skip to Main Content

ٹام سائر کے کارنامے

ناول: The Adventures of Tom Sawyer
مصنف: Mark Twain
مترجمہ: توراکینہ قاضی
۔۔۔۔۔
برالڑکا
’’ٹام!‘‘خالہ پولی نے اونچی آواز سے پکارا۔
کوئی جواب نہیں آیا۔
’’ٹام؟ ‘‘خالہ پولی نے پھر آواز دی لیکن پھر بھی انھیں کوئی جواب نہ ملا۔
’’ یہ لڑکا کہاں ہے آخر؟‘‘ خالہ پولی پریشان ہوگئیں پھر انھوں نے پہلے سے بھی زیادہ اونچی آواز میں پکا را۔’’ٹام!او، ٹام؟‘‘
اس مرتبہ بھی اپنی پکار کا انھیں کوئی جواب نہ ملا۔ انھوں نے اپنی عینک اتاری اور کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ پھر وہ کھلے ہوئے دروازے میں جاکر کھڑی ہوگئیں اور باہر باغ میں دیکھنے لگیں۔ ٹام کہیں بھی نہ تھا۔
  ’’ٹام… اوٹام!‘‘ انھوں نے اونچی آواز میں پکارا۔ اسی وقت انھیں اپنے پیچھے کچھ شور سا سنائی دیا۔ وہ تیزی سے گھومیں۔ ایک چھوٹا سا لڑکا بھاگتا ہوا ان کے قریب سے گزرا۔ انھوں نے فوراً ہی اسے پکڑ لیا۔
’’ اچھا! تو تم الماری میں چھپے ہوئے تھے؟ کیا کر رہے تھے تم وہاں؟‘‘ انھوں نے سختی سے لڑکے سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ۔‘‘
’’کچھ نہیں؟ ذرا اپنے ہاتھوں اور منھ کو تو دیکھو۔ یہ کیا لگا ہوا ہے ان پر؟ ‘‘
’’معلوم نہیں خالہ۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔ یہ جام ہے ۔میں تم سے کتنی ہی مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ تم جام کو ہرگز ہاتھ نہ لگایا کرو مگر تم سنتے ہی نہیں۔ادھر دو مجھے چھڑی۔‘‘ خالہ پولی نے چھڑی ہاتھ میں لیتے ہوئے بلند کی۔ اب ٹام کی مرمت ہونے والی تھی۔
  ’’ارے خالہ جان! ذرا اپنے پیچھے تو دیکھیے؟‘‘ وہ ایک دم چلایا۔
خالہ پولی ایک دم پیچھے گھوم گئیں۔ ٹام کے لیے اتنی مہلت کافی تھی۔ وہ ایک دم کمرے سے نکل کر بھا گا اور خرگوش کی سی پھرتی کے ساتھ باغ کی باڑ پھلانگ کر فورا ًہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
خالہ پولی لمحہ بھر کے لیے تو ہکا بکا رہ گئیں۔ پھر وہ ہنسنے لگیں۔ ’’کیا آفت کا پر کالہ ہے یہ لڑکا۔ یہ بہت ہی پاجی ہے۔ پکا شیطان ہے۔ یہ میرے ساتھ ایسی کئی چالاکیاں کر چکا ہے لیکن میں ابھی تک اسے سمجھ نہیں پائی۔ آج تو یہ ضرور اسکول سے غیر حاضر رہے گا مگر میں اسے چھوڑوں گی نہیں، میں کل اس سے خوب محنت کرواؤں گی اور سزا بھی ضرور دوں گی۔ ہفتے کے دن اس سے کام کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب اس کے سب دوست چھٹی منارہے ہوتے ہیں۔ اسے کام کرنے سے جتنی نفرت ہے اور کسی چیز سے نہیں مگر اب میں ہرگز اس سے کوئی رعایت نہیں برتوں گی۔‘‘ خالہ پولی نے اپنے آپ سے کہا۔
ٹام اس دن اسکول نہ گیا اور ادھر ادھر گھوم پھر کر سیرو تفریح کرتا رہا۔ پھر وہ چھوٹے حبشی لڑکے جم کی مددکرنے کے لیے وقت پر گھر پہنچ گیا اور اگلے دن کے لیے اس کے ساتھ مل کر لکڑیاں کاٹیں۔ یہ کام اس نے نہایت سستی اور بے دلی سے کیا۔ اس کا سوتیلا بھائی سڈ اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا تھا۔ وہ ہر دم اد ھم مچانے والے شرارتی ٹام کے مقابلے میں ایک خاموش اور سنجیدہ سالڑ کا تھا۔
جب ٹام کھانا کھا رہا تھا اور موقع پاکر شکر بھی چوری کرتا جارہا تھا تو خالہ پولی نے اس سے اس کی اس دن کی مصروفیات کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیتے۔ ’’کیوں ٹام۔ آج اسکول میں بہت گرمی تھی…ہے نا؟ ‘‘
’’ہاں خالہ۔‘‘
’’آج کا دن یوں بھی بہت گرم ہے۔‘‘
’’ہاں خالہ!‘‘
’’تمھارا دل کیا پیرا کی کونہیں چاہ رہا ٹام؟‘‘ ٹام کچھ بے چینی سی محسوس کرنے لگا۔ اس نے اپنی خالہ کی طرف دیکھا۔ مگراسے یہ نہ معلوم ہوسکا کہ وہ اس طرح کے سوالات کیوں کر رہی ہیں۔
’’نہیں خالہ۔ اس وقت تو نہیں چاہ رہا۔ ‘‘خالہ پولی نے اس کی قمیص اپنے ہاتھ سے چھوئی اور کہا: ’’تمھاری قمیص بالکل خشک تو نہیں معلوم ہوتی۔‘‘
’’ میں نے اور میرے چند ساتھیوں نے نلکے کے نیچے اپنے سروں پر پانی ڈالا تھا۔ ذرا ہاتھ لگا کر دیکھیے میرے بال ابھی تک گیلے ہیں ۔‘‘
  خالہ پولی کواب غصہ آنے لگا تھا کیوں کہ ٹام ابھی تک انھیں چکمے دے رہا تھا۔ پھر انھیں ایک نیا خیال سوجھا۔
’’ ٹام۔ تم نے اپنا سر بھگوتے ہوئے اپنی قمیص کا کالر تو ضرور اتار دیا ہوگا؟ ذرا اپنی جیکٹ تو اتاردو۔‘‘
اب ٹام کے چہرے پر پریشانی جھلکنے لگی۔ اس نے اپنی جیکٹ اتاری۔ اس کا کالراس کی قمیص کے ساتھ سِلا ہوا تھا۔ خالہ پولی نے گہری سانس لی۔
’’ آہ یہ کالر! میرا خیال تھا کہ تم آج اسکول نہیں گئے ہوگے بلکہ اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے پھرتے اور دریا میں تیراکی کرتے رہے ہوگے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ایسا سمجھنے میں میں غلطی پر تھی۔‘‘
لیکن سڈ کے پاس انھیں بتانے کے لیے دوسری بات تھی۔ اس نے کہا: ’’آپ نے ٹام کے کالر کو سفید دھاگے سے سیا تھا خالہ۔ اب دیکھیں یہ کالے دھاگے سے سلا ہوا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں… میں نے سفید دھاگے سے ہی اس کا کالرسیا تھا۔ ٹام…‘‘
لیکن ٹام باقی بات سننے کے لیے وہاں رُکا نہیں رہا، بلکہ بھاگ کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ بھاگتے ہوئے وہ سڈ کوگھونسہ دکھاتے ہوئے بولا: ’’میں تمہیں اس چغل خوری کا مزہ ضرور چکھاؤں گا سڈی۔‘‘
  ایک محفوظ جگہ پر جاکر ٹام نے اپنی جیکٹ کی جیب سے دوبڑی سوئیاں باہر نکالیں۔ ان میں سے ایک سوئی میں سفید دھا گا پڑا ہوا تھا اور دوسری سوئی میں سیاہ دھاگا۔’’ اگر سڈ نے چغلی نہ لگائی ہوتی تو خالہ پولی کا دھیان کبھی اس طرف نہ جاتا ۔وہ کبھی سفید دھاگا استعمال کرتی ہیں اورکبھی سیاہ۔ اگر وہ ایک ہی رنگ کا دھاگا استعمال کیا کریں تو اتنی مصیبت نہ ہو۔‘‘
٭٭٭
شام کا وقت ہورہاتھا۔ ٹام اپنی نئی سیٹی بجاتا ہوا گلی میں چلا جا رہا تھا۔ اس کی نئی سیٹی بہت اچھی تھی۔ اس نے سیٹی بجانا نیا نیا سیکھا تھا۔
پھر ایک دم ہی وہ سیٹی بجاتے بجاتے رک گیا۔ اس کے سامنے ایک عجیب سالڑ کا کھڑا تھا۔ وہ قدمیں اس سے لمبا تھا۔ اس چھوٹے سے غریب گاؤں سینٹ پیٹرز برگ میں نئے لوگ کبھی کبھار ہی دکھائی دیتے تھے۔ وہ نیالڑ کا اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے نکٹائی بھی لگا رکھی تھی۔ ٹام اسے گھورنے لگا۔ اسے اس لڑکے کے کپڑوں کے مقابلے میں اپنے کپڑے بے حد میلے اور گندے سے محسوس ہورہے تھے۔ وہ اسے گھورتا رہا۔ وہ لڑ کا بھی اسے گھور رہا تھا۔ پھر ٹام بولا:
’’میں تمھاری پٹائی کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’میں دیکھتا ہوں تم میری پٹائی کیسے کرتے ہو۔ ‘‘
’’ضرور دیکھو۔ میں تمھاری اچھی طرح سے مرمت کرتا ہوں۔‘‘
’’ تم ایسا ہرگز نہیں کر سکو گے۔ ‘‘
’’کیوں نہیں کر سکوں گا؟‘‘
’’بس میں کہتا ہوں۔‘‘
’’نہیں میں ضرور تمھاری پٹائی کروں گا ۔‘‘
’’ نہیں تم نہیں کر سکو گے۔ ‘‘
ٹام نے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے اسے گھورنے لگا۔ وہ لڑکا بھی اسے گھورنے لگا۔ پھر ٹام نے اس سے پوچھا۔’’ تمھارا کیا نام ہے؟‘‘
’’اس سے تمھیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ ‘‘
’’بس نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’ کیوں ؟تم کیا اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھتے ہو؟ میں چاہوں تو صرف ایک ہاتھ سے تمھیں مار مار کر تمھاری چٹنی بنا دوں۔ ‘‘
’’ذرا ایسا کر کے تو دیکھو۔ میں بھی دیکھتا ہوں۔ تم تو مجھے خوف زدہ دکھائی دیتے ہو۔ ‘‘
’’نہیں میں بھلا خوف زدہ کیوں ہونے لگا۔ ‘‘
’’نہیں تم خوف زدہ ہو۔ ‘‘
’’ نہیں میں ہرگز خوف زدہ نہیں ہوں۔‘‘
’’نہیں تم ہو ۔‘‘
ٹام نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ دونوں لڑکے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کو گھور نے لگے اور گھورتے گھورتے دائرے کی صورت میں چکر لگانے لگے۔ یونہی چکر لگاتے لگاتے وہ کوڑے کے ڈھیر کی طرف چلے گئے اور گندگی میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے اور ایک دوسرے کے بال نو چنے اور کپڑے پھاڑنے لگے۔پھر ٹام اس نئے لڑکے کو زمین پر گراکراس کے اوپر چڑھ بیٹھا اور اسے بے تحاشا گھونسے مارنے لگا۔’’ کہو میں نے کافی مار کھالی ہے۔‘‘اس نے کہا۔
نیالڑ کا اپنے آپ کو اس کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ غصے سے چیخ چلا رہا تھا۔
’’ کہومیں نے کافی مار کھالی ہے۔‘‘ ٹام بدستور اسے گھونسے مارتے ہوئے بولا۔ آخراس لڑ کے نے بڑی مشکل سے کہا:
’’ بس میں نے کافی مارکھالی ہے۔‘‘
ٹام اسے چھوڑ کر اٹھ گیا۔ ’’بس تمھارے لیے اتنا ہی سبق کافی ہے۔ تم اب ہمیشہ یاد رکھو گے کرکسی نے تمھاری گستاخی پر تمھاری اچھی طرح مرمت کی تھی۔‘‘
وہ لڑ کا زمین پر سے اٹھا اور اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا ایک طرف چل دیا۔ وہ بار بار مڑ کر ٹام کی طرف دیکھتا جارہا تھا اور اسے دھمکیاں دیتا جارہا تھا۔ پھر ٹام جب وہاں سے جانے کے لیے مڑا تو اس لڑکے نے پیچھے سے اسے ایک پتھر دے مارا جو ٹام کی کمر پر آکر لگا۔ وہ اس لڑکے کے پیچھے بھاگا۔ وہ لڑکا تیزی سے دوڑتا ہوا اپنے گھر میں گھس گیا۔ ٹام اس کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوکر اس کے باہر نکلنے کا انتظار کر نے لگا۔ مگر وہ لڑکا گھر سے باہر نہ نکلا اور اپنی کھڑکی میں کھڑا ہوکر اس کی طرف دیکھ دیکھ کر منہ چڑاتا رہا۔ پھر اس کی ماں باہر نکلی۔ اس نے ٹام کو خوب برا بھلا کہا اور اسے حکم دیا کہ وہ فوراً وہاں سے چلا جائے۔ اس رات ٹام خاصی دیر بعد گھر واپس پہنچا، جب وہ چپکے سے کھڑکی کے راستے اپنے کمرے میں داخل ہواتو وہاں اپنی خالہ کو اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا۔ انھوں نے اسے اتنی دیر تک گھر سے باہر رہنے اور کپڑے خراب کر لینے پر بہت ڈانٹ ڈپٹ کی پھر کہنے لگیں:’’ تمھاری سزا یہ ہے کہ ہفتے کے دن جب چھٹی ہوتی ہے تم کام کرو گے۔‘‘
٭٭٭
ہفتے کی صبح ٹام رنگ کی بالٹی اور ایک لمبے دستے والا برش لیے گھر سے باہر نکلا۔ اس نے باڑ پر نظر ڈالی اور ایک گہری سانس لی۔ وہ باڑ نو فیٹ اونچی اور تیس گز لمبی تھی۔ وہ اس وقت بہت ناخوش دکھائی دے رہا تھا۔ اسے اپنا کام ایک بھاری بوجھ سا محسوس ہورہا تھا۔ اس نے گہری سانس لی اور برش رنگ میں ڈبوتے ہوئے باڑ کے اوپری تختے کو رنگنے لگا۔ اس تختے کو رنگنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گیا اور باقی تختوں کو دیکھنے لگا۔ اسے ان کو بھی ابھی رنگنا تھا اور یہ کام اسے بہت مشکل دکھائی دے رہا تھا۔
اسی وقت جم ایک بالٹی اٹھائے گھر سے نکل کر دوڑتا ہوا اس طرف آگیا۔ وہ کنویں پر پانی بھرنے جارہا تھا۔ ٹام کو کنویں سے پانی بھر کر لانے کا کام دنیا میں سب سے زیادہ برا معلوم ہوتا تھا۔ مگر اب یہ کام ایک بہترین کام دکھائی دیا۔ کیوں کہ کنویں پر بہت سے لڑ کے لڑکیاں قطار میں اپنی باری کے منتظر کھڑے ہوتے تھے اور ٹام کو معلوم تھا کہ اس طرح جم کو اپنی باری آنے پر پانی بھرنے میں ایک گھنٹا لگ جایا کرتا تھا۔
’’جم؟‘‘ ٹام نے اسے آواز دی۔’’ اگر تم میری جگہ یہ تھوڑے سے تختے رنگ دو تو میں تمھاری جگہ پانی بھر کے لے آتا ہوں۔‘‘
جم نے سر کو جنبش دی۔ ’’میں یہ کام نہیں کر سکتا ٹام۔ تمھاری خالہ نے دیکھ لیا تو وہ مجھے ماریں گی۔‘‘
’’ نہیں وہ تمھیں کچھ نہیں کہیں گی۔ وہ کسی کو نہیں مارا کرتیں۔ وہ زبان کی سخت ضرور ہیں لیکن ان کی باتیں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتیں ۔ اگر تم میرا کام کر دو تو میں تمھیں شیشے کی ایک گیند دوں گا۔‘‘
جم کی آنکھوں میں دل چسپی کی چمک پیدا ہوگئی۔
’’یہ سفید شیشے کی گیند ہے جم ۔‘‘
جم نے اپنی بالٹی زمین پر رکھ دی اور ٹام سے وہ گیند لے لی۔ پھراچانک وہ اپنی بالٹی اٹھا کر کنویں کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔ ٹام نے دانت پیسے ہوئے آہستہ سے برا بھلا کہا اور برش اٹھا کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ وہ کافی دیر تک باڑ کو رنگتارہا۔ اسے اب تھکاوٹ سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسے وہ کھیل یاد آنے لگے تھے جن کا اس نے اس دن پروگرام بنا رکھا تھا۔ اسے یہ خیال بھی تکلیف پہنچا رہا تھاکہ جلد ہی اس کے ساتھیوں کو پتا چل جائے گاکہ اسے کام پر لگا دیاگیا ہے اور وہ وہاں آکر اس کے اوپر ہنسنا اور اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیں گے۔ پھر فوراً ہی اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے اپنا برش اٹھایا اور کام شروع کر دیا۔ اسی وقت بین راجر اس طرف سڑک پر آ نکلا۔ وہ سیب کھارہا تھا اور بڑا اکڑا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اسے کسی بحری جہاز کا کپتان بننے کا بڑا شوق تھا۔ وہ ویسے بھی اپنے آپ کو ایک بحری جہاز کا کپتان ہی سمجھتا تھا اور ہروقت یوں اداکاری کیا کرتا تھا جیسے وہ کسی جہاز کے عرشے پر کھڑا ہو اور اپنے عملے کو ہدایات دے رہا ہو۔ وہ چلتے چلتے باڑ کے اس طرف آکر کھڑا ہوگیا جہاں ٹام برش سے تختے رنگنے میں مصروف تھا اور یوں بولنا شرو ع ہوگیا:
’’ روکوا سے۔ واپسی کے لیے جہاز کا رخ موڑو۔ دائیں طرف۔ دائیں طرف ۔‘‘ وہ اپنے بازوئوں کو سر کے اوپر دائرے کی صورت میں گھمانے لگا۔’’ بس اب ٹھیک ہے۔ تھوڑا چکر دو۔ ہاں اب انجن بند کر دو۔ ہاں اب لنگر گرادو ۔‘‘
ٹام اس کی طرف توجہ دیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہا۔ بین را جرا سے دیکھتا۔ ٹام نے اپنا برش رکھ دیا اور تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر رنگ کیے ہوئے تختوں کو ایسی تعریفی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کوئی مصور اپنی بنائی ہوئی تصویر کو دیکھتا ہے۔ پھراس نے ایک جگہ تھوڑا سا رنگ اور کیا اور پیچھے ہٹ کراسے دیکھنے لگا۔ بین راجراس کے قریب آیا اور بالکل پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں سیب دیکھ کر ٹام کے منہ میں پانی بھر آیا۔ لیکن وہ خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔
’’ہیلو!‘‘ بین بولا ۔’’ تم کام میں لگے ہو؟ ‘‘
’’ہیلو بین۔ یہ تم ہو؟ ‘‘ٹام نے حیرت ظاہر کی۔ ’’معاف کرنا !میں نے تمھیں نہیں دیکھا۔ ‘‘
’’میں پیراکی کے لیے جارہا ہو۔ کیا تم میرے ساتھ نہیں چل سکتے؟ ہاں تمھیں اتنا بہت سا کام جو کرنا ہے۔‘‘
  ٹام بدستور اپنا کام کرتا رہا۔ پھر بولا: ’’یہ کام واقعی ٹام سائر کے شایان شان ہے۔ ‘‘
’’یعنی تم اسے پسند کرتے ہو؟ عجیب ہی بات ہے ۔‘‘ٹام کا برش بدستور حرکت کرتا رہا۔
’’ہاں کیوں؟ بھلا میں اس کام کوکیوں نہ پسند کروں؟ کسی لڑکے کو ایک باڑ پر رنگ کرنے کا موقع روز روز تو نہیں ملا کرتا۔‘‘
بین سیب کھاتے کھاتے رک گیا۔ ٹام تختوں کو رنگتا رہا اور ادھر ادھر رنگ کی دوسری تیسری تہ جماتا رہا۔ بین اس کی ہر حرکت کو بغور دیکھتا رہا۔ اسے ٹام کا کام بہت دل چسپ معلوم ہونے لگا تھا۔ پھراس نے ٹام سے کہا:
’’ٹام!مجھے بھی تھوڑا سا رنگ کر لینے دو۔ ‘‘
’’ نہیں بین۔ خالہ پولی اسے ہرگز پسند نہ کریں گی۔ یہ باڑ گھر کے سامنے والی ہے اگر عقبی باڑ ہوتی تو میں اس پر رنگ کرنے کی اجازت دے دیتا۔ اس باڑ کو انتہائی احتیاط سے اور اچھی طرح سے رنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خالہ پولی مطمئن ہوسکیں۔ میرے خیال میں ہزار دو ہزار لڑکوں میں بھی کوئی لڑکا ایسانہیں جو اس باڑپر ایسی عمدگی اور خوب صورتی کے ساتھ رنگ کر سکے۔‘‘
’’ واقعی !‘‘ بین حیرت سے بولا ۔’’نہیں میں یہ بات نہیں مانتا۔ لاؤ برش مجھے دو میں تمھیں دکھا دیتا ہوں کہ میں کس عمدگی اور خوب صورتی کے ساتھ باڑ کو رنگ سکتا ہوں ۔‘‘
’’ تم واقعی ایسا کر سکتے ہو بین۔ ‘‘ٹام بولا۔ ’’لیکن یادرکھنااگرتم سے کوئی غلطی ہوگئی تو خالہ پولی سخت ناراض ہوں گی۔‘‘
’’ میں بہت احتیاط کے ساتھ اپنا کام کروں گا۔ لاؤ تم برش مجھے دے دو میں تمھیں اپنے سیب کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔‘‘
’’ لیکن خالہ پولی…‘‘
’’تم میرا پورا سیب لے لو۔‘‘
  ٹام نے اسے برش دے دیا۔ جب تک بین راجر تختوں پر رنگ کرتا اور دھوپ میں جلتا رہا ،ٹام ایک درخت کے سائے میں بیٹھا مزے لے لے کر اس کا دیا ہوا سیب کھاتا رہا۔ اس دوران کئی دوسرے لڑکے بھی آکر باڑ کے قریب کھڑے ہوگئے۔ ٹام انھیں بے وقوف بنا کر اپنا کام نکلوانے کا منصوبہ بنانے لگا۔ چناں چہ جب بین راجر رنگ کرتے کرتے تھک گیا تو اس نے برش اس سے لے کر بلی فشر کو دے دیا اور اس سے اس کی پتنگ لے لی۔ پھر جب فشر کام کرتے کرتے تھک گیا تو اس نے اس سے برش لے کر ایک اور لڑکے، جانی ملر کو دے دیا اور اس سے وہ مردہ چوہا لے لیا جس کی دم میں اس نے دھا گا باندھ رکھا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ ٹام اس طرح لڑکوں کو بے وقوف بنا بنا کر ان سے باڑ کے تختوں پر رنگ کرواتا رہا اور اس کے بدلے ان سے مختلف چیزیں بٹورتا رہا۔ شام ہوتے ہوتے اس کے پاس ان چیزوں کا اچھا خاصا ڈھیر جمع ہوگیا۔ اس ڈھیر میں بارہ کنچے، نیلے رنگ کے شیشے کا ایک ٹکڑا، ایک چابی جس سے کوئی تالا نہ کھل سکتا تھا،چاک کا ایک ٹکڑا، ایک چھوٹی سی بوتل، ایک ٹین کا سپاہی، چند مچھلیاں، چھے دیا سلائیاں، ایک کانابلی کا بچہ، ایک کتے کا پٹہ، ایک چاقو کا دستہ،مالٹے کے چھے چھلکے اور اس کا ایک ٹکڑا شامل تھے۔ وہ دن اس نے بڑی مصروفیت میں گزارا تھا۔ وہ سارے دن بہت سے لڑکوں سے باتیں کرتارہا تھا اور انھیں باڑ کو رنگنے کے بارے میں ہدایات دیتا رہا تھا۔ اب ساری با ڑ رنگی جاچکی تھی۔ اس پرتین مرتبہ رنگ پھیرا جاچکا تھا۔ اب وہ چاہتا تھا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلے کو دے اور کچھ سیرو تفریح کرے۔ وہ گھر کے اندر گیا۔ خالہ پولی پچھلے کمرے میں بیٹھی سوئٹر بن رہی تھیں۔
’’خالہ کیا میں اب کھیلنے کے لیے چلا جاؤں؟ ‘‘اس نے ان سے پوچھا۔
’’ کیا؟ اتنی جلدی ؟ تم نے کتنا کام کرلیا ہے؟‘‘
’’میں نے کام ختم کرلیا ہے خالہ۔‘‘
’’جھوٹ مت بولو ٹام۔ مجھے جھوٹ سے نفرت ہے۔‘‘
’’خالہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ میں نے واقعی سارا کام کر لیا ہے۔‘‘
خالہ پولی نے اس کی بات کا یقین نہ کیا اور باڑ دیکھنے کے لیے باہر نکل آئیں۔جب انھوں نے ساری باڑ ایسی عمدگی سے رنگی ہوئی دیکھی تو وہ حیران رہ گئیں۔
’’ہوں، تو جب تمھارا موڈ ہوتم کام کر ہی لیا کرتے ہو؟ ‘‘وہ بولیں۔ ’’ہاں اب تم کھیلنے کے لیے باہر جا سکتے ہو ۔‘‘
وہ ٹام کے کام سے اتنی خوش ہوئی تھیں کہ انھوں نے ایک سیب الماری سے نکال کراسے دیا۔ ٹام سیب لیے باہر بھاگ گیا۔ عقبی سیڑیوں پر اس نے سڈ کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کے قریب ہی مٹی کے ڈھیلے پڑے تھے۔ ٹام نے مٹھیاں بھر کر وہ ڈھیلے سڈ کے سر پر گرا دیے اور باڑ چھلانگ کر گھرسے باہر بھاگ گیا۔ اب وہ بہت خوش تھا کیوں کہ اس نے سڈ کو اس کی چغل خوری کی اچھی سزا دے دی تھی۔
ہکل بیری فن
اگلے دن ٹام کو سن ڈے اسکول میں حاضری دینی تھی اور گرجا میں پادری صاحب کا وعظ سننے بھی جانا تھا۔ اسے ان دونوں ہی باتوں سے شدید نفرت تھی۔ اسے اچھے کپڑے پہن کر گرجا جانا سخت ناپسند تھا اور اس دن اسکول میں اس کا تمام وقت لڑکیوں کے بال کھینچنے اورنت نئی شرارتیں کرنے میں گزرتا تھا جس پر اسے ماسٹر صاحب سے خوب سزا ملاکر تی تھی۔
ساڑھے دس بجے سب بچے قطار بنا کر گرجا میں داخل ہو گئے اور اپنے والدین کے پاس جاکر بیٹھ گئے۔ ٹام کو ایسے ماحول میں اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ان کی تقریروں کے دوران اس کا دھیان دوسری ہی باتوں میں لگا رہتا تھا۔
اس صبح وہ اپنے ساتھ ایک بڑا سا سیاہ رنگ کا بھونرا گرجا میں لے آیا تھا۔ اس نے اسے ایک ڈبیا میں بند کر کے اپنی جیب میں رکھا ہوا تھا۔ پادری صاحب کا وعظ ایسا خشک اور غیر دل چسپ تھا کہ اسے سنتے سنتے بہت سے لوگ اپنی کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے سو گئے تھے۔ ٹام نے ڈبیا اپنی جیب سے نکالی اور اس کا ڈھکنا کھول دیا۔ ڈھکنے کے کھلتے ہی بھونرے نے اس کی انگلی پر کاٹ کھا یا ۔ٹام نے ڈبیا دور پھینک دی اور اپنی وہ انگلی فورا ًہی منھ میں ڈال لی۔ بھونرا ڈبیا سے نکل کر پیٹھ کے بل فرش پر گر پڑا اور اب سیدھا ہونے کے لیے ٹانگیں چلا رہا تھا۔ ٹام اسے دوبارہ ڈبیا میں بند کر دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ اس کی نشست سے کافی دور فرش پر پڑا تھا۔ ٹام کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں کی نظر بھی بھونرے پر پڑ گئی تھی اور وہ سب اب اسے دل چسپی سے دیکھنے لگے تھے۔
پھر ایک چھوٹا ساکتے کا پلا دوڑتا ہواگرجا میں داخل ہوگیا۔ اس نے جب بھونرے کو دیکھاتو دم ہلاتے ہوئے اس کے گرد چکر کاٹنے لگا اور اس سے کچھ فاصلے پر رہتے ہوئے اسے زور زور سے سونگھنے لگا۔ پھر وہ اس کے قریب آتا گیا اور اسے سونگھتے ہوئے اس کے گر دچکر کاٹتاگیا۔ پھر اس نے اپنی ناک بھونرے کے بالکل قریب کر دی اوراسی وقت بھونرے نے اسے کاٹ کھایا۔ کتے کے پلے نے ایک زور کی چیخ ماری اور زور زور سے اپنا سر جھٹکنے لگا۔ بھونرا اپنی جگہ سے اڑ کر وہاں سے دوفٹ دوراپنی پیٹھ کے بل جا کر گر گیا اور سیدھا ہونے کے لیے زور زور سے ٹانگیں چلانے لگا۔ یہ مضحکہ خیز نظارہ دیکھنے والوں نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لیے اپنے منھ پر رومال رکھ لیے۔ اب کتے کا پلا اپنے پنجوں کی مدد سے بھونرے پر حملہ آور ہوگیا۔ اس نے بھونرے پر خوب چھلانگیں لگائیں اور اپنے پنجوں سے اسے خوب مارا۔ یہاں تک کہ بھونرا بے جان سا ہوگیا۔ کتے کے پلے نے اپنے پنجوں سے اسے بہت ہلایا جلایا لیکن بھونرا شاید مر چکا تھا۔ اس پر کتے کا پلا اسے چھوڑ کر ایک چیونٹی کے تعاقب میں روانہ ہوگیا مگر جلد ہی وہ اس کھیل سے اکتا گیا۔ اس نے تھکاوٹ سے جمائی لی اور بے دھیانی میں بے حس و حرکت پڑے ہوئے بھونرے کے اوپر بیٹھ گیا۔
دوسرے ہی لمحے اس نے ایک زور دار چیخ بلند کی اور شدید تکلیف کے عالم ادھرادھر دوڑنا شروع کر دیا۔ پھراس نے تیزی سے پادری صاحب کے سامنے سے گزرتے ہوئے کھڑکی سے باہرچھلانگ لگادی۔ اس کی دکھ بھری چیخیں آہستہ آہستہ دور ہوتی گئیں۔
گرجا میں موجود سب لوگوں کے چہرے ہنسی روکنے کی کوشش میں سرخ ہورہے تھے۔ پادری صاحب بھی اپنی تقریر کرتے کرتے رک گئے تھے۔ پھر انھوں نے نیکی اور بدی کے موضوع پر دوبارہ تقریر شروع کر دی، مگراب کسی کو ان کی اس تقریر میں دل چسپی نہیں رہی تھی۔
ٹام جب گرجا سے گھر واپس پہنچا تو وہ بڑا خوش تھا۔ صبح گرجا میں جو کچھ ہوا تھا اس پر ٹام کو بہت لطف آیا تھا۔ البتہ اس بات کا افسوس تھا کہ اس نے کتے کے پلے کو اپنے بھونرے سے کھیل لینے دیا اور بھونرا بھی بعد میں مرگیا۔
پیر کی صبح کو ٹام کا موڈ ہمیشہ بگڑا ہوا ہوتا تھا کیوں کہ اس دن سے اسکول کا نیا ہفتہ شروع ہوتا تھا۔ اس کا دل بستر سے اٹھنے کو نہ چاہ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش! وہ اس دن بیمار ہوجاتا۔ اس طرح اسے اسکول نہ جانا پڑتا لیکن یہ افسوس ہی کی بات تھی جو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ پھر اچانک اسے ایک خیال سوجھ گیا۔ اس کا اوپر کا ایک دانت ہل رہا تھا اور اس سے اسے تکلیف بھی ہوتی تھی۔ وہ دانت کی تکلیف سے چیخ چلا کر اپنے آپ کو بیمار بناکر وہ دن گھر پر گزارسکتا تھا لیکن پھراسے ایک بات یاد آگئی۔ اس نے اگر خالہ پولی سے دانت کی شکایت کی تو یہ ضرور اس کا یہ دانت نکال دیں گی اور اس طرح اسے بہت زیادہ تکلیف سہنی پڑے گی۔ چناں چہ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے ہلتے ہوئے دانت کے بجائے دکھتے ہوئے پاؤں کے انگوٹھے کی تکلیف کا بہانہ کر کے اسکول جانے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چناں چہ وہ بستر پر لیٹے لیٹے زور زور سے ہائے وائے کرنے اور کرا ہنے لگا۔ اس کے کراہنے اور ہائے وائے کی آواز جب بلند سے بلند تر ہونے لگی تو سڈ جو اس کے ساتھ ہی اسی کمرے میں سویا کرتا تھا ،جاگ اٹھا۔ وہ اپنے بستر سے اٹھ کر ٹام کے بستر کے پاس آیا اور بولا:
’’کیا بات ہے ٹام؟ ‘‘
’’اوہ سڈ، مجھے ہاتھ مت لگانا۔‘‘
  ’’کیوں؟ بات کیا ہے؟ میں خالہ کو بلاتا ہوں۔‘‘
’’نہیں ایسا نہ کرو ۔میں جلد ہی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ تم کسی کو نہ بلائو۔‘‘
’’ تم بہت تکلیف میں دکھائی دیتے ہو ٹام۔ مجھے ضرور خالہ کو بلانا چاہیے۔‘‘
’’ میرا کہا سنا معاف کر دیناسڈ۔ میرا خیال ہے میں اب مرنے لگا ہوں۔‘‘
’’ نہیں ٹام،نہیں! تم نہیں مروگے۔ پلیز ٹام۔ تم ابھی نہ مرنا۔‘‘
’’ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں سڈ۔ میں سب کو معاف کر رہا ہوں، سب کو چاہیے کہ مجھے معاف کر دیں۔‘‘
سڈ فوراً ہی کمرے سے بھاگا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے جاپہنچا۔
’’خالہ پولی !خالہ پولی!‘‘ وہ چلایا۔’’ کہاں ہیں آپ جلدی آئیے۔ ٹام مر رہا ہے؟‘‘
’’مر رہا ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں! جلدی کیجیے، خدا کے لیے جلدی سے اوپر آئیے۔‘‘
’’احمق نہ بنو۔میں ہرگز اس بات کا یقین نہیں کرسکتی ۔‘‘خالہ پولی بولیں لیکن پھروہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کرا و پر جا پہنچیں۔سڈ اور اس کی بہن میری بھی اس کے پیچھے پیچھے اوپر آگئے۔ خالہ پولی نے ٹام کے قریب پہنچ کر غور سے اُسے دیکھا۔’’ کیا بات ہے ٹام؟ تم نے صبح ہی صبح سب کو کیوں پریشان کر دیا ہے؟‘‘
’’اوہ خالہ۔ یہ میرے پاؤں کا انگوٹھا ہے۔ شاید یہ مردہ ہوچکا ہے۔ ‘‘
’’کیا حماقت ہے! صرف اتنی سی بات کے لیے تم نے سب کو پریشان کردیا۔ چلو نکلوبستر سے اور تیار ہوکر اسکول جاؤ۔‘‘
’’ لیکن خالہ پولی !میرے پاؤں کاانگوٹھا۔اس میں اتنی تکلیف ہورہی ہے کہ میں اپنے دانت کا درد بھول گیا ہوں۔‘‘
’’دانت؟ کیا ہوا ہے تمھارے دانت کو؟‘‘
’’یہ ہلتاہے اور تکلیف دیتا ہے۔ ‘‘
’’اچھا۔ ذرا اپنا منھ کھولو۔ میں دیکھتی ہوں ۔‘‘خالہ پولی نے کہا۔’’ ہاں تمھارا یہ دانت واقعی ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ لیکن صرف اس وجہ سے تم ہرگز نہیں مرو گے۔ میری! جاؤ جاکر ریشمی دھاگہ لائو اور چولہے سے ایک کوئلہ بھی نکال لائو۔‘‘
  ’’اوہ خالہ پولی۔ اس دانت کو ہرگز نہ نکالیے یہ اب بالکل ٹھیک ہے۔ اچھی خالہ اسے رہنے دیجیے۔ مجھے اب کوئی تکلیف نہیں ہو رہی ہے۔ ابھی تیار ہوکر اسکول جاتا ہوں۔‘‘
’’ اچھا تو یہ تماشاتم نے اسکول جانے سے بچنے کے لیے کیا تھا کہ تم گھر پر رہواور دریاپر مچھلیاں پکڑنے چلے جاؤ۔ تم بہت برے لڑکے ہو ٹام!‘‘
اسی وقت میری دھاگا اور کوئلہ لیے اوپر آگئی۔ خالہ پولی نے ریشمی دھاگے کا ایک سراٹام کے ڈھیلے دانت سے باندھا اور دوسرا سرا پلنگ کے پائے سے باندھ دیا۔ پھر وہ گرم کوئلہ لے کراسے ٹام کے منھ کے قریب لے گئیں۔ ٹام نے جلدی سے اپنا منہ پیچھے کیا اور ہلتاہوا دانت فوراً ہی ٹوٹ کر باہر آگیا۔
پھر اس صبح جب ٹام اسکول جا رہا تھا تو اسے راستے میںہکل بیری فن ملا۔ ہک ایک آوارہ گرد لڑکا تھا۔ اس کی ماں مرچکی تھی اور اس کا باپ شرابی تھا۔ سب گاؤں والے اس سے بے زار تھے۔کیوں کہ وہ سست ،نکما اور ان پڑھ لڑ کا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو اس کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ٹام کو بھی خالہ پولی نے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ وہ ہرگز ہک کے ساتھ نہ کھیلا کرے۔ مگر ٹام کو وہ لڑکا اچھالگتا تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اس کے دل میں اکثر یہ خواہش پیدا ہواکرتی تھی کہ کاش !وہ بھی کبھی ہک کی طرح آزادی اور بے فکری کی زندگی گزار سکے۔
ہکل بیری ہمیشہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے رہتا تھا جو اس کے جسم پر پورے بھی نہ آتے تھے۔اس کے سر پر ایک میلا کچیلا ساہیٹ، پاؤں میں پھٹے پرانے جوتے ہوتے تھے۔ جب موسم اچھا ہوتا تھا تو وہ رات کو لوگوں کے گھروں کے دروازوں کے باہر سو جایا کرتا تھا۔ برسات کے موسم میں اس کی راتیں ایک لکڑی کے بڑے سے خالی بکس میں بسر ہواکرتی تھیں۔ وہ نہ اسکول جاتا تھا نہ گرجا۔ اس کا جب دل چاہتا تھا وہ دریا میں تیرنے اور مچھلیاں پکڑنے چلا جاتا تھا۔ وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا تھا۔ گاؤں کے لڑکے اس کی اس آزادی اور بے فکری کی زندگی کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔
’’ ہیلو ہک۔ ‘‘ٹام بولا۔
’’ ہیلو ٹام۔‘‘
’’ یہ تمھارے ہاتھوں میں کیا ہے؟ ’’
’’مری ہوئی بلی۔‘‘
’’ اچھا۔ تم اس کا کیا کرو گے؟ ‘‘
’’کیا کروں گا ؟تمھیں کیا معلوم نہیں مرد ہ بلی چیچک کا بہترین علاج ہے۔ ‘‘
’’اچھا؟وہ کیسے؟‘‘
’’اس طرح کہ تم ایک مردہ بلی آدھی رات کے وقت قبرستان لے جاؤ اورکسی ایسے آدمی کی قبر تلاش کرو جو بہت برا اور ظالم رہا ہو۔ آدھی رات کے وقت ایسے آدمی کی قبر پرشیطان آیا کرتے ہیں۔ تم انھیں نہیں دیکھ سکو گے لیکن ان کے آنے پر ہوا کے تیزی سے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔ وہ تم ضرورسن سکو گے۔جب وہ اس برے آدمی کی روح نکال کر اپنے ساتھ لے جانے لگیں تو تم مردہ بلی ان کی طرف پھینک دینا اور کہنا :شیطان روح کا تعاقب کرتا ہے۔ بلی شیطان کا تعاقب کرتی ہے۔ چیچک بلی کا تعاقب کرتی ہے۔ اب میں کسی کو بھی چیچک سے نجات دلا سکتا ہوں۔‘‘
’’کیا تم نے خود ایسی کوئی کوشش کی ہے ہک؟‘‘ ٹام نے پوچھا۔
’’نہیں۔ یہ ترکیب مجھے اس بوڑھی اماں ہو پکنزنے بتائی ہے۔‘‘
’’پھر تو یہ ترکیب واقعی صحیح ہوگی۔ لوگ کہتے ہیں بوڑھی اماں ہو پکنز ایک جا دوگر نی ہے۔ تم اس بلی کو قبرستان کب لے جارہے ہو ہک؟‘‘
’’ آج رات۔ میرا خیال ہے۔ آج شیطان ہوس ولیمز کی روح اس کے جسم سے نکالنے کے لیے اس کی قبر پر آئیں گے۔‘‘
’’ لیکن اسے ہفتے کو دفنایاگیا تھا۔ کیا شیطان اب تک اس کی روح اس کے جسم سے نہ نکال چکے ہوں گے؟‘‘
’’احمق نہ بنو شیطان ہمیشہ آدھی رات کو قبرستان میں آیا کرتے ہیں اور اس وقت اتوار شروع ہو چکا تھا۔ اتوار کے دن کوئی شیطان زمین پر نہیں اترا کرتا۔‘‘
’’ اچھا! یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ۔میں بھی ضرور تمھارے ساتھ قبرستان چلوں گا۔‘‘
  ’’ضرور چلنا۔ تم ڈرو گے تو نہیں؟‘‘
’’ہرگز نہیں۔ تم ایسا کرناکہ میری کھڑکی کے نیچے آکر بلی کی آواز نکالنا۔میں سمجھ جائوں گا کہ تم مجھے لینے آگئے ہو ۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ بلی کی آواز سنتے ہی جلدی سے آجانا ۔‘‘
  ’’ٹھیک ہے ہک!میں جاگتا رہوں گا۔‘‘
یوں اس رات کی مہم کا منصوبہ آپس میں طے کرنے کے بعد دونوں لڑکے ایک دوسرے سے جدا ہوکر اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے۔ ہکل بیری دریا کی طرف چل دیا اور ٹام اپنے اسکول کی طرف روانہ ہوگیا۔
قبرستان میں
ٹام کو اسکول سے دیر ہوگئی تھی۔اس نے کوشش کی کہ وہ ماسٹر صاحب کی نظروں میں آئے بغیر اپنی جگہ پر جا بیٹھے لیکن ماسٹر صاحب نے اسے دیکھ لیا۔
’’تھامس سائر؟ ‘‘انھوں نے آواز دی۔ ٹام جانتا تھا کہ جب ماسٹرصاحب اس کا پورا نام لیتے تھے تو اس کا کیا مطلب ہوتا تھا۔
’’جی جناب!‘‘
’’ ادھر آؤ۔ تم اسکول دیر سے کیوں پہنچے ہو؟‘‘
’’میں ہکل بیری فن سے باتیں کرنے رک گیا تھا۔‘‘ ٹام نے جواب دیا۔
’’ کیا!‘‘ماسٹر صاحب اسے گھورنے لگے ۔’’کیا کہا تم نے؟ ‘‘
’’ میں ہکل بیری سے باتیں کرنے رک گیا تھا ماسٹرصاحب! اس لیے مجھے دیر ہوگئی ۔‘‘ ٹام نے کہا۔
ماسٹر صاحب کو بہت ہی غصہ آیا۔ انھوں نے ٹام سے اس کی جیکٹ اتروائی اور اس کی خوب پٹائی کی۔
’’اب جاؤ اور جا کر اپنی جگہ پر بیٹھو ۔‘‘ انھوں نے ٹام سے کہا۔
کلاس کے سب لڑکے اور لڑکیاں ٹام پر ہنس رہے تھے۔ اس نے خاموشی سے ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے کلاس میں سب سے پیچھے اپنی سیٹ سنبھال لی۔ اس کے قریب کے ڈیسک پر جولڑ کی بیٹھی تھی اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے نفرت سے منہ بنایا اور دوسری طرف رخ پھیر کر بیٹھ گئی۔ ٹام اپنی کتاب کھول کر اس کی سطروں پر نظریں دوڑانے لگا۔ پھراس نے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔ اس لڑکی نے بھی اس کی طرف دیکھا اور منہ چڑا دیا۔ ٹام اپنی کاپی نکال کر اس پر کچھ ڈرائنگ کرنے لگا۔ وہ لڑکی کچھ دیرا سے ڈرائنگ کرتے دیکھتی رہی۔ پھر وہ ٹام کے قریب سرک آئی۔
’’تم کیا بنا رہے ہو ؟‘‘اس نے سرگوشی میں ٹام سے پوچھا۔
  ٹام نے اسے اپنی کاپی دکھائی۔ اس نے پنسل سے ایک مکان کا اسکیچ بنایا تھا۔
’’یہ تم نے بڑی اچھی ڈرائنگ کی ہے ۔‘‘ لڑکی بولی۔’’ اس مکان میں ایک آدمی کی تصویر بھی بنائو۔‘‘
ٹام نے اس مکان میں ایک آدمی کی تصویر بھی بنادی۔
’’یہ تصویر بہت اچھی ہے۔ ‘‘وہ لڑکی بولی۔ ’’کاش !مجھے بھی تمھاری طرح اچھی چھی تصویریں بنانی آتیں۔‘‘
’’ میں تمھیں تصویریں بنانا سکھا سکتا ہوں ۔‘‘ٹام بولا۔
’’واقعی؟ کب؟‘‘
’’کیا تم کھانا کھانے گھر جاتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔ اگر تم کہو گے تو میں یہیں رک جاؤں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’بیکی تھیچر۔ اور تمھارا؟ اور میں بھول ہی گئی تم تھا مس سائر ہو۔‘‘
’’ مجھے پورے نام سے صرف اس وقت پکارا جاتا ہے جب میری شامت آنے والی ہوتی ہے۔ور نہ میں بالعموم ٹام ہی کہلاتا ہوں۔ تم بھی مجھے ٹام ہی کہا کر و۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔‘‘
ماسٹر صاحب نے ان دونوں کو آپس میں باتیں کرتے دیکھ لیا تھا۔ اس لیے انھوں نے فوراً ہی ٹام کو وہاں سے اٹھواکر ایک دوسری سیٹ پر بٹھا دیا۔ پھر جب لنچ ٹائم ہوا تو ٹام نے اپنے وعدے کے مطابق بیکی کوتصویریں بناناسکھانا شروع کر دیا۔ وہ اس چھوٹی سی لڑکی کو پسند کرنے لگا تھا۔ اس نے اس سے وعدہ لے لیا کہ وہ اس کی ہمیشہ بڑی پکی دوست رہے گی۔
جب رات کے ساڑھے نو بجے تو خالہ پولی نے ٹام اور سڈ کو سونے کے لیے ان کے کمرے میں بھیج دیا۔ انھوں نے اپنی دعاکی اور اپنے بستروں پر جا لیٹے۔ سڈ تو فوراً ہی سو گیا البتہ ٹام جاگتا رہا اور ہکل بیری کی آواز کا انتظار کرتا رہا۔ پھر جب گھڑی نے دس بجائے تو اس نے اپنے بستر سے اٹھ کر کھڑکی سے باہرجھانکا۔ باہر گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور بالکل خاموشی تھی۔ وہ اپنے بستر پر آکر بیٹھ گیا اور بے چینی سے ہکل بیری کی آواز کا انتظار کرنے لگا۔ وقت آہستہ آہستہ گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ رات کے گیارہ بج گئے۔ پھراس نے کچھ عجیب سے شور کی آواز سنی۔ اس کے ساتھ ہی ایک کھڑکی کھلی اور کسی نے چلا کر کہاـ: ’’بھاگ جا یہاں سے !کم بخت بلی !کیا شورمچا رکھا ہے!‘‘ اس کے ساتھ ہی کسی خالی بوتل کے دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹنے کی آواز آئی۔ ٹام اب پوری طرح سے جاگ اٹھا تھا۔ اس نے جلدی جلدی لباس تبدیل کیا اور کھڑکی سے باہر نکل کر چھت پر آگیا۔ وہاں دبے پاؤں چلتے ہوئے اس نے لکڑی کے شیڈ پر چھلانگ لگائی پھر شیڈ سے زمین پر کود گیا۔ وہاں ہکل بیری فن اپنی مری ہوئی بلی کے ساتھ موجود تھا۔ وہ دونوں فورا ًہی وہاں سے چل پڑے اور تاریکی میں گم ہوگئے۔ قبرستان پہنچتے پہنچتے انھیں آدھ گھنٹہ لگ گیا۔
قبرستان آبادی سے ڈیڑھ میل دور ایک ٹیلے پر واقع تھا۔ قبرستان کے چاروں طرف لگے درختوں کی شاخیں تیز ہوا سے لہرا رہی تھیں۔ درختوں میں سے گزرنے والی ہوا کی سرسرا ہٹ ٹام کو بہت پراسرار سی لگ رہی تھی۔ جیسے مرے ہوئے لوگوں کی روحیں یوں جگائے جانے پر فریاد کررہی ہوں۔ قبرستان میں گھومتے پھرتے لڑکوں نے تازہ بنی ہوئی قبر تلاش کر لی۔ وہ اس قبر کے قریب درختوں کے پیچھے چھپ گئے اور سانس روکے انتظار کرنے لگے۔ وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا۔ پھر ایک الو کی تیز آواز نے خاموشی کا پردہ چاک کر دیا۔ ٹام نے کہا۔’’ ہک تمھارا کیا خیال ہے۔ یہ مردہ لوگ ہمارا یہاں آنا پسند کر رہے ہوں گے؟‘‘
’’ معلوم نہیں۔‘‘ہکل بیری نے جواب دیا۔’’یہاں کی خاموشی مجھے خوف زدہ کر رہی ہے۔‘‘
’’مجھے بھی ۔‘‘ ٹام نے کہا اور ایک دم ہکل بیری کا بازو پکڑ لیا۔
’’کیا بات ہے ٹام ؟‘‘ہکل بیری ٹام سے چمٹ گیا۔
  ’’شش۔ یہ آواز کیسی ہے؟‘‘
’’اوہ! وہ ہماری طرف آرہے ہیں۔ اب ہم کیا کریں؟‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ تمھارا کیا خیال ہے وہ ہمیں دیکھ لیں گے؟‘‘
’’ میں نے سنا ہے کہ شیطان رات کی تاریکی میں بلیوں کی طرح دیکھ سکتے ہیں۔کاش! میں یہاں نہ آتا۔‘‘
’’ ڈرونہیں میرا خیال ہے وہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے کیوں کہ ہم انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے۔ اگر ہم چپ چاپ بیٹھے رہیں تو شاید وہ ہماری طرف کوئی توجہ نہ دیں ۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔ لیکن میرے جسم کی کپکپاہٹ ختم نہیں ہورہی۔‘‘
’’شش۔ ذراسنو تو۔‘‘
دونوں لڑ کے سر جوڑے نیچے جھک گئے۔ انھوں نے اپنی سانسیں روک لی تھیں۔ انھیں قبرستان کے ایک دور کے حصے سے کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
’’ذرا دیکھو تو سہی۔ وہ کیا ہے؟ ‘‘ٹام نے سرگوشی کی۔
’’یہ شیطان کی لالٹین کی روشنی ہے۔ اف کتنی خوف ناک ہے یہ؟ ‘‘
پھران کے سامنے تاریکی سے کچھ لوگ نمودار ہوئے اور ان کی طرف آنے لگے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی۔
’’ یہ واقعی شیطان ہی ہیں۔‘‘ ہکل بیری کپکپاتی ہوئی آوازمیں بولا۔ ’’تین شیطان! کوئی دعا آتی ہے؟ ‘‘
’’ہاں لیکن ڈرونہیں۔ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ‘‘
’’شش۔ خاموش؟ ‘‘
’’کیا بات ہے؟ ‘‘
’’یہ انسان ہیں۔میں مف پاٹر کی آواز خوب پہچانتا ہوں۔ ‘‘
’’نہیں۔ یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
’’تم خود ہی دیکھ لینا۔ ہاں ہلو جلومت! یہ جو سب سے آگے ہے وہ مف پاٹر ہے۔ روز کی طرح اس نے آج بھی خوب شراب پی رکھی ہے۔‘‘
’’اچھا! ہاں تم نے ٹھیک کہا۔ یہ مف پاٹر ہی ہے اور اس کے پیچھے آنے والا آدمی انجن جو ہے۔ ‘‘
وہ تین آدمی تھے۔ وہ اب قبر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ان کے اور اس جگہ کے درمیان جہاںیہ دونوں لڑکے چھپے ہوئے تھے۔ چندہی فٹ کا فاصلہ تھا۔
’’ یہ رہی وہ قبر ۔‘‘لالٹین والے آدمی نے کہا، لالٹین کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ یہ نوجوان ڈاکٹر رابن سن تھا۔
مف پاٹر اور انجن جورسیوں کی مدد سے ایک ٹھیلے کو کھینچ رہے تھے جس پر دو بیلچے رکھے تھے۔ انھوں نے قبر کے پاس پہنچ کر ٹھیلہ روکا اور بیلچے اٹھا کر قبرکھودنے لگے۔ ڈاکٹر نے لالٹین قبر کے سرہانے رکھ دی اور درخت کی طرف پشت کر کے بیٹھ گیا۔ وہ اتنا قریب تھا کہ ٹام اور ہک ہاتھ بڑھاکراسے چھو سکتے تھے۔
’’جلدی کرو۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’چاند نکلنے ہی والا ہے۔ ‘‘
کچھ دیر تک بیلچوں سے مٹی کھودے جانے کی آواز آتی رہی۔ پھر ایک بیلچہ تابوت سے ٹکرایا۔ دونوں آدمیوں نے جلدی جلدی اس پر سے مٹی ہٹائی اور اسے قبر سے باہر کھینچ لیا۔ انھوں نے اس کے اوپر کا تختہ ہٹایا اوراس میں سے لاش نکال کر زمین پر رکھ دی۔ پھر انھوں نے ٹھیلے کو کچھ اور آگے لاکر کھڑا کیا اور لاش اس میں رکھ دی۔ پھراس پر کمبل وغیرہ ڈال دیے اور اسے رسیوں کی مدد سے باندھ دیا۔ پاٹر نے ایک بڑا سا چاقو نکال کر فالتو رسیاں کاٹ دیں۔ پھراس نے کہا:
’’ ڈاکٹر تم ہمیں پانچ پانچ ڈالر اور دو، ورنہ ہم اس ٹھیلے کو یہاں سے نہیں لے جائیں گے۔ ‘‘
’’ تمھا راکیا مطلب ہے؟ ‘‘ڈاکٹر بولا۔’’ تم دونوں نے یہ کام کرنے سے پہلے جو اپنا معاوضہ طے کیا تھا وہ میں نے تمھیں اداکر دیا ہے۔‘‘
’’ہاں۔ ‘‘انجن جو بولا۔’’ لیکن تمھیں اس سے کچھ زیادہ ہی مجھے دینا ہے۔ تمھیں یا دہی ہوگا کہ پانچ سال پہلے میں ایک دن تمھارے گھر کھانے کے لیے کوئی چیزمانگنے آیا تھا اور تم نے مجھے کتے کی طرح دھتکارتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ تم نے کہا تھا میں چور ہوں اور تمھارے گھر سے کچھ چرانے آیا ہوں۔ اس وقت میں نے قسم کھائی تھی کہ میں تم سے اس کا بدلہ ضرور لوں گا ۔تم نے اور تمھارے باپ نے مجھے جیل بھجوا دیا تھا۔ تمھارا کیا خیال ہے میں یہ واقعہ بھول چکا ہوں؟اب تمھیں اس ظلم کا مزہ چکھانے کا وقت آگیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے انجن جو کو ایک گھونسا رسید کیا۔ وہ زمین پر گرگیا۔ پاٹر نے اپنے ہاتھ سے چاقو گرا دیا اور چلایا:
’’ رک جاؤ ڈاکٹر! اسے مت مارو! ‘‘اس کے ساتھ ہی وہ ڈاکٹر سے لپٹ پڑا۔ دونوں میں گتھم گتھا ہونے لگی۔ انجن جو اچھل کر زمین پر سے اٹھ گیا۔ اس نے پاٹر کا چاقواٹھالیا اور آگے بڑھتے ہوئے موقع تلاش کرنے لگا کہ کسی طرح وہ چاقو ڈاکٹر کی پیٹھ میں گھونپ دے۔
پھر ایک دم وہ ڈاکٹر سے الگ ہوگیا۔ اس نے قریب پڑا ہوا لکڑی کا ایک ڈنڈا اٹھایا اور اسے پاٹر کے سر پر رسید کر دیا۔ پاٹر زمین پر گر گیا۔ اسی وقت انجن جو نے اپنا موقع دیکھ لیا۔ اس نے چاقو نوجوان ڈاکٹر کے سینے میں گھونپ دیا۔ ڈاکٹر کے سینے سے خون کا فوارہ ابل پڑا۔ وہ بے جان ہو کر پاٹر پر گر گیا۔ اسی وقت بادلوں نے چاند کو چھپالیا اور تاریکی نے وہ بھیانک نظارہ لڑکوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ وہ اپنی جگہ سے مڑ کو شدید خوف زدگی کے عالم میں قبرستان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
پھر جب چاند با دلوں کے پردے سے نکلا تو انجن جو دونوں آدمیوں کے قریب کھڑا تھا۔ ڈاکٹر اس وقت اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہا تھا۔ پھر ایک لمبی سانس کے ساتھ اس کا جسم ساکت ہوگیا۔ انجن جو نے اس کے کپڑوں کی تلاشی لے کر اس کی ہر چیز اپنی جیب میں ڈال لی۔ پھر اس نے چاقو بے ہوش پاٹر کے ہاتھ میں تھما دیا اور کھلے ہوئے تابوت پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد پاٹر کو ہوش آنا شروع ہوگیا۔ اس کے ہاتھ نے چا قو کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اس نے وہ چاقو اپنی آنکھوں کے سامنے لاکر اسے غور سے دیکھا اوراسے نیچے گرا دیا۔ پھر وہ ڈاکٹر کی لاش اپنے اوپر سے دھکیلتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے انجن جو کو دیکھا۔
’’ کیا ہوا تھا جو؟ ‘‘اس نے پوچھا۔
’’جو کچھ ہوا ہے۔ بہت ہی برا ہوا ہے۔‘‘ جو نے کہا۔ ’’تم نے ڈاکٹر کو کیوں قتل کر دیا؟ـ‘‘
’’میں نے اسے ہرگز قتل نہیں کیا۔‘‘ پاٹر بری طرح سے کپکپانے لگا۔ اس کا رنگ یک دم پیلا پڑ گیا۔’’ آہ! مجھے آج رات ہرگز شراب نہیں پینی چاہیے تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ سب کیوں کر ہوگیا۔ میں نے کیسے ڈاکٹر کو قتل کر دیا۔ میں تو ہرگز اسے قتل نہ کرنا چاہتا تھا۔ مجھے بتاؤ جو کیا واقعی میں نے اسے قتل کیا ہے؟ یہ سب کیسے ہوگیا؟ آہ کتنا بھیانک ہے یہ سب کچھ؟‘‘
’’ تم دونوں آپس میں لڑ رہے تھے ۔‘‘ جو نے کہا۔’’اس نے اس لکڑی کے ڈنڈے سے تمھارے سر پر چوٹ لگائی۔ جس پر تم زمین پر گر گئے۔ پھر تم زمین سے اٹھے اور اپنا چا قولے کر ڈاکٹر پر حملہ آور ہو گئے اور اسے اس کے سینے میں اتار دیا۔ اسی وقت اس نے اپنے ڈنڈے سے پھر تم پر حملہ کیا تھا۔ تم زمین پر گر گئے۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھی تم پر آگرا ۔‘‘
’’اوہ !میں نہیں جانتا تھاکہ میں کیا کر رہا تھا ۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو قتل کرنے کے ارادے سے چاقو نہیں نکالا ۔میں لوگوں سے بے شک لڑتا رہا ہوں لیکن چاقو میں نے کبھی کسی لڑائی میں استعمال نہیں کیا۔ جو تم وعدہ کرو۔ تم کسی کو کچھ نہ بتاؤ گے۔ تم میرے دوست ہو۔‘‘پاٹر گھٹنوں کے بل انجن جو کے سامنے جھک گیا اوراس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
’’میں وعدہ کرتا ہوں مف پاٹر !کسی کو اس قتل کے بارے میں کچھ نہ بتاؤں گا۔ تم میرے بہترین دوست رہے ہو۔‘‘ انجن جو بولا۔
’’ آہ جو !تم فرشتہ ہو میں تمھارا یہ احسان عمر بھر نہ بھولوں گا ۔‘‘ پاٹر کی آواز بھرگئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔
’’ بس ٹھیک ہے۔ روئو نہیں۔ یہ وقت رونے کانہیں۔‘‘ جو بولا۔’’میں اب اپنے راستے جاتا ہوں۔ تم اپنے راستے چلے جاؤ۔ اٹھو جلدی کرو۔ صبح ہونے ہی والی ہے۔‘‘
مف پاٹر جلدی سے زمین پر سے اٹھ گیا اور بھاگتا ہوا قبرستان سے باہر نکل گیا۔انجن جواسے دیکھتا رہا۔
’’شرابی کہیں کا! اپنا چاقو یہیں چھوڑ گیا ہے۔ اب خاصی دور جانے کے بعد اسے جب اپنا چاقو یاد آئے گا تو وہ اسے یہاں سے اٹھانے واپس آئے گا۔ لیکن وہ اتنا خوف زدہ ہوگا کہ اسے دوبارہ قبرستان میں داخل ہونے کی ہمت نہ ہوگی۔ بز دل کہیں کا۔‘‘ انجن جو نے اپنے آپ سے کہا اور قبرستان سے نکل کر ایک طرف روانہ ہوگیا۔ ڈاکٹر رابن سن کی لاش، کمبل میں لپٹی ہوئی لاش، تابوت اور کھلی ہوئی قبر چاند کی روشنی میں پڑی رہ گئی۔
خوف
دونوں لڑ کے گاؤں کی طرف بھاگ اٹھے۔ وہ بھا گتے بھا گتے بار بار مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے تھے کہ کہیں کوئی ان کا تعاقب تو نہیں کر رہا۔ یوں ہی دوڑتے دوڑتے وہ ایک پرانے سے ٹوٹے پھوٹے مکان کے قریب جا پہنچے۔ اس مکان کا دروازہ غائب تھا۔ وہ سیدھے اندر گھس گئے اور فرش پر گر گئے۔
’’تمھارا کیا خیال ہے ہک۔ اب کیا ہوگا؟‘‘ ٹام نے سرگوشی میں پوچھا۔
’’اگر ڈاکٹر رابن سن مرگیا ہے تو اس کے قتل کے الزام میں کسی کو پھانسی کی سزا ضرور مل جائے گی۔‘‘ہک نے جواب دیا۔
’’کیا واقعی؟‘‘
’’ہاں ٹام۔‘‘
ٹام نے ایک منٹ کے لیے کچھ سوچا۔ پھر بولا، ’’لیکن کون بتائے گا؟ کیا ہم؟‘‘
’’ یقینا نہیں! لیکن اگر انجن جوکو ہمارے بارے میں معلوم ہوگیا تو وہ ضرور ہمیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے ہک۔‘‘
’’ میرے خیال میں مف پاٹر اگر بے وقوف ہوا تو وہی بتا دے گا ۔‘‘
  ٹام کچھ نہ بولا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا پھراس نے کہا۔’’ ہک! مف پاٹر اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ بھی تو وہاں موجود تھا۔ تھاکہ نہیں؟ ‘‘
’’ ہاں لیکن جب انجن جونے چا تو سے ڈاکٹر پر حملہ کیا تو مف پا ٹر کو سر پر ضرب لگی تھی اور وہ زمین پر گر گیا تھا۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے ٹام۔‘‘
’’تمھارے خیال میں کیا سر پر لگنے والی ضرب نے اسے ہلاک نہ کر دیا ہوگا؟ ‘‘
’’ نہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ وہ ضرب اتنی شدید نہیں تھی۔‘‘
  دونوں تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ پھر ٹام بولا :
’’ہک۔ کیا تمھیں یقین ہے کہ تم نے جوکچھ دیکھا ہے اس کے بارے میں خاموش رہو گے؟‘‘
  ’’ہمارے لیے اس بارے میں خاموش رہنا ہی بہتر ہے ٹام۔ انجن جو کو اگر پھانسی نہ ہوئی تو وہ ہمارے پیچھے پڑجائے گا اور ہمیں قتل کر کے ہی چھوڑے گا۔ آؤ ہم ایک دوسرے کے سامنے قسم کھا ئیں کہ ہم نے جو کچھ دیکھا ہے اس کے بارے میں بالکل خاموش رہیں گے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔ آؤ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر قسم کھائیں۔ ‘‘
’’نہیں یوں نہیں ۔ہمیں اسے باقاعدہ کسی چیز پر لکھ لینا چاہیے۔‘‘
ٹام نے ادھر ادھر کوئی کاغذ تلاش کرنے کی کوشش کی مگرا سے وہاں کوئی کاغذ نہ ملا۔ اس پراس نے لکڑی کا ایک ٹکڑا لیا اوراپنی جیب سے ایک سرخ رنگ کی چھوٹی سی پنسل نکال کراس سے لکڑی کے ٹکڑے پر مندرجہ ذیل الفاظ لکھے:
’’ہکل بیری فن اور ٹام سائر قسم کھاتے ہیں کہ انھوں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کے بارے میں وہ کبھی کسی کو کچھ نہ بتائیں گے۔‘‘
ٹام نے اس کے نیچے اپنے دستخط کیے۔ ہک کیوں کہ پڑھنا لکھنانہ جانتا تھا اس لیے اس نے اپنا انگوٹھا سُرخ پنسل سے سرخ کر کے اسے ٹام کے دستخط کے نیچے چھاپ دیا۔ اس کے بعدانھوں نے لکڑی کا وہ ٹکڑا دیوار کے قریب زمین میں دفن کر دیا۔
اس وقت کوئی شخص اس پرانے مکان کے دوسری طرف سے آہستہ آہستہ رینگتا ہوا اس طرف آرہا تھا۔ لڑکے اس کی طرف سے بالکل بے خبر تھے۔ پھرکسی کتے کے ایک دم بھونک اٹھنے کی آواز نے انھیں چونکا دیا۔ وہ ڈر کے مارے ایک دوسرے سے چمٹ گئے۔ کتے کے بھونکنے کی آواز اب اس کے رونے کی آواز میں تبدیل ہوگئی تھی۔
’’ اگر کوئی کتا رونے لگے تو کہتے ہیں کہ کوئی منحوس واقعہ رونما ہونے والا ہے۔‘‘ہک نے سرگوشی کی ۔
’’لیکن یہ کسے دیکھ کر یوں بھونک رہا ہے؟‘‘
’’ خدا جائے۔ آؤ ذرا اس سوراخ سے دیکھیں۔‘‘
وہ دونوں دیواریں میںبنے ہوئے سوراخ سے باہر جھانکنے لگے۔
’’اس کی پشت ہماری طرف ہے ہک۔ لگتا ہے وہ ہماری تلاش میں یہاں نہیں آیا۔ وہ کسی اور کو تلاش کر رہا ہے۔‘‘
کتے کا بھونکنا اب بند ہوچکا تھا لیکن اب ایک دوسری آواز رات کی تاریک فضامیں بلند ہونے لگی تھی۔
’’ یہ آواز کیسی ہے؟ ‘‘ٹام نے سرگوشی کی۔
’’ لگتا ہے جیسے بہت سے سور مل کر چنگھاڑ رہے ہوں ۔نہیں… یہ توکسی کے خراٹے لینے کی آواز معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’ہاں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن یہ آواز آ کہاں سے رہی ہے؟ ‘‘
’’ شاید اس مکان کے دوسرے حصے سے۔ آؤ ذرا چل کر دیکھتے ہیں۔ ‘‘
’’نہیں اس میں خطرہ ہے۔ اگر یہ انجن جو ہوا تو ؟‘‘
ہک کپکپاگیا لیکن پھر تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد دونوں لڑکوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں جاکر دیکھنا چاہیے کہ وہ خراٹے لینے والا شخص آخر کون ہوسکتا تھا۔ چناں چہ وہ دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے احتیاط سے چلتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ پھر جب وہ اس خراٹے لینے والے شخص کے قریب پہنچے تو ٹام کا پاؤں ایک چھڑی پر آ گیا اور وہ ایک تیز آواز کے ساتھ ٹوٹ گئی۔ وہ آدمی تھوڑا سا ہلا۔ اس کی گردن اُن کی طرف مڑگئی۔ انھوں نے دیکھا وہ مف پاٹر تھا۔ لڑکوں کا خوف ایک دم دور ہوگیا۔ وہ تیزی سے مڑے اور احتیاط سے چلتے ہوئے مکان سے باہر نکل آئے۔ اسی وقت کتا پھر بھونک اٹھا۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔کتا مف پاٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھونک رہا تھا۔
’’ جانے کیا بات ہے۔ لگتا ہے اس کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ آؤ ہم یہاں چھپ کر دیکھیں۔‘‘ ہک نے سرگوشی میں کہا۔
  پھر جب ٹام کھڑکی کے راستے اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اس وقت صبح ہونے میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی۔ اس نے لباس تبدیل کیا اور بستر پر لیٹ کر سوگیا۔ اس کا خیال تھا کہ گھر میں کسی کو بھی یہ پتا نہیں چلا ہوگا کہ وہ باہرگیا تھا لیکن ایسا نہ تھا۔ سڈ اس وقت جاگ رہا تھا ۔ وہ ٹام کے سوجانے کے بعد بھی ایک گھنٹے تک جاگتا رہا۔
جب ٹام سوکر اٹھا تو سڈ جا چکا تھا اور گھر کی فضا کچھ عجیب سی محسوس ہورہی تھی۔ ٹام کو بہت حیرت ہوئی۔ ہر روز کی طرح اس دن اسے کسی نے نہ بلایا تھا۔ شاید کوئی گڑ بڑ تھی۔ پانچ منٹ بعد وہ لباس تبدیل کر کے نیچے آگیا۔ سب لوگ ناشتہ کر چکے تھے اور میزپر بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے بھی ٹام سے کوئی بات نہ کی۔ ناشتے کے بعد اس کی خالہ اسے ایک طرف لے گئیں۔ ٹام نے سوچا شاید اب وہ اس کی مرمت کرنے لگیں گی لیکن اس کے بجائے وہ رونے لگیں اور اس سے پوچھنے لگیں کہ وہ انھیں اتنا تنگ کیوں کرتا ہے۔ ٹام ان کے رونے سے اور ان کی شکایتوں سے گھبرا گیا۔ اس نے ان سے معافی مانگی اور ان سے وعدہ کیاکہ وہ آئندہ انھیں ایک اچھالڑ کا بن کر دکھائے گا۔ اسے سڈ پر بہت غصہ آرہا تھا جس نے یقینا خالہ سے اس کی چغلی لگائی تھی۔ اس نے عہد کیا کہ وہ اسے اس چغل خوری کی ضرور سزا دے گا۔
اس صبح وہ بہت افسردہ دلی کی حالت میں اسکول پہنچا۔ اس کی افسردگی اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب اس نے دیکھا کہ اس کی نئی دوست بیکی تھیچر اکھڑی اکھڑی سی رہی۔ شاید کسی نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ ایک برا لڑکا ہے۔
جھوٹ سب جھوٹ
دوپہر ہوتے ہوتے سارے قصبے میں ڈاکٹر رابن سن کے المناک قتل کی خبر پھیل گئی۔ اسکول ماسٹر نے شام کو بچوں کو چھٹی دے دی۔
جس چاقو سے ڈاکٹر رابن سن کو قتل کیا گیا تھا۔ وہ اس کی لاش کے قریب ہی پڑا ہوا مل گیا تھا۔ کئی لوگوں نے اس چاقو کو پہچان لیا اور بتایا کہ یہ مف پاٹر کا چاقو ہے، کچھ لوگوں نے کہا کہ انھوں نے صبح سویرے مف پاٹر کو دریا پر نہاتے دھوتے دیکھا۔ پھر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ اسے تلاش کیا گیا تھا لیکن وہ کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔ اب ہر شخص قبرستان کی طرف جارہا تھا۔ ٹام بھی اپنادکھ بھول کر قبرستان جانے والے لوگوں کے ہجوم میں شامل ہوگیا، جب وہ قبرستان پہنچاتو کسی نے زور سے اس کا بازو دبایا۔ وہ ہکل بیری فن تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید لوگوں کی نظریں ان پر ہوں گی لیکن حقیقت یہ تھی کہ کوئی بھی ان کی طرف نہ دیکھ رہا تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی کہہ رہے تھے اور رات کے افسوس ناک واقعے پر تبصرہ کر رہے تھے۔
کوئی کہہ رہاتھا: ’’بے چارہ نوجوان!‘‘ کوئی کہہ رہا تھا: ’’یہ قبروں میں چوری کرنے والوں کے لیے ایک اچھا سبق ہے۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا: ’’اگر مف پاٹر کو تلاش کر لیاگیا تو اسے ضرور پھانسی کی سزا ملے گی ۔‘‘
اس وقت ٹام کی نظر لوگوں کے ہجوم میں موجو دانجن جو پرپڑی۔ وہ ڈر کے مارے سر سے پیر تک کا نپنے لگا۔ اسی وقت ہجوم سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ’’وہ آرہا ہے۔ وہ آرہا ہے۔ مف پاٹر اس طرف آرہا ہے۔‘‘
’’ارے یہ کیا؟ وہ رک گیا ہے۔ وہ دیکھو وہ واپس بھاگ اٹھا۔ ‘‘
’’پکڑو! پکڑو جانے نہ پائے !جانے نہ پائے!‘‘
لیکن جولوگ قبرستان کے باہر کھڑے تھے انھوں نے بتایا کہ مف پاٹر وہاں سے بھاگ نہیں رہا تھا۔ بلکہ تذبذب کے عالم میں ایک جگہ کھڑا تھا۔
’’ شاید وہ اپنی کارگزاری دیکھنے آیا ہوگا ۔‘‘ٹام کے قریب کھڑے ایک شخص نے کہا ’’اسے یہ امید نہ ہوگی کہ اس وقت قبرستان میں اتنا ہجوم موجود ہو گا ۔‘‘
اسی وقت لوگ ادھر ادھر ہٹ گئے۔ شیرف مف پاٹر کو بازو سے پکڑے اس طرف آرہا تھا۔ وہ بے چارہ بہت خوف زدہ اور گھبرایا ہواسادکھائی دے رہا تھا۔
’’لوگو! یہ میں نے نہیں کیا۔‘‘ وہ چلایا۔ ’’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ میرا کام نہیں۔‘‘
’’ کون کہتا ہے کہ یہ تم نے کیا ہے؟‘‘ ایک آواز بلند ہوئی۔
پاٹر نے اپنے آس پاس دیکھا۔ پھر اس کی نظر انجن جو پر پڑی۔ وہ چیخ کر بولا:
’’اوہ انجن جو! تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم کبھی…‘‘
شیرف لوگوں کو ہٹاتا ہوا آگے بڑھا اور چاقو پاٹر کو دکھاتا ہوا بولا۔ ’’یہ تمھارا ہی چاقو ہے نا؟‘‘
پاٹر شاید چکرا کر گر جاتا لیکن شیرف نے اسے تھام لیا۔ وہ انجن جو سے بولا:
’’ خاموش رہنے سے کچھ نہ ہو گا انجن جو۔ بہتر ہے کہ تم انھیں بتادو۔‘‘
پھرانجن جو نے سب کو جوکہانی سنائی وہ سراسر جھوٹ کا پلندہ تھی۔ اسے سن کر ٹام اور ہکل بیری دم بہ خود سے رہ گئے۔یہ شخص تو مجسم شیطان تھا۔ ان کا جی چاہا کہ وہ ایک دوسرے سے کیا ہوا وعدہ توڑ دیں اور لوگوں کو سچ سچ سب کچھ بتادیں لیکن وہ خاموش رہے۔
’’تم آخر بھاگ ہی کیوں نہ گئے ؟‘‘ کسی نے چلاکر پاٹر سے پوچھا:’’ تم اس طرف کس لیے آرہے تھے؟ ‘‘
’’ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ پھربھلا کیوں بھاگتا ۔‘‘ پاٹر چلاکر بولا۔’’ اگر میں نے یہ جرم کیا ہوتا تو اس کے بعد میرے لیے یہاں سے بھاگ جانا بالکل آسان تھا۔ مگر میں بے قصور ہوں۔‘‘
  انجن جو نے ایک مرتبہ پھراپنی کہانی دہرادی جو ویسی ہی جھوٹ کا پلندہ تھی۔ دو نوں لڑکوں کو اس پر بہت غصہ آرہا تھا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب انجن جو کی نگرانی کیا کریں گے۔ خاص طور پر رات کے وقت وہ اس کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھا کریں گے۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ اپنے مالک سے کب ملے گا۔ پھر لوگوں نے نوجوان ڈاکٹر کی لاش اٹھا کر ایک چھکڑے میں رکھی۔ انجن جو نے بھی اس کام میں ان کی مدد کی۔ ہجوم میں سرگوشیاں ہورہی تھیں۔ دونوں لڑکوں کا خیال تھا کہ شاید لوگ یہ سوچنے لگیں کہ انجن جوہی نے ڈاکٹر رابن سن کو قتل کیا تھا۔ مگر انھیں مایوسی ہوئی۔ البتہ ایک آدمی نے یہ بات ضرور کہی کہ:
’’مف پاٹر نے جب ڈاکٹر کوقتل کیا تھا تو وہ اس سے تین فٹ دور تھا۔‘‘
٭٭٭
ٹام جو بھیانک راز اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھا اس نے کئی راتوں تک اس کی نیند اڑائے رکھی۔ ایک صبح ناشتے کی میز پر سڈ نے اس سے کہا:
’’ ٹام تم سوتے میں بستر پر بری طرح سے کر وٹیں لیتے اور بڑبڑاتے رہتے ہو۔ تمھاری ان حرکتوں سے میری نیند اچاٹ ہوتی رہتی ہے۔‘‘
ٹام کے چہرے کی رنگت ایک دم سفید پڑگئی۔ اس نے فورا ًہی اپنامنھ دوسری طرف کرلیا۔
’’یہ اچھی بات نہیں ۔‘‘خالہ پولی نے کہا :’’ تمھیں کیا چیز پریشان کیے ہوئے ہے ٹام؟ ‘‘
’’کچھ نہیں۔ کچھ نہیں ۔‘‘ٹام تیزی سے بولا۔ لیکن اس کا ہاتھ اس بری طرح سے لرز رہا تھا کہ اس کی کافی چھلک گئی۔
’’ تم نیند کی حالت میں عجیب مضحکہ خیز قسم کی باتیں کرتے رہتے ہو ۔‘‘ سڈ کہنے لگا۔’’ پچھلی رات تم بڑبڑا رہے تھے۔ ’یہ خون ہے۔ یہ خون ہے۔ ہاں یہ خون ہی ہے‘ تم باربار یہ الفاظ دہرارہے تھے۔ پھر تم نے کہا۔ ’مجھے کچھ نہ کہو میں بتا دیتا ہوں‘ ۔کیا بتاؤ گے تم؟ اورکس کوبتاؤ گے؟ ‘‘
ٹام نے یوں محسوس کیا گویا وہ بے ہوش ہونے والا ہے۔ خدا ہی جانے کیا ہوجاتا جب خالہ پولی فورا ًہی اس کی مد دکو پہنچ گئیں۔
’’یہ وہ بھیانک قتل ہی ہے جسے تم روز خواب میں دیکھتے ہو۔ مجھے خوداکثر راتوں کو خواب میں اس بھیانک قتل کا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘انھوں نے کہا۔
میری نے کہا کہ وہ بھی راتوں کو اس بھیانک قتل کے خواب دیکھتی رہتی تھی۔ ان کی باتوں سے سڈ مطمئن ہوگیا۔ ناشتے کے بعد ٹام نے کہا کہ اس کے ایک دانت میں شدید درد ہے۔ اس طرح وہ تقریبا ًایک ہفتے تک اپنے جبڑوں پر پٹی باندھے رہا۔ لیکن وہ یہ بھی نہ جان سکا کہ سڈ رات کے وقت اس پر خاص نظر رکھا کرتا تھا۔ وہ اکثر ٹام کے جبڑوں پر سے پٹی ہٹادیتا تھا اور نیند کی حالت میں ٹام کے منہ سے نکلنے والی باتوں کو غور سے سنا کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ پھر اس کے جبڑوں پر پٹی لپیٹ دیتا تھا۔ اگر سڈ ٹام کی باتوں سے کچھ سمجھ بھی گیا تھا تواس نے انھیں اپنے تک ہی محدود رکھا۔
ٹام ہر روز جیل کی کھڑکی کے راستے قیدی قاتل کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں دے آتا تھا۔مف پاٹر کی یوں خدمت کر کے اسے بڑی خوشی ہوتی تھی۔
بیکی تھیچر نے اسکول آنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ ٹام سے بولتی بھی نہیں تھی لیکن ٹام اب بھی اسے پسند کرتا تھا۔ اسے اب دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں کوئی مزہ نہ آتا تھا۔ وہ کچھ کھویا کھویا سا رہنے لگا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر خالہ پولی پریشان رہنے لگی تھیں۔ انھوں نے اسے ہر طرح کی دوائیاں کھلا کر دیکھ لیں۔ اسے گرم اور ٹھنڈے پانی کے غسل بھی کروائے لیکن وہ بدستور زرد اور نا خوش دکھائی دیتا رہا۔ پھر خالہ پولی نے ایک نئی دوائی کا نام سنا جو بڑی سکون آور مشہور تھی۔ انھوں نے یہ دوائی بھی ٹام پر آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔
ٹام دوائیاں کھا کھا کر تنگ آچکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خالہ پولی کا مزید تختہ مشق نہ بنے گا اور یہ ظاہر کرے گا کہ اس نئی سکون بخش دوائی نے واقعی اس پر اثر کیا ہے۔ اس پر خالہ پولی مطمئن ہو جائیں گی اور اس کی طرف سے بے فکر ہو جائیں گی۔ چناں چہ جب خالہ پولی نے اس نئی دوائی کی بوتل اسے دی تو اس نے یوں ظاہر کرنا شروع کر دیا جیسے وہ دوائی واقعی اسے فائدہ پہنچارہی تھی۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس نئی دوائی کی گولیاں ہرگز نہ کھاتا تھا بلکہ انھیں باہر کہیں پھینک دیتاتھا۔ اس طرح پوری بوتل خالی ہوگئی اور خالہ پولی نے اسے صحت منداور تن درست دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا۔
ٹام اب صبح سویرے ہی اسکول پہنچ جاتا تھا۔ وہ اپنے ہم جما عتوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ نہ لیتا تھا بلکہ کلاس ہی میں بیٹھا رہتا تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ بیمار ہے اور وہ لگتا بھی بیمار ہی تھا۔ وہ اکثر اسکول کے باہر کھڑا ہوکر سڑک کی طرف دیکھتا رہتا تھا کہ شاید اسے بیکی تھیچر اسکول آتی دکھائی دے جائے۔ لیکن اسے مایوسی ہی ہوتی تھی۔ پھر ایک دن جب وہ اسکول کے باہر کھڑا سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا توا سے جیف تھیچر سڑک پر آتا دکھائی دیا، لیکن اس کے ساتھ بیکی نہیں تھی۔ ٹام مایوس ہوکر اسکول واپس چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے اپنی کلاس کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو اسے بیکی باہر صحن میں کھڑی دکھائی دی۔ وہ دوڑ کر باہر نکلا اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے اور ہنسنے بولنے لگا۔ اس طرح وہ بیکی کی توجہ اپنی طرف پھیرنا چاہتا تھا، مگر بیکی نے ایک بار بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔ اس پر وہ اس کے قریب چلا گیا اور ایک لڑکے کا ہیٹ اس کے سرسے اتار کر اسے اسکول کی چھت پر اچھال دیا۔ پھر وہ ایک دم لڑکوں کے گروپ میں سے دوڑتا ہوا آیا اور بیکی کے قدموں کے پاس زمین پر گر گیا۔ بیکی ایک دم پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے اپنا منھ دوسری طرف پھیر لیا ۔پھر ٹام نے اسے کہتے سنا:
’’ بعض لوگ اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں۔ جب کہ درحقیقت ان کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں ہوتی۔‘‘
اتنا کہنے کے ساتھ ہی بیکی وہاں سے چلی گئی۔ ٹام کا چہرہ غصے اور توہین کے احساس سے سرخ ہوگیا۔ وہ زمین پر سے اٹھا اور سر جھکائے ایک سمت ہولیا۔
ٹام بھاگ جاتا ہے
اس صبح جب اسکول کی گھنٹی بجی تو ٹام نے اسکول کا رخ نہیں کیا۔ وہ اس وقت اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ سب اسے برا سمجھتے ہیں۔ اگر وہ کہیں چلا جائے گا تواسے کوئی یادبھی نہ کرے گالیکن اس کے چلے جانے پر سب کو اس کے ساتھ کیے گئے اپنے سلوک پرافسوس ضرور ہوگا۔
وہ اسکول سے دور چلا جارہا تھا کہ اس کی ملاقات جو ہار پر سے ہوئی۔ وہ بھی ایک دکھی اور اکیلا سالڑ کا تھا۔ وہ تقریباً ہر روز اپنی ماں سے معمولی معمولی باتوں پر مار کھایا کرتا تھا۔ اس وقت بھی وہ اپنی ماں سے چھپ کر ملائی کھانے کے جرم میں پٹ کر آرہا تھا۔ لگتا تھا جیسے اس کی ماں اس سے سخت عاجز آچکی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ گھر سے چلا جائے۔ وہ جب ٹام سے ملا تو وہ بہ خوشی اس کے ساتھ گھر سے بھاگ جانے پر تیار ہوگیا۔ انھوں نے جیکسن آئی لینڈ پر جانے کا پروگرام بنایا جو اس جگہ سے چند میل دور دریا میں واقع ایک جزیرہ تھا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جزیرے پر بحری قزاقوں کی طرح رہیں گے۔ انھوں نے ہکل بیری کو تلاش کیا۔ وہ بھی ان کے ساتھ اس جزیرے پر جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ انھوں نے رات کے دو بجے گاؤں سے باہر دریا کے کنارے ایک جگہ ملنے کا پروگرام طے کیا۔ اس جگہ ایک چھوٹی سی کشتی بندھی رہتی تھی۔ ان میں سے ہرایک کو اپنے ساتھ مچھلی پکڑنے کا سامان اور کھانے پینے کی چیزیں لانی تھیں۔
آدھی رات کو ٹام اس جگہ پہنچ گیا۔ وہ اپنے ساتھ ابلا ہواگوشت لایا تھا۔ جو ہارپر بھی اپنے ساتھ ابلا ہواگوشت لایا تھا۔ ہکل بیری اپنے ساتھ ایک ساس پین اور کچھ اناج لایاتھا۔ ٹام نے کہا کہ انھیں اپنے ساتھ آگ ضرور لے چلنی چاہیے۔ یہ ایک عقل مندانہ خیال تھا۔ ان دنوں ماچس نہیں ہوا کرتی تھی۔ انھیں جلد ہی اس جگہ سے تھوڑی دور ایک کشتی دکھائی دے گئی۔ جس میں آگ روشن تھی۔ وہ چپ چپاتے اس کشتی تک پہنچ گئے۔ وہ خالی پڑی تھی کیوں کہ اس کے آدمی گاؤں گئے ہوئے تھے۔ اس کشتی سے آگ حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی کشتی کی طرف لوٹ آئے۔
پھرانھوں نے کشتی کو پانی میں دھکیلا اور اپنی مہم پر روانہ ہو گئے۔ٹا م کشتی کے بیچ میں کھڑا ہوکر اپنے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا۔ ہارپر اور ہکل بیری نے چپو سنبھال رکھے تھے اور کشتی کو تیزی سے کھے رہے تھے۔ انھیں جزیرے تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ انھوں نے کشتی سے اپنی خوراک اور دوسری چیزیں اتاریں اورکشتی میں پڑے ہوئے ایک پرانے سے بادبان کا خیمہ کھڑا کیا۔ اس میں انھوں نے اپنی تمام چیزیں رکھ دیں اور فیصلہ کیا کہ وہ بحری قزاقوں کی طرح خیمے سے باہر سویا کریں گے۔
انھوں نے لکڑیوں کے گٹھے اکٹھے کر کے ایک بڑا سا الاؤ سلگایا اور اس پر اپنے کھانے کے لیے کچھ گوشت پکایا۔ انھیں اس آزادی کا بہت لطف آرہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اب وہ کبھی اپنے گھروں کو واپس نہ جائیں گے۔
’’یہ آزادی بھی کیا خوب چیز ہے؟ ‘‘جو ہار پر بولا۔
  ’’ہاں مجھے تو بہت مزہ آرہا ہے۔‘‘ٹام نے کہا۔
’’ بحری قزاق بھلا کیا کرتے ہوں گے؟‘‘ ہک نے پوچھا۔
’’وہ اپنا وقت بڑے مزے میں گزارتے تھے ۔‘‘ٹام بولا۔ ’’وہ بحری جہازوں پر سفر کرتے تھے اور خوب دولت حاصل کرتے تھے۔ پھر وہ اپنی اس دولت کوکسی جزیرے پر لے جاکراسے وہاں زمین میں دفن کر دیتے تھے۔‘‘
وہ کچھ دیر تک بحری قزاقوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ پھر انھیں نیند آنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی انھیں اس ویران جزیرے پرا کیلے ہونے کا خوف بھی ستانے لگا۔ وہ محسوس کرنے لگے کہ انھوں نے اپنے گھروں سے بھاگ کر غلطی کی تھی۔ انھوں نے عہد کیا کہ وہ آئندہ کبھی ایسی غلطی نہ کریں گے۔ اس کے بعد وہ آرام سے سوگئے۔
اگلی صبح ٹام سب سے پہلے نیند سے بیدار ہوا۔ کچھ دیر تک تو اس کی سمجھ میں نہ آسکا کہ اس وقت وہ کہاں تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں ملیں اور اپنے آس پاس نظر دوڑائی۔ پھراسے یاد آ گیا کہ وہ اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس ویران سے جزیرے پر تھا۔ ہک اور ہار پر ابھی تک سورہے تھے۔ پھر وہ بھی جاگ اٹھے۔ وہ تینوں جب دریا پر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی کشتی راتوں رات دریا میں بہتے بہتے دور جا چکی تھی مگر یہ ان کے لیے اتنی پریشانی کی بات نہ تھی۔ انھیں اس وقت بہت بھوک لگ رہی تھی۔ جوہار پر نے ناشتے کے لیے کچھ گوشت کا ٹا، ٹام اور ہک مچھلیاں پکڑنے دریا پر چلے گئے۔ خوش قسمتی سے انھیں بڑے سائز کی بہت سی مچھلیاں ہاتھ لگ گئیں۔ انھوں نے انھیں بھی گوشت کے ساتھ پکالیا۔ اس ناشتے کا انھیں بہت ہی مزہ آیا۔
ناشتے سے فارغ ہوکر وہ جزیرے کا جائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے۔ جزیرہ تین میل لمبا اور ڈیڑھ میل چوڑا تھا۔ انھوں نے دریا میں بھی دل بھر کر پیراکی کی۔ پھر سہ پہر ہوتے ہی اپنے پڑاؤ پر واپس آگئے۔ انھیں بڑی شدت کی بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے کچھ گوشت پکایا اور اپنی بھوک مٹائی۔ پھر جب وہ کھانے پینے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے ایک عجیب سی آواز کہیں دور سے آتے سنی۔
’’یہ آواز کیسی ہے؟ ‘‘ٹام نے سرگوشی میں پوچھا۔
’’اللہ جانے۔‘‘ ہارپرنے جواب دیا۔
’’یہ عجیب سی آواز ہے۔ آؤ ہم چل کر دیکھیں ۔‘‘ہک بولا۔
وہ تینوں اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگے اور دریا کے کنارے پہنچ کر جھاڑیوں میں دبک گئے۔ انھوں نے دیکھاکہ دریا میں ایک چھوٹا جہاز چلا جار ہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی چھوٹی چھوٹی کشتیاں بھی تھیں۔ اس چھوٹے جہاز پر بہت سے لوگ سوار تھے۔ پھر جہاز سے کوئی توپ دا غی گئی۔ اس کے دہانے سے ایک گولانکل کر آسمان پر بلند ہوا اور فضاہی میں پھٹ گیا اور سفید سفید دھواں آسمان پر چھا گیا۔
’’میں سمجھ گیا ۔‘‘ہک بولا۔ ’’کوئی شخص دریا میں ڈوب گیا ہے اور یہ لوگ اسے تلاش کر تے پھر رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں یہی ہے۔‘‘ٹام بولا۔ ’’پچھلے سال جب بلی ٹرنردریا میں ڈوب گیا تھا تو انھوں نے ایسا ہی کیا تھا۔‘‘
’’اس مرتبہ جانے کون ڈوب گیا ہے؟ ‘‘ہار پر بولا ۔’’کاش !ہمیں یہ معلوم ہو سکے۔ ‘‘
’’میں جانتا ہوں یہ کسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔‘‘ ٹام بولا۔’’ یہ ہمیں تلاش کر رہے ہیں۔‘‘
  یہ خیال ان کے لیے کیسا مسرت افزا تھا۔ لوگوں کو ان کی گمشدگی کا علم ہوگیا تھا۔ وہ ان کے لیے پریشان ہو گئے تھے۔ انھیں ان غریب لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے اپنے سلوک کا افسوس ہورہاتھا۔
وہ چھوٹا جہاز کچھ دیر تک دریامیں چکرلگانے کے بعد واپس چلاگیا اور یوں لڑکے اپنے پڑاؤ پر واپس چلے آئے۔ وہ تینوں اس وقت بڑے خوش اور بڑے جوش میں تھے۔ انھوں نے بالآخر لوگوں سے اپنی اہمیت منوا ہی لی تھی۔ انھوں نے اپنے کھانے کے لیے کچھ مچھلیاں پکڑیں۔ اور باتیں کرنے لگے کہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جاکران کے بارے میں کیا کیا باتیں کر رہے ہوں گے لیکن پھر جب رات ہونے لگی اور ہر جگہ اندھیرا چھانے لگا تو انھوں نے باتیں کرنا بند کر دیں ۔ان کا جوش وخروش ماند پڑنے لگا تھا۔ ٹام اور ہارپرکو اپنے گھر والوں کی یاد ستانے لگی جنھیں ان کی گم شدگی نے واقعی بہت پریشان کیا ہوا ہوگا۔ ان پر اداسی چھانے لگی۔ ہک اونگھنے لگا تھا۔ پھر جلد ہی وہ باقاعدہ خراٹے لینے لگا۔ ہارپر کو بھی نیند آنے لگی۔جب وہ بھی سوگیا تو ٹام اپنی جگہ سے اٹھا اور دریا کی طرف چل دیا۔
گھر کی یاد
چند منٹوں بعد ٹام پانی میں تیرتا ہوا جزیرے سے دور ہٹا جارہا تھا۔ جب دوسرے ساحل پر پہنچا تو وہ پانی سے نکل کر دریا کے کنارے کنارے چلنے لگا۔ دس بجے وہ قصبے کے باہر کھلے میدان میں جا پہنچا۔ وہ دریا کے ساحل پر بندھی ہوئی بڑی سی کشتی دیکھ سکتا تھا۔ اس کشتی کے ساتھ ہی ایک چھوٹی کشتی بندھی ہوئی تھی۔ وہ اس چھوٹی کشتی میں جاکر چھپ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بڑی کشتی پر لوگ آگئے اور اسے چلاتے ہوئے قصبے کے قریبی ساحل پر لے گئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے کشتی کو باندھا اور وہاں سے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ٹام چھوٹی کشتی میں سے نکلا اور آبادی کی سمت ہولیا اور کھلی سڑکوں پر سے گزرتا ہوا اپنے گھر کے سامنے جا پہنچا۔ اس نے پیچھے کی طرف جاکر باڑ پھلانگی اور کمرہ نشست کی کھڑکی سے اندر جھانکا۔ وہاں خالہ پولی، مسزہارپر، سڈ اور میری بیٹھے باتیں کرتے دکھائی دیے۔ ان کے اور دروازے کے درمیان ایک پلنگ حائل تھا۔ ٹام دروازے کی طرف گیا اور اس کا ہینڈل گھمانے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے دبایا۔ دروازہ ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ کھل گیا۔ ٹام اسے آہستہ آہستہ مزید کھولتا رہا۔ پھر وہ اس میں سے گزرکر تیزی سے پلنگ کے نیچے جاکر چھپ گیا۔ اسی وقت اس نے خالہ پولی کی آواز سنی:
’’ارے یہ موم بتی کیسے بجھ گئی؟ سڈ دیکھو دروازہ کھلا ہوا ہے۔ جاؤ جا کر اسے بندکردو۔‘‘
ٹام پلنگ کے نیچے آہستہ آہستہ آگے کی طرف سرکنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ خالہ پولی کے پیروں کے بالکل قریب آگیا۔
’’ میں کہہ رہی تھی ۔‘‘خالہ پولی بولیں۔’’ وہ کوئی ایسا برا لڑکا نہیں تھا۔ اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ وہ دل کا بہت اچھا تھا۔ بہت اچھی فطرت کا مالک تھا۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی وہ رونے لگیں۔
’’میرا جو بھی ایسا ہی تھا۔‘‘ مسز ہار پر بولیں۔’’ وہ شرارتی ضرور تھالیکن اس کی طبیعت بہت اچھی تھی۔ وہ ایک نیک اور اچھالڑ کا تھا۔ آہ میں اسے معمولی معمولی باتوں پر کتنا مارا کرتی تھی۔ یہ سوچ سوچ کر مجھے بہت دکھ محسوس ہوتا ہے۔ آہ اب میں اسے کبھی نہ دیکھ سکوں گی۔ ‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
’’مجھے امید ہے کہ ٹام جہاں کہیں بھی ہوگا خوش ہی ہوگا ۔‘‘سڈ بولا۔’’ لیکن اگر ایسا نہ ہواتو …‘‘
’’سڈ! آگے کچھ نہ کہو۔ میں ٹام کے بارے میں کوئی بری بات ہرگز ہرگز نہیں سنوں گی! اب جب کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوچکا ہے تمھیں اس کے بارے میں ایسی باتیں کرتے شرم آنی چاہیے؟‘‘ خالہ پولی چلا کر بولیں۔
  ٹام پلنگ کے نیچے چھپا ہوا یہ ساری باتیں سن رہا تھا۔ اسے اپنے کیے پر بہت افسوس ہورہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھاکہ وہ پلنگ کے نیچے سے باہرنکل آئے اور دوڑ کر خالہ پولی سے لپٹ جائے لیکن اس نے اپنے آپ کو ایسا کرنے سے باز رکھا اور خاموشی سے سب کی باتیں سننے لگا۔ ان کی باتوں سے اسے معلوم ہوا کہ گاؤں کے سب لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ تینوں لڑکے دریا میں تیرتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوگئے ہیں۔
کافی تلاش کے باوجود دریاسے ان کی لاشیں دستیاب نہ ہوئی تھیں۔ چناں چہ یہ طے ہوا کہ اگلی صبح گرجا میں ان کی آخری رسومات انجام دے دی جائیں۔ ان باتوں نے ٹام کوبری طرح سے لرزا دیا۔
پھر مسز ہار پر نے خالہ پولی کواللہ حافظ کہا اور وہاں سے رخصت ہوگئیں۔ خالہ پولی نے سڈ اور میری کوشب بخیر کہہ کرسونے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے بعد وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور روتی ہوئی ٹام کے لیے دعائیں کرنے لگیں۔ انھیں یوں روتے اور دعائیں مانگتے دیکھ کر ٹام بھی چپکے چپکے رونے لگا۔ دعائیں مانگنے کے بعد خالہ پولی پلنگ پر لیٹ گئیں۔ وہ اب بھی رو رہی تھیں اور بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھیں۔ پھر جب وہ سوئیں تو ٹام پلنگ کے نیچے سے نکلا اور ان کے قریب کھڑا ہوکر انھیں دیکھنے لگا۔ اس کا دل ان کے لیے بہت دکھ محسوس کر رہا تھا۔ وہ کچھ دیر آنسو بھری آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس نے جھک کر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور تیزی سے دروازہ کھول کر اسے اپنے پیچھے بندکرتے ہوئے گھر سے باہر بھاگ کھڑا ہوا۔
دریا کے کنارے پہنچ کر اس نے چھوٹے جہاز سے بندھی ہوئی چھوٹی سی کشتی کو کھولا اور اس میں سوار ہوکر اسے کھیتا ہوا دریا کے مخالف ساحل کی سمت ہولیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے کشتی کو وہاں چھوڑا اور چلتے چلتے جنگل میں داخل ہوگیا۔ وہاں وہ ایک درخت کے نیچے اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک صبح نہ ہوگئی۔ پھر جب سورج کافی بلندی پر پہنچ گیا تو وہ جزیرے پر جانے کے لیے دریا میں اتر گیا۔ جب وہ جزیرے پر پہنچ کرکیمپ کے قریب پہنچاتو اس نے خیمے کے اندر جو کو کہتے سنا۔’’ نہیں۔ ٹام ضرور واپس آ جائے گا ہک۔ تم دیکھ لینا۔ وہ ہمیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ اس کے نزدیک ایسا کرنا ایک قزاق کی شان کے خلاف ہے لیکن میں حیران ہوں کہ وہ آخرکہاں چلا گیا ہے۔‘‘
دوسرے ہی لمحے ٹام نے خیمے کے اندر قدم رکھ دیا۔
٭٭٭
ناشتے کے بعد ٹام نے اپنے ساتھیوں کو اپنے گاؤں جانے اور باقی باتوں کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد وہ وہیں لیٹ کر سوگیا اور دوپہر تک سوتا رہا جب کہ اس کے ساتھی مچھلیاںپکڑتے اور جزیرے پر ادھر ادھر گھومتے رہے۔
دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر وہ کچھوؤں کے انڈے تلاش کرنے لگے ۔ساحل کی نرم نرم ریت پر جگہ جگہ کھدائی کرنے پرانھیں کچھوئوں کے بہت سے انڈے ہاتھ لگے۔ ان میں سے کچھ انھوں نے رات کو کھائے اور باقی صبح کے ناشتے کے لیے رکھ چھوڑے۔ یہ انڈے بالکل گول اور سفید سے تھے۔ ان میں کچھ انڈے اخروٹ کی طرح چھوٹے تھے۔پھر وہ دریا میں تیرتے اور ساحل کی ریت پر مختلف کھیل کھیلتے رہے۔ ٹام باربار نرم نرم ریت پر’’ بیکی‘‘لکھ لکھ کر مٹاتا رہا۔
جوہارپر کو بری طرح سے اپنا گھر یاد آرہا تھا۔ وہ بار بار اس کا ذکر کر رہا تھا اور رو رہا تھا۔ ہک بھی بے حداداس دکھائی دے رہا تھا۔ ٹام کی دلی کیفیت بھی اپنے دوستوں سے مختلف نہ تھی مگراس نے اسے ان پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس کے پاس ایک راز تھا جو اس نے ابھی تک اپنے ساتھیوں کو نہ بتایا تھا۔ اس نے کہا۔’’اس جزیرے پر قدیم زمانے میں بحری قزاق آیا کرتے تھے۔ ہمیں اس جزیرے کو اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھنا چاہیے۔ انھوں نے اس جزیرے پرکسی نامعلوم مقام پر اپنا خزانہ چھپارکھا ہے۔ ہوسکتا ہے سونے چاندی کا یہ ذخیرہ ہمیں مل جائے۔‘‘
لیکن اس کے دوستوں نے اس کی اس بات میں کسی دلچسپی کا اظہار نہ کیا ۔جو ایک شاخ سے ریت کریدتارہا اور منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑاتا رہا۔ پھروہ بولا :’’یہ سب کچھ چھوڑ و۔میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ یہاں میں اپنے آپ کو بہت تنہا اور اکیلا محسوس کر رہا ہوں۔ ‘‘
’’نہیں جو !تمھیں جلد ہی اس نئی زندگی کا لطف آنے لگے گا ۔‘‘ ٹام بولا۔’’ذرا دیکھو تو ہم یہاں کتنی آزادی سے ہر کام کر رہے ہیں۔ پیراکی، مچھلیاں پکڑنا،کھیل کو د۔‘‘
’’مجھے ان باتوں سے کوئی دل چسپی نہیں۔ میں گھر جانا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’ یعنی تمھیں اپنی ماں یاد آرہی ہے؟ ‘‘
’’ہاں۔ اور یہ قدرتی بات ہے۔ اگر تمھاری بھی ماں ہوتی تو اس وقت تمھارے احساسات بھی مجھ جیسے ہوتے۔‘‘
’’ تو جاؤ پھر تم اپنی ماں کے پاس ۔کیوں ہک تم کیا کہتے ہو؟ تم کیا یہیں ٹھیرو گے یا تم بھی واپس جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں میں یہیں رہوں گا۔‘‘ ہک نے کہا مگر اس کے لہجے میں ہچکچاہٹ کی جھلک تھی۔
’’ ٹھیک ہے پھر تم یہاں رہو میں جب تک زندہ رہا تم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔‘‘جو بولا اور وہاں سے جانے کے لیے اپنی چیزیں سمیٹنے لگا۔
  ’’ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ ‘‘ٹام بولا۔ ’’بے شک تم اپنے گھر واپس چلے جاؤ۔ وہاں سب لوگ تمھارا مذاق اڑائیں گے۔ اچھے قزاق ثابت ہوئے ۔تم کو تو یہاں ایک رات گزرتے ہی گھر یاد آنے لگا۔ میں اور ہک یہیں ٹھیریں گے۔ کیوں ہک! ہم جو کے بغیر بھی یہاں رہ سکتے ہیں کہ نہیں؟‘‘ اس نے ہک کی طرف دیکھا لیکن ہک نے نظریں چرائیں۔
’’ میں بھی یہاں سے جانا چاہتا ہوں ٹام۔ یہ جگہ ہمارے لیے اچھی نہیں۔ یہاں بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے، تم بھی ہمارے ساتھ واپس چلو ٹام۔‘‘
’’ ہرگز نہیں۔ تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔ میں یہیں رہوں گا۔‘‘
’’ نہیں ٹام۔ تم بھی ہمارے ساتھ چلو ۔تم بھلا اکیلے یہاں کیسے رہو گے؟ ‘‘ہک اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں سمیٹنے لگا۔
’’ہرگز نہیں۔ تم بے شک چلے جاؤ میں تمھیں نہیں روکتا۔‘‘ ٹام بولا۔
’’ تم اچھی طرح سے سوچ لو ٹام۔ ہم ساحل پر رک کر تمھارا انتظار کریں گے۔ ‘‘
’’تمھیں طویل عرصے تک انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
ہک نے افسردہ سی نظر اس پر ڈالی اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ جو ہار پر بھی اس کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ انھوں نے ایک بار بھی مڑ کر ٹام کی طرف نہ دیکھا۔ ٹام کو ایک دم ہی شدید قسم کی تنہائی اور اکیلے پن کا احساس ہوا۔ اپنے دوستوں کے بغیر تن تنہا اس ویران سی جگہ پر رہنا اسے عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے پیچھے دوڑ پڑا۔
’’ رک جاؤ۔ رک جاؤ۔ میں تمھیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
جو اور ہک چلتے چلتے رک گئے اور مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ٹام دوڑتا ہوا ان کے قریب آگیا اور انھیں اپنا راز بتا یا۔ جب وہ انھیں سب کچھ بتا چکا تو وہ مسرت سے چلا اٹھے اور اس سے کہا کہ آخر اس نے انھیں یہ سب کچھ پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا تھا۔ اگر وہ انھیں اپنے خفیہ منصوبوں کے بارے میں پہلے سے ہی آگاہ کر دیتاتو وہ یوں گھر واپس نہ جانے لگتے۔ وہ خوشی خوشی پڑاؤ کی طرف واپس لوٹ آئے اور انڈوں اور مچھلیوں کا سالن کھانے کے بعد کچھ دیر تک کھیلتے رہے پھر ریت پر پڑ کر سو گئے۔
  رات کو شدید بارش کے ساتھ ایک خوف ناک قسم کا طوفان بھی آیا۔ بادل کچھ اس طرح کھل کر برسے اور بجلی یوں کڑکتی کوندتی رہی کہ وہ اپنے خیمے میں جا گھسے اور باقی رات اسی میں گزاری۔ پڑاؤ کی ہر چیز بھیگ گئی تھی۔ مگر خوش قسمتی سے آگ محفوظ رہ گئی تھی۔ انھوں نے صبح اس آگ میں چند لکڑیاں جھونکیں اور اس پر اپنے کھانے کے لیے مچھلیاں اور گوشت بھونا۔ پھر جب سورج نکلا تو وہ ریت پر جاکر لیٹ گئے۔ انھیں ایک بار پھر گاؤں کی یاد ستانے لگی تھی اور اپنے گھر والے یاد آنے لگے تھے لیکن ٹام اپنی باتوں سے انھیں بہلاتا رہا اور ان کی طبیعتوں کو بشاش رکھنے کی کوششیں کرتا رہا۔ اس نے انھیں اپنے جس راز سے آگاہ کیا تھا۔ اس میں انھیں دل چسپی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کا منصوبہ تھا کہ انھیں اب قزاقوں کے بجائے ریڈ انڈین بن جانا چاہیے۔ اس منصوبے نے انھیں تمام دن مصروف رکھا۔
واپسی
اس ہفتے کی سہ پہر کو گاؤں کا ہر فرد بے حد غم زدہ اور اداس دکھائی دے رہا تھا۔ ہارپر اور خالہ پولی کے خاندانوں کے دکھ اور رنج کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ سب گاؤں والے ان سے ہم در دی کر رہے تھے۔ گاؤں کے بچے بھی اپنا کھیل کو د بھولے ہوئے تھے اور بالکل خاموش تھے۔
بیکی تھیچر بڑی اداسی کے عالم میں اسکول کے شمالی صحن میں پھر رہی تھی۔ اسے یہ سوچ سوچ کر بہت دکھ ہورہا تھا کہ ٹام کے ساتھ اس نے اچھا سلوک نہ کیا تھا اوراب وہ اسے کبھی نہ دیکھ سکے گی۔
پھر اتوار کے دن جب اسکول کا وقت ختم ہوا تو گرجاکی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ وہ اس وقت بجائی جاتی تھیں جب کسی کی آخری رسومات ادا کی جانی ہوتی تھیں۔ لوگ گرجامیں جمع ہونے لگے ۔وہ ان تینوں لڑکوں کی پراسرار موت کے بارے میں چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے۔ گرجاکی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب وہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے۔ خالہ پولی ،سڈ اور میری کے ساتھ آئیں۔ ان کے بعد ہارپر خاندان کے لوگ بھی آ گئے۔ وہ سب سیاہ کپڑے پہنے تھے۔ جب تک یہ لوگ بیٹھ نہیں گئے۔ سب لوگ کھڑے رہے۔ پھر پادری صاحب آئے اور دعائیں پڑھنے لگے۔ اس کے بعد حمدیہ گیت گائے گئے۔ پھر پادری صاحب نے ان تینوں لڑکوں کے حق میں دعائے مغفرت کہی۔ اس دعا کے دوران ہال میں رونے اور سسکیاں بھرنے کی آواز یں گو نجنے لگیں۔
پھر اچانک گرجا کے دروازے پرکچھ شور ہوا۔ پادری صاحب نے اپنی آنسو بھری آنکھوں پر سے رومال ہٹایا اور سامنے دروازے کی طرف دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کو اس طرح دیکھتے ہوئے جب لوگوں نے گردنیں موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو ان کی حالت بھی پادری صاحب سے مختلف نہ ہوئی۔ وہ تینوں لڑکے،جن کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے وہ گرجا میں جمع ہوئے تھے، دروازے سے اندر داخل ہو رہے تھے۔ ٹام سب سے آگے تھا۔ اس کے پیچھے جو ہارپرا ور ہکل بیری فن تھے۔ وہ گر جا کے پچھلے حصے میں چھپے ہوئے تھے۔
خالہ پولی،میری اور مسز ہارپر نے ٹام اور جو کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے انھیں لپٹا لیا۔ اور انھیں بے تحاشا پیار کرنے لگیں۔ بے چارا ہک تنہا کھڑا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آرہا تھا وہ کہاں جائے، کہاں جا چھپے۔ اسی وقت ٹام نے اس کا بازو پکڑ لیا اور خالہ پولی سے بولا: ’’خالہ پولی۔ یہ اچھی بات نہیں۔ کسی کو ہک کو دیکھ کر بھی اظہار مسرت ضرور کرنا چا ہیے۔ ‘‘
’’ہاں۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ بے چارا بے ماں کا بچہ بھی بہ خیریت و عافیت واپس آ گیا ہے۔‘‘ خالہ پولی نے کہا اور ہک کو لپٹاتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔
اس وقت پادری صاحب کی آواز بلند ہوئی:
’’ اللہ کا شکر بجالاؤ۔ اس کی حمد وثناکر وجس نے تم پر اپنی بے پناہ رحمتیں اور برکتیں نازل کیں۔‘‘
سب لوگ پادری صاحب کی آواز میں آواز ملاکر مناجات پڑھنے لگے۔ ٹام نے ادھرادھر نظر دوڑائی۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے شان دار دن تھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ وہ عین اپنی آخری رسومات کی ادائی کے وقت گرجا میں داخل ہوں گے ،بہت کام یاب رہا تھا۔ اس منصوبے کی کام یابی نے انھیں گاؤں والوں کی نظروں میں ہیرو بنا دیا تھا۔ خالہ پولی ان کی اس طرح واپسی پر اتنی خوش تھیں کہ اس پر ناراض ہونا بھی بھول گئی تھیں۔
پھر جب ٹام اسکول پہنچا تو اس نے وہاں سب بچوں کو اپنے کارناموں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے پایا۔ وہ سب اس پر رشک کر رہے تھے اور خواہش کر رہے تھے کہ کاش! انھیں بھی اس کی طرح کوئی کارنامہ یا مہم انجام دینے کا موقع مل جائے۔
دن گزرتے رہے۔ یہاں تک کہ اسکول کی چھٹیاں ہوگئیں۔ بیکی تھیچر اب ٹام کی گہری دوست بن گئی تھی۔ چھٹیاں ہونے کے بعد وہ روزانہ شام کو ٹام کے ساتھ کھیلنے آتی رہی پھراس کے ماں باپ اسے اپنے ساتھ ایک دوسرے شہر لے گئے۔ اس کے جانے کے چند دنوں بعد ٹام کے خسرہ نکل آئی اوراسے تین ہفتوں تک بستر پر لیٹے رہنا پڑا۔
٭٭٭
اب وقت آگیا تھا کہ مف پاٹر پر ڈاکٹر رابن سن کو قتل کر نے کے جرم میں مقدمہ چلا یا جاتا۔ سارے گاؤں میں اس کے متعلق باتیں ہورہی تھیں اور ٹام انھیں سن سن کر خوف زدہ ہورہا تھا۔ ایک دن وہ ہک سے ملا اور اسے ایک محفوظ جگہ پر لے گیا جہاں وہ دونوں آپس میں باتیں کر سکتے تھے۔
’’ہک! کیا تم نے کسی کو اس کے متعلق بتایا ہے؟‘‘
’’کس کے متعلق؟‘‘
’’تم خوب جانتے ہو کہ میرا کیا مطلب ہے۔‘‘
’’ نہیں! ہرگز نہیں۔‘‘
’’ایک لفظ بھی نہیں؟‘‘
  ’’ہاں ایک لفظ بھی نہیں ۔لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟ ‘‘
’’بات یہ ہے ہک کہ میں بہت خوف محسوس کر رہا ہوں ۔‘‘
’’ٹام! اگرانجن جو کوہم پر کوئی شک ہوگیا تو ہم زیادہ دیر تک زندہ نہ رہیں گے۔ اسے یاد رکھنا ۔‘‘
’’ہاں میں جانتا ہوں۔ آؤ ہم ایک مرتبہ پھر آپس میں عہد کریں کہ ہم نے جوکچھ دیکھا تھا اس کے بارے میں خاموش رہیں گے۔ ‘‘
چناں چہ ان دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے عہد کیا کہ وہ بھی کسی کو نہ بتائیں گے کہ وہ اس قتل کے متعلق کچھ جانتے تھے۔
’’بے چارا مف پاٹر ۔‘‘ہک بولا: ’’مجھے امید نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کر سکے گا ۔تمھیں کیا اس پر ترس نہیں آتا ٹام؟ ‘‘
’’آتا ہے۔ وہ مجھ پر ہمیشہ بہت مہربان رہا ہے۔ وہ اکثر میری پتنگیں اور میری مچھلیاں پکڑنے والی بنسی ٹھیک کر دیا کرتا تھا۔ میری خواہش ہے کہ ہم دونوں مل کر اس کو بچانے کی کوشش کریں ۔‘‘
  انھوں نے خاصی دیر تک آپس میں باتیں کیں۔ پھر وہ دونوں مل کر اس چھوٹے سے قید خانے میں گئے جہاں مف پاٹر کو قید رکھا گیا تھا۔ اس کے باہر کوئی گارڈ وغیرہ نہیں تھے۔ مف پاٹر اس وقت زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے کھڑکی کے راستے اسے تھوڑا سا تمباکو اور ماچس دی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس غریب آدمی نے اس تحفے پران کا بہت شکریہ اداکیا۔
’’تم بہت اچھے ہو۔ یہ تحفہ جو تم نے مجھے دیا ہے، اس پر میں تمھارا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’ساری آبادی اس وقت مجھے بھلا بیٹھی ہے لیکن تم نے مجھے نہیں بھلایا ۔میں نے ایک برا کام کیا تھا اور اب اس کی سزا بھگت رہا ہوں۔ میں تم دونوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی شراب نہ پینا۔ شراب بہت بری چیز ہے۔ آدمی کو بالکل برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ ‘‘
جب ٹام واپس گھر پہنچا تو وہ بہت اداس تھا۔ اس رات اسے نیند میں خوف ناک خواب دکھائی دیتے رہے۔ اگلے دن وہ عدالت کے باہر جاکر کھڑا ہوگیا۔ اس کا دل اندر جانے کو بہت چاہ رہا تھا۔ مگر وہ اس کی ہمت نہ کرسکا۔ اس سے اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اسے لوگوں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ انجن جو اپنے بیان پر قائم تھا اور کوئی بھی اسے جھوٹا ثابت نہ کرسکتا تھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوسرے دن یہ صاف دکھائی دینے لگا تھا کہ مف پاٹر کو قتل کا مجرم قرار دے کر سزاسنادی جائے گی۔
اس رات ٹام بہت دیر تک گھر سے باہر رہا۔ وہ کھڑکی کے راستے اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا اور اس وقت وہ جوش میں دکھائی دے رہا تھا۔ اس رات اسے نیند بھی بہت دیر سے آئی۔ اگلے دن گاؤں بھر میں بہت جوش وخروش پھیلا ہوا تھا۔ وہ ایک اہم دن تھا۔ کافی انتظار کے بعد اراکین جیوری عدالت میں داخل ہوئے اور اپنی نشستوں پر جاکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد مف پا ٹر کو وہاں لایا گیا۔ وہ بہت مایوس اور غمگین دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑا ہوا تھا۔ اسے ایسی جگہ بٹھایا گیا، جہاں ہرشخص اسے دیکھ سکتا تھا۔ انجن جو بھی عدالت میں موجود تھا۔ پھر جج صاحب تشریف لے آئے اور عدالتی کارروائی شروع ہوگئی۔
ایک آدمی نے بیان دیا کہ اس نے قتل کی رات کو مف پاٹر کو دریا پر اپنے کپڑے دھوتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایک دوسرے آدمی نے بیان دیا کہ اس نے مف پاٹرکا چاقو مقتول ڈاکٹر کی لاش کے قریب پڑا ہوا پایا تھا۔ تیسرے آدمی نے بیان دیا کہ وہ چاقو واقعی مف پاٹرہی کا تھا۔
وہ اسے بارہا اس کے ہاتھ میں دیکھ چکا تھا۔ مف پاٹر کے وکیل نے کسی سے کوئی سوال نہ کیا۔ اس طرح مف پاٹر کی پوزیشن اور بھی نازک ہوگئی۔ پھر اچانک ایک آواز عدالت میں گونجی۔
’’ تھامس سائر کو بلاؤ؟‘‘
عدالت میں موجود تمام لوگوں کے سر ٹام کی طرف گھوم گئے۔ ٹام اپنی جگہ سے اٹھ کر چلتا ہوا گواہوں کے کٹہرے میں جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے انجیل مقدس پر ہاتھ رکھ کر سچ بو لنے کا حلف اٹھایا۔
’’تھامس سائر۔جون کی سترہ تاریخ کو آدھی رات کے وقت تم کہاں تھے؟ ‘‘
ٹام نے جلدی سے انجن جو کی طرف دیکھا۔ مگر اس سے کچھ بولا نہ گیا۔ سب لوگوں کی نظریںاس کے چہرے پر گڑی تھیں۔ مگر وہ خاموش تھا۔ پھر چند منٹ گزرنے کے بعد اس نے آہستہ سے کہا:
’’قبرستان میں۔‘‘
’’ذرا اونچا بولو۔ اور ڈرو نہیں۔‘‘
’’قبرستان میں۔‘‘
’’کیا تم ہورس ولیم کی قبر کے قریب موجود تھے؟ ‘‘
’’ہاں جناب!‘‘
’’تم اس قبر کے کتنے قریب تھے؟‘‘
’’جتنا کہ آپ کے قریب ہوں۔ ‘‘
’’کیا تم چھپے ہوئے تھے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’قبر کے قریب ایک درخت کے پیچھے۔ ‘‘
’’کیا اس وقت کوئی اور بھی تمھارے ساتھ تھا؟‘‘
’’جی ہاں۔ میرے ساتھ…‘‘
’’بس بس تمھیں اپنے ساتھی کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ وقت آنے پر ہم اس کا بیان بھی لے لیں گے۔ کیا تم اپنے ساتھ کچھ لے کر وہاں گئے تھے؟‘‘
ٹام اس کا جواب نہ دینا چاہتا تھا۔
’’ بتاؤ لڑ کے! تم وہاں اپنے ساتھ کیا چیز لے کر گئے تھے؟‘‘
’’ ایک مری ہوئی بلی۔‘‘
ٹام کے جواب پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔ پھر جج نے سب کو خاموش کرا دیا۔
  ’’ہم اس بلی کا ڈھانچہ ضرور دیکھیں گے۔ ہاں تھامس سائر! تم ہمیں تمام واقعات بلاخوف و ہچکچاہٹ کہہ سناؤ ۔‘‘
ٹام نے اس رات قبرستان میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ پہلے پہل وہ رک رک کر اور ڈر ڈر کرسنا تارہا۔ پھر وہ تیزی اور روانی کے ساتھ بڑی بے خوفی سے اپنا بیان دینے لگا۔ کمرہ عدالت میں بالکل سناٹا چھاگیا تھا۔ ہر آنکھ اس پر جمی ہوئی تھی۔ ہر کوئی فرط حیرت سے منھ کھولے اس کی زبانی اس رات کے بھیانک واقعے کی تفصیل سن رہا تھا۔ پھر جب ٹام نے کہا:
’’جونہی ڈاکٹرنے لکڑی کالٹھ گھماکر مف پاٹر کے سر پر رسید کیا تو مف پاٹر زمین پر گرگیا۔ انجن جو ہاتھ میں مف پاٹر کا چاقولیے اچھل کر ڈاکٹر پر…‘‘
تو اسی وقت انجن جو بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی سے باہر کود گیا اور اندھا دھند ایک طرف دوڑتا چلا گیا۔
خزانے کی تلاش
یوں ایک بار پھر ٹام کو قصبے والوں کی نظروں میں ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس دن ٹام بے حد خوش تھا۔ ہر کوئی اس کی تعریف کر رہا تھا اور اس کے متعلق حتمی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔ لیکن ٹام کو اب انجن جو کی طرف سے مسلسل خطرہ لاحق رہنے لگا تھا۔ اس کی راتیں بڑی بے آرامی سے کٹنے لگی تھیں۔ اسے خوابوں میں انجن جو دکھائی دیتا تھا۔ اب وہ راتوں کو گھر سے باہر بھی نہ نکلتا تھا۔ ہک بھی بہت خوف زدہ تھا۔ ٹام نے عدالت میں ڈاکٹر رابن سن کے قتل کی تمام کہانی کہہ سنائی تھی۔ لیکن اس نے اس کا نام نہ لیاتھا۔ ہک کو خدشہ تھا کہ اگر انجن جو کو اس کے بارے میں معلوم ہوگیا تو اس کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ انجن جو کو تلاش کر کے لانے والے شخص کے لیے انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسے قصبے میں اور اس کے آس پاس ہر جگہ تلاش کیا گیا۔ مگر وہ کہیں بھی نہ مل سکا۔ دن آہستہ آہستہ گزرتے جارہے تھے۔
ٹام اور ہک نے فیصلہ کیا کہ انھیں زمین میں کوئی دفن شدہ خزانہ تلاش کرنے کی کوشش کر نی چا ہیے۔ ٹام کو یقین تھا کہ قصبے میں اکثر جگہوں پر زمین میں کافی خزانے دفن ہیں۔ چناں چہ اب وہ خزانوں کی تلاش میں اکثر مقامات پر کھدائی کرنے میں مصروف رہنے لگے۔ انھیں جب بے شمار جگہیں کھود ڈالنے کے باوجود کوئی پھوٹی کوڑی بھی دست یاب نہ ہوسکی تو ٹام نے فیصلہ کیا کہ انھیں آسیب زدہ مکان میں جاکر خزانہ تلاش کرنا چاہیے۔
’’ آسیب زدہ مکان میں؟ میں تو وہاں جانا پسند نہ کروں گا ٹام!‘‘ ہک بولا۔’’وہاں سنا ہے کہ بھوت رہتے ہیں۔ وہ وہاں آنے والے شخص پر ایک دم ہی سوار ہو جاتے ہیں اور خوف ناک قسم کی آوازیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
’’ ہاں یہ تو ہے لیکن بھوت صرف رات کے وقت ظاہر ہوتے ہیں۔ دن کے وقت وہ کسی کو کچھ نہیں کہتے۔‘‘ٹام بولا۔
ہک مان گیا۔ چناں چہ انھوں نے طے کیا کہ وہ اگلے دن دوپہر کوملیں گے۔ اگلے دن دوپہر کوجب وہ اس آسیب زدہ مکان پر پہنچے تو وہ دونوں خاصے خوف زدہ ہورہے تھے۔ وہ مکان واقعی ایک آسیب زدہ مکان معلوم ہورہا تھا۔ اس کی اکثر دیواریں گر چکی تھیں۔ کھڑکیوں کے شیشے غائب تھے اور ہرجگہ لمبی لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔ وہ دبے پاؤں چلتے ہوئے دروازے تک جا پہنچے اور اندر جھانکنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ کمرے میں ایک طرف ایک ٹوٹا پھوٹا آتش دان تھا اور ایک طرف ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں تھیں۔ ہرطرف جابجا ملبے کے ڈھیر اور مکڑیوں کے جالے تنے تھے۔ وہ دبے پاؤں چلتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ وہ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔ ذراسی آواز پر وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہونے کے لیے تیار تھے لیکن جب اندر داخل ہو گئے تو ان کا خوف خاصی حد تک کم ہوگیا۔ وہ گھوم پھر کر اس جگہ کا جائزہ لینے لگے پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا چا ہیے۔ انھوں نے اپنے اوزار ایک کونے میں پھینکے اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ وہاں ان کی دلچسپی کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ انھوں نے اس جگہ کو اچھی طرح دیکھا بھالا۔ پھر واپس نیچے آنے کے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔ اس وقت ٹام نے ایک دم ہی ہک کا بازو پکڑ لیا۔
’’شش…‘‘
’’کیا بات ہے؟ ‘‘ہک نے سرگوشی میں پوچھا۔ وہ ایک دم خوف زدہ ہوگیا تھا۔
’’شش۔ کیا تم کچھ نہیں سن رہے ہو؟‘‘
’’ہاں مجھے کچھ آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ آؤ یہاں سے بھاگ چلیں۔ ‘‘
’’خاموش…ہلو جلومت! وہ دروازے کی طرف آرہے ہیں۔‘‘
دونوں لڑکے فرش پر لیٹ گے اور اپنی آنکھیں لکڑی کے تختے میں بنے ہوئے سوراخ پر جمادیں۔ وہ دونوں بہت خوف زدہ ہورہے تھے۔
’’ وہ رک گئے ہیں۔ نہیں۔ وہ آرہے ہیں۔ بس اب چپ ہی رہوہک۔کاش! میں یہاں نہ آیا ہوتا ہے۔‘‘
پھر دو آدمی کمرے میں داخل گئے۔ ان میں سے ایک تو وہ گونگا بہرا ہسپانوی تھا جو دو تین مرتبہ اس قصبے میں دکھائی دیا تھا اور دوسرا کوئی اجنبی شخص تھا۔ اس شخص نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے اور بڑا سخت گیر دکھائی دیتا تھا جب کہ ہسپانوی نے ایک کمبل اوڑھ رکھا تھا۔ اس کی مونچھیں اور داڑھی سفید تھی۔ اس کے سفید بال اس کے ہیٹ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ وہ دونوں آدمی اندر داخل ہوتے ہی دروازے کی طرف منہ کر کے دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے۔
’’نہیں۔ ‘‘دوسرا آدمی کہنے لگا ۔’’میں نے اس کے متعلق غور کیا ہے۔ میں اسے پسند نہیں کرتا۔ یہ خطرناک ہے۔‘‘
’’ خطرناک ہے ؟‘‘گونگا بہرا ہسپانوی بولا۔ ’’بز دل کہیں کے!‘‘
اسے بولتے سن کر لڑکوں کو حیرت تو ہونی ہی تھی لیکن اس کی آواز کو پہچانتے ہی انھیں حیرت کا ایک اور شدید دھچکا لگا۔ وہ گونگا بہرا ہسپانوی انجن جو تھا۔ تھوڑی دیر تک ان دونوں آدمیوں کے درمیان خاموشی رہی۔ پھر انجن جو بولا:
’’سنو لڑکے۔ تم دریا پر واپس چلے جاؤ اور میرے پیغام کا انتظار کرو ۔میں حالات کا جائزہ لینے ایک بار پھر قصبے کا چکر لگاؤں گا۔ ہم وہ خطرناک کام بعد میں کر لیں گے۔ جب میرے خیال میں وہ کرنے کے لیے مناسب وقت ہوگا۔ اس کے بعد ہم دونوں ٹیکساس چلے جائیں گے۔‘‘
دوسرا آدمی راضی ہوگیا۔ انجن جو نے کہا کہ وہ بہت تھکا ہوا ہے اور سونا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ ذرا خبر گیری کرتا رہے۔ پھر وہ وہیں لیٹ گیا اور جلد ہی خراٹے لینے لگا۔ دوسرا آدمی تھوڑی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ پھر وہ بھی اونگھنے لگا اور جلد ہی وہ بھی زمین پر لیٹ کرگہری نیند سوگیا۔
’’آئواب ہم یہاں سے چلیں۔‘‘ٹام نے سرگوشی میں ہک سے کہا۔
’’ نہیں، میں نہیں جاتا۔ اگر ان میں سے کوئی جاگ گیا تو ہم مارے جائیں گے۔ ‘‘ٹام نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر ہک بہت ڈرا ہوا تھا۔ اس پر ٹام خود اپنی جگہ سے اٹھا اور سیڑھیوں کی طرف ہولیا۔ اس نے بہت احتیاط اور آہستگی کے ساتھ اپنا پاؤں تختے پر پر رکھا۔ تختے میں سے چرچراہٹ کی ہلکی سی آواز ابھری۔ ٹام ڈر کے مارے اپنی جگہ پرمنجمد سا ہوگیا۔ اس نے فوراً ہی اپنا پاؤں واپس کھینچ لیا۔ اب دونوں لڑکے سانس رو کے نیچے سے آنے والی آوازوں کا انتظار کرنے لگے۔ کتنی ہی دیر گزرگئی۔ سورج اب غروب ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
  پھر خراٹوں کی ایک آواز بند ہوگئی۔ انجن جو اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا اس کا دوست گہری نیند سویا ہوا ہے۔ اس نے اسے جھنجھوڑ کر جگایا اور بولا:
’’اچھے محافظ ہوتم۔ شکر ہے یہاں کوئی آنہیں گیا۔ چلو اٹھو!اب ہمارے چلنے کا وقت آگیا ہے لیکن ہم یہاں چھوڑی ہوئی رقم کا کیاکریں؟ ‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ اسے ہمیشہ کی طرح یہیں چھوڑ دو۔ ہمارے جنوب کی سمت سفر کر نے تک یہ رقم یہیں رہنی چاہیے۔ ساڑھے چھے سو ڈالر یوں ساتھ لیے پھرنا مناسب بھی نہیں۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے، پھر یہ رقم یہیں رہے گی۔‘‘
’’ہمیں رات کو یہاں آنا چاہیے۔ جیسے ہم ہمیشہ آتے رہے ہیں۔ ‘‘
’’لیکن ہمارے لیے باقاعدگی سے یہاں آتے رہنا مشکل ہی ہے۔ اکثر اوقات ہمیں کچھ ضروری کام پڑجاتے ہیں اوراکثر اوقات ہمارے ساتھ کچھ حادثات وغیرہ پیش آجاتے ہیں۔ ہم اس رقم کو یہاں زمین میں گہرا فن کر دیتے ہیں۔‘‘
  ’’اچھا خیال ہے۔ ‘‘دوسرے آدمی نے کہا۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور آتش دان کی طرف جاکر اس کے پیچھے سے ایک بھاری پتھرایک طرف سرکا دیا۔ اس کے نیچے گڑھے میں ایک تھیلی پڑی تھی۔ اس نے وہ تھیلی کھول کر اس میں سے تیس ڈالر نکال کر انجن جو کو دیے اور تیس ڈالراپنی جیب میں ڈال لیے۔ انجن جو نے اپنا چاقو نکالا اور کونے میں جاکر زمین کھودنے لگا۔ لڑکے اپنا تمام خوف بھول چکے تھے۔ چمکتی آنکھوں سے ان آدمیوں کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہے تھے۔ کیا خوش قسمتی تھی ان کی، ساڑھے چھ سو ڈالر کی رقم انھیں امیر بنانے کے لیے کافی تھی۔ ان کی خزانے کی تلاش کیسی کام یاب ثابت ہوئی تھی۔
پھر انجن جو کا چاقو کسی چیز سے ٹکرایا۔
  ’’اوہو۔ یہ تو ایک صندوق ہے۔ آؤ ذرا اسے باہر نکالنے میں میری مددکرو۔‘‘ دونوں آدمیوں نے مل کر وہ صندوق زمین سے کھو د نکالا۔ اس میں سونے کے سکے بھرے ہوئے تھے۔
’’ آہا۔ یہ تو ایک خزانہ ہے۔ ہزاروں ڈالر ہوں گے یہ تو۔‘‘ انجن جو مسرت سے بولا۔
’’کہا جاتا ہے کہ مورل کے لٹیرے اپنا لوٹ مار کا مال یہاں دفن کیا کرتے تھے۔‘‘ اس کا ساتھی بولا۔
’’ لیکن یہ بیلچہ اور پھاوڑاکس کے ہیں جنھیں ہم نے استعمال کیا ہے؟ ‘‘
’’میرا دھیان اس طرف نہیں گیا۔ شاید کوئی یہاں آیا ہوگا اور اپنی یہ چیزیں یہاں ڈال گیا ہوگا۔‘‘ انجن جو بولا۔
  ’’میرے خیال میں اب تمھیں وہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔‘‘ دوسرا آدمی بولا۔
’’ میں صرف لوٹ مار کے لیے ایسے کام نہیں کرتا ۔‘‘ انجن جو بولا۔ ’’میں انتقام چاہتا ہوں۔ مجھے اس میں تمھاری مدد کی ضرورت ہوگی۔ جب یہ کام ختم ہو جائے گا تو ہم ٹیکساس روانہ ہوجائیں گے۔ ہاں اب تم اپنے بیوی بچوں کے پاس گھر جاؤ اور میرے پیغام کا انتظار کرو۔‘‘
’’ ٹھیک ہے لیکن ہم اس کا کیا کریں۔ کیا اسے دوبارہ زمین میں دفن کر دیں؟‘‘
  ’’ہاں۔ نہیں ٹھہرو۔تم نے اس بیلچے اور پھاوڑے کی بات کی تھی۔ یہ چیزیں بھلا کون یہاں ڈال گیا ہو گا۔ کیا کسی نے ہمیں اس جگہ آتے دیکھ لیا ہے؟ وہ شخص جب اپنی چیزیں لینے یہاں آئے گا تو یہاں تازہ مٹی کھدی دیکھ کر شک میں پر جائے گا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم یہ صندوق دوبارہ یہاں نہ دفنائیں۔ بلکہ اپنے ساتھ لے لیں۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔ کیا نمبرایک میں؟‘‘
’’نہیں نمبر دو میں۔ پہلی جگہ بہت بری ہے۔‘‘
’’چلو پھر اندھیرا ہونے کو ہی ہے۔‘‘انجن جو اپنی جگہ سے اٹھا اور ہرکھڑکی میں جھانک کر باہر کی جانب سے پوری تسلی کر لینے کے بعد واپس آگیا۔
’’یہ پھاوڑا اور بیلچہ آخر یہاں کون لاسکتا ہے؟ کہیں انھیں لانے والا اوپر تو نہیں چھپا ہوا ؟‘‘
اس کے ان الفاظ نے دونوں لڑکوں کی جان ہی نکال لی۔ انجن جو نے اپنا چاقو نکال کر ہاتھ میں لے لیا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ لڑکے دہشت سے نیم مردہ سے ہورہے تھے ۔جب انجن جو نے پہلے تختے کے بعد دوسرے تختے پر قدم رکھاتو وہ بلند چرچراہٹ کے ساتھ ٹوٹ گیا اور انجن جو نیچے ملبے کے ڈھیر پر جاگرا۔
’’میرے خیال میں اوپر کوئی بھی نہیں ہوگا۔‘‘ دوسرا آدمی بولا۔ ’’ان بوسیدہ تختوں والی سیڑھی پر چڑھ کر کوئی بھی اوپر نہیں جاسکتا۔‘‘
  انجن جو کپڑے جھاڑتا ہواز مین سے اٹھ گیا۔ ’’ہاں یہ سیڑھی کسی کا وزن نہیں سہارسکتی۔ چلواب یہاں سے چلیں۔‘‘
  انھوں نے صندوق اٹھایا اور تاریکی میں اس جگہ سے نکل کر دریا کی سمت ہو لیے۔ ٹام اور ہک دیوار میں بنے ہوئے سوراخوں میں سے انھیں جاتا دیکھتے رہے۔ پھر جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو وہ اس جگہ سے باہر نکلے اور تیزی سے گاؤں کی سمت ہو لیے۔ انھوں نے آپس میں زیادہ باتیں نہ کیں۔ اس وقت انھیں اپنے آپ پر بے حد غصہ آرہا تھا۔ انھوں نے اپنا بیلچہ اور پھا وڑا اس جگہ چھوڑ دیا تھا جہاں وہ انجن جو اور اس کے ساتھی کی نظروں میں آ گیا تھا۔ اگر وہ اپنی یہ چیزیں وہاں نہ چھوڑتے تو انجن جو اور اس کا ساتھی کبھی یوں مشکوک نہ ہوتے اور وہ خزانے والا صندوق اسی جگہ دباکر واپس چلے جاتے اور اس طرح وہ اور ہک اس خزانے کو حاصل کر لیتے۔ کیا بدقسمتی تھی ان کی بھی! انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ہسپانوی کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کا تعاقب کر کے نمبر دو کا پتا چلائیں گے۔ پھر ایک خوف ناک قسم کا خیال ٹام کے ذہن میں آیا۔
’’انجن جو انتقام کی بات کر رہا تھا۔ اس کا کیا مطلب تھا ہک؟‘‘
’’معلوم نہیں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔‘‘
  وہ اس موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ شاید انجن جوکسی شخص سے انتقام لینا چاہتا ہے اور وہ شخص غالبا ًٹام بھی ہوسکتا تھا کیوں کہ اسی نے عدالت میں اس کے خلاف گواہی دی تھی۔
نمبر دو کہاں ہے؟
اس رات غریب ٹام کو برے برے خواب دکھائی دیتے رہے۔ چار مرتبہ اس کے ہاتھ خزانے تک پہنچے اور چاروں مرتبہ اس نے اسے کھو دیا ۔جب وہ صبح نیند سے بیدار ہوا تو اسے گزشتہ روز پیش آنے والی ہر بات ایک خواب معلوم ہورہی تھی۔ وہ بستر سے اٹھا۔ ناشتہ کیا اور ہک سے ملنے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
ہک اس وقت ایک پانی بھرے ڈول میں پاؤں ڈالے بیٹھا تھا۔ وہ اس وقت بہت ناخوش دکھائی دے رہا تھا۔ ٹام نے فیصلہ کیا کہ وہ گزشتہ روز پیش آنے والے واقعات پر اس سے خود کوئی بات نہ کرے گا۔ اگر ہک نے اس بارے میں کچھ کہا تو وہ سمجھ لے گا کہ وہ سب کچھ ایک خواب ہی تھا۔
’’ہیلو ہک!‘‘
’’ہیلوٹام۔‘‘
دونوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر ہک بولا:
’’ٹام۔ اگر ہم وہ اوزار اپنے ساتھ نہ لے جاتے تو وہ خزانہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے۔‘‘
’’ہائے یہ کتنا افسوس ناک ہے!‘‘
’’تو پھر یہ کوئی خواب نہیں تھا۔‘‘ ٹام نے کہا۔
  ’’کیا خواب نہیں تھا؟‘‘
’’ وہی جو کچھ کل ہوا۔ میں سمجھتارہا کہ شاید وہ کوئی خواب ہے۔‘‘
’’ خواب؟ اگر وہ سیڑھیاں نہ ٹوٹ جاتیں تو تم دیکھتے کہ یہ کہاں تک خواب ہے۔ میں بھی ساری رات خواب دیکھتا رہا ہوں۔ اور ہر خواب میں مجھے وہ ہسپانوی بدمعاش دکھائی دیتارہا ہے۔‘‘
’’ ہمیں اسے اور خزانے کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
  ’’ ٹام !ہم اسے کبھی نہ تلاش کرسکیں گے۔ مجھے یقین نہیں کہ وہ اب ہمیں کبھی دکھائی بھی دے گا۔‘‘
’’میں جانتا ہوں میں بھی کچھ خوف زدہ ہو گیا ہوں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ اسے تلاش کیا جائے اور اس کا تعاقب کرتے ہوئے اس کے نمبردو تک پہنچا جائے۔‘‘
’’نمبر دو !ہاں میں بھی اسی کے بارے میں سوچتا رہا ہوں لیکن اس نمبر دو کا کیا مطلب ہے؟‘‘
  ’’یہ میں نہیں جانتا ۔‘‘ٹام بولا۔ پھر اس نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا اور کہا۔ ’’میرے خیال میں کسی مکان کا نمبر ہوسکتا ہے۔‘‘
’’نہیں ٹام۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس جگہ نہیں ہوگا۔ یہاں مکانوں کے کوئی نمبرنہیں ہیں۔‘‘
’’ شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن کسی سرائے کے کمرے کا نمبر بھی تو ہوسکتا ہے۔ ‘‘
’’اوہ! یہ تم نے ٹھیک کہا۔ یہاں صرف دوسرائیں ہیں۔ ہم ان میں بڑی آسانی سے دو نمبر کے کمرے تلاش کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ تم یہیں ٹھیرو ہک! میں جاتا ہوں ۔‘‘ ٹام نے کہا اور فورا ًہی قصبے کی سمت روانہ ہوگیا۔ گاؤں پہنچ کر اس نے پہلی سرائے کا رخ کیا۔ وہاں سے اسے معلوم ہوا کہ اس کا دو نمبرکا کمرہ ایک نوجوان وکیل نے لے رکھا تھا۔ وہ وہاں خاصے عرصے سے رہ رہا تھا اور اس وقت بھی وہ کمرے میں موجود تھا۔ دوسری سرائے میں دو نمبر کا کمرہ بہت پراسرار بنا ہوا تھا۔ سرائے دار کے بیٹے نے ٹام کو بتایا کہ کمرے میں ہروقت تالا لگا رہتا ہے۔ اس نے سوائے رات کے وقت کے کسی کو اس کمرے سے باہر نکلتے نہ دیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ اس نے گزشتہ رات اس کمرے میںروشنی ہوتے دیکھی تھی۔
  ’’میرا خیال ہے ہک! یہی وہ نمبر دو ہے جسے ہم تلاش کرر ہے ہیں۔‘‘
  ’’ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ‘‘
ٹام نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا۔ پھراس نے کہا:
’’میں نے یہ معلوم کیا ہے کہ اس دو نمبر کے کمرے کا پچھلا دروازہ سرائے اور ایک پرانی اینٹوں کی دکان کے درمیان واقع ایک گلی میں کھلتا ہے۔ اب تم جتنی چابیاں اکٹھی کر سکتے ہوکر لو۔ میں بھی خالہ کی تمام چابیاں لے آتا ہوں۔ جب کوئی اندھیری رات آئے گی تو ہم اس کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کریں گے۔ہمیںانجن جو کا خیال رکھناہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ یہاں کا جائزہ لینے جلد ہی واپس آئے گا۔ یاد ہے؟ اگر تم اسے دیکھو تو اس کا تعاقب کرنا شروع کر دو۔ اگر وہ اس دو نمبر کے کمرے میں نہ گیا تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے صحیح جگہ نہیں تلاش کی۔‘‘
  اس رات ٹام اور ہک اپنی مہم پر چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ وہ سرائے کے قریب پہنچ کر رات کے نو بجے تک انتظار کرتے رہے۔ ان میں سے ایک نے گلی پر نظر رکھی ہوئی تھی اور دوسرے نے کمرے کے دروازے پر۔ انھیں کوئی شخص گلی میں داخل ہوتا یا گلی سے باہر جاتا نہ دکھائی دیا، نہ ہی انھیں اس ہسپانوی جیسی شکل و صورت کا کوئی شخص سرائے میں داخل ہوتا یا باہر نکلتا دکھائی دیا۔ آسمان پر چاند پوری آب و تاب سے روشن تھا۔ اس لیے ٹام گھر چلا گیا۔ اس نے ہک سے کہا کہ جب تاریکی خاصی گہری ہو جائے تو وہ اس کے کمرے کی کھڑکی کے نیچے آ کرمنھ سے بلی جیسی آواز نکالے۔ پھر وہ دونوں مل کر سرائے کی طرف روانہ ہو جائیں گے اور دو نمبر کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کریں گے لیکن ساری رات چاند پوری آب وتاب سے چمکتا رہا۔
منگل کے دن بھی بدقسمتی دونوں لڑکوں پر سایہ کیے رہی۔ پھر بدھ کا دن بھی اسی طرح گزرگیا لیکن جمعرات کی رات کو چاند نہ نکلا۔ ٹام نے اپنی خالہ کا ٹین کا بنا ہوالیمپ اٹھایا اور ایک تولیے سے اسے ڈھانپے ہوئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اس لیمپ کو چھپا دیا۔ اس کے بعد دونوں لڑکے چوکیداری کے لیے سرائے کے باہر کھڑے ہو گئے۔ آدھی رات ہوتے ہی سرائے کی تمام روشنیاں بجھ گئیں۔ کوئی ہسپانوی وہاں دکھائی نہ دیا۔ نہ گلی میں کوئی شخص داخل ہوتا یا وہاں سے نکلتا نظر آیا۔
ٹام نے اپنالیمپ نکال کر اسے روشن کیا اور اسے تولیے سے ڈھانپے ہوئے سرائے کی طرف چل پڑا۔ اس نے گلی کے سرے پر پہنچ کر ہک کو وہاں نگرانی کرنے کے لیے کہا اور خود گلی میں داخل ہوگیا۔
ہک گلی کے باہر کھڑا ٹام کی واپسی کا انتظار کرتا رہا۔ اسے وہاں کھڑے کھڑے کافی دیر گزر گئی۔ اسے اب ٹام کی طرف سے طرح طرح کے خدشات ستانے لگے۔ جانے ٹام کو اتنی دیر کیوں ہوگئی تھی۔ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ پھر اچانک اس نے گلی میں روشنی ہوتے دیکھی۔ ٹام لیمپ ہاتھ میں لیے دوڑتا ہوا اس کی طرف آرہا تھا۔
’’ بھاگو ہک۔ بھاگو! ‘‘وہ چیخا۔
ہک فورا ًہی اس کے ساتھ بھاگ اٹھا۔ دونوں لڑکے تیز رفتاری سے دوڑتے دوڑتے قصبے کے باہرایک پرانی سی عمارت میں جا پہنچے۔ جب ٹام کی سانسیں اعتدال پر آئیں تو اس نے کہا۔ ’’ہک میں پکڑے جانے سے بال بال بچا ہوں ۔ میں نے دروازے کے تالے پر دو چابیاں آزمائیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ دروازے کو تالا لگا ہوا نہیں ہے۔ ان چابیوں کے تالے میں گھومنے سے خاصی بلند آواز پیدا ہوئی۔ پھر جب میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور اپنے لیمپ پر سے تولیہ ہٹایا تو جانتے ہو ہک کیا ہوا؟ ‘‘
’’ کیا؟ کیا ہوا؟ ‘‘
’’میرا پاؤں انجن جو کے ہاتھ پر پڑتے پڑتے بچا؟‘‘
’’ نہیں!‘‘
’’ہاں وہ کمرے کے فرش پر لیٹا ہوا گہری نیند سورہا تھا۔‘‘
’’تم نے پھر کیا کیا؟ کیا وہ جاگ گیا؟‘‘
  ’’نہیں۔اس نے ذرہ بھر بھی حرکت نہیں کی۔ شایداس نے خوب شراب پی رکھی تھی ۔میں وہاں رکا نہیں اور واپسی کے لیے بھاگ کھڑا ہوا ۔‘‘
’’ ٹام تم نے کیا وہ صندوق نہیں دیکھا؟ ‘‘
’’نہیں۔ میں اس کے کمرے کا جائزہ لینے کے لیے وہاں ایک منٹ بھی نہیں رک سکا ۔میں نے صرف شراب کی ایک بوتل اور ایک گلاس انجن جو کے پاس فرش پر پڑا ہوا دیکھا تھا اور بس۔‘‘
’’انجن جو اس وقت شراب کے نشے میں مدہوش پڑا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے اس کے کمرے میں جاکر وہ صندوق حاصل کر لینے کا اچھاموقع ہے۔ ‘‘
’’تو تم جاؤ اور صندوق تلاش کر کے یہاں لے آئو۔‘‘
  ہک خوف زدہ سا ہوگیا۔
’’ نہیں۔ یہ مناسب نہیں رہے گا۔ اس میں خطرہ ہے۔‘‘
  ’’ہاں واقعی اس میں خطرہ ہے۔‘‘ ٹام بولا۔ ’’اگر انجن جو نے شراب کی ایک بوتل کے بجائے تین بوتلیں پی ہوتیں تو وہ اتنی گہری مدہوشی میں ڈوبا ہوا ہوتا کہ ہم اس کے کمرے میں جا کر آسانی سے وہ صندوق اٹھا کرلا سکتے تھے۔‘‘
  دونوں لڑکوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے گہری خاموشی چھا گئی۔ پھر ٹام بولا:
’’ہک ہمیں اس صندوق کو حاصل کرنے کے لیے اس وقت تک کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے جب تک ہمیں یقین نہ ہوجائے کہ انجن جو وہاں موجود نہیں ہے۔ اگر ہم ہر رات سرائے کے باہر چوکیداری کریں تو ہم یہ آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ انجن جو کب اور کتنی دیر کے لیے اپنے کمرے سے باہر جارہا ہے۔ اس طرح ہم آسانی سے وہ صندوق حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ہاں یہ مناسب رہے گا۔‘‘ہک بولا۔ ’’راتوں کو انجن جو کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کاکام میں کیا کروں گا۔ دوسرا کام تم کرنا۔‘‘
’’ چلوٹھیک ہے۔ تم ہو پر اسٹریٹ پر آکر مجھ سے ملنا۔ اگر میں سویا ہوا ملا تو تم میرے کمرے کی کھڑکی پر پتھر دے مارنا۔ میں فوراً ًجاگ جاؤں گا۔ اچھا اب میں گھر جاتا ہوں۔ صبح ہونے کو ہے۔ تم جاؤ اورانجن جوکی نگرانی کرو۔ ‘‘
’’ہاں میں ابھی جاتا ہوں ۔میں اب دن کے وقت سویا کروں گا اور رات کو انجن جو کی نقل و حرکت کی نگرانی کیا کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر۔ ہاں تم سویا کہاں کرو گے؟ ‘‘
’’ بین راجر کے بھوسے کے گودام میں۔ وہ اکثر مجھے وہاں سونے کی اجازت دے دیتا ہے۔‘‘
مجھے دن کے وقت تم سے کبھی ملاقات کی ضرورت نہیں پڑے گی ہک۔ اس لیے تم آرام سے سویا کرنا۔ تم اگرکسی رات کوئی غیر معمولی بات رونما ہوتے دیکھو تو سیدھے میرے پاس آکر بتا دینا۔
پک نک
جمعہ کی صبح کو ٹام نے ایک نہایت اچھی خبر سنی۔ اس کی دوست بیکی تھیچر اور اس کا خاندان گزشتہ رات واپس آگئے تھے۔ اب اس کے دن بیکی اور اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ کھیل کو دمیں گزرنے لگے اور اس کھیل کود میں مگن ہوکر وہ انجن جو کو اور اس کے خزانے کو بھول ہی گیا۔
ایک دن بیکی کی والدہ نے بیکی اور اس کے دوستوں کے لیے ایک پک نک کا پروگرام بنایا۔ ٹام ہر رات ہک کی پکار سننے کے لیے جاگتا رہتا تھا۔ اسے امید تھی کہ ہک کسی رات اسے ضرور پکارے گا۔ پھر وہ مل کر انجن جو کا خزانہ حاصل کرلیں گے۔ پھر وہ یہ خزانہ بیکی کو دکھائے گا۔ لیکن ہک نے اسے آج تک نہ پکارا تھا۔ اس رات بھی دیر تک جاگتے رہنے کے باوجودا سے ہک کی جانب سے کوئی آواز نہ سنائی دی۔ جس پر اسے بہت مایوسی ہوئی۔
اگلے دن صبح دس بجے بچوں کا ایک بڑا سا گروپ جج تھیچر کے گھر کے باہر اکٹھا ہوگیا۔ پک نک کے لیے ہر چیز تیار تھی۔ اس پک نک میں بڑوں کو مدعو نہ کیا گیا تھا۔ البتہ اس میں اٹھارہ اٹھارہ سال کی نوجوان لڑکیاں اور تیس سال کی عمر کے چند نوجوان لڑکے ضرور شامل تھے ۔ سفر کے لیے پرانا چھوٹا جہاز کرائے پر حاصل کر لیا گیا تھا۔ پھر یہ جوش ومسرت سے بھر پور بچوں کا گروپ پک نک کا سامان اٹھائے قصبے کی بڑی سڑک پر ہولیا۔ سڈ بیمار تھا۔ اس لیے وہ پک نک پر نہ جاسکتا تھا۔ میری بھی اس کی تیمارداری کے لیے گھر پر ہی ٹھہر گئی تھی۔ مسز تھیچر نے بیکی کو اللہ حافظ کہتے ہوئے اس سے کہا تھا۔’’ اس پک نک میں تمھیں بہت دیر ہو جائے گی۔ رات کے وقت تم ان لڑکیوں کے ساتھ ٹھیرجانا جو جہاز کے رکنے کی جگہ کے قریب ہی رہتی ہیں۔‘‘
’’ میں سوزی ہارپر کے ہاں ٹھہر جاؤں گی۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔ لیکن خیال رکھناکہ تمھاری وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔‘‘
جب وہ ٹام کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی بڑی سڑک پر پہنچی تو ٹام بولا:
’’میں تمھیں بتاتا ہوں کہ ہمیں کیا کر نا چا ہے۔ ہم ہارپر خاندان کے پاس جانے کے بجائے پہاڑی پر چڑھ کر مسز ڈگلس کے ہاں جائیں گے۔ وہ ہمیں بہت مزے دار آئس کریم کھلائیں گی اور ہماری خوب آو بھگت کریں گی ۔‘‘
’’اوہ! پھر تو بہت لطف رہے گا ۔‘‘ بیکی خوش ہوکر بولی۔ پھر اچانک اسے کوئی خیال آگیا۔’’ لیکن امی کیا کہیں گی؟‘‘
’’انھیں کچھ معلوم ہی کہاں ہو سکے گا؟ ‘‘
بیکی نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا پھر بولی۔ ’’میرے خیال میں یہ مناسب نہیں لیکن …‘‘
’’پریشان مت ہو۔ تمھاری امی کو کچھ معلوم نہ ہو سکے گا۔ پھر تمھیں اتنی فکر کیوں ہے؟ وہ صرف اتنا چاہتی ہیں کہ تم خیریت سے رہو ۔ میرا خیال ہے انھیں اگر مسز ڈگلس کے بارے میں یاد ہوتا تو وہ ضرور ہمیں ان کے ہاں جانے کو کہہ دیتیں۔ ‘‘
چناں چہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا مسز ڈگلس کے ہاں جانے کا پروگرام کسی کو نہیںبتائیں گے۔
چھوٹا جہاز انھیں دریا میں تین میل دور ایک جنگل کے کنارے لے گیا۔ وہ سب وہاں اتر پڑے اور ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگے اور مختلف کھیل کھیلنے لگے پھر انھوں نے اپنے ساتھ لائی ہوئی ٹوکریوں میں بھری ہوئی مزے مزے کی چیزیں کھائیں۔ اس کے بعد وہ درختوں کے سایوں میں آرام کرنے لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے چلا کر پوچھا:
’’غار میں جانے کے لیے کون کون تیار ہے؟‘‘
  تقریبا ًسب ہی غار میں جانے کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے موم بتیاں ساتھ لیں اور پہاڑی کی سمت ہو لیے۔ غار کا دہانہ پہاڑی پر خاصی بلندی پر واقع تھا اور انگریزی حرف اے (A) کی صورت کا تھا۔ اس کا بڑاسا شاہ بلوط کا بنا ہوا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بچوں نے موم بتیاں جلائیں اور ایک لمبی سی قطار کی صورت میں غار میں داخل ہوگئے۔
اس سرنگ نما غار میں جابجا ادھر ادھر سے راستے نکلے تھے جو اکثر مقامات پر آپس میں مل جاتے تھے اور اکثر راستے بند گلیوں کی طرح تھے۔ کہاجاتا تھا کہ ان بھول بھلیوں کو کوئی بھی نہ سمجھ سکا تھا۔ اکثر لوگ اس غار کے صرف ایک حصے سے واقف تھے لیکن اس کے اندر کے حصوں کے بارے میں انھیں کچھ پتانہ تھا۔ ٹام کی اس غار کے متعلق معلومات بھی بس اتنی ہی تھیں۔
غارمیں داخل ہوکر وہ آدھ میل اندر تک چلے گئے۔انھیں اس کے چکر کھاتے اونچے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلنے میں بڑا لطف آرہا تھا۔ پھر وہ گروہ درگروہ غار سے باہر نکلنے لگے۔ وہ سب گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ ان کے کپڑے میلے ہو رہے تھے لیکن وہ بہت خوش تھے۔ انھیں یہ دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی کہ غار سے باہر اندھیرا ہوچکا تھا۔ انھیں غار میں گھومتے پھرتے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا تھا۔ جہاز کی گھنٹی آدھ گھنٹے سے مسلسل بج رہی تھی۔ جب جہاز وہاں سے روانہ ہوا تو یہ صرف جہاز کا کپتان ہی تھا جسے اتنا بہت سا وقت ضائع ہونے پر افسوس تھا۔
٭٭٭
جب جہاز دریا میں تیرتا ہوا سرائے کے پاس سے گزرا تو اس وقت ہک سرائے کے باہر کھڑا تھا۔ اس وقت جہاز پر خاموشی تھی کیوں کہ اس میں سوار بچے تقریباً سو چکے تھے۔ اس رات آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور ہر طرف گہرا اندھیرا تھا۔ گھروں کی روشنیاں بجھی ہوئی تھیں۔ سب سو چکے تھے۔ صرف ہک تھا جو جاگ رہا تھا،اچانک ایک آواز آئی اور وہ چوکنا ہوگیا۔ گلی میں کوئی دروازہ آہستگی سے بند ہوا تھا۔تھوڑی دیر بعد دو آدمی اس کے قریب سے گزرے۔ ایک آدمی نے کوئی چیز اٹھا رکھی تھی۔ یہ وہ صندوق ہوسکتا تھا۔ شاید وہ خزانے کو اس جگہ سے لے جارہے تھے؟ کیوں نہ وہ ٹام کے پاس جائے اور اسے اس کی اطلاع دے، لیکن ایسا کرنا حماقت ہی ہوتی۔ اتنی دیر میں وہ آدمی جانے کہاں غائب ہوجاتے۔ یوں وہ خزانہ کبھی ان کے ہاتھ نہ لگ سکتا تھا۔ نہیں اسے خود ان کا تعاقب کرنا چاہیے۔ اس اندھیرے میں وہ اسے ہرگز نہ دیکھ سکتے تھے۔ یہی سوچ کر ہک اپنی جگہ سے نکلا اور احتیاط سے چلتا ہوا ان آدمیوں کے پیچھے ہولیا۔ اس نے ان کے اور اپنے درمیان کافی فاصلہ رکھا تھا۔
وہ دونوں آدمی چلتے ہوئے دریا کی سمت جانے والی سڑک پر ہو لیے۔پھر وہ ایک دوسری سڑک پر مڑ گئے۔ وہ اس پر سیدھے چلتے رہے یہاں تک کہ وہ اس راستے پر آگئے جو کارڈف کی پہاڑی کی طرف جاتا تھا۔ وہ بوڑھے ویلش مین کے گھر کے سامنے سے گزرے اور رکے بغیر آگے بڑھتے رہے۔’’خوب‘‘ ہک نے سوچا ۔’’شاید وہ صندوق کو پرانی پتھر کی کان میں دفن کرنے جارہے ہیں۔‘‘ لیکن وہ آدمی پتھر کی کان کے قریب بھی نہ رکے اور پہاڑی کی چوٹی پر چڑھنے لگے۔ پھر وہ لمبی لمبی جھاڑیوں میں جاکر ایک دم ہی نظروں سے غائب ہو گئے۔ ہک اب ان کے کافی قریب پہنچ چکا تھا۔ مگر اندھیرے کی وجہ سے وہ اُسے نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ اپنی جگہ پر رک گیا اور ان کے قدموں کی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا لیکن اسے کچھ بھی سنائی نہ دیا۔ کیا اس نے ان کا سراغ گم کر دیا تھا؟ وہ واپسی کے لیے مڑنے ہی لگا تھا کہ ایک آدمی کے کھنکھارنے کی آواز نے اس کے قدم روک لیے۔ یہ آواز اس کے بہت ہی قریب سے آئی تھی۔ ہک ڈر گیا اور خوف سے کپکپانے لگا۔ اسے اب معلوم ہوگیا کہ اس وقت وہ کس جگہ پر کھڑا ہے۔ ’’اگر یہ لوگ اس صندوق کو یہاں دفن کر دیتے ہیں۔‘‘اس نے سوچا،’’تو اسے تلاش کرنا میرے لیے کچھ مشکل ثابت نہ ہوگا۔ ‘‘
پھر اس نے ایک بہت مدہم سی آواز سنی۔ وہ انجن جو کی تھی۔
’’ مسز ڈگلس کے گھر ان کے کچھ دوست وغیرہ آئے ہوئے ہیں۔ مجھے وہاں کچھ روشنیاں جلتی دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘
’’مجھے تو روشنیاں نہیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ‘‘
یہ اس اجنبی کی آواز تھی جسے ہک اور ٹام نے اس آسیب زدہ گھر میں دیکھا تھا۔ ہک کو ایک عجیب سے خوف نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ شاید یہی وہ انتقامی کارروائی تھی جس کے بارے میں انجن جو نے کہا تھا۔ اس کا پہلا خیال تھا کہ وہ اس جگہ سے جس قدر تیزی سے ممکن ہو سکے بھاگ کھڑا ہو۔ پھرا سے یاد آیا کہ مسزڈگلس اس پر ہمیشہ مہربان رہی تھیں اور یہ آدمی شاید انھیں قتل کرنے وہاں آئے تھے۔ اس نے سوچا کہ وہ فوراً ان کے پاس جائے اور انھیں ان آدمیوں کے بارے میں بتادے لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلنے کی ہمت نہ کرسکا۔ پھراس نے انجن جو کی آواز سنی۔ ’’تمھارے سامنے جھاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ذرا ایک طرف ہوکر دیکھو !تمھیں گھر میں روشنیاں جلتی ہوئی دکھائی دیں گی۔‘‘
’’ہاں۔ میں نے دیکھ لیا ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ کیا ہم اپنا منصوبہ ترک کر دیں؟ ‘‘
’’میں تو اسے ہرگزترک نہیں کر سکتا۔ ایسا موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ میں نے تمھیں بتا دیا ہے کہ میں صرف دولت کے پیچھے نہیں ہوں۔ اسے تم لے سکتے ہو۔ میں اس عورت کے خاوند کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھا چکا ہوں۔ ایک بار اس نے معمولی سی بات پر سارے لوگوں کے سامنے مجھے ہنٹر سے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا اور دوسری بار اس نے معمولی سے قصور پر مجھے جیل بھجوا دیا تھا۔ اب وہ مر چکا ہے لیکن میں اس کی بیوی سے اس کا انتقام ضرور لوں گا۔‘‘
’’ نہیں۔ تم اسے ہرگز قتل نہیں کرو گے۔‘‘
’’ قتل ؟ قتل کی بات بھلا کس نے کی ہے؟ اگر وہ شخص زندہ ہوتا تو میں اسے اس وقت ضرور قتل کر ڈالتا۔ اس کی بیوی کو تو میں ہرگز قتل نہیں کر سکتا۔ کسی عورت سے بدلہ لینا ہو تو اسے قتل نہیں کرتے۔ اس کی آنکھیں نکال دیتے ہیں، کان یا ناک کاٹ دیتے ہیں۔‘‘
’’ اف اف یہ تو…‘‘
’’بس تم خاموش ہی رہو۔ میں اسے اس کے پلنگ سے باندھ دوں گا۔ اگر وہ خون بہتے رہنے کے سبب مرگئی تو یہ میرا قصور نہیں ہوگا۔ میں تمھیں اسی لیے یہاں لایا ہوں کہ اس کام میں تم میری مدد کرو۔ اگر تم میری مدد نہیں کرو گے تو میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ سمجھے؟ تمھیں قتل کرنے کے بعد اس عورت کو بھی قتل کر دوں گا۔ پھر کسی کو کبھی معلوم نہ ہو سکے گا کہ یہ قتل کس نے کیے ہیں۔‘‘
’’ اچھا۔ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو چلو یہی سہی۔ ‘‘
’’ہم روشنیاں گل ہونے تک یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے ۔‘‘
  ان کی باتیں ختم ہوتے ہی ہک نے آہستگی کے ساتھ اس جگہ سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ زمین پر سرکتے سرکتے ایک شاخ اس کے قدموں میں آکر ٹوٹ گئی۔ اس نے ایک دم سانس روک لی مگر دونوں آدمیوں میں سے کوئی بھی اس طرف متوجہ نہ ہوا۔ اس پر ہک نے پھر نہایت آہستگی اور احتیاط کے ساتھ پیچھے کی جانب سرکنا شروع کر دیا۔ اسی طرح سرکتے سرکتے وہ پتھر کی کان تک آپہنچا۔ اب وہ ہر طرح سے محفوظ تھا۔ زمین سے اٹھا اور پہاڑی سے نیچے بھاگنے لگا۔ نیچے ہی نیچے بھاگتا ہوا وہ بوڑھے ویلش مین کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ فوراً ہی ایک کھڑکی کھلی اور بوڑھا آدمی اور اس کے دو بڑے بیٹے اس میں سے باہر جھانکنے لگے۔’’ کون ہے؟ کیا چاہیے؟‘‘
’’مجھے اندر آنے دیجیے۔ جلدی۔‘‘
’’ کیوں؟ کون ہو تم؟ ‘‘
’’ہکل بیری فن۔ ذرا جلدی کیجیے۔ مجھے اندر آنے دیجیے۔ ‘‘
’’ہکل بیری فن؟ یہ نام تو ایسا نہیں کہ اسے سنتے ہی دروازے کھول دیے جائیں لیکن اسے اندر آنے دو لڑکو۔ ذرا دیکھیں وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔‘‘
  ’’جناب میں آپ سے جو کچھ کہوں وہ آپ کسی سے مت کہیے۔‘‘ ہک نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔’’ وعدہ کیجیے۔ ورنہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ وہ خاتون مجھ سے ہمیشہ بہت مہربان رہی ہیں۔ میں انھیں بچانا چاہتا ہوں۔ آپ پہلے وعدہ کیجیے کہ میں جو کچھ کہوں گا وہ آپ کسی سے نہ کہیں گے اور کسی کو نہ بتائیں گے کہ یہ باتیں میں نے آپ سے کہی ہیں۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔‘‘ بوڑھا آدمی بولا، ’’لگتا ہے یہ لڑکا کوئی نہایت اہم بات بتانا چاہتا ہے۔ ورنہ اس کی حرکات سے ایسی بے چینی اور اضطرار کا اظہار نہ ہوتا مطمئن رہولڑکے !ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تم ہمیں جو کچھ بتاؤ گے۔ وہ ہم کسی سے نہ کہیں گے۔ ہاں بات کیا ہے۔‘‘
تین منٹ بعد بوڑھا آدمی اور اس کے بیٹے بندوقیں سنبھالے بڑی احتیاط اور خاموشی سے پہاڑی پر چڑھ رہے تھے۔ ہک ان کے ساتھ جانے کے بجائے پہاڑی کی ڈھلوان میں واقع ایک چٹان کے پیچھے چھپ گیا تھا اور بڑی توجہ سے ہر آنے والی آواز کو سننے لگا تھا۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اچانک بندوق چلنے کی آواز فضا میں گونج اٹھی۔
ہک نے وہاں رکے رہنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ چٹان کی آڑ سے باہر نکلا اور بڑی تیزی کے ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
اتوار کی صبح
اگلے دن صبح ہک سورج نکلنے سے پہلے ویلش مین کے گھر جا پہنچا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کسی نے پکارا۔
’’کون ہے؟ ‘‘
ہک کی خوف زدہ آواز نے جواب دیا۔’’ از راہ کرم !مجھے اندر آنے دیجیے۔ میںہوں ہکل بیری فن۔‘‘
  ’’اس نام پر دن ہو یا رات ہر وقت دروازہ کھل سکتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ تم ہم سے ملنے آئے ہو۔‘‘
ہک حیرت زدہ رہ گیا۔ اس سے تو آج تک کبھی کسی نے اتنی نرمی اور شفقت سے بات نہ کی تھی۔ دروازہ فورا ًہی کھل گیا اور وہ اندر داخل ہوگیا۔ اندر بوڑھا آدمی اور اس کے لڑ کے تیار بیٹھے تھے۔
’’تمھیں بھوک لگی ہوگی لڑکے۔ ناشتہ ابھی تھوڑی دیر میں تیار ہوا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے تم کل کے واقعے کے بارے میں کچھ معلوم کرنے آئے ہو گے۔‘‘ بوڑھے آدمی نے کہا۔
’’ میں بہت خوف زدہ ہوگیا تھا۔‘‘ ہک نے کہا، ’’جب بندوق چلنے کی آواز آئی تھی تو میں فورا ًہی وہاں سے بھاگ اٹھا تھا اور تین میل تک مسلسل دوڑتا ہی چلا گیا تھا۔ میں اب آپ سے یہ معلوم کرنے آیا ہوں کہ آگے کیا ہوا تھا؟ میں ان آدمیوں کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ اس لیے سورج نکلنے سے پہلے یہاں آگیا ہوں۔‘‘
’’لگتا ہے۔ رات تم اچھی طرح سے نہیں سو سکے ؟‘‘بوڑھے آدمی نے کہا ،’’تم یہاں ناشتہ کرنے کے بعد سولو۔ ہاں ان آدمیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ وہ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے۔ ہم نے پولیس کو اس کی رپورٹ کر دی ہے۔ اب پولیس دریا کے ساحل کی نگرانی کر رہی ہے اور شیرف اور اس کے آدمی جنگلوں میں ان آدمیوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ میرے لڑکے بھی ابھی جاکر ان کے ساتھ مل جائیں گے۔ اگر ہم ان آدمیوں کی شکل وصورت اور حلیے دیکھ لیتے تو بہتر ہوتا۔ اندھیرے میں تو کچھ بھی دکھائی نہ دیا ۔‘‘
’’میں نے انھیں گاؤں میں دیکھا تھا اور ان کا تعاقب کرتے ہوئے پہاڑی پر جا پہنچا تھا۔‘‘
’’ تو پھر تم بتا سکتے ہو کہ وہ کیسی شکل وصورت کے آدمی ہیں؟‘‘
’’ان میں سے ایک گونگا بہرا ہسپانوی ہے۔ جو ایک دو بار یہاں گاؤں میں آچکا ہے۔ اور دوسرا پھٹے پرانے کپڑے پہنے…‘‘
’’ بس اتنا ہی کافی ہے۔ ہم ان دونوں آدمیوں کو جانتے ہیں۔ ہم نے انھیں ایک بار مسز ڈگلس کے گھر کے عقبی جنگل میں دیکھا تھا۔ وہ دونوں ہمیں دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ ہاں اب تم جلدی سے جاؤ اور ان کے بارے میں شیرف کو اطلاع دو۔ ناشتہ بے شک بعد میں کرلینا۔‘‘ویلش مین نے اپنے لڑکوں سے کہا۔
اس کے لڑکے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب وہ کمرے سے جانے لگے تو ہک اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑا ہوگیا اور بولا، ’’میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ کسی سے یہ نہ کہیے کہ وہ میں تھا جس نے آپ کو اس کی اطلاع دی تھی۔ از راہ کرم اس بارے میں کسی کو کچھ مت بتائیے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ہک ۔ لیکن پھربھی معلوم توہونا چاہیے کہ تم کتنے بہادر اورجرات مند لڑکے ہو۔‘‘
’’نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہ کیجیے۔‘‘
  پھر جب دونوں لڑکے چلے گئے تو ویلش مین نے کہا، ’’وہ دونوں کسی کو تمھارے بارے میں کچھ نہ بتائیں گے۔ لیکن تم ایساکیوں چاہتے ہو؟‘‘
ہک اس کی کوئی وضاحت نہ کر سکتا تھا۔ لیکن اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ وہ ان آدمیوں میں سے ایک آدمی کے متعلق کچھ زیادہ ہی باتیں جانتا ہے۔ اگر اس آدمی کو یہ معلوم ہوگیا تو وہ اسے قتل ہی کر ڈالے گا۔
’’لیکن تم نے ان کا تعاقب کیوں کر نا شروع کیا تھا۔ کیا تمھیں شک ہوا تھا کہ وہ کوئی مجرمانہ کام کرنے جارہے ہیں؟‘‘
  ہک خاموش رہا۔ وہ بوڑھے آدمی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی موزوں جواب سوچنے لگا۔ اس کے بعد اس نے کہا۔’’ مجھے گزشتہ رات نیند نہ آسکی تھی۔ اس لیے میں ٹہلنے کے لیے سڑک پر جانکلا تھا۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ میراکوئی گھر نہیں ہے۔ آدھی رات کے وقت میں ایک گلی میں جاپہنچا۔ وہاں وہ دونوں آدمی میرے قریب سے گزرے۔ انھوں نے کوئی چیز اٹھارکھی تھی۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وہ اسے چرا کر لارہے ہیں۔ ان میں سے ایک تمباکو پی رہا تھا۔ دوسرے آدمی نے اپنا سگرٹ جلانے کے لیے اس سے ماچس طلب کی۔ وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوگئے۔ ماچس کی تیلی کی روشنی جب ان کے چہروں پر پڑی تومیں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک تو وہ گونگا بہرہ ہسپانوی تھا۔ جس کے بال اور داڑھی بالکل سفید تھے اور دوسرا وہی پھٹے پرانے کپڑوں میں خستہ حال آدمی تھا۔‘‘
’’کیا ماچس کی روشنی میں تم نے اس کے پھٹے پرانے کپڑے دیکھ لیے تھے؟ ‘‘
ہک منٹ بھر کے لیے کچھ پریشان سا ہوگیا۔ پھر بولا ،’’میرا خیال ہے میں نے اسے ایسے ہی کپڑوں میں دیکھا تھا۔‘‘
’’پھر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور تم ان کے پیچھے روانہ ہو گئے؟ ‘‘
’’جی ہاں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ آگے چل کر کیا کرنا چاہتے تھے۔ لگتا یہی تھا جیسے ان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ میں نے مسز ڈگلس کے گھر کے باہر تک ان کا تعاقب کیا اور ایک جگہ جاکر چھپ گیا۔ وہاں میں نے اس ہسپانوی کو کہتے سنا کہ وہ مسز ڈگلس کو سزا دینا چاہتا ہے۔ جیسا کہ میں آپ کو اور آپ کے بیٹوں کو بتاچکا ہوں۔ ‘‘
’’کیا کہا تم نے؟ یہ اس گونگے بہرے آدمی نے کہا تھا؟ ‘‘
ہک نے اب کی بار دوسری بڑی غلطی کی تھی۔ وہ ہرگز بوڑ ھے آدمی کو اس ہسپانوی کی اصلیت کے بارے میں نہ بتانا چاہتا تھا۔ مگراب وہ بری طرح سے پھنس چکا تھا۔
  ’’اچھے لڑکے۔ ‘‘بالآخر بوڑ ھے ویلش مین نے کہا ،’’دیکھو تمھیں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔میں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ بلکہ تمھاری حفاظت کروں گا۔ یہ ہسپانوی گونگا یا بہرہ ہرگز نہیں ہے۔ تم یہ مجھے بڑی روانی سے بتاگئے ہو۔ تم اس ہسپانوی کے بارے میں ضرورایسی باتیں جانتے ہو جنہیں تم سب سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو۔ اب بہتر یہی ہے کہ تم مجھ پر اعتماد کرو اور مجھے سچ سچ بتادو کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ میں اس کی طرف سے تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچنے دوں گا۔ ‘‘
ہک نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا۔ پھر بوڑھے آدمی کی طرف جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی: ’’جناب۔ یہ دراصل کوئی ہسپانوی نہیں ہے۔ بلکہ انجن جو ہے۔‘‘
بوڑھا آدمی ایک دم ہی اپنی کرسی سے اچھل پڑا۔
’’یہ مجھے جان لینا چاہیے تھا۔‘‘ وہ بولا۔’’جب تم نے مجھے بتایا تھاکہ وہ شخص مسزڈ گلس کے ناک اور کان کاٹ لینا چاہتا ہے تو میں نے سوچاتھا شاید یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو۔ سفید فام لوگ کسی سے یوں انتقام نہیں لیا کرتے۔ البتہ ریڈ انڈین ضرور ایسا کرتے ہیں اور انجن جو ریڈانڈین ہے۔‘‘
جب وہ ناشتے سے فارغ ہوئے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ ہک فورا ًہی اپنی کرسی سے اٹھ کر ادھر ادھر اپنے چھپنے کے لیے جگہ تلاش کرنے لگا۔ وہ نہ چاہتا تھا کسی کو اس کی موجودی کا علم ہو۔
ویلش مین نے دروازہ کھولا اور بہت سی عورتیں اور مرد اندر داخل ہو گئے۔ ان میں مسزڈگلس بھی تھیں۔ سب لوگوں کو گزشتہ رات کے واقعے کا علم ہوچکا تھا۔ ویلش مین نے گزشتہ رات کے واقعے کی کہانی سب کوتفصیل سے بتائی۔مسز ڈگلس نے اس کی مدد کے لیے اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور اظہا ر احسان مندی کیا۔
’’اور کچھ مت کہیے میڈم۔ ‘‘بوڑھا آدمی بولا۔’’ آپ کو اصل میں شکریہ ایک دوسرے شخص کا اداکرنا چا ہیے۔ میں نے اور میرے لڑکوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا بلکہ جو کچھ کیا ہے اسی نے کیا ہے۔ لیکن اس نے مجھے آپ لوگوں کو اپنا نام بتانے سے سختی سے منع کر رکھا ہے۔ سچ پوچھیے تو اگر وہ ہمیں بر وقت آکر اطلاع نہ دے دیتا تو آپ کے ساتھ جانے کیسا خوف ناک حادثہ رونما ہوچکا ہوتا۔‘‘
اس کے بعد تو ملاقاتیوں کا تانتا بندھ گیا۔ ویلش مین انھیں بھی گزشتہ رات کے واقعے کی کہانی سناتا رہا۔
اس اتوار کو اسکول میں چھٹی ہی ہوئی لیکن گاؤں کے سب لوگ گرجا میں حاضری دینے پہنچ گئے۔ ان دو پراسرار آدمیوں کے بارے میں ابھی تک کوئی خبر نہ آئی تھی۔ جب عبادات اور دعائیں وغیرہ ہو چکیں تو تھیچر کی بیوی مسز ہارپرکی طرف چلی آئیں۔
’’کیا میری بیٹی بیکی سارا دن سوتی ہی رہے گی؟ میں جانتی تھی کہ وہ بہت تھکی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’ آپ کی بیٹی بیکی ؟‘‘مسز ہارپر بولیں۔
’’ہاں… کیا وہ گزشتہ رات آپ کے ہاں آ کر نہیں سوئی؟‘‘
’’نہیں بالکل نہیں…‘‘
مسز تھیچر کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ وہ بے سدھ ہوکر کرسی پر بیٹھ گئیں۔ اسی وقت خالہ پولی بھی وہاں چلی آئیں۔
’’صبح بخیر مسز تھیچر! صبح بخیر مسز ہار پر !‘‘انھوں نے کہا، ’’میرا خیال ہے۔میرا بھانجا ٹام آپ دونوں میں سے کسی کے گھر رات کو ٹھیرا ہوگا۔ اب شاید وہ گرجا آنے سے ڈر رہا ہے۔ جب تک وہ یہاں نہیں آ جاتا میں نہیں رکوں گی۔‘‘
’’ وہ ہمارے گھر نہیں آیا۔‘‘مسز ہار پر بولیں۔ وہ اب کچھ پریشان دکھائی دینے لگی تھیں۔ خالہ پولی فکر مند سی ہوگئیں۔
’’کیوں جو ہار پر! تم نے آج صبح ٹام کو دیکھا تھا؟ ‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’تم نے آخری مرتبہ اسے کب دیکھا تھا؟‘‘
جو ہار پر نے یادکرنے کی کوشش کی مگر یقینی طور پر وہ کچھ نہ بتاسکا۔ لوگ گرجا سے باہر جاتے جاتے رک گئے تھے اور ان کی باتیں سنتے ہوئے آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے تھے۔ ہرکوئی فکرمند دکھائی دینے لگا تھا۔ بچوں اور ان کے ساتھ جانے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بلاکر ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ان سب کا جواب یہی تھا کہ انھوں نے ٹام اور بیکی کی غیر حاضری کو محسوس نہیں کیا تھا اور یہی سمجھا تھا کہ وہ بھی گھر واپس جانے والے بچوں میں شامل ہوں گے۔ اس وقت اندھیرا ہوگیا تھا اورکسی نے بھی ان کی غیر حاضری کا نوٹس نہ لیاتھا۔ پھر ایک نوجوان لڑکے نے بالآخر اس خدشے کا اظہارکیا کہ شاید وہ دونوں اس وقت اسی غار میں موجود ہوں۔ اس پر مسز تھیچر اور خالہ پولی زور زور سے رونے لگیں۔
یہ خبر جلد ہی جنگل کی آگ کی طرح سارے قصبے میں پھیل گئی۔ لوگ انجن جو اوراس کے ساتھی کو بھول گئے۔ گھوڑوں پر زینیں کسی گئیں۔ کشتیاں دریامیں ڈال دی گئیں، چھوٹے جہاز کو بھی بلالیا گیا۔ یوں سڑک اور دریا کے راستے تقریبا ًدو سو آدمی غار کی سمت چلنے کو تیار ہو گئے۔
اس دن سارا قصبہ بے حد ویران اور خاموش دکھائی دیتا رہا۔ عورتیں خالہ پولی اور مسز تھیچر کے پاس دلاسہ دینے آتی رہیں۔ اس رات کو ئی بھی نہ سوسکا۔ لوگ ٹام اور بیکی کے بارے میں خبر کے انتظارمیں جاگتے رہے۔ پھر جب صبح ہوئی تو انھیں صرف اتنا پیغام ملا، ’’مزید خوراک اور موم بتیاں بھجوا دو۔‘‘
اس صبح جب بوڑھا ویلش مین گھر پہنچاتو وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ اس کے کپڑے دھول میں اٹے ہوئے تھے۔ اس نے دیکھا کہ ہک ابھی تک بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ اسے تیز بخار چڑھا ہوا تھا۔ گاؤں کے سارے ڈاکٹر غار کی طرف چلے گئے تھے۔ اس لیے مسز ڈگلس نے اس کی تیمار داری اور دیکھ بھال اپنے ذمے لے لی۔ اس رات کے واقعے میں ہک کا جو حصہ تھا اس سے وہ قطعی لاعلم تھیں۔
پھر شام ہوتے ہوتے کچھ لوگ واپس آنے لگے۔ دوسرے لوگ ابھی تک غار میں تلاش کی مہم جاری رکھے ہوئے تھے۔ آنے والے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے ٹام اور بیکی کی تلاش میں غار کا ایک ایک کونا کھنگال ڈالا اور وہ حصے بھی دیکھ ڈالے جہاں اب تک کسی نے قدم نہ رکھا تھا۔ ایک جگہ غار میں انھوں نے موم بتی کے دھویں سے ٹام اور بیکی کے نام دیوار پہ لکھے ہوئے پائے… اس جگہ سے انھیں ربن کا ایک ٹکڑا بھی ملا…مسز تھیچر نے جب ربن کا وہ ٹکڑا دیکھا تو وہ اور زیادہ شدت سے رونے لگیں کیوں کہ وہ بیکی کے ربن کا ٹکڑا تھا۔
پورے تین دن تین راتیں گاؤں والوں کو ٹام اور بیکی کے بارے میں کوئی خبر نہ مل سکی۔
غار میں
اب ہم ٹام اور بیکی کی طرف لوٹتے ہیں جو پکنک منانے گئے تھے۔ وہ کچھ بچوں کے ہمراہ غار کے اندر کے تاریک حصوں کی سیر کر رہے تھے۔ اس غار کے کچھ حصوں کو بڑے شان دار قسم کے نام دیے گئے تھے۔ مثلا ً’’عظیم کلیسا، الہ دین کا محل‘‘ وغیرہ ۔بچوں نے وہاں آنکھ مچولی کھیلنی شروع کر دی۔ ٹام اور بیکی بھی اس کھیل میں شریک ہو گئے لیکن جلدہی وہ اس کھیل سے اکتا گئے اور اپنی موم بتیاں سنبھالے ایک الگ سے بل کھاتے ہوئے راستے پر ہو لیے۔ انھیں موم بتیوں کی روشنی میں غار کی دیواروں پر اس جگہ سیر کے لیے آنے والے سیاحوں کے نام پتے اور تاریخیں لکھی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ بیکی اور ٹام رک رک کر انھیں پڑھتے رہے۔ پھر انھیں احساس ہواکہ وہ چلتے چلتے غار کے اس حصے کی طرف آ نکلے ہیں جہاں دیواروں پر کچھ بھی نہ لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے موم بتیوں کے دھوئیں سے غار کی دیوار پر اپنا نام لکھا اور آگے بڑھ گئے۔ پھر جلد ہی وہ ایک ایسی جگہ پر جا نکلے جہاں بلندی کی طرف سے ایک ندی بہتی ہوئی آرہی تھی۔ اوپر کی طرف سے آتے ہوئے یہ ایک چھوٹا سا آبشار بناتی تھی۔ ٹام اپنی موم بتی لیے چکر لگا کر اس کے دوسری طرف چلا گیا تاکہ بیکی روشنی میں اسے اچھی طرح سے دیکھ سکے۔اس آبشار کے پیچھے اس نے چٹان میں ایک شگاف بنے ہوئے دیکھا۔ اس کے اندر ایک راستہ دور نیچے تک چلا جاتا تھا۔ اس کے دل میں تجسس نے سرابھارا۔ اس نے بیکی کو بلا کراسے وہ راستہ دکھایا اور دونوں اس شگاف میں داخل ہوکراس راستے پر ہو لیے۔ وہ راستہ مڑ مڑ کر بل کھا کھا کر نیچے ہی نیچے غار کے اندر تک چلا جاتا تھا۔ چلتے چلتے وہ دیواروں پر دھوئیں سے نشانات بناتے گئے تاکہ واپسی کے سفر میں انھیں ان سے رہ نمائی مل سکے۔ انھیں اپنی اس مہم جوئی بے حد مزا آرہا تھا۔ وہ واپسی پر دوسرے بچوں کو بڑے فخر سے اپنی مہم کے بارے میں بتا سکتے تھے اور بہت سی نئی نئی باتیں سنا سکتے تھے۔
ایک جگہ انھوں نے غار کو خاصا کشادہ پایا۔ اس کی چھت سے بہت سے لائم سٹون کے ستون لٹک رہے تھے۔ وہ ان کے گرد چکر لگاکر اس جگہ سے نکلنے والے بہت سے راستوں میں سے ایک راستے پر ہو لیے۔ اب کی بار وہ جس غار میں داخل ہوئے اس میں بے شمار چمگاڈریں چھت سے الٹی لٹکی ہوئی تھیں۔ موم بتیوں کی روشنی نے انھیں خوف زدہ کر دیا اور وہ تیزی سے ان کی طرف لپک اٹھیں۔ٹام جانتا تھا کہ ان کا ایسی صورت میں وہاں مزید رکنا خطرناک ثابت ہوگا۔ اس لیے اس نے بیکی کا ہاتھ تھاما اور تیزی سے واپسی کے لیے بھا گنے لگا۔ ایک چمگادڑ نے اپنے پر مار کر بیکی کی موم بتی بجھا دی۔ دوسری چمگادڑیں ابھی تک ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ وہ ان سے بچنے کے لیے غار کی بھول بھلیوں میں ادھر ادھر دوڑتے پھرے۔ پھر بالآخران سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگئے۔ کچھ دور آگے چلتے چلتے ایک زیر زمین جھیل آتی تھی۔ ٹام اسے اچھی طرح سے دیکھنا چاہتا تھا لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ انھیں کچھ دیر وہاں بیٹھ کر سستالینا چا ہیے۔ اس جگہ کی پراسرار خاموشی اب ان دونوں بچوں کو خوف زدہ کرنے لگی تھی۔
بیکی نے کہا:’’ مجھے یوں لگتا ہے ٹام جیسے ہمیں اپنے ساتھیوں سے بچھڑے مدتیں گزر چکی ہیں۔ ہمیں ان کی کوئی آواز بھی تو سنائی نہیں دے رہی ہے۔‘‘
’’ہاں بیکی! تم ٹھیک کہتی ہو ۔‘‘ٹام بولا ۔’’ہم اس غارمیں بہت اندر آ چکے ہیں ہم شمال جنوب مشرق کسی بھی سمت ہو سکتے ہیں۔ اتنی دوری پر ہمیں ان کی کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی۔‘‘
’’ جانے ہمیں اس غار میں چکراتے کتنی دیر ہوچکی ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اب واپسی کا سفر کریں۔‘‘
’’ہاں۔ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے۔‘‘
  ’’کیا تمھیں واپسی کا راستہ معلوم ہے ٹام ؟ یہ غار تو بھول بھلیوں سے اٹا پڑا ہے۔ ‘‘
’’میرا خیال ہے۔ مجھے واپسی کاراستہ معلوم ہے ۔لیکن تمھیں چمگادڑیں یاد ہیں؟ اگر انھوں نے ہماری دونوں موم بتیاں بجھا دیں تو ہم مصیبت میں پڑ جائیں گے۔ آؤ ہم واپسی کے لیے کوئی دوسرا راستہ تلاش کریں ۔‘‘
’’ لیکن اس طرح ہم کہیں اس غارمیں ہمیشہ کے لیے ہی گم ہوکر نہ رہ جائیں۔‘‘ بیکی خوف زدہ سی آواز میں بولی۔
وہ اس جگہ سے مڑے اور واپس چلنے لگے۔ کچھ دور تک وہ خاموشی سے چلتے رہے۔ وہ ہر نئے راستے کو اس امید پر دیکھتے تھے کہ شاید انھیں اس کے متعلق کچھ یاد آجائے کہ وہ اس پر سے اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ لیکن وہ سب ان کے لیے اجنبی راستے ہی تھے۔ پھر بالآخر بیکی نے کہا۔ــ’’ ٹام۔ چمگادڑوں کی پروا نہ کرو۔ چلو اسی راستے پر واپسی کے لیے چلتے ہیں۔‘‘
ٹام رک گیا۔
’’ سنو۔ یہ آواز کیسی ہے؟‘‘
بیکی نے سننے کی کوشش کی لیکن اسے کوئی آواز نہ سنائی دی۔ ٹام زور سے چلایا۔ اس کی آواز سے اس جگہ بڑی خوف ناک بازگشت پیدا ہوئی۔ بیکی ڈرگئی۔
’’ اوہ ٹام! اللہ کے لیے ایسا نہ کرو۔ مجھے خوف آتا ہے۔‘‘
  ’’ہاں واقعی یہاں بلند آواز یں بڑی خوف ناک بازگشت پیدا کرتی ہیں لیکن میں اس لیے چلایا تھا کہ میری آواز ہمارے ساتھیوں تک پہنچ جائے۔ ٹھیرو میں ایک بار پھر زور سے چلاتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ ایک بار پھر پھیپھڑوں کی پوری قوت کے ساتھ چلایا لیکن جواباً انھیں کسی قسم کی آواز نہ سنائی دی۔ وہ دونوں مایوس ہوکر آگے بڑھ گئے۔
’’لگتا ہے ٹام ہم اپناراستہ بھول چکے ہیں۔ دیکھو !یہاں دیواروں پر ہمارے بنائے ہوئے کوئی نشانات نہیں۔ ‘‘
’’یہ میری غلطی ہے بیکی۔ میراخیال تھا ہم آسانی سے واپسی کا راستہ پالیں گے اس لیے میں نے دیواروں پر کسی قسم کے دھوئیں کے نشانات نہیں بنائے ۔‘‘
’’ اس طرح تو ہم کبھی واپسی کا راستہ نہ پاسکیں گے ٹام۔ کاش! ہم اپنے ساتھیوں سے الگ نہ ہوتے۔‘‘
بیکی وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور سسکیاں لے لے کر رونے لگی۔ ٹام اس کے قریب بیٹھ گیا اور اسے تسلی دینے لگا۔ وہ اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ یہ اس کا ہی قصور تھا جواسے اپنے ساتھ غار کے اندر یہاں تک لے آیا تھا لیکن بیکی نے کہاکہ وہ ایسا نہ کہے کیوں کہ جو کچھ ہوا تھا، اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آگے روانہ ہو گئے۔ ٹام نے بیکی کے ہاتھ سے موم بتی لے لی اور اسے بجھا دیا کہ انھیں فی الحال ایک ہی موم بتی سے کام چلا لینا چاہیے۔ ٹام کے پاس ایک سالم موم بتی کے علاوہ چند چھوٹی چھوٹی موم بتیاں بھی تھیں جو اس نے آئندہ کے لیے بچا رکھی تھیں۔
کافی دیر تک چلتے رہنے کے بعد بیکی اتنا تھک گئی کہ نڈھال ہوکر زمین پربیٹھ گئی۔ ٹام بھی اس کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے گھروں، آرام دہ بستروں اور باہر کے نظاروں کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ یہ باتیں کرتے کرتے بیکی رونے لگی۔ ٹام اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگا۔ یہاں تک کہ بیکی لیٹ کر سوگئی۔ پھر جب وہ سوکر اٹھی تو ٹام نے کہا کہ انھیں اپنے واپسی کے سفر پر دوبارہ چل پڑنا چاہیے۔ انھیں کوئی اندازہ نہ تھا کہ انھیں غارمیں بھٹکے کتنا عرصہ ہو چکا ہے شاید انھیں وہاں بھٹکتے ایک دن اور ایک رات گزر چکے تھے۔ یا دو دن دوراتیں گزرچکی تھیں۔
کافی دور تک آگے چلنے کے بعد ٹام نے کہا کہ انھیں اپنے آس پاس کا بغور جائزہ لیناچاہیے اور پانی کے بہنے کی آواز سننی چاہیے۔ انھیں کوئی نہ کوئی ندی ضرور تلاش کر نی چاہیے۔ پھر انھیں جلد ہی ایک ندی مل گئی، ٹام نے فیصلہ کیا کہ انھیں اس جگہ ٹھیر کر کچھ آرام کرلینا چاہیے۔ وہ دونوں بہت تھک چکے تھے۔ بیکی نے کہا کہ وہ کچھ دور آگے تک اور چل سکتی ہے۔ لیکن ٹام نے کہا کہ نہیں انھیں اب سفر جاری رکھنے کے بجائے اسی جگہ ٹھیر جانا چاہیے۔ بیکی اس پر حیرت زدہ رہ گئی لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آسکا۔ وہ دونوں وہاں بیٹھ گئے۔ٹام نے موم بتی زمین پر رکھ کر اسے گیلی مٹی سے اچھی طرح سے زمین پر جما دیا۔ کچھ دیر تک وہ دونوں خاموش بیٹھے موم بتی کو جلتا دیکھتے رہے۔ پھر بیکی نے کہا:
’’ٹام۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
ٹام نے کوئی چیز اپنی جیب سے نکالی۔ ’’میں نے پک نک میں کیک کا یہ ٹکڑا بچالیا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔
اس نے کیک کے اس ٹکڑے کے دو حصے کیے اور ایک حصہ بیکی کو دے دیا۔ وہاں پینے کے لیے ندی کا تازہ پانی بھی موجود تھا۔ بیکی نے کہا کہ اب انھیں آگے چل دینا چاہیے لیکن جوا باً ٹام خاموش رہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے کہا:
’’ بیکی ہمیں اس جگہ سے کہیں نہیں جانا چا ہیے۔ یہاں ہمارے پینے کے لیے پانی موجود ہے۔ یہ موم بتی جو ہمارے سامنے جل رہی ہے۔ ہمارے پاس صرف یہی آخری موم بتی رہ گئی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی بیکی زور زور سے رونے لگی۔ پھراس نے کہا ۔’’ٹام!‘‘
’’ہاں بیکی۔‘‘
’’ تمھارے خیال میں دوسرے لوگ ہماری گمشدگی کا علم ہو تے ہی ہمیںتلاش کرنے کی کوشش نہ کریں گے؟ ‘‘
’’ضرورکریں گے۔‘‘
’’شاید وہ اس وقت ہمیں تلاش کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں ضرور۔ مجھے امید ہے۔ ‘‘
’’وہ جب جہاز میں واپس پہنچے ہوں گے تو انھوں نے ہمیں غائب پایا ہو گا اور ہماری گم شدگی کی اطلاع گھر والوں کو بھجوادی ہوگی۔‘‘
’’ہاں ایساہی ہوا ہوگا۔ اس وقت سب ہمیں تلاش کرتے پھر رہے ہوں گے۔‘‘
  اتنی باتوں کے بعد ان کے درمیان خاموشی چھاگئی۔ انھوں نے اپنی آنکھیں موم بتی بر جمادی تھیں اوراسے گھلتا ہوا دیکھنے لگے تھے۔ پھر پگھلتے پگھلتے اس کا شعلہ بجھ گیا اور اس جگہ گہری تاریکی چھاگئی۔
انھیں معلوم بھی نہ ہواکہ وہ کب باتیں کرتے کرتے اسی جگہ پڑ کر گہری نیند سو گئے۔ پھر جب ان کی آنکھ کھلی تو ٹام نے کہاکہ وہ دن اتوار کا دن ہوسکتا ہے یا پھر سوموار کا۔ اس نے کوشش کی کہ بیکی کو باتوں میں لگالے مگر وہ بہت اداس اور پریشان ہور ہی تھی۔ ٹام نے کہا۔’’ انھیں لاپتہ ہوئے خاصا عرصہ گزر چکا ہوگا اور لوگ انھیں اس غار میں ہر جگہ تلاش کرتے پھر رہے ہوں گے۔‘‘
  وقت گزرتا گیا۔ انھیں بھوک ستانے لگی۔ انھوں نے اپنے بچاکر رکھے ہوئے باقی ماندہ کیک کے ٹکڑے کھالیے۔
پھر انھیں ایک شور سا سنائی دیا۔ انھیں یوں لگا جیسے کسی نے بہت دور سے آواز لگائی ہو۔
’’ یہ ہمیں تلاش کرنے والوں کی آواز ہے؟ ‘‘ٹام جوش سے بولا۔ ’’وہ آرہے ہیں۔آؤ بیکی۔اب ہمارے یہاں سے نکلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ‘‘
لیکن وہ اس جگہ سے زیادہ دور نہ جا سکے کیوں کہ آگے چل کر زمین پر بے شمار بڑے بڑے شگاف بنے ہوئے تھے جن میں سے کچھ کم گہرے اور کچھ بے حد گہرے تھے۔ ٹام ایک شگاف میں پیٹ کے بل گھس گیا اور گھستا ہوا کافی اندر تک چلا گیا۔ وہ شکاف ایک سرنگ کی صورت میں بہت دور تک چلاگیا تھا۔ اس نے بیکی کو بھی اپنے پیچھے پیچھے چلے آنے کو کہا۔ وہ دونوں اس سرنگ میں رینگتے رینگتے بہت اندر تک چلے گئے۔ انھیں اپنی تلاش میں آنے والوں کی آوازیں اب کافی قریب سنائی دے رہی تھیں۔ ٹام بلند آواز میں چیختاہوا انھیں مدد کے لیے پکارنے لگا مگر جواباً اسے کوئی آواز آتی نہ سنائی دی۔ شاید انھیں تلاش کرنے والے کہیں دور جا چکے تھے۔ مایوس ہوکر وہ اس سرنگ سے واپس ہولیے اور ندی کے کنارے آکر بیٹھ گئے۔ وہ دونوں بہت تھکے ہوئے تھے۔ جلد ہی انھیں نیند نے آلیا۔ جب وہ بیدار ہوئے تو انھیں سخت بھوک لگ رہی تھی۔ ساتھ ہی بہت خوف بھی محسوس ہورہا تھا۔ ٹام کا خیال تھا کہ شاید منگل کا دن طلوع ہوا ہے۔
اب اسے ایک نیا خیال سوجھا۔جس جگہ وہ موجود تھے وہاں سے کئی بغلی راستے نکلتے تھے۔ ان راستوں کا کھوج لگانا شاید ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے پتنگ کی ڈور نکالی اور اسے وہاں ایک بڑے سے پتھر سے باندھ دیا۔ پھر وہ اور بیکی ایک بغلی راستے میں داخل ہو گئے لیکن چند قدم چلنے کے بعد یہ راستہ ایک دم ڈھلوان ہوجاتا تھا۔ ٹام یہاں پیٹ کے بل لیٹ گیا اور آہستہ آہستہ نیچے کی طرف سرکنے لگا۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس سے بیس گز کے فاصلے پر ایک انسانی ہاتھ جس نے موم بتی اٹھائی ہوئی تھی نمودار ہوا۔ اسے دیکھتے ہی ٹام بڑے زور سے چلایا۔ جس پر وہ ہاتھ فورا ًہی ایک چٹان کے پیچھے غائب ہوگیا لیکن موم بتی کی ہلکی روشنی میں ٹام اس شخص کا چہرہ اور جسم دیکھنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ انجن جو تھا۔ ٹام بے حس و حرکت اپنی جگہ پر پڑا رہا۔ اسے حیرت تھی کہ آخر انجن جونے اس کی آواز کیوں نہ پہچانی تھی اور اسے قتل ہی کیوں نہ کر ڈالا تھا۔ اس نے عدالت میں اس کے خلاف گواہی جو دی تھی۔ شاید غار کی فضا نے اس کی آواز تبدیل کردی تھی۔ اس نے بہتر سمجھا کہ بیکی کو انجن جو کے بارے میں کچھ نہ بتائے۔ وہ واپس پلٹااور بیکی کو ساتھ لیے ندی کے کنارے واپس آگیا۔
اس رات بھی وہ کافی دیر تک مدد کا انتظار کرتے رہے۔ پھر لیٹ کر سوگئے۔ وہ جب سوکر اٹھے تو انھیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی اور کم زوری بھی محسوس ہورہی تھی۔ ٹام کا خیال تھا۔ وہ شاید بدھ یا جمعرات کا دن ہے۔ جمعے یا ہفتے کا دن بھی ہو سکتا تھا اور لوگوں نے شایدان کی تلاش ترک کر دی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے اب ایک دوسرے راستے کو آزمانا چاہیے۔ اسے انجن جو سے ٹکراؤ ہونے کے خیال سے کوئی خوف نہ محسوس ہو رہا تھا۔ وہاں بیٹھے انتظار کرتے رہنے سے کچھ کر ڈالنا زیادہ بہتر تھا۔ بیکی بہت کم زوری محسوس کررہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ وہیں رک کر اس کا انتظار کرے گی۔ اس نے ٹام سے کہا کہ وہ اپنی پتنگ کی ڈور کی مدد سے اس نئے راستے کو تلاش کرے۔ٹام نے اسے خدا حافظ کہا اورپتنگ کی ڈوری کا ایک سرا وہاں پڑے ایک پتھر سے باندھ کر اسے کھولتا ہوا نئے راستے میں داخل ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ اب کی بار وہ ضرور غار سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرے گا۔ وہ گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلتا ہوا اس نئے راستے میں آگے بڑھنے لگا۔ اسے بہت بھوک محسوس ہورہی تھی اور شاید کم زوری سے چکر بھی آرہے تھے۔ اپنی کامیابی کے بارے میں وہ اتنا پر امید بھی نہ تھا۔
بازیابی
منگل کی شام آئی اور گزرگئی۔ سینٹ پیٹرز برگ کے قصبے میں اداسی کی فضا طاری تھی۔ دونوں بچے ابھی تک نہ مل سکے تھے۔ ان کے لیے مستقل دعائیں کی جارہی تھیں لیکن ابھی تک کوئی اچھی خبر نہ آئی تھی۔ بہت سے آدمیوں نے تلاش کا کام روک دیا تھا اور یہ کہہ دیا تھا کہ دونوں بچے ٹام اور بیکی غار کی بھول بھلیوں میں ہمیشہ کے لیے گم ہو چکے ہیں۔ مسز ہارپر شدید بیمار پڑ گئی تھیں۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بار بار اپنی بیٹی کو پکارتی تھیں اور اسے اپنے پاس نہ دیکھ کراونچی آواز میں رونے لگتی تھیں۔ خالہ پولی کے بال بھی شدید غم اور صدمے سے سفید ہوتے جارہے تھے۔ تمام دن انتظار کرنے کے بعد لوگ انتہائی مایوسی اور اداسی کی حالت میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
پھر یوں ہوا کہ آدھی رات کے وقت گاؤں کے گر جا کی گھنٹیاں ایک دم بج اٹھیں۔ چند ہی منٹوں میں گاؤں کی گلیاں لوگوں سے بھر گئیں۔ وہ بڑی مسرت کے عالم میں چلارہے تھے۔ ’’مل گئے! بچے میں گئے؟ ‘‘دونوں بچے ایک کھلی گاڑی میں سوار تھے جسے چند آدمی کھینچ رہے تھے۔
پھر کوئی بھی دوبارہ سونے کے لیے نہ گیا۔ وہ اس چھوٹے سے قصبے کی تاریخ کی ایک یا دگار رات تھی۔ لوگ بچوں سے ملنے اور انھیں پیار کرنے اور مسز تھیچر کو مبارک باد دینے کے لیے جج تھیچر کے گھر کی سمت ہو لیے۔ خالہ پولی کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ باربار اللہ کا شکرادا کر رہی تھیں ۔مسز تھیچر نے فورا ًہی ایک آدمی اپنے شوہر کو بلانے کے لیے دوڑ ادیا۔ جو ابھی تک بچوں کی تلاش کے سلسلے میں غار کی طرف گئے ہوئے تھے۔
جج تھیچر کے گھرٹام نے لوگوں کو اپنے اوربیکی کے ساتھ بیتنے والے تمام واقعات کی تفصیل سنائی۔
اس نے بیکی کوندی کے کنارے چھوڑا تھا اور خود پتنگ کی ڈور کی مدد سے اس جگہ سے نکلنے والے راستوں کو آزمانے نکل کھڑا ہوا تھا۔ پہلے دور استے کچھ دور آگے چل کر بند ہوجاتے تھے ۔تیسرے راستے پر کافی دورآ گے چل کر اسے ایک سوراخ دکھائی دیا۔ جس میں سے روشنی اندر آرہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر جب اس سوراخ کو کچھ اور چوڑا کیا اور اس میں سے اپنے سر اور کند ھے با ہر نکال کر دیکھا۔ تو اس نے عظیم دریائے مسی سپی کو اپنے قریب سے گزرتے ہوئے پایا۔ وہ فورا ًہی بیکی کے پاس پہنچا اور اسے بتایا تھا کہ اس نے بالاخر اس جگہ سے باہر نکلنے کا راستہ دریافت کر لیا ہے۔ جس پر بیکی نے اس سے کہا کہ اسے یقین نہیں آتا اور وہ مرجائے گی۔ ٹام بمشکل تمام اسے یقین دلانے میں کام یاب ہوا کہ وہ واقعی اب اس جگہ سے باہر نکل سکتے ہیں۔ پھر وہ دونوں اس راستے پر چلتے ہوئے اس سوراخ تک جا پہنچے۔ پہلے ٹام اس میں سے باہر نکلا۔ پھراس نے بیکی کو باہر نکلنے میں مدد دی۔ وہ خوشی کے مارے وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی وقت کچھ آدمی وہاں سے گزرے۔ وہ کشتی میں اس جگہ پہنچے تھے۔ بیکی اور ٹام نے ان کو اپنی کہانی سنائی۔ ان آدمیوں نے پہلے تو ان کی باتوں پر یقین نہ کیا کیوں کہ وہ گاؤں سے کم از کم پانچ میل دور تھے۔ پھر انھوں نے انھیں اپنے ساتھ کشتی میں بٹھالیا۔ انھیں کھانا کھلایا اور اپنے قصبے میں لاکرکشتی سے اتار دیا۔
ٹام کو دو دن بعد بستر سے نکلنے کی اجازت ملی۔ اب وہ پوری طرح سے صحت یاب ہو چکا تھا۔ لیکن بیکی کو مزید دو دن تک بستر پر پڑے رہنا پڑا۔ وہ بہت کم زور ہوگئی تھی۔ اسے پوری طرح تن درست ہونے میں کچھ عرصہ لگا۔
جب ٹام کو معلوم ہوا کہ ہک بیمار ہے تو وہ جمعہ کے دن اس سے ملنے کے لیے گیا۔ لیکن اسے اس سے ملنے کی اجازت نہ مل سکی۔ ہفتے اور اتوار کو بھی وہ اس سے نہ مل سکا۔ لیکن پیر کو اسے ہک سے ملنے کی اجازت مل گئی لیکن اسے ہدایت دی گئی کہ وہ ہک سے کوئی بات ایسی نہ کرے جس سے وہ پریشان ہو جائے۔ جب ٹام گھر واپس پہنچا تو اسے کارڈف کی پہاڑی پر رونما ہونے والے واقعے کے بارے میں بتایاگیا۔ اسے یہ بھی بتایا گیاکہ پھٹے پرانے کپڑوں والے آدمی کی لاش دریا میں تیرتی ہوئی پائی گئی تھی۔ وہ کشتی کے ذریعہ سے فرار ہونے کی کوشش میں دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا تھا۔
اپنی غار سے رہائی کے دو ہفتے بعد ٹام ایک بار پھر ہک سے ملنے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ہک اب اتناتن درست اور صحت مند ہوچکاتھا کہ ہرقسم کی باتیں سن سکتا تھا اور ٹام کے پاس اسے سنانے کے لیے بڑی سنسنی خیز اور دل چسپ باتیں موجود تھیں۔ حج تھیچرکا گھر ٹام کے راستے میں آتا تھا۔ وہ بیکی سے ملنے وہاں چلا گیا۔ اس وقت جج کے بہت سے دوست بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے مذاق میں ٹام سے پوچھا کہ کیا وہ دوبارہ اس غار میں جانا پسند کرے گا۔ ٹام نے جواب دیا، ’’کیوں نہیں۔ اس میں کیا حرج ہے۔ ‘‘
جج نے کہا:’’ تمھاری طرح بہت سے دوسرے لوگ بھی وہاں جانا چاہتے ہیں لیکن میں نہیں چاہتا کہ لوگ وہاں جائیں اور وہاں کی بھول بھلیوں میں گم ہوتے رہیں۔ اس لیے میں نے دو ہفتے پہلے اس غار کا بڑا دروازہ لوہے کی چادروں سے مضبوطی سے بند کر وا دیا ہے۔ اس کی چابی میرے پاس ہے۔‘‘ ٹام کا چہرہ فق ہوگیا۔
’’کیا ہوالڑ کے؟ ارے کوئی ہے؟ ذرا دوڑ کر ایک گلاس پانی تو لاؤ۔‘‘
  ایک نوکر دوڑ کر پانی لے آیا اور ٹام کے چہرے پر چھینٹے مارے۔
’’ہاں۔ اب بتاؤ تمھیں کیا ہوا تھا؟ ‘‘
’’جج صاحب، انجن جو غار میں موجود ہے۔‘‘
٭٭٭
چند ہی منٹوں میںانجن جو کے غار میں موجو د ہونے کی خبر گاؤں بھر میں پھیل گئی اور لوگ ایک بار پھر جوق در جوق میک ڈوگل کے غار کی طرف چل پڑے۔ چھوٹا جہاز لوگوں سے بھر گیا۔ چھوٹی چھوٹی تمام کشتیاں بھی لوگوں سے بھر گئیں۔ ٹام، جج تھیچر کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوگیا ۔جب غار کا دروازہ کھولا گیا تو انھوں نے ایک دہشت ناک منظر دیکھا۔ انجن جو دروازے کے قریب ہی زمین پر مردہ پڑا تھا۔ اس کا چا قو اس کے پاس ہی پڑا ہوا تھا۔ اس کا بلیڈ ٹوٹا ہوا تھا اس کے قریب تھوڑی سی زمین کھدی ہوئی تھی۔ شایداس نے باہر نکلنے کے لیے اس جگہ سرنگ کھودنے کی کوشش کی تھی۔ غارمیں بالعموم وہاں آنے والے سیاحوں کی موم بتیوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہوتے تھے لیکن وہاں کوئی بھی موم بتی کا ٹکڑا نہ دکھائی دیا۔ شاید انجن جو انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھا چکا تھا۔ وہاں چمگادڑوں کے ٹوٹے ہوئے پر اور پنجے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ شاید اس نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے انھیں پکڑ کر کھالیا تھا۔ بے چارہ بھوک سے مرگیا تھا۔
انجن جو کو غار کے دہانے کے قریب ہی دفن کر دیا گیا۔ آس پاس کے قصبوں اور گاؤں سے بھی لوگ بھاری تعداد میں کشتیوں اور گھوڑا گاڑیوں میں بیٹھ کر اس جگہ کو دیکھنے آنے لگے۔ وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی لارہے تھے۔ یوں وہ جگہ ایک تفریح گاہ بن کر رہ گئی۔
جب انجن جو کی تدفین کا ہنگامہ سردپڑگیا تو ایک دن ٹام ہک کوایک سنسان سی جگہ پر لے گیا۔ وہ اس سے کچھ اہم باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے ابھی تک معلوم نہ ہوسکا تھا کہ کارڈف کی پہاڑی والے واقعے میں ہک نے کیا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس نے ویلش مین سے اس کی صرف کہانی ہی سنی تھی۔ اب ہک نے ٹام کو اس رات کارڈف کی پہاڑی پر پیش آنے واقعے کی تمام تفصیلات کہہ سنائیں اور اسے بتایا کہ اس نے کس طرح وہاں دو آدمیوں کو ایک صندوق اٹھائے ہوئے دیکھاتھا۔
’’ ہم یہ صندوق ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہیں۔ ‘‘اس نے افسوس سے کہا۔
’’ ہرگز نہیں۔ وہ صندوق غار میں موجود ہے۔ ‘‘ٹام نے کہا۔
’’کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے کہنا۔‘‘
’’ وہ صندوق غارمیں موجود ہے۔‘‘
’’ تم مذاق کر رہے ہو ٹام! ‘‘
’’ ہرگز نہیں۔ کیا تم میرے ساتھ وہاں چل کر وہ خزانہ حاصل کرنا پسند کرو گے؟ ‘‘
’’ہاں۔ مگر کہیں ہم غار کی بھول بھلیوں میں بھٹک نہ جائیں۔‘‘
’’ نہیں ہمیںوہاں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘‘
  ’’بہت خوب! لیکن تم یقین کے ساتھ کیوں کر کہہ سکتے ہو کہ وہ خزانہ غار ہی میں موجود ہے؟‘‘
  ’’مجھے اس کا یقین ہے کہ ہم ضرورا سے پالیں گے۔‘‘
’’ اچھا، پھر ہمیں کب وہاں چلنا چاہیے؟‘‘
’’ابھی اور اسی وقت۔ تم اب خاصے تن درست و توانا ہو چکے ہو۔ ‘‘
’’کیا ہمیں غار میں بہت دور تک جانا پڑے گا؟ میں تین چاردن تک بستر پر پڑا رہا ہوں۔ ایک میل سے زیادہ ہرگز آگے نہیں جاسکتا ۔‘‘
’’ اگر ہم غار کے دروازے سے اس جگہ پہنچیں تو وہ فاصلہ پا نچ میل بنتا ہے لیکن میں نے اس جگہ پہنچنے کے لیے ایک مختصر ترین راستہ دریافت کیا ہے میں تمھیں کشتی میں وہاں لے جاؤں گا ۔‘‘
’’پھر ہمیں فوراً روانہ ہو جانا چاہیے۔ ‘‘
’’ہمیں اپنے ساتھ کچھ ضروری چیزیں مثلاً چند چھوٹے تھیلے، پتنگ کی ڈوراور کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے چلنی چا ہییں۔ ماچسیں تو ہمیں ضرور ساتھ لے جانی چاہییں۔ ان کی وہاں سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔‘‘
٭٭٭
اس سہ پہران دونوں لڑکوں نے ایک کشتی لی اور اسے دریا میں چلاتے ہوئے غار کی سمت روانہ ہوگئے۔ جب وہ قصبے سے کئی میل دور غار کی حدود میں داخل ہو گئے تو ٹام نے کہا:’’ تم وہ جگہ دیکھ رہے ہو ہک؟ جہاں چونے کی چٹانیں دکھائی دے رہی ہیں۔ وہاں غار میں داخلے کا راستہ ہے جسے میں نے دریافت کیا ہے۔ ہم وہیں جارہے ہیں۔‘‘
  اس جگہ پہنچ کر وہ کشتی سے اتر پڑے۔
’’یہیں وہ شگاف واقع ہے جس میں سے میں باہر نکلا تھا۔ ذرا دیکھوں تم اسے تلاش کر سکتے ہو یا نہیں؟ ‘‘
ہک نے ادھر ادھر تلاش کیا مگراسے کوئی شکاف نہ دکھائی دیا۔ اس پرٹام بڑے فخر سے اٹھلاتا ہوا ایک گھنی جھاڑی کی طرف بڑھا اور اسے ایک طرف ہٹا دیا۔
’’ذرا دیکھو۔ یہ عام نظروں سے کس خوبی سے پوشیدہ رہتا ہے۔ ‘‘اس نے کہا۔
’’ہاں واقعی۔ قدرت کا یہ انتظام بھی خوب ہے۔‘‘
دونوں لڑ کے اس شگاف میں اتر گئے۔ ٹام آگے آگے تھا۔ اس نے اپنی پتنگ کی ڈور ایک چٹان سے باندھ دی اور گولے کو کھولتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ یوں ہی چلتے چلتے وہ ندی تک جا پہنچے۔ اس جگہ پہنچتے ہی ٹام کے بدن میں کپکپی سی دوڑ گئی۔ اس نے ہک کو وہ جگہ دکھائی جہاں اس کی آخری موم بتی جل کرختم ہوگئی تھی اور وہ اور بیکی بڑی حسرت سے اسے بجھتے دیکھتے رہے تھے۔
پھر وہ اس جگہ سے نکلنے والے ایک دوسرے راستے پر ہو لیے اور اس جگہ جا پہنچے جہاں زمین ایک دم ہی ڈھلوان ہو جا تی تھی۔ موم بتی کی روشنی میں اس کی گہرائی کچھ اتنی زیادہ دکھائی نہ دیتی تھی۔
’’اب میں تمھیں ایک چیز دکھاؤں گا ۔‘‘ٹام نے سرگوشی میں کہا اور اپنی موم بتی کچھ بلند کرلی۔’’ دوراس راستے کے موڑ تک ذرا دیکھو۔ کیا تم اسے دیکھ رہے ہو؟ وہ اس بڑی سی چٹان پر موم بتی کے دھوئیں سے کچھ بنا ہوا ہے؟‘‘
’’ٹام وہ صلیب کانشان بنا ہوا ہے۔‘‘
’’صلیب کے نشان کے نیچے۔ ہے نا؟ یہی انجن جو نے کہا تھا اور اسی جگہ میں نے اسے موم بتی لیے دیکھا تھا۔‘‘
ہک نے تھوڑی دیر صلیب کے اس نشان کو دیکھا۔ پھر کانپتی ہوئی آواز میں بولا:
’’ٹام۔ چلو یہاں سے نکل لیں۔‘‘
’’ کیا؟ خزانے کو یہیں چھوڑ دیں؟‘‘
’’ہاں۔ چھوڑو اسے۔ مجھے یقین ہے اس کے قریب ہی انجن جو کا بھوت موجود ہو گا۔ ‘‘
’’ہرگز نہیں۔ یہ اس جگہ ہوگا جہاں اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ یہاں نہیں۔‘‘
’’ نہیں ٹام۔ وہ خزانے کے قریب ہی موجود ہوگا۔ مجھے یقین ہے۔ میں بھوتوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں ۔‘‘
ٹام سوچنے لگا کہ شاید ہک ٹھیک ہی کہہ رہا ہے لیکن جلد ہی اسے ایک نیا خیال سجھائی دیا، ’’ہم بے وقوف ہیں ہک۔ انجن جو کا بھوت ایسی جگہ پر ہرگز نہیں جاسکتا جہاں صلیب کانشان بنا ہوا ہو۔‘‘
’’اوہ میں نے یہ نہیں سوچا تھا ۔تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس جگہ صلیب کا نشان موجود ہے۔ آؤ ہم وہاں چلیں اور صندوق تلاش کریں۔‘‘ ٹام نے آگے بڑھنے میں پہل کی۔ ہک اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ جب وہ چٹان کے قریب پہنچے تو انھیں وہاں ایک پرانا کمبل، ایک بیلٹ اور مرغی کی چند ہڈیاں پڑی ہوئی دکھائی دیں۔ خزانے والا صندوق وہاں موجود نہ تھا۔
’’اس نے کہا تھا۔ صلیب کے نیچے۔ اس کا مطلب ہے صلیب کے نشان کے نیچے وہ صندوق موجود ہوگا۔ یہ اس چٹان کے نیچے نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ بڑی مضبوطی سے زمین میں گڑی ہوئی ہے ۔‘‘ٹام نے کہا۔
انھوں نے اس صندوق کو اس چٹان کے آس پاس دورا ور نز دیک ہر جگہ تلاش کیا۔ مگر انھیں ناکامی ہوئی۔ وہ تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ اسی وقت ٹام کو کوئی چیز دکھائی دی۔
’’ ذرا دیکھنا ہک! اس چٹان کے ایک طرف قدموں کے نشانات اور موم بتی کے داغ دکھائی دے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے وہ صندوق اس جگہ زمین میں دفن ہوگا۔ میں یہاں کھدائی کرتاہوں۔ ‘‘
’’ خیال کچھ برا نہیں۔ ‘‘ہک بولا۔
  ٹام نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور اس جگہ زمین کھودنی شروع کی۔ اس نے چار انچ تک ہی کھدائی کی تھی کہ اس کا چا قو کسی چیز سے ٹکرا گیا۔
’’ہک! کیا تم نے یہ آواز سنی؟ ‘‘
ہک نے بھی اس جگہ مٹی کھود نی شروع کر دی۔ جلد ہی انھیں لکڑی کے چند تختے دکھائی دیے ۔انھوں نے تختوں کو ہٹایا تو ان کے نیچے ایک سرنگ موجود تھی۔ ٹام اس سرنگ میں موم بتی لیے داخل ہوگیا اوراس کی روشنی میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ ہک بھی اس کے پیچھے پیچھے اس سرنگ میں داخل ہوگیا۔ وہ سرنگ تھوڑی دور تک بائیں جانب مڑتی تھی۔ پھر ایک دم ہی دائیں جانب مڑجاتی تھی۔ موم بتی کی روشنی میں دونوں آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے۔ پھر ٹام ایک دم رک گیا۔
’’ارے ہک! ذرا دیکھو تو یہ کیا ہے؟‘‘
  وہ خزانے والا صندوق ان سے کچھ فاصلے پر زمین پر پڑا تھا۔ اس کے قریب ہی بارود کا خالی پیپا رکھا تھا۔ دو بندوقیں، چند پرانے جوتے اور کچھ بے کارقسم کی چیزیں بھی وہاں بکھری پڑی تھیں۔
’’بالآخر ہم اسے پانے میں کام یاب ہو ہی گئے۔ ‘‘ہک بولا۔ اس نے صندوق کا ڈھکن کھول کر اس میں سے چند سونے کے سکے نکال کر ہاتھ میں لے لیے۔ ’’اب ہم دولت مند ہو گئے ہیں ٹام!‘‘
’’مجھے یقین تھا ہک کہ ہم ضروراس خزانے کو پانے میں کام یاب ہو جائیں گے۔‘‘ ٹام بولا۔ ’’چلواب ہم اس صندوق کو یہاں سے نکالیں۔ ذرا دیکھیں میں اس صندوق کو اٹھا سکتا ہوں یا نہیں۔‘‘
  صندوق پچاس پونڈ کا تھا۔ ٹام اسے ہلا تو سکتا تھالیکن اٹھا نہیں سکتاتھا۔
’’مجھے معلوم تھا کہ یہ صندوق خاصا بھاری ہوگا۔ اسی لیے میں چھوٹے چھوٹے تھیلے اپنے ساتھ لیتا آیا ہوں۔‘‘
  انھوں نے جلد ہی سونے کے سکے ان تھیلوں میں بھر لیے اور انھیں سرنگ سے باہرلے آئے۔
’’ اب ہمیں بندوقیں اور دوسری چیزیں بھی سرنگ سے نکال لانی چاہییں۔‘‘ ہک بولا۔
’’نہیں ہک۔ انھیں وہیں رہنے دو۔ ہم کبھی کبھار ان کے ساتھ چورسپاہی کا کھیل کھیلنے یہاں آیا کریں گے۔ آؤ اب یہاں سے چلیں۔ ہمیں یہاں بہت دیر ہوچکی ہے اور مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے۔‘‘
انھوں نے تھیلے اٹھا کرکشتی میں لا دے اور خود بھی کشتی میں سوار ہو گئے اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ تھوڑی دیر ہوئی سورج غروب ہو گیا۔ جب وہ قصبے کے قریب پہنچ کرکشتی سے اترے تو اس وقت رات کا اندھیرا چھا رہا تھا۔ ہمیں یہ تھیلے مسز ڈگلس کے لکڑیوں کے گودام میں چھپا دینے چاہییں۔‘‘ ٹام نے کہا۔ ’’ہم کل وہاں پہنچ کر آدھی آدھی رقم آپس میں بانٹ لیں گے۔ اس کے بعد ہم اسے چھپانے کے لیے جنگل میں کوئی جگہ تلاش کریں گے۔ اچھا تم یہاں رکو !میں جاکر بینی ٹیلر کی چھوٹی گھوڑا گاڑی لے آتا ہوں۔‘‘اتنا کہہ کر وہ چلا گیا اور تھوڑی ہی دیرمیں گھوڑا گاڑی لیے آگیا۔ انھوں نے وہ تھیلے گاڑی میں رکھے۔ اوران کے اوپر نیچے پرانے کپڑے ڈال دیے اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ جب وہ ویلش مین کے گھر کے قریب پہنچے تو وہاں وہ تھوڑی دیر کے لیے سستانے کو رک گئے۔ پھر جب وہ وہاں سے روانہ ہونے لگے تو ویلش مین اپنے گھر سے نکل کر ان کی طرف چلا آیا۔’’ ہیلو۔ کون ہوتم لوگ؟ ‘‘اس نے پوچھا۔
’’ہک اور ٹام سائر۔’’
’’بہت خوب! آئو میرے ساتھ۔ سب لوگ تمھارا انتظار کر رہے ہیں میں تمھاری گاڑی اندر لے آتا ہوں۔ کیا لدا ہوا ہے اس میں؟‘‘
’’پرانی دھاتوں کے ٹکڑے۔ ‘‘
’’میرا بھی یہی خیال تھا ۔تم لڑکے اس طرح کی چیزیں بیچنے کے لیے تلاش کرتے پھرتے ہو۔ اچھا اب اندر چلو۔‘‘
مسز ڈگلس کے گھر
دونوں لڑکے یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر ویلش مین کو جلدی کس بات کی تھی۔
’’ اسے رہنے دو۔‘‘ ویلش مین بولا۔ ’’مسز ڈگلس کے گھر چل کر تمھیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘
جب وہ مسز ڈگلس کے گھر پہنچے تو انھوں نے وہاں خوب روشنیاں جلتے دیکھیں۔ بڑی تعداد میں لوگ وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ تھیچر  خاندان، ہارپر خاندان، راجرز خاندان، خالہ پولی ،سڈ، میری، گرجاکے پادری صاحب اور بہت سے لوگ وہاں آئے ہوئے تھے۔ وہ سب اپنے بہترین لباس پہنے ہوئے تھے۔ ٹام اور ہک ان کے درمیان پہنچ کر اپنے آپ کو بہت نادم اور پریشان سا محسوس کرنے لگے کیوں کہ ان کے کپڑے بہت میلے، کیچڑ اور مٹی میں لتھڑے ہوئے تھے۔ ان پر جگہ جگہ موم کے داغ دھبے بھی پڑے ہوئے تھے۔
’’میں ٹام کو لینے اس کے گھر گیا تھا لیکن یہ وہاں موجود نہیں تھا۔‘‘ ویلش مین نے کہا۔’’ پھر مجھے یہ دونوں لڑکے اپنے گھر کے باہر مل گئے اور میں انھیں اپنے ساتھ یہاں لے آیا۔‘‘
’’ یہ تم نے اچھا ہی کیا۔‘‘ مسز ڈگلس بولیں۔’’چلولڑ کو !میرے ساتھ آؤ۔‘‘
  وہ انھیں ساتھ لیے ایک کمرے میں آئیں۔’’ یہ دیکھو۔ یہ تم دونوں کے کپڑے ہیں۔ قمیص،موزے اور سب کچھ۔ تم نہا دھوکر انھیں پہن لو۔یہ ہک کے کپڑے ہیں۔ نہیںتمھیں میرا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھیں مسٹر جونز لائے ہیں اور ٹام یہ تمھارے کپڑے ہیں ان کا انتظام میں نے کیا ہے۔ امید ہے تم دونوں کو یہ کپڑے پورے آئیں گے۔ بس اب تم نہا دھو کر انھیں پہن لو اور یہاں آجاؤ۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئیں۔
ہک بولا۔’’ ٹام! اگر ہم کوئی رسی تلاش کرلیں تو پھر اس جگہ سے نکل سکتے ہیں۔ اس کمرے کی کھڑکی زمین سے اتنی او نچی نہیں ہے۔‘‘
’’ تم یہاں سے کیوں بھاگنا چاہتے ہو؟‘‘
’’اس لیے کہ میں ایسے اجتماعوں کا عادی نہیں ہوں ۔میں ہرگز ان لوگوں میں واپس نہ جاؤں گا۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو ہک۔ تم ایسا ہرگز نہیں کرو گے۔ تم نہا دھوکر یہ نئے کپڑے پہن لو اور میرے ساتھ نیچے چلو ۔میں تمھارا خیال رکھوں گا ۔‘‘
  اسی وقت سڈ کمرے میں داخل ہوگیا۔’’ٹام!‘‘ اس نے کہا۔’’خالہ ساری شام تمھارا انتظار کرتی رہی ہیں۔ میری نے تمھارے اتوار کے پہننے کے کپڑے تیار کر رکھے تھے۔ ہرکوئی تمھاری غیرحاضری سے پریشان تھا۔ کیا تمھارے کپڑوں پر کیچڑ اور موم لگی ہوئی ہے؟ ‘‘
’’تمھیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے سڈ۔تم اپنے کام سے کام رکھو لیکن یہ سب کیا ہے؟ یہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کیوں جمع ہیں؟‘‘
آج مسز ڈگلس نے ویلش مین اور اس کے بیٹوں کے اعزاز میں پارٹی دی ہے کیوں کہ انھوں نے انھیں ان خطرناک آدمیوں سے بچایا تھا۔ ہاں میرے پاس تمھیں سنانے کے لیے ایک خبر ہے۔اگر تم اسے سنا چاہو؟ ‘‘
’’کیسی خبر؟‘‘
’’بوڑھے مسٹر جونز کے پاس ایک حیرت ناک راز ہے جو وہ آج رات لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کے متعلق انھیں خالہ کے ساتھ بات کرتے سنا تھا لیکن وہ راز کیا ہے یہ میں نہیں جان سکا لیکن مسز ڈگلس اس کے بارے میں بہ خوبی جانتی ہیں۔ مسٹر جونز چا ہتے تھے کہ اس راز کو ہک کی موجودگی میں بتایا جائے۔ اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ ہک آج کی رات یہاں موجود ہو۔‘‘
’’ خیر دیکھیں گے کہ کیا بات ہے۔ اب تم جاؤ آرام سے اپنی جگہ پر جا کر بیٹھو۔ ہم ابھی تیار ہوکر نیچے آتے ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد مہمانوں کو کھانے کے کمرے میں لے جایا گیا۔ مسز جونز (ولیش مین) نے ایک تقریر کی جس میں انھوں نے اپنی اور اپنے بیٹوں کی عزت افزائی پر مسز ڈگلس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایک شخص اور ہے جوان سے بڑھ کر ان کی عزت افزائی کا مستحق ہے اور وہ شخص ہکل بیری فن ہے۔ اس نے ان خطرناک آدمیوں کا کارڈف کی پہاڑی تک تعاقب کیا تھا اوران کی باتیں سن کر انھیں اور ان کے بیٹوں کو ان کے عزائم سے آگاہ کیا تھا۔ مسز ڈگلس نے اس مہربانی اور احسان پر ہک کا بہت بہت شکریہ اداکیا اور کہا کہ ہک اب ان کے ساتھ رہا کرے گا۔ وہ اس کی اپنے بیٹے کی طرح پرورش کریں گی اور اسے اسکول میں پڑھائیں گی اور تعلیم مکمل ہونے پر وہ اسے کارو بار کرنے کے لیے ایک معقول رقم بھی دیں گی۔
اس پر ٹام ایک دم اپنی کرسی سے اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
’’ ہک کو آپ کے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں مسز ڈگلس۔ ‘‘اس نے کہا۔‘‘ وہ ایک بہت امیر کبیر لڑکا ہے ۔‘‘
سب لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ٹام کہتا گیا۔
’’ہاں آپ لوگوں کو شاید میری بات کا یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے ہک کے پاس بے شمار دولت موجود ہے۔ ذراٹھیریئے میں ابھی آکر آپ کو دکھاتا ہوں۔‘‘ اتنا کہ کر ٹام دوڑتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ سب مہمان حیران و پریشان ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ ٹام کیا کرنے والا تھا۔ وہ ہک کی طرف دیکھنے لگے مگر وہ بالکل خاموش بیٹھا تھا۔
پھر ٹام دو بھاری تھیلے لیے کمرے میں داخل ہوگیا۔ اس نے ان تھیلوں کو باری باری میز پرالٹ دیا۔ بڑے بڑے سونے کے سکے کھنکھناتے ہوئے میز پر ڈھیر ہو گئے۔
’’ اب بتائیے آپ کیا کہتے ہیں؟ یہ آدھی رقم ہک کی ہے اور آدھی میری ۔‘‘
  اتنی بڑی تعداد میں سونے کے سکے دیکھ کر وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پھر کسی نے ٹام سے کہا کہ وہ انھیں بتائے کہ اسے اور ہک کو سونے کے یہ سکے کہاں سے ملے۔ اس پر ٹام نے سب کو خزانے کی کہانی سنائی۔ ان سکوں کو جب گنا گیا تو وہ بارہ ہزار ڈالر کی رقم نکلی۔اس میں آدھی رقم ہک کے حصے میں آئی۔
٭٭٭
اس دولت نے ٹام اور ہک کی زندگیوں کو ہی بدل ڈالا۔ ان کی اس دولت کو فورا ًہی بینک میں جمع کروا دیا گیا۔ تاکہ وہ وہاں محفوظ رہے اور منافع کی صورت میں بڑھتی رہے۔ دونوں لڑکوں کو خرچ کے لیے ہر ہفتے ایک ایک ڈالر ملنے لگا۔ آدھا ڈالر انھیں ہر اتوار کو ملتا تھا۔ اس زمانے میں ایک ڈالر کی رقم بہت ہوتی تھی۔ اس رقم میں ایک لڑ کا اپنے لیے کپڑے سلوا سکتا تھا۔ اپنے لیے کھانے پینے کی چیزیں خرید سکتا تھا اور اسکول بھی جاسکتا تھا۔
لیکن ہک اپنی نئی زندگی سے کچھ زیادہ خوش نہ دکھائی دیا تھا۔ وہ اب مسزڈ گلس کے ہاں رہ رہا تھا۔ ان کے ملازم اسے ہردم صاف ستھرا رکھتے تھے۔ اس کے کپڑے بہت صاف ستھرے اور اجلے ہوتے تھے۔ اس کے بال سلیقے سے جمے ہوتے تھے اور ان میں کنگھی کی گئی ہوتی تھی۔ وہ اب صاف ستھری چادروں والے اجلے بستر پر سوتا تھا۔ اسے کھانا کھاتے وقت چھری کا نٹے استعمال کرنے پڑتے تھے۔ وہ نیپکن، کپ اور پلیٹ استعمال کرتا تھا۔ وہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھ رہا تھا اور گرجا بھی جا رہا تھا۔ اسے اپنا تلفظ بہتر بنانے کے لیے محنت کروائی جارہی تھی۔ تین ہفتے تک وہ یہ سب کچھ برداشت کرتا رہا۔ پھر ایک دن وہ گھر سے بھاگ کھڑا ہوا۔
اس کی گم شدگی نے مسز ڈگلس کو پریشان کر کے رکھ دیا۔ لوگوں نے ہک کو گاؤں میں ہر جگہ تلاش کیا۔ مگر وہ انھیں کہیں نہ مل سکا۔ انھوں نے اس کی تلاش میں دریا میں جال بھی ڈالے مگر انھیں کچھ نہ مل سکا۔ دو دن یوں ہی ہنگاموں اور پریشانیوں میں گزر گئے۔
تیسرے دن صبح ٹام نے ایک خالی عمارت کے عقب میں بڑے لکڑی کے ایک پیپے میں ہک کو سوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس نے وہی پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اس نے جھنجوڑ کراسے جگایا اور اسے پیپے سے باہر کھینچ نکالا اور اسے بتایا کہ اس کی گم شدگی سے لوگ کتنے پریشان ہیں۔ ٹام نے اس سے کہا کہ وہ گھر واپس چلا جائے۔
’’ اس کی بات نہ کر وٹام !کسی گھر کی فضا مجھے راس نہیں آسکتی۔ گھریلو زندگی گزارنا میرے بس کی بات نہیں ۔میں کبھی ایسی زندگی کا عادی نہیں رہا۔ مسز ڈگلس مجھ سے بہت اچھاسلوک کرتی ہیں۔ مجھ سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتی ہیں لیکن میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر صبح مجھے ایک مخصوص وقت پر اٹھاتی ہیں۔ مجھے نہانے اور صاف ستھرے کپڑے پہننے کوکہتی ہیں۔ وہ مجھے لکڑیوں کے گودام میں سونے نہیں دیتیں۔ ان عمدہ اورنفیس کپڑوں سے مجھے الجھن ہوتی ہے۔ انھیں پہنے ہوئے میں نہ زمین پر بیٹھ سکتا ہوں نہ لیٹ سکتا ہوں۔ نہ اچھل کو دسکتا ہوں۔ نہ گھاس پر لوٹیں لگا سکتا ہوں۔ مجھے گرجا بھی جانا پڑتا ہے اور اس کام سے مجھے سخت نفرت ہے۔ مسز ڈگلس نے ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے۔ وہ وقت پر کھانا کھلاتی ہیں۔ وقت پر سلاتی ہیں۔ وقت پر اٹھاتی ہیں ۔میں یہ زندگی ہرگزپسند نہیں کر تا ٹام!‘‘
’’لیکن ہر شخص اسی طرح ہی زندگی گزارتا ہے ہک۔‘‘ ٹام بولا۔
’’لیکن میں ’ ہرشخص‘نہیں۔ اس لیے میں ایسی زندگی پسند نہیں کر سکتا۔اگر امیری اسی کو کہتے ہیں تو مجھے اس سے شدید نفرت ہے۔ میں ہرگز واپس نہ جاؤں گا۔ تم جاکر مسز ڈگلس کو میری طرف سے یہ بتا دو۔‘‘
’’نہیں میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ہرگز نہیں۔ یہ اچھی بات نہیں۔ تم کچھ دن اور مسز ڈگلس کے گھر رہ کر تو دیکھو ۔تم اس زندگی کے عادی ہو جاؤ گے۔‘‘
’’ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ۔کبھی نہیں۔ کسی مکان میں رہنا میں نے کبھی پسند نہیں کیا ۔میں جنگلوں میں، دریا کے کناروں پر اور پیپوں میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ مجھے ایسی ہی آزادی اور بے فکری کی زندگی پسند ہے جس میں کسی قسم کی پابندی نہ ہو۔‘‘
  ٹام نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا۔ پھر بولا: ’’ہک۔ ہم نے غار میں بند وقیں بڑی پائی تھیں تمھیں یاد ہے؟ ہم نے کہا تھا کہ ہم کبھی وہاں جاکر ان بندوقوں کے ساتھ چور سپاہی کا کھیل کھیلیں گے۔ ہم اب بھی وہاں جاسکتے ہیں اور وہ کھیل کھیل سکتے ہیں۔ امیری نے ہم سے ہماری آزادی نہیں چھین لی ہے۔ ہم وہاں جاکر ڈاکوؤں والا کھیل کھیلیں گے۔ ہم اپنے ساتھ جوہار پر اور بین را جر کو بھی وہاں لے جائیں گے۔ کیوں کہ ڈاکوئوں کے گروہ ہوا کرتے ہیں لیکن ہک تم ہمارے گروہ میں اس وقت تک شامل نہیں ہو سکو گے جب تک تم عزت دارنہیں بن جاتے۔ ‘‘
’’کیا واقعی تم یہ کھیل کھیلنے غار میں جاؤ گے؟ لیکن میں بھلا کیوں کر تمھارے ساتھ نہیں کھیل سکتا؟ تم مجھے قزاق تو بننے دوگے۔ ہے نا؟‘‘
’’ہاں وہ ایک مختلف بات ہے۔ ڈاکو قزاق سے ہرصورت میں بہتر ہوا کرتا ہے۔ بہت سے ملکوں میں بڑے بڑے معزز لوگ ڈاکو ہواکرتے ہیں۔ ‘‘
’’تم ہمیشہ میرے بہت اچھے دوست رہے ہو ٹام! تم ایسا تو نہیں کر سکتے کہ مجھے اپنے گروہ میں شامل ہی نہ کرو۔ ‘‘
’’میں ایسا کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی کر سکوں گا لیکن لوگ کیا کہیں گئے؟ وہ کہیں گے۔ ہوں!ٹام سائر کا گروہ۔ اس نے اس میں بہت گھٹیا لوگ جمع کر رکھے ہیں، اور اس سے مراد تم ہو گے اور ظاہر ہے یہ بات نہ تم پسند کرو گے نہ میں ۔‘‘
ہک تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ پھربولا: ’’اچھا تو پھر میںمسزڈگلس کے گھر جاتا ہوں۔ پھر تم مجھے اپنے گروہ میں شامل کرلو گے نا ٹام؟‘‘
’’ہاں ضرور۔ آئوہم مسز ڈگلس کے پاس چلیں۔ میں ان سے کہوں گا کہ وہ تمھارے معاملے میں زیادہ سختی نہ برتا کریں۔‘‘
’’پھر تو بہت اچھا رہے گا۔ ان کا سلوک میرے ساتھ خاصا نرم ہوجائے گا۔ پھر میںرفتہ رفتہ اس نئی زندگی کو پسند بھی کرنے لگوں گا اور اس کا عادی بھی ہو جاؤں گا۔ ہاں پھر تم کب اپنا گر وہ بناؤ گے؟ ‘‘
’’ابھی اور اسی وقت۔ ہم لڑکوں کو اکٹھا کریں گے۔ پھر آج رات حلف برداری کی رسم ہوگی۔ ہم ایک دوسرے سے عہد کریں گے کہ ہم کسی بھی حالت میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور گروہ کے راز کبھی کسی کو نہ بتائیں گے چاہے ہمارے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کیوں نہ کر دیے جائیں۔ اور اگر ہم میں سے کسی کو بھی کسی نے ستایا تو ہم اسے اس کے خاندان سمیت قتل کر دیں گے۔‘‘
’’یہ بہت اچھا ہے ٹام۔ ‘‘
’’یہ رسم حلف برداری آج آدھی رات کو اس آسیب زدہ گھر میں انجام پائے گی۔ اس میں ہر ایک کو ایک تابوت کے سامنے کھڑے ہوکر حلف اٹھانا ہوگا اور عہدنامے پر اپنے خون سے دستخط کرنے ہوں گے۔‘‘
’’ ہاں یہ بالکل ٹھیک رہے گا۔ قزاق بننے سے تو ڈاکو بنناہر طرح سے بہتر ہے۔ اب میں کبھی مسز ڈگلس کے گھر سے نہیں بھاگوں گا بلکہ مرتے دم تک وہیں رہوں گا۔ اگر میں ایک اچھا ڈاکو بن گیا اور لوگوں میں مشہور ہوگیا تو مسز ڈگلس مجھ پر فخر کیاکریں گی کیوں کہ انھوں نے مجھے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر اپنے گھر میں پناہ دی ہے۔‘‘
٭٭٭
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top