امید کا دیا
یاسمین حفیظ
۔۔۔۔۔
گلو ایک سات سال کا گول مٹول بچہ تھا… معصوم اور پیارا سا۔ ریلوے لائن کے متوازی بسی ہوئی بستی میں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بستی کیا تھی غربت، افلاس اور بیماریوں کی آماجگاہ تھی۔ چند ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیاں اور ان جھونپڑیوں میں سسکتی ہوئی زندگی تھی۔ مرد بستی کے چھوٹے چھوٹے کام کرتے تھے اور عورتیں چوڑیاں بیچتی تھیں۔ بعض عورتیں پوش علاقوںمیں جاکر گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھیں۔ گلو اور گلو کی ماں بھی اس بستی میں رہتے تھے… افلاس زدہ ماحول میں رہ کر بھی گلو کی ماں چاہتی تھی کہ گلو پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائے۔ گلو کی ماں جسے بنگلے والے مائی شریفہ کہتے تھے۔ اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اسے بے حد پسند کرتے تھے۔ شریفہ کو چوری سے نفرت تھی، کیونکہ چوری ایک بدفعل ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چور کا ہاتھ کاٹنے کے حکم کے ساتھ ساتھ انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا۔ وہ جھوٹ اور غیبت سے بھی پرہیز کرتی تھی۔ اس کی مالکن نے شریفہ کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اسے گھر میں آنے کی اجازت دے دی تھی، ورنہ بستی کی دیگر عورتوں کی طرح وہ بھی باہر کے حصے کی صفائی کرکے اُجرت لے کر گھر لوٹ آتی تھی۔ مالکن نے شریفہ کے صاف ستھرے لباس اور کام کی لگن دیکھ کر اسے اپنے اُترن اور باسی کھانے بھی دینے لگی تھی۔ بوسیدہ کپڑے اور باسی کھانے دے کر شاید وہ غریبوں کا خیال کرنے کا نیک عمل کررہی تھی۔ اللہ کو راضی کرنے کے لئے۔ اللہ تو تب راضی ہوتا ہے جب بندہ وہی دوسرے کے لئے پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے… اللہ نیتوں کو دیکھتا ہے، جو ہر عمل کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔
مالکن کی اس خدا ترسی سے شریفہ کے حالات کافی بہتر ہوگئے تھے۔ وہ صاف ستھری رہتی تھی۔ باسی ہی سہی مگر اچھے کھانے سے اس کی صحت بھی اچھی ہوگئی تھی۔ شریفہ بڑی دلجمعی سے کام کرتی تھی۔ مالکن اس کی اجرت اس کے ہاتھ میں دے دیتی اور وہ خوشی خوشی شام ڈھلے گھر لوٹ آتی تھی۔ مگر شریفہ کی خوشی دیرپا ثابت نہ ہوتی تھی… گلو کا ابا تنگ و تاریک گلیوں میں لڑکھڑاتے ہوئے آتا اور ساری رقم چھین کر لے جاتا۔
شریفہ کافی دیر تک روتی دھوتی رہتی اور پھر جھونپڑی کے ایک کونے میں پڑجاتی تھی۔ گلو کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ محنت کرتی تھی۔ اپنے گلو کے لئے، پیسے جمع کرنا چاہتی تھی، تاکہ وہ اسکول جاسکے۔ مالکن کے بچے بھی گلو کے ہم عمر تھے۔ یونیفارم پہن کر پانی کی تھرماس اور لنچ بکس ہاتھ میں لئے وہ بڑی سی گاڑی میں بیٹھتے تھے۔ مالکن انہیں پیار بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتی تھی تو وہ یہ منظر اپنی آنکھوں میں چھپا لیتی تھی۔ شریفہ کو اس منظر سے بڑا پیار تھا ۔بارہا اس نے بچوں کی جگہ گلو کو رکھ کر دیکھا تھا۔ وہ بھی اپنے گلو پر نثار ہوتی، نگاہ ڈال کر الوداعی کلمات ادا کررہی ہوتی تھی کہ گڈری میں چھپا ہوا کوئی کھٹمل اسے حقیقت کی سنگلاخ زمین پر لا پٹختا تھا۔ پھر وہ اپنی بوسیدہ سی جھونپڑی کے افلاس زدہ گھر میں پرسکون سوتے ہوئے گلو کو دیکھتی تھی۔ گلو سات سال کا گورا چٹا بچہ، اپنے سپنوں میں پریوں کے سنگ مسکراتا تو ماں کو اس پر بے تحاشا پیار آجاتا تھا… وہ اسے پیار کرتے ہوئے اپنے عزم کا اعادہ کرتی تھی۔
صبح شریفہ کے لئے کوئی خوشگوار نہ ہوتی تھی۔ وہ اپنے تھکے ماندے جسم کو گھسیٹ کر پھٹی ہوئی گڈریوں سے نکالتی… لکڑیاں جلا کر ناشتہ تیار کرتی اور دل کڑا کرکے گلو کے ابا کے سامنے ناشتہ رکھ دیتی تھی۔ وہ نشے میں جھومتا ہوا بغیر منہ دھوئے ناشتہ کرلیتا۔ اور شریفہ کراہیت سے منہ دوسری طرف پھیر لیتی تھی۔
بنگلے والی مالکن بڑی تیز طرار عورت تھی۔ شریفہ سے اس قدر کام لیتی تھی کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹنے لگتی تھیں۔ مگر گلو کو ایک خوشگوار مستقبل دینے کی لگن میں وہ سب کچھ برداشت کررہی تھی۔
وہ ایک خوشگوار سی صبح تھی۔ شریفہ کام میں جتی ہوئی تھی۔ آج مالکن نے اسے کچن میں بھی مصروف کردیا تھا۔ مالکن کا ماربل والا خوبصورت کچن دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تھی۔ اتنا صاف ستھرا اور خوبصورت کچن اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ مالکن نے اسے کبھی کچن میں جانے کی اجازت نہ دی تھی اور آج مالکن کا بھائی افضال صاحب ایک طویل عرصے کے بعد دوسرے شہر سے آرہا تھا۔
افضال کی ملازمت اسی شہر میں ہوگئی تھی اور وہ اپنی بہن کے پاس مستقل طور پر آرہا تھا۔ مالکن مسلسل اپنے بھائی کی تعریف و توصیف میں لگی ہوئی تھی… بھائی تو ہوتے ہی پیارے ہیں۔ محبت اور تحفظ کا احساس دینے والے… مالکن کی باتیں سن سن کر شریفہ بہت متاثر تھی۔ شام کے وقت آخرکار اس ہستی کا دیدار ہوا جس کے قصیدے مالکن سارا دن پڑھتی رہتی تھی۔ افضال ایک درمند اور ملنسار نوجوان تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں خوش اخلاقی نمایاں تھی۔ شریفہ کے سلام کا جواب اس نے انتہائی اخلاص سے دیا تو شریفہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ مالکن کا بھائی کیسا پیارا ہے۔ مخلص اور دردمند دل رکھنے والا۔
اس نے دل کی گہرائیوں سے افضال کے لئے بے شمار دعائیں کیں۔ افضال بابو اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ اس نے گلو کے لئے ڈھیر ساری ٹافیاں اور چاکلیٹ دیے تھے۔ شریفہ اسے دعائیں دیتی نہ تھکتی تھی۔ سورج ڈوبتے ہی وہ بچا ہوا کھانا اور سالن لے کر جھونپڑی میں لوٹ آتی۔ آج اُمید کا ایک جگنو اس کے اندر چمکا تھا۔ اندھیرے گھر میں آس کا دیا ہی کافی تھا۔ اسے جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ گلو کی زندگی میں ایک انقلاب بپا ہونے کو ہے۔ وہ بار بار گلو کو سینے سے لگاتی۔ گلو نیند میں کسمسا جاتا تھا۔ سورج کے اُبھرتے ہی وہ گلو کو صاف ستھرا لباس پہنا کر بنگلے میں لے آئی۔ مالکن نے گلو کو دیکھ کر بہت برا منایا…
’’ارے شریفہ آج تم کام کروگی یا بچے پالوگی…‘‘
’’نہیں تو ،بی بی جی یہ شرارتیں نہیں کرتا۔ بس میرے ساتھ رہے گا۔ ‘‘شریفہ نے گھبرا گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ اس کی بے چین نظریں افضال بابو کو ڈھونڈ رہی تھیں… دس بجے تک وہ کام کرتے کرتے بڑی بے قراری سے اوپر دیکھتی تھی جہاں بنگلے کے اوپر والے حصے میں افضال بابو ٹھہرے تھے۔ خدا خدا کرکے افضال بابو کا دیدار ہوا۔ وہ ناشتے کی میز پر آئے تو شریفہ نے فرش صاف کرتے ہوئے اُمید و آس سے کہا ’’افضال بابو… میں اپنا بیٹا گلو لے کر آئی ہوں۔ افضال بابو میں چاہتی ہوں وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائے۔ آپ جیسا قابل انسان بن جائے۔ افضال نے چونک کر اس خواب زدہ عورت کی طرف دیکھا، جس کی انگلیاں فرش رگڑتے رگڑتے فگار ہوچکی تھیں… کتنے خوبصورت خواب تھے اس عورت کے ۔غربت، بیماری اور لاچاری کے باوجود اپنے بچے کو ایک اچھا انسان بنانے کا سپنا اس کی آنکھوں میں تھا۔
’’ ہاں ہاں مائی شریفہ گلو ضرور پڑھے گا۔ لکھ پڑھ کر معاشرے کا کارآمد فرد بنے گا۔ ایک پکا مسلمان ایک سچا پاکستانی… دنیا کی صفوں میں پاکستان کا نام روشن کرے گا۔‘‘ افضال بابو نے گلو کو گود میں اُٹھایا۔ ’’آئو شریفہ میں اس کا داخلہ کرانے چلتا ہوں۔‘‘
شریفہ افضال بابو کے آگے بچھی جارہی تھی۔ اس نے جلدی سے چادر درست کی اور افضال بابو کے ساتھ چل پڑی۔ سیاہ بڑے سے گیٹ سے وہ گلو کو لے کر اندر داخل ہوئی۔ صاف ستھرے کوریڈورز، کھلے ہوادار کمرے جس میں طالب علم صاف ستھری یونیفارم پہن کر علم حاصل کررہے تھے۔ شریفہ کو سب کچھ اچھا اچھا لگ رہا تھا۔ افضال بابو نے گلو کا نام لکھوایا۔ شریفہ کی غربت، لگن اور علم کی پیاس کو دیکھتے ہوئے پرنسپل صاحب نے اس کی فیس کافی کم کردی تھی۔ شریفہ بہت ممنون تھی۔ اس کے لبوں سے دعائیں موتیوں کی لڑی کی طرح بکھر رہی تھیں۔ آج شریفہ کو اپنا کام بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہوگئی تھی۔
دوسری صبح بستی کے لوگوں نے حیرت سے دیکھا۔ گلو صاف ستھرا یونیفارم پہنے بستہ لٹکائے شریفہ کا ہاتھ پکڑے جارہا تھا۔ شریفہ کے وجود میں نئے عزم و ہمت کے چراغ روشن تھے۔ اب اسے اور بھی زیادہ محنت کرنا تھی… گلو کے لئے۔ گلو کو قابل انسان بنانے کے لئے۔ آسمان پر بکھرے بادل اس باہمت عورت کو سراہتے ہوئے اس پر سایہ فگن ہوگئے۔