skip to Main Content

آدم خور

مصنفہ: مارگرٹ روتھن
مترجم: سلیم احمد صدیقی

۔۔۔۔۔

مار گرٹ روتھن نے یہ کہانی اُ س وقت لکھی جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور مارگرٹ کا شوہر محکمہ جنگلات میں افسر تھا۔
(یاد رہے کہ اس کہانی کو 45 سال جون 1989ء تک ہوئے تھے۔)
۔۔۔۔۔

انگلستان کے لوگ سمجھتے ہیں،جو انگریز ہندوستان میں کچھ عرصہ رہا ہو،اس نے شیر کا شکار ضرور کیا ہوگا۔حالانکہ اس بات میں بالکل سچائی نہیں۔اور اس بات کی سب سے بڑی گواہ میں خود ہوں۔میں ہندوستان میں ایک سال تک رہی لیکن چڑیا گھر کے شیر کے سواکسی شیر کی شکل تک نہیں دیکھی۔
ہاں البتہ انگلستان آنے سے کچھ دن پہلے ایک شیر سے میرا سامنا ضرور ہوا۔مگر اس وقت اسے مارنے کے لیے میرے پاس کوئی بھی ہتھیار نہ تھا۔میں اس دن ایک تیرہ سالہ ہندوستانی لڑکی’لالی‘کے ہمراہ شکروی گاؤں سے ایک میل دور مچھلی کا شکار کھیلنے گئی تھی۔میرے پاس مچھلیاں پکڑنے کی بنسی اور چائے کا تھرموس تھا،اور لالی کے ہاتھ میں صرف ناشتے دان۔
ہم نے سنا تھا کہ ان دنوں دریا میں مہا شیر نسل کی مچھلیاں آئی ہوئی ہیں۔بس ہم نے دریا کے کنارے،ایک اچھی سی جگہ دیکھ کر، بنسی پانی میں ڈال دی اور کسی موٹی تازی مچھلی کے پھنسنے کا انتظار کرنے لگے۔میرا خیال تھا کے ہم دوپہر تک دو ایک مچھلیاں ضرور پکڑ لیں گے،مگر دو گھنٹے بیٹھے رہنے کے باوجود مچھلی تو کیا،کچھوا تک کانٹے میں نہ پھنسا۔آخر جھنجھلا کر میں نے بنسی پانی سے نکالی اور کانٹے میں دوبارہ چارہ لگا کر اسے دریا میں ڈال دیا۔تب اچانک مجھے لالی کی آواز سنائی دی،”میم صاحب!میم صاحب!“
میں نے جھٹ سے مڑ کر دیکھا۔لالی ایک پتھر پر بیٹھی بائیں جانب اشارہ کر رہی تھی”میم صاحب!۔۔۔میم صاحب!۔۔۔شیر!“ اس نے خوف زدہ آواز میں کہا۔
میں لالی کی طرف جانا چاہتی تھی کہ اسی لمحے کانٹے میں مچھلی پھنس گئی،جو شاید بہت بڑی تھی،کیوں کہ اس نے بنسی اتنے زور سے کھینچی کہ میں زمین پر گر پڑی اور پھر گھسٹتی ہوئی ایک پتھر سے ٹکرا گئی۔چند سکینڈ کے لیے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
لالی ڈور کر میرے پاس آئی اور مجھے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔”میم صاحب!زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟آپ ٹھیک تو ہیں؟ وہ۔۔۔اُدھر،جھاڑیوں میں،ایک شیر بیٹھا ہے۔“اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
”میرے پاؤں میں موچ آگئی ہے۔“میں نے اسے بتایا”میں ہل نہیں سکتی۔مگر تم ڈرو نہیں۔اگر ہم چُپ چاپ بیٹھے رہے تو شیر ہمیں کچھ نہیں کہے گا۔“میں نے کہیں پڑھا تھا کہ شیر اس وقت تک آدمی پر حملہ نہیں کرتا جب تک اس پر حملہ نہ کیا جائے۔بہر حال شیر کو اتنے قریب دیکھ کر میرے حواس بھی جواب دینے لگے تھے۔
لالی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی،اور اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو گیا تھا۔اتنے میں شیرجھاڑی میں سے نکل کر باہر آگیا تھا اور ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔اسے آگے بڑھتا دیکھ کرلالی نے دبی دبی چیخ ماری اور بولی۔”آپ نے دیکھا،میم صاحب؟شیر لنگڑا رہا ہے۔یہ تو وہی تان والا آدم خور ہے۔چھ مہینے بعد پھر واپس آگیا ہے۔اسے میرے ماں باپ کو کھا کر بھی چین نہ آیا۔اب یہ پھر آگیا ہے!“
میں نے سہمی ہوئی لالی کا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا۔”گھبراؤ نہیں۔ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔خدا نے چاہا تو ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔“
مگر دل ہی دل میں میں خود ڈر رہی تھی۔یہ شیرواقعی تان والا کا آدم خور تھااور اس نے چھ سات مہینے پہلے لالی کے گاؤں میں آکر اس کے ماں باپ کو کھا لیا تھا۔تب سے لالی میرے پاس رہنے لگی تھی۔
”میم صاحب!“لالی نے آہستہ سے کہا۔”یہ ہم میں سے ایک کو ضرور کھا جائے گا۔ذرا دیکھئے تو سہی۔اس کا پیٹ کتنا پتلا نظر آرہا ہے۔لگتا ہے کئی دن کا بھوکا ہے۔“
لالی کے اس فقرے نے میرے جسم میں سنسنی دوڑادی۔اگر شیر نے واقعی ہم میں سے کسی ایک کو ضرورکھانا ہے، تو ظاہرہے کہ وہ مجھی کو کھائے گا۔لالی دوڑ سکتی تھی،اور میں موچ کی وجہ سے ایک قدم بھی نہیں چل سکتی تھی۔
شیر اب ایک قدم اور آگے آگیا تھا۔شاید وہ یہ سوچ کر حیران ہو رہا تھا کہ ہم ڈر کر بھاگ کیوں نہیں رہے۔
”لالی“ میں نے کہا۔”چُپ چاپ بیٹھی رہو۔کچھ دیر بعد خود ہی چلا جائے گا“۔
میرا فقرہ مشکل سے پورا ہوا ہو گاکہ شیر چند قدم اور آگے آگیا۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بھی لمحے چھلانگ لگا کر ہم میں سے کسی کو دبوچ لے گا۔
میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھا نہ گیا۔پیر میں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔اب کیا کروں؟میری جیب میں صرف ایک چھوٹا سا چاقو تھااور ظاہر ہے اس سے شیر کو نہیں مارا جا سکتا تھا۔
میں اسی شش وپنج میں تھی کہ لالی نے میرا بازو دبایا اور آہستہ سے کہا۔”میم صاحب! میں گاؤں کی طرف جا رہی ہوں۔“
میں نے ڈانٹ کر کہا۔”پاگل نہ بنو۔تمہارے دوڑتے ہی وہ چھلانگ لگا کر تمہیں دبوچ لے گا۔آہستہ آہستہ میرے پیچھے آجاؤ اور پھر چپکے سے دریا میں کود جاؤ۔اس کے بعد تیر کر دوسرے کنارے پر چلی جانااور گاؤں والوں کو بُلالانا۔“
”نہیں،میم صاحب!“لالی بولی۔”میں بھاگ رہی ہوں۔میری جیسی لڑکیاں تو بے شمار ہیں،مگر آپ جیسی مہربان میم صاحب کوئی کوئی ہوتی ہے۔“
یہ کہ کر وہ گاؤں کی طرف چل دی اور میں اسے پکارتی ہی رہ گئی۔”لالی!۔۔لالی!۔۔رک جاؤ! لالی!“
اسی وقت شیر ایک ہیبت ناک چیخ مار کرلالی کی طرف اچھلا۔میں نے خوف کے مارے آنکھیں بند کرلیں اور خدا سے دعا کرنے لگی کہ لالی کو بچا لے۔
چند لمحوں بعد میں نے آنکھیں کھولیں تو شیر سڑک پر کھڑا تھا اور لالی سڑک کے ارد گرد اُگی ہوئی گھنی جھاڑیوں میں چھپ گئی تھی۔ میں پھر خدا سے دعا مانگنے لگی، کیونکہ لالی ابھی خطرے سے باہر نہیں تھی۔
شیر جھاڑیوں کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک زوردار چیخ کی آواز آئی اور لالی لڑھکتی ہوئی سڑک پر آگری۔اس کے ساتھ ہی جنگلی سور کا ایک بچہ سڑک پر آگیا۔میں سمجھ گئی کہ کیا ہوا۔جنگلی سور کا یہ بچہ جھاڑی میں سویا پڑا تھا کہ لالی کا پاؤں اس پر پڑگیا،جس کی وجہ سے وہ لڑھک کر سڑک پر آگئی اور سور کا بچہ بھی ڈر کر اس کے پیچھے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔
خوشی کی بات یہ تھی کہ لالی لڑھکنیاں کھاتی ہوئی سڑک کے دوسرے کنارے پر چلی گئی تھی لیکن سور کا بچہ گھبراہٹ میں شیر کے پاس آگیا تھا۔اب شیر اپنا پنجہ اس کی طرف بڑھا رہا تھا اور وہ دہشت ناک آواز میں چلا رہا تھا۔اچانک جھاڑیوں میں سے سور کے کئی بچے نکل آئے۔ان کے پیچھے ان کی ماں بھی تھی۔سورنی نے شیر کو دیکھ کر بڑی خوف ناک آواز نکالی۔شاید وہ سور کو مدد کے لیے بلا رہی تھی۔
سور اپنی مادہ کی آواز سنتے ہی دوڑا ہوا آیا اور شیر کے پنجے کے نیچے اپنے بچے کو دبا ہوا دیکھ کر پوری طاقت سے اس پر جھپٹا۔شیر بھی شاید بھوک سے باولا ہورہا تھا۔اس نے بچے پر سے پنجہ اٹھا کر سور کے مارا اور اگر سور ایک طرف کو نہ ہو جاتا تو شیر کے ناخن اس کی کھال ادھیڑ دیتے۔
اب سور بھی غصے سے پاگل ہوگیا۔ اس نے دو قدم پیچھے ہٹ کر سر نیچے کیا اور پھر چھلانگ لگا کر اپنے لمبے نوکیلے دانت شیر کے پیٹ میں گھونپ دیے۔اگر شیر کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا تو وہ اس طرح کٹ جاتا جس طرح چاقو سے خربوزہ۔مگر خالی ہونے کی وجہ سے اس کی کھال لٹکی ہوئی تھی۔سور کے دانت اس لٹکی ہوئی کھال میں لگے جس سے وہ زخمی ہوگئی۔شیر پھر سور پر جھپٹا اور سور نے ایک مرتبہ پھر اس کے پیٹ میں دانت گھونپنے کی کوشش کی۔
اب سور کو احساس ہوا کہ جس بچے کو بچانے کے لیے وہ شیر سے لڑرہا ہے،وہ تو جھاڑیوں میں جا کر چھپ گیا۔ اس نے ایک قدم پیچھے ہٹایا اور زور زور سے آوازیں نکالیں تاکہ شیر ڈر کر بھاگ جائے۔
لالی جہاں لڑھکنیاں کھاکے گری تھی،وہیں پڑی ہوئی یہ خوف ناک منظر دیکھ رہی تھی۔اب وہ اٹھ کر بھاگتا چاہتی تھی کہ سور نے اسے دیکھ لیا۔وہ سمجھا کہ شیر کی طرح یہ بھی میری دشمن ہے۔وہ لالی کی طرف جھپٹنے ہی کو تھا کہ شیر نے اس پر حملہ کردیا۔میں نے جلدی سے آنکھیں بند کرلیں،اور جب کھولیں تو دیکھا کہ شیر سور کے اوپر ہے اور سور اس کے نیچے دبا ہوا ہے۔
اب چند ہی منٹ میں سور کا خاتمہ ہونے والا تھا۔اور اس کے بعد شیر لالی کی خبر لیتا۔میں نے زور سے کہا۔”لالی! بھاگ جاؤ!“
لالی کھڑ ی ہوگئی تھی اور اس آنکھیں عجیب سے انداز میں چمک رہی تھیں۔میں پھر چلائی۔”دوڑو لالی!خدا کے واسطے بھاگ جاؤ۔“
سور اور شیر کی لڑائی کی وجہ سے سڑک پر دھول اڑنے لگی تھی جس نے شیر اور سور دونوں کو ڈھانپ لیا تھا۔میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔کسی بھی لمحے سور مر سکتا تھا،اور اس کے بعد لالی کی باری آنی تھی۔میں نے لالی سے کہا۔”بھاگتی کیوں نہیں؟ بھاگو!“لالی نے اس طرح میری طرف دیکھا جیسے پہلی بار میری آواز سنی ہو۔وہ ایک دم دوڑ پڑی۔
”دوسری طرف جاؤ۔ گاؤں کی طرف۔“ میں نے زور سے کہا۔لیکن لالی پر میری آواز کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ دوڑتی ہوئی دریا کے کنارے آئی اور ایک بڑا سا پتھر اٹھانے لگی۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرنے والی ہے۔میں نہ کچھ کہہ سکتی تھی، نہ کر سکتی تھی۔صرف بے بسی کے عالم میں اس ڈرامے کو دیکھ رہی تھی،جو بڑا ہی سنسنی خیز تھا۔
لالی نے پتھر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر سر سے اوپر اٹھا لیا تھا اور میرے سامنے سے ہوتی ہوئی ادھر جا رہی تھی جدھر سور اور شیر لڑ رہے تھے۔اب سور تھک چکا تھا اور گرد و غبار کا بادل بھی چھٹ گیا تھا۔وہ پتھر اٹھائے اٹھائے شیر اور سور کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی اور اس وقت خود ایک خوں خوار شیرنی نظر آرہی تھی اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری قوت سے پتھرشیرکے سر پر دے مارا۔شیر کی دھاڑ سے میرا کلیجہ دہل گیا۔
شیر دھاڑنے کے بعد کچھ دیر تڑپا اور پھر ٹھنڈا ہو گیا۔ سور بڑی مشکل سے شیرکے پنجے سے نکلا اور پھر لنگڑاتا ہوا جھاڑیوں میں چلا گیا۔
لالی ہاتھ جھاڑتی ہوئی میری طرف بڑھی۔ اب اس کے چہرے پر غصے کے بجائے معصومیت جھلک رہی تھی۔ وہی معصومیت اور بھول پن جو ایک تیرہ سال کی لڑکی کے چہرے پر ہوتا ہے۔وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور دھیرے سے بولی۔”تان والا آدم خور نے میرے ماں باپ کو کھالیا تھا۔ میں نے اسے مار ڈالا ہے۔اب میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔“
اور میں حیرت سے،منہ پھاڑے، اس معصوم لڑکی کو دیکھ رہی تھی جسے بہادری کا بڑے سے بڑا انعام بھی دیا جاتا تو بے جا نہ ہوتا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top