تم نے کیا کیا۔۔؟
کہانی: Oh! You Greedy Dog!
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رِپ ایک بہت لالچی کتا تھا۔اگر چہ اس کے پاس کھانے لیے بہت کچھ ہو تا تھا،مگر اس کا خیال مختلف تھا۔
”میں فاقوں سے مر رہا ہوں۔“وہ ہمیشہ کہتا۔محلے کے مختلف گھروں کے دروازوں پر جا کر وہ اتنی اداسی سے لوگوں کو دیکھتا کہ لوگ بھاگ کر اس کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے لے آتے۔اس کے باوجود وہ بلیوں کا کھانا بھی چرا لیتا۔سب ہی جانتے تھے کہ رپ ایک لالچی کتا ہے۔
ایک روز دو آدمیوں نے اس مکان میں چوری کرنے کا ارادہ کیا جہاں رِپ رہتا تھا۔
”ہم اس رات کا انتخاب کریں گے جب مالک گھر سے باہر ہو۔“ایک نے کہا۔
”لیکن اس گھر میں تو کتا بھی ہے۔وہ ہمیں دیکھ کر ضرور بھونکے گا۔“دوسرا بولا۔
”بھونکنے کی تو کوئی پروا نہیں۔گھر میں ہوگا ہی کون جو ہوشیار ہو سکے ۔سوال صرف یہ ہے کہ کیا وہ ہم پر لپکے گا؟وہ زنجیر میں بندھا ہوتا ہے یا کھلا رہتا ہے؟“پہلا بولا۔
”کھلا رہتا ہے۔“دوسرے نے بتایا۔
”اور وہ کافی بڑا کتا ہے۔گھر کے صحن میں اس کا گھر بنا ہوا ہے۔“
”یہ وہی کتا ہے ناں جو بہت لالچی مشہور ہے؟“پہلے نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں!لیکن بھلا اس بات سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے سوائے اس کے کہ ہم اسے زہریلا گوشت کھلا دیں لیکن میں اس تجویز کے حق میں نہیں ہوں۔میں نہیں چاہتا کہ ہم کسی کی جان لیں۔“
”اوہو!میں کون سا کتے کو مارنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔میرے ذہن میں ایک اور ترکیب آئی ہے۔“پہلا بولا۔
”وہ کیا؟“دوسرے نے پوچھا۔
”سنو!اگر ہم اس کے لیے ڈھیر سار اکھانا خریدیں اور اس کو سارا کھانا کھلا دیں تو وہ اتنا کچھ کھا کر بیمار پڑ جائے گا یا اتنا موٹا ہو جائے گا کہ اپنے گھر کے دروازے سے باہر نہیں نکل سکے گا۔کتوں کے گھر کے دروازے ہمیشہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔“پہلے نے ترکیب بتائی۔ دوسرا یہ سن کر بہت ہنسا،ترکیب جان دار تھی۔
اگلی رات وہ دونوں رپ کے لیے کھانے کے بہت سارے پیکٹ لائے۔ان میں ہڈیاں، بسکٹ، باسی بن اور چھیچھڑے بھرے ہوئے تھے۔ رپ صحن میں دوڑ رہا تھا۔انہیں دیکھ کر زور سے بھونکا۔ایک چور نے بیگ سے آدھے درجن بن نکالے اور دیوار سے گھما کر رپ کے گھر کے اندر پھینک دیے۔رپ فوراً بن کے پیچھے لپکا اور سارے بن اکٹھے ہڑپ کر گیا۔اب چوروں نے بہت سی ہڈیا اور بسکٹ پھینکے ۔رپ جوش میں بھر گیا۔
”یہ کتنے اچھے آدمی ہیں!“اس نے سوچا۔
چوروں نے اب چھیچھڑے پھینکنے شروع کر دیے۔یہاں تک کہ ان کے سارے تھیلے خالی ہوگئے۔
”میں اوپر چڑھ کر صحن میں جھانکتا ہوں۔اگر وہ میرے پیچھے بھاگتا ہوا آئے تو تم مجھے تیزی سے پیچھے کھینچ لینا۔ہمارے پاس اب مزید کھانا نہیں ہے اس لیے اب ہمیں خطرہ مول لینا پڑے گا۔“پہلا بولا۔
رپ نے اسے دیوار پر چڑھتا دیکھ لیا اور زور زور سے بھونکا۔چور دیوار پر بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔رپ نے اسے اپنے دانت دکھائے اور پھر اپنے گھر سے نکل کر اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی،لیکن یہ کیا؟وہ اپنے گھر کے تنگ دروازے میں پھنس کر رہ گیا۔اس نے اتنے سارے بن،بسکٹ ، ہڈیاں اور چھیچھڑے کھالیے تھے کہ وہ خود کو سکیڑ کر بھی نہیں نکل سکتا تھا۔
”بہت خوب!وہ پھنس گیا ہے۔آﺅ جلدی سے اندر آجاﺅ۔اب ہم اپنا کام آسانی سے کر سکتے ہیں۔“دونوں آدمی گھر میں گھس گئے اور ایک کھڑکی توڑ کر اندر چلے گئے۔رِپ پاگلوں کی طرح بھونک رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر آج وہ اپنے گھر سے کیوں نکل نہیں پا رہا تھا جیسے وہ روز نکلتاتھا!آدمی گھر کے اندر غائب ہو چکے تھے۔رِپ جانتا تھا کہ وہ کوئی اچھا کام نہیں کر رہے ہوں گے،اس کی کتنی خواہش تھی کہ وہ ان لوگوں پر ٹوٹ پڑے۔لیکن وہ اپنے گھرکے دروازے میں پھنسا ہوا تھا، آدھااندر اور آدھا باہر!اس کو اتنی زور سے بھونکتے سن کر ایک بلی صحن میں کود آئی۔
”کیا بات ہے؟تم اتنی زور سے کیوں بھونک رہے ہو؟“اس نے پوچھا۔
”ڈاکو!“رِپ نے جوش سے کہا۔
”لیکن میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔پتہ نہیں کیوں؟“بلی نے اس کے گھر کے اندر جھانکا اور ہنس پڑی۔وہ اندھیرے میں اچھی طرح دیکھ سکتی تھی۔
”تم ایک بھالو جتنے موٹے ہو گئے ہو، اسی لیے اپنے گھر کے دروازے میں پھنس گئے ہو۔آج تم نے ایسا کیا کھالیا ہے کہ تمہارا پیٹ غبارے کی طرح پھول گیا ہے؟“
”ان لوگوں کی دی ہوئی بے شمار چیزیںاب مجھے سمجھ آیا کہ یہ ان لوگوں کی ترکیب تھی۔تاکہ میں موٹا ہوکر دروازے میں پھنس جاﺅں اور ان لوگوں کے پیچھے نہ بھاگ سکون۔اُف!میرا مالک کیا کہے گا؟“رِپ نے رو کر کہا۔
اس کے مالک نے بہت کچھ کہا جب اس نے اپنا گھر لٹا ہوا پایا۔
”میں تمہیں اتنا اچھا کھلاتا،پلاتا ہوں تاکہ تم میرے گھر کی چوکی داری کرو۔لیکن تم نے کیا کیا؟تم بالکل قابل اعتماد نہیں ہو۔میں تمہاری ڈنڈے سے پٹائی کروں گا اور تمہیں کھانے کے لیے مزے مزے کی چیزیں بھی نہیں دوں گا۔“
لالچی رپ!وہ جانتا تھا کہ وہ اس سزا کا مستحق تھا۔اس نے زیادہ کھانا چھوڑ دیا۔اس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ لالچ ہمیشہ بہت برا پھنساتی ہے۔