھ پر بھی ہیں اور یہ دیکھئے آپ کے پیروں پر بھی…!‘‘ ان کی بیگم نے کہا۔ ان کے انداز سے پریشانی جھانک رہی تھی۔
’’آپ ڈاکٹر کو دکھائیں…!‘‘
’’اچھا… اچھا…!‘‘ عبد الرحیم نے کہا اور خود بھی فکر مند ہو گئے۔
دوسرے دن وہ اپنے ڈاکٹر صاحب سے ملے جن سے ہمیشہ دوا وغیرہ لی جاتی تھی۔ اس نے اچھی طرح معائنہ کرکے کہا۔
’’یہ تو مجھے سفید داغوں کا مرض معلوم ہوتا ہے…!‘‘
’’سفید داغوں والا مرض…؟‘‘ عبد الرحیم نے حیرت سے دوہرایا۔ ’’کیا مطلب؟‘‘
’’پھلبہری کہتے ہیں اس کو…!‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
’’اس مرض میں نشانات آہستہ آہستہ پھیلتے جاتے ہیں اور بعض اوقات سارا بدن اس کی زد میں آکر بدنما معلوم ہوتا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آپ اسکن کے ہسپتال میں جائیں…!‘‘ڈاکٹر نے انہیں مشورہ دیا۔
’’جی اچھا…!‘‘ انہوں نے آہستہ سے کہا اور واپس آ گئے۔ پھر وہ دکان پر چلے گئے مگر ان کا دل نا لگا اور وہ گھر چلے آئے۔
سچی بات تو یہ تھی کہ وہ بیماری سے ڈر گئے تھے۔
وہ گھر میں داخل ،ہونے لگے تو ان کی نگاہ سامنے پڑی۔ عبد الرحمن کے گھر تالا پڑا ہوا تھا۔
پچھلے ہفتے وہ لوگ یہ گھر چھوڑ کر چلے گئے اور چابی انہوں نے بیٹے کے ہاتھ بھجوا دی تھی۔ جو ان کی بیگم نے بڑی تیزی سے قبضے میں کر لی تھی اور اب اس میں کرائے دار آباد کرنے کی فکر میں تھیں۔
وہ گھر میں داخل ہو گئے اور اپنے کمرے میں پہنچ کر لیٹ گئے وہ بڑے اداس تھے انہوں نے دل بہلانے کیلئے ٹی وی کھول لیا۔ مگر ا نکا دل نا لگا۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہونے لگی۔ وہ اٹھ بیٹھے پھر وضو کرکے مسجد چل دیئے۔
ابھی مغرب کی جماعت کھڑی ہونے والی ہی تھی کہ امام صاحب نے اعلان کیا۔
’’حضرات نماز مغرب کے بعد ٹھہریئے گا۔ تبلیغ کے حوالے سے جماعت آئی ہوئی ہے۔ وہ چند منٹ آپ سب سے گفتگو کریں گے…‘‘
نماز پڑھ کے چند لوگ بیٹھے رہے۔
چند لوگ اکٹھا ہو گئے اور مسجد کے صحن میں آ گئے۔ ایک خوش شکل ہلکی ہلکی داڑھی والا نوجوان کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔
’’حضرات آپ سب کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ چند باتیں کروں گا۔ جن کا تعلق ہمارے روزمرہ کے معاملات سے ہے۔ یاد رکھئے کہ اللہ پاک کے سچے رسولﷺ نے امت کی ہر بات میں رہنمائی فرمائی ہے۔ زندگی میں سب سے زیادہ ناپائیدار چیز خود زندگی ہے بس ایک سانس ہے۔ آئی… اور پھر نا آئی۔ اس لئے اپنے تمام معالات صاف رکھئے اور جھوٹ نا بولئے۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھوٹ بول دیتے ہیں۔ اسی طرح حق ثابت کرنے کیلئے ہم جھوٹی قسم بھی کھا لیتے ہیں۔ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کے پیارے صحابی اشعث بن قیسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’جو شخص کسی کا مال جھوٹی قسم کھا کے مارے گا۔ وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر پیش ہو گا۔ آپ حضرات چاہیں تو سنن ابو دائود میں اس کی تصدیق کر سکتے ہیں…!‘‘
مگر…!
عبد الرحیم کے تو یہ حدیث سنتے ہی ہوش اڑ گئے۔ ان کے سامنے چند ماہ پہلے کا واقعہ گھومنے لگا۔ جب وہ قرآن مجید ہاتھ میں لیکر قسم کھا رہے تھے کہ یہ دکان اور مکان ابا جی صرف انہیں ہی دے گئے ہیں۔
پھر ان کی نظر اپنے ہاتھوں پر پڑی وہاں سفید سفید داغ تھے…!
’’کیا میں کوڑھی ہو رہا ہوں…؟‘‘
’’کیا مجھے دنیا میں ہی سزا مل رہی ہے۔‘‘
کیا میں کوڑھی بن رہا ہوں؟
ان کی حالت خراب ہونے لگی۔ وہ جیسے بڑی مشکل سے مسجد سے باہر نکلنے اور رکشہ لے کر سیدھے بھائی کی دکان پر پہنچے۔
جب وہ رکشے سے اترے تو سامنے ہی عبد الرحمن گھی کے ڈبے اتروا رہے تھے۔ بھائی پر نظر پڑتے ہی وہ لپک کر آگے بڑھے۔
’’بھائی جان…!‘‘
’’عبد الرحمن… بھائی مجھے معاف کر دو… مجھے معاف کر دو…!‘‘ وہ بھائی کے گلے لگ کر رونے لگے۔
’’بھائی جان…!‘‘ عبد الرحمن بھی بھائی کے گلے لگ کر رونے لگے۔
عبد الرحمن سہارا دے کر بھائی کو اندر لے گئے۔ جلدی سے فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی۔ پانی پلایا۔
عبد الرحیم کا دل ذرا ٹھہرا۔ وہ کہنے لگے۔ ’’بھیا میں نے جھوٹی قسم کھائی تھی میں بڑے مکان اور دکان کے لالچ میں آ گیا تھا مجھے معاف کر دو…!‘‘
’’آپ بڑے ہیں بھلا بڑے معافی مانگتے ہیں۔ میرے دل میں کوئی رنجش نہیں…!‘‘
’’نہیں جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ تم نے مجھے معاف کیا۔ میں چین نہیں پائوں گا…!‘‘
’’اچھا بھائی جان میں نے آپ کو اللہ کے واسطے معاف کیا۔ میرے دل میں آپ کی طرف سے کوئی رنج کوئی ملال نہیں…!‘‘
’’مگر ایک شرط ہے…!‘‘ عبد الرحیم نے بھائی کے ہاتھ تھام کے کہا۔
’’میں تم کو اپنی خوشی اور دلی رضا مندی سے جائیداد کا حصہ تمہیں دینا چاہتا ہوں بس ہاں کر دو۔ قبول کر لو…!‘‘
عبد الرحمن نے بھائی کی حالت دیکھی اور بولے۔ ’’میرے اللہ نے مجھے اپنے پر بھروسہ کرنے کا انعام دے دیا۔ مگر اگر آپ حصہ دے کر ہی خوش ہیں تو مجھے قبول ہے…!‘‘
عبد الرحیم خوش ہو گئے۔
وہ کہنے لگے۔ ’’کل میں آئوں گا۔ تیار رہنا…!‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر کہاں؟‘‘
’’کل بتائوں گا…!‘‘ اچانک جیسے عبد الرحیم کی طبیعت بحال ہونے لگی۔ وہ پھر خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔
آئندہ ایک ہفتے میں عبد الرحیم نے کچہری جا کے قانونی طور پر عبد الرحمن کے نام ا نکا حصہ منتقل کر دیا۔
اور پھر اسی رات جب وہ گرمی کی وجہ سے قمیص اتار کے لیٹنے لگے تو اچانک ان کی بیگم کی حیرت زدہ آواز آئی۔
’’ارے یہ کیا…؟‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
’’آپ کی پیٹھ پر تو اب کوئی نشان ہی نہیں…!‘‘
عبد الرحیم ہنسنے لگے۔ ’’وہ نشان نہیں تھے۔ گناہ تھے جو توبہ کی دوا سے مٹ گئے، دور ہو گئے…!‘‘
’’ارے بھلا یہ کون سی دوا ہے۔ کس حکیم سے لائے؟‘‘ ان کی بیگم نے تعجب سے پوچھا۔
’’یہ امت کے غمخوار امتی امتی کہنے والے سب سے پیار کرنے والے سے ملی ہے۔ جنہوں نے مجھے بچا لیا…! میرے کریم آقا محمدمصطفیٰﷺ…!‘‘
عبد الرحیم کے لہجے میں سچی محبت اور سچا پیار تھا۔
٭…٭
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے