skip to Main Content
رسولِ پاک ﷺ کی جوانی

رسولِ پاک ﷺ کی جوانی

طا لب ہاشمی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے رسول پاک جوان ہوئے تو آپ ﷺ نے تجارت کا کام برابر جاری رکھا اور کئی بار تجارت کا سامان لے کر شام اور یم ن وغیرہ گئے۔آپ بات کے سچے،وعدہ کے پکے،لین دین کے کھرے اور نیت کے نیک تھے۔اس لئے آپ کا کاروبار کامیاب رہا اور ہر تجارتی سفر میں آپ کوبہت نفع ہوا۔
مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خانۂ کعبہ کی وجہ سے مکہ امن کا شہر تھا۔جو لوگ اس شہر میں آتے تھے ان کی حفاظت اور مہمان داری قریش کے ذمہ تھی لیکن ایک دفعہ قریش کے ایک سردار عاص بن وائل نے ایک پردیسی سوداگر سے سامان لے لیا اور اس کو قیمت نہ دی۔سوداگر نے قریبی پہاڑ پر چڑھ کر کر ظالم کے خلاف فریاد کی۔اس پر قریش کے بہت سے قبیلے ایک جگہ جمع ہو ئے اور سب نے عہد کیا کہ مکہ میں شہر کا یا باہر کا جو شخص بھی مظلوم ہوگا اس کی مدد کریں گے۔چنانچہ انہوں نے عاص بن وائل سے سوداگر کا سامان واپس لے کر دیا۔اس عہد کو ’’حِلفُ الفُضُول‘‘کہاجاتاہے۔ہمارے رسول پاک ﷺ بھی اس میں شریک تھے۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر بیس سال تھی۔
صادق اور اَمین

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے رسول پاک ﷺ نے روز مرہ کی زندگی میں بھی اورکاروبار میں بھی اپنی سچائی،ایمان داری،دیانت داری ار انصاف پسندی کا ایسا ثبوت دیا کہ قریش کا بچہ بچہ آپ ﷺ کی تعریف کرنے لگا اور سب لوگ آپ ﷺ کو صادق(سچا)اور امین(امانت دار)کہہ کر پکارنے لگے۔ان کو آپ ﷺ پر اتنا بھروسا ہو گیا کہ بلا کھٹکے اپنا روپیہ تجارت کے لئے آپ ﷺ کے سپر کر دیتے تھے۔اسی طرح بہت سے لوگ اپنا روپیہ پیسہ زیور اور دوسری چیزیں آپ ﷺ کے پاس امانت رکھواتے تھے۔جب وہ طلب کرتے تھے تو آپ ﷺ ہر چیز جُوں کی تُوں واپس کردیتے تھے۔
بی بی خدیجہؓ سے شادی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریش کے خاندان بنو اسد میں خدیجہ نام کی ایک بہت نیک،دانا اور دولت مند بی بی تھیں۔ان کے پہلے شوہر فوت ہو گئے تھے۔اب وہ بیوہ تھیں اور باپ کاسایہ بھی سر پر نہیں تھا۔ان کا بہت بڑا تجارتی کاروبار تھااور وہ اپنا سامان اپنے ملازموں اور دوسرے لوگوں کو دے کر شام اور یمن کے بازاروں میں بھیجا کرتی تھیں۔انہوں نے ہمارے رسول پاک ﷺ کی سچائی اور دیانت داری کی تعریف سنی توآپ ﷺ سے کہا کہ آپ میرا سامان شام لے جائیں،میں دوسروں کو جنتا حصہ دیتی ہوں آپ ﷺ کو اس سے زیادہ دوں گی۔آپ ﷺ راضی ہو گئے اور بی بی خدیجہ کا مال تجارت لے کر شام گئے۔انکا غلام میسرہ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھا۔آپ ﷺ نے شام پہنچ کر یہ مال بڑے نفع پر بیچا۔واپس آئے تو بی بی خدیجہ بڑی بہت ہوئیں۔میسرہ نے بھی ان کے سامنے آ پﷺ کی سچائی اور دیانت داری کی بہت تعریف کی۔ان کے دل میں پہلے ہی آپ ﷺ کی بڑی عزت تھی۔اب انہوں نے آپ ﷺ سے نکاح کا فیصلہ کر لیااور دو تین ماہ بعد اپنی کنیز کے ہاتھ آپ ﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔اس وقت آپﷺ کی عمر 25سال کی تھی اور بی بی خدیجہ کی عمر 40سال کی تھی۔پھر بھی آپ ﷺ نے یہ پیغام قبول کر لیا۔آپ ﷺ کے چچا ابو طالب اور حمزہ آپ ﷺ کو ساتھ لے کر بی بی خدیجہ کے مکان پر گئے۔وہاں بی بی خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد موجود تھے۔جناب ابو طالب نے آپ ﷺ کا نکاح بی بی خدیجہ سے پڑھادیا۔اب دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے اور تجارت کا کام بھی چلتارہا۔

ایک بڑے جھگڑے کا فیصلہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپؐ کی عمر 35برس کی تھی کہ قریش کے مختلف قبیلوں میں ایک بڑا جھگڑاٹھ کھڑا ہوا۔ قریب تھاکہ وہ آپس میں لڑ کر کٹ مرتے کہ رسول پاک ؐ پہنچ گئے اور اس جھگڑے کا ایسا فیصلہ کیا کہ سب کی تسلی ہوگئی۔ہوا یو ں کہ قریش نے کعبہ کی پرانی عمارت کو گراکر اسے نئے سرے سے بنانا شروع کیا کیونکہ پرانی عمارت بار بار سیلاب آنے کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی تھی۔جب بھی بارش ہوتی پہاڑوں سے پانی بہہ کر کعبہ میں جمع ہو جاتاتھا۔کچھ دنوں میں نئی عمارت کی دیواریں اتنی اونچی ہوگئیں جہاں پرانی دیوار میں’’حجرِاَسوَد‘‘لگاہواتھا۔حجرِاَسوَدکا مطلب ’’کالا پتھر‘‘ہے۔یہ پتھر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے ہاتھوں سے کعبہ کی دیوار میں لگا یاتھا اور عرب کے لوگ اس کو بہت متبرک سمجھتے تھے۔مسلمانوں کے نزدیک بھی یہ مقدس پتھر ہے۔خانہ کعبہ کے گرد پھیرا اسی سے شروع کیا جاتا ہے اور اسکو بوسہ دیا جاتاہے۔
ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ حجرِاَسوَدکو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھنے کی عزت اسے ہی ملے۔اس بات پر سب قبیلے لڑنے مرنے پر تل گئے۔آخر ایک بوڑھے آدمی نے رائے دی کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے خانہ کعبہ میں آئے وہی اس جھگڑے کا فیصلہ کرے۔سب نے یہ رائے پسند کی ۔خداکاکرنا دوسرے دن صبح جو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں پہنچے وہ ہمارے رسولِ پاکﷺ تھے۔ان کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے ’’امین آگئے امین آگئے‘‘۔آپ نے اس جھگڑے کا حال سنا اور پھر یہ کیا کہ ایک چادر منگوائی ،حجرِاَسوَدکو اس میں رکھا اور پھر ہر قبیلے کے سردار سے کہا کہ وہ اس چادر کا ایک کونہ پکڑ کر اسے اٹھائے۔جب یہ ہوگیا توآپؐ نے حجرِاَسوَد کو اپنے پاک ہاتھوں سے اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا اس طرح سب خوش ہوگئے۔
ہر ایک کے ساتھ نیکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے بعد ہمارے رسولِ پاک ؐ تجات اور گھر کا کام بھی کرتے تھے اور ساتھ ساتھ لوگوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کے کامو ں میں بھی مشغول رہتے تھے۔آپؐ غریبوں کی مدد کرتے ،بھوکوں کو کھانا کھلاتے ،بیماروں کی خبر گیری کرتے،یتیموں کی پرورش کرتے،بیو ہ اور بے سہارا عورتوں کا سودا سلف لادیتے۔کسی کو دکھ درد میں دیکھتے تو اس کا دکھ درد دور کرنے کی کوشش کرتے اور کوئی آپؐ کے پاس حاجت لے کر آتا تو اس کی حاجت پوری کر دیتے۔غرض آپؐ ہر ایک کے ساتھ نیکی کرتے تھے۔اسی وجہ سے چھوٹے بڑے سب آپؐ کی عزت کرتے تھے۔
غارِحرامیں عبادت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب کے لوگوں کی بت پرستی اور دوسری برائیوں کو دیکھ کر آپؐ کا دل بہت دکھتا تھااور آپؐ ہر وقت ان کو سچائی کے راستے پر چلانے کی تدبیریں سوچتے رہتے تھے۔کبھی کبھی آپؐکو بہت اچھے خواب نظرآتے جو کچھ آپؐ خواب میں دیکھتے وہ سچ ثابت ہوتا اور ہو بہو وہی پیش آتا۔اب آپؐ تنہائی پسند کرنے لگے۔اس وقت آپؐ کی عمرچالیس برس کے قریب ہوچکی تھی۔مکّے کی آبادی سے دوتین میل کے فاصلے پر پہاڑ میں غارِحرا میں اکیلے بیٹھ کر دن رات خدا کی عبادت اور غوروفکر میں مشغول رہتے تھے۔جب کھانے پینے کاسامان ختم ہوجاتا تو گھر تشریف لے آتے اور پھر کچھ پانی،سَتُّو اور کھجوریں وغیرہ لے کر حرا پہنچ جاتے تھے۔

 

نُبوّت

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے رسول پاکﷺ کی عُمر چالیس سال چھ مہینے کی ہوئی تو ایک دن جب آپؐ غارحرا میں ؑ عبادت کر رہے تھے،آپؐ کو یکایک اللہ کے فرشتے جِبرئیل ؑ جو اللہ کا کلام ااور پیغام لے کر پیغمبروں کے پاس آتے ہیں،نظر آئے۔انھوں نے آپ ؐ کو پہلی باراللہ کا کلام اور پیغام سنایا۔اللہ کے کلام اور پیغام کو وحی کہتے ہیں۔پہلی وحی یہ تھی:
پڑھو اپنے رب کے نام ساتھ جس نے سارے جہان کو پیدا کیا جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔پڑھو تمہارا رب بڑا کرم کرنے والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھلایا۔انسان کو بتایاجو وہ نہیں جانتا تھا۔(سورۂ علق) 
اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام چلے گئے۔
اللہ تعالیٰ کے کلام کی ہیبت سے آپؐ کا جسم مبارک کانپنے لگا ۔اسی حالت میں گھر تشریف لائے اور بی بی خدیجہؓ سے فرمایا’’مجھے اڑھاؤ مجھے اڑھاؤ‘‘انھوں نے آپؐ کو کمبل یا چادر سے اڑھا دیا۔جب سکون ہوا تو آپؐ نے بی بی خدیجہؓ کو سارا حال سنا یا اور پھر فرمایا’’مجھے اپنی جان کا ڈر ہے‘‘
بی بی خدیجہؓ نے کہا ’’ہر گز نہیں آپ خوش ہو جائیے‘‘اللہ آپ کو کبھی رنج میں مبتلا نہیں کرے گا،آپ سچ بولتے ہیں ،رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں،امانتیں اداکرتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں ،غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘
پھر وہ آپؐ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔وہ بہت بوڑھے اور نابینا تھے۔ انھوں نے بت پرستی چھوڑکر عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھااور آسمانی کتابوں تورَیت اور انجیل کے عالم تھے ۔ورقہ نے آپؐ سے یہ واقعہ سناتو بول اٹھے ’’یہ خدا کا وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اتراتھا۔اے کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپؐ کی قوم آپؐ کو گھر سے نکال دے گی ۔‘‘
آپؐ نے فرمایا’’کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے۔‘‘
ورقہ نے کہا’’ہاں ،جو چیز آپؐ لے کر آئے ہیں اس کو لے کر پہلے بھی جو آیا اس کی قوم نے اس کے ساتھ دشمنی کی۔اگر میں نے آپؐ کی نُبُوّت کا زمانہ پایا تو میں آپ ؐ کی دل وجان سے مدد کروں گا‘‘مگر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ورقہ کا انتقال ہو گیا ۔
پہلی وحی کے بعد ایک مدت تک حضرت جبرائیل ؑ کوئی اور وحی نہ لائے۔وحی کا رک جانا آپؐ کے لئے بڑے غم کا باعث ہوا۔جب آپؐ کا غم حد سے بڑھ جاتا تو جبرائیل ؑ آپؐ کے سامنے ظاہر ہوتے اور کہتے ’’آپ یقیناًاللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ؑ ہوں ۔‘‘
آخر ایک دن جبرائیل یہ وحی لے کر نازل ہوئے :
’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرواور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رہواور زیادہ حاصل کرنے کے لئے احسان نہ کرو اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو ۔‘‘(سورۂ مدثر)
اب آپ ؐ جان گئے کہ اللہ کا رسول اور نبی ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا مجھ پر فرض ہو گیا ہے۔
لوگوں کو اسلام کابلاوا

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری وحی آنے کے بعد ہمارے رسولِ پاک ؐ نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کر دیا۔ آپؐ نے لوگوں کو بتایا کہ :
۱۔اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔اس کی نہ کوئی اولاد ہے نہ بیوی نہ ماں نہ باپ ۔اس کا کوئی ہمسر نہیں ۔زمین آسمان سورج چاند ستارے ہر چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے۔پھل پھول درخت اور اناج وہی اگاتاہے ۔خوشی، غم ،زندگی اور موت وہی دیتا ہے ۔اس کے سوا کوئی پوجنے کے لائق نہیں ۔
۲۔فرشتے اللہ کی ایک ایسی مخلوق ہیں جو ہم کو نظر نہیں آتی وہ دن رات اللہ کی عبادت اور اس کے حکموں کو بجا لانے میں لگے رہتے ہیں ان کو ماننا فرض ہے ۔
۳۔دنیا میں جتنے رسول اور نبی آئے ہیں وہ سب سچے اور خدا کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ان کو ماننا فرض ہے میں بھی اللہ کا رسول ہوں ۔اس لئے مجھ پر بھی ایمان لاؤ۔ 
۴۔اللہ نے اپنے رسولوں کو جو کتابیں دیں وہ سچی ہیں ۔
۵۔ہر شخص مرنے کے بعد قیامت کے دن پھر زندہ ہوگا اور خدا کے سامنے حاضر کیا جائے گا۔وہ ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے کاموں کا بدلہ دے گا ۔
عورتوں میں سب سے پہلے بی بی خدیجہؓ نے اسلام قبول کیا۔مردوں میں آپؐ کے بچپن کے دوست حضرت ابوبکر اور آپؐ کے آزاد کئے ہوئے غلام حضرت زید بن حارثہ سب سے پہلے ایمان لائے۔اسی طرح لڑکوں میں سب سے پہلے آپؐ کے چچیرے بھائی حضرت علیؓ نے اسلام قبول کیا ۔اس کے بعد آپ مکہ کے ایسے لوگوں کو اسلام کی باتیں سمجھانے لگے جو طبیعت کے نیک اور سمجھ دار تھے۔آہستہ آہستہ ایسے لوگ اسلام قبول کرنے لگے ان میں کوئی اڑھائی سال بعد آپؐ کو خبر ملی کہ قریش کے کچھ برے لوگوں کے کانوں میں آپؐ کی دعوت کا بھنک پڑ گئی ہے اور وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی فکر میں ہیں ۔اس پر آپؐ کوہِ صفا کے قریب ایک محفوظ مکان میں چلے گئے جس کے مالک ایک نیک دل مسلمان ارقمؓ بن ابی ارقم تھے۔مسلمان وہیں جمع ہو کر نماز پڑھتے اور جو لوگ اسلام قبول کرنا چاہتے وہ بھی وہاں جاکر آپؐ سے ملتے اور مسلمان ہو جاتے ۔اسی طرح تین سال گزر گئے اس عرصہ میں صرف ۱۳۳ نیک لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ان میں سو سے کچھ اوپر مرد تھے اور باقی عورتیں تھیں۔
اسلام کا عام وعظ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نُبُوّت کا چوتھا سال شروع ہوا تو اللہ نے ہمارے رسول پاک ﷺ کو حکم دیا کہ اب آپؐ اسلام کا پیغام لوگوں کو اعلانیہ پہنچائیں اور کافروں کی مخالفت کی پروانہ کریں۔
یہ حکم ملتے ہی پہلے تو آپ ؐ نے سب کے سامنے کعبہ میں نماز پڑھنی شروع کردی۔پھر آپؐ نے دو مرتبہ اپنے قریبی رشتہ دار وں کو کھانے پر بلایا اور ان کو اسلام کی دعوت دی۔لیکن دونوں مرتبہ آپؐ کے ایک چچا ابولہب نے آپؐ کی سخت مخالفت کی۔کیونکہ وہ بڑا سخت کافر تھا اور اپنے بُتوں کی برائی نہیں سن سکتاتھا۔دوسرے رشتہ دار بھی اس کی باتوں میں آگئے اور کھانا کھاکر کوئی جواب دیے بغیر چلے گئے۔ البتہ آپؐ کے دوسرے چچا ابو طالب نے کہا کہ میں دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری حمایت کروں گا تم جو کرنا چاہتے ہو کرو۔جناب ابو طالب کے نو عمر بیٹے حضرت علیؓ نے بھی کہا کہ میں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔
پہاڑی کاوعظ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد آپؐ ایک دن مکّہ کے ایک قریبی پہاڑصفا پر تشریف لے گئے اور اس کی چوٹی پر کھڑے ہو کر قُریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر پکارا۔جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے فرمایا:
’’ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے آرہا ہے تو کیا تم یقین کر لوگے۔‘‘
سب نے کہا’’ہاں ،بیشک کیوں کہ ہم نے تم کو ہمیشہ سچ بولتے دیکھا۔‘‘
آپؐنے فرمایا:’’تو پھر سنو کہ بُتوں کو پوجنا بڑا گناہے اسے چھوڑ دو اور ایک خدا پر ایمان لاؤ۔اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم پر سخت عذاب آئے گا۔‘‘
اس پر ابو لہب بول اٹھا’’تیرا ناس جائے کیا تو نے اسی لئے ہمیں یہاں بلایا تھا۔‘‘یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا دوسرے لوگ بھی خفا ہو کر چلے گئے۔آپؐ نے ان لوگوں کی خفگی کی کچھ پروا نہ کی ۔کھلم کھلا بت پرستی کی برائی بیان کرتے رہے اور لوگوں کو اسلام کی طرف بُلاتے رہے۔
قریش کی مخالفت

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریش کے کافروں نے جب دیکھا کہ رسولِ پاکؐدن رات لوگوں کو اپنے دین کی طرف بلانے میں مشغول ہو گئے ہیں اور آپؐ کا پیغام روز بروز لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا جارہاہے تو وہ آپؐ کے سخت دشمن بن گئے۔آپؐ کو طرح طرح سے ستانے لگے اور دوسرے مسلمانوں پر بھی سخت سے سخت ظلم ڈھانے لگے۔ان ظالم کافروں میں قریش کے بڑے بڑے سردار ابو جہل،ابولہب ،عاص بن وائل،عقبہ بن ابی معیط ،ولید بن مغیرہ،نَضر بن حارث،اُمیہ بن خَلف،اُبّی بن خلف،عاص بن سعید اورَ اسوَد بن عبد یغوث وغیرہ شامل تھے۔یہ لوگ آپؐ کو دکھ دینے کے لئے بڑی گھٹیا حرکتیں کرتے تھے۔آپؐ قرآن پڑھتے تو وہ شور مچاتے اور تالیاں پیٹتے۔آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھادیتے۔آپؐ پر خاک پھینکتے ۔آپؐ کو دیوانہ،شاعر اور جادوگر وغیرہ مشہور کرتے۔آپ کعبہ میں جاتے تو آوازیں کستے،دھکے دیتے۔باہر سے جو لوگ مکہ آتے ان سے پہلے ہی کہہ دیتے کہ ہمارے یہاں ایک شخص باپ دادا کے دین سے پھر گیا ہے ،اس سے نہ ملنا۔آپؐ ان کی ذلیل حرکتوں پر صبر کرتے تھے اور اپنا کام کئے جاتے تھے۔اب قُریش نے آپؐ کے سر پر ست چچا ابو طالب پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ان میں سے کچھ آدمی اکھٹے ہو کر تین چار مرتبہ جناب ابو طالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ مُحَمَّدکی حمایت چھوڑ دیں۔جناب ابو طالب نے ہر مرتبہ ان کو ٹال دیا۔البتہ ایک دن انھوں نے آپؐ سے کہا ’’بھتیجے مجھ بوڑھے پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میں اٹھا نہ سکوں۔‘‘شفیق چچا کی یہ بات سن کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپؐ نے فرمایا:
’’چچا جان !خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے سے باز نہ آؤں گا۔‘‘
ابو طالب نے آپؐ کا حوصلہ اور پکا ارادہ دیکھ کر کہا ،اچھا بھتیجے تو جاؤ اپنا کام جاری رکھو ،میں تمہاری حفاظت کرتا رہوں گا۔
قریش نے اب رسولِ پاکؐ کو لالچ دینے کی تدبیر سوچی اور دو تین مرتبہ اپنے کچھ سردار آپؐ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجے کہ اگر آپؐ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنا ئے لیتے ہیں۔اگر آپ دولت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اتنی دولت دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے دولت مند آدمی بن جائیں گے۔اگر آپ ؐ شادی کرنا چاہتے ہیں تو جس عورت سے آپؐ چاہیں ہم آپؐ کی شادی کئے دیتے ہیں ۔بس آپ ہماری اتنی بات مان لیں کہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہا کریں۔آپؐ نے ان لوگوں کی بات قبول نہ کی اور فرمایا:
’’میں جو چیز تمہارے پاس لایا ہوں اس کو مان لو ۔اسی میں تمہاری بہتری ہے ورنہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا ۔‘‘
قریش کے کافروں نے کئی دفعہ آپؐ کو طرح طرح کی دھمکیاں بھی دیں ۔لیکن آپؐ نے کسی دھمکی کی پروا نہ کی اور اپناکام برابر جاری رکھا۔
عَرَب میں ہر سال عُکا ظ اور مجنہ وغیرہ کے مقامات پر بڑے بڑے میلے لگتے تھے جن میں دور دور سے لوگ شریک ہوتے تھے۔آپ ان میلوں میں بھی تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اسلام کی طرف بُلاتے۔اسی طرح جب حج کے موقع پر لوگ عرب کے گوشے گوشے سے مکّہ آکر منیٰ میں پڑاؤ ڈالتے تو آپؐ ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور اس کو اسلام کی دعوت دیتے۔
مسلمانوں پر ظلم وستم

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہ کے کافر ایک طرف رسولِ پاک ﷺ کو ستاتے تھے اور دوسری طرف جن مسلمانوں پر ان کا بس چلتا ان پر ایسے ایسے ظلم ڈھاتے تھے کہ ان کا حال پڑھ کر انسان کانپ اٹھتا ہے۔یہ بہادر مسلمان ہر قسم کی مصیبتیں اور سختیاں سہہ لیتے تھے۔مگر اسلام سے منہ نہ موڑتے تھے ظالم کافر اسلام لانے کی سزا میں حضرت بلالؓ کو تیز دھوپ میں گرم ریت پر لٹاتے تھے اور ان کے گلے میں رسی باندھ کر گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔
حضرت خبابؓ کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹاتے تھے او ر گرم لوہا ان کے جسم پر لگاتے تھے۔حضرت یاسرؓ ان کے بیٹے عمارؓ اور ان کی بیوی سمیہؓ کو اتنا مارتے تھے کہ وہ بے ہوش ہو جاتے تھے بوڑھے یاسر یہ ظلم سہتے سہتے فوت ہو گئے اور حضرت سمیہؓ کو ایک دن ابو جہل نے برچھی ما رکر شہید کر دیا۔حضرت عمارؓ کو ظالم کبھی آگ پر لٹاتے اور کبھی دیر دیر تک پانی میں غوطے دیتے رہتے۔
حضرت صہیبؓ کو اتنا مارتے تھے کہ ان کے ہوش وحواس جاتے رہتے تھے۔
حضرت زنیرہؓ ایک مسلمان لونڈی تھیں ۔ایک دن ابوجہل نے ان کو اتنا مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں ۔
حضرت ابوبکرؓ کو مشرکوں نے ایک دفعہ اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہو گئے اور سارا منہ سوج گیا۔
حضرت عثمانؓ اسلام لائے تو ان کے چچا نے ان کو رسی میں باند ھ کر مارا۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے کافروں کے سامنے قرآن پڑھا تو انھوں نے ان کو بری طرح مارا ۔
حضرت خالدؓبن سعید کے اسلام لانے کا حال ان کے والد کو معلوم ہوا تو اس نے ایک لکڑی سے انھیں اتنا مارا کہ لکڑی ٹوٹ گئی ،پھر انھیں قید کرلیا اور بھوکا پیاسا رکھا ۔
حضرت زبیرؓ کا چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور اس قدر دھونی دیتا کہ ان کا دم گھٹنے لگتا۔
حضرت طلحہؓ کے بھائی نے ان کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ ایک رسی میں باندھ کر بری طرح مارا۔
حضرت حارثؓ بن ابی ہالہ نے ایک دن کعبہ میں رسولِ پاکؐ کی حمایت کی تو کافروں نے انھیں اتنا مارا کہ وہ شہید ہو گئے۔
حضرت عامرؓ بن فہیرہ کوظالم ہر روز بری طرح مارتے تھے اور ان کے جسم میں کانٹے چبھوتے تھے ۔
حضرت ابو فکیہہؓ ایک بوڑھے مسلمان تھے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پتھریلی زمین پر گھسیٹتے اور گلا گھونٹتے تھے۔ 
حضرت ابو جندلؓ اسلام لائے تو ان کے والد نے ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر قید کردیا ۔غرض بے رحم کافر مسلمانوں پر دن رات ایسے ہی ظلم ڈھاتے رہتے تھے۔

 

حبش کی ہجرت

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

ایک ملک یا شہر کو چھوڑکر دوسرے ملک یا شہر میں جا بسنے کو ہجرت کہتے ہیں ۔مسلمانوں پر کافروں کی سختیاں حد سے بڑھ گئیں تو رسولِ پاکؐنے نبوت کے پانچویں سال مسلمانوں سے فرمایا کہ اچھا ہو اگر تم یہاں سے نکل کر حبش چلے جاؤ وہاں ایک بادشاہ ہے جو کسی پر ظلم نہیں ہو نے دیتا جب تک اللہ تمہارے لئے کوئی بہتر صورت پیدا نہ کرے تم وہیں ٹھہر ے رہو۔حبش کا ملک بحرِاحمر کے مغربی کنارے پر افریقہ کے برِاعظم میں واقعہ ہے آج کل اس کو ایتھوپیا کہا جاتا ہے۔اس زمانے میں وہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہا جا تا تھا۔آپؐ کا ا رشاد سن کر بہت سے مسلمان حبش جانے کے لئے تیار ہو گئے اور اسی سال گیارہ مرد او ر چار عورتیں ہجرت کر کے حبش چلے گئے ۔ان میں سے ایک دو کے سوا باقی سب یہ خبر سن کر بہت جلد واپس آگئے کہ مکہّ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں لیکن مکہّ پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔اب کافر مسلمانوں پر اور زیادہ سختیاں کرنے لگے چنانچہ نبوت کے چھٹے سال آپؐ کی اجازت سے ۱۰۳ مسلمان ہجرت کر کے حبش چلے گئے ان میں پچاسی چھیاسی مرد تھے اور باقی عورتیں تھیں ۔نجاشی نے ان لوگوں سے اچھا سلوک کیا اور وہ امن وامان سے وہاں رہنے لگے ۔قریش کو اس پر سخت غصہ آیا۔انھوں نے بہت سے تحفے دے کر اپنے دو قاصد نجاشی کے پاس بھیجے۔انھوں نے نجاشی سے درخواست کی کہ یہ لوگ ہمارے مجرم ہیں ،آپ ان کو اپنے ملک سے نکال دیں۔بادشاہ نے مسلمانوں کو بلا کر ان سے پوچھا کہ تم نے کو ن سا نیا دین ایجاد کیا ہے۔مسلمانوں کی طرف سے آپؐ کے چچیرے بھائی حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے تقریر کی :
’’اے بادشاہ ہم جاہل تھے بت پوجتے تھے ،حرام چیزیں کھاتے تھے،بے حیائی کے کام کرتے تھے،ہمسایوں کو ستاتے تھے،طاقت ور کمزور کو کھا جاتا تھا۔اللہ نے ہم میں سے ہماری طرف ایک رسول بھیجا۔ہم اس کے خاندان کی بزرگی اور اس کی سچائی دیانت داری اور پاک بازی کو جانتے تھے۔اس نے ہم کو اللہ کے سچے دین کی طرف بلایا اس نے ہم کو نصیحت کی کہ بت پرستی چھوڑ دیں ،کسی پر ظلم نہ کریں ،یتیموں کا مال نہ کھائیں ، سچ بولیں ،پڑوسیوں سے اچھا سلوک کریں،نماز پڑھیں ،روزے رکھیں،زکوٰۃ دیں ۔ہم نے اپنے دین کو بچانے کے لئے آپ کے ملک میں پناہ لی۔‘‘
نجاشی نے کہا’’تمہارے پیغمبر پر جو کلام اترا ہے۔اس میں سے کچھ سناؤ‘‘حضرت جعفر نے سورۂ مریم کی کچھ آیتیں پڑھیں تو بادشاہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور اس نے کہا:
’’خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل ایک ہی نور سے ہیں۔‘‘
پھر بادشاہ نے قریش کے قاصدوں سے کہاکہ’’تم واپس جاؤمیں ان مظلوموں کو تمہارے حوالے نہ کروں گا۔‘‘
دوسرے دن ان قاصدوں نے بادشاہ کو یہ کہہ کر پھر مسلمانوں کے خلاف بھڑکایاکہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں اچھا خیال نہیں رکھتے،لیکن جب ان مسلمانوں نے بادشاہ کو بتایا کہ ہم حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بندہ،سچا پیغمبر اور روح اللہ مانتے ہیں تو بادشاہ نے کہا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا یہی رتبہ تھا۔پھر اس نے قریش کے قاصدوں کو ان کے تحفے واپس کر کے رخصت کردیا۔
کچھ عرصہ بعد نیک بادشاہ نے حضرت جعفر کے ہاتھ اسلام قبول کرلیا۔

 

حضرت حمزہؓ اورحضرت عُمَرؓ اسلام لاتے ہیں

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نُبُوّت کے چھٹے سال قریش کے دو بڑے معزّز اور بہادر اآدمیوں نے اسلام قبول کیا۔یہ تھے حضرت حمزہؓ اورحضرت عُمَرؓ بن خطاب۔
حضرت حمزہؓ رسولِ پاکؐکے چچا بھی تھے اور خالہ زاد بھائی بھی۔اس تعلق کے علاوہ وہ آپؐ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے۔کیونکہ ثوبیہؓ جن کا دودھ بچپن میں حضرت حمزہؓنے پیا تھا بعد میںآپؐ نے بھی ان کا دودھ پیا۔وہ آپؐ سے صرف دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ان کو رسولِ پاک ؐ سے بڑی مُحبت تھی لیکن جب آپؐ نے اسلام کی دعوت دینے شروع کی تو انھوں نے عرصہ تک اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ان کو تلوار اور تیر چلانے اور پہلوانی کا شوق تھا۔اپنا زیادہ وقت سیر اور شکار میں گزارتے تھے۔ایک دن شکار سے واپس آرہے تھے کہ ایک لونڈی نے ان کو بتایا ،آج ابوجہل نے مُحَمَّدکو بہت گالیاں دی ہیں۔یہ سن کر ان کو سخت غصّہ آیا ۔سیدھے خانہ کعبہ پہنچے جہاں ابوجہل دوسری کافروں کے درمیان بیٹھا شیخیاں بگھار رہا تھا۔انھوں نے اپنی کمان اس زور سے ماری کہ وہ زخمی ہوگیا۔ساتھ ہی کہا کہ میرا دین بھی مُحَمَّد کا دین ہے،اگر تم سچے ہو تو مجھے اس سے روک کر دیکھ لو…… پھر گھر گئے اور رات بھر سوچتے رہے۔صبح ہوئی تو آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کیا۔
اس واقعہ کے تین دن بعد قریش کے نامی بہادر حضرت عُمرؓ تلوار ہاتھ میں لے کر رسولِ پاک ؐ کو شہید کرنے کے ارادے سے نکلے۔راستے میں ان کے قبیلے بنو عدی کے ایک مسلمان حضرت نعیمؓ مل گئے۔انھوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ تم نے اپناارادہ پوراکیا تو عبدِمناف کی اولاد تمھیں زندہ نہیں چھوڑے گی ۔تمھاری تو اپنی بہن فاطمہؓاو ر بہنوئی سعیدؓ بن زید مسلمان ہو چکے ہیں۔یہ سن کر حضرت عُمرؓ بہن کے گھر پہنچے ۔اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بہت نے قرآن کے اوراق چھپا دیے اور دروازہ کھول دیا۔حضرت عمرؓ نے اندر داخل ہو کر بہنوئی کو مارنا شروع کردیا۔بہن شوہر کو بچانے کے لئے آگے بڑھیں تو ان کوبھی لہو لہان کردیا۔انھوں نے کہا کہ عمر جو چاہے کر لو اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا۔اس بات نے حضرت عمرؓ کے دل پر بڑا اثر کیا۔انھوں نے بہن سے کہا:’’اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی سناؤ‘‘انھوں نے چھپائے ہوئے اوراق نکالے اور اور ان پر لکھی ہوئی سورۂ طٰہٰ پڑھنی شروع کی بعض کتابوں میں ہے کہ سورۂ حدید تھی اور یہ حضرت عمرؓ نے غسل کرنے کے بعد قرآن کے اوراق ہاتھ میں لے کر پڑھی۔چند ہی آیتیں پڑھ کر یا سن کر ان کا دل موم ہو گیااور مسلمان ہوگئے۔رسولِ پاکؐ اس وقت چند مسلمانوں کے ساتھ حضرت ارقمؓ کے گھر میں تھے۔حضرت عمرؓ سیدھے ادھر روانہ ہوئے۔مسلمانوں نے دروازے کی جھری سے حضرت عمرؓ کو تلوار کمر سے باندھے ہوئے آتا دیکھا تو انھیں ان کی طرف سے خطرہ محسوس ہوا لیکن حضرت حمزہؓنے بے دھڑک کہا،اسے آنے دو صلح کے لئے آیا ہے تو خیر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دوں گا۔دروازہ کھلا اور حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے تو آپؐ نے ان کی چادر پکڑ کر پوچھا،ابنِ خطاب کس ارادے سے آئے ہو؟ انھوں نے عرض کیا ’’اللہ اور اللہ کے رسول ؐ پر ایمان لانے کے لئے۔‘‘اس پر آپؐ نے زور سے ’’اللہ اکبر‘‘ فرمایا۔ساتھ وہاں موجود تمام مسلمانوں نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکّہ کے پہاڑ گونج اٹھے۔
اس سے ایک ہی دن پہلے آپؐ نے دُعا مانگی تھی کہ الٰہی ابو جہل یا عُمر بن خطاب کو مسلمان بنا دے ۔یہ دعا حضرت عمر کے حق میں قبول ہو گئی ۔مسلمان ہونے کے بعد حضرت عُمرؓ سب مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکلے اور کافروں کو پیچھے ہٹاکر کعبہ کے صحن میں نماز پڑھی۔ 
پہاڑ کے درّے میں تین سال

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریش کے کافروں نے جب دیکھا کہ اسلام پھیلتا ہی جا رہا ہے تو نبوت کے دسویں سال ان سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ جب تک ابو طالب رسولِ پاک ؐکو ان کے حوالے نہیں کریں گے ،کوئی شخص رسولِ پاکؐ کے خاندان بنوہاشم سے کوئی تعلق نہیں رکھے گا اورنہ ان سے کوئی شادی بیاہ کرے گا نہ ان کو کوئی کھانے پینے کا سامان دے گا اور نہ ان سے کوئی لین دین کرے گا۔انھوں نے یہ معاہدہ لکھ کر کعبے کے دروازے پر لٹکا دیا۔ابو طالب کو پتا چلا تو وہ ابو لہب اور اس کے گھر والوں کے سوا خاندان کے سب لوگوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کے ایک درّے میں چلے گئے جو شِعبِ ابی طالب کہلاتا تھا۔ بنو مُطَّلِب نے بھی ان کا ساتھ دیا۔مسلمان پورے تین سال اس درّے میں بڑی تکلیف سے گزارہ کرتے رہے۔یہ زمانہ اتنا سخت تھا کہ ان کو درختوں کے پتّے تک کھانے پڑے ۔بچے بھوک پیاس سے تڑپتے تھے۔ان کی ماؤں کا دودھ سوکھ گیا تھا اور وہ سوکھ کر کانٹا بن گئیں تھیں ۔آخر دشمنوں میں سے کچھ کو رحم آگیا۔انھوں نے اس معاہدے کو پھاڑ ڈالا اور مسلمان نبوت کے دسویں سال درّے سے نکل کر شہر میں آگئے۔
غم کا سال

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درّے سے نکلے تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ رسولِ پاکؐ کے پیارے چچا ابو طالب فوت ہو گئے ۔ابھی یہ غم ہرا تھا کہ بی بی خدیجہؓ بھی فوت ہو گئیں ۔یہ دونوں آپؐ کے مدد گا اور غم بٹا نے والے تھے۔اس لئے ان کی وفات سے آپؐ کو سخت صدمہ پہنچا۔آپ نبوت کے دسویں سال کو ہمیشہ عامُ الحُزن (غم کا سال) فرمایا کرتے تھے۔ 
کافروں کا ظلم اور بڑھ گیا

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب ابو طالب اور بی بی خدیجہؓ کی وفات کے بعد کافروں نے آپؐ کو پہلے سے بڑھ کر ستانا شروع کر دیا ۔ایک دن جب آپؐ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے،ایک شریر نے اونٹ کی وزنی اوجھڑی لا کر آپؐ کی پیٹھ پر رکھ دی ۔آپ ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو پتا چلاتو انھوں نے آکربڑی مشکل سے اسے نیچے پھینکا۔
ایک دن کسی ظالم نے آپؐ کے سر مبارک پر مٹی ڈال دی ۔آپؐ اسی حال میں گھر آئے اور آ پؐ کی بیٹی نے روتے روتے آپؐ کا سر دھویا۔ایک دن ایک شریر نے بازار میں سب لوگوں کے سامنے آپؐ کو بہت گالیا ں دیں ۔
ایک دفعہ ایک ظالم نے آپؐ کی گردن میں چاد رکا پھندا ڈال کر چاہا کہ گلا گھونٹ دے۔حضرت ابوبکرؓ نے دیکھا تو دوڑ کر آپؐ کی گردن پھندے سے آزاد کی۔ 
طائف کا سفر

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی سال آپؐ اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو ساتھ لیکر طائف تشریف لے گئے تاکہ وہاں کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دیں۔یہ مکّہ سے پچاس ساٹھ میل دور ایک سر سبز اور خوشحال شہر تھا۔طائف کے سرداروں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے آپ کا مذاق اڑایا اور شریر لڑکوں اور آوارہ لوگوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔انھوں نے آپؐ کو پتھر مار مار کر زخمی کردیا۔آخر آپؐ نے شہر سے باہر نکل کر ایک باغ میں پناہ لی۔طائف والوں کی اس بد سلوکی پر بھی آپؐ نے ان کے لئے کوئی بد دعا نہ کی۔بلکہ فرمایا کہ امید ہے انکی اولاد ضرور اللہ کا دین قبول کرے گی۔
قبیلوں میں دورہ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طائف سے مکہ واپس آنے کے بعد آپؐ نے فیصلہ کیا کہ حج پر آنے والے ایک قبیلہ کو جہاں پہلے کی طرح اسلام کا پیغام سنایا جائے وہاں اب اس کے سردار سے قریش کے کافروں کے مقابلے میں اپنی حمایت اور ہمدردی کے لئے بھی کہا جائے۔چنانچہ آپؐ ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے۔اس کو اسلام کی دعوت دیتے اور اپنی حمایت کے لئے کہتے۔ان میں سے بعض نرمی سے انکار کر دیتے اور بعض بد تمیزی سے پیش آتے۔
مدد گار مل گئے

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبوت کے گیارھویں سال حج کے موقع پر آپؐ مختلف قبیلوں کو حق کی دعوت دیتے منیٰ کی طرف جانکلے ۔عقبہ کی گھاٹیوں میں آپؐ کی ملاقات شہرِیثرب کے چھ آدمیوں سے ہوئی۔یثرب مکہ سے تقریباً تین سو میل دور واقع ہے۔اب اس کا نام مدینہ ہے۔اس زمانے میں یثرب میں دو بڑے قبیلے اوس خزرج آباد تھے۔یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اور کھجور کے باغات لگاتے تھے۔ان کے آس پاس یہودی بھی آباد تھے جو ان کو سود پر قرض دیا کرتے تھے۔ان قبیلوں کی آپس میں ان بن رہتی تھی اس لئے یثرب میں یہودیوں کا بہت زور تھا۔اوس اور خزرج کے لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔یہودان کے سامنے اکثر ایک آخری نبی کے آنے کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔جن چھ آدمیوں سے آپؐ ملے ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔آپؐ نے ان کو اللہ کا پیغام سنایا تو ان کے دل نے گواہوں دی کہ آپؐ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں۔انھوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔بیعت کا مطلب ہے اطاعت کا عہد کرنا۔
اگلے سال یثرب سے بارہ آدمی آکر مسلمان ہوئے اور عقبہ ہی کے مقام پر آپؐ کی بیعت کی۔آپؐ نے ان لوگوں کی خواہش پر اپنے ایک پیارے ساتھی مُصعَب بن عمیر کو یثرب بھیجا تاکہ ان کو دین کی باتیں سکھائیں اور وہاں کے دوسرے لوگوں کواسلا م کی طرف بلائیں۔حضرت مُصعَبؓکی کوششوں سے اَوس وخزرج کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوگئی۔اس میں ان کے بڑے بڑے سردار بھی شامل تھے۔اگلے سال ۱۳ ؁ نبوت میں یثرب سے ۷۵ مسلمان حج کے قافلے میں شامل ہو کر مکہ آئے۔رسولِ پاک ؐ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کے ساتھ رات کو عقبہ کی گھاٹی میں ان سے ملاقات کی۔انھوں نے آپؐ کی بیعت کی اور آپؐ کو دعوت دی کہ آپ ہمارے پاس یثرب آجائیں،ہم مرتے دم تک آپؐ کی حفاظت اور مددکریں گے۔آپؐ نے فرمایا:’’تو پھر میرا جینا مرنا بھی تمہارے ساتھ ہو گا۔‘‘پھر آپؐ نے ان لوگوں کو جنّت کی خوشخبری دی اور وہ خوش خوش واپس گئے۔آپؐکی مدد کرنے والے یثرب کے لوگ ’’انصار ‘‘کے لقب سے مشہو رہوئے جس کے معنی ’’مددگار‘‘ کے ہیں۔

 

معراج

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ا س واقعہ سے کچھ مدت پہلے آپؐ کو معراج ہوئی۔اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے آپؐ کو بیت المقدس لے گیا۔وہاں سے آپؐ کو آسمانوں کی سیر کرائی۔قدرت کے عجائبات دکھائے اور پھر واپس بھیج دیا۔یہ سب کچھ ایک ہی رات میں ہوگیا۔پہلے نماز کی دو رکعتیں ہوتی تھیں،معراج میں مسلما نوں پر پانچ نمازیں فرض کردی گئیں۔

 

نبی پاک ﷺنے اپنا وطن چھوڑ دیا

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عقبہ کی بڑی بیعت کے بعد رسول پاک ؐ نے مسلمانوں کو یثرب کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی۔چنانچہ چند ایک کے سوا سب مسلمان آ ہستہ آہستہ مکہ سے ہجرت کر کے یثرب چلے گئے۔اللہ نے ان مسلمانوں کو مہاجرین کا نام دیا،مسلمانوں کو اس طرح امن کی جگہ جاتے دیکھ کر قریش کے کافروں کو سخت غصہ آیا ۔ایک دن انھوں نے جمع ہو کر فیصلہ کیا کہ فلاں رات کو ہر قبیلہ کا ایک آدمی جمع ہو اور سب مل کر رسولِ پاک ؐ کو قتل کر ڈالیں۔ادھر اللہ نے آپؐ کو ہجرت کی اجازت دے دی۔یہ اجازت اس دن ملی جس کے بعد آنے والی رات کو کافروں نے آپؐ کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔رات ہوئی تو آپؐ نے حضرت علیؓ کو یہ فرماکر اپنے بستر پر سلادیا کہ تم میرے پاس رکھی ہوئی ا مانتیں ان کے مالکوں کوواپس کر کے بعد میں یثرب آجانا۔اس وقت کافروں نے آپؐ کے مکان کو گھیر لیا تھا۔اللہ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آپؐ ان کے درمیان سے نکل کر سیدھے حضرت ابو بکرؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ان سے پہلے ہجرت کا مشورہ ہو چکا تھا۔وہ فوراً آپؐ کے ساتھ چل پڑے۔اس وقت آپؐ نے کعبہ کی طرف منہ کر کے بڑے درد سے فرمایا:
’’اے مکہ خدا کی قسم تو خدا کی زمین میں سب سے بڑھ کر پیارا ہے،اگر تیرے باشندے مجھے نہ نکالتے تو میں کبھی تجھے چھوڑ کر نہ نکلتا ۔‘‘
مکہ کے جنوب میں تین میل دور ثور نامی پہاڑ ہے۔دونوں ساتھی اس پہاڑ کے ایک غار میں چھپ گئے ادھر کافروں نے آپؐ کے بستر پر حضرت علی کو سوتا پایا توحیران رہ گئے۔وہ سمجھ گئے کہ رسولِ پاکؐ بچ کر نکل گئے ہیں۔آپؐ کی تلاش میں ہر طرف آدمی دوڑا دیے۔کچھ آدمی غارِثور کے منہ پر پہنچ گئے۔حضرت ابو بکرؓ ان کی آہٹ پاکر گھبرا گئے۔آپؐ نے فرمایا گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔خدا کی قدرت کافر آپؐ کو دیکھ نہ سکے اور واپس چلے گئے۔آپؐ تین دن اور تین رات غارِثور میں رہے۔اس عرصے میں حضرت ابو بکرؓ کے آزاد کئے ہوئے غلام عامرؓ بن فہیرہ ہر روز بکریاں چراتے شام کو وہاں آجاتے اور آپؐ کو بکریوں کا دودھ دے جاتے۔حضرت ابو بکرؓ کی بڑی بیٹی حضرت اسماءؓ ہر روز تازہ کھانا پہنچا دیتیں۔تین دن رات کے بعد دونوں ساتھی غا ر سے نکلے ۔عامرؓ بن فہیرہ کو ساتھ لیا اور اونٹنیوں پر جن کا انتظام حضرت ابو بکر نے پہلے سے کر رکھا تھا سوارہو کر یثرب کی طرف روانہ ہوگئے۔
دوسری طرف قریش نے اعلان کر دیا کہ رسولِ پاکؐ کو پکڑ کر لانے والے کو سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے ۔ایک صحرائی قبیلے بنی مُد لِج کے سردار سُراقہ نے یہ اعلان سنا تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آپؐ کی تلاش میں نکلا اور آپؐ کے قریب پہنچ گیا ۔اس وقت اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گر پڑ ا ۔اٹھ کر پھر آگے بڑھا تو اس کا گھوڑا گھٹنوں تک ریت میں دھنس گیا۔اب سُراقہ نے آپؐ سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور واپس چلا گیا۔راستے میں ایک جگہ آپؐ ایک نیک خاتون اُمِ معبدکے گھر کچھ دیر ٹھہرے اور پھر آگے روانہ ہوگئے۔آٹھ دن کے سفر کے بعد آپؐ قُبا پہنچ گئے جو یثرب سے دو میل اِدھر انصار کے قبیلہ اوس کی ایک شاخ کا گاؤں تھا۔ یہ لوگ کئی دن سے آپؐ کا انتظا رکر رہے تھے۔انھوں نے بڑے جوش سے آپؐ کا استقبال کیا ۔آپؐنے ان کے سردار کلثومؓ بن ہدم کے ہاں چند دن قیام کیا۔اس عرصے میں آپؐ نے وہاں ایک مسجد بنائی جس کانام ’’مسجد قبا ء‘‘ ہے۔اس کے بعد آپ جمعہ کے روز دن چڑھے شہر یثرب کے لئے روانہ ہوئے۔

 

یثرب نبی ﷺ کا مدینہ بن گیا

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یثرب کے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آپؐ ان کے پاس تشریف لارہے ہیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی وہ ہتھیا ر لگا کر یثرب سے قبا تک راستے کے دونوں طرف صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے ۔آپؐ قبا سے چل کر بنو سالم کے محلے میں پہنچے تو جمعہ کی نماز کا وقت ہوگیا۔آپؐ نے سواری سے اتر کر لوگوں کو خطبہ دیا اورپھر جمعہ پڑھایا۔نماز کے بعد آپؐ آ گے بڑھ کر یثرب میں داخل ہوئے تو ہر طرف جشن کا سماں تھا۔لڑکے بالے اچھل کود رہے تھے اور ’’اللہ اکبر ،اللہ اکبر‘‘اور رسول اللہ آئے،رسول اللہ آئے ‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔بازار اور مکانوں کی چھتیں بچوں اور عورتوں سے پٹی پڑی تھیں۔بچیاں خوشی کے مارے دف بجا بجا کر آپؐ کی تعریف میں گیت گارہی تھیں۔ہر شخص چاہتا تھا کہ آپؐ اس کے گھر میں قیام فرمائیں۔لوگ راستے میں جگہ جگہ آپؐ کی اونٹنی کی کی مہار تھا م کر عرض کرتے تھے’’یا رسول اللہ ہمارے مہمان بن کر ہمیں عزت بخشئے‘‘آپؐ فرماتے اونٹنی کو چھوڑ دو جس گھر کے سامنے یہ بیٹھ جائے گی وہیں میرا قیام ہوگا۔اونٹنی حضرت ابو ایّوبؓ کے مکان کے سامنے ایک میدان میں رکی اور وہیں بیٹھ گئی۔حضرت ابو ایّوبؓ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ رہا۔فوراً آپؐ کا سامان اپنے گھر میں لے گئے اور آپؐ کو اپنا مہمان بنا لیا۔اس دن سے یثرب کا نام ’’مدینَۃُ النبی ؐ‘‘ پڑ گیا۔اس کے معنی ہیں ’’نبی کا شہر‘‘۔سن ہجری اسی واقعہ کی یادگار ہے۔

مسجدِنبویؐ کی تعمیر

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس میدان میں آپؐ کی اورنٹنی رکی تھی وہ دو یتیم بچوں کی زمین تھی۔چند دن بعد آپؐ نے یہ زمین ان بچوں سے خرید کر وہاں ایک سادہ سی مسجد بنائی۔اس کو بناتے وقت دوسرے مسلمانوں کے ساتھ آپؐ خود بھی اینٹیں اور گارا ڈھوڈھو کر لاتے تھے۔یہ مسجد ’’مسجدِ نبویؐ‘‘کے نام سے مشہورہوئی ۔آج کل یہ بہت بڑی عالی شان مسجد ہے۔
مسجد کے قریب ہی آپؐ نے اپنے لئے چند کوٹھریاں بنوائیں۔جن کو حُجرہ کہتے ہیں۔سات ماہ بعد آپؐ حضرت ابو ایّوبؓ کے گھر سے ان حجروں میں چلے گئے اور اپنے گھر والوں کو بھی مکّہ سے بلا لیا۔
بھائی چارہ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت کے پانچ چھ ماہ بعد آپؐ نے مہاجرین او ر انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کو سر آنکھوں پر جگہ دی اور ان کے ساتھ سگے بھائیوں جیسا سلوک کیا۔انھوں نے ان کو نہ صرف اپنی آدھی زمین اور دولت بانٹ دی بلکہ کھیتی باڑی میں بھی شریک کیا اور کاروبار میں بھی مدددی۔
یہودیوں سے معاہدہ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدینہ میں بہت سے یہو دی آباد تھے ۔یہ بڑے دولت مند تھے اور مدینہ کے باشندوں پر ان کا بڑا اثر تھا۔آپؐ مدینہ تشریف لائے تو اس خیال سے کہ یہ لوگ بدامنی پیدا نہ کریں ان سے ایک معاہدہ کیا جس کی بڑی بڑی شرطیں یہ تھیں کہ یہودیوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی پوری آزادی ہوگی۔مسلمان اور یہودی صلح صفائی سے رہیں گے اور مدینہ پر کسی دشمن نے حملہ کیا تو دونوں مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
مدینہ کے مُنافِق

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو مسلمان ظاپر کرتے تھے لیکن حقیقت میں وہ اسلام کے خلاف تھے ۔زبان پر کچھ اور دل میں کچھ۔اللہ نے ایسے لوگوں کو منافق کا لقب دیا۔ان کا سردار مدینہ کا ایک دولت مند شخص عبداللہ بن اُبی تھا۔ہجرت سے پہلے اس شخص کو مدینہ کے لوگوں نے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے لئے تاج بھی بنوالیا تھا لیکن جب آپؐ مدینہ تشریف لائے تو یہ معاملہ ختم ہوگیا اس لئے وہ آپؐ سے بہت جلتا تھا۔

 

بدر کی لڑائی

(  ۲،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسولِ پاک ﷺ کے مدینہ آ جانے کے بعدبھی قریش اپنے شرارتوں سے با زنہ آئے ۔ان کو اس بات پر غصہ تھا کہ اب ان کے ظلم کا ہاتھ مسلمانوں تک نہیں پہنچ سکتا۔پہلے انھوں نے مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں کو پیغام بھیجا کہ تم مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دو۔مسلمان چوکس تھے ۔اس لئے دل کے کھوٹے اِن لوگوں کا اُن پر بس نہ چلا۔اب قریش مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں سوچنے لگے۔
رسولِ پاکؐ کو ان کے برے ارادوں کا علم تھا ۔اسلئے آپؐ مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے دستے ادھر ادھر بھیجتے رہے تھے تاکہ قریش کوئی شرارت نہ کرسکیں اور انکو یہ پتا بھی چل جائے کہ مسلمان ان کے شام جانے والے تجارتی قافلوں کو روک سکتے ہیں۔پھر بھی ایک دفعہ ان کے ایک سردار کُرز بن جابر نے مدینہ کی ایک چراگاہ پر چھاپا مارا اور مسلمانوں کے اونٹ لوٹ کر لے گیا۔اس واقعہ کے تین چار ماہ بعد مسلمانوں کے ایک دستے سے قریش کے ایک قافلے کی جھڑپ ہوگئی جس میں قریش کا ایک آدمی مارا گیا اور دو پکڑلئے گئے۔اب قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کا پکا ارادہ کرلیا۔انھوں نے ابو سفیان کی سرداری میں ایک بڑا تجارتی قافلہ شام بھیجا تاکہ وہاں سے اپنے مال کے بدلے میں جو سامان اور منافع ملے ،اس سے لڑائی کی خوب تیاری کریں۔جب یہ قافلہ شام سے واپس آرہا تھا، مسلمان اس کو روکنے کے لئے نکلے ۔مکہ والوں کو خبر ملی تو ان کے ایک ہزار بہادر بڑے سازوسامان کے ساتھ قافلے کی مدد کے لئے روانہ ہوئے۔قافلہ تو بچ کر نکل گیا لیکن قریش کا لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا ہی چلا گیا۔
مدینہ سے تقریباً اسی میل دور جنوب مغرب کی طرف بدر کے مقام پر ان کا سامنا مسلمانوں سے ہوا ۔قریش کی فوج کے پاس سات سو اونٹ ،سو گھوڑے اور بے شمار ہتھیار تھے اور مکہ کے بڑے بڑے سردار اور نامی بہادر اس فوج میں شامل تھے۔اُدھر مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے۔پورے لشکر میں دو یا تین گھوڑے تھے اور ستر سواری کے اونٹ ۔پھر بہت سے مسلمانوں کے پاس پورے ہتھیار بھی نہیں تھے۔مگر ان کے ایمانی جوش کا یہ حال تھا کہ راستے میں جب رسولِ پاک ؐ نے ان کی رائے لی تو حضرت مِقدادؓ نے اٹھ کر کہا:
’’یا رسول اللہ ﷺ ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح نہیں کہیں گے کہ تو اور تیرا رب جا کر لڑے ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔خدا کی قسم جب تک ہمارے دم میں دم ہے ہم آپ کے دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے،آگے لڑیں گے اور پیچھے لڑیں گے۔‘‘
لڑائی شروع ہونے سے پہلے رسولِ پاک ؐ نے بڑی عاجزی سے دعا مانگی:
’’یا اللہ اگر یہ تھوڑے سے مسلمان مارے گئے تو قیامت تک تجھے پوجنے والا کوئی نہ ہوگا۔الٰہی تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا کر۔‘‘
اس زمانے میں رواج تھا کہ پہلے ایک ایک دو دو آدمی میدان میں نکل کر لڑتے پھر عام لڑائی شروع ہوتی۔قریش کی طرف سے لشکر کا سردار عتبہ اپنے بھائی شیبہ اور اپنے بیٹے ولید کو ساتھ لے کر نکلا۔ادھر سے تین انصاری بڑھے۔عتبہ نے انھیں دیکھا تو پکارا ’’اے محمد ؐ یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں ہماری قوم کے لوگ ہمارے مقابلے پر بھیجو۔‘‘
اب آپؐ کے حکم پر حضرت حمزہؓ حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ بن حارث میدان میں اترے ۔لڑائی شروع ہوئی تو حضرت حمزہؓ نے عتبہ کو اور حضرت علیؓ نے ولیدکو قتل کردیا لیکن حضرت عبیدہؓ شیبہ کے ہاتھ سے زخمی ہوگئے۔حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر شیبہ کو قتل کردیا اور زخمی عبیدہؓ کو میدان سے اٹھا لائے۔
اب عام لڑائی شروع ہو گئی۔مسلمان بڑی بہادری سے لڑے اور اپنے سے تین گناہ کافروں کو شکست دے دی ۔قریش کے ستر آدمی مارے گئے جن میں ان کے بڑے بڑے سردار بھی شامل تھے ابوجہل کو دو انصاری جوانوں معاذؓ اور معوذؓ نے ڈھونڈکر قتل کیا ،کیونکہ انھوں نے سنا تھا کہ وہ رسولِ پاک ؐ کو گالیاں دیتا ہے ۔ستر آدمیوں کو مسلمانوں نے قید کر لیا۔ان قیدیوں کو انھوں نے بڑے آرام سے رکھا۔جو کچھ گھر میں پکتا ان کے سامنے لارکھتے اور خود کھجوریں کھا کر گزارہ کرلیتے ۔دولت مند قیدیوں کو ان کے رشتے دار ایک خاص رقم جسے فدیہ کہا جاتا ہے،دے کر چھڑا لے گئے پڑھے لکھے غریب قیدیوں سے کہا گیا کہ وہ دس دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔جو قیدی غریب تھے اور لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے ان کو ویسے ہی آزاد کردیاگیا۔بدر کی لڑائی ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے مہینے میں ہوئی۔اس شکست کی خبر مکہ پہنچی تو ہر طرف کہرام مچ گیا ۔بدر میں جو کافر مارے گئے تھے ان کی رشتہ دار عورتیں ان کے بین کرتیں اور مردوں کو ان کا بدلہ لینے پر اکساتیں۔ان کے بین اور طعنے سن سن کر قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے زورو شور سے تیاریں شروع کردیں۔

 

اُحُد کی لڑائی 
(۳،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہجر ت کے تیسرے سال شوال کے مہینے میں مکہ کے تین ہزار کافر مدینہ پر حملہ کے لئے روانہ ہوئے۔ان کے سپہ سالار ابو سفیان تھے۔اس لشکر کے ساتھ ابوسفیان کی بیوی ہند اور بہت سی دوسری عورتیں بھی تھیں۔جو مردوں کو جوش دلانے کے لئے دف بجا بجا کر جنگی گیت گاتی تھیں۔کافروں نے مدینہ سے چار کلو میٹرد و ر احد پہاڑ کے قریب ڈیرے ڈال دیے۔رسولِ پاکؐ ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ ان کے مقابلے کے لئے شہر سے نکلے۔راستہ میں عبداللہ بن ابی تین سو منافقوں کو اپنے ساتھ لے کر چلا گیا اور آپؐ کے ساتھ صرف سات سو سچے مسلمان رہ گئے۔آپ نے مسلمانوں کے صفیں اس طرح باندھیں کہ ان کے پیچھے احد پہاڑ تھا اور سامنے دشمن۔
اس پہاڑ میں ایک درہ تھا ۔آپ نے پچاس تیر انداز اس درہ پر کھڑے کر دیے تاکہ دشمن اس درہ کے راستے مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ نہ کردے۔پہلے ایک ایک دودو آدمیوں نے مقابلہ کیا۔اس کے بعد عام لڑائی شروع ہوئی تو بہادر مسلمانوں نے اپنی تعداد سے چوگنے دشمن کے چھکے چھڑا دیے اور اسے بھاگنے پر مجبور کردیا۔درے پر جو تیر انداز کھڑے تھے انھوں نے سوچا اب یہاں کھڑے رہنے کا کیا فائدہ ہے۔چنانچہ ان میں سے بہت سے آدمی درے سے ہٹ گئے یہ دیکھ کر کافروں کے ایک گھڑ سوار دستے نے خالد بن ولید کی سرداری میں درے میں سے گزر کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا جو بھاگ جانے والے دشمنوں کا مال جمع کر رہے تھے۔قریش کے جو آدمی بھاگے جارہے تھے اب وہ بھی پلٹ پڑے اور بہت سے مسلمانوں کو شہید کر ڈالا۔اس اچانک حملے سے سوائے چند ایک کے باقی سب مسلمان ادھر اھر بکھر گئے۔رسولِ پاک ؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ بڑی بہادری سے لڑرہے تھے کہ وحشی نام کے ایک حبشی غلام نے قریش کے انعام لینے کے لالچ میں گھات لگا کر ان پر اپنا نیزہ پھینکا جس سے وہ شہید ہو گئے۔بدر کی لڑائی میں ہند کا باپ بھائی اور چچا مارے گئے تھے۔اس نے اپنا دل ٹھنڈا کرنے کے لئے حضرت حمزہ کے کان ناک کاٹ کر ان کا ہار بنایا اور گلے میں ڈالا پھر ان کا پیٹ چاک کرکے کلیجا نکالا اور چبا کر تھوک دیا ۔ایک کافر نے رسولِ پاکؐ پر پتھر پھینکا جس سے آپؐ کے دو دانت شہید ہو گئے۔ایک اور کافر نے تلوار کا وار کرکے آپ کو زخمی کردیا۔اس موقع پر بہت سے مسلمانوں نے آپ پر اپنی جانیں قربان کردیں۔اتنے میں کسی نے خبر اڑادی کہ آپؐ شہید ہوگئے جو مسلمان دور تھے وہ یہ خبر سن کر سناٹے میں آگئے لیکن جلد ہی انھوں آپؐ کو دیکھ لیا اور سمٹ کر آپؐ کے گرد جمع ہو گئے۔پھر آپؐ کو لیکر پہاڑکی چوٹی پر چڑھ گئے۔کافروں نے بھی پہاڑپر چڑھنا چاہا لیکن مسلمانوں نے پتھر لڑھکا لڑھکاکر انھیں بھگا دیا۔اس لڑائی میں ستر مسلمان شہید ہو ئے۔ان میں ۶۶ انصار اور ۴ مہاجر تھے۔کافروں نے اتنی کامیابی کو کافی سمجھا اور میدان چھوڑ کر واپس چل پڑے۔دوسرے دن مسلمانوں نے آٹھ میل تک ان کا پیچھا کیا لیکن وہ بھاگ گئے۔آپؐ نے لڑائی میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے احد کے میدان ہی میں دفن کیا اور پھر واپس مدینہ تشریف لے آئے۔اتنی زیادہ تعداد میں مسلمانوں کی شہادت سے آپؐ کو صدمہ تو بہت ہوالیکن آپؐ نے صبر سے کام لیااور قریش کی ہدایت کے لئے دعا کی۔
کافروں کی دھوکہ بازی
احد کی لڑائی کے کچھ عرصے بعد قبیلہ عضل اور قبیلہ قارہ کے چند لوگ مدینہ آئے اور آپؐ سے مل کر کہا کہ ہمارے قبیلہ نے اسلام قبول کرلیا ۔آپؐ چند مسلمانوں کو ہمارے ساتھ کر دیجئے جو ہمارے قبیلہ کو اسلام کی باتیں سکھائیں۔آپؐ نے اپنے دس پیارے ساتھی ان کے ساتھ کردیے جب یہ اصحاب رجیع کے مقام پر پہنچے تو قبیلہ لحیان کے دوسو تیر چلانے والوں نے ان کو گھیر لیا ۔مسلمانوں نے مقابلہ کیا لیکن دو کے سوا سب شہید ہو گئے۔یہ دو حضرت خبیبؓ بن عدی انصاری اور حضرت زیدؓبن دِثنہ انصاری تھے۔غدار کافروں نے ان دونوں کو مکہ لے جاکر قریش کے ہاتھ بیچ ڈالا۔قریش نے کچھ مدت ان کو قید رکھا اورپھر بڑی بے رحمی سے دونوں کو سولی دے کر شہید کر ڈالا۔دونوں نے سولی پانے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی۔قریش نے حضرت خبیبؓ سے پوچھا،تم کو خدا کی قسم سچ سچ بتاؤ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہارے بجائے محمد کو قتل کردیا جائے۔انھوں نے فوراً کہا ،خداکی قسم میں تو یہ بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ محمد ﷺکے پاؤں میں کانٹا چبھے اور میں گھر میں بیٹھا رہوں۔ابوسفیان نے حضرت زیدؓ سے بھی یہی سوال کیا۔انھوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت خبیبؓ نے دیا۔
ہجرت کے چوتھے سال صفر کے مہینے میں ایسا ہی دردناک ایک اور واقعہ پیش آیا۔وہ یہ کہ قبیلہ کلاب کا ایک رئیس ابو براء رسولِ پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے درخواست کی کہ اپنے کچھ ساتھی میرے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ میری قوم میں جاکر اسلام پھیلائیں۔ان کی حفاظت میرے ذمہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنے سترپیارے ساتھیوں کو اس کے ساتھ کر دیا۔ان میں بہت سے قرآن پاک کے حافظ تھے۔یہ اصحاب بنوسُلَیم کے علاقے میں مَعونہ نام کے ایک کنوئیں کے پاس پہنچے تو ایک نجدی قبیلہ بنو عامر کے سردار طفیل بن عامر نے ایک کے سوا سب کو گھیر کر شہید کردیا۔بچ جانے والے صحابی حضرت عمروؓ بن اُمیّ تھے۔انھوں نے مدینہ پہنچ کر آپؐ کو اس دردناک واقعہ کی اطلاع کی۔بعض روایتوں کے مطابق یہ دونوں واقعے صفر ۴ھ ؁ میں پیش آئے۔

 

مُرَیْسِیْع کی لڑائی 
(۵،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدینہ سے تقریباً سو کلو میٹر دور جنوب مغرب میں مُرَیسیع نام کا ایک چشمہ تھا۔جس کے قریب قبیلہ خُراعہ کی ایک شاخ بنو مُصطَلِق آباد تھی۔رجب ۵ ؁ہجری میں رسولِ پاک ؐ کو اطلاع ملی کہ بنو مُصطَلِق کا سردار حارث بن ابی ضرار مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ آپؐ مسلمانوں کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر شعبان کے شروع میں بنو مُصطَلِق کے سر پر پہنچ گئے۔انھوں نے مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ان کے گیارہ آدمی مارے گئے اور چھ سو مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئے۔ان میں حارث کی بیٹی جویریہ ؓ بھی تھیں۔آپؐ نے آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا۔ان کا لحاظ کرتے ہوئے مسلمانوں نے دوسرے سب قیدی چھوڑ دیے۔اس لڑائی کو بنو مُصطَلِق کی لڑائی بھی کہا جا تا ہے۔

 

خندق کی لڑائی
( ۵،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدینہ کے یہودیوں نے مسلمانوں سے صلح کا معاہدہ تو کر رکھا تھا لیکن ان کے دل میں کھوٹ تھا اور وہ آئے دن مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتے رہتے تھے۔جب ان کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں تو بدر کی لڑائی کے ایک ماہ بعد رسولِ پاکؐ نے ان کے ایک مغرور اور گستاخ قبیلے بنو قینقاع کے قلعے کو گھیر لیا۔پندرہ دن کے بعد انھوں نے ہار مان لی ۔آپؐ نے ان کو مدینہ سے نکل جانے کی سزا دی۔اس کے بعد یہودیوں کے دوسرے بڑے قبیلے بنو نَضِیرہ نے مکہ کے کافروں سے سازباز کی اور ایک دفعہ آپؐ کو دھوکے سے شہید کرنے کی ساز ش بھی کی۔احد کی لڑائی کے بعد مسلمانوں نے ان کے قلعے کو گھیر لیا۔پندرہ دن کے بعد انھوں نے بھی ہتھیار پھینک دیے۔آپؐ نے ان کو حکم دیا کہ اپنا مال اسباب لے کر فوراً مدینہ سے نکل جاؤ۔یہ لوگ ۹۶ کلو میٹر دور ایک شہر خیبر میں چلے گئے۔جہاں یہودیوں کے بڑے بڑے قلعے موجود تھے۔وہاں سے انھوں نے سارے عرب میں مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کا جا ل پھیلا دیا اور مکہ کے قریش اور کئی دوسرے قبیلوں کو مسلمانوں سے لڑنے پر ابھارا۔اس طرح سارے اسلام دشمن گروہوں نے ایکا کرکے دس ہزار کا لشکر تیار کرلیا۔یہ لشکر ابو سفیان کی سرداری میں ذی قعدہ ۵ ؁ ہجری میں مدینہ کی طرف بڑھا۔رسول پاکؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کے مقابلے کا فیصلہ کیا۔شہر کے تین طرف تو باغ اور مکان تھے ۔صرف ایک طرف کُھلا میدان تھا۔آپؐ کے ایک ایرانی صحابی حضرت سلمان فارسیؓ نے رائے دی کہ کھلی طرف ایک خندق (کھائی) کھود کر شہر کا بچاؤ کیا جائے۔یہ رائے سب کو پسند آئی۔چنانچہ تین ہزار مسلمانوں نے مل کر بیس دنوں میں بڑی چوڑی اور گہری خندق کھود لی۔خود رسولِ پاکؐ نے اس کام میں حصہ لیا۔
کافر بیس دن تک مدینہ کو گھیرے پڑے رہے۔شہر میں خوراک کی کمی تھی۔اس لئے مسلمانوں پر کئی کئی فاقے گزر جاتے ۔خود رسولِ پاک ؐ تین دن بھوکے رہے۔کافروں نے تین چار بار خندق پار کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں نے تیر برسا کر انھیں پیچھے ہٹا دیا۔ایک ان دشمن کے چار گھڑ سوار وں نے خندق پار کرلی،ان میں عرب کا نامی بہادر عمرو بن عبدِ وُدّ بھی تھا۔حضرت علیؓ نے اسے اور اس کے ایک ساتھی کو قتل کردیا باقی دو بھاگ گئے۔سب سے بڑا خطرہ یہودیوں کے قبیلے بنو قریضہ سے تھا جو مدینہ کے اندر آباد تھااور درپردہ دشمنوں سے مل گیا تھا۔ان کو کسی شرارت سے روکنے کے لئے آپؐ نے دو سو مسلمان ان کے محلے کے سامنے بٹھا دیے۔خدا کی قدرت چند دن بعد دشمنوں میں پھوٹ پڑ گئی اور پھر ایک سخت سر د ر ات کو ایسی تیز آندھی چلی کہ دشمنوں کے خیمے گر گئے اور ان کی ہانڈیاں چولھوں سے الٹ گئیں۔اس سے وہ ایسے گھبرائے کہ محاصرہ اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ان کے بھاگنے کے بعد مسلمانوں نے بنو قریضہ کے غدار یہودیوں کو گھیر لیا۔وہ زیادہ دن مقابلہ پر نہ ٹھہر سکے اور مسلمانوں کے قیدی بن گئے۔ان میں جولڑنے کے قابل تھے غداری کی سزا میں قتل کر دیے گئے۔
خندق کی لڑائی کو قرآن پاک میں احزاب کی لڑائی کہا گیا ہے ۔اَحزَاب ’’حزب‘‘کی جمع ہے جس کے معنی جماعت یا گروہ کے ہیں ۔چونکہ اس میں عرب کے بہت سے گروہوں نے مل کر مدینہ پر حملہ کیا تھا اس لئے اس کو احزاب کی لڑائی کا نام دیا گیا ہے۔

 

حُدیبیہ کی صلح
(ذی قعدہ ۶ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلمانوں کو خانہ کعبہ سے بڑی محبت تھی اور وہ چھ سال سے اس کی زیارت اور طواف کے لئے تڑپ رہے تھے۔ہجرت کے چھٹے سال ذیقعدہ کے مہینے میں رسولِ پاک ؐ چودہ سو مسلمانوں کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے اور آپؐ کا ارادہ صرف کعبہ کی زیارت اور طواف کا تھا۔لڑنے کا خیال تک نہ تھااس لئے آپؐ نے مسلمانوں کو نیام میں ڈالی ہوئی تلواروں کے سوا کوئی ہتھیار ساتھ لینے سے منع کر دیا تھا۔اُدھر قریش کو مسلمانوں کے آنے کی خبر ہوئی تولڑنے مرنے پر تُل گئے اور مسلمانوں کو ہر قیمت پر مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کا فیصلہ کیا۔ان کے بہت سے جوان مسلمانوں کا راستہ رو کنے کے لئے نکل پڑے۔رسولِ پاکؐ کو قریش کے ارادے کی اطلاع ملی تو آپؐ راستہ بدل کر مکہ سے چند میل دور حُدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے اور وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔حُدیبیہ سے آپؐ نے قریش کو پیغام بھیجاکہ ہم لڑنے نہیں آئے بلکہ صرف کعبہ کی زیارت اور طواف کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت طائف کے ایک رئیس عُروہ بن مسعود مکہ میں موجو د تھے۔قریش ان کو بہت مانتے تھے۔وہ قریش کی طرف سے آپؐ سے بات چیت کرنے حُدیبیہ آئے آپؐ نے ان سے بھی وہی بات کہی جو قریش کے نام اپنے پیغام میں کہی تھی۔عروہ مکہ واپس آگئے تو قریش سے کہا کہ بھائیوں!میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں لیکن کسی بادشاہ کی اتنی عزت ہوتے نہیں دیکھی جتنی محمدؐ کے ساتھی ان کی کرتے ہیں،وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو سب اس کو ماننے کے لئے دوڑپڑتے ہیں ،وہ بات کرتے ہیں تو سب خاموش ہوجاتے ہیں،وہ وضو کرتے ہیں تو اس کے پانی کو مسلمان اپنے ہاتھوں اور چہروں پر مل لیتے ہیں،میرے خیا ل میں بہتر یہی ہے کہ تم مسلمانوں سے صلح کرلو۔
قریش نے عروہ کی بات نہ مانی ۔آپؐ نے پھر ان کے پاس قاصد بھیجا۔لیکن قریش نے اس سے بدسلوکی کی ۔اس کے بعد آپؐ نے اپنے پیارے ساتھی اور داماد حضرت عثمانِ غنیؓ کو مکہ بھیجا۔قریش نے انھیں اپنے پاس روک لیا۔اُدھر حدیبیہ میں خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانؓ کو قریش نے شہید کر ڈالا ۔رسولِ پاکؐ نے یہ سنا تو ببو ل کے ایک درخت تلے بیٹھ کر اپنے تمام ساتھیوں سے عہد لیا کہ ہم عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لئے اپنی جانیں قربان کردیں گے۔اس عہد یا بیعت کو ’’بیعتِ رضوان ‘‘ کہا جاتا ہے۔کیونکہ اللہ نے یہ بیعت کرنے والوں کو اپنے راضی ہونے کی خوشخبر ی ۔بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر غلط تھی۔لیکن مسلمانوں کے جوش اور حوصلہ کو دیکھ قریش ہمت ہار گئے اور انھوں نے چند شرطوں پرمسلمانوں سے دس سال کے لئے صلح کرلی۔بڑی بڑی شرطیں یہ تھیں:
۱۔ مسلمان اس سال واپس جائیں اور اگلے سال صرف تین دن کے لئے آئیں۔ان کے پاس 
میان کے اندر ڈالی ہوئی تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہ ہو۔ 
۲۔ قریش کا کوئی آدمی مسلمان ہو کر مدینہ جائے تو واپس کردیا جائے اور اگر کوئی مسلمان مدینہ چھوڑ کر 
مکہ آجائے تو وہ واپس نہ کیا جائے گا۔
۳۔ عرب کے قبیلوں کو اختیار ہوگا کہ وہ قریش یا مسلمانوں میں جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ 
کرلیں
یہ شرطیں گو ظاہر میں مسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن اللہ نے ان کو مسلمانوں کی کھلی فتح قرار دیا کیونکہ قریش نے اسلام کی راہ میں روڑا نہ بننے کا عہد کرلیا تھا اور یہی مسلمانوں کی فتح تھا۔

 

بادشاہوں کو اسلام کا بلاوا
(۶،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیبیہ کی صلح کے بعد مسلمانوں کو کچھ اطمینان ہوا تو رسولِ پاکؐ نے اپنے چند پیارے ساتھیوں کو اسلام کی دعوت کے خط دے کر عرب کے رئیسوں اور پڑوسی ملکوں کے بادشاہوں کے پاس بھیجا۔حضرت عمروؓ بن امیہ حبش کے بادشاہ(نجاشی)کے پاس خط لے کر گئے۔نجاشی پہلے ہی اسلام قبول کرچکا تھا۔اس نے بڑے ادب سے رسولِ پاکؐ کے خط کو آنکھوں سے لگایا اور حضرت جعفرؓ کے ہاتھ پر دوبارہ اسلام کی بیعت کی۔
حضرت حاطبؓ بن ابی بَلتَعہ مصر کے بادشاہ (مُقوقِس) کے پاس خط لے کرگئے۔اس نے اسلام تو قبول نہ کیا لیکن حضرت حاطبؓ کی بہت عزت کی اور ان کے ہاتھ بہت سے تحفے رسولِ پاک ؐ کے لئے بھیجے۔حضرت عبداللہؓ بن حُذافہ شاہِ ایران خسرو پرویز کے پاس گئے۔وہ بڑا مغرور اور بد تمیز شخص تھا۔اس نے آپ ؐ کے خط کو پھاڑ کر پرزے پرزے کردیا۔آپؐ کو اس کی خبر ہوئی تو فرمایا اللہ اسی طرح اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔
روم کے بادشاہ جسے قیصر یا ہِرَقل کہا جاتا تھا،اس کے پاس حضرت دِحیہ کلبیؓ خط لے کر گئے ۔قیصر اس زمانے میں بیت المقدّس آیا ہوا تھا۔اس نے خط پڑھ کر حکم دیا کہ عرب کا کوئی تاجر اس علاقے میں موجود ہو تو اسے میرے سامنے حاضر کرو۔اتفاق سے قریش کے سردار ابو سفیانؓ تجارت کے لئے غزہ گئے ہوئے تھے۔قیصر کے ملازموں نے انھیں غزہ سے لے جاکر اس کے سامنے پیش کردیا۔قیصر نے ان سے رسولِ پاکؐ کے بارے میں بہت سے سوال کئے۔ابوسفیانؓ اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے،لیکن قیصر کے سامنے انھیں کوئی غلط بات کہنے کی جر أت نہ ہوئی اور انھوں نے صاف صاف کہا کہ رسولِ پاکؐ کا خاندان نہایت عزت والا ہے ۔ان کے ماننے والے روز بروز بڑھ رہے ہیں،انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ،وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ ایک خدا کو مانو کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ ،سچ بولو ،نماز پڑھو،رشتہ کا حق اد ا کرو،پرہیز گاری اختیار کرو۔
ابو سفیانؓ کے جواب سن کر قیصر بول اٹھا کہ اگر میں وہاں جاسکتا تو ان(رسولِ پاکؐ) کے پاؤں دھوتا ۔قیصر کی یہ بات اس کے درباریوں کو اچھی نہ لگی۔وہ بھی ان کی ناراضی کو بھانپ گیا اور چپ ہو گیا۔جب وہ دربار سے چلے گئے تو اس نے دِحیہ کلبیؓ سے تنہائی میں کہا کہ میں جانتا ہوں تمھارے پیغمبر سچے ہیں لیکن اپنی جان اور حکومت کے خوف سے ان کا مذہب اختیار نہیں کر سکتا۔
عرب کے جن رئیسوں کے پاس آپؐ کے خط گئے۔ان میں سے بعض نے اسلام قبول کرلیااور بعض اپنے مذہب پر قائم رہے۔

 

خیبر کی لڑائی
(شروع۷،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حجازکے شمال میں خیبر کا شہر عرب کے یہودیوں کا بہت بڑا گڑھ تھا۔وہاں انھوں نے سات آٹھ مضبوط قلعے بنا رکھے تھے جن میں بیس ہزار سپاہی رہتے تھے۔بنو نضیر کے یہودیوں کو مدینہ سے نکالا گیا تو وہ بھی یہیں آکر آباد ہوگئے تھے۔یہ لوگ اسلام کے سخت دشمن تھے۔خندق کی لڑائی بھی ان ہی کی شرارت سے ہوئی تھی۔اب وہ پھر عربوں کے ایک بڑے قبیلے غطفان کو ساتھ ملا کر مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے تھے۔رسولِ پاکؐ کو ان کے ارادوں کی خبر ملی تو آپؐ سولہ سو مسلمانوں کو ساتھ لے کر خیبر پر حملہ کے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے۔مسلمانوں نے خیبر پہنچتے ہی یہودیوں کے قلعوں کو گھیر لیا۔اور قلعے تو ایک ایک کر کے بہت جلد فتح ہو گئے لیکن ایک قلعہ جس کا نام قموص تھا،فتح ہونے میں نہیں آتا تھا۔اس کا سردار ایک مشہور یہودی مرحب تھا۔رسولِ پاکؐ کے کئی پیارے ساتھیوں نے باری باری فوج لے کر اس قلعہ پر حملہ کیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ایک دن شام کو آپؐ نے فرمایا کہ کل خدا اور رسول کے پیارے ایک ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا فتح دے گا۔دوسرے دن تڑکے ہی آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلا بھیجا۔ان کی آنکھیں دکھتی تھیں اور اپنے خیمے میں پڑے تھے۔وہ حاضر ہوئے تو آپؐ نے ان کی آنکھوں میں اپنا مبارک تھوک لگایا جس سے آنکھوں کا درد دور ہوگیا۔پھر آپؐ نے ان کو جھنڈا دیا،ان کے حق میں دعا فرمائی اور قموص پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔حضرت علیؓ فوراً قموص کی طرف بڑھے۔مرحب جوشیلے شعر پڑھتا ہوا خود ان کے سامنے آیا لیکن حضرت علیؓ نے تلوار کے ایک ہی وارسے اس نامی بہادر کو مار ڈالا۔پھر وہ فوج کو لے کے آگے بڑھے اور یہودیوں کو ریلتے دھکیلتے قلعہ کا دروازہ توڑ کر اندر گھس گئے ۔اس طرح قموص دیکھتے ہی دیکھتے فتح ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی خیبر کی لڑائی ختم ہو گئی۔اس لڑائی میں ۹۳ یہودی مارے گئے اور پندرہ مسلمان شہید ہوئے فتح کے بعد رسولِ پاکؐ نے چند روز خیبر میں قیام کیا۔یہودیوں کی شرارتوں کی وجہ سے مسلمانوں کو ان پر بہت غصہ تھا لیکن آپؐ بہت رحم دل تھے اس لئے آپؐ نے ان سے نرم سلوک کیا اور اس شرط پر صلح کرلی کہ یہودی خیبر کی آدھی پیداوار ہر سال مسلمانوں کو دیا کریں گے۔جو مسلمان کافروں کے ظلم سے تنگ آکر حبش چلے گئے تھے ان میں سے کچھ تو پہلے ہی واپس آگئے تھے باقی اس وقت واپس پہنچے جب خیبر فتح ہو چکا تھا ۔ان میں آپ کے چچازاد بھائی حضرت جعفرؓ بن ابی طالب بھی تھے۔مسلمانوں کو ان کے آنے سے دوہری خوشی ہوئی ۔ایک خیبر فتح ہونے کی اور دوسری کئی سال کے بعد اپنے بچھڑے ہوئے بھا ئیوں سے ملنے کی ۔

 

عُمرہ
(ذی قعدہ ۷،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حج کے لئے تو ہر سال ذولحجہ کے مہینے میں خاص دن مقرر ہیں۔اس دنوں کے علاوہ اگر کسی وقت خانہ کعبہ کا طواف کیا جائے تو اس کو عمرہ کہتے ہیں۔یہ ایک قسم کا چھوٹا حج ہے۔اس میں کعبہ کے گرد گھوما جاتا ہے اور صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان تیز تیز چل کر کچھ دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔
حدیبیہ میں قریش سے جو صلح ہوئی تھی اس میں فیصلہ ہوا تھا کہ مسلمان اگلے سال تین دن کے لئے مکہ آکر عمرہ کر سکیں گے۔چنانچہ ذی قعدہ ۷ ھ ؁ میں رسولِ پاک ؐ بہت سے مسلمانوں کو ساتھ لے کر مکہ تشریف لے گئے۔قریش شہر سے باہر نکل گئے اور مسلمانوں نے بڑے ذوق شوق اور دلی خوشی کے ساتھ عمرہ ادا کیا ۔شرط کے مطابق تین دن پورے ہونے پر آپؐ مسلمانوں کو ساتھ لے کر شہر سے نکل آئے اور مدینہ کی طرف کوچ کر دیا۔

 

مُؤتہ کی لڑائی
(جمادی الاولیٰ ۸،ہجری)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیبیہ کی صلح کے بعد رسولِ پاکؐ نے بادشاہوں اور رئیسوں کو خط لکھے،تو ایک خط اپنے ایک پیارے ساتھی حارثؓ بن عمیر کے ہاتھ بُصریٰ کے عیسائی حاکم کو بھی بھیجا۔راستے میں بلقاء کے رئیس شُرحَبِیل بن عمر غسّانی نے انھیں شہید کرڈالا۔قاصدوں کو قتل کرانا بہت برا کام ہے۔آپ کو یہ خبرسن کر بہت صدمہ ہوا اور آپؐ نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو تین ہزار فوج دے کر حضرت حارثؓ کا بدلہ لینے کے لئے روانہ کیا۔ساتھ ہی ہدایت کی کہ زید شہید ہوجائیں تو جعفرؓ بن ابی طالب لشکر کے سردار ہوں گے،وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہؓ بن رواحہ سردار ہوں گے۔ادھرشُرحَبِیل نے مسلمانوں کے مقابلے کے لئے ایک لاکھ فوج جمع کرلی۔اتفاق سے اس وقت روم کا بادشاہ بھی ایک بڑی فوج کے ساتھ اس علاقہ میں موجود تھا اورشُرحبِیل کی مدد کر رہا تھا۔شام کی سرحد کے قریب ایک گاؤں مؤتہ کے پاس مسلمانوں اور دشمن کا مقابلہ ہوا۔مسلمان بڑی بہادری سے لڑے اور دشمن کے بہت سے آدمی ہلاک کر ڈالے لیکن دشمن کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔اس لئے وہ کم ہونے میں نہیں آتے تھے۔حضرت زیدؓ،حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ جان توڑ کر لڑے اور بے شمار زخم کھا کر باری باری شہید ہوگئے۔ان کے بعد حضرت خالدؓ بن ولید نے جھنڈا ہاتھ میں لیا اور اس بہادری سے لڑے کہ دشمن کو پیچھے دھکیل دیااور مسلمانوں کو دشمن کے گھیرے سے صاف بچا کے لے آئے۔اس لڑائی میں خالدؓ کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں اور رسولِ پاکؐ نے انھیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا لقب دیا۔حضرت خالدؓ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔پہلے وہ قریش کے نامی بہادر تھے۔اس کے بعد اسلام کے بہت بڑے جرنیل بن گئے۔

 

مکّہ کی فتح
(رمضان ۸،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیبیہ کی صلح کی ایک شرط یہ تھی کہ جو قبیلے قریش کے دوست بننا چاہیں وہ قریش کے دوست بن جائیں اور جو مسلمانوں سے دوستی کرنا چاہیں وہ مسلمانوں سے دوستی کرلیں اور جس طرح قریش اور مسلمان دس سال تک ایک دوسرے سے نہیں لڑیں گے اسی طرح ان کے دوست قبیلے بھی ایک دوسرے سے نہیں لڑیں گے۔
اس معاہدے کے مطابق عربوں کا ایک قبیلہ خُزاعہ مسلمانوں کا دوست بن گیا اور ایک دوسرا قبیلہ بکر قریش کا ساتھی بن گیا۔ان دونوں قبیلوں میں مدت سے دشمنی چلی آرہی تھی۔ڈیڑھ سال تک تو وہ امن سے رہے ۔پھر ایک دن قبیلہ بکر نے اچانک قبیلہ خُزاعہ پر حملہ کردیا اور بڑی بے رحمی سے ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کیا ۔قریش کے لوگوں نے بھی بنو بکر کی مدد کی۔خُزاعہ نے بھاگ کر کعبہ میں پناہ لی۔وہاں خون بہانا حرام ہے۔لیکن بنو بکر نے ان کو کعبہ کے اندر بھی قتل کیا۔قریش نے شروع سے اخیر تک بنو بکر کا ساتھ دیا۔بنو خُزاعہ کے چالیس آدمی مدینہ پہنچے اور رسولِ پاک ؐ سے بنو بکر اور قریش کے ظلم کے خلاف فریاد کی۔اس ظلم کا حال سن کر آپؐ کو بہت دُکھ ہوا۔آپؐ نے قریش کے پاس قاصد بھیجاکہ خُزاعہ کے جو لوگ مارے گئے۔ان کے خون کا بدلہ دویا پھر بنو بکر کا ساتھ چھوڑ دو۔اگر یہ دونوں شرطیں منظور نہیں تو اعلان کردو کہ حدییہ کی صلح ختم ہو گئی۔قریش کے جوشیلے لوگوں نے بڑے غرور کے ساتھ کہہ دیا کہ ہمیں تیسری شرط منظور ہے۔لیکن قاصد کے جانے کے بعد وہ بہت پچھتائے اور اپنے سردار ابو سفیانؓ کو مدینہ بھیجا کہ حدیبیہ کی صلح کو پھر سے تازہ کرلیں لیکن رسولِ پاکؐ اس پر راضی نہ ہوئے۔
آپؐ نے مسلمانوں کو لڑائی کی تیاری کا حکم دیا ۔لیکن احتیاط رکھی کہ قریش کو اس خبر نہ ہونے پائے۔۱۰ رمضان ۸ ؁ ہجری کو آپؐ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور مکہ سے چند میل دور
’’مَرُّالظّہْران‘‘کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔قریش کے کانوں میں مسلمانوں کے آنے کی بھنک پڑی تو انھوں نے ابو سفیانؓ اور دودوسرے کافروں کو ٹوہ میں لگانے کے لئے بھیجا۔اتفاق سے راستے میں رسولِ پاکؐ کے چچا عباسؓ مل گئے جو آپؐ سے مل کر واپس آرہے تھے۔حضرت عباسؓ نے ان کو بتایا کہ مسلمانوں کا لشکر آپہنچا ہے ،اب قریش کی خیر نہیں۔ابو سفیانؓ گھبرا گئے اور ان سے مشورہ پوچھا۔انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ چلے آؤ۔وہ حضرت عباس کے ساتھ چل پڑے ۔راستے میں حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھ لیا اور تلوار لے کر ان پر جھپٹے لیکن حضرت عباسؓ نے انھیں بچا لیااور لے جا کر رسولِ پاکؐ کی خدمت میں پیش کردیا۔ابو سفیانؓ نے مسلمانوں کو بہت دکھ دیے تھے۔لیکن جب وہ آپؐ کے سامنے آئے اور اپنے کئے پر شرمندگی ظاہر کی تو آپؐ نے نہ صرف انہیں بالکل معاف کردیابلکہ یہ بھی فرمایا کہ تم مکہ جاکر میری طرف سے اعلان کردو کہ جو شخص تمہارے(ابوسفیانؓ کے)گھر میں یا خانہ کعبہ میں پناہ لے گا اس کو امن ہے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گااس کو بھی امن ہے۔
انھوں نے مکہ جاکر یہی اعلان کردیا۔دوسرے دن اسلامی لشکر بڑی شان و شوکت سے مکہ میں داخل ہوا ۔قریش کو مقابلہ کرنے کی ہمت نہ پڑی ۔وہاں کچھ جوشیلے جوانوں نے مسلمانوں کے ایک دستے کو روکا اور دو مسلمانو ں کو شہید کرڈلا لیکن جب مسلمانوں نے تلوا رنکالی تو وہ پندرہ بیس لاشیں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
مکہ میں داخل ہو کر آپؐ سیدھے کعبہ کی طرف چلے ۔سات بار اللہ کے گھر کے گرد پھرے ۔پھر اس میں رکھے ہوئے سب بتوں کے توڑ کر باہر پھینک دیااور دیواروں پر نبیوں کی جو تصویریں بنی ہوئی تھیں ان کو بھی مٹا ڈالا۔اس کے بعد آپؐ نے کعبہ کے اندر داخل ہوکر دو رکعت نماز پڑھی۔نماز پڑھ کر آپؐ نے قریش کو بلوا بھیجا۔وہ حاضر ہوگئے اور گردنیں جھکا کر کھڑے ہوگئے۔آپؐ نے پہلے ان کے سامنے اثر میں ڈوبا ہوا خطبہ دیا۔پھر ان سے پوچھا:
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کر نے والا ہوں؟‘‘
سب نے جواب دیا’’آپ ہمارے شریف بھائی اور شریف بھتیجے ہیں۔‘‘
آپؐنے فرمایا:آج تم پر کوئی ملامت نہیں،جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘
یہ وہی لو گ تھے جو سالہا سال تک آپؐ کوستاتے رہے تھے۔کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو انھوں نے مسلمانوں پر نہ توڑا ہو۔یہاں تک کہ انھیں گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا۔آپؐ چاہتے تو ان کی تکہ بوٹی کر ڈالتے لیکن آپؐ سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔آپؐ نے ان خون کے پیاسوں کو بھی معاف کردیا۔اس کا اثر یہ ہوا کہ چند ایک کے سوا سب آن کی آن میں مسلمان ہوگئے۔

 

حُنَین کی لڑائی
(شوال ۸ ،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکّہ سے پچاس ساٹھ میل کے فاصلے پر ہوازن اور ثقیف کے طاقتور قبیلے آباد تھے۔وہ کسی دوسرے کی ماتحتی میں رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔مسلمانوں نے مکہ فتح کیا تو ان کو سخت غصہ آیا اور ایک لشکر تیار کر کے انھوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔رسولِ پاکؐ ابھی مکہ میں تھے۔آپؐ بارہ ہزار مسلمانوں کو ساتھ لے کر دشمن کے مقابلے کے لئے روانہ ہوئے۔مکہ اور طائف کے درمیان حُنین کی وادی ہے۔اسلامی لشکر اس وادی میں پہنچا تو گھات میں بیٹھے ہوئے ہوازن کے تیر اندازوں نے اس پر تیروں کی بارش کردی۔اسلامی فوج میں مکہ کے دوہزار ایسے آدمی بھی شامل تھے جنھوں نے تازہ تازہ اسلام قبول کیا تھا وہ میدان چھوڑ کر اس طرح پیچھے ہٹے کہ ساری فوج بے ترتیب ہو کر ادھر ادھر بکھر گئی۔صرف رسولِ پاکؐ چند بہادروں کے ساتھ میدان میں کھڑے رہے۔اس وقت آپؐ یہ شعر پڑھ رہے تھے:
’’میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں میں اللہ کا نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں‘‘
رسولِ پاکؐ نے حضرت عباسؓ کو جن کی آواز بہت بلند تھی حکم دیا کہ مسلمانوں کو پکاریں۔انھوں نے آواز دی:
’’اے انصار کی جماعت اے وہ لوگو جنھوں نے درخت کے نیچے اسلام کی خاطر مر مٹنے کی بیعت کی‘‘
اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ سب مسلمان پلٹ پڑے اور اس جوش سے لڑے کہ دشمنوں کو کچل کر رکھ دیا۔حُنین سے کچھ دور اوطاس ایک جگہ ہے۔کافروں کی ایک فوج وہاں جمع ہو گئی۔مسلمانوں نے اس کو بھی شکست دی۔ کافروں کی فوج کا ایک حصہ بھاگ کر طائف کے قلعے میں چلا گیا۔آپؐ نے اس کو گھیر لیا لیکن دو تین ہفتوں کے بعد آپؐ نے اس دعا کے ساتھ محاصرہ اٹھا لیا کہ الٰہی ان لوگوں کو ہدایت دے اور میرے پاس لا۔اس عرصے میں دشمن کے تیروں اور پتھروں سے جو مسلمان شہید ہوئے،انھیں آپؐ نے طائف کے میدان کے باہر دفن کرادیا۔حُنین کی لڑائی میں بے شمار ماَل غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔آپؐ نے مال مویشیوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا لیکن چھ ہزار قیدیوں کو رحم کھا کر چھوڑ دیا۔ان میں آپؐ کی دایہ بی بی حلیمہؓ کی بیٹی شیما بھی تھیں۔آپؐ نے ان کی بڑی عزت کی اور بہت سے اونٹ اور بکریاں دے کر رخصت کیا۔دوسرے تمام قیدیوں کو بھی آپؐ نے کپڑوں کا ایک ایک جوڑا دیا۔آپؐ نے مکہ کے نومسلموں کو بہت سے اونٹ دیے۔اس پر انصار کے کچھ نوجوانوں کو ملال ہوا اور ان کے منہ سے نکل گیا: 
’’اسلام کی خاطرہم قریش کے کافروں سے جان کی بازی لگا کر لڑتے رہے لیکن اب زیادہ مالِ غنیمت قریش ہی لے گئے ہیں۔‘‘
آپؐ نے یہ باتیں سنیں تو سب انصار کو جمع کیا اورا ن سے پوچھا:
’’کیا تم نے یہ باتیں کی ہیں؟‘‘
انھوں نے غرض کیا:’’یارسول اللہ ہم سب نے تو نہیں البتہ بعض نوجوانوں نے ایسی باتیں ضرور کی 
ہیں ۔‘‘
آپؐ نے فرمایا :’’قریش کے یہ لوگ نئے نئے اسلام لائے ہیں میں نے یہ مال ان کی دلجوئی 
کے لئے دیاہے ۔کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ یہ لوگ تومال مویشی اپنے گھر کو لے جائیں اور تم اپنے 
ساتھ محمد کو لے جاؤ۔‘‘
آپؐ کا ارشاد سن کر انصار اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں۔جن نوجوانوں نے ایسی باتیں کی تھیں ان کی سمجھ میں بھی یہ بات آگئی کہ رسولِ پاکﷺ کی ذات سے بڑھ کر کوئی دولت اور نعمت نہیں ہوسکتی۔
سارا عرب مسلمان ہو گیا
مکہ پر اسلام کا جھنڈا بلند ہونے اور حنین میں مسلمانوں کی فتح سے سارے عرب پر اسلام کا رُعب چھا گیا۔عرب کے تمام قبیلوں نے اسلام کی طاقت کے سامنے سر جھکا دیا۔مکہ کی فتح کے اگلے سال (۹ ہجری میں)انھوں نے اتنی کثرت سے اپنے نمائندے اور قاصد رسولِ پاک کی خدمت میں مدینہ بھیجے کہ اس سال کا نام ہی ’’عام الوُفُود‘‘یعنی ’’وفدوں یا نمائندوں کی جماعتوں کا سال‘‘ پڑ گیا۔یہ نمائندے اور قاصد اپنے قبیلوں کی طرف سے اسلام قبول کرنے ،آپؐ کی زیارت اور بیعت کرنے یا اپنی اطاعت کا اظہار کرنے کے لئے حاضر ہوئے۔یہودی اورچند دوسرے بد قسمت لوگ جو اسلام کی دولت حاصل نہ کرسکے اب ان کے لئے رسولِ پاکؐ کی ما تحتی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔اس طرح سارے عرب پر رسولِ پاکؐ کی حکومت قائم ہوگئی۔آپؐ نے ہر علاقے میں اپنے حاکم مقرر کر دیے۔اسلام کے احکام پوری طاقت سے جاری کر دیے اور پر قسم کی برائیوں کا خاتمہ کردیالیکن آپؐ نے کبھی بادشاہوں کے طریقے اختیار نہ کئے اور ہمیشہ اپنے سادگی بر قرار رکھی ۔نہ آپؐ نے کوئی محل بنایا نہ تاج پہنا نہ تخت پر بیٹھے اور نہ ملازموں اور محافظوں کی کوئی فوج رکھی۔ہمارے رسولِ پاکؐ کیسے تھے ؟اس کا حال آپ اس کتاب میں الگ پڑھیں گے۔

 

تَبوک کی مُہِمّ 
(۹،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکہ کی فتح کے آٹھ نو ماہ بعد شام کے کچھ سوداگر مدینہ آئے اور لوگوں کو بتایا کہ روم کا بادشاہ بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ عرب پر چڑھائی کرنے والا ہے اور شام کی سرحد پر آباد عیسائی عربوں کے قبیلے بھی لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔رسولِ پاکؐ کو یہ خبر ملی تو آپؐ نے یہ فیصلہ کیا کہ روم کے بادشاہ کو عرب کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے دیا جائے اور آگے بڑھ کر شام کی سرحد پر اس کا مقابلہ کیا جائے۔چنانچہ آپؐ نے عرب کے تمام قبیلوں کو اطلاع بھیجی کہ قیصرِ روم کے مقابلے کے لئے فوراً مدینہ پہنچو۔ساتھ ہی آپؐ نے مدینہ کے مسلمانوں کو لڑائی کی تیاری کا حکم دیا۔اس سال بارش نہ ہونے کی وجہ سے سخت گرمی پڑ رہی تھی اور لوگوں کا برا حال تھا ۔فصلیں پکنے کے قریب تھیں اور ڈر تھا کہ اگر یہ وقت پر نہ کاٹی گئیں تو سخت قحط پڑ جائے گا۔منافقوں نے بھی مسلمانوں کو باہر جانے سے منع کیا لیکن اللہ کے یہ ان نیک بندوں نے ان کی کوئی بات نہ سنی اور سب اپنی اپنی ہمت کے مطابق لڑائی کے سامان کی فکر میں لگ گئے۔جب باہر کے قبیلے بھی مدینہ پہنچ گئے تو بہت بڑا لشکر جمع ہو گیا۔اتنے بڑے لشکر کے لئے خوراک ،سازوسامان اور سواریوں کا انتظام کرنا بہت مشکل کام تھا اور اس کے لئے بہت زیادہ روپے کی ضرورت تھی۔اس لئے رسولِ پاک نے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر مال اور سامان دینے کی ترغیب دی۔اس موقع پر آپؐ کے پیارے ساتھیوں نے ایسی ایسی مالی قربانیاں دیں کہ دنیا کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی ۔حضرت ابو بکرصدیقؓ اپنے گھر کا سارا سامان سوئی سلائی تک اٹھا لائے۔حضرت عمرفاروقؓ نے گھر کا آدھا سامان دے دیا۔حضرت عثمانِ غنیؓ نے سینکڑوں اونٹ پالان سمیت پیش کردیے۔دوسرے صحابہؓ بھی جتنا زیادہ روپیہ دے سکتے تھے لے آئے۔عورتوں نے اپنے زیور اتار کر ڈھیر کر دیے۔جب سب چلنے کے لئے تیار ہوگئے تو رسولِ پا ک رجب ۹ ؁ ہجری میں تیس ہزار فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔موسم سخت گرم اور راستہ بڑا دشوار تھا۔کسی کسی جگہ ایسے ریتیلے میدان آئے جہاں زہریلی ہوائیں چلتی ہیں۔آپؐ ان میدانوں سے گزرتے اور پیاس کی مصیبتیں جھیلتے تبوک پہنچے جو مدینہ سے ۶۸۶کلومیٹرکے فاصلے پر ہے۔آپؐ کے مقابلے پر دشمن کی کوئی فوج تو نہ آئی ہاں آس پاس کے بعض عیسائی حاکم آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خراج دینے کا عہد کر کے اطاعت قبول کرلی۔
پاس کی ایک ریاست دومۃ الجندل کا عرب حاکم اکید ر قیصر روم کے اثر میں تھا۔آپؐ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو چار سو سوار دے کر اس کے مقابلے کے لئے بھیجا ۔انھوں نے اس کو شکست دی اور گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے آئے۔آپؐ نے اس کو چند شرطوں پر معافی دے دی۔بیس دن تبوک میں قیام کرنے کے بعد آپؐ مدینہ واپس تشریف لائے۔
آپؐ کے تبوک روانہ ہونے سے پہلے کچھ لوگوں نے مدینہ میں ایک مسجد بنائی تھی۔آپؐ واپس تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ مسجد بنانے والے منا فق ہیں اور انھوں نے یہ کام مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے کیا ہے۔آپؐ کے حکم سے یہ مسجد جو ‘‘مسجدِضرار‘‘کے نام سے مشہور ہے،گرادی گئی۔مدینہ کے تین مسلمان حضرت کعبؓ بن مالک ،مرارہؓبن ربیع اور ہلالؓبن امیہ سستی کی وجہ سے اس مہم پر نہ جاسکے تھے۔آپؐ نے انکو یہ سزا دی کہ دوسرے تمام مسلمانوں کو ان سے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے سے منع کردیا۔وہ پچاس دن تک توبہ استغفار کرتے رہے،آخر اللہ نے انکی توبہ قبول کرلی اور ان کی سزا ختم ہوگئی۔

 

حج اکبر
(۹،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبوک سے واپسی پر حج کا موسم آیا تو رسولِ پاکؐ نے تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ حج کے لئے مکہ روانہ فرمایا۔حضرت ابوبکرصدیقؓ کو آپؐ نے اس قافلے کا امیر مقرر فرمایا اور کچھ ضروری کام حضرت علیؓ،حضرت سعدؓبن ابی وقاص ،حضرت جابر بن عبداللہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کے سپرد کئے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے لوگوں کو حج کے صحیح طریقے بتائے اور سکھائے اور سب نے انہی طریقوں کے مطابق حج اداکیا ۔قربانی کے دن حضرت ابو بکرؓ نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا۔ان کے بعد حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور سورۂ برأت کی چالیس آیتیں پڑھیں جن میں کافروں سے ہر قسم کا تعلق توڑنے کا حکم دیا گیاہے۔پھر اعلان کیا کہ آیندہ کوئی کافر خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہوسکے گااور نہ کوئی ننگا ہو کر حج کر سکے گا۔
قرآن پاک میں اس حج کو’ ’حجِ اکبر‘‘(یعنی بڑا حج )کہا گیا ہے کیونکہ صدیوں کے بعد یہ حج اسی طرح ادا کیا گیا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام ادا کیا کرتے تھے۔

 

آخری حج
(۱۰،ہجری)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہجرت کے دسویں سال ذیقعد کے مہینے میں رسولِ پاک ؐ نے اعلان فرمایا کہ اس سال میں حج کو جارہا ہوں۔اس اعلان کو سنتے ہی مسلمان چاروں طرف مدینہ پہنچنے لگے۔۲۶ ذیقعدہ کو آپ ہزاروں مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور چھ میل دور ذُوالحلفیہ کے مقام پر رات گزاری۔دوسرے دن غسل کر کے حج کا لباس پہناجسے احرام باندھنا کہتے ہیں۔پھر آپؐ نے اونٹنی پر سوار ہوکر بلند آواز سے یہ الفاظ فرمائے:
’’اے اللہ ہم تیرے سامنے حاضر ہیں ،حاضر ہیں۔اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں سب تعریفیں 
تیرے لئے ہیں،مُلک تیرا ہے،نعمتیں تیری ہیں،کوئی تیرا شریک نہیں۔‘‘ 
آپؐ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی یہ الفاظ دہراتے اور ارد گرد کے پہاڑ گونج اٹھتے۔
راستے میں اور لوگ بھی آپؐ کے قافلے میں ملتے جاتے۔مکہ تک پہنچتے پہنچتے یہ حال تھا کہ جدھر نظر اٹھتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے۔نویں دن ذوالحجہ کی پانچ تاریخ کو آپؐ مکہ میں داخل ہوئے۔کعبہ پر نظر پڑی تو اونٹ سے اتر پڑے اور فرمایا:
’’اے اللہ اس گھر کو عزت اور بزرگی دے۔‘‘
پھر مقامِ ابراہیم ؑ میں دو رکعت نماز پڑھی اور صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر فرمایا:
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔اس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں۔وہی مارتا ہے اور وہی زندہ کر تا ہے۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،اس نے اپنا وعدہ پورا کیا،اپنے بندے کی مدد کی اور 
سب جتھوں کو توڑ دیا۔‘‘
آٹھ ذولحجہ کو آپؐ نے سارے مسلمانوں کے ساتھ منٰی میں قیام فرمایا۔جمعہ کے دن نویں ذوالحجہ کو فجر کی نماز پڑھ کر سب مسلمانوں منٰی سے چل کر عرفات کے میدان میں جمع ہوئے۔کوئی سوا ڈیڑھ لاکھ کا ہجوم تھا۔دوپہر ڈھلنے کے بعد آپؐ نے اونٹنی پر سوار ہو کر حج کا وہ تاریخی خطبہ دیا جس کا ایک ایک لفظ قیامت تک انسانوں کی ہدایت اور بھلائی کی راہ دکھاتا رہے گا۔اس خطبہ میں بہت سی دوسری نصیحتوں کے علاوہ آپؐ نے فرمایا: 
’’اے لوگوں !میری بات غور سے سنو شاید میں اس جگہ پھر کبھی تم سے نہ مل سکوں گا۔لوگوں!جس طرح تم اس دن اس مہینہ اس مقام کی عزت کرتے ہو اسی طرح ایک دوسرے کے مال جان اور آبرو کی عزت کرو اور اسے اپنے اوپر حرام سمجھو،اللہ تمہارے ہر ایک کام کا حساب لے گا۔خبردار میرے بعد سچائی کے راستے سے بھٹک نہ جانا کہ ایک دوسرے کا خون بہانے لگو،عورتوں کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا،غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ،جو خود کھاؤ وہی انکو کھلانا،جو خود پہنو وہی ان کو پہنانا،ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کردینا۔ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔یاد رکھو عرب کے کسی رہنے والے کوعجم کے کسی رہنے والے پر اور عجم کے کسی رہنے والے کو عرب کے کسی رہنے والے پر،کسی گورے کو کسی کالے پراور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی بڑائی نہیں ہے،تم سب آدم کی اولادہواور آدم مٹی سے بنے تھے۔تم میں زیادہ عزت والا وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا اور پرہیز گار ہے۔جاہلیت کی تمام رسموں کو میرے ذریعے سے مٹا دیا گیاہے۔وہ سب خون جو جاہلیت میں ہوئے تھے،ان کا بدلہ ختم کیا جاتا ہے،سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے مقتول ربیعہ بن حارث کا خون معاف کرتا ہوں اور آج سے سود کی رقمیں مٹائی جاتیں ہیں،میرے خاندان کو لوگوں سے جو سود لینا ہے،سب سے پہلے میں اس کو مٹاتاہوں۔اگر تم اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔
’’لوگوں جو کام کرو سچے دل سے کرو،مسلمانوں کا بھلا سوچتے رہو اور آپس میں اتفاق رکھو۔‘‘
خطبہ ختم ہوا تو آپؐ نے مجمع سے پوچھا :
’’اللہ تم سے میرے بارے میں پوچھے گا تو تم کیا جواب دو گے؟‘‘ 
سارا مجمع پکار اٹھا’’ہم کہیں گے کہ آپؐ نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کردیا۔‘‘
یہ سن کر آپؐ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا:
’’اے اللہ گواہ رہنا،اے اللہ گواہ رہنا،اے اللہ گواہ رہنا‘‘
اس وقت اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا :
’’(اے رسول)آج میں نے تمہارے لئے دین کوپورا کردیا اور اپنی نعمت تم پرپوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کے دین کو پسند کیا۔‘‘پھر آپؐ نے لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا: 
’’جو لوگ اس وقت یہاں موجود ہیں وہ ان کومیرا پیغام سنا دیں جو موجود نہیں۔‘‘اس کے بعد آپؐ نے حج کی باقی شرطیں پوری کیں اور مہاجرین اور انصار کے ساتھ واپس مدینہ منوّرہ تشریف لے آئے۔رسولِ پاکؐ کا یہ آخری حج تھااس لئے اسے ’’حجّۃ الوداع‘‘کہتے ہیں۔

 

رسول پاک ﷺ اللہ کے پاس چلے گئے

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حجۃ الوداع سے واپسی کے بعد ہجرت کے گیارہویں سال ماہ صفر کی ۱۸ یا ۱۹ تاریخ تھی کہ رسول پاک ؐ آدھی رات کے وقت مدینہ کے قبرستان’’جنت البقیع‘‘تشریف لے گئے اور وہان پر دفن مسلمانوں کے لیے دعا ء فرمائی۔واپس گھر تشریف آئے تو آپ کو بخار ہو گیا۔بخار ہوئے پانچ روز گزر گئے تو دوسری سب بیویوں سے اجازت لے کرآپ ؐ نے بی بی عائشہؓ کے حجرے میں قیام فرمایا۔بیماری کی حالت میں بھی آپ پانچوں وقت مسجد میں نماز پڑھانے تشریف لاتے رہے۔جب کمزوری حد سے زیادہ ہو گئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔وہ کئی دن تک نماز پڑھاتے رہے۔ایک دن طبیعت ذرا سنبھلی تو حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کے سہارے آپ ؐ مسجد میں تشریف لائے۔اس وقت حضرت ابو بکرؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔آہٹ پا کر انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہالیکن آپ ؐ نے اشارہ سے روک دیا۔پھر ان کے پہلے میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔نماز کے بعد آپ ؐ نے ایک مختصر خطبہ دیا جس میں فرمایا:
’’اللہ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیاکہ چاہے وہ دنیا کی نعمتوں کوقبول کرے اور چاہے تو اللہ کے پاس جا کرجو نعمتیں ملنے والی ہیں ان کو قبول کرے۔اس بندے نے اللہ کے پاس جا کر ملنے والی نعمتوں کو قبول کیا،دیکھو میرا نام لے کر کسی چیز کو حلال اور حرام نہ کہنا۔میں نے وہی چیز حلال کی ہے جواللہ نے حلال کی ہے اوروہی حرام کی ہے جو اللہ نے حرام کی ہے،میرے بعد عام مسلمان بڑھتے جائیں گے لیکن انصار کم رہ جائیں گے۔اے مہاجرین!ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔یہ لوگ ابتدا سے لے کر اب تک میرے مددگار رہے ہیں۔میرے کنبہ کی عزت کا بھی خیال رکھنا۔‘‘
اس کے بعد آپ ؐ حجرہ میں تشریف لے گئے۔
بیماری کی حالت میں ایک دن فرمایا:
’’یہود اور نصاریٰ پر خدا کی مار ہو کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کوعبادت کا گھر بنا لیا۔‘‘
ایک دن لوگوں سے فرمایا کہ اگر میرے ذمہ کسی کا قرض آتا ہو،اگر میں نے کسی کی جان مال یا عزت کو صدمہ پہنچایا ہوتو میری جان مال عزت حاضر ہے،وہ اسی دنیا میں مجھ سے بدلہ لے لے۔سب لوگ خاموش رہے۔صرف ایک شخص نے اٹھ کر کہامیرے اتنے درہم آ پ ؐ کے ذمہ ہیں۔آپ ؐ نے فوراًوہ رقم ادا کردی۔
بیماری میں کبھی کمی اور کبھی زیادتی ہوتی رہی۔وفات کے دن صبح کے وقت طبیعت کو کچھ سکون تھا۔آپ ؐ نے حجرے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ فجر کی نماز کے لیے صف باندھے کھڑے تھے۔آپ ؐ بہت خوش ہوئے۔لوگوں نے آہٹ پا کرخیال کیا کہ آپ مسجد میں آنا چاہتے ہیں وہ خوشی سے بے قابوہو چلے۔لیکن آ پ ؐ نے انہیں نماز میں مشغول رہنے کا اشارہ کیااور حجرے کا پردہ گرادیا۔جُوں جُوں دن چڑھتا گیاآپ ؐ کو بار بار غش آنے لگا۔تیسرے پہر بے چینی بڑھ گئی۔اس وقت لوگوں نے آپ ؐ کو یہ فرماتے سنا’’نماز،نماز۔غلاموں سے نیک برتاؤ۔‘‘اس کے فوراً بعد آپ ؐ نے ہاتھ کی انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا’’بس اب سب سے بڑے ساتھی کے پاس‘‘اور پھر آپ ؐ کی پاک روح سب سے بڑے ساتھی’’اللہ ‘‘کے پاس چلی گئی۔یہ پیر کا دن اورربیع الاول ۱۱ ؁ہجری کی بارہ تاریخ تھی۔بعض کتابوں میں اس دن ربیع الاول کی پہلی تاریخ بتائی گئی ہے۔اس وقت آپ ؐ کی عمرمبارک تریسٹھ برس تھی۔لوگوں میں آپ ؐ کی وفات کی خبر پھیلی تو ان کو اس قدر صدمہ ہواکہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔منگل کے دن آپؐ کے خاص عزیزوں اور کچھ پیارے ساتھیوں نے آپ کو ؐ غسل دیا اور تین سفید کپڑوں کا کفن پہنایا۔غسل اور کفن کے بعد فیصلہ ہوا کہ حضرت عائشہ کے حجرے ہی میں جہاں آپ ؐ نے وفات پائی تھی۔آپ کے پاک جسم کو زمین کے حوالے کیا جائے۔چنانچہ وہیں قبر کھودی گئی۔جب جنازہ تیار ہو گیا تومردوں،عورتوں اور بچوں نے باری باری حجرہ کے اندر جا کر(الگ الگ)جنازہ کی نمازپڑھی۔بُدھ کو رات گئے آپ ؐ کا پاک جسم قبر میں اتاراگیا۔آپ ؐ کی قبر مبارک کو روضہؐمبارک کہا جاتا ہے۔

 

رسول پاکﷺ کی پاک بیبیاں

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے رسول پاکؐ کی پاک بیبیاں(ازواج مطہرات)کو ساری امت کی مائیں(امہات المؤمنین)کہا جاتا ہے۔ان کے نام اور مختصر حالات یہ ہیں:
۱۔حضرت خدیجہؓ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ قریش کے خاندان بنو اسد کے سردار خویلد کی بیٹی تھیں اور آپ ؐ کی سب سے پہلی بیوی تھیں۔یہ آپ ؐ پر سب سے پہلے ایمان لائیں اورآخر وقت تک ہر طرح سے آپ ؐ کی خدمت کرتی رہیں۔نبوت کے دسویں سال فوت ہوئیں۔

 
۲۔حضرت سودہؓ بنت زمعہ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ قریش کے خاندان بنو عامر سے تھیں۔انکے پہلے شوہر فوت ہو گئے تو حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد آپؐ نے ان سے نکاح کر لیا۔انہوں نے شروع ہی میں اسلا م قبول کر لیا تھا۔ ۲۲ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۳۔حضرت عائشہ صدیقہ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی تھیں۔ہجرت سے کچھ مدت پہلے نکاح ہوااور ہجرت کے بعد رخصتی ہوئی۔آپؐ کو ان سے بڑی محبت تھی،بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ ۵۸ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۴۔حضرت حفصہؓ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمر فاروقؓ کی بیٹی تھیں۔پہلے شوہر کی وفات کے بعد آپ ؐ کے نکاح میں آئیں۔
۴۰ ہجری میں وفات پائی۔

 
۵۔حضرت زینبؓ بنت خزیمہ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے شوہر کی جنگ اُحدمیں شہادت کے بعد آپ ؐ کے نکاح میں آئیں۔بہت سخی تھیں اور غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتی تھیں۔اس لیے امّ المساکین(مسکینوں کی ماں)کے لقب سے مشہور ہوگئی تھیں۔رسول پاکؐ سے نکاح کے دو تین ماہ بعد آپ ؐ کے سامنے فوت ہو گئیں۔

 
۶۔حضرت ام سلمہؓ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو امیہ مخزومی کی بیٹی تھیں جو فیاضی میں بہت مشہور تھے۔پہلے خاوند ابو سلمہ کی وفات کے بعد آپ کے نکاح میں آئیں۔ ۶۳ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۷۔حضرت زینبؓ بنت جحش

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاکؐ کی پھوپھی زادبہن تھیں۔ان کے پہلے خاوند حضرت زیدؓ بن حارثہ نے طلاق دے دی تو آپؐ نے ان سے نکاح کر لیا۔بہت عبادت اور سخاوت کیا کرتی تھیں۔ ۲۰ ؁ہجری میں فوت ہوئیں۔

 
۸۔حضرت جویریہؓ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بنی مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی تھیں۔جنگ میں گرفتار ہو کر آئی تھیں۔آپؐ سے نکاح کی بدولت ان کا تمام قبیلہ آزاد ہو گیااور ان کے باپ اسلام لائے۔ ۵۰ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۹۔حضرت ام حبیبہؓ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریش کے خاندان بنو امیہ کے سردار ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔شروع ہی میں اسلام قبول کر لیااور اپنے پہلے خاوندعبیداللہ بن جحش کے ساتھ ہجرت کرکے حبش چلی گئیں۔وہاں عبیداللہ نے عیسائیت قبول کرلی مگر یہ اسلام پر قائم رہیں۔کچھ عرصہ بعد عبیداللہ نے وفات پائی۔اس کے بعد نجاشی شاہِ حبشہ کی وکالت سے آپؐ کا نکاح ان سے ہوا۔ ۷ ؁ہجری کے شروع میں حبش سے مدینہ آئیں۔

 
۱۰۔حضرت صفیہؓ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا باپ حیی بن اخطب یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کا سردار تھا۔جنگ خیبر میں ان کا والداور پہلا شوہر کنانہ مارے گئے۔اس کے بعد آپؐ کے نکاح میں آئیں۔ ۵۰ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۱۱۔حضرت میمونہؓ بنت حارث

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے شوہرابو رُہم بن عبد العزیٰ کی وفات کے بعد ۷ ؁ہجری میں آپؐ کے نکاح میںآئیں۔بہت پرہیزگار تھیں۔ ۱۵ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۱۲۔حضرت ماریہ قبطیہؓ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶ ؁ہجری میں ان کو مصرکے باد شاہ نے آپؐ کی خدمت میں بھیجاتھا۔پہلے عیسائی تھیں مدینہ کے راستے میں مسلمان ہو گئیں۔آپ ؐ نے ان کو اپنے حرم میں داخل کر لیا۔ ۱۶ ؁ہجری میں وفات پائی۔
رسول پاک ﷺ کی وفات کے وقت حضرت خدیجہؓ اور حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے سوا آپؓ کی سب بیبیاں زندہ تھیں۔آپؐ کے بعد وہ دنیاکو دین کی تعلیم سے مالا مال کرتی رہیں۔

 

رسول پاک ﷺ کی اولاد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے رسول ﷺ کو اللہ نے حضرت خدیجہؓ سے دو بیٹے اور چار بیٹیاں دیں۔ان سب کے نام یہ ہیں۔

 
بیٹے

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

۱۔حضرت قاسمؓ

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے نام کی نسبت سے آپ ؐ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔حضرت قاسمؓایک سال پانچ ماہ کی عمر میں فوت ہو گئے۔

 
۲۔حضرت عبداللہؓ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا نام طاہر اور طیب تھایہ بھی بہت چھوٹی عمر میں فوت ہوگئے۔

 

بیٹیاں

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۱۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شادی حضرت ابوالعاصؓ سے ہوئی۔ ۸ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۲۔حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شادی حضرت عثمانؓ سے ہوئی۔ ۲ ؁ ہجری میں وفات پائی۔

 
۳۔حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت رقیہ کی وفات کے بعد ان کی شادی بھی حضرت عثمانؓ سے ہوئی۔ ۹ ؁ہجری میں وفات پائی۔

 
۴۔حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی۔حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ حضرت فاطمہؓ ہی کے بیٹے تھے۔وہ رسول پاکؐ کے کے چند ماہ بعد فوت ہوئیں۔
حضرت ماریہ قبطیہؓ سے بھی اللہ نے ہمارے رسول پاک ؐ کو ایک بیٹا دیا۔ان کا نام ابراہیمؓ تھا۔وہ بھی بہت چھوٹی عمر میں وفات پا گئے۔

 

اللہ کی سب سے آخری کتاب

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ کی کتابوں میں اللہ کی وہ باتیں ہوتی ہیں جو اللہ لوگوں کی ہدایت اور نصیحت کے لئے اپنے فرشتے کے ذریعے اپنے رسولوں سے کہتا ہے۔
ہمارے رسول پاکؐ سے پہلے آنے والے رسولوں پرجو کتابیں اتریں ان میں توریت، انجیل اور زبور بہت مشہور ہیں۔توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر،زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر اور انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اتری۔ان کو آسمانی کتابیں بھی کہا جاتا ہے۔سب سے آخر میں ہمارے رسول پاکؐ پر جو کتاب اتری اس کا نام’’قرآن‘‘ہے۔یہ کتاب تھوڑی تھوڑی کر کے۲۳ برس میں اتری۔ ہمارے رسول پاکؐ اللہ کے آخری رسول اور نبی تھے۔قرآن شریف بھی اللہ کی سب سے آخری کتاب ہے۔انسانوں کی ہدایت کے لیے جس قدر باتوں کی ضرورت تھی، وہ سب کی سب قرآن شریف میں اللہ نے بیان کر دی ہیں۔اللہ کی یہ آخری کتاب قیامت تک انسانوں کو نیکی کی باتیں بتاتی اور برے کاموں سے روکتی رہے گی۔پہلی آسمانی کتابوں میں لوگوں نے اپنی طرف سے باتیں گھٹا بڑھا دی ہیں مگر قرآن شریف کا ایک حرف تک نہیں بدلا۔وہ جیسے ہمارے رسول پاکؐ پر اتراویسے کا ویسا ہی اب تک موجود ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔اللہ نے قرآن شریف میں وعدہ کیا ہے کہ ہمیں خود اس کی حفاظت کروں گا۔قرآن شریف کے سوا اللہ کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو ساری کی ساری کسی نے زبانی یاد کر لی ہولیکن جب سے قرآن شریف نازل ہوا،اس کو ہر زمانے میں لاکھوں مسلمان پورے کا پورازبانی یاد کرتے رہے اورآج بھی قرآن شریف کو پورا یاد کرنے والے لاکھوں مسلمان موجود ہیں۔ایسے آدمیوں کو حافظ کہا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف صاف کہا ہے کہ دنیا کا کوئی شخص اس کی ایک سورۃ جیسے بھی کوئی سورۃ نہیں بنا سکتا۔قرآن شریف کوپڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے بغیر کوئی شخص سچا مسلمان نہیں بن سکتا۔

 

اسلام کے پانچ ستون

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے رسول پاک ؐ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے۔ایک اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں اور محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔دوسرے نماز قائم کرنا۔ تیسرے زکوٰۃ ادا کرنا۔چوتھے حج کرنا اور پانچویں رمضان کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری و مسلم)
اس حدیث پاک میں رسول پاک ﷺ نے اسلام کی مثال ایک ایسی عمارت سے دی ہے جو پانچ ستونوں پر قائم ہے۔یہ ستون وہ پانچ باتیں ہیں جن کا اللہ نے آپؐ کے ذریعے مسلمانو ں کو حکم دیاہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کو ایک جانواس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرواور حضور محمدؐ کو اللہ کا بندہ اور اللہ کا سچا رسول سمجھو۔
دوسری بات یہ کہ پانچ وقت کی نماز پڑھو۔
تیسری بات یہ کہ سال میں ایک مرتبہ اپنے مال کی زکوٰۃ دیا کرو۔
چوتھی بات یہ کہ تمام عمر میں کم از کم ایک دفعہ کعبہ کا حج ضرور کرو بشرطیکہ اللہ اس کے لیے مال دے۔بھیک مانگ کر حج کرنا فرض نہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان المبارک کے روزے رکھو۔
جو شخص مسلمان کہلائے اور ان پانچ باتوں پر عمل نہ کرے وہ خدا کے نزدیک سچا مسلمان نہیں بلکہ بڑا گناہ گار اور نا فرمان ہے۔قیامت کے دن اللہ اس کو سخت سزادے گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top