skip to Main Content

ہم سایا… ماں جایا ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
ابو شریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اللہ کی وہ مومن نہیں، قسم اللہ کی وہ مومن نہیں، قسم اللہ کی وہ مومن نہیں۔‘‘ عرض کیا گیا: ’’یا رسول اللہ! کون مومن نہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور آفتوں سے خائف رہتے ہوں۔‘‘ (بخاری شریف۔ معارف الحدیث جلد نمبر 1صفحہ 120)
۔۔۔۔۔

’’ایک تو پہلے ہی مزاج نہیں ملتے تھے اوپر سے تین منزلہ مکان کیا بنا لیا انسانیت سے بھی گئے۔‘‘ باجی نے دوپٹہ درست کرتے ہوئے چاول کی ٹرے اٹھائی اور کہتے ہوئے اندر چلی گئیں۔
میں نے سر اٹھا کے دیکھا تو پھر مجھے شاکر نیچے جھانکتا ہوا دکھائی دیا۔
’’کیاہے؟‘‘ میں نے چلا کے پوچھا۔
’’وہ ہماری گیند آئی ہے۔ وہ دے دو۔‘‘ اس نے کہا۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ مگر مجھے گیند کہیں نظر نہ آئی۔ میں نے جواب دیا۔ ’’ادھر نہیں آئی ہے تمھاری گیند۔‘‘
’’ارے جائو نا تم جیسے ٹھگ گیند پر بھی بے ایمانی کر لیتے ہیں۔‘‘ شاکر نے بدتمیزی سے کہا۔
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور سر جھکا کے اپنی کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔
شاکر، شارق اور شوکت تینوں بھائی تھے۔ اور بلا کے بدتمیز، بدتہذیب اور ہتھ چھٹ۔ لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ ، مارپیٹ ان کا وطیرہ تھا۔ مجال ہے جو کسی کی بات خاموشی سے سن لیں۔ حالانکہ ان کے والد شہاب الدین نہایت نرم مزاج اور بھلے آدمی تھے۔ وہ دوبئی میں ملازمت کرتے تھے اور کئی سال سے وہیں مقیم تھے اور شاید ان کی عدم موجودگی کے باعث ہی تینوں بگڑ گئے تھے۔
دو چار بار ان کی والدہ سے امی نے کہا تو وہ بڑے غصے سے بولیں: ’’بس… بس… رہنے دیں آپ لوگوں سے تو بچوں کا ہنسنا کھیلنا بھی نہیں دیکھا جاتا…!‘‘
اب اس کے بعد کہنے کی گنجائش ہی کیا رہ جاتی تھی۔
جب تک ان کا مکان نہیں بنا تھا معاملہ کچھ کچھ قابل برداشت تھا۔ لیکن پچھلے سال سے جب شہاب الدین صاحب اپنا مکان تین منزلہ بنوا کے گئے تھے۔ ہمارے لئے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی تھی۔ میری تین بہنیں جو گھر کے کام کاج کے سلسلے میں دن میں دسیوں بار صحن میں آتی جاتی تھیں۔ ان کے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ کپڑے دھونے کی مشین صحن میں لگی تھی۔ پھر کچن کے بڑے دروازے سے اندر تک نظر آتا تھا۔
پہلے تو دھوپ رک گئی۔ پھر اس کے بعد تینوں لڑکے چھت پر کبھی کرکٹ کھیل رہے ہیں، کبھی تاش کی بازی لگا کے بیٹھے ہیں اور ساتھ میں دو چار اسی قماش کے دوست۔
’’بھائی کپڑے دھونے کی مشین غسل خانے میں سیٹ کروا دیں۔…!‘‘ راشدہ نے کہا۔
’’کیوں خیریت ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’صحن میں جائو تو اوپر سے لڑکے کبھی گیند کے بہانے تو کبھی بیڈ منٹن کی چڑیا کے چکر میں بار بار نیچے جھانکتے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا…!‘‘
’’ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ تم آج ہی کاریگر بلوا کے مشین دوسری جگہ لگوائو۔‘‘ امی نے بھی ناگواری سے کہا۔
’’مجھے تو صحن میں بیٹھ کے دال چاول چننا مشکل ہو گیا ہے…!‘‘ باجی نے کہا۔ ’’خیال ہی نہیں کہ محلے کی لڑکیاں بھی اپنی بہن بیٹیاں ہوتی ہیں…!‘‘
’’اور ہم صرف محلے والے ہی نہیں بلکہ دیوار سے جڑی دیوار کے ہمسایہ ہیں…!‘‘ چھوٹی رومانہ نے منہ بنا کے کہا۔
’’ہاں بیٹی!‘‘ امی نے ایک گہری سانس لی۔ ’’بیچارے شہاب الدین کتنے بھلے مانس انسان ہیں اور ایک یہ ہیں، ولی کے گھر شیطان۔‘‘
ابو کہنے لگے: ’’اللہ تعالیٰ سب کو عطا کرے۔ مگر ان کو چاہئے کہ پڑوسیوں کا بھی خیال رکھیں۔‘‘
’’ایک تو دھوپ رک گئی۔ دوسرے سردیوں کے دنوں میں دھوپ ویسے بھی کم ہوتی ہے۔ پہلے تو میں صحن میں بیٹھ کے دھوپ سینک لیتی تھی۔ چھوٹی سے پیروں میں تیل کی مالش کروا لیا کرتی تھی۔ اب صحن میں اٹھتے بیٹھتے بس کپڑوں، دوپٹوں کا ہی خیال کرتے رہو۔ ہماری تو جیسے آزادی سلب ہو گئی ہے۔‘‘ امی کے انداز میں غصہ تھا۔
’’خالہ بھی کہہ رہی تھیں کہ صحن میں کام کرتے ہوئے وہ لڑکے نیچے جھانکتے رہتے ہیں…!‘‘ راشدہ نے کہا۔
’’میں کل شارق سے بات کروں گا…!‘‘میں نے کہا۔
’’نہیں تم رہنے دو میں کہوں گا خیال کیا کرے۔‘‘ ابو نے کہا۔ ’’تم لڑکے ذرا سی بات میں لڑ پڑتے ہو…!‘‘
’’جی بہتر…!‘‘ میں نے جواب دیا۔

٭٭٭

میں گھر سے باہر سودا لینے نکلا ہی تھا کہ مجھے شوکت دکھائی دے گیا۔ میں نے ابھی اس کو دیکھا ہی تھا کہ اس نے مجھے آواز دی۔
’’ریحان ذرا بات سننا۔‘‘
’’کہو کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اس کے قریب پہنچ کے پوچھا۔
’’یار وہ ہماری گیندیں تمھاری طرف آتی ہیں تو تم لوگ واپس کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اس کے انداز میں بڑی رعونت تھی۔
’’اول تو تمھاری گیند کوئی ہمارے پاس ہے ہی نہیں، پھر آتی ہے تو تم کو واپس کر دیتے ہیں…!‘‘ میں نے اس کے سخت لہجے کے باوجود نرمی سے کہا۔
’’تو کیا احسان کرتے ہو۔ گیند کوئی مفت کی تو نہیں آتی ہے…!‘‘ اس نے گویا مجھے چڑایا۔
میں نے کہا: ’’لیکن تیسری منزل پر تمھیں کرکٹ کھیلنے کی کیا ضرورت ہے؟ سامنے ہی تو میدان ہے وہاں چوکے، چھکے مارا کرو۔‘‘
’’اچھا تمھیں ہماری تیسری منزل کا بڑا دکھ ہے…!‘‘ اس نے قہقہہ لگایا: ’’ذرا اپنا چہرہ دیکھو مارے جلن کے کالا ہو رہا ہے…!‘‘ اس نے میرے سانولے رنگ پر چوٹ کی۔
میں نے کہا: ’’ہمیں تمھاری تیسری منزل سے کیا سروکار۔ تم دس منزلہ بنائو مگر یوں گھروں میں جھانکنا اچھا نہیں ہوتا۔ نیچے تمھارے گھر کا گندا پانی کھڑا رہتا ہے جس سے ہمیں تو تکلیف ہوتی ہے، دوسرے بھی کیچڑ…!‘‘
وہ میری بات کاٹ کے بولا: ’’کیا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر گٹر ابل رہا ہے تو یہ حکومت کا مسئلہ ہے، ہمارے پاس مفت کے پیسے ہیں جو ہم خرچ کریں…!‘‘
’’مگر گٹر تمھارے گھر کی نالی سے جڑا ہے اور وہ پائپ ٹوٹا ہوا ہے جس کی ذمہ داری تمھاری ہے…!‘‘
’’اچھا… اچھا حکومت کے لگتے…!‘‘ شوکت نے کہا: ’’جب ابا آئیں گے تو ٹھیک کرا لیں گے۔ تمھیں تکلیف ہے تو کسی ڈیفنس میں جا کے رہو…!‘‘
اس نے منہ بنا کے کہا اور آگے بڑھ گیا۔
میں گھر کا سودا لے کر واپس آیا تو امی نے تھیلا لیتے ہوئے پہلا سوال یہی کیا: ’’وہ کیا بات کر رہا تھا تم سے…؟‘‘
’’کون…؟‘‘ میں نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
’’مجھ سے نہ چھپائو۔ میں کھڑکی سے دیکھ رہی تھی۔ تم شوکت سے بات کر رہے تھے۔ تمھارے ابو نے منع کیا تھا ان سے کچھ کہنے سننے کو؟‘‘ امی نے سختی سے پوچھا۔
میں نے بتایا: ’’میں نے نہیں شوکت نے مجھے آواز دے کر روکا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ہماری گیندیں واپس کر دیا کرو…!‘‘
’’واہ بھئی۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے…!‘‘ امی نے افسوس کیا۔ ’’خیر تم کوئی بات نہ کرنا۔‘‘
’’امی میں نہیں کروں گا کوئی بات…!‘‘ میں نے جواب دیا۔

٭٭٭

ایک دن ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے ڈور بیل دی۔ میں نے باہر نکل کے دیکھا تو ایک اجنبی شخص موجود تھا۔
’’آپ ریحان ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’جی ہاں…!‘‘ میں نے جواب دیا: ’’کہئے کیا کام ہے؟‘‘
’’مجھے آپ کے والد صاحب نے مکان دیکھنے کے لئے کہا تھا۔‘‘
’’مکان دیکھنے کے لئے؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا: ’’میں سمجھا نہیں…!‘‘
’’شاید آپ کو معلوم نہیں۔ میں نہال اسٹیٹ ایجنسی سے آیا ہوں۔ یہ میرا کارڈ ہے۔ آپ کے والد صاحب یہ مکان فروخت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں میں اس کو دیکھنے آیا ہوں۔ آپ چاہیں تو اپنے والد صاحب سے فون پر پوچھ لیجئے…!‘‘
مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اس لئے کہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ ابو نے مکان کی فروخت کا کوئی فیصلہ کیا ہے۔ میں انہیں انتظار کرنے کہہ کر اندر آیا اور امی سے پوچھا۔
’’امی کیا ابو یہ گھر بیچ رہے ہیں؟‘‘
’’کون آیا ہے؟‘‘ امی نے بجائے میرے سوال کا جواب دینے مجھ سے پوچھا۔
’’اسٹیٹ ایجنسی سے نہال صاحب آئے ہیں مکان دیکھنے کے لئے…!‘‘ میں نے بتایا۔
’’تو پھر دکھا دو…!‘‘ امی نے جواب دیا۔ اور منہ پھیر کے باورچی خانے میں چلی گئیں۔
اس وقت کسی سوال جواب کا موقع نہیں تھا۔ اس لئے میں نے نہال صاحب کو گھر دکھا دیا۔ وہ دس منٹ میں ہی دیکھ کر چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے امی سے پوچھا : ’’امی بتایئے تو سہی کیا ابو مکان بیچ رہے ہیں اور کیوں؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم…!‘‘ امی نے جواب دیا اور کہا: ’’اپنے ابو سے پوچھنا، وہ شام کو آئیں گے۔‘‘ امی نے منہ پھیر لیا۔ مگر وہ اپنے آنسو نہ چھپا سکیں اور رونے لگیں۔
میں خاموش رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا کروں؟
باجی کالج اور دونوں چھوٹی بہنیں اسکول گئی ہوئی تھیں۔ اور جب مجھے ہی کچھ نہیں معلوم تھا تو باقی بہنوں کو کیا معلوم ہوتا؟
میں عجیب شش و پنج میں مبتلا اپنے کمرے میں جا بیٹھا اور کتابیں نکال کے دیکھنے لگا۔
سمسٹر کی تیاری کے لئے دس دن کی چھٹیاں تھیں۔ مگر میرا جی پڑھنے میں نہ لگا۔ اور میں خالی خالی ذہن سے بس دیواروں کو تکتا رہا۔
شام کو ابو آئے تو میں نے بتایا: ’’ابو! نہال اسٹیٹ ایجنسی سے نہال صاحب آئے تھے مکان دیکھنے کے لئے…!‘‘
’’ہاں بیٹا…!‘‘ ابو نے آہستہ سے کہا: ’’میں نے ہی بھیجا تھا انھیں…!‘‘
’’لیکن ابو ایسی بھی کیا ضرورت پڑ گئی آپ کو کیا کوئی مسئلہ ہو گیا ہے خدا نخواستہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اب یہاں رہنا شاید ممکن نہیں…!‘‘ ابو نے آہستہ سے کہا اور منہ ہاتھ دھونے غسل خانے میں چلے گئے۔
میں چپ ہی رہا۔ پوچھتا بھی تو کیا پوچھتا۔ ابو نے شاید مجھے بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ غسل خانے سے باہر آئے تو میں نے انہیں تولیہ دیا۔
ابو نے میرا لٹکا ہوا منہ دیکھا تو ہنسنے لگے: ’’جوان زندگی کی تبدیلیاں خوش دلی سے قبول کرتے ہیں اداس نہیں ہوتے…!‘‘
’’مجھے آپ کے فیصلے پر اعتراض نہیں ابو۔ آپ جو کریں گے بہتر ہی کریں گے۔ اگر پتا چل جاتا تو سکون آ جاتا…!‘‘
’’اچھا… اچھا…!‘‘ ابو نے مسکرا کے کہا: ’’ذرا سا انتظار کر لو…!‘‘
’’جی اچھا…!‘‘ میں نے کہا۔

٭٭٭

چند دن بعد بقر عید کا شو ر و غل شروع ہو گیا۔ لوگوں نے گائے، بکرے، دنبے لانا شروع کر دیئے۔ ابو ہمیشہ ہفتہ بھر پہلے بکرے لے آتے تھے۔ اور ہم سب اس کی خوب خدمت کیا کرتے تھے پھر پہلے دن قربان ہوتی تھی۔
شارق لوگ بیل لے کر آئے تھے۔ جو ہمارے دروازے کے ساتھ ہی بندھا ہوا تھا۔ ایک تو پہلے ہی سے گٹر سے ملنے والا ان کا پائپ ٹوٹا ہوا تھا۔ اوپر سے بیل کا گوبر، اس کا چارہ، پیشاب، گندگی کا وہ طوفان تھا کہ گھر سے نکلنا دوبھر ہو گیا تھا۔
مجھے بہت غصہ آیا۔ لیکن ابو نے روک دیا۔ کہنے لگے :’’کوئی بات نہیں۔ ہم صبر کرتے ہیں۔ وہ نادان ہیں۔‘‘
’’لیکن اگر ایسے لوگوں کو کہا نہ جائے تو وہ اور شیر ہو جاتے ہیں…!‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
’’بیٹا جب ہم کو کچھ دنوں میں چلے ہی جانا ہے تو لڑنے جھگڑنے کا کیا فائدہ۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو…!‘‘ ابو نے مجھے سمجھایا۔
عید کی رات ہی شہاب الدین صاحب آ گئے۔ اور جب وہ ٹیکسی سے اترے، تو ان کا پائوں بھی سلپ ہو گیا اور گندگی میں ان کے کپڑے لت پت ہو گئے۔
’’یہ اتنی گندگی…!‘‘ انھوں نے غصے سے چیخ کے کہا۔
ہم سب یہ منظر اپنی کھڑکی سے دیکھ رہے تھے۔
’’وہ ابا جی دیکھیں ان کے بکرے نے گندگی کی ہے…!‘‘ شوکت نے جلدی سے ہمارے دروازے پر بندھے ہوئے بکرے کی طرف اشارہ کیا۔
’’اچھا ادھر آئو…!‘‘ انھوں نے ہمارے بکر ے نظر ڈالتے ہوئے بیٹے کو پاس بلایا۔ شوکت اچھل کر باپ کے پاس پہنچا۔
’’جھوٹے۔ گدھے…!‘‘ انھوں نے ایک زناٹے دار تھپڑ شوکت کو رسید کیا۔ ’’میں اندھا ہوں جو ایک بکرے اور بیل کی مینگنیوں اور گوبر میں فرق نہ کر سکوں ایں…؟‘‘
’’جی ابو جی…!‘‘ شوکت نے گال سہلاتے ہوئے جلدی سے چاروں طرف دیکھا۔ مبادا کوئی اس کو دیکھ نہ رہا ہو۔
’’چلو ابھی تم تینوں سارا گند صاف کرو۔ جب تک میں نہا کر کپڑے بدلوں سب کچھ بالکل صاف ہونا چاہئے ورنہ تم تینوں کی خیر نہیں…!‘‘
وہ بکتے جھکتے اندر چلے گئے۔ پہلے تو تینوں نے مل کے ٹیکسی سے سامان اتارا۔ پھر تینوں نے صفائی میں لگ گئے۔ گھنٹے بھر کے بعد ان تینوں نے صفائی کر دی۔ شہاب الدین صاحب نے باہر جھانکا پھر اچھی طرح باہر نکل کر جائزہ لیا اور بولے: ’’جائو تینوں نہائو!‘‘ وہ تینوں خاموشی سے اندر چلے گئے۔
دوسرے دن عید تھی۔
سارا دن قربانی کے معاملات میں گوشت کے حصے وغیرہ بانٹنے میں گزر گیا۔ شوکت وغیرہ بھی اپنے بیل کی قربانی میں لگے رہے۔

٭٭٭

یہ عید کے چوتھا دن تھا۔ ابو گھر پر ہی تھے۔ ان کے گھٹنے میں تکلیف تھی اس لئے انھوں نے دفتر سے چھٹی کر لی تھی۔
گیارہ بجے کے قریب کسی نے بیرونی دروازے پر دستک دی۔ میں نے جا کے دروازہ کھولا۔ برابر والے شہاب الدین صاحب کھڑے تھے۔ میں نے سلام کیا۔ وہ بولے: ’’کیا ابو گھر پر ہیں؟‘‘
’’جی ہاں…‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’شہاب الدین صاحب نے کہا: ’’بیٹا ریحان میں آپ کے ابو سے ملنا چاہتا ہوں…!‘‘
’’جی…‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں ابھی ابو کو بتاتا ہوں۔‘‘ میں فوراً ہی واپس پلٹا اور ابو سے کہا۔ ’’ابو جی آپ سے شہاب الدین برابر والے چچا ملنے آئے ہیں…!‘‘
’’اچھا… اچھا…!‘‘ ابو نے جلدی سے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک وہ رکے کچھ سوچا اور بولے ’’بیٹا ریحان ذرا دو کرسیاں صحن میں رکھوا دو، اور ساتھ چھوٹی میز بھی۔‘‘ انھوں نے مجھے ہدایت دی۔
’’جی اچھا…!‘‘ میں نے کہا۔
میں نے کرسیاں اور میز رکھی ہی تھیں کہ ابو شہاب الدین صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے انھیں صحن میں لے کر آ گئے۔
انھوں نے امی کو سلام کیا۔ آپی، راشدہ اور چھوٹی نے چچا شہاب الدین کو سلام کیا۔
آپی اس وقت کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں۔
ابو نے باجی کو دیکھ کر کہا: ’’ارے جائو بیٹا چچا ہیں، تم آرام سے مشین لگا لو۔‘‘
راشدہ نے جو یہ سنا تو وہ چاول چننے کے لئے صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
چچا شہاب الدین اور ابو کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔
ابو نے کہا: ’’ریحان بیٹا اچھی سی چائے تو بنوائیں امی سے…!‘‘
’’میں بنا رہی ہوں…!‘‘ امی نے جوا ب دیا۔
چچا شہاب الدین نے ابو جی کو مخاطب کیا: ’’عرفان صاحب اگر آپ برا نہ منائیں تو مجھے پتا چلا ہے کہ آپ مکان فروخت کر رہے ہیں کیا کوئی خاص بات ہے…!‘‘
’’جی…!‘‘ ابو نے آہستہ سے کہا۔’’ مکان بیچنے کا فیصلہ، عام کیا خاص حالات میں ہی کرنا پڑتا ہے…!‘‘
شہاب الدین صاحب نے پوچھا: ’’اگر کوئی روپے پیسے کا مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں شاید میں آپ کی مدد کر سکوں…!‘‘
اسی وقت اوپر سے گیند نیچے آ کر گری۔
میں نے ابو کی طرف دیکھا۔ مگر ابو نے کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ شہاب الدین صاحب کی طرف دیکھ کر بولے: ’’شہاب صاحب! میں اسی مکان میں پیداہوا، اسی میں میری شادی ہوئی، میرے والد اور والدہ دونوں اسی گھر سے سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے، اسی گھر میں میری تینوں بیٹیاں اور بیٹا پیدا ہوئے۔ میں سوچتا تھا کہ میں اپنے بچوں کی شادیاں بھی اسی مکان میں کروں اور ہم دونوں بڈھے بڑھیا اسی گھر سے قبرستان کو جائیں ۔ مگر…!‘‘
ابو چپ ہو گئے۔ ان کی آواز آنسوئوں سے گیلی گیلی سی ہو گئی۔ ’’مگر شاید ایسا ممکن نہیں…!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ چچا شہا ب الدین نے چونک کر کہا۔ ’’ایسی کیا مجبوری ہے جو آپ کو اس مکان کو بیچنے پر مجبور کر رہی ہے…!‘‘
اسی وقت اوپر سے شارق کی آواز آئی۔ ’’ارے میری گیند واپس کرو۔ کنجوسو…!‘‘
’’شہاب الدین صاحب چونکے۔
ذرا دیر میں ہی باجی بھی اندر آ گئیں اور صحن میں چاول صاف کرتی ہوئی راشدہ بھی اندر آ گئی۔
’’توبہ ہے، کام کرنا بھی مشکل ہے…!‘‘ وہ زیرِ لب بڑبڑاتی ہوئی اندرونی کمرے میں چلی گئی۔
چچا شہاب الدین نے اسے چونک کر دیکھا پھر ذرا آگے جھک کر اپنے گھر کی جانب دیکھا۔
شارق، شاکر اور شوکت اپنے گھر کی دیوار سے گردنیں لٹکائے نیچے دیکھ رہے تھے۔
ابو نے کہا: ’’شہاب صاحب ! اللہ پاک نے آپ کو تین بیٹے دیئے ہیں، مجھے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تو میں سمجھتا تھا کہ پڑوسی ہم سایا ماں جایا ہوتا ہے اور میری بیٹیوں کا ایک نہیں چار بھائی ہیں۔ مگر خالی میرے سوچنے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ دنیا تو اپنے حساب سے سوچتی ہے…!‘‘
چچا شہاب الدین چپ رہے۔ پھر بولے: ’’عرفان بھائی آپ میرے ہمسایا ہی نہیں ماں جایا بھی ہیں۔ آپ ایک مرتبہ اشارتاً ہی شکایت کر دیتے۔ میں نے سب دیکھ لیا ہے۔ اب انشاء اللہ کوئی شکایت نہیں ہو گی…!‘‘ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ارے چائے تو پی لیجئے…!‘‘ ابو نے کہا۔
’’ضرور پیوں گا آپ کے ساتھ بس ذرا انتظار کریں۔…!‘‘ انھوں نے کہا اور تیزی سے باہر نکل گئے۔
ہم سب خاموش انھیں جاتا دیکھتے رہے۔

٭٭٭

دوسرے دن جب ہم اٹھے تو ہم نے دیکھا کہ شہاب الدین چچا دیوار بلند کروا رہے ہیں۔ اور مزدور گٹر میں آنے والا پائپ نیا ڈال رہا ہے۔ دو دن میں ہی دیوار مزید پانچ فٹ اونچی ہو گئی اور وہاں سے کسی کا جھانکنا ممکن نہیں رہا۔ بیرونی حصہ بھی صاف ستھرا ہو گیا تھا۔
شام کو شہاب الدین صاحب نے ہماری دعوت کی۔ ہم لوگ ان کے گھر آئے۔ ان کے تینوں بیٹے شاکر، شارق اور شوکت نے بڑی تمیز سے ہمیں سلام کیا۔
’’خالی سلام نہیں…‘‘ شہاب الدین صاحب نے غصے سے کہا: ’’معافی مانگو سب سے اور خبردار جو آئندہ مجھے شکات ملی…!‘‘
’’جی ابا جی…!‘‘ تینوں نے بیک وقت کہا۔
’’کوئی بات نہیں…!‘‘ ابو جی نے کہا: ’’بچے تو شرارت کرتے ہی رہتے ہیں…!‘‘
’’بچے شرارت ضرور کریں مگر گستاخی اور بدتمیزی بلکہ بدمعاشی کی کوئی اجازت نہیں…!‘‘
شہاب الدین صاحب نے سخت لہجے میں کہا۔
پھر وہ بولے: ’’بات یہ ہے عرفان بھائی، میں نے سوچا کہ بچے اب جوان ہو رہے ہیں۔ میری ان کو زیادہ ضرورت ہے۔ اس لئے اب میں دوبئی واپس نہیں جائوں گا مجھے یہاں ہی ایک کمپنی میں بہت اچھی ملازمت مل گئی ہے…!‘‘
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے…!‘‘ ابو نے خوشی سے کہا۔
’’مگر یہ آدھی خوشی ہے…!‘‘ شہاب الدین نے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اگر آپ ہمارا ہم سایہ چھوڑ کر چلے گئے تو پھر مجھے دوبئی سے یہاں آ کر رہنے کا فائدہ کیا۔ بچوں کو خالی باپ ہی نہیں ایک سختی والا چچا بھی چاہئے ہوتا ہے…!‘‘ وہ ہنسنے لگے۔
’’نہیں بھئی اب آپ جیسا پڑوسی چھوڑ کے مجھے کیوں بے گھر ہونا ہے…‘‘ ابو جی نے کہا۔ اور سب ہنسنے لگے۔
’’چلو بھئی کھانا لگائو…!‘‘ انھوں نے ہنس کر اپنی بیگم سے کہا جو امی سے باتیں کر رہی تھیں۔
اچانک میری نظر ڈرائنگ روم میں لگے فریم پر پڑی۔ اس پر بہت خوبصورت حدیث مبارک لکھی ہوئی تھی۔ میں نے پہچان لیا۔ یہ وہی فریم تھا جو ابو نے عید کے دن چچا شہاب الدین کو دیا تھا۔ جب وہ عید ملنے آئے تھے۔
سنہری فریم میں نہایت خوش نما لکھا ہوا تھا۔
’’اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں۔ جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور آفتوں کی وجہ سے خائف رہتے ہوں۔‘‘ (بخاری شریف)

٭…٭

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top