آخری پتا
کہانی: The last leaf
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔
ماریہ سمجھ رہی تھی اگر انگور کی بیل کا آخری پتا گرگیا تو وہ بھی نہیں بچے گی
۔۔۔۔۔
مغربی واشنگٹن کے مضافات میں کچھ تنگ و تاریک محلے ایسے بھی ہیں جہاں شہر کی غریب آبادی رہائش پذیر ہے۔ آبادی کا زیادہ تر حصہ مصوروں اور دیگر فنون لطیفہ سے وابستہ افراد پر مشتمل ہے۔ ایسے ہی دو کمرے کے ایک فلیٹ میں دو سہیلیاں رہتی تھیں۔ دونوں ہی اچھی مصور تھیں۔
یہ ماہ نومبر تھا جب ایک اجنبی، سرد مہرمہمان کالونی میں داخل ہوا جسے ڈاکٹرز نمونیہ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ نمونیہ اپنی برفیلی انگلیوں سے کبھی کسی کو اورکبھی کسی کو چھوتا رہا یہاں تک کہ بدقسمتی سے ایک دن ماریہ بھی نمونیے کا شکار ہوگئی۔ مرض اپنی شدت پر تھا اور وہ بالکل بستر سے لگ گئی تھی۔ وہ ہر وقت کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکتی رہتی تھی جو گھر کے پچھلے حصے میں کھلتی تھی۔
ایک صبح معروف ڈاکٹر نے سونی کو بلایا اور کہنے لگے: ”مریض کے پاس صرف ایک فی صد چانس ہے اور وہ بھی اس صورت میں اگر وہ خود جینا چاہے، ورنہ وہ مرجائے گی۔ وہ صرف قوت ارادی کے بل پر تندرست ہوسکتی ہے۔ مگر آپ کی ننھی دوست نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ شاید یہ ذہنی کمزوری کے باعث ہے۔ میں اپنی طرف سے تو پوری کوشش کررہا ہوں کہ مریضہ ٹھیک ہوجائے لیکن جب میرا مریض اپنے جنازے میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد گننا شروع کردے تو میں اپنی دوا کی تاثیر میں سے پچاس فیصد منہا(کمی) کردیتا ہوں۔“
ڈاکٹر کے جانے کے بعدسونی، ماریہ کے کمرے میں گئی۔ وہ اپنے بستر میں بے حس و حرکت پڑی تھی۔ اس کا چہرہ کھڑکی کی طرف تھا۔ سونی کو لگا جیسے وہ سو رہی ہو۔ اس نے اپنا ڈرائنگ بورڈ اُٹھا کر اپنا کام کرنا شروع کر دیا۔ اسے ایک رسالے کی کہانیوں کے اسکیچ بنانے کا کام ملا تھا۔ ابھی وہ اپنے کام میں مصروف ہی تھی کہ اچانک اسے ایک دھیمی آواز سنائی دی۔ وہ جلدی سے اُٹھ کر ماریہ کے بستر کے پاس گئی ۔ ماریہ کی آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھیں۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی اور اُلٹی گنتی گن رہی تھی۔ ”بارہ“ اس نے کہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد ”گیارہ“، پھر ”دس“ ، ”نو“، ”آٹھ“، ”سات“جلدی جلدی گنے۔ سونی نے تشویش زدہ نظروں سے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ وہاں گنتی گننے کے لیے تھا ہی کیا؟ صرف ایک خالی اُجاڑ صحن اور گھر کی پچھلی دیوار جس پر انگور کی ایک بہت پرانی بیل لپٹی ہوئی نظر آرہی تھی۔ خزاں کی ٹھنڈی سانس نے انگور کی بیل کے قریب قریب سارے ہی پتے جھاڑ دیے تھے اور اب تقریباً گھنی بیل دیوار سے لپٹی نظر آرہی تھی۔
”تم کیا گن رہی ہو ڈیئر؟“ سونی نے پوچھا۔
”چھے۔“ ماریہ نے تقریباً سرگوشی میں کہا۔ ”وہ اب پہلے کے مقابلے میں اور بھی تیزی سے گر رہے تھے۔ تین دن پہلے وہ تقریباً سو کے لگ بھگ تھے۔ ان کو گنتے گنتے میرے سر میں درد شروع ہوجاتا تھا۔ لیکن اب یہ آسان ہے۔ یہ ایک اور گرا۔ اب صرف پانچ رہ گئے ہیں۔“
” پانچ کیا میری دوست؟ مجھے نہیں بتاؤ گی؟“ سونی نے پیار سے پوچھا۔
”انگور کی بیل کے پتے! جب آخری پتا گر جائے گا تو میں بھی مرجاؤں گی۔ مجھے یہ بات پچھلے تین دن سے معلوم ہے۔ کیا تمھیں ڈاکٹر نے نہیں بتایا؟“
”میں نے آج تک ایسی احمقانہ بات نہیں سنی!“ سونی نے غصے سے کہا۔ ”بھلا انگور کی بیل کے پتوں کا تمھارے صحت یاب ہونے سے کیا تعلق ہے؟ اور تم کو تو یہ بیل بہت پسند تھی بے وقوف لڑکی! اب سوپ پیو اور مجھے اپنا کام مکمل کرنے دو تاکہ میں رسالے سے اپنا معاوضہ حاصل کرکے اپنی پیاری دوست کے لیے کچھ پھل اور اپنے لیے چرغہ خرید سکوں۔“
” اب تمھیں میرے لیے مزید پھل خریدنے کی ضرورت نہیں۔“ ماریہ نے کہا، اس کی آنکھیں ابھی بھی کھڑکی سے باہر جمی ہوئی تھیں۔ ”ایک اور گرا۔ نہیں، مجھے سوپ کی بھی ضرورت نہیں، اب صرف چار پتے رہ گئے ہیں۔ میں اندھیرا ہونے سے پہلے، پہلے آخری پتے کو گرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ پھر میں خود بھی یہاں سے ہمیشہ، ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجاؤں گی۔“
”ماریہ ڈیئر!“ سونی نے اس پر جھکتے ہوئے کہا۔ ” کیا تم وعدہ کرو گی کہ جب تک میں اپنا کام مکمل نہ کرلوں، تم اپنی آنکھیں بند رکھو گی اور کھڑکی سے باہر نہےں دیکھو گی۔ مجھے یہ کام مکمل کرکے ہر حال میں کل ایڈیٹر کو دینا ہے۔ مجھے روشنی کی ضرورت ہے ورنہ میں کھڑکی کا پردہ گرا دیتی۔“
” کیا تم دوسرے کمرے میں جا کر اپنا کام نہیں کرسکتیں؟“ ماریہ نے سرد مہری سے پوچھا۔
” نہیں! میں تمھیں یہاں اکیلے نہیں چھوڑنا چاہتی اور نہ ہی میں یہ چاہتی ہوں کہ تم اس طرح باہر انگور کی بیل کو تکتی رہو۔“
”اچھا! تو جیسے ہی اپنا کام ختم کرلو، مجھے بتادینا۔“ ماریہ نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا اور سیدھا ہو کر لیٹ گئی۔ وہ کسی مردے کی طرح سفید اور بے حس و حرکت نظر آرہی تھی۔
”کیونکہ میں آخری پتے کو گرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں انتظار کرتے، کرتے تھک چکی ہوں۔ میں سوچتے سوچتے تھک چکی ہوں۔ میں زندگی کو تھامے رہنے سے تھک چکی ہوں۔ میں ان غریب پتوں کی طرح خاموشی سے گر جانا چاہتی ہوں ، سب کچھ چھوڑ دینا چاہتی ہوں۔“
”تم سونے کی کوشش کرو۔ “ سونی نے کہا۔
”مجھے پڑوس سے بوڑھے برمن کو بلانے جانا ہے ۔ مجھے ایک کان کن کا خاکہ بنانا ہے جس کے لیے برمن سے بہتر ماڈل اور کوئی نہیں ہوسکتا۔اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی کوشش نہیں کرنا، میں دس منٹ میں آتی ہوں۔“
بوڑھا برمن بھی ایک مصور تھا جو نیچے والے فلیٹ میں رہتا تھا۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہوچکی تھی۔ وہ ہمیشہ ایک ماسٹر پیس بنانے کی کوششوں میں مصروف رہا لیکن ابھی تک وہ اپنی ان کوششوں میں ناکام رہا تھا اور اب محض سائن بورڈ پینٹ کرنے کا کام کرکے اپنی روزی کما رہا تھا۔ کچھ پیسے وہ کالونی میں رہنے والے نوجوان مصوروں کے لیے ماڈل بن کر کما لیتا تھا جو اچھے اور پیشہ ور ماڈل کی فیس ادا نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے باوجود وہ ہر کسی سے اپنے خوابوں کی اس شاہ کار پینٹنگ کے بارے میں باتیں کرتا رہتا تھا جو اس نے ابھی بنانی ہی شروع نہیں کی تھی۔ سونی جب برمن کو بلانے گئی تو وہ کھانس رہا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں خالی کینوس پچھلے پچیس سال سے شاہ کار تصویر کے انتظار میں ٹنگا ہوا تھا۔ سونی نے اسے ماریہ کی طبیعت اور عجیب و غریب خیالات کے بارے میں بتایا۔ وہ خوف زدہ تھی کہ ماریہ جو خود ایک سوکھے پتے کی طرح کمزور اور ہلکی پھلکی ہوچکی ہے، کہیں واقعی ایک پتے کی طرح اپنی گرفت دنیا سے کھو نہ بیٹھے۔
بوڑھے برمن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ”یہ کیسی حماقت انگیز سوچ ہے؟ کیسے بے وقوفانہ خیالات ہیں؟“ وہ چلایا۔
” کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی زندگی کو کسی خزاں رسیدہ بیل کے پتے گرنے سے وابستہ کرلیتے ہیں؟ تمھاری دوست احمق ہے جاؤ جا کر اپنی احمق دوست کی تیمارداری کرو۔“
”وہ بیمار اور کمزور ہے اور بخار نے اس کی سوچوں کو بھی بیمار اور کمزوربنا دیا ہے اور مسٹر برمن ۔“ سونی نے برا مانتے ہوئے کہا۔
”اگر آپ میرے لیے کام نہیں کرنا چاہتے تو آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ آپ ایک سخت دل انسان ہیں۔ کالونی کے لوگ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔“
”اور دنیا کے سب لوگ بھی بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ ساری لڑکیاں جلد باز اور احمق ہوتی ہیں۔“ برمن چلایا۔
” میں نے یہ کب کہا کہ میں مدد نہیں کروں گا۔ میں چل رہا ہوں۔ میں تو ماریہ بیٹی کے بیمار ہونے کی وجہ سے پریشان ہوگیا تھا۔ مگر یاد رکھنا، میں کسی نہ کسی دن اپنا شاہکار ضرور بناؤں گا۔ ہم سب اپنے مصور کا شاہکار ہیں اور ایک دن اس کے پاس لوٹ جائیں گے۔ کیا سمجھیں؟ اب چلو!“
جب وہ دونوں اوپر پہنچے تو ماریہ سو چکی تھی۔ سونی نے کھڑکی کا پردہ نیچے گرا دیا اور برمن کو اشارے سے دوسرے کمرے میں لے گئی۔
دوسرے کمرے کی کھڑکی سے وہ دونوں خوف زدہ نظروں سے انگور کی ٹنڈ منڈ بیل کو دیکھتے رہے اور پھر خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ باہر اچانک تیز بارش شروع ہو گئی تھی۔ تیز ہواؤں کے جھکڑ سنتے، سنتے ، سونی نے برمن کی تصویر بطور کان کن بنانا شروع کردی۔
اگلے دن جب سونی سو کر اٹھی تو ماریہ کو جاگتے پایا۔ وہ کھڑکی کے گہرے سبز پردے کو خالی خالی نظروں سے گھور رہی تھی۔ ”پردہ ہٹا دو۔ میں باہر دیکھنا چاہتی ہوں۔“ اس نے نحیف آواز میں حکم دیا۔
سونی نے جھجکتے ہوئے پردہ ہٹا دیا۔
مگر اوہ! ساری رات طوفانی بارش اور خوف ناک ہواؤں کے جھکڑ چلنے کے باوجود بھی انگور کی بیل پر ایک پتا موجود تھا۔ یہ بیل کا آخری پتا تھا۔ بیچ میں سے زرد مگر کناروں سے ابھی تک سبز یہ بہادر پتا زمین سے تقریباً بیس فٹ اوپر دیوار پر لپٹی بیل پر موجود تھا۔ ”یہ آخری ہے۔“ ماریہ نے کہا۔”میرا خیال تھا کہ رات کو یہ بھی گر چکا ہوگا۔ میں کل تیز ہواؤں کی آواز سن رہی تھی۔ خیر! اب یہ آج گر جائے گا اور میں بھی اس کے ساتھ ہی مر جاؤں گی۔“
”ڈیئر!“ سونی نے تھکی تھکی آواز میں کہا۔
”اگر تمھیں اپنا خیال نہیں ہے تو میرا ہی کچھ خیال کرو۔ میرا کیا بنے گا؟“ مگر ماریہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دنیا میں سب سے اکیلا وہ شخص ہے جو خود کو ایک پراسرار ، دور دراز سفر پر جانے کے لیے تیار کررہا ہو۔ یہ عجیب و غریب خیال اس پر اپنی گرفت اتنی ہی تیزی سے مضبوط کررہا تھا جتنی تیزی سے ایک ایک کرکے دوستی اور دیگر تمام دنیاوی بندھنوں پر سے اس کی گرفت کمزور ہوتی جارہی تھی۔ دن آہستہ آہستہ گزرتا رہا۔ سورج غروب ہوتے وقت بھی دھندلی روشنی میں وہ دونوں آخری پتے کو بیل سے لپٹے ہوئے دیکھ سکتی تھیں اور پھر رات کو طوفانی ہوائیں دوبارہ چلنا شروع ہوگئیں۔ تیز بارش رات بھر جاری رہی۔
جیسے ہی صبح کی روشنی پھیلنا شروع ہوئی، ماریہ نے بے رحمی سے پردہ ہٹانے کا حکم دیا۔ آخری پتا اب بھی وہاں موجود تھا۔
ماریہ کافی دیر تک اسے دیکھتی رہی اور پھر اس نے سونی کو آواز دی جو کچن میں اس کے لیے سوپ بنا رہی تھی۔ ” میں بہت بری ہوں سونی۔“ ماریہ نے کہا۔ ”کسی غیبی طاقت نے اس پتے کو بیل پر اس لیے موجود رہنے دیا تاکہ میں جان سکوں کہ میں کتنی بُری ، خود غرض اور کمزور اعتقاد کی ناشکری لڑکی ہوں۔ مرنے کی خواہش کرنا گناہ ہے۔ خدا کی ذات سے مایوسی کفر ہے۔ مجھے کچھ سوپ پینے کے لیے دو اور تھوڑا دودھ بھی دلیے کے ساتھ بلکہ نہیں، پہلے مجھے ایک چھوٹا آئینہ لا کر دو تاکہ میں اپنا حلیہ درست کرسکوں اور مجھے تکیے کے ساتھ سہارا دے کر بٹھا دو۔“
دوپہر میں ڈاکٹر آیا۔ جب وہ معائنہ کرکے جانے لگا تو سونی سے کہا۔
”خدمت اور محبت سے زندگی کا چانس بڑھایا جا سکتا ہے۔ ماریہ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی۔ وہ پھر سے جینا چاہتی ہے۔ اب مجھے اجازت دیں مجھے آپ کے نیچے والے فلیٹ میں ایک مریض کو دیکھنے جانا ہے۔ اس کا نام برمن ہے اور غالباً وہ بھی کوئی آرٹسٹ ہے۔ اس کو نمونیہ ہوگیا ہے۔ وہ ایک بوڑھا اور کمزور انسان ہے اور نمونیہ کا حملہ بہت شدید ہے۔ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے لیکن آج ہم اسے ہسپتال بھیج دیں گے تاکہ شاید کچھ بہتری ہوجائے۔“
اگلے دن ڈاکٹر نے سونی سے کہا۔”ماریہ کی حالت خطرے سے باہر ہے آپ جیت گئیں۔ خوراک اور دیکھ بھال ۔ اب صرف یہی کافی ہے۔“
اور اس دوپہر سونی، ماریہ کے پاس آئی جو اُونی اسکارف بُننے میں مصروف تھی۔ سونی نے ماریہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔ ” میں تمھیں کچھ بتانا چاہتی ہوں میری ننھی دوست!“ اس کی آواز مدھم ہوگئی۔
”مسٹر برمن نمونیے کے حملے کی وجہ سے آج ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ وہ صرف دو دن بیمار رہے۔ دو روز قبل عمارت کے جمعدار نے انھیں اپنے فلیٹ کی سیڑھیوں پر گرے ہوئے پایا تھا۔ وہ درد سے بے قرار تھے۔ ان کے کپڑے اور جوتے گیلے اور برف سے زیادہ ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ عمارت کے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسی طوفانی بارش والی رات میں کہاں تھے اور کیا کررہے تھے اور پھر ان لوگوں کو ایک لالٹین ملی جو اس وقت بھی جل رہی تھی اور لکڑی کی ایک سیڑھی جو اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی تھی اور کچھ پینٹ برش جو بکھرے ہوئے تھے اور رنگوں کی تختی بھی جس میں سبز اور زرد رنگ گھولا گیا تھا۔ کھڑکی سے باہر جھانکو میری دوست! بیل کے اس آخری پتے کو دیکھو، کیا تم کو کبھی یہ سوچ کر حیرت نہیں ہوئی کہ آخر یہ پتا ہوا سے حرکت کیوں نہیں کرتا؟ آہ ! میری پیاری دوست! یہ برمن کا شاہکار ہے۔ اس نے یہ پتا دیوار پر بیل کے ساتھ اس طوفانی رات پینٹ کیا تھا جس رات اس بیل کا آخری پتا گر گیا تھا۔“
٭….٭