skip to Main Content
زمانے کا سفر

زمانے کا سفر

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بابرکت سفر کہ جس کے اثرات نے پورے زمانے کو اپنی جگہ سے ہلا کر رکھ دیا اورجسکی یاد میں اسلامی کلینڈرکی بنیاد رکھی گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئیے آ پکو دارالندوہ(مشورہ کرنے کی جگہ)لے چلیں جہاں قریش کے بڑے بڑے سردار موجود ہیں۔یہ کسی اہم مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ لوگ کسی بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں اور آج اس مشکل کو حل کر کے اٹھیں گے۔میٹنگ شروع ہونے والی ہے کہ ایک بزرگ دارالندوہ کے دروازے پر آکر کھڑا ہو گیا ہے۔سب کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں ہیں۔سرداروں کے پوچھنے پر وہ بتا ر ہا ہے کہ ’’میں علاقہ نجد کا رہنے والا ہوں۔مجھے پتا چلا ہے کہ آپ لوگ ایک انتہائی اہم مسئلے پر گفتگو کرنے والے ہیں۔اسی لئے میں بھی آگیا ہوں‘‘۔سب سردار خوشی سے اسے اندر بلا رہے ہیں۔یہ بزرگ وہی ہے کہ جو انسان کے پیدا ہوتے ہی لعنتی ہو گیا تھا۔اس اللہ کے دشمن کے ذلیل ہونے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی انسان کی پیدائش۔یہ بزرگ ’’ابلیس لعین‘‘ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قریش پر ایسی کونسی مشکل آپڑی ہے کہ شیطان مردود خود اپنے بھائی بندوں کے ساتھ مشورہ میں شامل ہونے آیا ہے۔مشکل یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والے اکثر لوگ مدینہ ہجرت کرکے جا چکے ہیں اور وہاں انکا مرکز قائم ہو گیا ہے۔اب قریش کویہ خطرہ لا حق ہو گیا ہے کہ اگر محمدﷺ بھی ہجرت کر جاتے ہیں تو مسلمانوں کی طاقت بڑھ جائے گی۔اور جب طاقت بڑھ گئی تو پھر مکہ بھی ان کے ہاتھوں سے دور نہیں رہے گا۔مشورہ شروع ہو گیا ہے۔ایک سردار کہہ رہا ہے کہ محمد(ﷺ)کے گلے میں رسی باندھ کر قید کردیا جائے۔دوسرا کہہ رہا ہے کہ اونٹ پر بٹھا کر شہر سے نکال دیا جائے۔پھر کہیں بھی جائیں ہمیں اس سے کیا۔ابلیس یہ باتیں سن کر چیخ پڑا ہے ۔لگتا ہے اسے بڑی تکلیف پہنچی ہے ۔وہ کہہ رہا ہے کہ’’ یہ کون سی باتیں ہیں؟اگر قید کروگے تو اسکے ساتھی اسے چھڑا کر لے جائیں گے اور شہر سے بھی نکال دو گے تو وہ جہاں جائیں گئے وہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیں گے۔اور پھروہ سب مل کر تم پر حملہ کردیں گے‘‘۔اب ابو جہل بولنے لگا ہے ۔یہ کہہ رہاہے کہ ’’سب قبیلوں کے سردار مل کر رات کو محمد( ﷺ) کے گھر پر حملہ کریں اور مل کر آپ پر تلواریں چلائیں ۔اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ قتل میں سب برابر کے شریک ہو جائیں گے اور محمد( ﷺ) کے قبیلے(عبدمناف)کیلئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اتنے سارے قبیلوں سے بدلہ لے ۔ہاں اگر وہ خون کا بدلہ (دیت)مانگیں گے تو سب مل کر دے دیں گے‘‘۔اس بات کو ابلیس سمیت سب نے پسند کیا ہے اور یہ طے پایاہے کہ آج کی رات ہی یہ کام کر لیا جائے۔

…….*****…….

اب آجائیے حضرت ابو بکرؓکے پاس ۔دوپہر کا وقت ہے ۔کوئی آکربتارہا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سرپرچادرڈالے آپ کے گھرکی طرف تشریف لا رہے ہیں۔ابو بکر ؓ فرما رہے ہیں کہ’’ اللہ کی قسم آج کوئی نئی بات ضرور ہے جو آپ ﷺ اس وقت تشریف لا رہے ہیں ورنہ آپﷺ تو ہمیشہ صبح کے وقت یا شام کو تشریف لاتے ہیں‘‘۔لگتا ہے کہ خدا کی ساری خدائی ابوبکرؓ کے دروازے پر آکھڑی ہوئی ہے ۔اوراب آپ ﷺ حضرت ابوبکرؓسے اجازت لے کر گھر کے اندرتشریف لے آئے ہیں۔نہ صرف یہ کہ تشریف لے آئے ہیں بلکہ حضرت ابو بکرؓ کیلئے دو خوشخبریاں بھی لائے ہیں۔
ایک تو یہ کہ اللہ کی طرف سے مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔حضرت ابو بکرؓ پوچھ رہے ہیں کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ!کیا مجھے بھی آپﷺ کے ساتھ جانے کی اجازت مل گئی ہے؟۔آپﷺفرما رہے ہیں’’ہاں!‘‘اوریہ دوسری خوشخبری ہے کہ آپؓ بھی میرے ساتھ ہوں گے یعنی مکہ میں تو آپ میرے ساتھی تھے ہی ،اب اللہ نے آپ کو میری ہجرت کابھی ساتھی بنا دیا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ خوشی سے رونے لگے ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے اس سے پہلے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ انسان کوخوشی سے بھی رونا آتا ہے۔آپ ﷺ ابو بکرؓ سے روانہ ہونے کا وقت طے کر کے واپس جا رہے ہیں۔

…….*****…….

اب آئیے مکہ میں آپ ﷺ کے گھرکے دروازے پر چلتے ہیں۔رات کا وقت ہے ،قریشی دروازے پر کھڑے ہیں کہ آپ ﷺنکلیں گے تو اپنا کام کریں گے مگر انہیں یہ معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کے نکلنے کا جو وقت تھا وہ سرداروں کے سر میں اور ابلیس کے منہ میں خاک ڈال کرنکل گیاہے۔ اور گیا وقت واپس نہیں آتا۔ اب تو آپ نہ جانے کہاں پہنچ گئے ہوں گے ۔اچانک ایک اجنبی آگیا ہے جو سرداروں سے پوچھ رہاہے کہ تم لوگ یہاں کیوں کھڑے ہو؟سرداراسے بتا رہے ہیں کہ محمد(ﷺ)کے نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔وہ کہہ رہا ہے کہ وہ اب تمہیں نہیں ملیں گے۔ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ لو جو وہ(محمدﷺ) تمہارے سامنے سے گزرتے ہوئے تمہارے سروں میں ڈال گئے ہیں اور تمہیں اندھا کر کے نکل گئے ہیں۔مگر کفار دروازے کی درزوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی شخص سویا ہوا ہے اور چادر بھی محمد(ﷺ)والی ہے ۔انہیں پوری امید ہے کہ یہ (محمدﷺ)ہی ہیں مگر وہ جب اٹھ کر بیٹھے ہیں تو علیؓ ہیں۔ اب یہ خالی ہاتھوں سے تالیاں تو پیٹ سکتے ہیں مگر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔

…….*****…….

آدھی رات کے بعد آپ ﷺ حضرت ابو بکرؓ کے گھرپہنچ کرانہیں ساتھ لے کرانکے گھر کی پچھلی کھڑکی سے نکل کر روانہ ہوئے۔اور اب یہ دو مسافر اللہ کے دین کیلئے اپنا وطن اور گھر بار چھوڑ کرمکہ سے چار پانچ میل دور پہاڑ( جبل ثور) پر پہنچ گئے ہیں ۔سامنے ایک غار ہے جو اَب غارِ ثور کہلاتا ہے۔حضرت ابو بکرؓ غار کے اندر داخل ہو کر صفائی کر رہے ہیں ۔ غار میں بہت سے سوراخ مو جود ہیں۔آپ اپنی چادر کو پھاڑ کر اس کے ٹکڑوں سے سوراخ بند کر رہے ہیں۔ کپڑا ختم ہو گیا ہے مگرایک سوراخ باقی ہے وہاں آپؓ نے اپنی ایڑھی رکھ دی ہے۔ اور سرورکونین ﷺکو بلارہے ہیں۔آپﷺ آکر ابوبکرؓ کی گود میں سر رکھ کر سو گئے ہیں۔آپ کیا سو گئے ہیں کہ ساری کائنات پر سکون چھا گیا ہے۔ اتنے میں جس سورخ پر حضرت ابو بکرؓنے پاؤں رکھا تھا اس میں سے سانپ نے نکل کر ابوبکرؓ کو ڈس لیا ہے مگر آپ ہلنا نہیں چاہتے کہ آپ کی گود میں انبیاء کے سردار کا سر ہے۔ابوبکرؓ ہلے تواللہ کے محبوب کی نیند اکھڑ جائے گی۔ اور یہی تو ابو بکر ؓ چاہتے نہیں ہیں مگر تکلیف سے ابوبکرؓ کے آنسو نکل کر سرورکونین ﷺ کے چہرے پر گرگئے ہیں۔کائنات حرکت میں آگئی ہے ۔ابوبکرؓ کے آنسوؤں نے نبوت کو جگا دیا ہے۔کائنات کے سب سے بڑا حکیم اور طبیبﷺ ابو بکرؓ کے پاس موجود ہیں اورپوچھ رہے ہیں کہ ابو بکرؓ کیا ہوا؟ابوبکرؓ بتا رہے ہیں کہ اے اللہ کے رسولﷺکالے نے کاٹ لیا ہے ۔آپ ﷺ نے منہ سے لعا ب نکال کرلگایا ہے اور سانپ کا کاٹا ٹھیک ہو گیا ہے۔

…….*****…….

صبح ہو گئی ہے ۔شور مچ گیا ہے کہ جو بھی محمد( ﷺ) کو ڈھونڈکر لائے گا اسے سو(۰۰۱)اونٹ انعام میں دئیے جائیں گے۔لوگ تلاش کیلئے نکل کھڑے ہوئے ہیں جن میں نشانات ڈھونڈنے والے اورکھوج لگانے والے ماہرکھوجی بھی ہیں۔زیادہ ترڈھونڈنے والوں کا رُخ مدینہ کے راستوں کی طرف ہے ۔مگر آپﷺ جس پہاڑ کے غار میں موجود ہیں یہ تومدینہ کے راستے کے بالکل اُ لٹ یمن کی طرف ہے۔ مگر پھر بھی تلاش کرنے والے وہاں پہنچ گئے ہیں۔ابوبکرؓ کو انکے پاؤں نظر آرہے ہیں۔حضرت ابو بکرؓ کہہ رہے ہیں کہ حضورﷺ وہ آگئے ہیں اورمجھے اندیشہ ہے کہ اگر انہوں نے ذرا سا بھی جھک کر جھانک لیا تو وہ آسانی سے ہمیں دیکھ لیں ۔آپ ﷺ ابوبکرؓ کو تسلی دے رہے اور فرما رہے ہیں ابوبکرؓ خاموش رہو۔’’ہم دو ہیں جنکا تیسرا اللہ ہے‘‘ یعنی اللہ ہمارے ساتھ ہے۔جو اللہ اپنے نبیﷺ کوگھر کے دروازے پرکھڑے دشمنوں کی قطار سے نکال لایا ہے وہ بھلا آنے والوں کو نیچے دیکھنے کی اجازت کیوں دیگا۔اور دیکھئے !یہ لوگ اس وقت ناکام جا رہے ہیں جب چند قدم کا فا صلہ رہ گیا تھا۔

…….*****…….

تین دن گزر گئے ہیں ۔ڈھونڈنے والے زیادہ تر تھک کر بیٹھ گئے ہیں۔اب آپﷺ اور ابوبکرؓ نے نکلنے کا ارادہ کیا ہے۔ٹھہرئیے!پہلے ان کو پہچا ن لیجیے۔یہ نوجوان حضرت عبداللہؓ بن ابو بکرؓہیں ۔تین دن سے یہ مکہ سے کفار کی باتیں اور سازشیں سن کر رات کو غار میں آکر بتاتے ہیں اور پھر رات گزارنے کے بعد صبح ہونے سے پہلے دوبارہ مکہ چلے جاتے ہیں تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔یہ ابوبکرؓ کی بیٹی اسماءؓ ہیں۔یہ حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن ہیں۔یہ دیکھئے یہ ناشتہ لیکر آئی ہیں۔دوسرے عامرؓ بن فہیرہ ہیں۔یہ حضرت ابوبکرؓ کے غلام ہیں۔انکا کام یہ رہاہے کہ بکریاں چراتے چراتے جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو یہ بکریوں کو غار تک لے آتے ہیں ۔جب حضور ﷺ اور ابوبکرؓ ان کا دودھ پی لیتے ہیں تو یہ بکریوں کو اس راستے پرواپس لے جاتے ہیں جہاں سے حضرت عبداللہؓ غار میں آتے ہیں تاکہ ان کے قدموں کے نشان مٹ جائیں۔اور یہ جو اونٹنیاں لے کر آرہاہے ۔اسکا نام عبداللہ ابن اریقط ہے ۔یہ قبیلہ بنو لیث سے ہے ۔یہ ہے تو کافر ہی مگر قابل اعتمادہے یہ پہاڑی اور صحرائی راستوں کا ماہر ہے ۔حضرت ابو بکرؓ نے ہجرت کیلئے جو دو اُنٹنیاں پالی تھیں۔وہ پہلے ہی اسکے حوالے کردی گئی تھیں اور اس سے معاوضہ طے کرکے اسکوبتا دیا گیا تھا کہ تین دن کے بعد اس جگہ آجائے۔اب آگے راستہ اسی نے بتانا ہے۔

…….*****…….

غار سے روانہ ہونے کے بعدعبدللہ ابن اریقط یمن کے راستے پر اونٹنیوں کو چلاتارہا۔وہاں سے ایک لمبا چکر کاٹ کراب یہ سمند کے کنارے ایک ایسے راستے پر چل پڑا ہے جس سے عام آدمی نہیں گزرتا ۔راستے میں ایسے لوگ بھی مل رہے ہیں جو حضرت ابو بکر ؓ کو جانتے ہیں کیوں کہ آپکا گزرتجارت کیلئے ہوتا رہتا ہے ۔پھر آپ عمر میں بھی حضور ﷺ سے بڑے ہیں اسی لئے جب بھی کوئی جاننے والا حضورﷺ کے بارے میں پو چھ رہاہے تو حضرت ابو بکرؓ جواب دے رہے ہیں کہ یہ مجھے راستہ دکھاتے ہیں۔اس سے آپکی مراد یہ ہے کہ یہ مجھے دین اورہدایت کا راستہ دکھارہے ہیں مگر پو چھنے والا یہ سمجھ کے چپ ہو جاتا ہے کہ مدینہ کا راستہ دکھارہے ہیں۔

…….*****…….

یہ سُراقہ ابن مالک ہے ۔اسے بھی انعام کے سو اونٹ چاہئیں۔ اسی لئے تویہ گھوڑا دوڑاتا ہو اآرہا ہے ۔آج ہی ایک مجلس میں اسے کسی نے بتایا تھا کہ محمد( ﷺ) اور ابو بکرؓ کو ساحل کے راستے سے مدینہ جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔اس نے یہ کہہ کراس شخص کو اطمینان دلایا کہ وہ دوسرے دو آدمی ہیں جنہیں میں جانتا ہوں ۔اس بات سے اس کا مقصد یہ تھا کہ مجلس میں اور بھی لوگ یہ بات سن رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے پہلے ہی کوئی پکڑ کر سواونٹ کا انعام وصول کرلے۔یہ مدینہ سے نکلا بھی چھپ کر ہے اور بڑی تیزی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا قریب پہنچ گیا ہے مگر یہ دیکھئے کہ یہ گھوڑے سے نیچے گر گیا ہے مگر یہ اُٹھ کر دوبارہ پیچھا کرنے لگا ہے ۔سواونٹ بھلا کوئی کم تو نہیں کہ یہ پیچھا کرنا چھوڑدے۔حضرت ابو بکرؓ کہہ رہے ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ یہ ہمیں پکڑنا چاہتا ہے ۔اور آپﷺ پھر تسلی دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ’’غم نہ کرو‘‘ ۔قریب پہنچ کر سُراقہ کے گھوڑے کی اگلی دو ٹانگیں زمین کے اندر دھنس گئی ہیں۔اب اسے یقین ہو گیا ہے کہ میں انہیں نہیں پکڑ سکتا اور یہ کامیاب بھی ضرور ہوں گے۔جبھی تویہ معافی مانگ کر اور اس بات کا وعدہ کر کے کہ وہ کسی کو نہیں بتائے گا جس تیزی سے آیا تھااسی رفتار سے واپس جا رہاہے۔سفر آہستہ آہستہ طے ہوتا جا رہا ہے ۔آگے چل کر دیکھئے !ایک خاتون خیمے کے باہر بیٹھی ہیں۔انکا نام ’’امّ معبد‘‘ہے یہ بہت بڑے دل والی خاتون ہیں ۔آنے جانے والے مسافروں کو کھلاتی پلاتی ہیں اور انکی خدمت کرتی ہیں ۔مگر آج ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ قحط کا زمانہ ہے۔یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم ضرور آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرتے مگر افسوس ک کچھ بھی نہیں ہے ۔خیمے کے ایک کونے میں ایک کمزور بکری کھڑی ہے ۔آپﷺام معبد سے اسکو دوہنے کی اجازت مانگ رہے ہیں اور وہ کہہ رہی ہیں کہ یہ اتنی کمزور ہے یہ کہاں سے دودھ دے گی پھربھی اگر آپ ﷺ دوہنا چاہتے ہیں تو ضرور دیکھ لیجئے۔سرورکونینﷺ کہ جن کے قدموں سے سارے جہان کی رحمتیں اور برکتیں ہیں اللہ سے دعاء کر کے خود دوہنے بیٹھے ہیں۔ایک بڑا برتن دودھ سے بھر گیا ہے ۔جسکو ام معبد سمیت سب نے پیا ہے ۔اب آپ نے دوسرے برتن میں دوہنا شروع کیا ہے اور یہ بھرا ہوا برتن ام معبد کے لئے چھوڑ کر آگے روانہ ہو رچکے ہیں۔ام معبد کے شوہر ابو معبد بکریاں چرا کر گھر واپس آگئے ہیں اور یہ پوچھ ر ہے ہیں کہ یہ دودھ کہاں سے آیا۔ام معبد بتا رہی ہیں کہ ایک با برکت شخص (ﷺ)ہمارے گھر میں آیا تھا ۔اور اسی نے خشک بکری سے یہ دودھ دوہا ہے۔ابو معبد اس با برکت شخص(ﷺ) کی نشانیاں پوچھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ وہی ہستی ہے کہ جس کے بارے میں قریش نے باتیں پھیلائی ہوئی ہیں اور جنہیں وہ لوگ ڈھونڈ رہے ہیں۔

…….*****…….

یہ مدینہ کے لوگ ہیں جنہیں آپ ﷺ کی روانگی کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی ہے اوریہ روزانہ اپنے نبیﷺکے دیدار اور استقبال کیلئے صبح سے ہی نکل کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔انتظار کرکر کے انکی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔یہ اس وقت تک کھڑے رہتے ہیں جب تک دھوپ تیز ہو کر ناقابل برداشت نہیں ہو جاتی۔آج بھی یہ انتظار کر کے جا چکے ہیں۔مگر ایک یہودی ٹیلے پر کھڑا دیکھ رہاہے ۔اس نے دیکھا ہے کہ سفید کپڑوں میں ملبوس مسافر آرہے ہیں ۔اس نے دیکھتے ہی شور مچا دیاہے کہ’’اے مدینہ والو! اب تمہاری انتظار کی تکلیف ختم ہو گئی ہے ،جس ہستی کی تم راہ دیکھا کرتے تھے وہ ہستی آرہی ہے‘‘۔ ایک شور مچ گیا ہے۔لوگ اپنے ہتھیار سنبھالے بیخود ہو کر دوڑے چلے آرہے ہیں۔تکبیر کی صدائیں لگاتے ہو ئے عوام استقبال کیلئے جمع ہو رہے ہیں۔پورا مدینہ شہر سے نکل آیا ہے۔آپﷺ پہنچ گئے ہیں۔دیکھنے والوں کے جسم جیسے سن ہو رہے ہیں اور ساری قوت آنکھوں میں آکر جمع ہو گئی ہے۔استقبال کرنے والوں سے حضرت ابو بکرؓ آگے بڑھ کر مل رہے ہیں جبکہ آپ ﷺ پیچھے بالکل خاموش ہیں۔جنہوں نے آپﷺ کو نہیں دیکھا وہ آآکر ابوبکرؓ سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔مگر ابو بکر دیکھ لیا ہے کہ سرورکونینﷺ پر دھوپ پڑ رہی ہے ۔اورانہوں نے آگے بڑھ کرآپﷺ پر چادر تان لی ہے۔اب لوگوں کو پتا چل گیا ہے کہ نبیﷺ کون ہے اور صدیق ؓ کون ہے۔یہ تھا وہ انوکھا اور شاندار سفر کہ جس کی یاد میں اسلامی کلینڈریعنی ہجری سال کی بنیاد رکھی گئی۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top