تین خوب صورت تحفے
کہانی:The three lovely presents
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد فضیل فاروق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا جان پورے ہفتے کے لیے اپنے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جارہے تھے۔ جب بھی بابا جان کسی کام سے شہر سے باہر جایا کرتے، تینوں بچے بہت اداس ہوجاتے تھے، ابھی بھی ایسا ہی تھا۔
”بابا جان آپ کب واپس آئیں گے؟“
”آپ ہمیں بہت یاد آئیں گے“
”آپ پلیز جلدی آئیے گا، ہمیں آپ کے بغیر مزہ نہیں آتا۔“ جینٹ، ڈین اور روزی…تینوں نے رونی آواز میں باری باری اپنے بابا جان سے کہا۔
بابا جان نے سب کو گلے لگایا۔
”میں واپسی پر تم لوگوں کے پائیں باغ کے لیے پیارے پیارے تحفے لے کر آؤں گا۔“ انہوں نے کہا۔
”آپ کیا لائیں گے؟“ ڈین نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔
”میں لاؤں گا……ایک چھوٹی ہاتھ والی ریڑھی (ٹرالی)……ایک کھودنے والی کدال……اور ایک چھوٹا پانی دینے والا سبز رنگ کا کین۔“ بابا نے پیار سے کہا۔
”واہ! زبردست!“ سب نے یک زبان ہوکر نعرہ لگایا۔ کیوں کہ یہ ساری چیزیں ان سب کو بہت پسند تھیں۔ ڈین کو کافی دنوں سے ایک کدال کی بڑی شدید خواہش تھی۔جینٹ کو ہمیشہ سے ایک ریڑھی چاہیے تھی،اور روزی کو اپنے پھولوں کے لیے ایک پانی دینے والا کین چاہیے تھا۔ ان تینوں کے اپنے چھوٹے چھوٹے سے باغیچے تھے جن کی یہ بہت اچھی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔
”خدا حافظ بچو! اچھے بچے بن کر رہنا، اپنی امی کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، ان کی خوب خدمت کرنا، اور ذرا بھی تنگ مت کرنا۔“ یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھے، چابی گھما کر اسے اسٹارٹ کیا اور بچوں کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
”بابا جان کی غیر موجودگی میں مجھے بہت سے کام نمٹانے ہیں۔ گرمیاں آگئی ہیں،اور گرمی کی صفائیاں بھی سر پر کھڑی ہیں، سردی کے گرم کپڑے بھی سمیٹنے ہیں۔مجھے تم لوگوں کی کافی مدد چاہیے ہوگی ان سب کاموں میں۔“ امی نے بچوں سے کہا۔
”بابا جان واپس آکر جب گھر کو صاف ستھرا دیکھیں گے،اور ہر چیز چمکتی دمکتی اور سلیقے سے رکھی ہوئی دیکھیں گے، تو بہت خوش ہوں گے۔“
اب جب وہ کام میں مصروف ہوئیں تو انہیں پتا چلا کہ کپڑے دھونے والا سرف تو ختم ہی ہوگیا ہے۔ انہوں نے ڈین سے کہا: ”ڈین بیٹا!ذرا بھاگ کر دکان سے سرف پاؤڈر تو لادو۔“
امی کے کام کا سن کر وہ برے برے منہ بنانے لگا۔
”امی میں ابھی ناول پڑھ رہا ہوں، آپ مجھے ہمیشہ اس وقت کام کا کہتی ہیں جب میں کچھ پڑھ رہا ہوتا ہوں۔“
”جینٹ! کیا تم جاکرمیرے لیے سرف پاؤڈر لے آؤ گی؟“ امی نے تھوڑے سے اداس لہجے میں کہا۔
مگر جینٹ بھی اپنی کھلونے والی گڑیا کے کپڑے دھونے میں مصروف تھی، بولی:
”تھوڑی دیر بعد فارغ ہوکر نہ چلی جاؤں؟“
روزی کھلونوں والی الماری کی صفائی کرنے میں مصروف تھی۔ اس نے اوپر دیکھ کر کہا:
”لائیں امی! میں لے آتی ہوں ایک منٹ میں۔“
اس نے جلدی سے اپنا کوٹ پہنا اور بھاگ کر دوکان سے سرف لے آئی۔ امی بہت خوش ہوئیں۔
اگلے دن امی کو پائیں باغ میں سے کچھ گلاب کے پھول چاہیے تھے۔ آنٹی ایلن آج شام کو چائے پر آنے والی تھیں، اس لیے وہ گل دان میں خوبصورت گلاب کے پھول سجا کر میز پر رکھنا چاہتی تھیں۔
”جینٹ بیٹی! ذرا بھاگ کر میرے لیے گلاب تو توڑ لاؤ۔“
”ارے بھئی امی ……!“ جینٹ نے منہ بنایا۔
”اچھا ڈین! تم جا کر لے آؤ۔“ امی نے ڈین سے کہا۔
مگر ڈین بھی اپنے کاموں میں مصروف تھا۔ امی کی بات سن کر روزی جھٹ سے کھڑی ہوئی۔ ”کوئی بات نہیں امی! میں لے آتی ہوں۔“
وہ دوڑ کر باہر پائیں باغ سے بہت سارے رنگارنگ گلاب توڑ لائی۔ انہیں قرینے سے گل دان میں سجایا اور لاکر میز پر رکھ دیا۔ میز پر گل دان رکھتے ہوئے روزی غلطی سے جینٹ کے پیر پر چڑھ گئی۔
”اوفو، بے وقوف لڑکی! دیکھ کر نہیں چل سکتی…! آئندہ ایسی حرکت کی نا…… تو میں تمہیں اپنی ریڑھی استعمال کرنے نہیں دوں گی۔“
”معاف کرنا! ویسے تمہیں اپنا پیر اتنا باہر نکال کر نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔“
اس رات کسی کو بھی پالتوکتے کوجس کا نام ’سینڈی‘ تھا، گھر کے باہر اس کے ننھے لکڑی کے گھر میں بند کرنا یاد نہیں رہا۔ جب سب سونے کے لیے اپنی اپنی خواب گاہوں میں جانے لگے تو امی کو اچانک یاد آیا۔
”اوہ! ہم سینڈی کو تو بھول ہی گئے! کون جاکر اسے باہر چھوڑ کر آئے گا…؟“
ڈین کو اندھیرے سے ڈر لگتا تھا اس لیے وہ خاموش رہا۔ جینٹ کو لگا کہ باہر بارش ہورہی ہے اس لیے وہ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ کسی کو بھی باہر نہ جاتا دیکھ کر روزی اٹھی اور ٹارچ ڈھونڈنے لگی تاکہ امی کو باہر نہ جانا پڑے۔
”تم بہت خود غرض ہو!“ اس نے ٹارچ ڈھونڈتے ہوئے ڈین سے کہا۔”تم کبھی بھی کوئی کام نہیں کرتے۔“
”چپ رہو! اگر تم نے مجھ سے اس طرح بات کی تو میں تمہیں اپنی نئی کدال نہیں دوں گا سمجھی…؟“ ڈین تیز لہجے میں بولا۔
”مجھے چاہیے بھی نہیں، میرے پاس اپنا پانی دینے والا نیا کین ہوگا۔“
روزی کو ٹارچ ملی تو وہ باہر جاکر سینڈی کو اس کے گھر پہنچا آئی۔ باہر نہ بارش ہورہی تھی اور نہ ہی اندھیرا تھا۔ ہر چیز چاند کی دلکش روشنی میں چمک رہی تھی۔
اگلی صبح اچانک مانو بلی کو شرارت سوجھی۔ اس نے دیکھا کہ ناشتے کی میز کے پاس کوئی نہیں ہے تو وہ میز پر چڑھ کر پیالی میں نکلا ہوا دودھ چاٹنے لگی۔
دودھ پیتے ہوئے اس نے جب اچانک جینٹ کو کمرے سے باہر آتے دیکھا تو ڈر کے مارے اچھل پڑی، اور ایک جست لگاکر نیچے آرہی، مگر چھلانگ لگاتے ہوئے اس کا پنجہ ٹیبل پر بچھے کپڑے میں پھنس گیا۔ بس پھر کیا تھا……ناشتے کی ساری چیزیں زمین پر گر پڑیں۔ دودھ ایک چھپاکے سے گر کر نیچے فرش پر پھیل گیا، جیم کی بوتل بھی چھناکے سے کرچی کرچی ہوگئی۔ پلیٹیں اور پیالیاں بھی اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔
”اوہ! کیا کباڑا کردیا! امی…! امی…! بلی نے ناشتے کی ساری چیزیں گرادیں…!“
”اوہ جینٹ! میری اچھی بچی، پلیز سارا پسارا سمیٹ دو،میں تمہارے کمرے میں پردے لگانے میں مصروف ہوں۔“
امی کی بات سن کر جینٹ بدبدانے لگی:”ہونہہ! بلی کے کرتوتوں کی سزا میں کیوں بھگتوں…اچھی خاصی جارہی تھی میں اپنی سہیلی کے گھر۔“
ابھی وہ بکھرے ہوئے ناشتے کو غصے سے گھور ہی رہی تھی کہ اسے سامنے سے ڈین آتا دکھائی دیا۔اسے دیکھتے ہی وہ چمک کر بولی:
”دیکھو ڈین! یہ مانو نے کیا کردیا۔ امی نے اسے صاف کرنے کو کہا ہے اور میں ذرا کام سے باہر جارہی ہوں…کیا تم صاف کردو گے پلیز…؟“
اس سے پہلے کہ ڈین کچھ بولتا، جینٹ وہاں سے رفوچکر ہوچکی تھی۔ ڈین کھڑے ہوکر ناگواری سے بکھرے ہوئے کباڑ کو دیکھ کر بڑبڑایا:
”میں تو کبھی یہ سارا پسارا نہیں سمیٹنے والا…میں کیوں کروں…؟ امی فارغ ہوکر خود ہی آرام سے صاف کر لیں گی۔“ یہ کہہ کر وہ بھی باہر کی طرف چل دیا۔
چند ہی لمحے گزرے تھے کہ روزی وہاں سے گزری، اس کی نظر جب اس پسارے پر پڑی تو ٹھٹک گئی۔
”ارے یار! لگتا ہے مانو نے پھر سے گند مچادیا ہے، میں جلدی سے صاف کردیتی ہوں تاکہ امی پریشان نہ ہوں۔“ اس نے زیر لب کہا اور جلدی جلدی کچرا سمیٹنے لگی۔ پہلے اس نے فٹافٹ دودھ اور جیم کو پونچھا، شیشے کے ٹکڑے اٹھا کرکچرے کے ڈبے میں ڈالے اور ساری گندی پلیٹیں اور پیالیاں دھوکر ان کی جگہ رکھ دیں۔ تھوڑی ہی دیر میں سب کچھ صاف ستھرا ہوکر چمک رہا تھا۔
شام کو جب بچے میز پر بیٹھے اپنا ہوم ورک کرنے میں مصروف تھے، تب امی آئیں اور جینٹ سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا:
”شکریہ جینٹ! مجھے بہت سارا کام تھا …اب جاکر فارغ ہوئی ہوں، تم نے ساری صفائی کر کے میری بہت مدد کی۔“
امی کی بات سن کر جینٹ پکے ہوئے ٹماٹر کی طرح سرخ ہوگئی۔
”میں تو باہر جارہی تھی اس لیے میں ڈین کو صفائی کرنے کا کہہ گئی تھی۔“
اب امی نے تحسین آمیز نظروں سے جب ڈین کی طرف دیکھا تو اس نے بھی مارے شرم کے نظریں جھکا لیں۔
”نہیں امی! میں نے بھی نہیں کیا۔“
اسے بڑا افسوس ہوا کہ کاش میں نے صفائی کرلی ہوتی۔
”امی میں نے کی تھی صفائی۔“ روزی نے کتاب سے نظریں اٹھاتے ہوئے کہا۔”دو منٹ لگے مجھے صاف کرنے میں۔“
اس کی بات سن کر امی نے بے اختیار اس کے گال چوم لیے۔
”میری سب سے پیاری بیٹی! تم نے میری بڑی مدد کی ہے۔“
جینٹ اور ڈین ابھی تک شرم کے مارے سرخ ہورہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ امی انہیں بھی پیار کریں، مگر انہیں پتا تھا کہ یہ ان کے کام نہ کرنے کی سزا ہے۔
اگلا دن سب کے لیے بہت خوشیوں بھرا تھا۔ بابا جان سفر سے واپس آنے والے تھے۔ سب بچے صحن میں بابا کا بے صبری سے نتظار کررہے تھے۔اچانک انہیں گھر کے باہر گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی۔
جینٹ خوشی سے بولی:”بابا میری ریڑھی لائے ہوں گے۔“
”اور میری کدال۔“ ڈین بولا۔
”اور میں تو اپنا پانی دینے والا کین دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں۔“
ابو سلام کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور باری باری سب کو گلے لگایا۔
بچوں کو ان کے ہاتھوں میں لال رنگ کے کاغذ میں لپٹے اپنے اپنے تحفے صاف دکھائی دے رہے تھے۔
بابا نے امی سے کہا:”کیسا گزرا آپ کا ہفتہ؟“
”زبردست گزرا! میں نے گرمیوں کی ساری صفائیاں نمٹا لیں۔“
”اور کیا بچوں نے آپ کی مدد کی؟“
امی نے ایک نظر بچوں پر ڈالی پھر بولی:”اس ہفتے کے دوران میری بہت ساری مدد کی گئی۔پہلے دن مجھے سرف کی ضرورت تھی تو ان میں سے ایک بچہ بھاگ کر دکان سے لے آیا۔“
”بہت اچھے! اور وہ ایک کون تھا؟“
”روزی!“ امی نے کہا تو بابا نے اسے ایک پیار بھری تھپکی دی۔
”پھر مجھے باغ سے کچھ گلاب چاہیے تھے، تو پھر ان میں سے ایک باہر سے بہت خوب صورت پھولوں کا گچھا توڑ لایا بغیر چون و چرا کیے۔“
”اچھا! اور کون تھا وہ؟“ بابا نے معنی خیز نظروں سے ڈین اور جینٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”روزی!“ امی نے کہا تو اب کی بار بابا نے اسے محبت سے گلے لگا لیا۔
امی پھر سے گویا ہوئیں:”پھر ایک رات ہم سینڈی کو بند کرنا بھول گئے تو ایک بچہ جاکر اندھیرے میں اسے اس کے گھر پہنچا کر آیا۔“
”بہت خوب! اور وہ کون بہادر تھا…؟“
”روزی!“ امی نے کہا تو بابا نے بے اختیار اس کا گال چوم لیا۔
”پھر ایک دن مانو بلی نے ٹیبل پر چڑھ کر دودھ، جیم اور بہت ساری پلیٹیں گرادیں، اور فرش پر سارا ناشتہ بکھیر دیا تھا۔“ دوبارہ ایک بچے نے بغیر کہے ہی ساری صفائیاں کردیں، حالانکہ جس سے صفائی کرنے کو کہا گیا تھا،اس نے کام نہیں کیا۔“
”اور جس نے بغیر کہے ہی صفائی کردی وہ کون تھا…!؟“ بابا جان نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا۔ ”کیا وہ بھی روزی ہی تھی؟“
”ہاں بالکل۔“ امی بولیں۔ ”روزی نے میری بہت زیادہ مدد کی ہے، کتنی اچھی لڑکی ہے!“
”واقعی روزی تو سب بچوں سے بازی لے گئی۔“ بابا نے دوبارہ روزی کو زور سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
پھر بابا جان سارے تحفے کھولنے لگے۔
”مجھے ڈر ہے کہ ان سارے تحفوں کی حق دار صرف اور صرف روزی ہے۔ ”یہ لو روزی! تمہارے لیے ایک چھوٹی ریڑھی، ایک خوبصورت کدال اور پانی دینے والا سبز رنگ کا کین۔ یہ میرے بعد امی کی بہت ساری مدد کرنے کا انعام۔“
تینوں تحفے روزی کو ملتے دیکھ کر دونوں روتے ہوئے بولے:”بابا جان آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں سب کے لیے تحفے لاؤں گا۔“
”ہاں! میں نے بالکل وعدہ کیا تھا، پر میں نے یہ تو نہیں بتایا تھا کہ وہ تحفے کسے ملیں گے…؟ اب جب تم دونوں نے کوئی ایسا کام کیا ہی نہیں کہ تم لوگ انعام کے حق دار ٹھہرتے،اس لیے یہ سب روزی کے ہوئے۔“
روزی سارے تحفے پاکر بہت خوش تھی۔
مگر بچو! آپ کو پتا ہے کہ وہ بالکل بھی خودغرض بچی نہیں تھی۔ جب بھی ڈین اور جینٹ استعمال کرنے کے لیے اس سے کچھ مانگتے تو وہ خوشی خوشی انہیں دے دیتی۔
تو بچو! آپ کو کیا لگتا ہے کہ روزی کو ایسا کرنا چاہیے تھا……؟