skip to Main Content

عمرو اور ناگ طلسم

عمرو عیار سردار امیر حمزہ کے دربار میں حاضر ہوا تو وہ بے اختیار چونک پڑا کیونکہ سردار امیر حمزہ کے پاس ملک یمن کے بادشاہ سلامت بیٹھے ہوئے تھے۔عمرو ملک یمن کے بادشاہ کو بخوبی جانتا تھا۔ان کو سردار امیر حمزہ کے پاس بیٹے دیکھ کر وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔چند لمحے قبل عمرو کو سردار امیر حمزہ نے بلایا تھا۔جو خادم سردار امیر حمزہ کا پیغام لایا تھا اس نے عمرو کو ملک یمن کے بادشاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا اور نہ ہی سردار امیر حمزہ کے خیمے کے باہر موجود دربانوں نے ان کا ذکر کیاتھا۔عمرو نے خیمے میں داخل ہو کر سلام کیا تو سردار امیر حمزہ اور یمن کے بادشاہ سلامت چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
آؤ عمرو عیار ۔ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔سردار امیر حمزہ نے عمرو کے سلام کا جواب دیتے ہوئےکہا۔عمرو نے آگے بڑھ کر بڑے پر تپاک انداز میں یمن کے بادشاہ سے ہاتھ ملایا اور سردار امیر حمزہ کے کہنے پر ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
’’عمرو !شاہ یمن تم سے خصوصی ملاقات کیلئے آئے ہیں‘‘۔سردار امیر حمزہ نے عمرو سے مخاطب ہو کر کہا۔’’مجھ سے۔۔۔اوہ! ایسی بات تھی تو آپ مجھے بلا لیتے بادشاہ سلامت میں سر کے بل آپ کے پاس پہنچ جاتا‘‘۔عمرو عیار نے شاہ یمن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ 
’’بات ہی کچھ ایسی ہے عمرو عیار کہ ہمیں خود چل کر تمہارے پاس آناپڑا‘‘شاہ یمن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’فرمائیں بادشاہ سلامت میں ناچیز آپ کی کیا مدد کر سکتاہوں‘‘۔عمرو نے مؤدبانہ انداز میں کہا۔
’’عمرو تم جانتے ہو ہماری تین بیٹیاں ہیں۔پچھلے سال ہم نے اپنی بڑی بیٹی شہزادی آمنہ کی شادی ملک ایران کے وزیر زادہ آصف سے کی تھی‘‘۔شاہ یمن نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
’’جی باد شاہ سلامت ،اس شادی میں آپ نے مجھے بلایا تھا لیکن میں مصروفیت کی وجہ سے اس شادی می ں شریک نہیں ہو سکا تھا‘‘عمرو نے کہا۔
’’ہاں،بہرحال اس سال ہم نے اپنی دوسری دونوں بیٹیاں کی شادی کرنے کا فیصلہ کای ہے۔ان دونوں کے رشتے بھی ایران کے سپہ سالار جعفر اور شہزادہ عرفان سے طے ہو چکے ہیں۔دونوں طرف سے شادی کی تیاریاں کی جارہی ہیں کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ شہزادہ عرفان، سپہ سالار جعفر اور وزیر زادہ آسف لا پتہ ہو گئے ہیں۔ وہ تینوں عموماً رات کے وقت گھوڑوں پر سیر کیلئے نکلتے تھے اور شہر میں گھومتے رہتے تھے اور پھر رات گئے واپس لوٹتے تھے۔ 
آج سے دس روز قبل وہ تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلے۔رات گزر گئی مگر وہ واپس نہ آئے۔یہاں تک کہ اگلا دن اور اگلی رات بھی گزر گئی مگر وہ تینوں واپس نہ آئے تو بادشاہ سلامت،وزیراعظم اور سپہ سالار کے باپ کو فکر لاحق ہونے لگی۔ان تینوں کی تلاش میں انہوں نےہر طرف سپاہی بھیج دیئےمگر ان تینوں کا کچھ پتہ نہ چلا۔اب تو بادشاہ سلامت،وزیراعظم اور سپہ سالار کے باپ کی پریشانی کی حد نہ رہی۔
اول تو وہ تینوں شہر سے باہر جاتے ہی نہ تھے اور اگر انہیں سیر سپاٹے کیلیے جانا ہوتا تو وہ اپنے ماں باپ کو ہمیشہ ضرور بتا کر جاتے تھے لیکن اس بار انہوں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔بادشاہ سلامت نے وزیر زادہ آصف کی بیوی یعنی ہماری بیٹی کو بلا کر پوچھا کہ کہیں جانے کے متعلق وزیر زادے نے اسے بھی کچھ بتایا تھا یا نہیں جس پر شہزادی آمنہ نے انکار کر دیا کہ ان کے کہیں جانے کے بارے میں اسے بھی کچھ علم نہیں ہے۔وہ خود بھی پریشان ہے۔
بہر حال تینوں کی تلاش ہوتی رہی۔دن پر دن گزرتے گئے مگر ان تینوں کا کہیں کچھ پتہ نہ چل سکا۔پھر ایک روز محل سے اچانک شہزادی آمنہ بھی غائب ہو گئی۔کسی نے اسے محل سے نکلتے یا کسی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا۔بادشاہ سلامت۔وزیر اعظم اور دوسرے تمام لوگ شہزادی آمنہ کے اس طرح غائب ہونے پر حیران ہو رہے تھے ۔فورا”ایک شاہی ایلچی ہمارے ملک بھیجا گیا اور اس نے ہمیں ساری صورت حال بتائی۔
شہزادے،وزیر زادے اور سپہ سالار کے ساتھ ساتھ ہم اپنی بیٹی کی گمشدگی کا سن کر پریشان ہو گئے سب کا خیال تھا کہ شہزادی آمنہ شاید اپنے شوہر کی تلاش میں ہمارے ملک آئی ہے لیکن شہزادی ہمارے پاس نہیں آئی تھی۔بہر حال ہم نے بھی ان سب کی تلاش میں گھوڑے دوڑا دیے مگر ان میں سے کسی کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔اتفاق سے ہمارے پاس دور دراز کے ایک ملک کا ماہر نجومی آیا ہوا تھا جو اپنے فن میں یکتا تھا۔وہ ہمارے ملک میں سیر وتفریح کی غرض سے آیا ہوا تھا۔ 
عمرو تم جانتے ہو کہ ہم علم نجوم اور اسی طرح کے دوسرے کسی غیب کے علم کو نہیں مانتے اس لئے ہم نے اس نجومی سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔البتہ اسے شاہی مہمان ہونے کی حیثیت سے شاہی مہمان خانے میں ضرور ٹھہرا دیاتھا۔کل رات ہم شہزادہ عرفان،وزیر زادہ آصف،سپہ سالار جعفر اور شہزادی آمنہ کی گمشدگی کے بارے میں دربار میں بیٹھے وزیروں اور مشیروں سے بات چیت کر رہے تھے تو ہمیں بتایا گیا کہ ملک رابان کا شاہی نجومی ہم سے ملنا چاہتا ہے۔ہم چونکہ پریشان تھے اس لئے ہم نے اس سے ملنے سے اس وقت انکار کر دیا۔
شاہی نجومی نے اسی وقت پیغام بھیجا کہ وہ ہمیں شہزادہ عرفان،وزیر زادہ اور سپہ سالار جعفر کے ساتھ شہزادی آمنہ کی گمشدگی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہے۔یہ سن کر ہم نے فورا” اسے اپنے پاس بلا لیا۔شاہی نجومی بے حد پریشان تھا۔اس نے ہم سے درخواست کی کہ وہ ہم سے الگ کمرے میں بات کرنا چاہتا ہے ۔ نازک صورت حال تھی اس لیے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے شاہی کمرے میں لے گئے تب اس نے ہمیں ایک ایسی بات بتائی جسے سن کر ہمارے ہوش اڑ گئے۔؛بادشاہ سلامت نے مسلسل بولتے ہوئے کہا اور پھر خاموش ہو گئے۔ 
وہ کیا بتایا شاہی نجومی نے آپ کو”۔شاہ یمن کے خاموش ہوتے دیکھ کر عمرو نے جلدی سے پوچھا۔
شاہی نجومی نے پہلے ہم سے جان کی امان مانگی۔ہم نے اسے امان دی تو اس نے کہا کہ ہم شہزادہ عرفان،وزیرزادہ
آصف اور سپہ سالار جعفر کو تلاش کرنا چھوڑ دیں۔کیونکہ وہ۔۔۔۔بادشاہ سلامت کہتے کہتے ایک بار پھر خاموش ہو گئے۔ان کے ہونٹ کپکپا رہے تھے اور ان کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔وہ اس وقت بہت خوفزدہ اور پریشان ہو رہے تھے جیسے ابھی رو دیں گے۔
’’پھر آگے اس نے کیابتایا تھا؟‘‘ شاہ یمن کو اس طرح پریشان دیکھ کر عمرو نے سوال کیا۔’’عمرو شاہی نجومی نے شاہ یمن کو بتایا کہ شہزادہ عرفان،وزیر زادہ اور سپہ سالار جعفر ہلاک ہو چکے ہیں۔‘‘سردار امیر حمزہ نے شاہ یمن کی بات پوری کرتے ہوئے کہا تو عمرو بری طرح سے چونک گیا۔ 
’’اوہ، وہ تینوں ہلاک ہو چکے ہیں مگر کیسے؟کیا ہوا تھا انہیں؟‘‘عمرو نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔’’میں بتاتا ہوں‘‘۔شاہ یمن نے کہا پھر وہ چند لمحوں کیلئے خاموش ہوئے اور پھر تفصیل بتانے لگے۔
شاہی نجومی نے مجھے بتایا کہ یہاں سے ایک ہزار میل دور ایک بہت بڑا جنگل ہے جسے موکاشا کا جنگل کہا جاتا ہے۔اس جنگل میں درندوں اور خوفناک جانوروں کی بہتات ہے ۔اس جنگل کے وسط میں ایک جھیل ہےاور اس جھیل کے نیچے ایک بہت بڑے جادوگر نے محل بنا رکھا ہے۔اس محل میں وہ جادوگر اکیلا رہتا ہے۔جادوگر کا نام موکاشاہ جادوگر ہے۔موکاشاہ جادوگر بے حد بوڑھا اور دبلا پتلا ہے۔ وہ اس قدر دبلا پتلا ہے کہ اس کی کھال اس کے جسم کے ساتھ ہڈیوں سے چپکی ہوئی ہے اور وہ دیکھنے میں بلکل ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتا ہے۔

موکاشا جادوگر کو اصل میں سوکھے پن کی بیماری ہے۔اس نے اس بیماری کا ہر ممکن طریقے سے علاج کرایا مگر وہ تندرست نہ ہو سکا۔تب اس نے پاتال میں موجود اپنے آقا کالے جادوگر سے رابطہ کیا۔اس نے کالے جادوگر کو بتایا کہ اسے سوکھے پن کی بیماری ہے اور وہ دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔اگر جلد سے جلد اس کا علاج نہ کیا گیا تو وہ اگلے چند ماہ میں ہلاک ہو جائے گا۔اس بیماری سے یا تو نجات دلائی جائے یا پھر اس کی بیماری کا علاج کیا جائے۔

جادوگروں کے بڑے سردار کالے جادوگر نے موکاشا جادوگر سے شاہی نجومی نے اسی وقت پیغام بھیجا کہ وہ ہمیں شہزادہ عرفان،وزیر زادہ اور سپہ سالار جعفر کے ساتھ شہزادی آمنہ کی گمشدگی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہے۔یہ سن کر ہم نے فورا” اسے اپنے پاس بلا لیا۔شاہی نجومی بے حد پریشان تھا۔اس نے ہم سے درخواست کی کہ وہ ہم سے الگ کمرے میں بات کرنا چاہتا ہے ۔ نازک صورت حال تھی اس لیے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے شاہی کمرے میں لے گئے تب اس نے ہمیں ایک ایسی بات بتائی جسے سن کر ہمارے ہوش ار گئے۔؛بادشاہ سلامت نے مسلسل بولتے ہوئے کہا اور پھر خاموش ہو گئے۔

وکیا بتایا شاہی نجومی نے آپ کو”۔شاہ یمن کے خاموش ہوتے دیکھ کر عمرو نے جلدی سے پوچھا۔ 
“شاہی نجومی نے پہلے ہم سے جان کی امان مانگی۔ہم نے اسے امان دی تو اس نے کہا ہم شہزادہ عرفان ،وزیر زادہ آصف اور سپہ سالار جعفر کو تلاش کرنا چھوڑ دیں ۔کیونکہ وہ”۔بادشاہ سلامت کہتے کہتے ایک بات خاموش ہو گئے ۔ ان کے ہونٹ کپکپا رہے تھے اور ان کا چہرہ زرد ہو رہا تھا ۔وہ اس وقت بیت خوفزدہ اور پریشان دکھائی دے رہے تھے جیسے ابھی رو دیں گے۔ 
“پھر۔آگے اس نے کیا بتایا تھا”۔شاہ یمن کو اس طرح پریشان دیکھ کر عمرو نے پوچھا۔ 
“عمرو عیار۔شاہی نجومی نے شاہ یمن کو بتایا ہے کہ شہزادہ عرفان ،وزایر زادہ اور سپہ سالار جعفر ہلاک ہو چکے ہیں”۔سردار امیر حمزہ نےشاہ یمن کی بات پوری کرتے ہوئےکہا تو عمرو بری سے طرح چونک پڑا۔ 
“اوہ۔وہ تینوں ہلاک ہو چکے ہیں۔مگر کیسے۔کیا ہوا تھا انہیں”۔عمرو نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ 
“میں بتاتا ہوں”۔ شاہ یمن نے کہا پھر وہ چند لمحوں کیلیے خاموش ہوئے اور پھر تفصیل بتانے لگے۔ 
“شاہی نجومی نے مجھے بتایا کہ یہاں سے ایک ہزار میل دور ایک بہت بڑا جنگل ہے جسے موکاشا کا جنگل کہا جاتا ہے۔اس جنگل میں درندوں اور خوفناک جانوروں کی بہتات ہے ۔اس جنگل کے وسط میں ایک جھیل ہےاور اس جھیل کے نیچے ایک بہت بڑے جادوگر نے محل بنا رکھا ہے۔اس محل میں وہ جادوگر اکیلا رہتا ہے۔جادوگر کا نام موکاشاہ جادوگر ہے۔موکاشاہ جادوگر بے حد بوڑھا اور دبلا پتلا ہے۔ وہ اس قدر دبلا پتلا ہے کہ اس کی کھال اس کے جسم کے ساتھ ہڈیوں سے چپکی ہوئی ہے اور وہ دیکھنے میں بلکل ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتا ہے۔ 
موکاشا جادوگر کو اصل میں سوکھے پن کی بیماری ہے۔اس نے اس بیماری کا ہر ممکن طریقے سے علاج کرایا مگر وہ تندرست نہ ہو سکا۔تب اس نے پاتال میں موجود اپنے آقا کالے جادوگر سے رابطہ کیا۔اس نے کالے جادوگر کو بتایا کہ اسے سوکھے پن کی بیماری ہے اور وہ دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔اگر جلد سے جلد اس کا علاج نہ کیا گیا تو وہ اگلے چند ماہ میں ہلاک ہو جائے گا۔اس بیماری سے یا تو نجات دلائی جائے یا پھر اس کی بیماری کا علاج کیا جائے۔ 
جادوگروں کے بڑے سردار کالے جادوگر نے موکاشا جادوگر سے ممکن کہ آپ اپنی محبت،شفقت اور خلوص کے ساتھ ساتھ نیک شگون کے طور پر کچھ دے دیں۔آپ کے دیئے ہوئے نیک شگون سے میرا حوصلہ بڑھ جائے گا اور۔اور۔۔۔۔۔۔”۔عمرو عیار نے اس انداز میں کہا کہ سردار امیر حمزہ کے ہونٹوں ہر بے اختیار مسکراہٹ آگئی۔ 
“تم بہت چالاک ہو عمرو عیار۔کسی نا کسی بہانے تم مجھ سے کچھ نہ کچھ اینٹھ ہی لیتے ہو”سردار امیر حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور گلے سے ایک قیمتی موتیوں کا ہار اتار کر عمرو کی طرف اچھال دیا جسے عمرو نے فورا” جھپٹ لیا۔ 
“اوہ بہت بہت شکریہ آقا۔آپ نے مجھے نیک شگون دے دیا ہے اب میں موکاشا جادوگر کو ہلاک کر کے جلد سے جلد اس کی قید سے شہزادی آمنہ کو لے آوں گا۔زیادہ سے زیادہ مجھے ایک ہفتہ لگے گا”۔عمرو نے کہا۔ 
“ایک ہفتہ۔اوہ۔اس دوران اگر موکاشا جادوگر نے میری بیٹی سے زبردستی شادی کر لی تو”شاہ یمن نے بوکھلائے ہوئے کہا۔ 
نہیں۔جادوگر اصول کے تحت کسی لڑکی سے زبردستی شادی نہیں کر سکتے۔ جب تک لڑکی اپنی مرضی سےکسی جادوگر سے شادی کا اقرار نہ کرےاور جادوگر مجبور ہوتے ہیں۔ہاں وہ شہزایوں کو منانے کیلیے انہیں ڈرا دھمکا ضرور سکتے ہیں اور ان پر ظلم بھی کر سکتے ہیں”۔عمرو نے کہا۔ 
“اوہ۔ اگر موکاشا جادوگر نے میری بیٹی پر ظلم کرنا شروع کر دی اتو پھر”۔شاہ یمن نے اور زیادہ گھبرا کر کہا۔ 
“تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آج ہی شہزادی آمنہ کو موکاشا جادوگر کے چنگل سے نکال لاوں:۔عمرو نے کہا۔” 
“اگر ایسا ہو جائے تو میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے”۔شاہ یمن نے کہا۔ 
“تو آپ بھی نیک شگون کیلیےمجھے کچھ نہ کچھ دے دیں”۔عمرو نے شاہ یمن کے گلے میں قیمتی موتیوں کی مالاوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہاتو اس کی بات سن کر سردار امیر حمزہ مسکرا دیئے۔وہ جانتے تھے کہ عمرو عیار جب تک نیک شگون کیلیے شاہ یمن کی تمام مالائیں نی اتروا لے گا وہ یہاں سے نہیں جائے اٹھے گا۔ 
“اوہ۔ضرور۔ضرور۔کیوں نہیں”۔شاہ یمن نے فورا” کہا اور انہوں ن اپنے گلے سے تمام مالائیں اتار کر عمرو کی طرف بڑھا دیں۔عمرو نے ان مالاوں کو چھپٹا اور انہیں زنبیل میں ڈالتا ہوا فورا” اٹھ کھڑا ہوا۔ 
“مجھے اجازت دیں آقا۔میں نے شاہ یمن سے وعدہ کیا کہ میں آج ہی شہزادی آمنہ کو لا کر ان کے ھوالے کروں گااس لئے میں زیادہ دیر یہاں نہیں رک سکتا”۔ 
عمرو نے سردار امیرحمزہ سے مخاطب ہو کر کہا تو سردار امیر حمزہ نے مسکراتے ہوئے اسے جانے کی اجازت دے دی اور عمرو عیار تیزی سے ان کےخیمے سے نکلتا چلا گیا جیسے اسے ڈر ہو کہ سردار امیر حمزہ اسے شاہ یمن سے لی ہوئی مالائیں واپس کرنے کا نہ کہہ دیں۔ 
سرادر امیر حمزہ کے خیمے سے نکل کر عمرو سوچتے ہوئے انداز میں سیدھا اصطبل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے شاہ یمن سے وعدہ تو کر لیا کہ وہ آج ہی شہزادی آمنہ کو لا کر ان کے حوالے کر دے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ موکاشا جادوگر تک پہنچنے کیلیے اسے کیا کرنا ہو گا اور کن راستوں سے گزرنا ہو گا اور موکاشا جادوگر کو ہلاک کرنے کیلیے اسے کیا کیا کرنا ہو گا۔ 
اصطبل سے گھوڑا نکلوا کر وہ اس پر سوار ہوا اور کچھ ہی دیر میں وہ گھوڑا دوڑاتا ہوا سردار امیر حمزہ کے لشکر سے نکلتا چلا گیا۔نہایت تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے وہ قریبی جنگل میں آ گیا۔جنگل کے وسط میں آکر اس نے گھوڑا روکا اور اس پر سے اتر آیا۔ایک خالی اور ساف ستھری جگہ پر آ کر وہ ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔اس نے زنبیل سے سنہری تحتی نکالی اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ 
“سنہری تختی۔مجھے موکاشاہ جادوگر کےبارے میں تفصیل بتائی جائے”۔عمرو نے کہا تو اچانک سنہری تختی پر چمک سی نمودار ہوئی اور پھر اس پر سیاہ حروف پھیلتے چلے گئے۔ 
“عمرو عیار کو بتایا جاتا ہےکہ موکاشا جادوگر بے حد سفاک،بے رحماور خطرناک جادوگر ہے۔اس جادوگر کو پاتال کے کالے بادشاہ جادوگر کی سر پرستی حاصل ہے جس نے اس کی حفاظت کیلیے تین طلسمات قائم کر رکھے ہیں۔عمرو عیار کو موکاشا جنگل میں جا کر ان خوفناک طلسمات کو ختم کرنا ہو گا۔اس کے بعد ہی وہ موکاشا جادوگر کے پاس پہنچ کر اسے ہلاک کر سکتا ہے”۔سنہری تختی پر الفاظ ابھرے۔ 
“وہ طلسمات کیا ہیں”۔عمرو عیار نے تختی پر لکھے ہوئے حروف پڑھ کر پوچھا تو تختی پر سے حروف غائب ہو گئے اور ان کی جگہ نئے حروف پھیل گئے۔ 
“عمرو عیار کو بتایا جاتا ہےکہ موکاشا جادوگر کی حفاظت کیلیے بنائے گئے تین طلسمات موت کے طلسمات کہلاتے ہیں۔ان طلسمات مین ایک طلسم نیلا طلسم ہے،دوسرا سرخ،اور تیسرا سیاہ۔نیلے طلسم میں عمرو عیار کو چار نیلے جنوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ان چار نیلے جنوں کو ہلاک کر کے عمرو عیار ان جنوں کی چار چیزیں حاصل کرے گا جن میں ایک کمان،ایک تیر،ایک تلوار اور ایک خنجر ہے۔ 
یہ چاروں چیزیں ایک ایک جن کے پاس ہیں۔ان چاروں چیزوں کو حاصل کر کےعمرو عیار جب دوسرے یعنی سرخ طلسم میں داخل ہو گا تو اس طلسم میں عمرو کو تیر سے ایک آنکھ والے کوے کو ہلاک کرنا ہو گا۔سرخ کوے کے ہلاک ہوتے ہی وہاں ایک سرخ رنگ کا شیر آئے گا۔عمرو عیار تلوار سے اس شیر کو ہلاک کرے گا۔شیر کے ہلاک ہوتے ہی عمرو کے سامنے ایک خوفناک اژدھا آئے گا۔عمرو اس اژدھے کو چوتھے نیلے جن کے خنجر سے ہلاک کرے گا۔اژدھےکے منہ میںایک سرخ رنگ کا ہیرا ہے۔عمرو کو اس سرخ ہیرے کو حاصل کرنا ہوگا۔ 
سرخ ہیرے کے اس کے ہاتھ آتے ہی عمرو عیار خودبخود تیسرے سیاہ طلسم میں پہنچ جائے گا۔اس طلسم میں سرک ہیرا پھینکنےسے سیاہ طلسم میں موجود تاریکی ختم ہو جائے گی اور عمرو کے سامنے ایک سیاہ دیو آئے گا۔عمرو عیار کو اس دیو کو بھی ہلاک کرنا ہو گا۔دیو کے پاس ایک کلہاڑی ہے۔عمرو اس کلہاڑی کو حاصل کرے گا تو وہاں ایک جادوئی بونا آئے گا۔وہ عمرو عیار سے سیاہ کلہاڑی مانگے گا۔عمرو عیار کلہاڑی سے بونے کو ہلاک کر دے۔بونے کے ہلاک ہوتے ہی عمرو کو ایک سیاہ موتی ملے گا۔ 
اس سیاہ موتی کے ملتے ہی عمرو عیار موکاشا جادوگر کے محل میں پہنچ جائے گا جہاں عمرو عیار پر موکاشا جادوگر طرح طرح کے حملے کرے گا۔ان حملوں سےبچتے ہوئے عمرو عیار،موکاشا جادوگر پر ایک خاص طریقے سے حملہ کرے گا تو موکاشا جادوگر فورا” ہلاک ہو جائے گاعمرو عیار کو موکاشا جادوگر کے جادوئی واروں سے اپنی خفاظت خود کرنا ہو گی۔عمرو عیار سیاہ موتی موکاشا جادوگر کی ناک پر مارے گا تو موکاشا جادوگر فورا” ہلاک ہو جائے گا ۔ اگر عمرو عیار کا نشانہ خطا ہو گیا تو سیاہ موتی پلٹ کر عمرو عیار کو آ لگے گا جس سے عمرو عیار فورا” جل کر راکھ ہو جائے گا۔سنہری تختی پر حروف پھیلتے گئے اور انہیں پڑھتے ہوئے عمرو عیار کا چہرہ حیرت اور پریشانی سے بگڑتا گیا۔ 
“ارے باپ رے۔ایک طلسم میں تین تین چار چار طلسم۔برا سخت حفاظتی انتظام کر رکھا ہے موکاشا جادوگر نے۔عمرو نے کہا۔اس نے سنہری تختی سے مزید باتیں پوچھیں اور پھر مطمئن ہو کر اس نے سنہری تختی زنبیل میں ڈال لی۔پھر ان نے زنبیل سے سنہری جوتیاں نکال لیں۔عمرو نے پیرو سے جوتے اتار کر اس کی جگہ سنہری جوتیاں پہن لیں اور جوتے زنبیل میں رکھ لئے۔پھر اس نے سلیمانی چادر نکالی اور اسے کاندھوں پر ڈال کر غائب ہو گیا۔ 
” سنہری جوتیون مجھے موکاشا جنگل کے طلسمات میں پہنچا دو”عمرو نے کہا۔اسی لمحے اسے ایک ہلکا سا جھٹکا لگا اور وہ تیزی سے آسمان کی جانب بلند ہو تا چلا گیا۔کافی بلندی پر آکر اس کا جسم جنوب کی طرف مڑا اور پھر وہ نہایت تیزی سے فضا میں اڑتا چلا گیا۔ 
مسلسل اور کافی دیر اڑتے رہنے کے بعد عمرو عیار کے اڑنے کی رفتار میں کمی آگئی۔اس نے چونک کر دیکھا سنہری جوتیاں اس لئے ہوئے نیچے جا رہی تھیں جہاں ایک بہت بڑا اور گھنا جنگل تھا۔ 
عمرو کو سنہری تختی نے بتایا تھاکہ وہ جیسے ہی موکاشا جنگل میں داخل ہو گا خودبخود وہ جنگل کے پہلی طلسم میں داحل ہو جایے گا۔خودکو جنگل میں اترتے دیکھ کراس نے فورا” زنبیل سے تلوار حیدری نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ جنگل میں اتر گیا۔جنگل میں ٹھوس زمین پر جیسے ہی اس کے قدم پڑے ایک لمحے کیلیے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھرا سا چھا گیا ۔پھر جیسے ہی اندھیرا ختم ہوا اس نے دیکھا کہ وہ جنگل کے ایک بہت بڑے خالی حصے میں موجود تھا۔اس کے اردگر ہلکی ہلکی نیلی روشنی پھلیی ہوئی تھی ۔اس روشنی میں اسے زمین اور دور دور تک موجود درخت بھی نیلے نظر آ رہے تھے ۔یہ سب دیکھ کر عمرو سمجھ گیا کہ وہ نیلے طلسم میں داخل ہو گیا۔سلیمانی چادر بدستور اس کے کندھوں پر موجود تھی اور وہ وہاں غیبی حالت میں کھڑا تھا۔ 
ابھی عمرو عیار حیرت سے ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے سامنے ایک زور دار دھماکہ ہوا۔دھماکے کی آواز سن کر عمرو عیار اچھل کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا ۔اس کے سامنے نیلی آگ سی پیدا ہوئی اور پھر اس آگ میں سے ایک بہت بڑا اور خوفناک شکل والا طاقتور جن نکل کر پاہر آ گیا۔جن اس قدر بڑا تھا کہ اسے دیکھ کر عمرو عیار کی آنکھوں میں ایک لمحے کیلیے خوف ابھر آیا ۔اس جن کے کاندھے پر ایک بڑی سی کمان لٹک رہی تھی اور اس کے ہاتھ بڑے بڑے تھے ۔جن کے ناخن نوکیلے اور بے حد بڑھے ہوئے تھے۔ 
“آدم زاد ۔یہاں کوئی آدم زاد آیاہے۔میں اس کی بو محسوس کر رہا ہوں۔”نیلے جن نے ناک پھلاتے ہوئے خوفناک لہجے میں کہا۔وہ بڑی بڑی اور خوفناک آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا لیکن اسے عمرو عیار دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔اسی لمحے آگ بھڑکی اور اس میں سے اس جیسا ایک اور جن نکل کر باہر آ گیا۔اس جن کا رنگ بھی نیلا تھا اور وہ پہلے جن سے کہیں زیادہ طویل قامت اور طاقتور نظر آرہا تھا۔ 
” کیا بات ہے جاگو جن ۔تم یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو”۔دوسرے جن نے پہلے جن سے مخاطب ہو کر کہا۔ 
“آدم زاد۔یہاں کوئی آدم زاد آیا ہوا ہے گاگو جن”۔پہلے جن نے کہا جس کا نام جاگو جن تھا۔۔ 
“آدم زاد ۔اوہ ہاں۔مجھے بھی کسی ادم زاد کی بو آ رہی ہے لیکن وہ ہے کہاں۔”گاگو جن نے بھی جاگو جن کی طرح ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔تیسری بات آگ بھڑکی اور اس میں سے ایک اور نیلا جن نکل آیا۔اس نے بھی ان دونوں جنوں سے یہی بات کی تھی۔اس جن کا نام ماگو جن تھا ۔اس کے بعد نیلی آگ پھر بھڑکی تو اس میں سے چوتھا جن نکلا تو عمرو عیار کے چہرے پر اور زیادہ خوف پھیل گیا۔چوتھا جن ان تینوں جنوں سے زیادہ طویل قامت اور خوفناک تھا اور اس کا نام ناگو جن تھا ۔ 
“جاگو،گاگو،ماگو اور ناگو جن اپنے ناموں کی طرح خود بھی بے حد خوفناک ہیں”۔عمرو عیار نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔گاگو جن کی کمر پر ایک ترش تھا جس میں ایک تیر موجود تھا جبکہ ماگو جن کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا اور ناگو جن کے پاس ایک بڑی اور بے حد بھاری تلوار تھی ۔وہ چاروں حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔عمرو عیار نے سلیمانی چادر اوڑھ رکھی تھی اس لئے بھلا وہ ان نیلے جنوں کو کیسے نظر آ سکتا تھا۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top