skip to Main Content

آنٹی مونیکا

مصنفہ: رُتھ پارک
مترجم: سعید لخت
۔۔۔۔۔

ہماری خالاؤں میں آنٹی مونیکا سب سے بڑی اور سب سے اچھی خالہ تھیں۔دبلا پتلا چھریرا بدن، چاندی کے سے بال اور گہری جھیل جیسی نیلی آنکھیں۔ خدا بخشے بڑی ہنس مکھ اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔جو ان سے ایک بار مل لیتا، بس انہی کا ہو جاتا۔
ویسے تو آنٹی کا سارا ناک نقشہ ہی خوب صورت تھا،لیکن ناک خاص کر بہت من موہنی تھی۔بد قسمتی سے یہ ناک کرسمس کی ایک شام زخمی ہوگئی اور اسی زخمی ناک نے اس کہانی کو جنم دیا جو میں آپ کو سنانے لگی ہوں۔
پچاس سال پہلے کا قصہ ہے۔ آنٹی مونیکا کرسمس کی شام کو تحفے تحائف خرید کر واپس آرہی تھیں کہ بس سے اترتے وقت اوندھے منھ سڑک پر گر پڑیں اور ان کی ننھی منی ناک زخمی ہوگئی۔نیک دل راہ گیر انہیں اٹھا کر ہسپتال لے گئے جہاں ناک پر دوا میں بھیگا ہوا پھاہا رکھ کر پٹی باندھ دی گئی۔اس کے بعد انہیں ٹیکسی میں بٹھا کر گھر پہنچا دیا گیا۔
گھر میں گھپ اندھیرا تھا۔ آنٹی مونیکا کی بہنیں بازار سے واپس نہیں آئی تھیں اور ان کی والدہ، یعنی میری نانی، گرجا گھر گئی ہوئی تھیں۔آنٹی مونیکا نے اپنے کمرے میں جا کر آئینے میں چہرہ دیکھا تو بہت گھبرا ئیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے،پوری ناک اور آدھا چہرہ پٹی میں لپٹا ہوا تھا، بکھرے ہوئے بال مٹی میں اٹے ہوئے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ناک سے ابھی تک خون رس رہا تھا جس سے ساری پٹی سرخ ہو گئی تھی۔ اس حالت میں وہ سچ مچ کی چڑیل لگ رہی تھیں۔
وہ گھبرا کر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئیں اور سوچنے لگیں کہ ماں اور بہنوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا تو ان کا کیا حال ہوگا۔ وہ یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ برابر والے کمرے میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔وہ سمجھیں کہ ماں گرجا گھر سے واپس آگئی ہیں۔ انہیں اور کچھ تو سوجھا نہیں، جھٹ کپڑوں کی الماری میں گھس گئیں اور دروازہ بند کرلیا۔
اب قدموں کی چاپ آنٹی مونیکا کے کمرے کے دروازے پر سنائی دے رہی تھی۔چند لمحوں بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔آنٹی نے الماری کی جھری سے آنکھ لگا کر جھانکا تو اوپر کی سانس اوپر نیچے کی نیچے رہ گئی۔دروازے میں ڈراؤنی شکل کا ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔وہ دبے پاؤں اندر آیا،احتیاط سے ادھر ادھر دیکھا،ٹارچ جلا کر اس کی روشنی سنگھار میز پر ڈالی اور پھر چند ہی لمحوں میں آنٹی کا پاؤڈر کا ڈبا،چاندی کے دستے والا بالوں کا برش، سونے کی چین والی گھڑی اور سونے کی چوڑیاں اس کی جیبوں نے ہڑپ کرلیں۔ اس کے بعد وہ جلدی سے مڑا اور بھد بھد کرتا ہوا کپڑوں کی الماری کی طرف آیا۔آنٹی مونیکا نے آنکھیں بند کرلیں، سانس روک لی اور تن کر کھڑی ہوگئیں۔
اسی وقت الماری کا دروازہ کھلا اور چور نے ٹارچ کی روشنی اندر ڈالی۔اب یہ اس کی بد قسمتی کہ روشنی سیدھی آنٹی مونیکا کے چہرے پر پڑی۔چور نے دل ہلا دینے والی چیخ ماری اور دھڑام سے فرش پر گر پڑا۔
عین اسی لمحے آنٹی مونیکا کی ماں، بہنیں اور ان کے بچے بھاگتے دوڑتے، قہقہے لگاتے مکان میں داخل ہوئے۔
کرسمس کی اس رات کا باقی حصہ پولیس کو فون کرنے، پولیس کے آنے، آنٹی مونیکا کا بیان لکھنے اور پولیس کے جانے کے بعد آنٹی کی کہانی سننے میں گزرگیا اور اس طرح وہ خوشیوں بھری رات غارت ہو گئی۔اُس غریب چور نے بھی اس سال کرسمس کا تہوار حوالات میں منایا، لیکن اسے یہ جان کر خوشی ہوگی کہ وہ اُس دن سے ہماری کرسمس کی تقریبات کا ایک حصہ بن گیا ہے۔اس واقعے کو پچاس سال گزر گئے ہیں لیکن ہم اب بھی ہر کرسمس کو اس کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرحوم بزرگوں کے ساتھ اس کے حق میں بھی دعائے خیر کرتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top