skip to Main Content

تین بج کر دس منٹ

ڈاکٹر رؤف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب انسپکٹر فرحان وہاں پہنچا تو لاش نہر سے نکالی جارہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد غوطہ خوروں نے اطلاع دی کہ مرنے والے کی کار بھی نہر کے اندر موجود ہے۔انسپکٹر نے کرین منگوائی اور اسے بھی نکالنے کی ہدایت کی۔
لاش ایک چارپائی پر رکھی گئی۔انسپکٹر فرحان اسے غور سے دیکھنے لگا۔مرنے والے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان ہوگی۔ ”غالباً یہی سیٹھ احمد کا بیٹا کامران ہے۔“فرحان نے سوچا۔اسے دو دن قبل کامران کی گم شدگی کی اطلاع دی گئی تھی اور آج صبح اس کی لاش کسی نے نہر میں تیرتی ہوئی دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی تھی۔فرحان نے لاش کے بارے میں دو تین باتیں نوٹ کیں۔ایک تو یہ کہ لاش کے سر کے پچھلے حصے میں چوٹ کا واضح نشان تھا۔دوسرا یہ کہ اس کی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کا شیشہ تڑخ چکا تھا اور وہ تین بج کر دس منٹ پر بند ہوگئی تھی۔کپڑوں کی تلاشی پر جیب سے بٹوا نکلا ،اس سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ وہ لاش کامران ہی کی تھی۔بٹوے میں کامران کا شناختی کارڈ اور دوسرے کاغذات تھے۔اس میں کافی رقم بھی تھی۔انسپکٹر نے گھڑی اور بٹوا ایک تھیلے میں محفوظ کرلیا۔ایک سپاہی نے اسے ایک پیچ کس لا کردیا جو وہاں پڑا ملا تھا۔فرحان نے اسے بھی محفوظ کر لیا۔
اب انسپکٹرنے کامران کی کار کا جائزہ لینا شروع کیا۔سڑک کے ساتھ ساتھ نہر گزرتی تھی اور نہر کے کنارے کوئی جنگلا نہیں تھا۔اس بات کا امکان تھا کہ رات کے وقت اندھیرے کی وجہ سے کامران راستے کا صحیح اندازہ نہیں کرسکا اور موڑ مڑتے ہوئے کار نہر میں جاگری۔ سڑک کے کنارے مٹی پر ٹائروں کے نشان تھے جو نہر کی طرف جاتے تھے لیکن عجیب بات یہ تھی کہ ٹائر کے نشان سڑک کے ساتھ نہیں تھے بلکہ ایسے تھے جیسے گاڑی سڑک پر نہر کی طرف رخ کر کے کھڑی ہو اور پھر سیدھی چلتی ہوئی نہر میں جاگری ہو۔کار کے چاروں دروازے بند تھے اور شیشے چڑھے ہوئے تھے۔انسپکٹر نے اگلے دروازے کے ہینڈل پر رومال رکھ کر اسے کھولا اور اندر کا جائزہ لیا۔دروازہ ذرا سا پچک گیا تھا اور اسے کھولنے کے لئے کچھ زور لگانا پڑا۔
”سر! میرا خیال ہے کہ حادثہ رات کو تین بج کر دس منٹ پر ہوا ہے۔“انسپکٹر فرحان کے اسسٹنٹ جاوید نے کہا۔
”یہ تم اس لیے کہہ رہے ہو کہ کامران کی گھڑی تین بج کر دس منٹ پر بند ہوئی ہے۔“
”جی سر!“
”لیکن تم نے کوئی اور اہم بات بھی نوٹ کی؟“انسپکٹر نے پوچھا۔
”جی ہاں،مقتول کے سر پر پچھلے حصے پر چوٹ لگی ہے۔غالباً حادثہ ہونے کی وجہ سے اس کا سر گاڑی میں کسی چیز سے ٹکرایا تھا۔“
”ذرا گاڑی کے اندر کے حصے کو غور سے دیکھو اور یہ بتاؤ کہ اس میں ایسی کون سی سخت چیز ہے جو اس کے سر پر اس بری طرح لگی ہو؟“
”ایسی تو کوئی چیز نہیں ہے۔“
”یہی عجیب بات ہے۔گاڑی کے نہر میں گرنے سے سر کے پچھلے حصے میں ایسی چوٹ آنی مشکل ہے۔دوسری بات یہ کہ لاش کی بائیں کلائی پر کسی نوک دار چیز کا نشان ہے۔گاڑی میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو نوک دار ہو اور جس سے ایسی چوٹ لگے۔“انسپکٹر نے کہا۔
”آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟“
”میں کچھ نہیں کہنا چاہ رہا۔ابھی تو میں صرف خاص خاص باتیں نوٹ کر رہا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ایسی عجیب بات سامنے آئی ہے جس سے مجھے کچھ شبہ ہونے لگا ہے۔لیکن جب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا کچھ کہنا بیکار ہوگا۔“
”وہ عجیب بات کیا ہے سر؟“
”ہمیں اطلاع ملی تھی کہ لاش پانی کی سطح پر تیر رہی ہے اور ہمارے آدمیوں نے بھی یہاں آکر یہی دیکھا،لیکن سوال یہ ہے کہ جب کار کے چاروں دروازے بند تھے تو لاش باہر کیسے آئی،جبکہ چاروں شیشے بھی چڑھے ہوئے تھے۔“
جاوید حیرانی سے انسپکٹر کی شکل دیکھتا رہ گیا اور انسپکٹر دوبارہ جھک کر کار کا جائزہ لینے لگا۔اسے گاڑی کی چابی کی تلاش تھی جو اگنی شن میں لگی ہوئی نہیں تھی۔
انسپکٹر فرحان سیٹھ احمد کے گھر پہنچا۔جوان بیٹے کی موت سے وہ بہت نڈھال تھے۔
”میں نے کامران سے کئی دفعہ کہا تھا کہ گاڑی احتیاط سے چلایا کرو لیکن آج کے لڑکے بوڑھے ماں باپ کی بات کہاں سنتے ہیں۔ سیٹھ احمد غم زدہ لہجے میں کہہ رہے تھے۔
”میرا خیال ہے کہ یہ حادثہ نہیں تھا۔مجھے شبہ ہے کامران کو قتل کیا گیا ہے۔“
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“سیٹھ احمد حیرانی سے بولے۔
”جی سیٹھ صاحب! صحیح کہہ رہا ہوں۔میں نے کامران کے دوست سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔آپ دیکھئے کے کامران رات بارہ بجے اپنے دوست کے گھر سے دعوت ختم ہونے کے بعد نکلا لیکن اس کی گھڑی تین بج کر دس منٹ پر بند ہوئی ہے۔سوال یہ ہے کہ تین گھنٹے تک وہ کہاں تھا اور کیا کرتا رہا؟دوسری بات یہ کہ اس کی گاڑی کے چاروں دروازے بند نکلے اور غالباً اس نے گرمی کی وجہ سے گاڑی کا ائیرکنڈیشنر بھی چلا رکھا تھا،کیوں کہ چاروں شیشے چڑھے ہوئے تھے، تو لاش گاڑی سے باہر کیسے آئی؟پھر اس کے سر کی چوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس کے سر کے پچھلے حصے پر کسی سخت چیز سے ضرب لگائی اور اسے بے ہوشی کے عالم میں پانی میں پھینک دیا اور بعد میں گاڑی بھی نہر میں دھکیل دی تاکہ اس قتل کو حادثے کا رنگ دیا جاسکے۔میں نے ٹائروں کے جو نشان دیکھے، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ گاڑی سڑک پر نہر کی طرف منہ کرکے کھڑی کی تھی۔اگر چلتی گاڑی کا حادثہ ہوتا تو گاڑی نہر کے ساتھ ساتھ سڑک پر چلتی ہوئی آتی نہ کہ اس طرح۔“ انسپکٹر نے وضاحت کی۔
سیٹھ احمد کچھ دیر تک حیرت سے انسپکٹر کو دیکھتے رہے پھر بولے:”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی لٹیرے نے رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاکر کامران کی گاڑی کو روک کر اسے لوٹنے کی کوشش کی ہو اور پھر اسے مار دیا ہو۔“
”یہ خیال مجھے بھی آیا تھا لیکن کامران کا بٹوا دیکھئے۔ اس میں اچھی خاصی رقم موجود ہے۔پھر اس کی گھڑی بھی کلائی پر بندھی ہوئی تھی۔ کوئی لٹیرا نہ تو اس رقم کو چھوڑتا اور نہ اتنی قیمتی گھڑی کو۔“ انسپکٹر نے سیٹھ صاحب کے خیال سے اتفاق نہیں کیا۔
”یہ سب باتیں پراسرار ہیں۔ آخر کون اس کا دشمن ہوسکتا ہے؟“ سیٹھ احمد نے کہا۔
یہی معلوم کرنے کے لیے تو آپ کے پاس آیا ہوں۔آپ مجھے بتائیں گے کہ اس کا کسی سے کوئی اختلاف یا کوئی دشمنی تو نہیں تھی۔“
”ارے بھئی،اس کی کس سے دشمنی ہو سکتی ہے۔وہ ابھی حال ہی میں تو واپس آیا تھا تعلیم مکمل کرنے کے بعد اور میرے اصرار پر دفتر کا انتظام سنبھال لیا تھا،کیوں کہ اب میں خاصا بوڑھا ہوگیا ہوں۔“سیٹھ احمد نے اداسی سے کہا۔
”اس کے واپس آنے سے پہلے دفتر کا انتظام کس کے ہاتھ میں تھا؟ “فرحان نے پوچھا۔
”ایک منیجر رکھا ہے ہم نے۔“سیٹھ احمد نے کہا۔
”اچھا تو پھر آپ کے ساتھ دفتر جانا پڑے گا۔شاید وہاں سے کوئی کام کی بات معلوم ہو سکے۔“انسپکٹر فرحان نے کہا۔
”لیکن اس وقت شام کو؟“سیٹھ احمد نے پوچھا۔
فرحان نے اصرار کیا:” جی ہاں،اسی وقت۔“
دونوں دفتر پہنچے اور کامران کے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔اتنے میں کسی نے اطلاع دی کہ سکندر صاحب دہلی سے آگئے ہیں۔
”یہ سکندر کون ہے؟“انسپکٹر نے پوچھا۔
”یہ ہمارا منیجر ہے۔کامران کی آنے سے پہلے دفتر کا زیادہ تر بوجھ میں نے اسی پر ڈال رکھا تھا۔“سیٹھ نے بتایا۔
فرحان نے سکندر کو بلوایا اور اس سے کچھ سوال کئے جس کے بعد سکندر نے کہا:” انسپکٹر صاحب!اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے کامران صاحب کو قتل کیا ہے تو مجھے آپ پر حیرت ہے کیونکہ میں تو دفتر کے کام سے دہلی گیا ہوا تھا اور ابھی لوٹا ہوں۔ایئر پورٹ سے سیدھا دفتر آ رہا ہوں۔مجھے تو دفتر پہنچ کر پتا چلا کہ کسی نے کامران صاحب کو ختم کردیا ہے اور پھر جس رات کامران صاحب قتل ہوئے، اسی رات کی پروازسے میں دہلی چلا گیا تھا۔میرا جہاز دو بجے اڑا تھا اور کامران صاحب تین بج کر دس منٹ پر۔۔۔میرا مطلب ہے،میں اس وقت جہاز میں تھا جس وقت یہ سب کچھ ہوا ہے۔بھلا میں کس طرح۔۔۔۔۔؟“
انسپکٹر نے گھور کر دیکھا اور کہا:” تمہیں کس طرح پتا چلا کہ کامران کی موت تین بج کر دس منٹ پر ہوئی تھی؟“
”جی،میں۔۔۔میں نے کسی کو ابھی دفتر میں کہتے سنا تھا کہ ان کی گھڑی تین بج کر دس منٹ پر بند ہوگئی تھی۔“سکندر نے جواب دیا۔
انسپکٹر فرحان نے اسے کمرے سے باہر بھیج دیا اور سیٹھ احمد سے کہا:
”سکندر کودہلی بھیجنے کا فیصلہ کب ہوا تھا؟“
سیٹھ احمد نے جواب دیا:” میرا خیال ہے ایک ہفتے پہلے، لیکن بھلا اس بات کا اس ساری تفتیش سے کیا تعلق ہے؟“
انسپکٹر نے کہا:” بہت گہرا۔آپ یہ بتائیے کہ کامران کے ملک واپس آنے سے پہلے کاروبار کی زیادہ ذمے داریاں سکندر ہی پر تھیں نا؟“
”جی ہاں،سب آپ کو بتا چکا ہوں۔“
”اچھا اور آج کل زیادہ تر کام کامران نے سنبھال لیا تھا؟“انسپکٹر نے پوچھا۔
”جی بالکل،یہی کوئی ایک مہینے سے۔“
”کامران کی دراز کی چابیاں اور الماری وغیرہ کی چابیاں کہاں ہیں؟“
سیٹھ احمد نے کہا:” کامران کی عادت تھی کہ وہ اپنی درازوں وغیرہ کی چابی اپنی کار کی چابیوں کے ساتھ ہی ایک چھلے میں رکھتا تھا، لیکن اس کی کار کے نہر میں ڈوب جانے سے شاید وہ چابیوں کا چھلا بھی ڈوب گیا، لیکن آپ یہ سب کچھ کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
”کیا گاڑی اور دفتر کی چابیاں ایک ہی چھلے میں تھیں؟“
”ہاں ہاں،لیکن اس بات کا سکندر سے کیا تعلق ہے؟“
”مجھے سکندر پر شبہ ہے۔“انسپکٹر نے جواب دیا۔
”سکندر پر۔۔۔؟“سیٹھ احمد نے کہا۔
”ہاں،میں نے کامران کے دوست سے جب پوچھ گچھ کی تھی تو پتا چلا تھا کہ اس رات اس کے گھر سکندر، کامران سے ملنے پہنچا تھا لیکن اس نے ابھی جو ہم سے بات چیت کی ،اس میں اس بات کا ذکر نہیں کیا۔کیوں؟اگرچہ میں نے ایئرپورٹ جاکر ریکارڈ چیک کیا تھا اور یہ صحیح ہے کہ سکندر اسی رات دو بجے کی پرواز سے روانہ ہوا تھا لیکن اس نے اپنی گفتگو میں خاص طور پر تین بج کر دس منٹ پر کامران کی گھڑی بند ہونے کا ذکر کیا۔اس سے میرا اس پر شک بڑھ گیا ہے۔پھر یہ کہ گاڑی کی چابی کے ساتھ دفتر کی چابی کا ہونا اور گاڑی سے چابی کا غائب ہونا کچھ معنی رکھتا ہے۔دیکھیے نا،یہ ایئرپورٹ سے سیدھا دفتر آیا ہے۔اس کو معلوم نہیں تھا کہ آپ اس وقت دفتر میں ہوں گے کیوں کہ آپ یہاں اچانک آئے ہیں۔“
”بھئی جب گاڑی پانی میں ڈوبی ہوگی تو چابی نکل کر کہیں گر گئی ہوگی۔“سیٹھ احمد نے کہا۔
فرحان نے بتایا:” نہیں جناب! کامران کی گاڑی کے اگنی شن کو میں نے غور سے دیکھا تھا۔وہ کچھ اس طرح کا بنا ہوا ہے جیسا کہ آج کل کی جدید گاڑیوں میں ہوتا ہے،یعنی اس میں سے چابی اس وقت نہیں نکل سکتی جب گاڑی سٹارٹ ہو۔چابی نکالنے کے لیے پہلے انجن کو بند کرنا پڑتا ہے۔گاڑی کا انجن رکے گا تب ہی چابی نکلے گی۔“
”اس کا کیا مطلب ہوا؟ “سیٹھ احمد نے پوچھا۔
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ گاڑی کو کسی نے بند کرکے چابی نکال لی اور پھر دروازہ بند کر کے اسے پانی میں دھکیل دیا کیونکہ اس کو دفتر کی
چابی کی ضرورت تھی جو کہ اسی چھلے میں لگی تھی جس میں گاڑی کی چابی تھی۔“
”لیکن کوئی دفتر کی چابیاں لے کر کیا کرے گا؟“
اسی لئے تو میرا ذہن دفتر کے کسی آدمی مثلاً سکندر کی طرف جاتا ہے۔بہرحال آپ گھر جائیے اور دفتر کی ساری چابیوں کی نقل (ڈوپلیکیٹ) مجھے دے دیجئے اور ہاں چوکیدار کو چھٹی دے دیجئے۔آدھے گھنٹے بعد سکندر کو گھر بھیج کر خود بھی چلے جائیے۔“
فرحان نے چابیاں لے کر اپنے پاس رکھ لیں اور مزے سے ٹہلتا ہوا دفتر سے باہر آگیا۔
تھوڑی دیر بعد سکندر دفتر سے نکلا اور ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔چوکیدار پہلے ہی جا چکا تھا۔سیٹھ احمد باہر آئے۔انہوں نے دفتر کے باہر کے دروازے کا تالا بند کیا اور چابی لے کر روانہ ہوگئے۔پندرہ بیس منٹ بعد انسپکٹر فرحان اپنے اسسٹنٹ جاوید اور چند سپاہیوں کو لے کر دفتر پہنچا۔فرحان نے سپاہیوں کو وہیں رکنے کی ہدایت کی اور جاوید کو لے کر دفتر کا دروازہ سیٹھ احمد کی دی ہوئی چابی سے کھولا اور دونوں اندر جا کر چھپ گئے۔
رات ہو چکی تھی۔سپاہی بیزار ہو چکے تھے،لیکن ایک گاڑی کی روشنی دیکھ کر چوکنے ہوگئے۔گاڑی سیٹھ احمد کے دفتر کے باہر رک گئی۔اس میں سے ایک شخص نکلا جس نے چابی سے دفتر کا دروازہ کھولا اور آہستگی سے اندر داخل ہوگیا۔اندر جا کر اس نے ٹارچ کی روشنی میں ایک الماری کو چابی لگائی اور اس میں سے کچھ فائلیں اور رجسٹر نکالے۔ابھی وہ انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ کسی نے بتیاں روشن کر دیں۔وہ شخص تیزی سے مڑا۔انسپکٹر فرحان اور جاوید کھڑے تھے۔وہ شخص کوئی اور نہیں سکندر تھا لیکن فوراً ہی اس نے خود پر قابو پا لیا۔
”کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں سکندر صاحب! “انسپکٹر فرحان نے پوچھا۔
”میں دفتر کے کام سے آیا ہوں۔ میری غیر حاضری میں کام جمع ہوگیا تھا۔میں نے سوچا کہ رات میں بیٹھ کر کر ڈالوں۔“اس نے اعتماد سے جواب دیا۔
”آپ نے اندھیرے ہی میں کام کرنے کی عادت ڈال رکھی ہے کیا؟“
”میرا خیال تھا کہ بجلی گئی ہوئی ہے۔“
”بتی جلائے بغیر ہی آپ نے یہ فرض کرلیا۔جب کہ پورے علاقے میں روشنی ہے۔دوسری بات یہ کہ آپ کے پاس دفتر کی چابی کہاں سے آئی؟“
فرحان نے اس کے ہاتھ سے چابیوں کا گچھا لے لیا۔ اس میں سے ایک چابی الگ کرکے دکھائی اور کہا:” یہ چابی آپ کی ہے؟“
”جی۔۔۔؟جی یہ چابی۔۔۔؟“سکندر پریشان ہوگیا۔
”کہہ دیجئے کہ آپ کی گاڑی کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ چابیاں کامران کی تھیں جو اس کی گاڑی کو پانی میں دھکیلنے سے پہلے آپ نے نکال لی تھیں تاکہ اس گچھے میں موجود چابیوں کی مدد سے آپ دفتر کی فائلیں اور رجسٹر نکال کر ان کو غائب کر سکیں۔غالباً آپ نے بہت بڑے گھپلے کیے ہوئے ہیں اور کامران کی وطن واپسی کے بعد اس نے کاروبار سنبھالا تو ا سے احساس ہوگیا ہوگا کہ آپ نے کچھ گڑبڑ کی ہے، اسی لئے آپ نے اسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔“
سکندر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا،پھر بولا:” لیکن کامران تو تین بج کر دس منٹ پر۔۔۔۔میرا مطلب ہے میں تو دو بجے کی پروازسے اسلام آباد جا چکا تھا ۔“
انسپکٹر فرحان نے مسکرا کر کہا:” یہی تو تمہارے منصوبے کا سب سے اہم حصہ تھا۔اگر تم قتل کے وقت اپنی موجودگی کہیں اور ثابت کر دو تو دنیا کی کوئی عدالت تمہیں اس قتل کا مجرم قرار نہیں دے سکتی۔اصل میں تم نے یہ کیا کہ کامران کی گاڑی کا پیچھا کیا۔اسے راستے میں روک لیا۔چونکہ وہ تم سے واقف تھا،اس لیے رک گیا۔تم نے اس کے سر پر پیچھے کی طرف کسی وزنی چیز غالباً پستول کے دستے سے چوٹ لگائی۔ اس طرح وہ بے ہوش ہوگیا۔پھر تم نے اس کی گھڑی میں تین بج کر دس منٹ بجا دیے،حالانکہ اس وقت بارہ بجے تھے۔پھر تم نے پیچ کس سے اس کی گھڑی کا شیشہ توڑنا چاہا تاکہ وہ پانی میں بند ہوسکے،کیوں کہ تمہیں پتا تھا کہ اس کی گھڑی واٹر پروف ہے اور وہ پانی میں بند نہیں ہوگی،لیکن غلطی سے پیچ کس کامران کی کلائی پر لگ گیا۔تم نے پیچ کس وہیں چھوڑ دیا جو ہمیں بعد میں مل گیا۔اس پر کسی کی انگلیوں کے نشان نہیں ہیں،تم نے یقینا دستانے پہن رکھے تھے۔اس کے بعد تم نے اس کی کلائی سے گھڑی اتاری اور کسی چیز غالباً پتھر سے اس کا شیشہ تڑخادیا اور پھر بے ہوش کامران کو نہر میں پھینک دیا۔اس کے بعد تم نے کامران کی گاڑی اسٹارٹ کی ۔اس وقت گاڑی کا منہ نہر کی طرف تھا۔نہر کے بالکل قریب پہنچ کر تم نے گاڑی روکی ،چابی نکالی اور گاڑی کا دروازہ بند کرکے پانی میں دھکیل دیا،لیکن تم نے یہ نہیں سوچا کہ شیشے اور دروازے بند ہیں۔تمہیں پتا تھا کہ اس چھلے میں دفتر کی چابیاں بھی ہیں ،اسی لیے تم دہلی سے واپسی کے بعد ائیر پورٹ سے سیدھے دفتر پہنچے تاکہ یہ فائلیں اور رجسٹر غائب کر سکو۔اس طرح تمہاری بے ایمانیوں کا سراغ ختم ہوجاتا،لیکن اس وقت اتفاقاً میں اور احمد صاحب دفتر میں موجود تھے،اس لیے تم چپ چاپ چلے گئے اور اب آئے ہو،رات کے وقت،کیوں کہ تمہیں پتا تھا کہ احمد صاحب نے چوکیدار کو چھٹی دے دی ہے،لیکن دراصل یہ مشورہ انہیں میں نے ہی دیا تھا۔تمہیں دہلی بھیجنے کا فیصلہ ایک ہفتے پہلے ہوا تھا،لہٰذا تمہارے پاس اس منصوبے کے لیے کافی وقت تھا،اگر تم اچانک بھیجے جاتے تو شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ویسے کامران کی گاڑی کی چابی تمہارے پاس سے نکلنا ہی کافی ثبوت ہے۔“
سکندر نے چپ چاپ سر جھکا لیا اور جاوید نے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top