skip to Main Content

سبق

عبدالرشید فاروقی

……….

وہ سر جھکائے کاپی پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ قدموں کی آہٹ سن کر اُس نے گردن گھماکر دیکھا۔ اُس کے پیچھے امی کھڑی تھیں۔ اُن کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھ کر وہ جلدی سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا:
”امی! آپ……آپ کیوں آگئیں؟“
”بیٹا! میری تین آوازیں سن کر بھی جب تم نہ آئے تو مجھے چل کر تمھارے پاس آناپڑا اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ ٹھیک ہے، تم اب بڑے ہوگئے ہو لیکن مجھے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے تمھاری ضرورت ہمیشہ رہے گی۔“
”میری ہی کیوں …… ریحان بھی تو ہے۔ آپ اُسے کسی کام کے لیے مارکیٹ نہیں بھیجتیں …… کیوں؟“ اُس نے قدرے اُونچی آواز میں کہا۔
”اِس لیے کہ وہ ابھی چھوٹا ہے۔ اُسے چیز خریدنی نہیں آتی ہے۔“ امی نے آہستہ سے کہا۔
”چھوٹا…… ہونہہ!“ اُس نے بُرا سا منہ بنایا۔
”بیٹا! میں دیکھ رہی ہوں، تم میرے پڑھائے ہوئے سبق بھول رہے ہو اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اگر تم نے خود کو نہ بدلا تو ایک دن بہت پچھتاؤ گے، یاد رکھنا میری بات۔“
جب وہ چھوٹا تھا تو اُن کے چھوٹے چھوٹے کام بھاگ بھاگ کر کیا کرتا تھا۔ میٹھے لہجے میں بات کرتا تھا۔ اُن کی سمجھائی، سکھائی اچھی اچھی باتوں کو یاد رکھتا تھا۔ اُن پر عمل بھی کرتا تھا۔ اِس لیے وہ نا صرف اُن کے دل میں بستا تھابلکہ گلی محلے میں بھی ہر دل عزیز تھا لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُس میں منفی بدلاؤ کو وہ صاف محسوس کر رہی تھیں۔
”امی جان! میں کون سی اچھی باتوں کو چھوڑ رہا ہوں؟“ اُس نے پوچھا۔
”کئی بار بتا چکی ہوں ……“ اُنھوں نے آہستہ سے کہا۔
”اوہ امی……آپ بھی نا …… اچھا بتائیں، کیا کام ہے۔“ اُس نے ہاتھ میں پکڑی کتاب نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
امی نے نظر بھر کر اُسے دیکھا اور واپس جانے کے لیے پلٹیں تو وہ جلدی سے اُن کے سامنے آگیا:
”امی! آپ بہت جلد ناراض ہوجاتی ہیں۔“
”بیٹا! مائیں ناراض نہیں ہوتیں، کبھی نہیں ہوتیں ……“ اُنھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئیں۔ وہ اُن کے پیچھے لپکا۔

O

”اللہ کے لیے مجھے چھوڑ دو۔ میں گھر جانا چاہتا ہوں۔“ ارشی آنکھوں میں آنسو لیے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔
اُس کے سامنے کھڑے شخص نے زور سے قہقہہ لگایا اوربولا:
”ہم نے تمھیں چھوڑنے کے لیے تو نہیں باندھا تھا۔ سنو!اس وقت تم جس جگہ مضبوط رسّی سے بندھے ہوئے پڑے ہو، یہ بہت خوف ناک جگہ ہے۔ تم ہمارے قبضے میں ہو۔ جانتے ہو، ہم کون ہیں؟“
وہ کچھ نہ بولا۔
”ہم وہ ہیں جن سے موت بھی آنکھیں چراتی ہے۔ تم رو کر ہمارے دل نرم نہیں کر سکتے۔ ہم بہت سنگ دل ہیں۔“ خوف ناک شکل والے آدمی نے کہا۔
”دیکھو! تم مجھے چھوڑ دو۔“ اُس نے التجا کی:
”میں اپنے ابا جان سے تمھیں بہت سی دولت لے دوں گا۔ بس تم مجھے چھوڑ دو۔“
”دولت……ہا ہا ہاہا…… تم سمجھتے ہو، ہم دولت کے بدلے تمھیں چھوڑ دیں گے۔ ہرگز نہیں، ہم تمھیں سزا دے کر رہیں گے، سمجھے!“ خوف ناک شکل والے آدمی نے کہا اور پھر اپنے دوسرے ساتھی سے مخاطب ہوا:
”رحمت! اِسے درخت کے ساتھ اُلٹا لٹکا دواور کم از کم پچاس کوڑے مارو۔“
ارشی کو درخت کے ساتھ اُلٹا لٹکا دیا گیااوراُسے کوڑے مارے جانے لگے۔پچاس کوڑے پورے ہوئے تو کہا گیا:
”اَب اِسے نیچے اُتارو اور اِس کے زخموں پر مرہم لگا دو تاکہ یہ صحیح ہوجائے اور ہم اِسے اگلی سزا دے سکیں ……“
ارشی بے ہوش ہو چکا تھا۔ اُس کا جسم لہولہان ہو رہا تھا۔ اُسے درخت سے اُتارا گیا۔ خوف ناک آدمی نے اُس کے جسم پر عجیب، سبز رنگ کی مرہم لگا دی۔ مرہم کا اَرشی کے جسم پر لگنا تھا کہ اُسے یک دم ہوش آ گیا۔ اُس نے ہوش میں آتے ہی محسوس کیا کہ اُس کا پورا جسم سلامت تھا۔ کوئی دَرد نہیں تھا۔ وہ حیران رہ گیا۔ اُدھر خوف ناک آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
”اِس مرہم نے تمھارے زخم مندمل کر دیے ہیں۔تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ چلو! اَب اگلی سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔“ خوف ناک آدمی نے کہا اور اپنے ساتھی سے بولا:
”رحمت! آگ جلاؤ۔ ہم اَب اِسے آگ پر لٹکائیں گے۔“
”جی بہتر!“ رحمت نے کہا اور پلک جھپکنے میں، اُس نے اپنے ساتھی کے حکم کی تعمیل کر دی۔ اب وہاں خوف ناک آگ روشن تھی۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ اَرشی کو ایک بار پھر درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔ اُس کے نیچے آگ روشن تھی۔ اُس کی چیخیں جنگل میں گونجنے لگیں۔پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔ وہ جیسے ہی بے ہوش ہوا، اُسے درخت سے اُتار لیا گیا۔ خوف ناک آدمی نے آگ کی جانب اُنگلی سے اشارہ کیا تو وہ فوراً بجھ گئی اور پھرسب کچھ غائب ہو گیا۔اَرشی کو ایک بار پھر ہوش میں لایا گیا۔
”یہ سب کیا ہے؟تم مجھے سزا دیتے ہو، میں فوراً ٹھیک ہو جاتا ہوں۔ یہ کیا ماجرا ہے، تم مجھے بتاتے کیوں نہیں؟“وہ ہوش میں آتے ہی چیخنے لگا۔ اُن کے چہروں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”سنو! تمھیں بار بار سزا دی جا رہی ہے اور ابھی مزید سزائیں دی جائیں گی۔“ رحمت مسکر ا رہا تھا۔
”لیکن کیوں، میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟“ ارشی رونے لگا۔
”تم نے کیا بگاڑا ہے۔ ہاں بھئی رحمت!اِسے بتاؤ، اِس نے ہمارا کیا بگاڑا ہے۔“ خوف ناک آدمی نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”تم نے ہمارا بہت کچھ بگاڑا ہے۔“ رحمت ہنسا۔
”غلط کہتے ہو تم، میں تو تم لوگوں کو جانتا بھی نہیں ہوں۔ مجھے اِتنا معلوم ہے کہ میں اِس جنگل میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا تھا۔ تم لوگوں نے پکڑ لیا اور ……“
”اَرشی!تم ہمیں بہت اچھی طرح جانتے ہو۔“
”اوہ! تو تم میرا نام بھی جانتے ہو!“ اُس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ہم تمھیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔“ رحمت نے کہا۔
”لیکن میں تمھیں نہیں جانتا۔“
”اِسی بات پر تو ہم تمھیں یہ سزائیں دے رہے ہیں۔“ خوف ناک آدمی نے کہا۔
”کیا مطلب!!!“ اَرشی زور سے اُچھلا۔
”ارشی! تم ہمارا نام جانتے تھے۔ بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ جب تک تم نے ہمارا نام یاد رکھا، خوش رہے۔ لوگ تمہاری عزت کرتے تھے۔ تم سے ہر کوئی خوش تھا لیکن جب سے تم ہمیں بھولے ہو، لوگ تم سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ سب تم سے ناراض ہو گئے۔ تم نے ہمیں یہاں تک فراموش کیا کہ ہمارے نام تک بھول گئے۔ چناں چہ ہمیں حکم ہوا کہ تمھیں سزا دی جائے۔ سو تم دیکھ رہے ہو، ہم تمھیں کیسی کیسی سزائیں دے چکے اور اب اور بھی دیں گے۔ اب جو سزائیں تمھیں دی جائیں گی، وہ تم برداشت نہیں کر سکو گے۔“ خوف ناک شکل والے نے کہا۔
اَرشی گہری سوچ میں گم تھا۔ وہ یقینا کچھ سوچ رہا تھا۔
”ارے!…… کہیں تم میرے دشمن فیاض اور عرفان کے آدمی تو نہیں ہو؟“ارشی نے چونک کر کہا۔
”تم غلط سمجھے۔ سنو! ہم خود بتاتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ میرا نام ’اخلاق‘ہے اور یہ ’تمیز‘ہے۔ تم جب سے ہمیں بھول کر’بداخلاق‘اور’بدتمیز‘ ہوئے ہو، لوگوں نے تمہاری عزت کرنا چھوڑدی ہے۔بد اخلاق اور بدتمیز لوگ دُنیا میں عزت پاتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں۔ اگر تم وعدہ کروکہ آج کے بعد بداخلاقی اور بدتمیزی سے دامن پاک کر لو گے تو ہم تمھیں معاف کر سکتے ہیں۔“خوف ناک آدمی نے کہا اور پھر اچانک اُس کا چہرہ نہایت ہی خوب صورت ہو گیا۔ یہ دیکھ کراَرشی حیران رہ گیا۔
”تم نے جواب نہیں دیا۔“وہ مسکرا رہا تھا۔اَرشی نے ایک لمحے میں جیسے فیصلہ کرلیا:
”میں وعدہ کرتا ہوں، لوگوں سے ہمیشہ اخلاق اور تمیز سے بات کروں گا۔ بداخلاقی اور بدتمیزی کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دوں گا۔ ہاں! میں وعدہ کرتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے، ہم تمھیں معاف کرتے ہیں۔“ رحمت نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھروہ اپنے ساتھی کے ساتھ غائب ہوگیا۔ اَرشی حیران رہ گیا۔ اُسی وقت ایک چھوٹی سی کنکر اُس کے جسم سے ٹکرائی تو اُس نے چونک کر دائیں سمت دیکھا۔ اُس کے دوست ٹانگیں پھیلائے کھڑے تھے اور اُسے بُری طرح گھور رہے تھے:
”پاگل! تم یہاں آنکھیں بند کیے کھڑے ہو اور ہم تمھیں جنگل میں تلاش کررہے تھے۔“ وہ اُس کا دوست یاسر تھا۔
”کیا بتاؤں دوستو! امی کا دِیا سبق بھول گیاتھا۔ کسی نے مجھے یہاں اکیلا پاکر یاد کرا دیا ہے۔ شام ہو رہی ہے۔ ہمیں جلد از جلد گھروں کو لوٹنا ہے۔میری پیاری امی میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔“ اَرشی نے ہنس کر کہا اورتھوڑی دُور کھڑی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔اُس کے دوستوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر اُنھوں نے کندھے اُچکائے اور گاڑی کی طرف بھاگنے لگے۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top