skip to Main Content
فاتح عالم سکندراعظم

فاتح عالم سکندراعظم

محمود جمال

……………………….

سکندر مقدونیہ کے بادشاہ فلپس(عربی میں فیلقوس)کا بیٹا تھاجو موجودہ یونان کے خاصے بڑے حصے پرقابض تھا۔شاہ مقدونیہ نے ایتھنز،تھبیز(تھیوا)اور پیل یونس کے علاقے فتح کرکے متحدہ یونانی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔اسکی شادی تھریس کے شاہی خاندان کی ایک خاتون اولمپیاس سے ہوئی جس کے بطن سے ۳۵۶ قبل مسیح میں سکند اعظم پیدا ہوا۔
اولمپیاس بڑی رکھ رکھاؤ والی عورت تھی۔اس نے بیٹے کی تربیت میں خصوصی دلچسپی لی۔اگرچہ سکندر کی تربیت کیلئے کئی استاز مقرر تھے جو اسے جنگی تربیت اور دیگر علوم پڑھاتے مگر وہ خود ہومر کی لکھی ہوئی نظم’ایلیڈ‘کا شیدائی تھااور اس کا چرمی نسخہ ہر وقت اپنے پاس رکھتا۔وہ روزانہ سونے سے قبل اس کا مطالعہ کرتااور جنگجو ’ایکی لیز‘بن کر نامعلوم مہمات سر انجام دیتا۔اسی لئے وہ اپنے دوستوں میں ’ایکی لیز‘ کے لقب سے مشہور ہو گیا۔سکندر کے باپ نے اسکی خصوصی تربیت کیلئے مشہور فلسفی اور استاد ارسطو کو مامور کیا اور بطور خاص ‘میزا‘نامی جگہ پر ایک درسگاہ قائم کی جس میں سکندراور اس کے ہم مکتب لڑکوں کو تربیت دینے کا اہتمام کیا گیا۔
ارسطویقیناًاسے ایک عالم فاضل کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوگا مگر وائے قسمت،آنے والے حالات نے سکندر کو ایک ایسے جنگجو میں بدل دیا جس کے ہاتھوں ہزاروں لاکھوں انسان مارے جانے والے تھے۔
بہرحال سکندر کی نصابی و غیر نصابی تربیت جاری رہی۔ایک دن اسے فوراًواپس پہنچنے کا حکم ملا۔ سکندر جب باپ کے پاس پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک معرکے میں زخمی ہو گیا ہے اور اب امور سلطنت ٹھیک طریقے سے سرانجام دینے کے لائق نہیں رہا۔بادشاہ نے اسے مہر دی اور نائب السلطنت بنا دیا۔اس وقت سکند رکی عمرصرف تیرہ برس تھی۔اس بڑی ذمہ داری کا بوجھ پڑنے پر سکندر کی ماں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ جنگی مہمات کا آغاز کرے او ر اپنی حیثیت مضبوط بنائے۔
اس تجویز پر سکندرنے مقدونیہ کی سرحدوں کی نزدیک قبائلی علاقہ جات پر حملہ کیااور ’مائی ٹی‘قبیلے کے خلاف کامیاب مہم سرانجام دے کرواپس آیا۔اس فتح سے خوش ہو کراسکے باپ نے اسے رسالہ خاص کا سپہ سالار نامزد کر دیا۔کچھ عرصے بعدفلپس نے ایتھنزاور تھبیز کی ریاست کے خلاف’کائی رونیا‘میں جنگ کی اور فتح حاصل کرکے تھبیز پر قبضہ کر لیا۔واپس آکر اس نے فتح کی خوشی میں ایک جشن منانے کا اعلان کیا۔جب رات کو فلپس شاہی تقریب میں شرکت کی غرض سے جا رہا تھا،تو اس کے ایک محافظ نے خنجر سے اس پر حملہ کر دیا اور وہ شدید زخمی ہو گیا۔ہنگامی طور پر سکند رکو تلاش کرکے باپ کے پاس لے جایا گیا لیکن تب تک وہ راہی ملک عدم ہو چکا تھا۔جس وقت سکندر نے عنان حکومت سنبھالی اس وقت مقدونیہ کے خزانے میں فقط سترہ ٹیلنٹ کے برابر رقم موجود تھی جب کہ واجب الادا قرضہ تیرہ سو ٹیلنٹ تھا۔اس اعتبار سے خزانہ خالی تھا۔سکندر نے صورت حال کا جائزہ لے کرارد گرد کے قبائلی علاقوں پرحملہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے ملنے والے مال و دولت سے خزانہ بھرسکے ۔ان مہمات سے فارغ ہو کر سکندر نے ’کورنتھ ‘میں تمام یونانی ریاستوں کی مجلس طلب کی اور اس میں اپنے آپ کومتحدہ یونانی ریاستوں کا سربراہ تسلیم کروا لیا۔
دیوجانس کلبی سے ملاقات:

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورنتھ مجلس کے انعقاد کے موقع پر سکندر کی ملاقات مشہور فلسفی اور جذوب’دیوجانس کلبی (Diogenes)سے ہوئی ۔وہ عجیب شخص تھا اور اس سے عجیب تر اسکا حلیہ،بوسیدہ سے میلے کپڑے،داڑھی اور سر کے بال الجھے ہوئے،ہاتھ میں رسی اور رسی میں بندھا ہوا چار پہیوں والاپرانی وضع کا ایک صندوق جسے دھکیلتا وہ شہر کی گلیوں بازاروں میں گھومتا پھرتا۔کبھی کسی ویرانے میں درخت کے نیچے یا کسی کھنڈر کے سائے میں محو استراحت لیکن اس نے گھر نہیں بسایاکیونکہ دنیا داری کے لوازمات اسے پسند نہ تھے۔صندوق میں اس کی چند کتابیں اور کپڑے ہوتے۔سکندر سے اس کی ملاقات دل چسپ رہی۔ملاحظہ کیجئے:
سکندر جب اس سے ملنے پہنچا تو سردیوں کے دن تھے اور دیو جانس کلبی ایک جگہ دھوپ میں لیٹا ہوا تھا۔قریب ہی اس کا چار پہیوں والاصندوق رکھا تھا۔سکندر نے اپنا تعارف کرایا:’’میں سکندر ہوں،مقدونیہ کا بادشاہ۔‘‘
دیو جانس کلبی نے کہا’’اچھا!تو پھر؟‘‘
’’میرے لائق کوئی خدمت ہوتو بتائیے۔‘‘
’’تم نے دھوپ کو مجھ تک آنے سے روک رکھا ہے،سامنے سے ذرا ہٹ جاؤ۔‘‘یہ تھا دیو جانس کلبی کا جواب۔
تاریخی ٹرائے پر حملہ:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورنتھ کی مجلس کے بعد۳۳۴قبل مسیح میں جمعیت متحدہ یونان کی فوج لیکر’’ٹراے‘‘کی طرف نکل گیا۔مقصد ایشیائے کوچک(ترکی)کے اس شہر پر قبضہ کرنا اور ایرانی شہنشاہ دارا سوئم کی فوج کو مات دے کر یونان پر حملے کا بدلہ لینا تھا۔یہ وہی شہر تھا جس کا ذکر وہ ہومر کی کتاب’ایلیڈ‘میں پڑھا کرتا تھا۔آج وہ خود اس کہانی کے ہیرو’ایکی لیز‘کے کردار میں اس شہر کے سامنے کھڑا تھا۔
سکندر نے بڑی آسانی سے ٹرائے پر قبضہ کر لیا۔سکندر نے اہل شہر کو محاصل دینے سے معافی دی۔شہر کے گرد حفاظتی فصیل کو تعمیر کیااور اسے خراج سے مستثنیٰ قراردیا۔ٹراے کے بعد سکندر نے مزید پیش قدمی جاری رکھی اور دریائے گرینی کس کے کنارے پہنچاجہاں ایرانی فو ج موجود تھی۔اب سکند رکا ایرانی فوج سے پہلا معرکہ ہوا۔جنگ تیز ہوا،بارش اور کیچڑ میں لڑی گئی اور ایرانی اس جنگ میں مات کھا گئے۔مقدونوی فوج کو بھی خاصے نقصان کا سامنا رہا۔سکندر پھر نئی حکمت عملی کے تحت ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا ایران کے شہر سارڈس کے سامنے نمودارہوا۔اس شہر کے گورنرنے سکندر کی آمد سے قبل شہر سے نکل جانے میں عافیت جانی۔شہر کے عوام نے پر جوش طریقے سے سکندر کا استقبال کیا۔
مقدونوی فوجیں آگے بڑھتی رہیں اور بحیرہ ایجین(Aegean)کے ایرانی علاقے میں موجود یونانی آبادکاروں کی بستیوں تک چلی گئیں۔یہ یونانی آ باد کار مختلف ادوار میں ایشیاے کوچک کے ان علاقوں میں آن بسے تھے اور ایرانی شہنشاہیت کے ما تحت تھے۔لیکن انہوں نے یونانی زبان، لباس اور رسوم ورواج کو نہیں چھوڑا ۔
اس دوران ’ہیلی کارنس‘کے قریب ایرانی سپہ سالار’میمنان‘کے ساتھ سکندر کا ایک معرکہ ہوا۔یہاں کے ایک بلند مقام پرایک عالیشان مقبرے میں جسے مسولیم کہا جاتا تھا، ایرانی شہنشاہ مسولس دفن تھا۔انگریزی لفظ’موزولیم‘(Mausoleum)اسی سے وجود میں آیا جس کے معنی عظیم مقبرے کے ہیں اوریہ ایرانی شہنشاہ’مسولس‘کے نام سے مشتق وموسوم ہے۔سکندر نے اس مقبرے کو محفوظ رکھااور شہنشاہ مسولس کی ایک بہن آڈایاادا کو ہیلی کارنس کی حکمران بنا دیا۔
متذکرہ بالا مقبرہ۳۷۰تا۳۵۱ق م کے درمیان تعمیر ہوااور ۱۵۲۲ء تک قائم رہا۔بعد ازاں زمین بوس ہوگیا۔۳۶ستونوں پر قائم چالیس فٹ اونچا یہ مقبرہ قدیم عجائبات میں شامل ہے۔آج اس کے چند پتھرہی اصل مقام پر موجود ہیں۔سکندر آگے بڑھا اور اس علاقے کے سب سے بڑے شہر گارڈیم پہنچا۔یہاں ایک ایسی چھکڑا گاڑی کھڑی تھی جس پر ایک رسے کو ایسی ہنر مندی سے گانٹھ دی گئی تھی کہ اسے کھولنا نا ممکن تھا۔
گانٹھ دینے والے نے رسے کے دونوں سرے اس طرح اندر کر دئیے کہ وہ دکھا ئی نہ دیتے تھے۔سکندر نے اسے کھولنے کی کوشش کی لیکن جب سرا نظر نہ آیا تو اپنی تلوارسے اسے کاٹ ڈالا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ سکندر نے گاڑی میں لکڑی کی ایک میخ نکال دی جس سے رسہ ڈھیلا پڑ کر کھل گیا۔مقامی لوگوں میں یہ روایت مشہور تھی کہ اس گانٹھ کو کھولنے والا ایشیائی کوچک کا شہنشاہ بنے گا۔سکندر کے اس عمل نے انہیں حیرت میں ڈال دیااور انہیں یقین ہو گیاکہ سکندر ہی فاتح عالم ہوگا۔
ایرانی شہنشاہ داراسے مقابلہ:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایشیائے کوچک میں سکندر کی پیش قدمی جاری رہی۔’اسوس‘کے مقام پر اسکاپہلی مرتبہ ایرانی شہنشاہ دارا سوئم کی فوج سے پالا پڑا۔دارا،ہنجامنشی خاندان کا آخری حکمران تھا۔ایک لاکھ سے زیادہ ایرانی فوج تنگ درے میں سکندر کا راستہ روکے کھڑی تھی۔سکندر نے جنگی چالیں چلتے ہوئے ایرانی فوج کو راہ فراراختیار کرنے پر مجبور کردیا۔اگر دارا اس جنگ میں ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے تھوڑی ہمت سے کام لیتا تویونانیوں کوبے حد نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھااور سکندر اتنی بڑی فتح آسانی سے حاصل نہ کر پاتا۔
جنگ کا پانسہ پلٹنے پر سکندر نے دارا کے مال واسباب پر قبضہ کر لیااور اس کے خاندان کی عورتوں کو حراست میں لے لیا،جن میں دارا کی والدہ،بیوی اور بچے بھی شامل تھے تاہم اس نے خواتین کو وہی مقام و مرتبہ دیا جودارا کے وقت انہیں حاصل تھااور ان سے کوئی بد سلوکی نہیں کی۔البتہ دارا کے امیر البحرمیمنان کی بیوی’برسین‘سے شادی کر لی۔سکندر جب شام کے ساحل پر موجود تھاتو اسے دارا کا سفیر ملاجس نے سکندر سے صلح کی شرائط مانگیں۔سکندر نے اس سے کہاکہ ایرانی شہنشاہوں نے مقدونیہ کے خلاف سپارٹا والوں کو بہکایا،دیگر ریاستوں کو بھی مقدونیہ کے خلاف بغاوت پر آمادی کیااور مدد کی لہٰذاشاہ ایران جہاں بھی جائے گا،وہ اسکا پیچھا کرے گا۔
سکندر پھر شام کے ساحل سمندر پر سفر کرتا ہوا’صور‘پہنچا۔جزیرہ نما پر آباد یہ شہرساحل سمندر سے کم و بیش نصف میل دور تھا۔صور کے باشندے محاصرے سے کچھ خوف نہ کھاتے تھے کیونکہ ی نہایت محفوظ تھا۔ اسکے ارد گرد پانی اور سمندری چٹانیں تھیں جبکہ اسکی دو بندر گاہیں مصر اور صیدا بھی قدرتی طور پر محفوظ تھیں۔
صور کی فتح:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر سے قبل شہنشاہ دارا نے بھی پندرہ سال تک اس شہر کا محاصرہ کئے رکھا تھا مگر تنگ آکر واپس چلا گیا ۔سکندر نے اپنے مہندسوں اور ماہر ارضیات کی مدد سے ایک عجیب کارنامہ انجام دیا۔وہ یہ کہ سمندر کے نصف میل راستے کو پاٹنے کا حکم دیا۔سخت محنت کے بعد یہ راستہ سمندر میں سڑک کی صوت اختیار کرتا گیا۔یہ راستہ ابھی فصیل سے دس گز پیچھے تھا کہ اہل شہر نے سخت مزاحمت کرنا شروع کردی مگر سکندر نے بحری اور بری،دونوں طور پر زبردست حملے کے جن کے نتیجے میں سات ماہ بعد صور فتح ہو گیا۔
یونانی فوجوں نے شہر میں داخل ہو کر قتل عام کیا۔اس معرکے میں آٹھ ہزار شہری ہلاک ہوئے اور تیس ہزار غلام بنا کر فروخت کر دئیے گئے۔قبضے کے بعد سڑک کو شہر تک تعمیر کیا گیا۔یوں یہ جزیرہ خشکی سے مل گیا۔آج بھی یہ شاہراہ صور(لبنان) میں مصروف سڑک کے طور پر موجود ہے۔سکندر نے صور میں موجود ہرقل(ہرکولیس)کے مندر میں قربانیاں کیں اور جشن منایا۔
غزہ(فلسطین )کی فتح:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صور کی فتح کے بعد سکندر نے فلسطین کی طرف پیش قدمی کی اور اس کے شہر غزہ کے باہر پڑاؤ ڈالا۔سکندر نے دو ماہ کے عرصے میں غزہ کو فتح کر لیا اور یہ فتح بھی سکندر کی ایک جنگی حکمت عملی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔اہل غزہ کے عدم تعاون کی بنا پرسکندر نے اپنے مہندس’ویاس‘کو حکم دیا کہ فصیل کے برابر ایک ڈھلان تعمیر کی جائے۔حکم کی تعمیل ہوئی اور ڈھلا کے نیچے سرنگیں بنائی گئیں۔یہ اڑھائی سو فٹ بلند ڈھلا ن جوں ہی فصیل تک پہنچی،فصیل گر گئی اور یونانی فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں۔شہر کے تمام مردون نے مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن ہلاک ہوگئے جب کہ عورتوں اور بچوں کا غلام بنا لیا گیا۔یہ ڈھلان جو کہ سکندر کی فتح کا عجیب کارنامہ تھی،اب صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔
مصرکی فتح:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطین کے بعد سکندر پیش قدمی کرتا ہو امصر پہنچا۔ اب تک اسکی بحری قوت میں بھی نمایاں اضافہ ہو چکا تھااور بحیرہ ایجین کے تمام جزائر اس کے اطاعت گزار بن چکے تھے۔سکندر نے مصر کے ساحل پر اپنے نام سے ایک شہر تعمیر کیا۔وہ’اسکندریہ‘کی تعمیر تک وہیں موجود رہااور اس شہر کوتجارتی اور عملی مرکز بنایا۔آج بھی اسکندریہ مصر کااہم بحری و تجارتی مرکز ہے۔
اب اسکندربحر روم کے علاوہ خشکی میں ایشیائے کوچک،شام،فلسطین اور مصر کے وسیع علاقے پر قابض ہوچکا تھا،اسی لئے اہل مصر نے سکندر کو فرعون کا خطاب دیااور فرعون ہی کی طرح اسکی پوجا کرنے لگے۔سکندر نے دفاعی نقطہء نظر کے تحت صور سے لیکر اسکندریہ تک جگہ جگہ دفاعی چوکیاں تعمیر کروائیں جن کے ذریعے تمام علاقوں کا ایک دوسرے سے رابطہ رہتا…..سکندر تمام علاقوں کی رپورٹیں وصول کرتا ،احکامات لکھواتا اور امور سلطنت سرانجام دیتا۔سکندر مصر میںآگے بڑھتا ہوا’ممفس‘گیا جہاں مندروں ،اہرام مصر اور فرعون کے مجسموں کے علاوہ مصریوں کے سب سے بڑے دیوتا’آمن راغ‘کے بڑے بڑے مجسمے تھے۔
جب سکندر واپس صور پہنچا تو شہنشاہ ایران کا وفد اسے ملااور دوہزار ٹیلنٹ کی رقم اور بیٹی کے رشتے کے عوض اسکے خاندان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔سکندر کے سپہ سالار’پارمینیو‘نے مشورہ دیا کہ یہ پیش کش قبول کر لی جائے مگر سکندر نے اتفاق نہ کیا اور وفد کا مطالبہ رد کر دیا۔۳۳۱ ق م کے موسم بہار میں سکندر نے فوج کو کوچ کرنے کا حکم دیا۔وہ اب ایران کے اندرونی علاقوں میں جاکر شاہ ایران کوختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکا تھا۔سکندر دمشق سے گزر کر شمال کی طرف مڑ گیا اور بابل جانے والی شاہراہ پر سفر کرتادریائے فرات کو عبور کرکے(اربیل کے قریب)’گاگامیلہ‘کے مشہور میدان میں جا نکلاجہاں شہنشاہ ایران کی فوج پہلے کھڑی تھی۔
داراسوئم سے دوسرا مقابلہ:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ایران کی فوج تعداد لاکھوں میں تھی جس میں تنخواہ دار یونانی فوجی ،ایرانی علاقوں کی فوجیں اور کرد علاقوں کی فوج بھی شامل تھی۔جب دونوں افواج میدان جنگ میں نبرد آزما ہوئیں،تو یونانی فوج کے ایک دستے نے لمبا چکر کاٹ کر شاہ ایران کے خصوصی دستے کے عقب پر حملہ کر دیا اس حملے سے دارا گھبر اگیا اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر میدان جنگ سے بھاگ نکلا۔اسکے میدان چھوڑنے سے ایرانی فوج بددلی کا شکار ہوئی اور شکست کھا گئی۔سکندر کو اس معرکے میں ایرانی خزانے کا بہت بڑا ذخیرہ ملا۔
سکندر دارا کا مسلسل تعاقب کرتا رہااور گاگا میلہ سے ۳۲ میل کے فاصلے پر واقع شہر اربیل پہنچا۔یہاں سکندر کو داراکاسنہری رتھ اور سنہری ترکش ہاتھ لگا۔اس نے نہایت سرعت سے ۳۲میل کا فاصلہ چوبیس گھنٹوں میں طے کیا تھا۔دارا تعاقب سے گھبرا کر اپنا رتھ چھوڑ کر بھاگ نکلا ۔اربیل موجودہ عراق کا مشہور شہر ہے جو ترکی کی سرحد کی نزدیک اور کردستان تحریک کا مرکزی شہر ہے۔اسے کردستان کا دارالخلافہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
بابل کی فتح:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر دارا کا تعاقب کرتاہوا بابل جا پہنچا۔یہاں اس نے دنیا کے ساتھ عجائبات میں سے ایک عجوبہ دیکھا یعنی بابل کے معلق باغات جو منزل بہ منزل زمین سے بلند چھتوں پر بنائے گئے تھے۔انکی تعمیر کا زمانہ سات سو قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے۔تحقیق کے مطابق یہ باغات بخت نصر نے اپنی بیوی’سیمی رامس‘ (Semiramis)کی تسکین قلب کے لئے تعمیر کروائے جو بعد ازاں عجائبات عالم میں شمار ہوئے۔
اب سکندر نے خود کو وادئ دجلہ و فرات کا نیاحاکم قراردیااور بابل کو مقامی سردار کی نگرانی میں دے کردارا کاپیچھا کرتے ہوئے ایرانی دارالحکومت ’شوش‘جاپہنچا۔مشہوررومی مؤرخ’ہیرالڈیم‘کے مطابق دارا کے زمانے میں سلطنت فارس(ایران)کے چار بڑے حکومتی مراکز تھے جو ایران کے چار دارالحکومت کہلاتے تھے۔ان میں ایک’ بابل ‘تھا، دوسرا’ شوش‘جا پہنچا۔مشہور رومی مؤرخ ہیرا لڈیم کے مطا بق دا را کے زمانے میں سلطنت فارس (ایران)کے چار بڑے حکو متی مرا کز تھے جو ایران کے چار دارالحکومت کہلاتے تھے۔ان میں ایک’بابل‘تھادوسرا’شوش‘جوان میں سب سے قدیم اورعیلامیوں کا مرکز تھا،تیسرا’ایکتبانہ‘(ہمدان)جو مادی قبیلے کا مرکز تھا اورچوتھاخوددارا کا تعمیر کرد ہ آخری اہم ترین دارالحکومت ’پرسی پولس‘۔آخر الذکردارالحکومت ایرانی شہر شیراز سے شمال کی طرف واقع تھا جس کے کھنڈر’تخت جمشید‘ کے نام سے آج بھی موجود ہیں۔
داراکاتعاقب:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر جب شوش پہنچاتو یہاں اسے شہنشاہ ایران کا عظیم الشان خزانہ ملا جس کی مالیت پچاس ہزار ٹیلنٹ تھی۔نیز یونانیوں کے مشہور کانسی کے بت بھی وہاں سے برآمد ہوئے۔ان بتوں کو شاہ فارس’زرکیسز‘یونان سے اس وقت اٹھالایا تھا جب اس نے یونان پر حملہ کیا تھا۔
سکندر دارا کا تعاقب کرتے ہوئے ایک ایسے تنگ پہاڑی درے میں جا نکلا جہاں سے فوج کا گزرنا بہت مشکل تھا۔ درے پر ایرانی فوج قابض تھی لہٰذا یہ راستہ سکندر کے لئے مسدود ہوگیا۔درے پر قبضے کی خاطر یونانی فوج نے ایرانیوں پر حملہ کیالیکن بے سود،تب مہم جو سکندر نے اپنی زندگی کا ایک اور حیرت انگیز فیصلہ کیا۔وہ فوج کے ہمراہ راتوں رات بارہ میل کا دشورا گزار سفر کر کے پہاڑی کے پہلو سے ہوتا ہوا صبح صادق کے وقت پہاڑی کے پار واقع دریاکے کنارے جا پہنچا۔
سکندر نے پھر اپنے مہندسوں کو دریا پر پل تعمیر کرنے کا حکم دیااور خود ایرانی فوج پر اس وقت جا پڑا جب وہ دریا کے کنارے پڑاؤ ڈال کر سو رہی تھی۔سکندر نے ان کے فرار کی راہ مسدود کردی اور خوب قتل عام کیا۔فتح کے بعد سکندر نے فوج کے ہمراہ دریا عبور کیاجس پر مہندسوں نے پل باندھ دیا تھا۔سکندر مسلسل سفر کر کے پہاڑی اور میدانی علاقوں سے ہوتا ہوا ایرانی بادشاہ کے تعمیر کردہ شہر’پرسی پولس‘ تک جا پہنچا۔
دریا سے شہر کا فاصلہ پینتالیس میل بیان کیا جاتا ہے جو سکندر نے بڑی سرعت سے طے کیا۔سکندر نے کسی بڑی مزاحمت کے بغیر ایران کے اس عظیم شاہی دارالحکومت پر قبضہ کر لیاکیونکہ دارا وہاں سے بھی فرار ہو چکا تھا۔
پرسی پولس نذرآتش:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر کی وہاں موجودگی کے وقت شاہی محل کے اندرونی مرکزی حصے میں جو شاہ ایران کے لئے مخصوص تھا، اچانک آگ بھڑک اٹھی جس نے اس کے کئی حصوں کو جلا کر رکھ کر دیا۔آگ لگنے کے بعد محل کی دیواروں پر موجود سونے چاندی کی ملمع کاری پگھل کر ندی کی صورت میں بہہ نکلی۔ایرانی آج بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس شہر بے مثال کو سکندر نے جلوایا تھا۔
تاریخی لحاظ سے یہ تو ثابت نہیں ہو سکاکہ آگ واقعی سکندر نے لگوائی تھی۔ لیکن بعض مؤرخین کے نزدیک ایرانی ٹھیک کہتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ جب دارا کے پیش رو ایرانی بادشاہ ’زرکیسز‘نے یونان پر حملہ کیاتو وہاں اس نے ایتھنزکے عظیم معبد یامحل(ایکروپولس)کو جلوا دیا تھا۔ہو سکتا ہے اس واقعے کی یادسکندر کے ذہن میں ہو اور اس نے اس کا بدلہ فارسیوں سے لینا چاہا ہو۔لیکن اسے محض قیاس پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔ویسے سکندر کی تمام فتوحات میں کسی جگہ آگ لگوانے کا صرف یہی واقعہ ہے۔
سکندر کم و بیش دوماہ تک’پرسی پولس‘ٹھہرا رہا اور اس نے شہر میں موجود سائرس یا کورش کے مقبرے کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا۔موسم سرما کے بعد سکندر دارا کے تعاقب میں دوبارہ چل پڑا اورایران کے آخری دارالحکومت ایکتبانہ جا پہنچا۔یہیں سکندر کو اطلاع ملی کہ دارا کی فوج اسکا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔دارا سکندر کے خوف سے مشرقی سمت بھاگ گیا۔اب سکندر نے بھی اپنے تعاقب میں شدت پیدا کیاور دارا کو آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔اس تعاقب کی روداد لکھتے ہوئے ہیرالڈلیم نے لکھا ہے کہ سکندر نے تین سو میل کا فاصلہ فقط گیارہ دنوں میں طے کر لیاتھا۔راستوں کی راہنمائی کیلئے اسے ایرانی مجوسیوں کی مدد حاصل تھی۔اس مسلسل تعاقب اور مشقت نے سکندر کے سینکڑوں گھوڑوں کو ناکارہ کیا۔فوجیوں کو تھکا ڈالا لیکن سکندر نے سفر کی تیزی میں کمی نہ آنے دی۔شدید تھکا وٹ کے وقت وہ فوج کو چند گھنٹے آرام کا موقع دیتااور پھر سفر جاری کر دیتا۔اس سرعت کا یہ نتیجہ نکلا کہ دارا اور سکندر کے درمیان صرف بیس گھنٹے کا فاصلہ رہ گیا۔
داراکاانجام:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر تعاقب کرتا ہواایک صحرا میں جا نکلا جہاں اسے پانی کی شدید قلت اور دھوپ کی تمازت نے بے حد پریشان کیا۔وہ صحرا میں سفر جاری رکھتے ہوئے عصر کے وقت ایسی جگہ پہنچا جہاں اسے دور فضا میں گرد و غبار کے بادل اٹھتے دکھائی دئیے۔یہ اس بات کا ثبوت تھاکہ مفرور ایرانی بادشاہ اب چند میل کے فاصلے پر ہے۔دارا نے جب ہمدان سے راہ فرار اختیار کی،تب اس کے ساتھ تنخواہ دار یونانی فوج کے علاوہ ایرانی دستے بھی تھے جو راستے میں اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔اب دارا نہایت مختصر فوج کے ساتھ سکندر کے آگے بھاگ رہا تھا۔
جب سکندر کودھول کے بادل نظر آئے ،اس وقت تک سکندر کو صحرامیں سفر کرتے ہوئے پچاس گھنٹے گزرچکے تھے۔سکندرتیزی سے دھول کی سمت بڑھا۔کچھ آگے چل کر اسے ایک چھکڑا ملا جس پر نہ تو کوئی گاڑی بان تھا اور نہ ہی کوئی سوار۔جب اسے روک کر دیکھا گیا،تو اندر سے دارا کی لاش بر آمد ہوئی جسے اس کے اپنے ہی فوجیوں نے ہلاک کرکے گاڑی میں بے آسراوبے سہارادھکیل دیا تھا۔سکندر کو توقع نہ تھی کہ ہمدان سے ’باب قزوین‘(Caspian Gate)تک کے تعاقب میں اسے دارا کی بے آبرو لاش ملے گی۔بہرحال سکندر واپس ہمدان آیا اور حکومتی انتظامات سنبھال کر اپنی نئی ذمہ داریوں میں کھوگیا۔سکندرکو ہمدان سے خزانے کی صورت میں ایک لاکھ اسی ہزار ٹیلنٹ ملے ۔یہ رقم موجود ہ دورکے حساب سے کھربوں ڈالر بنتی ہے۔
سکندر نے ہمدان میں بیٹھ کر سائرس اعظم کے طرز پر نظام حکومت تشکیل دیا اور خودکو شہنشاہ فارس کالقب دے کر یونانی رسم و رواج کے ساتھ ایرانی بود وباش اختیار کر لی۔اس نے مقدونیہ میں اپنی ماں کے پاس تحائف بھجوائے۔حکومت کے نگران،اینٹی پیٹر کوہدایات دیں اور اپنے استاد ارسطو کے لئے جنگلی حیات اور نباتات کے نمومے روانہ کئے۔سکندر نے مقامی مذاہب اور رسوم و رواج کو مکمل آزاد ی دی اور جو مقدونوی فوجی چھٹیاں گزارنے یا واپس جانے پر مصر تھے،انہیں انعام و اکرام دے کر رخصت کیا اور خود نئی فوج کی تیاری اور آئندہ مہمات کی منصوبہ بندی میں لگ گیا۔
اس نے بحری راستوں کو مضبوط کیا ،جہاز رانی کوترقی دی اور بحیرہ روم اور بحرہ قلزم میں سمندری تجارت اور سفر کے راستوں کو محفوظ بنایا۔ساتھ ساتھ تہذیبی اور معاشرتی ترقی کی خاطر یونان سے آنے والے یونانیوں اور مقامی ایرانیوں کو باہم میل ملاپ کا موقع دیا اور ان کے تمدن کو مشترکہ رنگ دینے کی کوشش کی۔
اس دوران سکندر مین بہت سی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔مثلاً اس میں چڑچڑا پن عود کر آیا۔وہ تعریف کا خواہاں رہنے لگااور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا قائل نہ رہا۔انہی عوامل کے باعث اس نے اپنے وفادار سپہ سالار’پارمینیو‘کے بیٹے فلوٹس کو ہمدان میں قتل کردیاجس نے ایک موقع پر سکندر کی مخالفت کی تھی اور پھر جلد ہی اس کے باپ کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔
بیوکفالہ کا اغواء:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں کے اختتام پر سکندر نے اپنی فوج از سر نو ترتیب دی۔اس فوج میں ایرانی اور مقدونوی رسالوں کے علاوہ تنخواہ داریونانی فوجی بھی شامل تھے۔سکندر اپنی فوج کے ہمراہ بحیرہ قزوین کے جنوبی کنارے پہنچ گیا۔وہاں سے وہ استرآباد یا جرجان کی سرزمین پر اترا۔یہاں ایک دن سکندر کے چہیتے گھوڑے ’بیوکفالہ‘اور اس کے سائیس کو مقامی افراد اغوا کرکے لے گئے۔سکندر کو اس صورت حال پر بہت غصہ آیا۔ اس نے مقامی سرداروں کو گھوڑے اور سائیس کی واپسی کے پیغام بھیجے اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں جن کا اثر یہ ہوا کہ قبائلیوں نے بیوکفالہ سائیس سمیت واپس کردیا۔
سدذوالقرنین:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیرالڈلیم کے مطابق سکندر وہاں سے دربندگیا،جہاں دو پہاڑوں کے درمیانی درے پر ایک بڑی سی دیوار بنی ہوئی تھی جسے سد ذوالقرنین کہاجاتاہے۔روایت ہے کہ اس دیوار کو شہنشاہ سائرس یا’کوروش‘نے تعمیر کیاتھا۔اس دیوار کاذکرذوالقرنین کے نام کے ساتھ قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔یہ جگہ درۂ دانیال کے اوپرقفقاز(کوہ قاف)میں واقع ہے۔موجودہ تحقیق کے مطابق وہاں بعض ایسے قبائلی باشندے دریافت ہوئے ہیں جو اپنا سلسلہ نصب سکندر اعظم کی فوج میں شامل سرداروں سے جوڑتے ہیں۔
افغانستان میں آمد:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعدشمالی افغانستان کے ایسے علاقے کی طرف جا نکلا جہاں کے قبائلیوں میں اسے وہ دو افراد بھی مل گئے جنہوں نے شہنشاہ دارا کو قتل کیاتھا۔سکندر نے ان کو سزائے موت کا حکم سنایااور ان کی کھال اتروادی۔سکندر کی پیش قدمی جاری رہی اور وہ افغانستان کے شہرہرات پہنچا۔تب اسے ہرای کے نام سے یاد کیاجاتا تھا اور اس میں تجارت پیشہ مجوسی آباد تھے۔سکندر نے اس شہر کی از سر نو تعمیر کی اور اسے سکندریہ کا نام دیا۔ہرات اب افغانستان کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔سکندر وہاں سے جنوبی سمت بڑھتا ہوا ہلمند جھیل کے کنارے جا پہنچا۔یہاں سے مقامی رہنماؤں اور ماہرین ارضیات کی مدد سے ایک شاہراہ پر سفر شروع کیاجو’پرسی پولس‘سے وادی سندھ تک جاتی تھی۔
سکندر آگے بڑھتا رہا اور فغانستان میں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی اوراسے بھی اسکندریہ ہی کانام دیا(اظہارذات کایہ طریقہ بھی خوب تھا)۔اس شہر کو آج کل قندھار کہتے ہیں۔آخر پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے وہ اس جگہ پہنچا جہاں اب کابل آباد ہے۔یہاں بھی سکندر نے حسب معمول اسکندریہ کے نام سے ایک شہر بسایا جو بعد میں کابل کہلایا۔گویا افغانستان میں تین اسکندریہ ہوگئے،جب کہ سکندر کے دیگر مفتوحہ علاقوں میں اور بھی کئی اسکندریہ تھے جن میں مصر کا اسکندریہ سب سے زیادہ مشہور ہوا۔سکندر پھرآگے چل کر شمال میں دریائے جیحوں تک پہنچا۔یہاں دریا عبور کرتے ہوئے سکندر کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی جو کئی ماہ کے بعد ٹھیک ہوئی۔
بعد میں باختری قبائل سے جنگ کے دوران اس کے سر پر بھی ایک پتھر لگا جس سے اس کی بینائی زائل ہوگئی۔جب سر پر لگنے والازخم بھرا،تب ہی اسکندرصحیح طرح دیکھنے کے لائق ہوا۔
سکندر وسطی ایشیا کے قبائل سے لڑتا بھڑتا،مار دھاڑ کرتا صحرائے’قزل قم‘ تک جا پہنچا جس کی مٹی زردی مائل، چکنی اورتودے سرخ رنگ کے تھے۔وہاں ہوا کا معمولی جھونکا بھی گرد وغبار کا طوفان کھڑا کردیتا۔سکندرکے ساتھ موجودکاہن کو یہ منظر بھلا نہ لگا اور اس نے اس کا برا شگون لیا۔تاہم سکندر نے اس کی بات کو در خور اعتنا نہ جانا اور اپنی مہم جاری رکھی۔وہ مشرق کی سمت پہاڑیوں میں جا نکلا جہاں اس کا واسطہ دریائے ریگ یعنی’دریائے سیحوں‘سے پڑا۔اسی کے کنارے سغدقوم کا بہت بڑا شہر مرکنڈ یعنی’سمر قند‘آبادتھا۔
مؤرخین بتاتے ہیں کہ سمرقند سے آگے جب سائرس اعظم نے ستھی قوم کو ختم کرنے کے لئے پیش قدمی کی،تو اسے بہت مشکل پیش آئی اور بالآخر وہ ستھیوں کے ہاتھوں ہی ختم ہو گیا…..لیکن سکندر سائرس کے انجام سے بے پرواآگے بڑھتاگیا۔اس نے نہ صرف مرکنڈ فتح کیا بلکہ ستھیوں کو بھی مطیع ہونے پر مجبور کردیا۔سکندر نے بعد ازاں دریائے سیحوں کے کنارے نیاشہر بسایاجو آج بھی ازبکستان میں موجودہے۔
ستھیوں کی سرکوبی کے بعد سکندر آگے بڑھا،تو ایک اور بڑاشہر منگین(تاشقند)سامنے آیا۔اسے فتح کرنے کے دوران سکندر زخمی ہوا اور اسے اسہال کی بیماری بھی لاحق ہوگئی۔شاہی طبیبوں نے کافی تگ و دو کے بعد تندرست کیا۔
روشنک(رخسانہ)کون تھی؟:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر نے پیش قدمی جاری رکھی ۔آگے بڑھاتو صحرائے سغد میں باختری قبائل کا ایک قلعہ سامنے آیا۔اس قلعے کی فتح نے سکندر کو ناکوں چنے چبوا دئیے اور وہ بڑی مشکلوں سے فتح ہوا۔سکندر جب قبیلے کے سردار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اسے ایک باختری لڑکی ملی جو سردار کی بیٹی تھی۔سکندر نے اس کے حسن و جمال سے متاثر ہوکر اس کا نام پوچھا۔اس نے اپنا نام رخسانہ بتایا(مولانا غلام رسول مہرکے مطابق لڑکی کانام رخسانہ نہیں بلکہ روشنک تھا جس کے معنی سورج کی بیٹی یا دختر نور کے ہیں۔دیگر تواریخ میں لڑکی کا نام رخسانہ درج ہے جسے یونانی اپنے لہجے میں روکسانہ(Roxane)کہتے تھے۔)سکندر نے اس باختری لڑکی سے شادی کرلی جس سے سکندرکا ایک لڑکا پیدا ہوا۔یہ عورت آخر تک سکندر کے ساتھ رہی۔قلعے کی تسخیر کے بعد جشن ہواجس کے دوران سکندر کے نہایت عزیز دوست کلائٹس نے سکندر سے کچھ گلے شکوے کئے اس پر طیش میں آکر سکندر نے اس پر برچھی سے وار کردیا۔وار سے کلائٹس کی جان لے لی۔سکندر بعد ازاں بہت رویا لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
وسطی ایشیا کو اپنامطیع بنا کر سکندر اب ہندوستان کی طرف بڑھا اور درہ خیبر کے راستے دریائے سندھ کے کنارے پہنچا۔کشتیوں کا پل تعمیر کروا کے دریا پار اترااور اترائی میں دریا کے ساتھ ساتھ سفر شروع کیا۔اس کا سفر جاری تھا کہ راجہ امبھی کی طرف سے سکندر کی خدمت میں ہاتھی اور دیگر تحائف بھیجے گئے۔یونانی اس دیو قامت جانور کو دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔یہیں یونانیوں نے پہلی مرتبہ بندر اور لنگور وغیرہ دیکھے۔سکندر نے اپنی فوج میں ہندوستانی جوگیوں اور ویدوں(حکیموں)کو بھی شامل کر لیا۔اس نے ہندوستان کے تمام جانور،ہاتھیوں کا ایک ریوڑ اور تمام پودوں کے نمونے مع ضروری تفاصیل کے ارسطو کو روانہ کئے۔
یونانیوں نے دریائے سندھ کو انڈس(Indus)کے نام سے پکارااور اسی نسبت سے یہاں کے باسی’انڈوسینی‘یعنی ہندوستانی کہلائے اور یہی نام آگے چل کر ہندوستان بن گیا۔
سرزمین پاکستان میں ورود:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا ٹیکسلا کے مقام پر جا اترا جو میدانی علاقہ تھا۔اس علاقے کے راجہ امبھی نے سکندر کی مہمان نوازی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔اس کی حکومت دریائے جہلم کے کنارے تک پھیلی ہوئی تھی۔ٹیکسلا میں سکندر نے شکار کی یونانی دیوی ’آرٹیمس‘کے لئے ایک مندر تعمیر کرایااور وہاں قربانیاں دیں۔(سکندر دور کے آثار قدیمہ اور گندھارا تہذیب کے آثار ٹیکسلا میں دیکھے جا سکتے ہیں جب کہ ٹیکسلا عجائب گھر میں سکندر کے دور کے سکے اور کاشان عہد کی دیگر اشیاء موجود ہیں جو پنجاب کی مختلف تہذیبوں کا پتا دیتی ہیں)یاد رہے کہ ٹیکسلا کا اصل نام ’تک شیلا‘یا شکنتلا تھا جو یونانی لہجے کے باعث ٹیکسلا بن گیا۔
سکندر جب وہاں پہنچاتو ۳۲۶ق م کا موسم بہار تھا۔اس موسم میں پنجاب کی خوبصورتی اپنے بھرپور جوبن پر ہوتی ہے۔ٹیکسلا میں قیام کے کچھ دن بعد سکندر نے وادئ جہلم کی طرف پیش قدمی کی۔وہ دنیا کے آخری کنارے تک پہنچنے کے لئے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھامگر اب اسکی فوج کے افسر تھکاوٹ اور بیزاری کا شکار ہوچکے تھے۔سکندر نے فوج کو دریائے جہلم کے کنارے پہنچ کر ٹھہرنے کا حکم دیایونانیوں نے اس دریا کو’ہائیڈراسپس‘(Hydraspes)کہہ کر پکاراسکندر نے ایک پہاڑی پر چڑھ کردریا پار علاقے (ضلع گجرات) کے حکمران اورپوروا خاندان کے بہادر سپوت’راجہ پورس‘ کی فوج کا نظارہ کیاجو اس کی راہ روکنے آیاتھا۔سکندر نے اسے صلح کا پیغام بھیجا اور جنگ سے باز رہنے کو کہا۔جواب میں راجہ پورس نے کہلا بھیجا کہ بہادروں کی ملاقات ہمیشہ میدان جنگ میں ہوتی ہے۔اس کا مطلب تھا کہ وہ صلح کے حق میں نہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق سکندر کی فوج دریائے جہلم کے کنارے آباد گاؤں جلال پور شریف سے لیکردریا کے ساتھ ساتھ ٹاہلیاں والے گاؤں تک پھیلی ہوئی تھی،جبکہ سکندر خود جلال پور شریف میں ایک نالے کے کنارے خیمہ زن تھا۔اسی نسبت سے آج بھی اس نالے کو’نالہ گنڈر‘کے نام سے پکارا جاتا ہے جو اس کے انگریزی نام’الیگزینڈر‘ کی بگڑی ہوئی شکل لگتی ہے۔
مؤرخین کے مطابق سکندر نے بالائی سمت سے دریا عبور کیا۔یہ مئی۳۲۶ ق م کا زمانہ تھا۔اس روز خوب بارش برسی اور زمین کیچڑ زدہ ہو گئی۔سکندر کی مدد راجہ پورس کا پرانا حریف راجہ امبھی کر رہا تھا۔
علاقائی تاریخی شواہد:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ قبل نالہ گنڈر کے کنارے سکندر اعظم کی یاد گارتعمیر کرنے کا منصوبہ بنا جس کا افتتاح یونانی سفیر اورڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا تھا۔اس یاد گار میں عجائب گھر اور کتب خانہ بھی بنایا جائے گا۔یاد رہے کہ اس مقام سے سکندرکے زمانے کے سکے اور دیگر اشیاء دستیاب ہوئی ہیں جنہیں بعد از تعمیر عجائب گھرمیں نمائش کے لئے رکھا جائے گا۔ان کی دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ سکندر کا مرکزی خیمہ اسی جگہ نصب تھا۔
علاوہ ازیں جلال پور شریف میں سکندر کے دور کی کچھ اور نشانیاں بھی ملی ہیں۔مثلاً بستی ملاحاں کے قبرستان کے نزدیک واقع ایک ٹیلے پر سکندرکے دور کی عمارت کے نشان ملے ہیں جو کوئی عبادت گاہ یا فوجی چوکی ہوسکتی ہے ،اسکی طرز تعمیر واضح طور پر یونانی ہے۔اسکے علاوہ جلال پور شریف کے پولیس ریسٹ ہاؤس میں تین چار قبروں کے کھنڈر دریافت ہوئے ہیں۔اگرچہ اب مٹی کی کافی موٹی تہہ چڑھ چکی ہے تاہم ان پر گھوڑوں کے مجسمے کندہ ہیں جویونانی اصل رکھتے ہیں۔
راجہ پورس سے مقابلہ:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذاکرات ناکام ہونے کے بعدسکندر نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ رات کو ڈھول تاشے اور نفیریاں بجائیں تاکہ راجہ پورس کی فوج کا دھیان بٹ سکے ۔دراصل اچانک سکندر نے دریا عبور کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔فوج کے ایک حصے کو نفیریاں بجانے پر مامور کیا گیااور وہ خود بقیہ فوج کے ہمراہ بالائی سمت سے دریا عبور کرنے لگا۔دریا کامیابی سے پار کرنے کے بعدیونانی فوج نے ہندوستانی فوج کے بالمقابل صف بندی کر لی۔راجہ پورس کو جس وقت سکندر کی آمدکا پتا چلا،اس وقت تک یونانی فوج منظم انداز میں صف بندی کر چکی تھی۔سکندر نے لڑائی سے قبل راجہ کو ایک مرتبہ پھر صلح پر آمادہ کرنا چاہالیکن ناکام رہا۔
اس دوران یونانیوں کی باقی ماندہ فوج بھی کشتیوں کے ذریعے دوسرے کنارے پہنچ گئی۔سکندر نے اپنی فوج کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا۔جب اعلان جنگ ہوا تو سب سے پہلے راجہ نے اپنی ہاتھی بردار وفوج کوآگے بڑھایا۔سکندر کی سپاہ ہاتھیوں کو دیکھ کر حیران اور قدرے پریشان تو ہوئی لیکن سکندر نے اپنا اور فوج کا حوصلہ برقراررکھا۔آخر کار یونانیوں کے نیزہ برداروں نے نیزے مار مار کر ہاتھیوں کا رخ موڑدیا اور ہاتھی بدک کر اپنی ہی فوج کو روندنے لگے۔تب راجہ پورس نے باقاعدہ جنگ کا آغاز کردیااور دوبدو لڑائی شروع ہوئی۔سکندر نے اپنے ایک دستے کو راجہ کے عقب میں بھیجااور اسے گھیر لیا۔آخر کار ہندوستانی فوج کو شکست ہوئی مگر خود راجہ نہایت بہادری سے مردانہ وار لڑتا رہا۔
جنگ جاری تھی سکندر کا گھوڑا ’بیوکفالہ‘اچانک گرا اور گرتے ہی ہلاک ہو گیا۔حالانکہ بظاہر اسے کوئی زخم بھی نہ آیا تھا۔بس وہ گرا اور مر گیا۔سکندر نے دوسرے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ شروع کی۔سکندر راجہ پورس کی ہمت اور مردانگی سے بے حد متاثر ہوا۔اس نے اعلان کیا کہ راجہ کو ہلاک نہ کیا جائے۔سکندر نے دوبارہ راجہ پورس کو لڑائی بند کرنے کی پیش کش کی لیکن وہ نہ مانا۔آخر ایک ثالث کے کہنے پر اس نے لڑائی روک دی۔تب اسے پانی پیش کیاگیا۔یہیں سکندر اور راجہ پورس کے درمیان وہ تاریخی مکالمہ ہواجو تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو چکاہے۔
سکندر:’’بتاؤتمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘‘
پورس:’’وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے؟‘‘
راجہ کے اس دلیرانہ جواب سے سکندر بہت متاثر ہوا۔اس نے نہ صرف پورس کو اسکے علاقے واپس کر دئیے بلکہ اس کی راجہ امبھی سے دوستی بھی کرادی۔پورس نے بھی سکندر کے ساتھ عہد دوستی باندھا۔واضح رہے کہ اس جنگ میں راجہ کے دو بیٹے ہلاک ہو گئے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top