skip to Main Content

اندھیری رات میں

ترجمہ و تلخیص: ش کاظمی

……..

ہیتھرو ایئرپورٹ کے لاؤنج میں ایک آدمی بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے۔ اسے ہوائی اڈے پسند نہیں کیونکہ وہاں لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ویسے بھی ہوائی سفر کے دوران اسے گھبراہٹ آلیتی ہے۔ وہ بے صبری سے گھڑی پر نگاہ ڈالتا ہے۔ اتنے میں اسے برٹش ایئرویز کی طرف سے ایک اعلان سنائی دیتا ہے:
”ہماری پرواز نمبر بی ای ۰۵۷ استنبول روانہ ہونے کے لیے تیار ہے۔ مسافروں سے التماس ہے کہ وہ جہاز میں سوار ہونے کے لیے گیٹ نمبر ۶۱ کی طرف بڑھیں۔“
ٹام اسمتھ اپنا سوٹ کیس اٹھائے گیٹ نمبر ۶۱ کی طرف چل دیتا ہے۔ بیس منٹ بعد جہاز پروا ز کی تیاری کررہا ہے۔ وہ آہستگی سے حرکت کرتے ہوئے رن وے نمبر ۲ پر چلنے لگتا ہے۔ ٹام کھڑکی میں سے باہر کا منظر دیکھ رہا ہے۔
جہاز تیزی سے آگے کی طرف بڑھتا ہے اور رن وے پر دوڑتے ہوئے فضا میں بلند ہونے لگتا ہے۔ ٹام نیچے مکانات اور سڑکیں دیکھ کر مسکراتا اور سوچتا ہے کہ لندن پیچھے رہ گیا اور اب وہ استنبول کے سفر پر روانہ ہوچکا ہے۔
ٹام نے سیٹ پر آرام سے بیٹھے ہوئے جیب میں سے ایک خط نکالا:
”ریسٹ بے، اپارٹمنٹ نمبر ۳۔ کامرات سوکاک آئز پاسا، استنبول۔
میرے پیارے بھائی ٹام! خط لکھنے کا شکریہ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ تمہارے لیے یہاں میرے پاس آنا اور چھٹیاں گزارنا ممکن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم تعطیلات کے دن بہترین طور پر گزار سکیں گے۔
۴۱ اپریل سوموار کو جب تم یہاں پہنچو گے، میں کام میں مصروف ہوں گا، چنانچہ ایئرپورٹ پر تمہارا استقبال نہ کرسکوں گا۔ تم بذریعہ ٹیکسی ہوائی اڈے سے تسکیم اسکوائر چلے آنا۔ یہ جگہ جدید شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ اسکوائر کے پاس ایک معروف ہوٹل ہے جسے پارک ہوٹل کہتے ہیں۔ میں تمہیں وہاں پانچ بجے ملوں گا۔ ۴۱ اپریل کو تم سے ملاقات ہوگی۔“ رچرڈ ٹام نے خط کو تہہ کرکے اپنی جیب میں ڈال لیا۔
”کیا تم اس سے پہلے کبھی استنبول گئے ہو؟“ ٹام کو ایک آواز سنائی دی۔ یہ ایک نوجوان ہمسفر کی آواز تھی جو اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔
”نہیں۔“ ٹام نے کہا۔ پھر ذرا تو قف کے بعد پوچھا۔”تم نے استنبول دیکھا ہے؟“
ہمسفر مسکرا دیا اور بولا ”میرا تو گھر ہی استنبول میں ہے۔ میں ان دنوں لندن میں زیر تعلیم ہوں۔ چھٹیاں گزارنے گھر جا رہا ہوں۔“
”واقعی!“ٹام نے اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا۔ ”لندن میں کہاں تعلیم حاصل کررہے ہو؟“
”لندن یونیورسٹی میں۔“
دونوں گفتگو میں لگے رہے۔ اتنے میں ایئر ہوسٹس دوپہر کا کھانا تقسیم کرنے لگی۔ نوجوان نے ٹام کو اپنا نام کمال بتایا۔ اس کے والدین استنبول میں ایک دکان چلا رہے تھے۔ کمال نے پوچھا۔ ”کیا تم استنبول میں کسی سے ملنے جا رہے ہو؟“
ٹام نے کہا”اپنے بھائی سے…… وہ استنبول میں ملازمت کرتا ہے۔“
”خوب! کب سے ہے وہ استنبول میں؟“
”وہ استنبول دو سال قبل گیا تھا۔ ایک چھوٹی سی کمپنی میں کام کرتا ہے۔ یہ کمپنی عنقریب انگلستان میں برآمد کا کاروبار شروع کرنے والی ہے اور میرا بھائی اس سلسلے میں تمام انتظامات کررہا ہے۔“
”درآمد و برآمد کا کام بالعموم بہت کٹھن ہوتا ہے۔“ کمال نے خیال ظاہر کیا۔
”ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے۔“ ٹام نے جواباً کہا۔
استنبول میں اس نے کام تقریباًمکمل کر لیا ہے اور کمپنی انگلستان مال بھیجنے بھی لگی ہے۔ رچرڈ جلد ہی لندن واپس چلا جائے گا۔“
”یہ کمپنی کونسا مال برآمد کرتی ہے۔“ کمال نے پوچھا۔
”تقریباً تمام اقسام کا سازو سامان مثلاً پیتل کے زیورات، کافی دان، ٹرے، چمڑے کا سامان اور نرم پتھر سے تیار کردہ مختلف اشیا دراصل ایسی مصنوعات انگلستان میں اچھے داموں فروخت ہوسکتی ہیں۔“
”بہت خوب!“ کمال بولا۔ ”میرے والدین بھی استنبول میں اپنی دکان پر ایسی ہی مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔“
دونوں اسی قسم کی باتوں میں کھوئے رہے۔ طیارہ اٹلی اور یونان کے علاقوں پر سے گزرتا ہوا ترکی کی طرف رواں دواں تھا۔ جلد ہی وہ استنبول کے لیلکوئے ایئرپورٹ پر لینڈ کررہا تھا۔
جونہی جہاز رکا، کمال کھڑا ہو گیا اور ٹام سے مخاطب ہوا۔ ”امید ہے تم اپنے قیامِ استنبول کے دوران خوب لطف اندوز ہوگے۔ یہ میرا ٹیلی فون نمبر ہے، کسی بھی سلسلے میں کوئی ضرورت محسوس ہو تو مجھے یاد کر لینا۔ میں سسلے میں رہتا ہوں اور یہ مقام شہر کے مرکز سے دور نہیں۔“
”شکریہ کمال“ ٹام نے کہا۔ ”بہت بہت نوازش۔“
”تم سے مل کر بے حد خوشی ہوئی، خدا حافظ۔“

٭……٭

شہر جانے کے لیے ایک بس ایئرپورٹ کے باہر کھڑی تھی۔ ٹام اسی میں ایک کھڑکی کے نزدیک بیٹھ گیا۔ باقی مسافروں کے سوار ہوتے ہی بس استنبول شہر کی طرف روانہ ہو گئی۔
بڑی بڑی عمارتیں، قدیم فصیلیں، خوبصورت مساجد اور با رونق بازار پیچھے چھوڑتی ہوئی بس جونہی شہر کے مرکزی حصے کی طرف بڑھی، ایک ٹریفک سگنل کی وجہ سے اسے رکنا پڑا۔ ٹام نے دیکھا بس کے بائیں جانب، بلند عمارت کے سامنے ایک کار آکررکی اور جس میں سے تین آدمی باہر نکلے۔ ٹام اپنی سیٹ پر اچھل پڑا۔
اس نے بس کی کھڑکی کا شیشہ بجایا، لیکن عین اسی لمحے سگنل تبدیل ہو گیا اور بس ایک جھٹکے سے چل پڑی۔ ٹام بس کے عقبی حصے کی طرف بھاگا۔ رچرڈ دونوں آدمیوں کی معیت میں عمارت کے اندر داخل ہو رہا تھا۔
”رچرڈ ……“وہ چلایا، مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی اور بس کی رفتار میں تیزی آگئی تھی۔ سارے مسافر ٹام کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو احمق محسوس کرتے ہوئے اپنی سیٹ پر دبک گیا۔ اس نے سوچا کتنی عجیب بات ہے۔ شام کو ملاقات پر اسے بتاؤں گا کہ میں نے بس پر سفر کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔
بس، اب اتا ترک پل پر سے گزر رہی تھی۔ ٹام کو گولڈن ہارن کے مقام پر کشتیوں کا منظر بہت بھلا محسوس ہوا۔
پونے چار بجے بس شہر کے فضائی ٹرمینل پر پہنچی۔ وہاں لاتعداد ٹیکسی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ٹام نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کہا۔”پارک ہوٹل تسکیم اسکوائر۔“ اور اس کے اندر بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی۔
سوا چار بجے ٹیکسی اسکوائر پہنچ گئی۔ کرایہ ادا کرنے کے بعد ٹام ہوٹل میں داخل ہوا اور ٹیریس پر ایک میز کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ بیرا فوراً اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ ٹام نے ایک گلاس اورنج جوس آرڈر دے دیا۔
پچھلے پہر کی دھوپ پھیل رہی تھی اور ٹام دلچسپی کے ساتھ استنبول شہر کے مناظر دیکھ رہا تھا۔ سمندر کا دلفریب نظارہ بہت سے بحری جہاز، چھوٹے بڑے رنگا رنگ بجرے اور کشتیاں۔ یہ سب کچھ ٹام کے لیے بہت دلکش تھا۔ کچھ فاصلے پر قدیم استنبول کی مساجد اور محلات کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔
پانچ بجنے والے تھے۔ ٹام اٹھا اور داخلی دروازے کے پاس جا کھڑا ہوا۔ بہت سے لوگوں کی آمدو رفت جاری تھی، لیکن اسے رچرڈ کہیں دکھائی نہ دیا۔
ایک اور میز کے پاس بیٹھا آدمی سلیٹی رنگ کی برساتی پہنے ہوئے تھا۔ سامنے اخبار پڑا تھا۔ جس پر وہ کبھی کبھی نگاہ ڈال لیتا، اس کی تمام تر توجہ ٹام کی طرف تھی۔
بیس منٹ اوپر گزر چکے تھے اور ٹام سمٹتی ہوئی دھوپ میں بیٹھا رچرڈ کا انتظار کررہا تھا۔ ساڑھے پانچ……
پونے چھ…… اب روشنی بتدریج کم ہو رہی تھی۔ سطح سمندر پر اسے روشنیاں دکھائی دینے لگیں لیکن کوئی نہ آیاسلیٹی رنگ کی برساتی والا آدمی صبر کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا تھا۔
بیرا پھر ٹام کے نزدیک آکر پوچھنے لگا ”اور کچھ سر؟“
”نہیں …… بغیر دودھ کے ایک پیالی کافی…… کیا یہاں ٹیلی فون کی سہولت میسر ہے؟“
”جی ہاں …… اندر فون موجود ہے۔“
ہوٹل کے اندر جا کر ٹام نے رچرڈ کا نمبر ملایا۔ گھنٹی دیر تک بجتی رہی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے ریسیور کریڈل پہ رکھا اور استقبالیہ کاؤنٹر پر آکر کہنے لگا۔ ”معاف کیجئے، کامرا سوکاک کس جگہ واقع ہے؟“
”یہاں سے قریب ہی ہے…… باہر نکلتے ہی دائیں طرف مڑ جائیں اور سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں۔ چوتھے نمبر پر دائیں طرف ہی کامرات سوکاک ہے۔“
”شکریہ!“ ٹام نے کہا۔ ہوٹل میں واپس جا کر اس نے کافی ختم کی اور مشروبات کا بل ادا کیا۔ آٹھ بج چکے تھے۔ وہ اپنا سوٹ کیس اٹھا کر ہوٹل سے باہر آگیا۔سلیٹی برساتی والا آدمی پیچھے رہ کر اس کا تعاقب کررہا تھا۔
کامرات سوکاک ایک تنگ اور خاموش سی گلی تھی جس کے اطراف میں پرانے طرز کی رہائشی عمارات تھیں۔ ٹام، چلتے چلتے دروازوں پر لکھے ہوئے نمبر دیکھتا جا رہا تھا۔ ساری گلی میں صرف ایک ہی بتی تھی جس کی وجہ سے نمبر صاف نہ پڑھے جا رہے تھے۔ آخر کار اسے رچرڈ کا پتہ یعنی نمبر ۳ مل ہی گیا۔ عمارت کا بڑا سا داخلی دروازہ شیشے کا تھا۔ ٹام نے اسے دھکیل کر کھولنا چاہا مگر وہ مقفل تھا۔ کوئی گھنٹی بھی نہ لگی ہوئی تھی۔ اس نے دستک دی مگر بے فائدہ۔
”کیا مصیبت ہے!“ ٹام نے بے صبری سے کہا۔ اب وہ فکر مند تھا۔ اس نے گلی کے وسط میں کھڑے ہو کر اوپر کی جانب دیکھا۔ ساری عمارت میں کہیں روشنی دکھائی نہ دی۔ اس نے بے بسی کی حالت میں آسمان کی جانب دیکھا۔
کچھ فاصلے پر سلیٹی برساتی والا آدمی ایک تاریک دروازے میں کھڑا ٹام کی حرکات و سکنات کا مسلسل اور بغور جائزہ لے رہا تھا۔

٭……٭

ٹام شش و پنج میں تھا، کیا کرے۔ اس نے ایک بار پھر شیشے کے دروازے پر دستک دی، مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔ آخر کار اس نے سوٹ کیس ہاتھ میں لے لیا، عمارت پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور تسکیم اسکوائر کی طرف چل دیا۔
”ٹام اسمتھ!“ اس نے اپنے آپ کو مشورہ دیا۔ ”تمہیں فوری طور پر گرم غسل، گہری نیند اور آرام کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی فیصلہ کر پاؤ گے کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔“
کچھ دیر بعد وہ انقرہ ہوٹل کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے استقبالیہ پر متعین خاتون سے کہا۔ ”مجھے ایک سنگل کمرے کی ضرورت ہے۔“
خاتون نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”اوپر کی منزل میں ایک کمرہ خالی ہے۔ آئیے، آپ کو دکھا دوں۔“
سیڑھیاں چڑھ کر وہ اوپر گئے۔ یہ ایک چھوٹا مگر صاف ستھرا آرام دہ کمرہ تھا۔ ٹام نے اپنا پاسپورٹ خاتون کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔”ٹھیک ہے۔“
”غسل خانہ راہداری میں ہے اور ناشتہ آٹھ سے دس بجے تک دستیاب ہوتا ہے۔“ خاتون نے اسے مطلع کیا اور شب بخیر کہتے ہوئے واپس چلی گئی۔
ٹام بے حد تھکن محسوس کررہا تھا۔ وہ ایک سستے سے ہوٹل میں بالکل تنہا بیٹھا تھا۔ دیر تک بستر پر بیٹھا سوچتا رہا۔
”بہرحال صبح میں رچرڈ کے دفتر جا کر معلوم کروں گا کہ آخر ماجرا کیا تھا؟ کوئی وجہ نہیں کہ کل اسے ڈھونڈ نہ پاؤں۔“ اس نے زیر لب کہا اور وہ جلد ہی گہری نیند کے مزے لے رہا تھا۔
سلیٹی رنگ کی برساتی والے شخص نے تسکیم اسکوائر میں پبلک ٹیلی فون پر ایک نمبر گھمایا اور کچھ دیر بعد کسی سے کہنے لگا ”وہ انقرہ ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔ اس نے پارک ہوٹل میں طویل انتظار کیا اور اب انقرہ ہوٹل میں ہے۔ ہاں ہاں یونہی ہوگا۔“

٭……٭

اگلی صبح ٹام اپنے آپ کو بہتر محسوس کررہا تھا۔ ناشتے کے بعد اس نے ٹیکسی پکڑی اور رچرڈ کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔ ٹیکسی معروف سڑکوں پر سے گزرتی ہوئی غلط پل عبور کرنے کے بعد قدیم شہر میں داخل ہوئی۔پھر وہ ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ایک سڑک پر مڑ گئی جس کے اطراف میں دکانیں، ورک شاپس اور دیگر چھوٹے چھوٹے کاروباری ادارے تھے۔ ایک سرمئی عمارت کے سامنے ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ دروازے پر ایک بورڈ آویزاں تھا۔
”ایف کرامیئن اینڈ کمپنی، ایکسپورٹ امپورٹ ایجنسی“۔ ٹام اندر داخل ہوا۔ دفتر استقبالیہ میں ایک لڑکی کچھ ٹائپ کرنے میں مشغول تھی۔ اس نے ٹام کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے صبح بخیر کہا۔
ٹام بولا ”میر انام ٹام اسمتھ ہے۔ مجھے رچرڈ اسمتھ سے ملنا ہے۔ میرا بھائی ہے۔ میں کل استنبول پہنچا تھا۔ بے حد انتظار کے باوجود وہ پارک ہوٹل نہیں آسکا……“
لڑکی بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی:
”مہربانی فرما کر ایک منٹ انتظار کیجئے۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے دفتر کے اندر چلی گئی۔ اندر وہ کسی سے باتیں کررہی تھی اور ناقابل فہم آوازیں ٹام کو سنائی دے رہی تھیں۔ پھر دروازہ کھلا اور ایک آدمی باہر نکلا۔ وہ بہت سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ کہنے لگا: ”مسٹر اسمتھ! میرا نام ابراہیم وینا ہے۔براہِ کرم اندر آجائیے۔“

٭……٭

ٹام دفتر میں داخل ہوا۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے تو ابراہیم وینا کہنے لگا: ”دیکھیے …… میں نہیں جانتا آپ سے کیا کہوں۔ میرے پاس آپ کے لیے بہت بری خبر ہے۔ مجھے افسوس ہے اب رچرڈ اسمتھ اس دنیا میں نہیں۔“
یہ سنتے ہی ٹام کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کی روح کھینچ لی ہو۔
”یہ سب کچھ کیسے ہوا؟“ اس نے سوال کیا۔
”یہ کار کا حادثہ تھا۔ مسٹر اسمتھ ایک پرخطر شاہراہ پر سفر کررہے تھے۔ کوئی نہیں جانتا کیا ہوا۔ غالباً کار بے قابو ہو کر پہاڑی سے نیچے گہرائی میں جا گری۔“
”کل شام؟“ ٹام نے حیرت سے پوچھا۔
”میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟“
”کیا یہ حادثہ کل شام وقوع پذیر ہوا؟“
وینا،ٹام کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ”مسٹر اسمتھ حادثہ ایک ہفتہ پہلے ہوا تھا۔“
”لیکن یہ ناممکن ہے۔“ ٹام نے پہلو بدلتے ہوئے بے چینی سے کہا۔ ”میں نے خود کل رچرڈ کو دیکھا تھا۔“
”کل؟“ وینا چونکا۔
”یقینا! ہوائی اڈے سے آتے ہوئے میں نے بس کی کھڑی میں سے اسے دیکھا۔وہ سڑک پر تھا۔“
”مجھے بے حد افسوس ہے، مسٹر اسمتھ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی۔“
”ہر گز نہیں۔ آپ یقین کریں، میں نے……“
”مسٹر اسمتھ!“وینا نے قطع کلامی کرتے ہوئے تحمل سے کہا۔”استنبول ایک وسیع شہر ہے۔ یہاں سینکڑوں چہرے ایسے ہوں گے جن کی شباہت آپ کے بھائی جیسی ہوسکتی ہے۔“
ٹام خاموش رہا، وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ وینا نے بات جاری رکھی۔”برطانوی قونصل خانے کا عملہ بے حد معاون ثابت ہوا۔ انہی نے تجہیز و تکفین کے انتظامات مکمل کیے۔ یہ سب کچھ بدھ کے روز ہوا۔“
ٹام نے پوچھا ”مگر اس حادثے کی خبر تو ہم گھر والوں کو نہیں کی گئی۔“
”مجھے افسوس ہے، یہ مسئلہ فی الحال باقی ہے۔“ وینا نے جواب دیا۔
کچھ لمحوں کے لیے خاموشی چھائی رہی۔ ٹام نے معاملات سمجھنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہوئے آخرکار بجھے لہجے میں کہا۔ ”میرا خیال ہے میں نے اسے کل دیکھا تھا مگر……“
”میں آپ کے جذبات سے بخوبی واقف ہوں، مسٹر اسمتھ! واقعی یہ بہت بڑا صدمہ ہے۔“
تھوڑے سے توقف کے بعد وینا نے کہا۔ ”مسٹر اسمتھ اب میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟“
”فی الحال میں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں۔“ ٹام نے بے دلی سے جواب دیا۔ ”مجھے کچھ سوچنے کے لیے وقت چاہیے۔“
”آپ استنبول میں کسی کو جانتے ہیں؟“
اچانک ٹام کو کمال کا خیال آگیا، چنانچہ اس نے جواب دیا: ”ہاں! میرے کچھ دوست ہیں یہاں …… میرا ارادہ ہے ایک دو روز استنبول میں قیام کروں۔ میں برطانوی قونصل خانے بھی جانا چاہتا ہوں اور ممکن ہے پولیس والوں سے ملنے کی بھی ضرورت پیش آئے۔“
مسٹر وینا نے میز کی دراز میں سے ایک کارڈ نکالا۔ اس پر کچھ تحریر کیا اور ٹام کو دیتے ہوئے کہا۔ میں نے سر پینگٹن کا ٹیلی فون نمبر لکھ دیا ہے، یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے تجہیز و تکفین کے انتظامات کیے تھے۔ دوسرا نمبر میرے دفتر کا ہے۔ کسی وقت میرے تعاون کی ضرورت محسوس ہو تو بلاجھجک مجھ سے رابطہ قائم کریں۔ میں دن بھر یہیں رہتا ہوں۔“
ٹام اٹھ کھڑا ہوا۔ وینا دروازے تک اس کے ساتھ آیا۔ اس سے رخصتی مصافحہ کرکے ٹام سڑک پر آگیا۔ وینا دفتر میں جا بیٹھا۔ اس نے احتیاط سے دروازہ بند کیا اور نشست پر بیٹھ کر چند لمحوں کے لیے سوچوں میں گم رہا۔ پھر وہ فون کا ڈائل گھمانے لگا۔

٭……٭

ٹام استنبول کی پرہجوم سڑکوں پر بے مقصد چلتا رہا۔ سڑکیں بہت مصروف تھیں اور دکانوں اور قہوہ خانوں میں بے حد بھیڑ تھی لیکن ٹام کسی چیز میں دلچسپی نہ لے رہا تھا۔ اب وہ سیاح نہ تھا۔ اسے رہ رہ کر ایئرپورٹ سے آتے ہوئے بس کے سفرکا خیال آرہا تھا۔ اسے رچرڈ کو دیکھنے کا پورا یقین تھا۔ وہ کار سے اترا تھا۔
وہ شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں چلتا رہا، بغیر جانے کہ وہ کہاں ہے اور کتنا وقت گزر چکا ہے۔ آخر کار سمندر کے نزدیک وہ ایک فٹ پاتھ پر دم لینے رکا۔
اس نے جیب سے کمال کا ٹیلی فون نمبر نکالا اور ایک کیفے میں سے فون کیا:”ہیلو! میں ٹام بول رہا ہوں …… ہاں، ہاں …… ٹھیک ہوں، لیکن ایک واردات ہوگئی ہے۔ تم نے کہا تھا اگر ضرورت پڑے تو میں تمہیں تکلیف دے سکتا ہوں۔ کیا ہم کسی جگہ مل سکتے ہیں؟“
کچھ دیر بعد ٹام کمال کے سامنے امریکن ہوٹل میں بیٹھا تھا۔ اس کی ساری بات سن کر کمال نے کہا ”تو تمہارا خیال ہے کہ تم نے رچرڈ کو یقینا دیکھا ہے۔“
ٹام نے جواب دینے سے پہلے ایک لمحے کے لیے سوچا اور آہستگی سے کہا: ”ہاں …… ممکن ہے تم اسے میرا وہم تصور کرو لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ میں نے رچرڈ ہی کو دیکھا تھا۔ کل کا منظر میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکتا۔ آنکھیں بند کرکے میں اس وقت بھی رچرڈ کو سڑک پر چلتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں۔ یہ منظر میرے لیے ناقابل فراموش ہے۔“
”سنو!“ کمال نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ”اگرچہ ہماری ملاقات کی عمر صرف ایک دن ہے، تاہم ہم دوست بن چکے ہیں۔ تم یہاں میرے ملک میں ہو اور دوست ہو۔ میری مدد کی تمہیں ضرورت ہے۔ اگر تمہارا خیال ہے کہ تم نے رچرڈ کو دیکھا ہے تو میرے لیے یہی کافی ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔“
ٹام نے خیال ظاہر کیا:”فوری طور پر دو اقدام کرنے ہوں گے۔ اولاً میں اس مقام پر جانا چاہتا ہوں جہاں میں نے رچرڈ کو دیکھا تھا اور ثانیاً برٹش قونصل خانے سے میں نے دوپہر کے بعد کا وقت لے رکھا ہے۔“
کمال نے پوچھا:”تمہیں وہ سڑک معلوم ہے، کون سی تھی؟“
ٹام نے جواب دیا: ”یہ کوئی مشکل عمل نہ ہوگا۔ ہم اسی راستے پر چلیں گے جس پر ایئرپورٹ کی بس چل رہی تھی۔ مجھے یقین ہے میں وہ جگہ باآسانی پہچان لوں گا۔“
”تمہارے خیال میں ہمیں وہاں سے کیا مدد مل سکتی ہے؟“
”یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر ہم اس عمارت کا تو پتہ لگا ہی سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کچھ مزید معلومات حاصل ہوجائیں۔“
کمال نے اس کی تائید کی اور تھوڑی دیر بعد کار میں بیٹھے ہوئے وہ دونوں مختلف سڑکوں پر سے گزر رہے تھے۔ٹام نے کمال کو بتایا کہ وہ ایک چوڑی شاہراہ تھی اور بس جس وقت سگنل کے گول چوک میں پہنچی تھی تو اس نے بائیں جانب ایک پل دیکھا تھا اور پھر آدھے گھنٹے کی تلاش کے بعد وہ ٹام کی بتائی ہوئی جگہ پہنچ گئے۔ کمال نے گاڑی روک دی اور کہا ”تم یہاں اتر جاؤ۔ میں کار پارک کر آؤں۔“
ٹام نے اتر کر اپنے اردگرد نگاہ دوڑائی۔ سڑک کے دونوں طرف دکانیں اور دفاتر تھے۔ وہاں ایک بک سٹال تھا اور ایک سفری ایجنسی۔ اسے یہ سب کچھ گزشتہ روز سے ازبر تھا۔ کمال واپس آیا تو ٹام نے سڑک پار ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”میرے خیال میں یہی وہ عمارت ہے۔“
انہوں نے عمارت پر آویزاں بورڈ پڑھے۔ کئی نام تحریر تھے۔ ایک وکیل، ایک دندان ساز، ایک ڈاکٹر، اور کئی دوسرے دفاتر۔ آخر کار ٹام بولا ”خیر، یہ تو مجھے یقین ہے، وہ اسی عمارت میں داخل ہوا تھا۔ لیکن کونسے دفتر میں گیا یہ معلوم نہیں۔ اسے کسی وکیل کا مشورہ درکار تھا یا اسے دندان ساز یا ڈاکٹر سے طبی امداد مطلوب تھی، یہ معلوم کرنے کے لیے ہمارا اقدام کیا ہونا چاہیے؟“
کمال نے ٹام کا بازو تھاما اور دوبارہ کار کی طرف چلتے ہوئے بولا ”سنو ٹام! تم بہت تیز جا رہے ہو۔ تم فوری طور پر ہر بات معلوم نہیں کرسکتے۔ جب تک تم قونصل خانے کے حکام سے نہیں مل لیتے، صبر سے کام لو۔ اس کے بعد مزید غور کیا جا سکتا ہے۔“

٭……٭

ظہرانے کے بعد کمال، ٹام کو برطانوی قونصل خانے لے گیا۔ گیٹ پر گاڑی روکتے ہوئے اس نے کہا:”تمہارا نصیب یاوری کرے، دوست! میں یہیں تمہارا انتظار کروں گا۔“
قونصل خانہ قدیم طرز کی ایک عمارت تھی جس کے اطراف میں انتہائی خوبصورت باغیچے تھے۔ اندر جا کر ٹام نے استقبالیہ کلرک سے کہا ”میں مسٹر پینگٹن سے ملنا چاہتا ہوں۔ میرا نام ٹام اسمتھ ہے۔ وقت ملاقات پہلے سے مقرر ہے۔“
چند لمحوں بعد ایک طویل القامت آدمی چشمہ لگائے باہر آیا ”میرا نام پینگٹن ہے۔“ اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ”وینا نے مجھے آپ کے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔“
وہ خوبصورت سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد دفتر میں پہنچ گئے۔ پینگٹن نے کہا ”تشریف رکھیے۔میں آپ کے بھائی کے بارے میں بے حد متاسف ہوں۔ یہ ایک المناک حادثہ تھا۔ میری تمام تر ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔“ پھروہ میری طرف ہمدردی سے دیکھ کر کہنے لگا۔”حادثے کے متعلق ان رپورٹوں میں سے ایک ہماری مرتب کردہ ہے اور دوسری پولیس کی۔ آپ چاہیں تو میں ان کی نقول مہیا کر سکتا ہوں۔“
ٹام نے فکرمندی کے لہجے میں کہا ”مسٹر پینگٹن! میں نے کل رچرڈ کو دیکھا تھا۔“
پینگٹن نے حیرت سے ٹام کی طرف دیکھا۔ کمرے میں کامل خاموشی چھا گئی۔ خاصے توقف کے بعد پینگٹن بولا”میرے خیال میں آپ حالات سے بخوبی واقف نہیں، مسٹر اسمتھ! آپ کا بھائی……“
”مجھے علم ہے۔“ ٹام نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ایک حادثے میں رچرڈ گزشتہ ہفتے ہلاک ہو گیا اور بدھ کو اس کی تجہیز و تکفین ہوئی ہے۔وینا نے آج صبح مجھے سب کچھ بتا دیا تھا مگر میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ میں نے کل رچرڈ کو دیکھا تھا۔“
”میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ پہلے آپ یہ رپورٹیں غور سے پڑھ لیں۔ ا س کے بعد شاید آپ کسی بھی سوال کی ضرورت محسوس نہ کریں۔“ پھر اس نے دونوں فائلیں ٹام کو دیتے ہوئے پوچھا:”کچھ پینا پسند کریں گے آپ؟“
”ایک پیالی چائے مناسب رہے گی۔“
پینگٹن چند منٹ بعد چائے لیے واپس آگیا۔ کمرے میں پھر خاموشی مسلط تھی اور ٹام رپورٹوں کے مطالعے میں کھویا ہوا تھا۔ پھر نگاہیں اوپر اٹھا کر اس نے سوال کیا۔ ”حادثے کے بعد لاش کی شناخت کیسے ہوئی؟“

پینگٹن نے تسلیم کیا کہ یہ ایک مشکل امر تھا۔وہ بولا ”آپ جانتے ہیں کہ حادثہ ایک پرخطر شاہراہ پر واقع ہوا، یہاں سے تقریباً دو سو کلومیٹر دور۔ آپ کے بھائی کی گاڑی ایک دیوار سے ٹکرائی اور پہاڑی سے نیچے جاگری۔ کار آگ لگ جانے سے خاکستر ہوگئی۔ لاش بری طرح مسخ ہوچکی تھی۔ چنانچہ شناخت ناممکن تھی۔ تاہم پولیس کو تمہارے بھائی کا بٹوہ مل گیا جس میں اس کا پاسپورٹ اور کچھ دیگر دستاویزات تھیں۔ ان کی مدد سے پولیس نے معلوم کر لیا کہ ایک کمپنی سے کار کرائے پر لی گئی تھی اور اسے مسٹر رچرڈ اسمتھ نے چھٹی گزارنے کے لیے حاصل کیا تھا۔“
”آخر وہ اس خطرناک شاہراہ پر کیا کررہے تھے۔“
”اس نے ہفتہ وار تعطیل برصہ جا کر منائی جو ایک بہت دلفریب مقام ہے۔ واپسی پر یہ حادثہ ہو گیا۔“
ٹام کچھ سوچ کر بولا ”اور پولیس والے پوری طرح مطمئن ہیں؟“
”یقینا“پینگٹن نے جواب دیا:”انہیں یقین کامل ہے۔“
”اور آپ لوگ؟“
”ہمیں اپنے طور پر مکمل اطمینان ہے۔ برطانوی باشندوں کا ترکی میں قیام کے دوران تحفظ ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ ہم نے معاملے کا پوری طرح جائزہ لیا ہے اور ہمیں تسلی ہے کہ یہ ایک حادثہ ہی تھا۔“
ٹام خاموش ہو گیا۔ پینگٹن نے اس کی حوصلہ افزائی کے لیے مزید کہا۔ ”میں آپ کے جذبات اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ آپ کو فی الحقیقت انتہائی اندوہناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ استنبول چھوڑ دیں۔ یہاں آپ کے کرنے کے لیے اب کچھ باقی نہیں۔“
”میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔“ ٹام نے کہا ”مجھے اب گھر چلے جانا چاہیے۔“
”آپ کا اس وقت قیام کس جگہ ہے؟“
”انقرہ ہوٹل…… تسکیم اسکوائر کے نزدیک۔“
”کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہوئی آپ کو؟ کوئی واقف کار ہے یہاں؟“
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہاں میرا ایک دوست موجود ہے۔“
ٹام رخصت ہو کر باہر آگیا۔ جہاں کمال اس کا منتظر کھڑا تھا۔ اس نے فوراً ہی پوچھا۔”کیا کہتے ہیں یہ لوگ؟“
ٹام نے کار میں بیٹھتے ہوئے کہا۔”یہی کہ یہ ایک حادثہ تھا۔ رچرڈ ہلاک ہو چکا ہے۔ فائل بند کی جا چکی ہے۔“
کمال نے گاڑی اسٹارٹ کی اور دونوں قونصل خانے سے چلے آئے۔
راستے میں ٹام نے اسے بتایا:”مسٹر پینگٹن نے مجھے لندن واپس چلے جانے کا مشورہ دیا ہے۔ سوچتا ہوں ان کا یہ خیال درست ہی ہوگا۔“ کمال نے کوئی جواب نہ دیا۔ٹام نے بات جاری رکھی۔”پولیس والوں اور قونصل حکام دونوں کی رائے یہ ہے رچرڈ زندہ نہیں۔ واحد شخص میں ہوں۔ جسے رچرڈ کے زندہ ہونے کا یقین ہے، چنانچہ نہیں معلوم کیا کروں۔ یہاں مقیم رہوں یا لندن لوٹ جاؤں۔ میں کچھ فیصلہ نہیں کر پا رہا۔“
”تم استنبول میں کب سے مقیم ہو؟“ کمال نے پوچھا۔
”بہت کم عرصے سے۔“
”تمہارے یہاں قیام کی مدت چوبیس گھنٹوں سے بھی کم ہے۔ اس مختصر سے وقت میں تم پر کیا بیتی؟ تم ایک زبردست صدمے سے دوچار ہو۔ تمہارا بھائی ہلاک ہو چکا ہے لیکن تمہیں یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اب تم اس خلفشار کا شکار ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔“
”درست!“ ٹام نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں بتاتا ہوں۔ میرے ہمراہ تم طوپ قائی محل چلو گے جہاں ہم خوبصورت باغات کی سیر کریں گے اور ہر پہلو سے حالات کا جائزہ لیں گے۔ اس کے بعد اگلے اقدام کے بارے میں سوچا جائے گا۔“
ٹام کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم نمودار ہوا۔”تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ یہ ایک بہت بھاری دن تھا۔“
چند منٹ بعد وہ سانتا صوفیہ کے پاس آپہنچے جو استنبول کی ایک خوبصورت اور قدیم ترین عمارت ہے۔ کبھی یہ گرجا تھی، پھر مسجد میں تبدیل ہو گئی۔ ایک وسیع پارک میں گاڑی چھوڑنے کے بعد وہ محل کے ایک چوڑے راستے پر چل رہے تھے۔ کمال نے غیر ارادی طور پر اردگرد نظر دوڑائی اور ٹام کو بازور سے تھام کر تیزی سے چلنے لگا۔ ٹام نے اس کے چہرے پر ایک عجیب تاثر دیکھ کر پوچھا۔”کیا کوئی گڑ بڑ ہے؟“

٭……٭

ٹیکسی سے اتر کر ٹام اپنے ہوٹل کی جانب چلنے لگا، وہ اس وقت گھبراہٹ کا شکار تھا، کوئی اس کی نگرانی کررہا تھا، کیا کوئی شخص اس کے ہوٹل پر نگاہ رکھے ہوئے تھا۔
وہ جلدی سے ہوٹل کے اندر چلاگیا، اس نے استقبالیہ سے اپنے کمرے کی چابی وصول کی اور کمرے میں داخل ہو کر اندر سے دروازہ کو تالا لگا دیا، جوتے اتارے اور بستر پر گرگیا، تھکن اور گھبراہٹ نے اس کے اعصاب پر گہرا اثر کیا تھا، دیر تک وہ سڑک پر سے گزرنے والے ٹریفک کا شور و غل سنتا رہا پھر اچانک فون کی گھنٹی بجی، وہ بستر سے اچھل پڑا، اس نے سوچا کمال ہوگا، ریسیور اٹھا کر پوچھا:”کون؟“
”مسٹر اسمتھ“۔ یہ ایک نوجوان لڑکے کی آواز تھی۔
”جی ہاں“۔ ٹام نے کہا۔ ”آپ کون ہیں؟“ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
”آپ مجھ سے واقف نہیں، مگر میں رچرڈ کا دوست ہوں، مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں کہنا ہیں، کیا ہم کسی جگہ ملاقات کرسکتے ہیں؟“۔
”مگر آپ ہیں کون“۔
”میرا نام نجم الدین ہے، ہم کس جگہ مل سکتے ہیں؟“
”ٹھیک ہے۔“ ٹام نے کہا۔ ”آپ پارک ہوٹل پہنچ جائیں۔
پارک ہوٹل کے ریستوران میں اس وقت لوگوں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔
ٹام ایک میز کے پاس بیٹھ گیا، وہاں سے ہر آنے جانے والے پر بخوبی نگاہ رکھی جاسکتی تھی، وہ سوچ رہا تھا کہ یہ نجم الدین کون ہوسکتا ہے اور کیا چاہتا ہے۔
چند منٹ بعد ایک دبلا پتلا لڑکا داخل ہوا، اس کے بال سیاہ تھے، اس نے جینز پہن رکھی تھی۔
”ہیلو میرا نام نجم الدین ہے“۔
”میں ٹام ہوں، پلیز بیٹھ جائیں“۔
بیرا وہاں پہنچ گیا۔ ٹام نے پوچھا۔ ”کچھ پینا پسند کریں گے؟“ وہ بولا۔ کافی…… فقط“۔
بیرا چلاگیا تو نجم نے کہا:”تو آپ ہیں ٹام، آپ میں اور اس تصویر میں فرق نہیں جو رچرڈ نے مجھے دکھائی تھی۔“
”مگر آپ کو میری آمد کی اطلاع کیسے ہوئی“۔
”میں آج برطانوی قونصل خانے گیا تھا، میں نے مسٹر پیننگٹن سے گفتگو کی، انہوں نے مجھے آپ کے متعلق بتایا۔ مجھے ویسے بھی آپ کی آمد کے بارے میں خبر تھی، میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ پھر اس نے محتاط نظروں سے اردگرد کا جائزہ لیا اور کہنے لگا، یہاں صورتحال کچھ عجیب و غریب رہی ہے، آپ کو رچرڈ کے بارے میں کیا کچھ معلوم ہوا ہے؟“۔
”بس اتنا، جتنا قونصل خانے والوں نے بتایا“۔ یہ کہہ کر ٹام نے مسٹر پیننگٹن سے ہونے والی بات چیت دہرادی۔
”آپ اس سے مطمئن ہیں؟“
ٹام نے سوالیہ نگاہوں سے نجم کی طرف دیکھا: ”آپ کاکیا خیال ہے؟“
”میں ابتداء سے بات شروع کروں گا۔ رچرڈ جب استبول آیا، میری اس سے ملاقات، اس کی آمد کے کچھ عرصے بعد ایک تقریب میں اتفاقیہ طور پر ہوئی، ہم دونوں اچھے دوست بن گئے۔ شروع شروع میں وہ خوش باش دکھائی دیتا رہا اور اپنے کام سے مطمئن تھا، وہ اپنے باس کے لیے کام کرکے بہت خوش تھا۔
”آپ کا مطلب مسٹر ووینا سے ہے؟“۔
”جی ہاں، سارا کام ٹھیک چل رہا تھا، میں اس سے اکثر ملتا رہتا۔ بالعموم دوپہر کا کھانا ہم ایک ہی جگہ کھاتے، سیر و تفریح میں بھی دونوں اکٹھے رہتے، دو ہفتے پہلے کسی وجہ سے رچرڈ متفکر سا رہنے لگا، اس پریشانی کا تعلق اس کے کام سے تھا، میں نے وجہ پوچھنے کی کوشش کی، مگر اس نے لب کشائی کرنا پسند نہ کیا، ایک روز لنچ کے لیے ہم ریستوران میں بیٹھے تھے کہ اچانک وینا وہاں پہنچ گیا۔ جونہی اس پر رچرڈ کی نظر پڑی وہ گھبرا گیا، مجھے لگتا ہے وہ اس سے خائف تھا، اس نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ اس کی پریشانی کا سبب کیا تھا…… اس کی ملازمت، اس کا باس یا کوئی اور چیز، اس معاملے میں اس نے کامل خاموشی اختیار کیے رکھی، پھر اچانک وہ حادثے کا شکار ہوگیا۔
ٹام اسمتھ میز پر جھک کر کچھ سوچنے لگا اور پھر بولا:”کیا تم یہ سننا پسند کرو گے کہ کل جب میں استنبول کے ہوائی اڈے سے شہر کی جانب آرہا تھا، راستے میں رچرڈ مجھے دکھائی دیا تھا۔“
”کہاں؟“ نجم نے حیرت اور مسرت کے ملے جلے لہجے میں پوچھا۔
”میں فضائی کمپنی کی بس میں سوار تھا، ہم اس وقت اکسرے اسٹریٹ سے گزر رہے تھے، رچرڈ دو آدمیوں کے ہمراہ ایک عمارت میں داخل ہورہا تھا۔“
”میں کچھ نہیں سمجھا“۔
”مجھے بھی زیادہ علم نہیں، اس عمارت میں کئی دفاتر ہیں، میں آج ادھر گیا تھا، وہاں ایک دندان ساز، ایک ڈاکٹر……“
”ڈاکٹر“۔ نجم نے فوراً قطع کلامی کی۔ ”یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں“۔
”کیا……؟“
”رچرڈ دو ہفتوں سے وائرس کی تکلیف میں مبتلا تھا،حملہ شدید تھا، وہ کسی ڈاکٹر کی دوا استعمال کررہا تھا۔ اسے اور دوا کی ضرورت ہوگی، اس لیے وہ ڈاکٹر ہی کے پاس گیا ہوگا۔“
”اگر وہ دوا لینے ہی گیا تھا تو ممکن ہے ڈاکٹر سے کچھ معلومات حاصل ہوسکیں“۔
”مسٹر اسمتھ! بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے“۔ نجم نے مشورہ دیا۔
”کچھ نہ کچھ حیرت انگیز بات ضرور ہے، سوالات پوچھنا آپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے“۔
”ٹھیک ہے…… اب مجھے اور بھی یقین ہوگیا ہے کہ میرا بھائی زندہ ہے اور یہیں کہیں، اسی شہر میں موجود ہے اور مشکل میں گرفتار ہے، پولیس اور قونصل خانے والوں کی نظروں میں وہ اس دنیا میں نہیں لیکن میں یہاں اس وقت تک موجود رہوں گا جب تک اسے دریافت نہ کرلوں“۔

٭……٭

شام کے وقت ٹام نے کمال کو فون کرکے نجم سے اپنی ملاقات کے متعلق آگاہ کیا۔ کمال تمام تفصیلات انہماک سے سنتا رہا۔ ٹام نے بات ختم کی تو اس نے کہا: ”میرا خیال ہے میں واقعات کی تہہ تک پہنچ گیا ہوں، رچرڈ ووینا کے لیے کام کررہا تھا، پھر وہ پریشان رہنے لگا، کام سے متعلق کسی بنا پر…… اور پھر حادثہ ہوگیا“۔
”درست……“
”لیکن یہ کوئی حادثہ نہیں تھا، میں سمجھتا ہوں، تمہارابھائی یہیں کہیں استنبول میں ہے اور اسے ووینا نے محصور کررکھا ہے۔“
”کیا ایسا ہوسکتا ہے؟“
”میرا تو یہی خیال ہے۔ غالباً کسی کاروباری بھید کے سبب اسے قید کیا گیا ہے“۔
”لیکن مجھے یقین نہیں آرہا“۔
”سنو“۔ کمال نے اپنی بات جاری رکھی۔ طوپ قاپی محل میں ہمارا تعاقب کرنے والے اس آدمی کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ووینا اور اس کے آدمی اس وقت سے تمہاری نگرانی کررہے ہیں جب سے تم استنبول میں وارد ہوئے، انہیں تمہارے ہوٹل میں قیام کا علم ہے، انہیں معلوم ہے تم قونصل خانے بھی گئے تھے، وہ تمہاری ایک ایک حرکت سے بخوبی واقف ہیں“۔
”اوہ خدایا“ ٹام نے کہا۔ ”کمال! میرا خیال ہے تم درست کہتے ہو۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“
”میں بتاتا ہوں۔“ کمال نے جواب دیا۔”دراصل وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تمہارا آئندہ اقدام کیا ہوگا۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ تم استنبول فوراً چھوڑ دو…… اور سنو“۔

٭……٭

اگلی صبح ٹام نے اپنے ہوٹل کا حساب چکایا اور ٹیکسی لے کرفوراً ووینا کے دفتر پہنچا۔ اطلاع ملنے پر مسٹر ووینا خود ہی باہر آگئے اور اسے دیکھتے ہی کھل اٹھے۔
”صبح بخیر‘ مسٹر ووینا، میں آپ کو الوداع کہنے آیا ہوں“
”صبح بخیر…… کیا جلد چلے جاؤ گے؟“
”ہاں میں کل برطانوی قونصل خانے گیا تھا وہاں مسٹر پیننگٹن سے بات ہوئی، معلوم ہوتا ہے یہاں میرے کرنے کے لیے اب کچھ باقی نہیں۔ میں لندن واپس جارہا ہوں، آپ کے تعاون کا شکریہ“۔
”مسٹر اسمتھ! میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے تمہارے بھائی کا بے حد افسوس ہے اور تمہارا استنبول آنا تمہارے لیے اچھا ثابت نہ ہوا“۔
”شکریہ! میرا جہاز دوپہر کو روانہ ہورہا ہے۔ خدا حافظ“۔
”خدا حافظ مسٹر اسمتھ! سفر بخیر انجام ہو“۔ ووینا نے رخصتی مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
ٹام دفتر سے باہر آیا تو ٹیکس ڈرائیور اس کے انتظار میں تھا، ٹام اگلی نشست پر بیٹھ گیا اور گاڑی ہوائی اڈے جانے والی سڑک پر دوڑنے لگی۔
ایک اور کار جو تقریباً بیس میٹر پر کھڑی تھی، چند لمحہ بعد حرکت میں آئی اور ٹیکسی کے تعاقب میں روانہ ہوگئی۔

٭……٭

ہوائی اڈے پہنچ کر ٹام برٹش ائیر ویز کے کاؤنٹر پر گیا۔ اس نے لندن کی پرواز کے بارے میں دریافت کیا۔ اخبار خریدا اور انتظار کے انداز میں پڑھنے بیٹھ گیا۔ وقفے وقفے سے اس کی نگاہیں مصروف ائیر پورٹ کا جائزہ بھی لے رہی تھیں، اسے خیال آیا کہ اتنے سارے لوگوں میں کوئی ایسا آدمی بھی موجود ہوگا جو اس کی نگرانی پر مامور ہے، اتنے میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا۔“ برٹش ائیرویز کی پرواز نمبر TK979لندن جانے کے لیے تیار ہے۔ مسافروں سے التماس ہے کہ وہ سوار ہونے کے لیے گیٹ نمبر 6 کی طرف روانہ ہوں۔“
ٹام نے اپنی چیزیں سمیٹیں اور پاسپورٹ کنٹرول کی طرف چل دیا۔ وہاں لوگوں کا جم غفیر تھا، ٹام ان میں شامل ہوگیا اور ایک لحیم شحیم آدمی تک پہنچا جس کے عزیز و اقارب اسے الوداع کہہ رہے تھے، اچانک اس نے پلٹا کھایا اور تیزی سے مردانہ بیت الخلاء میں داخل ہوگیا، اس نے وہاں اپنی جیکٹ اتاری اور ہاتھ منہ دھونے لگا، کسی نے بھی ٹائلٹ تک اس کا تعاقب نہیں کیا تھا، اتنے میں ایک اور اعلان سنائی دیا۔ برٹش ائیر ویز کی پرواز نمبر TK979کے لیے آخری اعلان کیا جاتا ہے کہ مسافر جلدی سے گیٹ نمبر 6 کی طرف چلیں۔ پرواز روانہ ہونے والی ہے“۔
ٹام نے اعلان سنا، لیکن باہر نہ آیا، اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی اور مسکرادیا۔
عین اس وقت سلیٹی رنگ کی برساتی پہنے پراسرار آدمی ٹیلی فون بوتھ کی طرف بڑھا اور ایک نمبر گھما کر بولا ”ہیلو! ہاں میں نے اسے روانہ ہوتے دیکھا ہے، وہ جہاز میں سوار ہوچکا ہے“۔

٭……٭

نصف گھنٹے بعد ٹام ایک ٹیکسی پر کمال کے فلیٹ کی جانب روانہ ہوگیا۔ کمال نے دروازہ کھولا اور استقبال کرتے ہوئے پوچھا۔ ”سب ٹھیک ٹھاک؟“
”کوئی مشکل پیش تو نہیں آئی“۔ ٹام نے بتایا۔
”میں پاسپورٹ کنٹرول کے ہجوم میں گم ہوگیا اور پھر عین آخری لمحے بیت الخلاء میں جا گھسا۔“
”بہت خوب، ووینا اور اس کے ساتھی یہی سمجھیں گے کہ تم لندن واپس چلے گئے ہو، اب تم یہاں میرے فلیٹ میں قیام کرسکتے ہو تاکہ رچرڈ کی تلاش کا آغاز کرسکیں۔
”اور ابتداء کہاں سے ہوگی؟“۔ کمال نے جواب دیا۔
کھانا کھانے کے بعد دونوں شام کا پروگرام ترتیب دینے بیٹھ گئے۔
کمال نے کہا: ”آج شام ہم ووینا کے دفتر کی نگرانی کریں گے، اس کے باہر نکلتے ہی پیچھے لگ جائیں گے، اس طرح ہمیں معلوم ہوسکے گا کہ وہ کہاں رہتا ہے“۔
ٹام کہنے لگا: ”کیا یہ میرے حق میں خطرناک ثابت نہ ہوگا؟ وہ مجھے پہچانتا ہے، اگر اس نے مجھے دیکھ لیا تو کیا ہو؟“
”کمال مسکراتے ہوئے اٹھا اور بولا، میں نے اس کا بندوبست کرلیا ہے اور جس چیز کی تمہیں ضرورت ہے، اس کا انتظام ہوچکا ہے“۔
یہ کہہ کر کمال نے ایک دروازہ کھولا اور ایک ایسی چیز اپنے ساتھی کو پکڑادی جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔
”وگ!“ ٹام حیرت سے بولا۔
”اور ایک عدد نقلی مونچھ بھی“۔ کمال نے کہا۔ ”اٹھو اور انہیں لگالو“۔
ٹام نے وگ اور مونچھیں لگانے کے بعد شیشے میں اپنا عکس دیکھا اور حیرت سے ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ ”اب تو میں خود بھی اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتا“۔
”بہت خوب! اگر تم گہرے رنگ کا چشمہ لگالو تو شبیہ مکمل طور پر بدل جائے گی“۔ کمال نے مشورہ دیا اور ٹام نے اس پر صاد کرتے ہوئے سیاہ رنگ کا چشمہ آنکھوں پر سجالیا۔

٭……٭

شام سات بجتے ہی کم رونق والے علاقوں میں دکانیں اور چھوٹے چھوٹے کاروبار بند ہونے لگے، کمال اور ٹام کار میں بیٹھے تحمل سے انتظار کررہے تھے، ٹام نے کہا۔ ”بس اب وہ نکلنے ہی والا ہے“۔
کچھ فاصلے پر ووینا کے دفتر کا داخلی دروازہ باآسانی دکھائی دے رہا تھا اور وہ خاموشی کے ساتھ اس کا انتظار کررہے تھے، وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ سات بج کر دس منٹ…… سوا سات اور پھر اچانک ٹام نے سرگوشی کے لہجے میں کہا ”وہ دیکھو! یقینا وہی ہے“۔
ووینا اپنے دفتر سے نکلا اور اس نے اپنے پیچھے احتیاط کے ساتھ دروازہ بند کردیا۔ سڑک پر آکر اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور پھر اپنی سرمئی مرسیڈیز میں سوار ہوگیا۔
پیچھے کمال کی گاڑی نے تعاقب شروع کردیا، شاہراہ پر موٹر گاڑیوں کا ہجوم تھا اور وہ ٹریفک کے ساتھ ساتھ جارہے تھے۔
”احتیاط سے چلو…… اتنے قریب سے پیچھا مت کرو۔ ٹیکسی سے پیچھے ہی رہو“۔
وہ مسلسل احتیاط کے ساتھ مرسیڈیز کے پیچھے اپنی گاڑی بھگاتے رہے۔ ایک ذیلی سڑک پار کرتے ہوئے انہوں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔
”بائیں طرف“۔ ٹام چلایا، وہ رہا۔
آگے چل کر وہ نجی عمارات والی ایک خاموش سڑک پر پہنچے، یہ جگہ خاصی پرخطر تھی کیوں کہ وہاں زیادہ ٹریفک نہ تھی، ایسے میں اگر ووینا نظر گھما کر دیکھتاتو یقینا محسوس کرلیتا کہ کوئی اس کا تعاقب کررہا ہے۔
مرسیڈیز سڑک سے ہٹ کر ایک بڑے سے بنگلے کے گیٹ کی طرف بڑھی، بنگلے کے اردگرد درخت اور جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ جونہی مرسیڈیز اندر داخل ہوگئی گیٹ بند ہوگیا، کمال اور ٹام بند گیٹ کے سامنے سے گزر گئے اور بڑی سڑک پر ہولیے۔
کمال نے کہا۔ ”یہ ہمارے کام کا آغاز ہے۔ آؤ اب گھر چلیں“۔
کمال کے فلیٹ پر واپس پہنچ کر ٹام نے کہا۔ ”میرا خیال ہے رچرڈ اس کے بنگلے میں ہے“۔ کمال نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔
ٹام نے پوچھا۔ ”ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ ہم بنگلے میں داخل نہیں ہوسکتے، کیوں کہ وہاں ممکن ہے نگہبان مقرر ہوں“۔
درست!“ کمال نے کہا۔ ”بظاہر ہمارا داخلہ ناممکن دکھائی دیتا ہے“۔
”میرے خیال میں بنگلہ اس قدر اہمیت نہیں رکھتا“ ٹام بولا۔
”کیا مطلب؟“ کمال سراپا سوال بن گیا۔
”ذرا یاد کرو نجم نے کیا کہا تھا۔ رچرڈ کے متعلق کسی وجہ سے پریشان تھا، وہ دفتر میں کام کرتا تھا اور بنگلے سے اس کا کوئی تعلق نہ رہا ہوگا، چنانچہ ہمیں جو کچھ بھی معلومات درکار ہیں، وہ دفتر سے وابستہ ہیں۔ اس لحاظ سے بنگلہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔“
”یہ بھی درست ہے“۔ کمال نے تائید کرتے ہوئے کہا۔ ”تم دفتر کے اندر جاچکے ہو، وہ کس طرح کا ہے؟“
ٹام نے جواب دیا۔ ”دروازے سے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک کھڑکی ہے اور ایک چھوٹی سی استقبالیہ میز پھر دفتری کمرے اور آگے ووینا کے دفتر کا دروازہ“۔
”اور کچھ؟“
ٹام نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”ایک اور دروازہ بھی ہے پچھلی طرف۔“
”درست!“ کمال نے کہا۔ ”عین ممکن ہے اس دروازے کے عقب میں کوئی ورکشاپ یا اسٹور واقع ہو اور وہیں وہ سارا برآمدی مال رکھتے ہوں، لہٰذا ہمیں وہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے“۔ وہ یہ کہنے کے بعد سوچ میں ڈوب گیا اور پھر اچانک بول اٹھا۔ ”میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے، ووینا قیمتی پتھروں کے زیورات انگلستان کو برآمد کرتا ہے، میرے والدین وہی اشیاء اپنی دکان پر فروخت کرتے ہیں، چنانچہ اگر میرے پاس ایک بڑا صندوق ان چیزوں سے بھرا موجود ہو اور میں انہیں سستے داموں فروخت کرنا چاہوں تو بھلا کون مجھ سے خریدنے کو تیار ہوگا؟“
ٹام نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”ووینا“۔
”ٹھیک“۔ کمال بھی مسکرانے لگا۔ ”اب ہمیں اپنے اقدام پر غور کرنا چاہیے“۔

٭……٭

ابراہیم ووینا اپنے ذاتی دفتر میں بیٹھا کاغذات دیکھنے میں مصروف تھا، وہ دستاویزی کام ہمیشہ گھر جانے سے پہلے تنہا خود کرنے کا عادی تھا۔
اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی اور سوچنے لگا دس منٹ تک وہ کام ختم کرلے گا۔ اتنے میں دروازے پر دستک سنائی دی۔ اس نے کاغذات سے نظریں ہٹائیں اور دروازے کی طرف دیکھا۔ دستک دوبارہ ہوئی، اس بار پہلے کی نسبت آواز قدرے بلند تھی، اس نے کاغذات سمیٹ کر میز کی دراز میں رکھے اور تالا لگا کر دفتر سے باہر آیا۔ ایک آدمی شفاف دروازے میں کھڑا دکھائی دیا۔ ووینا نے دروازے کے عقب سے کہا۔ ”اب دفتر بند ہوچکا ہے۔ کل آنا“۔
”مجھے افسوس ہے، معاملہ بہت ضروری ہے……
”ازراہ کرم……“ آدمی کہنے لگا۔
”ہم دفتر بند کرچکے ہیں تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟“ ووینا نے خفگی ظاہر کرتے ہوئے دروازے کا تالا کھول دیا۔
”آپ کو پریشان کرنے کے لیے معذرت خواہ ہوں، لیکن مجھے امید تھی کہ میرا مسئلہ یہاں حل ہوجائے گا، دراصل بات یہ ہے کہ مجھے کچھ رقم فوری طور پر چاہیے، اس لیے کہ…… خیر، آپ کو اس سے کیا کہ مجھے رقم کیوں درکار ہے، یہ میرا اپنا معاملہ ہے، میرے پاس قیمتی پتھر کی چند اشیاء ہیں، میں نے سنا ہے آپ ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔“ یہ کہہ کر آدمی نے پتھر کی ایک خوبصورت ایش ٹرے اس کی طرف بڑھادی اور مزید کہا: ”کیا آپ ایسی پچاس ایش ٹرے خریدیں گے؟“
ووینا نے ایش ٹرے غور سے دیکھی، کمال نے اس کے چہرے سے اس کی دلچسپی کا اندازہ لگالیا۔
کمال نے لقمہ دیا۔ ”بہت عمدہ کوالٹی کا مال ہے“۔
”تم نے پچاس ایش ٹرے کا ذکر کیا تھا نا؟“
”بالکل درست، باقی باہر میری کار میں موجود ہیں“۔
”کیا قیمت لوگے؟“
”پندرہ ہزار لیرا…… پچاس کے لیے“۔
”اوہ! یہ تو بہت زیادہ ہے“۔
”دیکھیے…… مجھے رقم کی اشد ضرورت ہے“۔
”پھر تو پانچ ہزار لیرا بھی قبول کرسکتے ہو“۔
کمال نے مصنوعی مایوسی کے ساتھ ووینا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اچھی بات ہے آپ چھ ہزار میں پچاس ایش ٹرے رکھ سکتے ہیں۔ باقی مال ایک بڑے صندوق میں کار کے اندر موجود ہے، کیا اسے اندر لانے میں کچھ مدد کریں گے؟ وزن بہت زیادہ ہے“۔
ووینا اس کے ہمراہ کار تک گیا۔ دونوں نے مل کر صندوق اٹھایا اور دفتر میں لے آئے،، انہوں نے صندوق دفتر کی پچھلی جانب رکھ دیا۔ کمال نے وہاں ایک دروازہ دیکھا تو کہا۔ ”کیا آپ کا اسٹور نہیں؟ یقیناً آپ یہ صندوق یہاں دفتر میں رکھنا مناسب خیال نہیں کریں گے“۔
ووینا نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا اور پھر اپنی جیب سے چابی نکال کر پچھلا دروازہ کھول دیا، پھر دونوں نے مل کر صندوق اٹھایا اور اسے ورکشاپ میں لے گئے، یہ ایک طویل و عریض کمرہ تھا جس کی ایک دیوار میں کھڑکیاں تھیں، کمرے میں بے شمار مختلف اشیاء پڑی تھیں۔ پتھر کے ٹیبل لیمپ، زیورات، پیتل اور چمڑے کی مختلف چیزیں وغیرہ، ایک بنچ پر بہت سے اوزار اور کٹائی کرنے کے آلات پڑے تھے۔
ووینا جیب سے چھ ہزار لیرا نکالنے ہی والا تھا کہ عین اسی لمحے اس کے دفتر میں فون کی گھنٹی بجی۔ ”معاف کرنا، میں ایک منٹ میں آیا“۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ذاتی دفتر میں چلاگیا۔
کمال نے گھڑی دیکھی اور مسکرادیا، وہ بغور ورکشاپ کا جائزہ لینے لگا جس کے دوسرے سرے پر بھی ایک دروازہ تھا، اس نے کھڑکیوں سے باہر جھانک کر بھی دیکھا، باہر ایک مختصر سا صحن تھا اور اس کے سرے پر ایک دیوار جو بمشکل دو میٹر اونچی ہوگی۔
ورکشاپ کے آخر میں ورک بنچ پر پتھر کے بنے ہوئے کچھ ٹیبل لیمپ رکھے تھے، کمال نے غور سے دیکھا کہ انہیں کسی آلے کے ذریعے کاٹ کر اندر سے خالی کردیا گیا تھا۔
اچانک اس نے ووینا کو خدا حافظ کہتے سنا، وہ جلدی سے محتاط ہوگیا اور ورک بنچ کے نزدیک سے ہٹ گیا، ووینا واپس آکر کہنے لگا۔ ”میں معذرت چاہتا ہوں کہ تمہیں انتظار کرنا پڑا“۔
کمال نے جواب دیا۔ ”کوئی بات نہیں، میں محسوس کرسکتا ہوں کہ آپ مصروف کاروباری آدمی ہیں“۔
ووینا نے چھ ہزار لیرا گنے اور کمال کے سپرد کردیے۔
”شکریہ! دراصل مجھے رقم کی اشدت ضرورت تھی، اب مجھے آپ کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے“۔
ووینا نے کمال کو دروازے پہ رخصت کیا۔ کمال شکریہ، خداحافظ کہہ کر اپنی کار کی طرف بڑھ گیا اور جلد از جلد گھر پہنچا جہاں ٹام اس کا منتظر تھا۔
”کچھ بات بنی؟“ جونہی کمال داخل ہوا ٹام نے پوچھا۔
”سب کچھ نہایت عمدگی سے ہوگیا“۔ کمال نے بتایا، میرے بھائی نے بروقت فون کیا، اس وقت ہم ورکشاپ میں تھے، ووینا نے میری کہانی سچ سمجھی۔
پھر کمال نے وہ سب کچھ تفصیل سے بتایا جو کچھ اس نے وہاں دیکھا تھا۔
اگلے روز ناشتے کے بعد کمال اور ٹام استنبول کی سڑکوں کا ایک نقشہ سامنے پھیلائے بیٹھے تھے، کمال نے ایک سڑک کی طرف اشارہ کیا۔ ”یہ دیکھو…… ووینا کی دکان اسی پر ہے اور اب یہ سڑک دیکھو جو دکان کے عقب میں ہے، صحن میں داخل ہونے کے لیے ہمیں اسی طرف سے راستہ تلاش کرنا ہوگا“۔
”کیا تمہیں شہر کے اس حصے کی شدبد ہے؟“
”اتنی زیادہ نہیں، لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے، وہاں صرف دفاتر، گودام اور کارخانے وغیرہ ہیں، رات کے وقت وہاں مکمل خاموشی ہونی چاہیے، اس کے باوجود ہمیں انتہائی محتاط رہنا ہوگا“
ٹام نے کہا: ”تو بس، ہم آج رات ہی یہ کام کر ڈالیں گے“۔

٭……٭

کمال کے سسلی والے فلیٹ سے وہ دونوں رات دس بجے روانہ ہوئے اور ووینا کی دکان کے نزدیک پہنچے، انہوں نے دو بلاک دور کار پارک کی، ورکشاپ کے پاس زیادہ بتیاں نہ تھیں اور تقریباً ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی، وہ تاریک سڑکوں پر چلنے لگے، انہوں نے گہرے رنگوں کے لباس پہن رکھتے تھے اور اب وہ اس سڑک پر گامزن تھے جو ووینا کی ورکشاپ کے عقب میں تھی۔
کمال نے کہا: ”یہاں صرف دفاتر، گودام اور کارخانے ہیں، یہ رہائشی علاقہ نہیں۔ صحن اس گلی میں ہونا چاہیے ان عمارتوں کے پیچھے“۔
انہوں نے ایک بار پھر تاریک سڑک کا جائزہ لیا، وہاں کوئی کار تھی نہ کوئی ذی روح، کمال نے سرگوشی کی:”بس اب آجاؤ“۔
وہ چپکے سے گلی میں داخل ہوگئے، ٹام کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور خوف سے اس کے ہونٹ خشک ہورہے تھے، وہ ایک گودام کے پیچھے صحن کی بیرونی دیوار کے پاس پہنچے، کچھ فاصلے پر کوئی کتا بھونک رہا تھا، کمال نے دبی زبان میں ٹام سے کہا: ”میری مدد کرو، خاموشی کے ساتھ“۔
ٹام دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ پیالے کی طرح ملائے، کمال اپنا ایک پاؤں ہاتھوں کے اس پیالے میں جما کر اوپر اٹھا تو اس کے دونوں ہاتھ دیوار کے سرے سے جاگلے، اس نے دیوار کے اوپر سے اندر کا جائزہ لیا، صحن بالکل خالی تھا چنانچہ ایک جھٹکے سے اوپر اچھلا اور دیوار کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا، پھر اس نے سرگوشی کے انداز میں ٹام سے کہا۔ اپنا ہاتھ پکڑاؤ، میں تمہیں اوپر کھینچ لوں گا“۔
اب ٹام اور کمال دونوں دیوار کے اوپر تھے۔ کمال نے آہستگی سے نیچے چھلانگ لگائی اور ٹام بھی اس کے ساتھ ہی صحن میں اتر گیا، دونوں صحن میں، خاموشی کے ساتھ محتاط قدموں سے بڑھنے لگے۔
اچانک کچھ شور سنائی دیا جور ورکشاپ کے اندر سے آرہا تھا، اس پر دونوں ایک طرف دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگے۔
شور پھر ابھرا۔ یہ ورکشاپ کے اندر دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز تھی، ورکشاپ میں روشنی ہوئی جو باہر صحن تک پھیل گئی۔ وہ دونوں دیوار کے ساتھ چپکے ہوئے تھے جیسے ان کی رگوں میں خون منجمد ہوگیا ہو، انہیں یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی دروازہ کھلے گا اور کوئی صحن میں دوڑتا ہوا ان کی طرف بڑھے گا، انہیں اندر سے لوگوں کی باتیں اور حرکت کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، کمال نے ٹام کے کان میں کہا: ”بس، ہمارے لیے یہی موقع ہے، ہمیں یہ جاننے کی پوری کوشش کرنا ہوگی کہ یہ لوگ اس وقت کیا کررہے ہیں“۔
دونوں انتہائی آہستگی سے کھڑکی تک گئے، خاموشی اس قدر گہری تھی کہ ٹام کواپنے دل کی دھڑکن تک سنائی دے رہی تھی، ورکشاپ میں ایک آدمی پتھر کے ٹیبل پر لیمپوں پر کام کررہا تھا، لیمپ دو حصوں میں کاٹے گئے تھے اور وہ خالی حصوں میں پلاسٹک کی چھوٹی سی تھیلی بند کررہا تھا، پھر اس نے دونوں حصے آپس میں جوڑ دیے، ٹام نے پتھر اور پیتل کی تمام اشیاء دیکھیں اور کٹائی کرنے والے اوزاروں کا جائزہ لیا، پلاسٹک کی تھیلیوں کا ایک ڈھیرمیز کے اوپر پڑا تھا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔
ٹام نے کمال سے پھر سرگوشی کی: ”تو یہ سلسلہ ہے۔ یہ لوگ ان چیزوں میں نشہ آور اشیاء کی اسمگلنگ کرے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ کھڑی کے نزدیک سے ہٹ گیا جو کچھ دیکھا تھا اس کا اثر اس کے اعصاب پر ہورہا تھا اور شاید اسے یاد ہی نہ رہا تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے، اچانک ایک پتھر پر سے اس کا پاؤں لڑھک گیا، گرتے گرتے اس کا ہاتھ لکڑی کے ایک تختے پر جا پڑا اور وہ تختہ زوردار آواز کے ساتھ زمین پر آرہا۔
دروازہ کھلا، روشنی کا سیلاب پھیل گیا اور ایک آدمی دوڑتے ہوئے صحن میں نمودار ہوا۔”رک جاؤ…… پکڑو۔“
چند ثانیوں میں کمال اور ٹام دیوار کے اوپر تھے، انہوں نے چھلانگ لگائی، مگر ٹام سے ذرا سی تاخیر ہوگئی، آنے والا آدمی اچھلا اور اس نے دیوار پر سے ٹام کو اندر کھینچ لیا، کمال، ٹام کی مدد کے لیے مڑا، لیکن اب سب کچھ بے سود تھا، کچھ اور لوگ بھی آگئے تھے اور انہوں نے اسے بھی صحن میں کھینچ لیا، چند سیکنڈوں کے اندر تمام کھیل ختم ہوچکا تھا، ٹام اور کمال دونوں پکڑے جاچکے تھے۔
”اس طرف“۔ ایک آدمی نے تحکمانہ انداز میں ٹام اور کمال کو ورکشاپ کے دروازے کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا۔ ”اندر داخل ہوجاؤ“۔
دونوں مجبور اور گھبرائے ہوئے تھے، ورکشاپ میں داخل ہوگئے، ووینا ورکشاپ کے اندر موجود تھا اور ایک پستول اس کے ہاتھ میں تھا۔ کچھ دیر وہ خاموشی سے دونوں کو خونخوار نظروں سے گھورتا رہا۔ پھر بولا۔”خوب، خوب! ہمارا انگلستانی دوست، بہت ہوشیار بننے کی کوشش میں تھے…… اور تم کون ہو؟“
پھر اس نے غصیلے انداز میں پھنکارتے ہوئے کمال کی طرف دیکھا اور آگے ہو کر اس کے چہرے پر ایک ضرب لگائی، ٹام نے آگے بڑھنے کی کوشش کی،مگر ووینا کہنے لگا: ”خبردار! ورنہ ابھی موت کے گھاٹ اتاردوں گا“۔ ٹام پستول کی زد میں تھا، ووینا نے حکم دیا۔ ”اس طرف چلو، چپ چاپ“۔
دونوں ورکشاپ کے اندر ورک بنچ کے پاس کھڑے ہوگئے، ووینا انہیں چند لمحوں کے لیے قہر آلود نگاہوں سے دیکھتا رہا پھر یوں گویا ہوا۔ ”سو، تم نے یہ سب کچھ دیکھ لیا ہے“۔ اس نے نصف حصوں میں کٹے ہوئے پتھر کے ٹیبل لیمپوں اور افیون کی تھیلیوں کی طرف اشارہ کیا اور بات جاری رکھی۔”ہمیں پہلے ہی اس چھوکرے کو ختم کردینا چاہیے تھا۔“
”رچرڈ کہاں ہے؟“ ٹام نے سوال کیا۔
”اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، وہ بالکل ٹھیک ہے، یوں کہہ لو وہ میرے بنگلے میں بطور مہمان ہے۔“ ووینا ظالمانہ سرد ہنسی ہنسنے لگا۔
اور پھر ووینا اپنے شرکائے کار سے مخاطب ہوا: ”اب ہمیں چلنا چاہیے، یہ دونوں آدمی ہمارے ساتھ جائیں گے“۔
ووینا کے آدمیوں نے ٹام اور کمال کو ورکشاپ سے باہر دھکیلا اور دکان کے دروازے پر لے آئے، سامنے ہی سڑک کے ایک طرف مرسیڈیز کھڑی تھی، ووینا نے تحکمانہ انداز میں کہا: ”اندر بیٹھ جاؤ“۔
ٹام نے سڑک پر دور تک نظر دوڑائی، مگر اسے کوئی ذی روح دکھائی نہ دیا جس سے مدد کی توقع کی جاسکتی۔ ووینا نے متنبہ کیا: ”کسی قسم کی احمقانہ حرکت کرنے سے باز رہنا، تم بھاگ نہیں سکتے۔ آرام سے اندر بیٹھ جاؤ“۔

ٹام اور کمال پچھلی نشست پر بیٹھ گئے اور دونوں کے سروں پر ایک ایک آدمی مسلط کردیا گیا، دوسرے لوگ آگے بیٹھے اور گاڑی حرکت میں آئی۔
”ویسے تمہارے بھائی کی انتظامی کارکردگی بہت مفید تھی…… اسے ہمارے دوسرے کاروبار کے بارے میں کوئی علم نہ تھا، لیکن ایک روز وہ اپنی کوئی چیز دفتر میں بھول گیا اور شام کے وقت اسے لینے واپس آیا،بس یہ اس کی بدبختی تھی کہ اس نے ہمیں کام کرتے دیکھ لیا، ظاہر ہے اس کے بعد میں اسے جانے کیسے دیتا۔“
ووینا ایک بار پھر قہقہہ کے ساتھ ہنسا۔ ووینا نے پھر کہا ”وہ میرے بنگلے میں بہت آرام سے ہے۔“
”لیکن اب ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا، تم لوگ بہت کچھ جان چکے ہو“۔
چند منٹ بعد کار بنگلے کے گیٹ میں داخل ہوگئی، یہ ایک تین منزلہ بڑا سا بنگلہ تھا، پہلی منزل میں داخل ہونے کے لیے چند سیڑھیاں تھیں۔
”باہر نکلو“۔ ووینا نے حکم دیا۔
وہ تعمیل حکم پر مجبور تھے بنگلے کے دروازے پر ایک چھوٹا سا بلب روشن تھا، باقی تمام عمارت میں کامل تاریکی تھی، ٹام نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، دراصل وہ راہ فرار کی تلاش میں تھا، ووینا اس کی نظریں بھانپ گیا اور بولا۔ ”چپ چاپ اندر چلے چلو، اگر تم نے فرار ہونے کی کوشش کی تو اسی لمحے گولی سینے سے پار کردوں گا“۔
وہ مجبوراً سامنے والے دروازے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔
”ٹھہرو!“ یکایک ایک آواز بلند ہوئی۔
اچانک نگاہوں کو خیرہ کردینے والی تیز روشنی کا دھارا بنگلے کے چھوٹے باغیچہ سے برآمد ہوا جو بہت سے آدمیوں سے اٹا پڑا تھا۔ایک لمحے کے لیے ووینا منجمد حالت میں کھڑا رہا جیسے اسے سکتہ ہوگیا ہو، پھر وہ دروازے کی طرف بھاگا، دروازہ یکایک کھل گیا اور اندر سے دو آدمی جھپٹے، ووینا ان کے پستولوں کی زد میں تھا۔
”رک جاؤ، یہ پولیس ہے ورنہ تمہیں گولی ماردی جائے گی“۔
ووینا نے ریوالور پھینک دیا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھالیے، اس کے ساتھیوں نے بھی یہی عمل دہرایا۔
”پولیس“۔ کمال نے کہا۔ ”گویا ہم اب محفوظ ہیں“۔
”اسی لمحے بنگلے کا دروازہ کھلا اور ایک لڑکا اندر سے بھاگتا ہوا باہر نکلا…… بھائی…… بھائی“۔رچرڈ ٹام کے قریب پہنچ چکا تھا……”تم ٹھیک تو ہو؟“
”میں بالکل ٹھیک ہوں، پولیس ایک گھنٹہ پہلے یہاں پہنچ گئی تھی، ہمیں علم تھا کہ تم بھی یہاں آرہے ہو۔ پولیس عملہ تمہاری نگرانی کررہا تھا۔“رچرڈ نے ٹام کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔
”رچرڈ میں تمہارا تعارف ایک بہت ہی اچھے دوست سے کرانا چاہتا ہوں“۔ وہ مسکراتے ہوئے کمال کی طرف دیکھنے لگا: ”یہ کمال ہیں“۔ رچرڈ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی“۔
ٹام نے بتایا: ”کمال نے ہماری بہت مدد کی ہے۔“
اتنے میں ووینا اور اس کے ساتھی پولیس کی گاڑی میں سوار کیے جاچکے تھے۔ ٹام نے پوچھا۔ ”پولیس کو علم کیسے ہوا کہ اصل ماجرا کیا ہے؟“
عین اسی لمحے ایک کار آ رکی، ایک آدمی اس میں سے باہر نکلا اور مسکراتے ہوئے ان کی طرف بڑھا۔
”ہیلو مسٹر اسمتھ! ہماری دوبارہ ملاقات کا موقع بن ہی گیا“۔
”اوہ! مسٹر پیننگٹن!“ٹام نے مسکراتے ہوئے اس کا نام پکارا“۔

٭……٭

اس رات کمال، ٹام اور رچرڈ قونصل خانے کی عمارت میں مسٹر پیننگٹن کے فلیٹ میں بیٹھے تھے اور ڈیوڈ پیننگٹن واردات کے بعد کی تفصیلات بتاتے ہوئے ٹام سے کہہ رہے تھے: ”نجم مجھ سے ملنے میرے دفتر پہنچا، اس نے تم سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل بتائی اور مجھے یقین ہوگیا کہ تمہارا خیال درست تھا، میں نے پولیس سے از سر نو رابطہ قائم کیا اور اس کے بعد میں نے تمہیں تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر تم ہوٹل چھوڑ گئے تھے، ہم نے سوچا تم برطانیہ واپس جاچکے ہو“۔
”نہیں۔“ ٹام رچرڈ کی طرف دیکھتے ہوئے خوش باش انداز میں بولا۔ ”مجھے استنبول میں بے حد ضروری کام تھا“۔
”انہوں نے بنگلے میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا“۔ ٹام نے رچرڈ سے دریافت کیا۔
”ان کا سلوک اچھا تھا۔ میرا مرض شدت اختیار کرگیا تھا، تب مجھے وہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے لیکن میں اس روز تب بے حد پریشان تھا، کیونکہ اسی روز تم استنبول پہنچ رہے تھے، ووینا کو تمہاری آمد کے بارے میں پورا علم تھا کیوں کہ میں نے پہلے ہی اسے بتا رکھا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ کسی کو تمہارے تعاقب میں ضرور بھیجے گا“۔
ٹام نے کہا۔ ”انہوں نے ڈاکٹر کے پاس تمہیں بھیج کر فاش غلطی کی…… اگر میں نے تمہیں بس میں سے نہ دیکھ لیا ہوتا تو یقینا……“
رچرڈ نے کہا: ”خدا کا شکر ہے یہ چکر ختم ہوا“۔ پھر اس نے ٹام کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ ”بھائی میرا خط تمہیں یاد ہے؟ میں نے لکھا تھا نا کہ استنبول میں زندگی بہت دلچسپ گزرتی ہے؟ کیا میں نے درست کہا تھا؟“ اس پر سب ہنسنے لگے۔
”ہاں“۔ ٹام نے جواب دیا۔ ”لیکن کچھ زیادہ ہی دلچسپ!“

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top