skip to Main Content

کہانی ایک جھیل کی

ڈاکٹر رؤف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔

دور بہت دور، شہروں سے بہت دور، ایک ہرا بھرا،خوب صورت اور پرسکون جنگل تھا۔اس جنگل کے بیچوں بیچ ایک بہت حسین چھوٹی سی جھیل تھی۔اس جھیل کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کی تہہ میں اگے ہوئے پودے اور گھاس تک صاف نظر آتے تھے۔جھیل کی تہہ میں پڑے ہوئے پتھر بہت خوب صورت اور چمکیلے تھے۔اس کی مچھلیاں اتنے پیارے رنگوں کی تھیں کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔جھیل کا پانی اتنا میٹھا تھا کہ جو ایک دفعہ پی لے بس وہیں کا ہو جائے۔جھیل کے چاروں طرف گھنے اور اونچے اونچے درخت تھے جو ہوا میں اس طرح جھومتے تھے جیسے وہ جھیل کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ ان درختوں کے قدموں میں پودے اگے ہوئے تھے جن پر طرح طرح کے رنگ برنگے پھول کھلتے۔ان پھولوں پر تتلیاں ناچتیں۔بھونرے آتے،کیڑے مکوڑے اور مینڈک بھی وہاں خوشی خوشی رہتے تھے۔درختوں پر پیارے پیارے پرندوں کا بسیرا تھا۔
جیل اور جنگل کی ہوا بہت صاف اور صحت بخش تھی۔جنگل کے درندے اور چرندے بھی وہاں پانی پینے آتے تھے تو اس کی خوب صورتی،سکون اور صاف اور میٹھے پانی سے اتنے متاثر ہوتے تھے کہ کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔
یہ جنگل، یہ جھیل، اس کا پانی،اس کی ہوا، پودے، پرندے، پھول، کیڑے مکوڑے، مچھلیاں، درخت،اس کے پتھر اور اس کے جانور، یہ سب اس جھیل اور جنگل کے ماحول کا حصہ تھے۔یہ ماحول ہماری دنیا کے لئے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک نعمت تھا۔
لیکن پھر پتا ہے کیا ہوا؟کسی طرح انسانوں کو اس جھیل کے بارے میں پتا چل گیا اور انسانوں نے وہاں جانا شروع کر دیا۔جو لوگ شروع شروع میں وہاں گیے وہ بہت اچھے لوگ تھے۔انہوں نے نہ تو جھیل کو گندا کیا،نہ پھول توڑے اور نہ پرندوں کا شکار کیا۔وہ لوگ جھیل پر جاتے،اس کی خوب صورتی، سکون اور اس کی صاف و شفاف اور صحت بخش ہوا سے لطف اٹھاتے اور واپس آجاتے۔
یہ جھیل اتنی خوب صورت تھی کہ جلد ہی دور دور تک اس کی شہرت پھیل گئی۔یہ جھیل اتنی مشہور ہو گئی کہ ہزاروں انسان وہاں پہنچنے لگے۔اول تو ان کی گاڑیوں اور بسوں کا دھواں وہاں کی ہوا کو گندا کرنے لگا۔پھر لوگوں نے وہاں گندگی بھی پھیلانی شروع کردی۔لوگ وہاں پکنک پر جاتے اور کھانے پینے کی بچی ہوئی چیزیں اور کچرا ادھر ادھر پھینک دیتے۔جھیل کے پانی میں طرح طرح کی چیزیں پھینکتے، مچھلیاں پکڑتے، پرندوں کا شکار کرتے، پھول تو توڑتے ہی، پودے تک اکھاڑ لیتے۔کھانا پکانے کے لیے گھاس، پتے اور درختوں کی ٹہنیاں جلاتے،جس کا دھواں بھی ہوا میں مل جاتا تھا۔ یہ سب حرکتیں بہت بری تھیں اور انہیں پتا نہیں تھا کہ وہ کتنی بڑی بےوقوفی کر رہے ہیں۔
اس ساری گندگی اور اوندھی سیدھی حرکتوں نے ماحول کو تباہ کردیا۔صاف ہوا صاف نہ رہی۔جھیل کا صاف اور میٹھا پانی کالا اور بدمزہ ہوگیا۔ تہہ میں پڑے ہوئے رنگین پتھر کالے اور بدصورت ہو گئے۔مچھلیاں مرنے لگیں۔پرندے دوسرے علاقوں کو پرواز کر گئے۔جانور دوسرے جنگل میں چلے گئے۔تتلیاں غائب ہوگئیں۔پودے اور سبزہ ختم ہوگیا۔درختوں کے کٹنے سے مٹی ہوا میں اڑنے لگی۔اس طرح ایک حسین جھیل اور پیارا ماحول برباد ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے پودوں،درختوں اور ہوا کا خیال نہیں رکھا۔آلودگی یعنی گندگی پھیلائی۔
جانتے ہو اس ساری آلودگی کا نتیجہ کیا نکلا؟بارشیں ہونا بند ہوگئیں،کیوں کہ درختوں کے کٹنے سے بارش کم ہو جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ پورے علاقے میں فصلیں تباہ ہوگئیں۔کھیت سوکھ گئے۔لوگ غریب ہو گئے۔ان کے پاس کھانے کو اناج بھی کم رہ گیا۔
اب تو لوگ بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ یہ کیا ہو گیا؟اور کیسے ہو گیا؟ادھر جنگل کے بچے کھچے پرندے اور جھیل کی مچھلیاں بھی چپکے چپکے روتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ ہمارے جنگل دوبارہ اگا دے، ہماری جھیل کا پانی صاف کر دے، بارش برسا دے اور ان انسانوں کو اتنی عقل عطا فرما دے کہ وہ اپنے ماحول کی ساری آلودگیاں ختم کردیں۔
آخر کچھ عقل مند لوگوں نے اس مسئلے پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب ہم انسانوں کی غلطی سے ہوا ہے۔تب انہوں نے اعلان کروا دیا کہ کوئی بھی درخت کو نہ کاٹے۔نا تو گھاس اکھیڑے اور نہ خواہ مخواہ آگ جلائے۔اس کے بعد سب نے فیصلہ کیا کہ ہر آدمی ایک درخت لگائے گا ۔لوگوں نے درخت لگائے۔پودوں اور گھاس کی دیکھ بھال کی۔بغیر ضرورت کے آگ جلانا بند کردیا۔آخر اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آیا اور ایک روز بارش ہوئی۔جھیل میں صاف پانی آگیا۔پودے اور درخت دوبارہ اگنے لگے،لیکن آلودگی سے ماحول کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اتنی جلدی اور آسانی سے پورا نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ جھیل ابھی تک پہلے کی طرح خوب صورت،صاف اور صحت بخش نہیں ہو سکی ،لیکن اب وہاں کے لوگ اس کے ماحول کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور شاید ایک دن جھیل پھر اتنی ہی خوب صورت ہوجائے،اس کا پانی پہلے کی طرح صاف اور شفاف اور میٹھا ہو جائے۔
آپ بھی اس کے لیے دعا کریں اور اگر آپ کے گھر کے پاس کوئی جھیل،کوئی درخت،پودے یا سبزہ ہے تو اس کو بچانے کی کوشش کریں۔ہماری دنیا کو اس کی بہت ضرورت ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top