سال گرہ کا تحفہ
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: عائشہ وحید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کل نانی امی کی سال گرہ ہے۔“ مارگریٹ نے جارج کو بتایا۔
”اف! مجھے تو بالکل یاد نہیں تھا۔“ جارج پریشان ہو گیا۔”میرے پاس تو جیب خرچ کا ایک پیسہ بھی نہیں بچا جو میں نانی اماں کے لیے تحفہ خرید سکوں۔“
”میرے پاس تو پیسے ہیں۔“ جارج کی خالہ زاد بہن مارگریٹ اترا کر بولی۔”میں بہت پہلے ہی جمع کر رہی تھی اور اب میں نانی اماں کے لیے بالوں میں لگانے والی پنوں کے دو پیکٹ خریدوں گی۔ وہ انہیں بہت پسند کریں گی،اور جارج،اگر تم نے انہیں کچھ نہیں دیا تو وہ تمہیں اچھا نہیں سمجھیں گی۔“
”میرے پاس بھی بہت پیسے تھے۔“ جارج بولا۔”مگر میں نے ان پیسوں سے مچھلیاں پکڑنے کا جال اور بیلچہ خرید لیا۔کاش امی نے مجھے یاد کرادیا ہوتا کہ نانی اماں کی سال گرہ آنے والی ہے۔“
”میں نے تمہیں یاد کرایا تھا، جارج۔“ اس کی امی بولیں،”لیکن تم تو سمندر کے کنارے آکر اتنے مصروف ہو گئے کہ سب کچھ بھول گئے۔“
جارج کو اپنی نانی اماں سے بے حد محبت تھی اور اسے دوسروں کو ان کی سال گرہ پر تحفے دینے کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مارگریٹ اکیلی نانی اماں کو تحفہ دے۔لیکن اسے پتا تھا کہ مارگریٹ نانی اماں کو تحفہ ضرور دے گی۔جب بھی کوئی بھول جاتا اور مارگریٹ کو وہ بات یاد ہوتی تو وہ بہت خوش ہوتی تھی۔
”میں ضرور نانی اماں کو کچھ نہ کچھ دوں گا۔“ جارج اپنے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔”شاید کوئی ایسی چیز مجھے مل جائے جس کے لیے پیسوں کی ضرورت نہ پڑے۔“
وہ سوچنے لگا،شاید اسے سمندر کے کنارے خوب صورت سی سیپیاں مل جائیں، جنہیں وہ دھاگے میں پرو کر ایک خوب صورت سا ہار بنالے اور نانی اماں کو تحفے میں دے دے۔یہ سوچ کر اس نے بہت ڈھونڈا لیکن اسے کوئی خوب صورت سیپی نہ ملی۔صرف بھدی اور بد صورت قسم کی ٹوٹی پھوٹی سیپیاں تھیں جن کا کسی صورت بھی ہار نہیں بن سکتا تھا۔
جارج مایوس ہو کر ادھرادھر دیکھ رہا تھا کہ اسے ایک ستارہ مچھلی(اِسٹار فش) نظر آئی۔ اس نے پہلی بار کوئی ستارہ مچھلی دیکھی تھی۔اس نے سوچاکہ یہ یقینا کوئی بہت مہنگی اور انوکھی چیز ہوگی۔ اس نے اسے پکڑ کر اپنی بالٹی میں ڈالا اور بڑے فخر سے امی کو دکھانے لے گیا۔
”دیکھئے امی، میں نے نانی اماں کے لیے کتنا اچھا تحفہ ڈھونڈا ہے۔“ وہ بولا۔
”نہیں،بیٹا۔“ امی نے جواب دیا۔”تمہاری نانی اماں کو یہ ستارہ مچھلی پسند نہیں آے گی اور پھر ستارہ مچھلی بھی نہیں چاہے گی کہ اسے سال گرہ کا تحفہ بنایا جائے۔“امی نے پیار سے کہا۔
”امی، پلیز مجھے یہ نانی اماں کو دینے دیجیے۔“ جارج نے بے بسی سے کہا۔”مجھے یقین ہے کہ وہ اسے پسند کریں گی۔ ویسے بھی مجھے ہار میں پرونے کے لیے خوب صورت سیپیاں نہیں مل رہیں۔“
”کتنا بے وقوف ہے یہ،خالہ۔ ہے ناں؟“
مارگریٹ نے جارج کی امی سے کہا۔”یہ سمجھ رہا ہے کہ اس فضول اور بد صورت تحفے کو نانی اماں پسند کریں گی۔پہلے تو اس نے یہ بے وقوفی کی کہ نانی اماں کی سال گرہ یاد نہیں رکھی اور دوسری بے وقوفی یہ کرنے لگا ہے کہ نانی اماں کو یہ بے ہودہ تحفہ دے رہا ہے۔“
مارگریٹ کی باتوں پر جارج کو بے حد غصہ آیا۔ اس کا منہ غصے سے لال ہو گیا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ ستارہ مچھلی مارگریٹ کے منہ پر دے مارے مگر وہ رک گیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ستارہ مچھلی کو اس سے تکلیف ہوگی۔ وہ اسے لے کر واپس سمندر کے کنارے گیا اور پانی میں ڈال دیا۔
اسی وقت اسے پانی میں ایک خوب صورت چیز نظر آئی۔
وہ سمجھا کہ یہ پھول ہیں، حال آں کہ وہ سمندری جانور تھے جنہیں سمندری پھول کہتے ہیں۔یہ جانور اپنی مونچھیں، جنہیں فِیلر کہتے ہیں، خوراک کی تلاش میں اِدھر اُدھر ہلاتے رہتے ہیں۔لیکن جارج کو یہ معلوم نہ تھا۔ وہ انہیں پھول سمجھا تھا اور اسے ان کے سرخ اور سبز رنگ بہت پسند آئے تھے۔
”میں یہ پھول نانی اماں کو دوں گا۔“ اس نے خوشی سے سوچا۔
اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر وہ پھول توڑنے کی کوشش کی مگر وہ تو پانی میں پڑے ہوئے پتھروں سے چمٹے ہوئے تھے اور پورا زور لگانے کے باوجود ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔اس کے علاوہ، جب جارج نے انہیں ہاتھ لگایا تو انہوں نے اپنے فِیلر اپنے اندر لپیٹ لیے جس سے ان کی ساری خوب صورتی ختم ہو گئی اور وہ بد صورت لوتھڑے سے لگنے لگے۔
اتنے میں مارگریٹ بھی ادھر آنکلی۔ جب اس نے جارج کو سمندری پھول توڑتے دیکھا تو ہنس ہنس کر اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔
”جارج، تم سمجھے تھے کہ یہ پھول ہیں اور تم ان کا گل دستہ بنا کر نانی اماں کو تحفے میں دو گے؟“ وہ ہنستے ہوئے بولی۔”تم کس قدر بے وقوف ہو! یہ پھول نہیں ہیں جارج، یہ تو سمندری جانور ہیں جوپتھروں کے ساتھ چمٹے ہوتے ہیں اور یہ جو تم ان پھولوں کی پتیاں سمجھ رہے تھے، یہ ان جانوروں کے فِیلر ہیں جو انہوں نے لپیٹ لیے ہیں۔“
جارج بے چارے کو اب معلوم ہوا کہ وہ بہت بے وقوف ہے۔ وہ پھول اب خوب صورت نہیں لگ رہے تھے۔ اسے مارگریٹ پر بھی غصہ آرہا تھا۔
”تم بہت بری ہو مارگریٹ۔“ وہ روہانسا ہو کر بولا۔”تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔ مجھے تم بالکل اچھی نہیں لگتیں۔“
یہ کہ کر وہ ایک طرف کو چل پڑا۔ اچانک اسے ریت پر ایک چیز تیزی سے بھاگتی ہوئی نظر آئی۔اس نے غور سے دیکھا تو وہ ایک چھوٹا سا کیکڑا تھا۔مگر وہ عام کیکڑوں سے کہیں زیادہ خوب صورت تھا۔
”کتنا خوب صورت ہے۔“ جارج اسے دیکھ کر بے اختیار بول اٹھا۔”میں نے اس سے پہلے ایسا کیکڑا کبھی نہیں دیکھا۔ایک تو گہرے سبز رنگ کا ہے اور دوسرے یہ مجھ سے فوراً ہی مانوس ہو گیا ہے۔“ جب جارج نے کیکڑے کو اٹھایا تو اس نے ایک دم اپنی ٹانگیں لپیٹ لیں اور جارج کے ہاتھ پر آرام سے بیٹھ گیا۔جارج اسے اپنی امی کے پاس لے گیا۔
”امی، دیکھئے۔ میں نانی اماں کے لئے کیا لایا ہوں۔ اس سے زیادہ خوب صورت کیکڑا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔اتنا چھوٹا سا ہے۔ نانی اماں اسے پالیں گی۔پچھلے دنوں وہ کہ رہی تھیں کہ ان کے پاس تو کوئی بلی بھی نہیں ہے جس سے وہ اپنا دل بہلاسکیں۔انہیں یہ بے حد پسند آئے گا۔دیکھئے میرے ہاتھ پر کیسے بیٹھا ہے۔“
”نہیں بیٹا!“ امی نے اسے پیار سے سمجھایا۔”یہ واقعی بہت خوب صورت ہے،لیکن نانی اماں اِسے پالنا پسند نہیں کریں گی۔ویسے بھی یہ مر جائے گا اور یہ اس کے ساتھ ظلم ہوگا۔اسے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے لائے ہو۔“
جارج کو دیکھ کر مارگریٹ بھی دوڑی آئی اور جب اس نے کیکڑے کو دیکھا تو بولی،”کیا تم نانی اماں کو یہ کیکڑا دوگے؟ اُف! توبہ! کتنا ہنسیں گی وہ اسے دیکھ کر۔“
”جی نہیں۔“جارج نے کہا۔”تمہارے علاوہ کوئی مجھ پر نہیں ہنستا۔تم ہی میرا مذاق اڑاتی ہو۔“
”اب بس کرو۔ اتنا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔جاؤ،اس کیکڑے کو واپس وہیں چھوڑ آؤ۔اگر تم اپنی نانی اماں کوکوئی تحفہ نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں۔وہ تم سے ناراض نہیں ہوں گی۔“ امی نے کہا۔
جارج کیکڑے کو لے کر سمندر کی طرف چلا۔ مارگریٹ بھی اس کے پیچھے پیچھے گئی۔
”آؤ،جارج،ہم اس کیکڑے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ ہم یہ ظاہر کریں گے کہ ہمارے ہاتھ چیلیں ہیں اور ہم اس کیکڑے پر جھپٹنے لگے ہیں۔“ وہ بولی۔
”نہیں۔“ جارج نے جواب دیا۔”بے چارہ کیکڑا ڈر جائے گا۔“
مارگریٹ نے جارج سے کیکڑا چھیننے کی کوشش کی۔ جارج نے اسے دھکا دے کر پیچھے کیا اور جلدی سے کیکڑے کو ریت پر رکھ دیا۔ وہ تیزی سے ریت میں دھنستا گیا اور آناً فاناً نظروں سے غائب ہو گیا۔
”اب تم اسے نہیں پکڑ سکتیں۔“ جارج خوش ہو کر بولا۔یہ کہ کر اس نے ریت میں ہاتھ ڈالااور کیکڑے کو چھونے کی کوشش کی۔ اچانک اس کی انگلیاں کسی گول اور سخت سی چیزسے ٹکرائیں۔اس نے کھینچ کر اسے باہر نکالا تو وہ گیلی ریت میں لپٹی ہوئی کوئی چیز تھی۔ اس نے اس پر پانی ڈالا تو پتا چلا کہ سونے کی اشرفی ہے۔ وہ اپنی امی کے پاس دوڑا دوڑا گیا۔
”امی! امی! دیکھئے تو،مجھے کیا ملا ہے۔ جہاں میں نے اس کیکڑے کو چھوڑا تھا، وہاں سے مجھے یہ اشرفی ملی ہے۔“
امی بہت حیران ہوئیں۔ انہوں نے جارج سے کہا کہ ارد گرد کے لوگوں سے پتا کرو کہ کہیں ان کی کوئی اشرفی تو نہیں گم ہوئی ہے۔ جارج نے پتا کیا تو سب لوگوں نے انکار کردیا۔
”تم بہت خوش قسمت ہو، جارج۔“امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”اب یہ اشرفی تمہاری ہے کیوں کہ کوشش کے باوجود ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کس کی ہے۔ چونکہ یہ تم نے ڈھونڈی تھی، اس لیے اب تم یہ لے سکتے ہو۔“
”ارے واہ!“ جارج نے خوشی سے نعرہ لگایا۔”اب میں نانی اماں کے لیے بہت اچھا سا تحفہ خرید سکتا ہوں۔ میں نے کتنا اچھا کیا کہ اس کیکڑے کو چھوڑدیا۔ اُس کی وجہ سے مجھے یہ اشرفی ملی۔“
اب جارج بازار گیا اور اس اشرفی سے ایک بہت خوب صورت بروچ خریدا جو ایک چھوٹے سے، گہرے سبز رنگ کے، کیکڑے کی شکل کا تھا۔
مار گریٹ نے جارج کا خریدا ہوا تحفہ دیکھا تو منہ بنا کر بولی۔”یہ تو میرے خریدے ہوئے تحفے سے زیادہ اچھا ہے۔ کاش!تمہیں صرف اتنے پیسے ملے ہوتے کہ تم بھی بالوں کے لیے صرف پِنیں ہی خرید سکتے۔“
”تمہارا دل کتنا چھوٹا ہے، مارگریٹ۔“ جارج کی امی نے اپنی بھانجی سے کہا۔”تم نے آج جارج کو کس قدر ستایا۔وہ نانی اماں کو کوئی تحفہ دینا چاہتا تھا۔ اگر تم جارج کی مدد کرتیں یا اپنے پنوں کے دو پیکٹوں میں سے ایک پیکٹ اسے دے دیتیں تو میں تمہیں ایک اچھا انسان سمجھتی۔“
نانی اماں کو جارج کا تحفہ بے حد پسند آیا۔انہوں نے بڑے شوق سے جارج کی کہانی سنی کہ کیسے اس نے تحفہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور کیسے ایک کیکڑے کی وجہ سے اسے ایک اشرفی ملی جس سے اس نے ان کے لیے تحفہ خریدا۔
”جارج! مجھے یہ کیکڑے کی شکل کا بروچ اصلی کیکڑے سے زیادہ اچھا لگا ہے۔“انہوں نے جارج کو پیار کرتے ہوئے کہا۔”تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے اتنے پیسے خرچ کرکے مجھے اتنا خوب صورت تحفہ دیا۔“
نانی اماں کو مارگریٹ کا تحفہ بھی اچھا لگا تھا لیکن جارج اور مارگریٹ دونوں جانتے تھے کہ انہیں جارج کا تحفہ زیادہ پسند آیا ہے۔
”میں اب تمہیں تنگ نہیں کروں گی،جارج۔میں نے واقعی تمہارے ساتھ زیادتی کی تھی۔“مارگریٹ نے کہا۔”یہ مجھے سزا ملی ہے کہ تم نے نانی اماں کو میرے تحفے سے زیادہ خوب صورت تحفہ دیا۔“
”اوہو، مارگریٹ۔ تم اس کی فکرنہ کرو۔مجھے اب جو اشرفی ملے گی وہ میں تمہیں دے دوں گا۔یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔“ جارج مسکرا کر بولا۔
اب بھی جارج کو کوئی کیکڑا ریت میں نظر آتا ہے تو وہ ریت ضرور کھودتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ کوئی اور کیکڑا کسی دن اسے کوئی اشرفی ڈھونڈ کر دے گا۔