skip to Main Content
زمین کے ہیرے

زمین کے ہیرے

نذیر انبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے کسی ایسے ہی ہیرے کی خاطر رحمت کے بادل بھیج دے ۔ہمارے شہر پر بارش برسا دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج کی حدت سے بخارات کی شکل اختیار کرنے وا لا پانی ہوا کے کندھے پر سوار بڑی تیزی کے ساتھ آسمان کی طرف اڑے جا رہا تھا۔موسم اتنا گرم تھا کہ ادھر کھلے آسمان تلے پانی رکھا اور ادھر وہ بخارات بن کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا۔یہ بخارات ہوا کے ساتھ جب آسمان کی وسعتوں میں پہنچے تو وہاں ٹھنڈک کی وجہ سے وہ ننھے ننھے پانی کے قطروں کی شکل اختیار کر گئے ۔ہر طرف صاف شفاف پانی کے ننھے ننھے قطرے تھے۔پاکیزہ اور پیارے پیارے قطرے۔وہ سبھی دنیا کے مختلف ممالک کے سمندوں ‘دریاؤں ‘تالابوں‘ جھیلوں اور گندے جوہڑوں سے سورج کی حرارت سے بخارات بن کر یہاں تک پہنچے تھے ۔یہاں سب برابر تھے ۔گندے جوہڑ سے آنے والا پانی بھی اسی قدر صاف ستھرا تھا جیسا کسی جھیل سے آنے والا پانی ۔ان پیارے پیارے قطروں میں ایک چھوٹا سا معصوم قطرہ حیرت سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھ رہا تھا ۔حد نگاہ تک بے شمار قطرے گردش میں تھے۔معصوم قطرہ پہلی بار آسمان کی وسعتوں میں آیا تھا۔وہ کچھ عرصہ پہلے تک زمین میں تھا۔وہ بانو کے صحن میں لگے ہینڈ پمپ کے ذریعے ایک بالٹی میں آیا تھا۔امی جان نے بانو کا خوبصورت فراک دھویا تو وہ فراک میں جذب ہو گیا ۔فراک بہت خوبصورت تھی۔نیلے نیلے پھولوں والی۔امی جان نے فراک کو خشک ہونے کے لئے دھوپ میں پھیلا دیا۔سورج کی فراک پر نظر تھی۔تھو ڑ ی ہی دیر میں گیلی فراک کا پانی معصوم قطرے سمیت بخارات کی صورت میں ہوا کے ساتھ اڑنے لگا ۔معصوم قطرے نے آخر ایک بڑے قطرے سے پوچھا۔
’’بھیا اب ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
’’زمین پر بارش بن کر۔‘‘
’’مگر کب۔‘‘
’’جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو گا۔لگتا ہے یہاں پہلی بار آئے ہو۔‘‘
’’ جی۔جی۔ پہلی بار آیا ہوں اسی لیے تو آپ سے پوچھ رہا ہوں ۔مجھے تو اتنی بلندی پر ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
’’ننھے بھیا گھبراؤ مت۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔میں بھی پہلی بار زمین سے یہاں آیا تو اسی طرح گھبرا رہا تھا۔اب تو کئی بار انسانوں کی خدمت کر کے یہاں آ چکا ہوں اللہ کا تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے ہمیں انسانوں کی خدمت کرنے کیلئے پیدا کیا ہے۔‘‘معصوم قطرہ بڑے قطرے کی باتیں بڑے غور سے سنتا رہا۔اب اس کا خوف جاتا رہا۔وہ دوسرے کے ساتھ خوشی سے ادھر ادھر حرکت کرنے لگا ۔یہ پاکیزہ قطرے کچھ عرصہ تک تو آسمان کی وسعتوں میں رہے آخر ایک دن انہیں کوچ کا حکم ملا ۔وہ سارے قطرے ایک سردار قطرے کی رہنمائی میں سیاہ بادل بنے زمین کی طرف بڑھنے لگے۔ان سب کو یہی حکم ملا تھا کہ جب تک سردار قطرہ بارش بن کر زمین پر نہیں جائے گا‘کوئی دوسرا قطرہ بھی ایسا نہیں کرے گا۔سردار آگے آگے تھا اور سبھی پیچھے پیچھے ۔وہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اڑنے کے بعد ایک شہر پر آن پہنچے ۔
وہاں جون کی جھلسا دینے والی گرمی تھی ۔جس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ چرند پرند کی زبانیں بھی منہ سے باہر تھیں ۔سبھی آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ان کی زبانوں پر بارش کے لیے دعائیں تھیں۔جب سیاہ بادل آسمان پر امڈ آئے تو سبھی کے بے رونق چہروں پر رونق آگئی۔ معصوم قطرہ آنکھیں پھاڑے شہر کی بلند و بالا عمارتیں دیکھ رہا تھا۔چند قطروں نے خوشی کا اظہار کیا کہ وہ پہلے بھی اسی شہر میں تھے اور سورج انہیں بخارات بنا کر آسمان پر لے گیا تھا۔معصوم قطرے کے لیے یہ شہر اجنبی تھا ۔ وہ اب حکم کے منتظر تھے ۔سردار قطرہ بھی ان کے ساتھ شہر پر منڈلا رہا تھا ۔ان سب کو اس وقت حیرت ہوئی جب سردار قطرے نے انہیں واپس آسمان کی وسعتوں کی طرف پرواز کرنے کا حکم دیا۔سارے قطرے حکم ماننے پر مجبور تھے ۔وہ انسانوں کے چہرے پر نا امیدی چھوڑ کر بن بر سے جہاں سے آئے تھے ‘ وہی واپس چلے گئے ۔
اگلے دن پھر سبھی سیاہ بادل بنے اسی شہر پر پرواز کرنے لگے ۔
’’اس بار تو ہمیں ضرور برسنے کا حکم مل جائے گا۔‘‘ معصوم قطرے نے بڑے قطرے کے کان میں سرگوشی کی ۔
’’ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔‘‘
معصوم قطرے نے باغ میں لگے درختوں پر جمی گرد اور مرجھائے ہوئے پتوں کو دیکھا تو اس کا جی چاہنے لگاکہ وہ تیزی سے درختوں پر برس جائے ۔وہ مجبور تھا ایسا کر نہیں سکتا تھا۔یہ سیاہ بادل تقریباً ایک گھنٹہ آسمان پر رہے پھر بارش کو اپنے ساتھ لیے واپس چلے گئے۔سارے پانی کے قطرے جھنجھلا سے گئے تھے۔دونوں بار وہ انسانوں ‘ جانوروں اور پودوں کو خوشی دئیے بغیر واپس آگئے تھے ۔سبھی قطرے حیران تھے کہ اتنے بڑے شہر میں سے کسی انسان کی دعا قبول نہیں ہو رہی تھی۔سبھی انسان بارش کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھے۔ہر نماز کے بعد بارش کے لیے خصوصی دعا ئیں مانگی جا رہی تھیں‘ جب بارش کے قطروں نے سردار قطرے سے بات کی تو اس نے کہا۔
’’میں بھی حکم کا غلا م ہوں۔جو مجھے حکم ملتا ہے وہ تمہیں دے دیتا ہوں ۔مجھے یہی حکم ملا ہے کہ ابھی اس شہر پر بارش نہیں برسانی۔‘‘
’’آخر کیوں۔؟‘‘ معصوم قطروں نے پوچھا۔ 
اس کیوں کا جواب تمہیں اس وقت ملے گا جب ہم اگلی بار اسی شہر میں بادل بن کر جائیں گے ۔تمہیں ہی کیا سبھی کو اس کا جواب مل جائے گا۔‘‘سردار قطرہ بولا۔
کچھ ہی دنوں بعد وہ دوبارہ بادل بنے شہر اور اس میں بسنے والے انسانوں کو تک رہے تھے ۔وہ تیسری بار اس شہر میں آئے تھے۔ سردار قطرے نے سبھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ 
’’وہ دیکھو کیسا کاروباری لین دین ہو رہا ہے۔‘‘
سب نے آنکھیں ایک دوکان پر لگا دیں ۔
’’باجی قسم لے لیں۔اصلی جاپانی سوٹ ہے۔ابھی کل ہی آیا ہے۔‘‘دکاندار بولا۔
’’یہ تو اپنے ہی ملک کا لگتا ہے۔‘‘خاتون نے کپڑے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ 
’’باجی مہر دیکھ لیں ۔جاپانی ہے جاپانی سوٹ۔‘‘ 
’’کیا قیمت ہے؟‘‘
’’صرف پانچ سو روپے۔رعایتی قیمت ہے…….. لے جائیں…….. تحفہ ہے تحفہ……..‘‘
’’تین سو روپیہ دوں گی…… ‘‘
’’تین سو روپے میں جاپانی سوٹ نہیں ملے گا…….. اس طرح کریں ساڑھے چار سو روپے دے دیں…….. ‘‘
آخر بحث وتکرار کے بعد سوا چار سو روپے میں ہو گیا۔جب خاتون سوٹ لے گئی تو دوکاندار نے پاس ہی بیٹھے ایک دوست کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’اڑھائی سو کا سوٹ چار سو روپے میں لے گئی …….. پہچان ہے نہیں اور چلی آئی جاپانی سوٹ لینے…….. ہمیں تو ایسے ہی گاہک چاہئیں…….. لگتا ہے آج بارش ضرور آئے گی ……..‘‘
’’نہیں آئے گی بارش……..‘‘ سردار قطرے نے غصیلے لہجے میں کہا ۔
اب وہ باقی قطروں کو لیے ایک دفتر میں جھانکنے لگا ۔
’’نہیں جناب آپ کا کام خاصا مشکل ہے…….‘‘ کالی رنگت والے ایک شخص نے اپنے سامنے بیٹھے گنجے سر والے آدمی کو مخاطب کیا ۔
ٍ ’’سب کچھ جناب کے اختیار میں ہے…….. آپ کے لیے کونسا کام مشکل ہے ۔میں فائل کو پہیے لگا دیتا ہوں ۔‘‘
’’ یہ بات آپ نے اچھی کہی …….. لگائیے …….. لگائیے پہیے…….. دیر مت کریں ۔‘‘
چند ساعتوں بعد فائل پر دستخط ہو چکے تھے ۔سائل کے جانے کے بعد کالی رنگت والا شخص بڑبڑایا۔
’’ ان روپوں سے مکان اونچا ہو جائے گا۔بارش میں خاصی دقت ہوتی ہے…….. لگتا ہے آج بارش لازماً ہو گی ……..‘‘
’’اونہہ ! نہیں ہو گی بارش…….. بڑا آیا بارش کی خواہش کرنے والا…….. ‘‘ سر دار قطرہ یہ کہہ کر حیرت میں گم قطروں کو لیے ایک جگہ پہنچا ۔
’’بھیا دیکھئے اس گھڑی کو کیا ہو گیا …….. چلتے چلتے رک گئی ہے۔‘‘ ایک نوجوان نے کہا۔
’’ابھی دیکھتا ہوں …….. ‘‘ یہ کہہ کر گھڑی ساز نے گھڑی کو کھولا‘ تھوڑی دیر اسے بغور دیکھنے کے بعد کہا ۔
’’ اس کی گراری ٹوٹ گئی ہے ۔‘‘
’’نئی گراری کتنے کی آئے گی؟‘‘
’’پچاس روپے کی۔‘‘
’’کچھ رعایت کر لیں گے ۔‘‘
’’چلئے پینتالیس روپے دے دیں ۔گھڑی کل ملے گی۔‘‘
’’آپ بے فکر ہو جائیے…….. گھڑی کل مل جائے گی ۔‘‘
نوجوان وہاں سے رخصت ہوا تو گھڑی ساز نے اپنے شاگرد سے کہا ۔
’’ابے اس گھڑی کو پیٹرول کا ایک برش مار کر ٹھیک ہو چکی گھڑیوں والے خانے میں رکھ دو۔‘‘
’’اور وہ اس گراری …….‘‘
’’بس …….. بس زبان بند رکھو……… جتنا کہا ہے اس پر عمل کرو……..اور یہ بورڈ اندر کر لو بارش آج لازماً ہو گی……..‘‘
سردار قطرہ بارش نہیں ہوگی کا کہہ کراپنے ساتھی قطروں کو لے کر وہاں سے رخصت ہو گیا ۔معصوم قطرہ حیرت زدہ تھا کہ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ننھے ننھے قطروں کی پاکیزہ نگاہیں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہ تھیں جو ایک کاغذ پر جھکا کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔اسی اثنا میں فون کی گھنٹی گونجی ۔ چند ساعتوں بعد ریسیور اس کے ہاتھ میں تھا۔
’’ہیلو…….‘‘
’’طارق صاحب خلیل وہاب عرض کر رہا ہوں……..‘‘
’’خلیل صاحب کیا حال ہیں ……..کل کا کالم پسند آیا …….‘‘
’’ جی …….جی ……..بہت پسند آیا ……..حضور کی یہی نظریں عنایت رہیں تو عوام میں ہماری گرتی ہوئی ساکھ بحال ہو جائے گی…….آپ کی طرف سے یہ تعاون جاری رہناچاہیے …….‘‘
’’آپ کی طرف سے بھی تعا ون جاری رہنا چاہیے ۔‘‘
’’ہاں …….ہاں …….میری طرف سے تعاون جاری رہے گا……..جس چیز کا کہیں گے پرمنٹ میں مل جائے گی۔‘‘
’’عنایت ہے جناب کی…….میرا تعاون آپ کے ساتھ رہے گا۔‘‘
’’آج کس موضوع پر کالم لکھنے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’ارادہ کیا ……..آدھا کالم لکھ بھی چکا ہوں……آج کا موضوع ……..جون کی قیامت خیز گرمی میں غریب لوگوں کی ہلاکت ہے…….بچارے غریب لوگ …….ہم تو اے سی میں گرمیوں کا سخت موسم گزار لیتے ہیں اور نادار لوگ سڑکوں پر مرتے ہیں ……بس آج بارش ہو جانی چاہیے ۔‘‘
’’بارش نہیں ہو گی ۔‘‘ سردار قطرہ دونوں کی پوری گفتگو سنے بغیر سیاہ بادلوں کو لیے آسمان کی طرف پر واز کر گیا۔‘‘
معصوم قطرے کو ’’کیوں ‘‘ کا جواب مل گیا تھا۔ اس کاننھا سا ذہن پریشان تھا کہ انسانوں کے کیے کی سزا جانوروں اور پودوں کو بھی مل رہی تھی ۔ وہ کئی دنوں تک آسمان پر اڑتے رہے ۔ایک دن جب سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔سردار قطرے نے انہیں مخاطب کیا۔
’’چلو ننھے ننھے پیارے پیارے پاکیزہ قطروں ………جلدی کرو ہمیں اس شہر پر بارش بن کر برسنا ہے جہاں سے ہم بن برسے کئی بار واپس آچکے ہیں ……..بس اب جلدی کوچ کا حکم ملا ہے۔‘‘
سارے قطرے تو پہلے ہی تیار تھے ۔وہ فوراً بادل بن کر شہر کی طرف اڑ نے لگے ۔معصوم قطرہ خوش تھا کہ شہر والوں کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں ۔جب وہ شہر کے اوپر پہنچے تو وہاں کے باسی ایک کھلے میدان میں نماز استسقاء (بارش کے لیے نماز )ادا کرنے کے بعد اپنے ہاتھ الٹے کیے دعا میں مصروف تھے۔ان کے گڑگڑانے کی آوا زیں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔
’’مجھے بتایا گیا ہے کہ ان سارے انسانوں میں سے صرف ایک انسان کی دعا قبول ہوئی ہے۔‘‘
’’صرف ایک انسان …….‘‘سردار قطرے کی بات سن کر سارے پاکیزہ قطروں نے یک زبان ہو کر کہا۔ 
’’ہاں صرف ایک انسان کی خاطر ہم بارش بن کر اس شہر میں آئے ہیں……ُُ‘‘
’’وہ انسان کون ہیں؟‘‘
’’مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ وہ انسان کون ہے مگر اتنا علم ہے کہ اس انسان کے پیٹ میں حلال کا لقمہ ہے ارشاد نبویﷺ ہے کہ’’جب آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتاہے تو اس کی وجہ سے اس کی چالیس دن کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔جو بندہ حرام سے اپنا گوشت بڑھاتا ہے، جہنم کی آگ اس کے انتہائی قریب ہوتی ہے۔‘ ‘ آؤ اسی نیک انسان کی خاطر بارش بن جائیں جس نے حلال روزی کھائی ہے۔……. آؤ جلدی کرو…….دعا قبول ہو چکی…….برسو…….رحمت بن کر……‘‘سردار قطرے کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ موسلا دھار بارش برسنا شروع ہو گئی۔معصوم قطرہ بھی بارش بن کر زمیں پر اتر آیا۔شہر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مرجھائے چہرے کھل اٹھے ۔ 
وسیم ایک میگزین میں کہانی پڑھ چکا تو جون کے حبس والے موسم میں اس کے کپڑے پسینے میں شرابور ہو چکے تھے ۔ ان کے شہر میں بھی سیاہ بادل کئی بار بن برسے واپس جا چکے تھے ۔وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے شہر میں بھی کسی کی دعا قبول نہیں ہوئی۔اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ 
’’اللہ میاں جی ہمارے شہر میں بھی اپنے صرف ایک پیارے بندے کی خاطر رحمت کی بارش برسا…….تیرے نیک بندے ہی تو اس زمین کے ہیرے ہیں۔اپنے کسی ایسے ہی ہیرے کی خاطر رحمت کے بادل بھیج دے ۔ہمارے شہر پر بارش برسا دے۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top