skip to Main Content
رسولِ پاک ﷺ کا بچپن

رسولِ پاک ﷺ کا بچپن

 طالب ہاشمی

…………

ہماری رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا۔ تین دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز تک بی بی ثوبیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا دودھ پیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی لونڈی تھیں۔

بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس

……..……..……..……..…………….

ان دنوں مکہ میں رہنے والے شریف عرب گھرانوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی دیہات میں بھیج دیتے تھے۔ وہاں وہ دیہاتی عورتوں کا دودھ پی کر پرورش پاتے اور صحرا کی کھلی ہوا میں کھیل کود کر ان کی صحت بہت اچھی ہوجاتی۔ ساتھ ہی وہ خالص عربی زبان بھی سیکھ لیتے۔ دیہاتی عورتیں سال میں دو مرتبہ مکہ آتیں اور شریفوں کے بچوں کو پالنے کے لیے اپنے گھروں کو لے جاتیں۔ جب واپس لاتیں تو بچوں کے والدین ان کو بہت انعام و اکرام دیتے۔ اسی دستور کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبیلہ بنو سعد کی ایک خوش نصیب بی بی اپنے قبیلے لے گئیں۔ ان کا نام حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا تھا اور ان کا گاؤں مکہ سے بہت دور نجد کے علاقے میں تھا۔

برکت کا خزانہ

…………….

دیہاتی عورتیں یتیم بچوں کو نہیں پالا کرتی تھیں،لیکن بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی سے لے لیا۔ اس طرح اس کی قسمت جاگ اٹھی۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے برکت کا خزانہ نکلے۔ وہ خود کہتی کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر واپس جانے لگے تو ہماری کم دودھ دینے والی اونٹنی خوب دودھ دینے لگی اور ہماری مریل گدھی اتنی تیز چلنے لگی کہ اس نے قافلے کے سب گدھوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہم وطن پہنچے تو چند دنوں کے اندر ہماری زمین میں ہریالی ہی ہریالی ہوگئی اور ہماری بکریاں خوب دودھ دینے لگیں۔ اس طرح ہماری غریبی دور ہوگئی۔ دو سال کے بعد بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ سے ملانے لے گئیں اور پھر اصرار کرکے واپس لے گئیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں اور اپنی اولاد کی طرح چاہتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی بکریاں چرانے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے جاتے۔ وہ گھر واپس آکر اپنی ماں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عجیب و غریب باتیں بتاتے۔
ایک روز آپ کے دودھ شریک بھائی دوڑتے دوڑتے آئے اور بتایا کہ دو آدمیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ چاک کردیا۔ حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے شوہر کے ساتھ دوڑ کر وہاں گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلے چنگے کھڑے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ سفید کپڑوں والے دو آدمی آئے، مجھے لٹا کر میرا پیٹ چاک کیا، اس میں سے کوئی چیز نکال کر پھینک دی اور پیٹ کو پہلے جیسا کردیا۔ بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ سن کر گھبراگئیں اور مکہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ کے سپرد کردیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریباً پانچ برس کی تھی۔

بی بی آمنہ کی وفات

……..……..……..

جب آپ ﷺ کی عمر چھ برس سے کچھ اوپرہوئی توحضرت آمنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر یثرت (مدینہ) گئیں اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پردادی (عبدالمطلب کی والدہ) کے خاندان (بنونجار) میں ایک مہینہ تک رہیں۔ وہ اپنے شوہر کی قبر پر بھی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کی قبر دکھائی۔ یثرب سے واپس ہوئیں تو راستے میں بیمار ہوئیں اور ابواء کے مقام پر وفات پاگئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔بی بی آمنہ کی وفادار لونڈی ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا ساتھ تھیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر مکہ پہنچیں۔
ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکہ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جناب عبدالمطلب کے سپرد کردیا۔ بوڑھے دادا نے اپنے بن ماں باپ کے پوتے کو سینے سے لگایا اور نہایت محبت اور شفقت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرنے لگے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے، ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ رکھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کھانا نہ کھاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی مسند پر بٹھاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ چومتے اور کہا کرتے کہ خدا کی قسم میرے اس پوتے کی شان ہی کچھ اور ہے۔ یہ اتنے اونچے مرتبے پرپہنچے گا جس پر اس سے پہلے کوئی عرب نہیں پہنچا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دادا کی اتنی محبت دیکھ کر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن عبدالمطلب کہنے لگے، لیکن افسوس آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کے تھے کہ شفیق داد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔
ابو طالب کے پاس

 …………………
دادا کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست بنے، انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی محبت اور پیار سے اپنے پاس رکھا اور ہمیشہ اپنے بچوں سے بھی بڑھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کا خیال رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ چچا کی مالی حالت کمزور ہے تو خود کمانے کی فکر کی اور کچھ عرصے تک لوگوں کی بکریاں اجرت پر چراتے رہے۔ اس زمانے میں عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چچا سے تجارت کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔
شام کا پہلا سفر

 ……………….
ایک دفعہ ابو طالب اپنا تجارتی سامان لے کر شام جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ سال کے تھے۔ راستے میں بصریٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں ایک عیسائی راہب ’بحیرا‘ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ابو طالب سے کہا کہ تم اپنے بھتیجے کو واپس لے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دشمن ان کو نقصان پہنچائے، کیوں کہ ان میں وہ نشانیاں پائی جاتی ہیں جو آخری نبی کی ہیں۔ چناں چہ ابو طالب اپنا کام جلد جلد ختم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لے آئے۔بعض علماء نے یہ خیال ظاہرکیا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیاکیونکہ اس کے بعد بھی رسول پاک ﷺ تجارت کے سلسلے میں بلا کھٹکے شام جاتے رہے۔
تجارت

 ………
تجارت شام کے پہلے سفر سے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کام میں اپنے چچا کا ہاتھ بٹانے لگے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاروبار میں بڑی مہارت حاصل ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزی کمانے کے لیے تجارت کا پیشہ ہی اختیار کیا۔ ویسے بھی قریش کے شریفوں کا سب سے باعزت پیشہ تجارت اور سوداگری تھا۔
بری باتوں سے نفرت

 ……………………….
ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن اس حالت میں گزار کہ ان دنوں ہر طرف برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت شرمیلے اور نیک تھے۔ اکثر خاموش رہتے تھے اور ہر قسم کی برائیوں سے نفرت کرتے تھے۔ کھیل تماشوں اور میلوں ٹھیلوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ 
بت پرستی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت برا سمجھتے تھے اور آپس کی لڑائیوں سے بھی دور رہتے تھے۔ ایک بار قریش اور ایک دوسرے قبیلے’’ قیس عیلان‘‘ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ اسے ’حرب فجار‘ کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبوراً اپنے چچاؤں کے ساتھ لڑائی کے میدان میں جانا پڑا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی میں صرف اس حد تک شریک ہوئے کہ جو تیر دشمن کی طرف سے آتے تھے، وہ اٹھا کر اپنے چچاؤں کو پکڑا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں شوخی اور ضد نام کو بھی نہ تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top