تین اناڑی
عصمت چغتائی
۔۔۔۔۔
تینوں ’تاج اکبر‘ کی سیڑھیوں پر اکتائے ہوئے بیٹھے تھے۔ ککو اپنے نئے جوتے کو ہزار بار چمکانے کے بعد صرف وقت کاٹنے کے لئے منن بھیا کے پرانے موزے سے گھسے دے رہے تھے۔بیلو کوئی نہایت بے سری فلم کی ٹیون گنگنا رہے تھے، ساتھ ساتھ گھٹنے پر ٹھیکا بھی دیتے جا رہے تھے۔ٹیٹو سب سے نیچے کی سیڑھی پر بیٹھے اس مکھی پر جھلا رہے تھے جو پن پن کر کے بار بار ان کی چوکور ناک پر ٹپے لگا رہی تھی۔انہیں اپنی ناک کے وسیع ہونے کا ویسے ہی بہت غم تھا، اوپرسے یہ بد مذاق مکھی ان کی ناک پر فٹ بال کھیل کر جیسے اور طعنے دے رہی تھی۔ کئی بار انہوں نے اسے اپنی ناک کی پھنگی پر آنکھیں بھنگی کر کے دیکھا اور تاک کر گھونسا مارا۔ مگر وہ ہر دفعہ ایک لمحہ پہلے پھدک کرپھر واپس آجاتی۔ بیلو ان کی بے بسی پر مسکرا رہے تھے۔
”یار ٹیٹو یہ کمبخت مکھی یوں نہیں مانے گی اس کے لئے ایک چوہے دان کی قسم کاآلہ ایجاد ہونا چاہیے۔ مزے سے ناک پر رکھ کر سو جایا کرنا۔ جیسے ہی آئے گی پھٹاک سے مر جائے گی۔“
ٹیٹو ویسے ہی کھسیانے بیٹھے تھے۔زور سے کہنی اچھالی جو بیلو ی کی ٹھوڑی پر لگی اور ان کی زبان کچل گئی۔ ککو جو مزے سے بیٹھے اپنا جوتا چمکا رہے تھے، صورت حال کو امید افزا دیکھ کر فوراً ادھر متوجہ ہوگئے اور بیلو کو ایسا ٹولہ دیا کہ وہ پھسل کر ٹیٹو کی پیٹھ پر جم گئے۔ ایک دم جیسے سوئی ہوئی فضا نے انگڑائی لی اور وہیں سیڑھیوں پر تینوں گڈمڈ ہوگئے۔
”ارے ارے جے کیا ہوراہے جی۔“میوہ رام اندر سے غراتے ہوئے نکلے اور خود لڑائی کے بھنور میں الجھ کر اوندھے ہوگئے۔ ان کے ہاتھوں میں جامنوں کی ٹوکری تھی، وہ تینوں پر برس پڑی۔ ایک دم لڑائی ڈھیلی پڑ گئی اور دیکھتے دیکھتے جو جامنیں کچلنے سے بچی تھیں،لوٹ لی گئیں۔
میوہ رام بہت پھنپھنائے۔ گویہ جامنیں ان ہی کے لئے لائے تھے مگر اس طوفان بد تمیزی پر وہ بگڑ گئے اور پیر پٹکتے بی اماں سے شکایت کرنے چل دیے۔
جامنیں کھانے میں تینوں ایسے جٹے کہ یہ بھی یاد نہ رہا کہ جھگڑا کس بات پر ہوا تھا۔
اصل میں تینوں سخت بور ہورہے تھے۔ امتحان ختم ہوگئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کندھوں پر سے بھیگے ہوئے ریت کے بورے پھسل گئے۔دو دن سے تینوں خالی ڈبوں کی طرح ادھر ادھر لڑھک رہے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کریں۔ تین مہینے کی چھٹیاں کیسے کاٹی جائیں۔ اگر لڑائی جھگڑا کیا تو ظاہر ہے سخت کُندی ہوگی۔گرمی کے مارے سب کا موڈ ویسے ہی خراب ہو رہا ہے۔
”کوئی ترکیب سوچنا چاہیے بھئی“ بیلو نے تجویز پیش کی۔
”دو،تین،پانچ کھیلیں“ ٹیٹو نے رائے دی۔
”ہٹو یار،بور ہو گئے دو،تین،پانچ سے“ ککو بولے۔
”کوئی ڈراما کریں۔ہیں“
”بھئی ہم نہیں کرتے ڈراما“ ٹیٹو چنچنائے۔
”ٹیٹو صاحب آپ تو گدھے ہیں۔“ ککو نے فیصلہ کیا۔
”جناب اتنا شاندار ڈراما ہوگا کہ کیا بتائیں“
”جیسے کمی آپا وغیرہ دہلی فیسٹیول میں گئی تھیں، ہم بھی جا سکتے ہیں۔ ایک دم فرسٹ کلاس ڈراما تیار کریں۔ ٹکٹ لگا کر کریں“
”ایں ہیں بھئی ہم نہیں خریدیں گے ٹکٹ۔“ ٹیٹو بگڑے۔
”تم تو بے وقوف ہو۔بھئی تم تو اس میں خود پارٹ کرو گے۔ تمھیں ٹکٹ تھوڑی لینا پڑے گا۔“ بیلو نے کہا۔
”اور جناب کیا تعجب ہمارے ڈرامے کو انعام مل جائے۔“ ککو نے پلان پھیلایا۔”اور پھر ہم ڈراما کمپنی کھول لیں گے۔“
”ایں ہیں کچھ جو کھول پائیں اماں جو ماریں گی۔“ یہ بزرگ جو کچھ کرنے دیں!
”جی ہاں کیوں ماریں گی اماں۔ کیوں ککو پھر شروع کرو یار۔“
بیلو نے شوق سے آنکھیں چمکائیں۔
اب سوال یہ تھا کہ کون سا ڈراما کھیلا جائے۔ ہر کہانی میں کمبخت شہزادی ضرور ہوتی ہے۔ شہزادی کس کو بنایا جائے۔ عذرا،پروین کے نخرے کون سہے۔ ویسے ان کے پاس عید کے لال جوڑے موجود ہیں اور جھل مل کرتی اوڑھنیاں بھی ہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ الگ الگ پیدا ہو کر بھی دونوں جڑواں بنی رہتی ہیں۔ جہاں عذرا جائیں گی وہاں پروین بھی جائیں گی۔ جس سے عذرا لڑیں گی، پروین فوراً اس کا منہ کھسوٹ لیں گی۔ اگر عذرا کنویں میں کودیں تو شرطیہ پروین بھی کود پڑیں گی۔ ایک کو شہزادی بناؤ تو دوسری روٹھی جاتی ہے۔ خیر روٹھ جائے بلا سے! مگر وہ تو عین رنگ میں بھنگ کرنے پر تل جاتی ہے۔ بیچ ڈرامے میں سب کو چلا چلا کر بتا دیتی ہے۔ ”اہاہا۔ بالکل شہزادی نہیں بھنگن لگ رہی ہیں۔ شہزادی نہ شہزادی کی دم۔ بڑی اترا رہی ہیں۔ لوگو! یہ عذرا ہیں۔ عذرا چوٹی، میری گڑیا کا پجامہ چرایا تھاانھوں نے۔“
بس عذرا وہیں تاج واج پھینک کر پسر جاتیں یا پروین پر چیل کی طرح جھپٹ کر ان کی چوٹی نوچ ڈالتیں۔ پروین کو ئی دبنے والی تھیں؟ بس وہیں نیولے اور سانپ کی لڑائی ٹھن جاتی۔ منتظمین اور دوسرے کلاکار ان کی لپیٹ میں آکر گودڑ کی طرح الجھ جاتے۔ پھر نوکر اور آیائیں آجاتیں۔ ان کا بھی بیچ بچاؤ کرنے میں بھرتا بن جاتا۔ اس طرح جس ڈرامے میں عذرا اور پروین کو لیا جاتا وہ ہمیشہ ٹریجڈی پر ختم ہوتا تھا۔
لہٰذا ککو نے فیصلہ کیا کہ کوئی لڑکی ڈرامے کے آس پاس نہ پھٹکنے دی جائے۔ وہ خود ہی شہزادی بھی بنیں گے اور شہزادہ بھی اور اگر ضرورت پڑی تو کالا دیو بھی بن جائیں گے۔ مگر جب انہیں تجربے کے طور پر دوپٹہ اوڑھایا گیا تو بالکل چمگادڑ کی طرح ہونق لگنے لگے۔ ان کے بڑے بڑے کان دوپٹے میں سے کھونٹیوں کی طرح کھڑے ہوگئے۔ ان کی صورت دیکھتے ہی بیلو کو ہنسی کا دورہ پڑا تو ڈرامہ کمپنی قریب قریب ٹوٹ گئی۔ ککو برا مان گئے اور دوپٹہ پھینک کر غمگین بیٹھ گئے۔
بڑے سوچ بچار کے بعد طے ہوا کہ ڈرامے کے درمیان میں شہزادی انگور کھائے گی۔ لہٰذا تینوں شہزادی بننے پر مصر ہونے لگے۔ ظاہر ہے اگر تینوں شہزادیاں بنا دی جاتیں تو بادشاہ، کالا دیو اور بہادر سپاہی کون بنتا؟ ویسے چوبدار، مہا منتری اور فوج کی خدمات بھی انھیں تین اداکاروں کو باری باری انجام دینا تھیں۔ پہلے ککو چوبدار بن کر بادشاہ کے آنے کا اعلان کرتے تھے۔ پھر جلدی سے پردے کے پیچھے جا کر بیرے کیپ جس میں صوفی آلہ (خالہ کو آلہ کہتے ہیں) نے چاکولیٹ کی پنی کے پھول بنا کر لگا دیئے تھے، پہن کر بادشاہ سلامت بن کر آجاتے تھے۔ ان کے پیچھے ہنسی روکنے کے لئے ناک دبائے بیلو وزیر اعظم بنے آتے تھے۔ پھر مکالمے چلتے تھے اور بیلو ”جی حضور“ اور ”جی شہنشاہ“کے علاوہ سارے مکالمے بھول جاتے تھے۔ بار بار ککوکو دبی زبان سے ان کے مکالمے یاد دلانے پڑتے تھے۔ دو تین دفعہ ”ایں؟ ایں؟“ کرنے کے بعد انھیں مکالمہ یاد آتا۔
ادھر ٹیٹو شہزادی کی طرح خراماں خراماں چلنے کے بجائے بھد بھد کرتے آتے اور فوراً بولتے۔
”انگور حاضر کئے جائیں۔“ انھیں آتے ہی انگور کی فکر پڑ جاتی۔
”ارے بھئی ابھی نہیں۔“ ککو بگڑ جاتے۔
”واہ جناب کیوں نہیں؟“ ٹیٹو بگڑتے۔
”اونہہ بھئی پہلے شہزادی اسٹیج پر آتی ہے، شہنشاہ کو سات سلام کرتی ہے۔“ اسٹیج ڈائرکٹر بیلو جھلا اٹھے۔
کتنی دفعہ انھوں نے ٹیٹو کو سمجھایا کہ شہزادی کو بار بار بھول کر چھ یا آٹھ سلام نہیں کرنے چاہئیں۔ سلام کرنے کے بعد شہزادی مکالمہ بولتی ہے۔ پھر انگور مانگتی نہیں بلکہ کنیز لا کر دیتی ہے،تو پہلے انکار کرتی ہے پھر بڑی مشکل سے تھوڑے سے کھاتی ہے۔ جلدی جلدی سب نہیں بھکس لیتی۔
مگر ٹیٹو حیران تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ شہزادی اتنی گدھی کیسے ہو سکتی ہے کہ انگور کھانے سے جھوٹ موٹ کو بھی انکار کرے۔ ان کا خیال تھا۔ شہزادی اسٹیج پر آتے ہی انگوروں کی فرمائش کرے اور نہایت تیزی سے کھا جائے اور ڈراما ختم ہو جائے بس!
ریہرسل میں انگور تونہ ملے۔ لہٰذا چنوں اور بسکٹوں سے کام چلایا گیا۔ مگر شہزادی پھر ڈائیلاگ بھول گئی اور آتے ہی بولی۔
”انگور حاضر کئے جائیں۔“
”نہیں جناب ابھی سے انگور نہیں ملیں گے۔ ڈائیلاگ تو ختم ہوا نہیں۔“ ککو بھنائے۔
”اری واہ بول تو دیا تھا ڈائیلاگ۔“ ٹیٹو منمنائے۔
”ایں ہیں کب بولا تھا جھوٹے۔“ وزیر اعظم یعنی بیلو بولے۔
”اُنہہ بھئی ابھی تو بولا تھا۔ نہیں تو پھر بول دیں گے۔ انگور کھانے کے بعد۔“
”ایں ہیں گدھے بعد میں کیسے بولو گے۔ ڈائیلاگ بولو تب ملیں گے انگور۔“ ککو بادشاہ کی کرسی سے چلائے۔
اتنے یہ بحث چل رہی تھی، بیلو اکتا کر بسکٹ چکھنے لگے اور اس سے پہلے کہ وہ سارے بسکٹ چکھ ڈالتے،شہزادی اور شہنشاہ کی نظروزیر اعلیٰ کی اس حرکت نا زیبا پر پڑگئی اور ڈائیلاگ وغیرہ بھول کر دونوں بسکٹوں پر ٹوٹ پڑے اور دم بھر میں بسکٹ ختم ہوگئے۔
اس دن ریہرسل ملتوی کرنا پڑا کیوں کہ ٹیٹو کو ڈرامے کا صرف ایک حصہ دل چسپ معلوم ہوتا تھا۔یعنی بسکٹوں سے ریہرسل۔ ان کی تو ساری دلچسپی ختم ہوگئی۔
شہزادی کے کپڑوں کا سوال بھی بہت ٹیڑھا تھا۔شہنشاہ تو اپنی کار ڈرائے کی پتلون اور اچکن پہن کر اوپر سے بی اماں کا ایک گھنا ہوا دو شالہ اوڑھ لیتے تو نہایت شاندار بادشاہ بن جاتے۔ پنی کا پھول لگا ہوا تاج موجود ہی تھا۔ بیلو آلہ کی پرانی ساڑھی کا پگڑ باندھ کر وسیم بھائی کی مہندی کی ریشمی اچکن پہن لیتے تھے اور فرسٹ کلاس وزیر اعظم بن جاتے تھے۔مگر ٹیٹو کے ڈریس کی مصیبت تھی۔ عذرا نے اپنا نازک اطلس کاپاجامہ دینے سے قطعی انکار کر دیا۔ ٹیٹو کی موسل جیسی ٹانگوں کے خیال سے ہی پھریریاں آتی تھیں۔ خوبصورت گوٹے کا غرارہ دو منٹ میں تار تار ہو جائے گا۔ اگر گھوڑے کو غرارہ پہنا دیا جائے تو اس بد نصیب غرارے کی زندگی کتنے منٹ کی رہ جائے گی! لہٰذا پروین کی ایک نہایت سڑیل سی شلوار ملی۔ جو ٹیٹو کے گھٹنوں سے بھی کچھ اونچی تھی اور ان کے کھردرے اونٹ جیسے گھٹنے اور بھی بھدے لگنے لگے۔ کمی آپا کی ایک جھلسی ہوئی پرانی شلوار اتنی لمبی تھی کہ اسے پہن کر بالکل پاموز مرغی لگنے لگے۔ وہ ان کے پیروں سے ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت بڑی تھی۔ خیر اس سے ایک فائدہ ہوا کہ ان کے بھدے بوٹ اتارنے کی ضرورت نہ تھی۔ آسانی سے شلوار سے ڈھک گئے۔ ریہرسل والا جالی کا دوپٹہ کمی آپا نے دھلنے دے دیا تھا۔ زبیدہ آپا کا ایک دو بالشت کا نائیلاں کا دوپٹہ خوش قسمتی سے ہاتھ آگیا۔ بی اماں کی پنڈلیوں میں جب بائنٹے پڑتے تھے تو وہ کس کر اس دوپٹے سے باندھ لیا کرتی تھیں۔ آئیڈیکس کی تھوڑی تھوڑی بدبو آتی تھی تو ایسا کیا اندھیرا تھا۔شلوار میں سے بھی تو سڑے ہوئے چاولوں کا بھبکا نکل رہا تھا۔ کرتے کا سوال بڑی آسانی سے حل ہوگیا۔ کلو بوا کا گلابی آنکھ کے نشے کا کرتا جس میں نیلی جھالریں لگی تھیں، مل گیا۔ یہ کرتا رائے عامہ سے مجبور ہوکر انہوں نے بقچیا میں سینت کر رکھ دیا تھا۔ کیونکہ جب وہ یہ کرتا پہن کر اپنی کوٹھری سے طلوع ہوتی تھیں تو بی اماں اور خالہ اماں کو ہول اٹھنے لگتا تھا۔ بیچاری کلو بوا کو یہ کرتا ازحد لاڈلا تھا۔ ان کے تیسرے میاں نے بڑے چاؤ سے دلی سے ان کے لئے بنوا کر بھیجا تھا۔ اسے پہن کر اپنے خیال میں وہ قطعی دلہن لگنے لگتی تھیں۔
اب ٹکٹ بیچے جانے لگے۔سب سے پہلے صوفی آلہ کے پاس ڈیپوٹیشن گیا۔ خوب رعب گانٹھا گیا کہ از حد شاندار ڈراما ہونے والا ہے۔ سچ مچ کے انگور ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے ہاتھ ٹکٹ بھی بیچا گیا اور ڈونیشن بھی لیا گیا۔ اس کے بعد وسیم بھائی کو گھیرا گیا۔ پہلے تو وہ بہت بدکے۔ انہیں تو قاعدے سے پاس ملنا چاہئیں۔ مگر سکندر بھابھی نے چار ٹکٹ چار چار آنے والے خرید لئے۔
اور بڑے زور شور سے تیاریاں ہونے لگیں۔ چبوترے پر تخت بچھا کر اسٹیج بنایا گیا۔ گھر بھر کی جتنی کرسیاں اور مونڈھے تھے، جمع کر کے سامنے سجائے گئے،ان کے پیچھے پلنگ بچھا دئے گئے اور سرشام ہی سے پبلک جمع ہونے لگی۔ عذرا اور پروین اب پچھتا رہی تھیں کہ کیوں ڈرامے میں حصہ نہیں لیا۔ مزے سے پیسے ملتے اور انگور کھانے کو ملتے سو الگ۔ مگر اب پچھتانے سے کیا ہوتا تھا۔لیکن جب پیروں سے ڈیڑھ بالشت آگے نکلی ہوئی شلوار اور کلو بوا کا کرتا پہن کر ٹیٹو شہزادی کے روپ میں اپنے ٹیڑھے میڑھے دانتوں کو نکوسے ہوئے جلوہ افروز ہوئے تو صوفی آلہ اور کمی آپا اتنا ہنسیں کہ کرسیوں پر سے نیچے لڑھک گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ٹیٹو صاحب کلو بوا کے بقچیا سے سیدھے نکلے چلے آرہے ہیں! دوپٹہ اوڑھنے سے ان کی ناک اور بھی چوکھونٹی لگنے لگی۔ صوفی آلہ نے بڑی مشکل سے ہنسی کا دورہ روکا اور فیصلہ کیا کہ ”ہمارے ٹکٹ کے دام واپس کرو۔ ہم نہیں دیکھتے اتنا سڑیل ڈراما۔ ٹیٹو قطعی شہزادی نہیں لگ رہے ہیں۔ موٹی قصائینی لگ رہے ہیں۔“
موٹی قصائینی سے ٹیٹو کے پتنگے لگتے تھے۔ جب آتی تھی کم بخت انہیں چھیڑتی تھی۔
”اے ٹیٹو میاں ہم سے بیاہ کرو گے۔“
اور ٹیٹو کو پھر سارا گھر اتنا چھیڑتا کہ وہ پکا ارادہ کر لیتے کہ ایک دن موٹی قصائینی کو قتل کر کے خود ہنسی خوشی سولی پر چڑھ جائیں گے۔ پھر کوئی نہ چھیڑے گا۔
مارے غصے کے ٹیٹو میاں بکھر گئے۔ وہیں کھڑے کھڑے سب کپڑے نوچ کے پھینک دیے اور انتقاماً انگور کی پلیٹ پر ٹوٹ پڑے۔ ککو اور بیلو کے میک اپ کے ماہرمیوہ رام بوٹ پالش سے موچھیں بنا رہے تھے۔ انہوں نے جو انگوروں پر غنیم کو حملہ کرتے دیکھا تو پگڑ اور تاج پھینک پھانک خود بھی دوڑ پڑے اور انگوروں کی حفاظت میں ٹیٹو سے زیادہ تیزی سے انگور کھا ڈالے۔
حاضرین جو پہلے ہی اس ڈرامے سے ناخوش تھے، اس ٹریجڈی پر بالکل ہی بکھر گئے اور ٹکٹوں کے پیسوں کی واپسی کے لئے غل مچانے لگے۔ چونکہ زیادہ تر ٹکٹ ادھار بکے تھے اور باقی پیسوں کے انگور اور ریہرسل کے لئے بسکٹ اور چنے آچکے تھے لہٰذا پیسے واپس کرنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ ڈراما بری طرح فلاپ ہوگیا۔ تو تو میں میں سے بڑھ کر بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ بیلو نے ککو کو دھکا دیا۔ ککو سمجھے ٹیٹو نے دھکا دیا ہے۔ انہوں نے ان کے ٹیپ جڑ دی۔ ٹیٹو نے گھما کر ایک مکا ککو کی ناک پر ٹسکا دیا۔ بس پھر کیا تھا! تین جوڑی ہاتھ اور پیر ایسے خلط ملط ہوگئے کہ یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ کون سا ہاتھ کس کا ہے۔ صوفی آلہ اور میوہ رام نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش میں سارے خالی وار اپنی ناکوں پر وصول کئے۔
اتنے میں گرجتی برستی آلہ میدان کار زار میں کود پڑیں اور بغیر پوچھے گچھے لڑتے بھنبوڑتے انبار کو سنٹی لے کر دھنک کر رکھ دیا۔ آلہ کی عادت ہے یونہی اچانک میدان میں پھاند پڑتی ہیں، یہ نہیں پوچھتیں کس کا قصور تھا۔ بس ایک سرے سے سب کو پیٹ دیتی ہیں۔ قصور وار اور بے قصور سب ہی پٹ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں مجرم کو بھی سزا مل ہی جاتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ بے قصور بھی اتنا ہی یا کچھ زیادہ پٹ جاتا ہے۔ تو بھئی گیہوں کے ساتھ گھن بھی تو پس ہی جاتا ہے۔
”آگ لگے اللہ ماری ڈراما کمپنی کو۔“ بی اماں نے الٹی میٹم دے دیا کہ اگر پھر کسی فرد نے ڈراما اسٹیج کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنا سر پھوڑ کر گھر سے نکل جائیں گی۔ تینوں اداس پھر تاج اکبر کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ ساری اسکیم پر ٹیٹو صاحب نے پانی پھیر دیا۔
۔۔۔۔۔
ڈراما کمپنی کی دل شکن ناکامی کے بعد کئی دن تینوں بجھے بجھے سے رہے۔ مُنن بھیا اور کمی آپا کو اگر صوفی آلہ نہ ڈانٹتیں تو وہ انہیں خودکشی کر لینے پر مجبور کر دیتے۔ چھٹیوں پر نہ جانے کس منحوس کی پر چھائیں پڑ گئی تھی کہ ہر اسکیم پٹ ہوئی جا رہی تھی۔ عجب مصیبت تھی۔ بیڈ منٹن کھیلو تو گیند سیدھی تاک کر پانی کے مٹکے میں یا بی اماں کے کتھے کی کلہیامیں گرتی۔ کرکٹ کھیلو تو ہٹ سیدھا کھڑکی یا دروازے کے شیشے پر جا بیٹھتا۔ آنکھ مچولی کھیلو تو چھپو کہاں؟ کمی آپا فوراً اپنے پلنگ کے نیچے سے مچھر دانی کے بانس مار مار کر نکال دیتیں۔ بی اماں کے کمرے میں جاؤ تو انہیں فوراً ہول چڑھنے لگتا۔ مجیب بھائی کے کمرے میں جانا سراسر موت کو دعوت دینا ہے۔ فوراً پکڑ کر الجبرا اور جیومیٹری رٹانے لگیں گے۔ وسیم بھائی کے کمرے میں چھپو تو وہ فوراً چلا چلا کر اعلان کر دیں گے۔
”بھئی ہمارے کمرے میں کوئی نہیں چھپا ہے۔یہاں کوئی ڈھونڈنے نہ آئے۔“ امیر خاں کے باورچی خانے میں پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ رہ گئی کلو بوا کی کوٹھری تو وہاں چھپنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اول تو گندھک، گلقند اور مختلف مرہموں کا بھبکا ناک میں چڑھ کر چھکے چھڑا دے گا، دوسرے مچھروں کے قبیلے کے قبیلے حملہ کر کے چمڑی ادھیڑ دیں گے۔ میوہ رام کے کمرے میں جانا بھی درد سر مول لینا ہے۔ یہ بد مذاق شخص ہر وقت شریف آدمیوں کی میلی ناکوں پر نظر رکھتا ہے۔ ویسے بھی چاہے کتنی صاف ہو ناک، احتیاطاً ناک صفا کرنے کی رائے دے دے گا۔ کہو بھئی کسی کی ناک اجلی ہے کہ میلی آپ کو کیا تکلیف ہوتی ہے۔کسی کی گردن پر میل کی پپڑیاں ہیں تو آپ کی بلا سے۔ لوگ کہتے ہیں میوہ رام بہت اچھا نوکر ہے۔ ہنہ نوکر! ان تینوں کی جان کو تووہ دوزخ کے داروغہ کی طرح لگ چکا ہے۔ پیدا ہوتے ہی رعب جمانا شروع کر دیا اور برابر ہر وقت اینٹتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر نہایت غیر ملازمانہ حرکتیں، گستاخی سے سب کے سامنے ڈانٹنا اور موقع بے موقع چپتیا دینا۔ نہ جانے اماں نے اس ظالم کو اتنی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے۔آخر نوکر پر آقاؤں کا کچھ رعب تو ہونا چاہیے۔ یہ کیا کہ یہاں الٹی آقاؤں کی اس جلاد نوکر سے کنی دبتی ہے۔ اور یہ حق تلفی صرف اس لئے ہوتی ہے کہ یہ تینوں مختار نہیں۔ جو لوگ پیسا کماتے ہیں وہ خود مختار ہوتے ہیں۔وہ چاہے رات بھر فلاش کھیلیں، شکار کے پروگرام بنائیں۔ اونچے اونچے قہقہے لگائیں۔ میوہ رام دوڑ دوڑ کر چائے اور شربت سے ان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور یہاں جب تیسری سے چوتھی پلیٹ مانگو تو ٹکا سا جواب مل جاتا ہے۔”بس بس کیا ہیضہ کرو گے کم بختوں۔“ دنیا جانتی ہے کہ ہیضے کے جراثیم آئیس کریم میں نہیں بلکہ بھنڈی،لوکی اور ٹنڈوں میں ہوتے ہیں۔ مگر یہ منحوس ترکاریاں زبردستی لگائی جاتی ہیں کہ ان میں نہ جانے کون کون سے وٹامن ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان بیہودہ ترکاریوں کے بجائے ہر شریف وٹامن کو صرف ٹافیوں، گلاب جامنوں اور رس گلوں میں ہی ہونا چاہئے تھا۔
”اپنی روزی کسی طرح خود کمائی جائے۔“ ککو نے سنا تھا کہ خالہ اماں وسیم بھائی کو اس لئے کھریدتی رہتی ہیں کہ وہ اپنی روزی خود نہیں کماتے۔ جو کما کر لاتے ہیں ان کے بڑے لاڈ کئے جاتے ہیں۔
”مگر کیسے؟“ بیلو سے کوئی دو، تین، پانچ کھلوا لے مگر ڈلیا ڈھونے کے کام سے اس کی جان نکلتی ہے۔ بھدیسلہ ہے نا!
”جنا ب دولت کمانے کے لکھوکھا طریقے ہیں۔“ ککو نے پیارے ماموں کا جملہ دہرایا۔”اگر کہیں سے تھوڑا سا گڑ مل جائے تو۔“
”گڑ؟“ بیلو کی آنکھوں میں رونق آگئی۔ دادی اماں کو گڑ سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔”بس زیادہ گڑ مت کھاؤ پیٹ خراب ہو جائے گا۔“
”کہو بھلا پیٹ نہ ہو گیا روئی کا پھویا ہو گیا کہ پاؤ ڈیڑھ پاؤ گڑ سے بگڑ بیٹھے گا۔“
”گڑ چنے کی ٹافی بنائی جائے۔“ ککو نے تشریح کی۔
”ٹافی بنے گی تو چکھنا تو پڑے ہی گی۔“ ٹیٹو نے تخیل میں ٹافی چکھ کر چٹخارہ لیا۔”پھر؟“
”پھر یہ کہ ٹافی کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں باندھ کر بیچی جائیں۔ اس سے جو منافع ہو تو اور گڑ خریدا جائے، اور ٹافی بنائی جائے۔“ یہ ککو پکا بنیا ہے۔ کسی دن ٹاٹا اور برلا کا دیوالہ نکال کر چھوڑے گا۔کیا کیا تگڑمیں لڑاتا ہے۔
”پھر جناب ٹافی کی دکان کھولی جائے، ہیں نا۔“ ٹیٹو چہکے۔
”جی ہاں، دکان سے کیا ہوگا پورا کارخانہ کھولا جائے۔ پھر سارے ہندوستان میں ٹافی بیچی جائے۔“
مگر سوال یہ تھا کہ گڑ کہاں سے ملے۔ بی اماں تالے میں رکھتی ہیں شکر اور گڑ۔
”بس ایک ترکیب کی جائے۔“ ککو عرف لال بجھکڑ بولے۔
”کیا؟“
”ہر گھر میں جا کر تھوڑ ا گڑ مانگا جائے۔“
”اماں یار جوتے کھلواؤگے۔ ہماری تو اماں اتنا ماریں گی کہ پلٹس بنا دیں گی۔“
”جی ہاں کیوں ماریں گی۔ یوں تھوڑی مانگیں گے کہ کسی کو پتا چلے۔ ٹیٹو جائیں بیگم اماں کے پاس اور کہیں تھوڑا سا گڑ دیدیجئے، بی اماں نے مانگا ہے۔ اور بیلو تم جاؤ بی اماں کے پاس کہ بیگم اماں نے گڑ مانگا ہے۔ اس طرح اماں اور آلہ سے دادی اماں اور خالہ اماں سے الگ الگ جا کر گڑ مانگا جائے۔“
”قیصر خالہ سے بھی۔“ ٹیٹو نے آنکھیں چمکائیں۔
”ہاں اور افسر آپا اور زرینہ آپا سے بھی۔“
”زرینہ آپا بڑی کائیاں ہیں، جاتے ہی کہیں گی، ”میرا بھیا کیسا پہلے میری چپلی میں کیل ٹھونک دے۔“ پھر کہیں گی۔”ذرا میری کتابوں پر کاغذ تو چڑھا ؤ۔“جب جاؤ ہزاروں کام بتا دیتی ہیں اور گڑ دینے کے نام پر بولیں گی۔”نہیں بھئی ہم گڑ کے پیپے میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے،ہمیں چپچپا لگتا ہے۔“
اتنی مخالفت کے خوف کے باوجود اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ گڑ مانگا جائے۔ بیلو نے نہایت مسمسی سی صورت بنائی، چلے خالہ اماں کے پاس۔
”خالہ اماں! بی اماں نے کہا ہے۔ ذرا سا گڑ دیدیجئے۔ گڑ کے ٹکڑے پکیں گے۔“
”گڑ؟……اوئی کیسا گڑ۔“ خالہ اماں چکرائیں۔
”جی گڑ…… گڑ۔“ بیلو اس سے زیادہ گڑ کی تشریح نہ کر سکے۔
”اے لڑکے دیوانہ ہو اہے، کچھ اور مانگا ہوگا۔ پرسوں ہی تو میں نے سوا چار سیر گڑ اکبر سلطان کو بھیجا ہے، ختم بھی ہو گیا۔“
”جی بالکل ختم ہوگیا۔“ بیلو بڑی بھولی آواز میں بولے۔
”اے بوا سکندر زمانی ذرا سا گڑ دے دو……“ گڑ تو مل گیا مگر خالہ اماں نہایت جز بز ہو گئیں۔ ”اے سرتاج زمانی سنتی ہو، اکبر سلطان کے ہاں سوا چار سیر گڑ چٹکیوں میں اڑ گیا۔“
”نوکروں نے چرایا ہوگا۔“ سکندر زمانی بولیں۔
ادھر جب ٹیٹو بی اماں سے خالہ اماں کے لئے گڑ مانگنے گئے تو وہ از حد چراغ پا ہوئیں۔“ لو منّی آپا بھی حد کرتی ہیں۔ سنا ہے مار ہرے سے وسیم بیس سیر گڑ لائے ہیں۔ ایسا ہی تھا تو بانٹنے کاہے کو بیٹھ گئی تھیں۔ کلو بوا پھینک آؤ اللہ مارا گڑ، ہمیں نہیں چاہئے۔“ بی اماں بگڑ گئیں۔
”بی اماں! وہ کہتی ہیں ہمارے گڑ میں چو ہیا نے بچے دیدیے ہیں اس لئے تھوڑا سا گڑ دیدیجئے۔“ ٹیٹو نے بات سنبھالی۔
”ہے ہے اللہ کی پھٹکار چوہیا نا مراد کی صورت پہ۔ اے بی اختر سنتی ہو…… منی آپا کے گڑ میں چوہیا نے بچے دے دیے۔ میرا سارا مشروع کا گٹھنا کھا گئی حرامزادی۔“
”کون بی اماں۔“ بی اختر ساڑھی پر پتی کا کام کرنے میں بالکل بے ہوش ہو جاتی ہیں۔
”اے وہی قطامہ چوہیا۔ میں کہتی ہوں یہ سکھٹی کا بچہ کس کرم کا ہے۔ ڈھائی سیر اناج کھانے کو چوکس، چوہیا مارتے دم نکلتا ہے۔ اے ہے یہ مونڈی کاٹی بلی کس مرض کی دوا ہے۔ کیا مجال جو ایک بھی چوہیا مار جائے۔“
”نہیں بی اماں ہماری مالو چوہے نہیں مارے گی۔ ہمیں گندے لگتے ہیں کمبخت چوہے۔“کمی آپا بولیں۔
”ہاں ہاں تمہاری بلی تو نواب زادی ہے۔ چوہے نہیں مارے گی۔ تخت پر بیٹھی گلاب کے پھول سونگھتی رہے گی۔ نفرت ہے مجھے مٹلو سے۔“ بی اماں جل گئیں۔
اب ٹیٹو کھڑے کسمسا رہے ہیں۔ بات گڑ سے چوہوں پہ کودی اور چوہوں سے کمی آپا کی نخریلی بلی پر اور وہاں سے بی اماں کی پٹاری میں لڑھک گئی۔ کاش چوہیا کے بجائے کوئی اور ہی بہانہ کیا ہوتا تو یہ ذرا سی بات بتنگڑ نہ بن جاتی۔
گڑ مانگنے کی اسکیم میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی۔ بھولے سے ککو بھی دوبارہ بی اماں سے گڑ مانگنے آگئے۔ وہ پہلے ہی گڑ کے ذکر پر چڑھی بیٹھی تھیں، اسی وقت امیر خاں سے کہا، لے جا کر منی آپا کے ہاں پٹخ آؤ گڑ۔ ہمیں نہیں چاہئے۔ منگائے جا رہی ہیں تو بھیجا کیوں تھا۔
آلہ سے جب گڑ مانگا تو وہ ایک دم بھنا اٹھیں۔
”کہہ دو آپا سے خالہ اماں سے منگا لیں۔ ہم نہیں دیتے۔“
گڑ کی مہم کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ کہیں سے تو اتنا مختصر گڑ ملا کہ دوسرے ٹھکانے پر پہنچتے پہنچتے ٹیٹو میاں نے راستے ہی میں چکھ ڈالا۔ککو جن جن اڈوں پر پہنچے کسی نے گڑ کے معاملے میں جوش و خروش نہیں دکھایا۔ بہت ہی تھوڑا سا جمع ہو پایا۔بیلو نے جس جیب میں گڑ رکھا،اس میں اتفاق سے پہلے سے کباڑ خانہ موجود تھا۔ کچھ زنگہیائی ہوئی ٹیڑھی کیلیں۔ خالی کارتوس، مختلف رنگ اور وزن کے پتھر، چند کینچوے اور نیم مردہ مینڈک کے بچے جو انہوں نے مچھلی کے شکار کے خیال سے جمع کئے تھے۔ کچھ خوش رنگ پر۔ یہ سب چیزیں گڑ کے شیرے میں لتھڑ کر اتنی بھیانک ہو گئی تھیں کہ گڑ کی ٹافی کے خیال ہی سے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
خیر جتنا بھی گڑ جمع ہو سکا غنیمت سمجھا گیا۔ اب یہ فکر ہوئی کہ امیر خاں باورچی خانہ چھوڑ کر ذرا کلو بوا سے باتیں مٹھارنے جائیں تو کچھ ٹافی وغیرہ پکائی جائے۔ چنانچہ جونہی امیر خاں ہانڈی اتار کر ذرا کلو بوا سے ان کے چوتھے شوہر کی شراب پی کر ٹھکائی کرنے کی عادت بد پر تبصرہ کرنے پہنچے، تینوں نے باورچی خانے پر حملہ بول دیا۔نہ جانے بہت سی پتیلیوں میں کیا کیا کچھ کھد بدا رہا تھا۔ یونہی تجربے کے طور پر دو چار ہانڈیاں چکھ ڈالیں۔ ایک اندھیری سی گہری پتیلی میں نہ جانے کیا ابل رہا تھا۔ بیلو صاحب کی عینک تو بی اماں کی پٹاری میں ٹانگیں اونچی کئے لیٹی تھی۔ ٹھیک سے سوجھا بھی نہیں۔ جو نہی ایک چمچہ بھر کر سڑپّا مارا، کھانستے اوکتے نالی کی طرف دوڑے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا اس ناہنجار پتیلی میں میلی صافیاں اور جھاڑن ابالے جا رہے تھے۔خیر کلی کر کے ذرا سی گڑ کی ڈلی تالو میں چپکائی، تب کہیں جا کر جھاڑنوں کا ذائقہ حلق سے نیچے کھسکا۔
کوئی ٹھیک پتیلی خالی نہ تھی۔ اس لئے ایک بڑے سے پتیلے میں ہی پکانے کا ارادہ کیا۔پیندے میں ذراسا گڑ پڑتے ہی کھد بد کرنے لگا۔ ادھر تینوں چنے چھیلنے اور ایک دوسرے کو چنے پھانکنے سے روکنے میں ایسے غرق ہوئے کہ بی اماں کی ناک میں جب گڑ جلنے کی بو پہنچی تو انہوں نے ہانک لگائی۔
”اے ہے امیرا کے بچے! یہ بورچی خانے میں کیا تیرا کلیجا جل رہا ہے اور تو بیٹھا کلو بوا سے چونچلے بگھار رہا ہے۔“
ٹافی سازوں کے آئے حواس گم ہو گئے۔ بیلو نے گرم پتیلا چھوا اور بلبلا کر بھاگے۔ ککو ہڑ بڑا کر اپنے کرتے کے دامن سے پتیلا پکڑ کر جو اٹھانے جھکے تو جیب میں بھری ہوئی سیپیاں،گھونگے، بینچ کش، ربڑ،پنسل،اٹیچی کی کنجی وغیرہ وغیرہ گڑ میں گر گئیں۔
بڑی مشکل سے امیر خاں نے آکر پتیلا اتارا۔ زمین پر رکھتے ہی جلا ہوا گڑ مع کباڑ کے پیندے میں سیمنٹ کی طرح جم گیا۔ گڑ کے جلنے سے پرانے پتیلے کا پیندا کچھ ایسا ناکارہ ہوگیا کہ اس پر قلعی نہیں ٹکتی اور جب بی اماں نانا ابا کے فاتحے کا پلاؤ بگھارنے بیٹھتی ہیں، ٹافی سازوں کی نئے سرے سے آفت آجاتی ہے۔
تینوں کی گڑ مانگنے کی اسکیم بھی پوشیدہ نہ رہ سکی اور ہفتوں کورٹ مارشل ہوتا رہا۔ بے چارے خاموش سر جھکا کر ملامتیں سنتے ہیں اور غم کھا کر رہ جاتے ہیں۔اگر کہیں ٹافی کی اسکیم خاطر خواہ بیٹھ جاتی، گڑ کافی ملتا، پتیلا اتنا بڑا نہ ہوتا تو مزا آجاتا۔منافع در منافع ہوتا۔ بینک بیلنس بڑھتا اور آج یوں پھٹکاریں سننے کے بجائے ایک نہایت شاندار بنگلے میں تینوں ٹھاٹ سے رہتے۔ پھر اماں یوں جھانوے سے گٹے کیوں چھیلتیں، نہ آلہ سود در سود کے سوال رٹاتیں، نہ مجیب بھائی مولیاں بواتے اور نہ میوہ رام ہر وقت جیبوں کی تلاشی لینے کی ہمت کرتے۔ اف کتنے عیش ہوتے!
۔۔۔۔۔
اب تو تینوں کو اپنے پورے طور پر اناڑی ہونے کا یقین ہونے لگا۔ چھٹیاں چیونٹی کی چال رینگ رہی تھیں۔ خیر ایک سہارا تھا کہ آموں کی افراط تھی۔ تینوں اپنی مخصوص بیٹھک یعنی ’تاج اکبر‘ کی سیڑھیوں پر بیٹھے سامنے بالٹی رکھے آم چوس رہتے تھے۔اتنے میں وسیم بھائی تیزی سے بوکھلائے ہوئے آئے اور سیڑھیوں پر پھٹ پھٹ کرتے چڑھ گئے۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر اتر آئے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے گیٹ تک گئے۔ سارس جیسی گردن نیوڑہار کر باہر کسی کو دیکھا اور ایک دم اچھل کر بھاگے۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ پسینے کی لمبی لمبی ڈوریاں چہرے پر پھسل رہی تھیں۔ پاجامہ کچھ زیادہ مل گجا ہو رہا تھا۔ غرض یہ کہ پریشانی اور گھبراہٹ کا چلتا پھرتا اشتہار بنے ہوئے تھے۔
”کیا ہوا وسیم بھائی؟“ انہیں پھر سیڑھیوں پر لپکتے ہوئے بیلو نے پوچھا۔ وہ ایک دم ٹھٹک کر گرتے گرتے بچے۔
”دیکھو کوئی آدمی آئے اور پوچھے وسیم صاحب کہاں ہیں تو کہہ دینا مارہرہ گئے ہوئے ہیں۔“ انہوں نے کھسپسا کر کہا۔
”کیوں؟“ ٹیٹو نے آم کی گٹھلی زور سے سڑک پر گزرتے ہوئے کتے کی ٹانگ میں ماری۔ وہ پیں پیں کرتا ہوا جھاڑیوں میں گھس گیا۔
”کیا بات ہے وسیم بھائی؟“ بیلو کو چھپی چھپول میں وسیم بھائی کی چلا کرکہہ دینے کی عادت یاد آگئی کہ”ہمارے کمرے میں کوئی نہیں چھپا ہے۔یہاں کوئی نہ آئے۔“
”ہم جھوٹ نہیں بولتے۔“ککو نے صاف جھوٹ بولا۔
”آپ تو گدھے ہیں۔ معلوم ہے کون تین دن سے میرے پیچھے لگا ہوا ہے۔“ وسیم بھائی نے رازداری سے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔
”کون؟سلطانہ ڈاکو۔“ ککو بولے۔
”اس سے بھی زیادہ خطرناک آدمی…… انکم ٹیکس آفیسر!“
”انکم ٹیکس کیا ہوتا ہے یار بیلو۔“
”کیوں وسیم بھائی انکم ٹیکس کیا ہوتا ہے۔“
”اماں یار نہایت بیہودہ چیز ہوتی ہے۔ اب تمہیں کیا بتائیں جرمانہ ہوتا ہے۔“وسیم بھائی کراہے۔
”جرمانہ!……اور جو نہ دو تو؟“
”جیل میں سڑو……“ غم غلط کرنے کے لئے انہوں نے بالٹی میں سے ایک موٹا سا آم پکڑا، مگر ابھی پلپلا ہی رہے تھے کہ کوئی آدمی سائیکل پر سوار پھاٹک میں داخل ہوا۔ وسیم بھائی بغیر چک اٹھائے بم کے گولے کی طرح اندر گھس گئے، آم سمیت! تینوں نہایت بے اعتباری سے نو وارد کو دیکھنے لگے۔
”ظفر منزل کو کون سا راستہ جاتا ہے میاں۔“سائیکل سوار نے سیڑھیوں پر پیر لٹکا کر پوچھا۔
”کیوں؟ کیا کام ہے…… کیوں پوچھ رہے ہو۔“ ککو بھڑکے۔
”ویسے ہی مجھے کریم صاحب سے ملنا ہے۔“وہ بولا۔
”جھوٹ بول رہا ہے…… اصل میں یہ وسیم بھائی کی تاک میں ہے۔“ ککو نے بیلو کے کان میں کہا۔
”کیا تم انکم ٹیکس افسر ہو۔“ ٹیٹو بھونڈے پن سے بولے۔
”نہیں صاحب میں تو رئیس میاں کانیا نوکر ہوں۔ بیگم صاحب نے بڑا پتیلا منگوایا ہے۔ کھچڑا پکائیں گی۔“
”تو تم انکم ٹیکس افسر نہیں ہو؟“ بیلو نے حسرت سے پوچھا۔
”نہیں تو صاحب، جے انکم ٹیکس افسر کیا ہووے ہے؟“
”ارے تم کیسے آدمی ہو انکم ٹیکس نہیں جانتے! جرمانہ ہوتاہے، بیچارے وسیم بھائی پر کر دیا گیا ہے۔”
”ارے رے یہ تو بری بات ہوئی صاحب! پھر؟“
”پھر یہ کہ وسیم بھائی اندر چھپ کر بیٹھے ہیں کہ پکڑے نہ جائیں۔“ ککو نے تشریح کی۔
ان تینوں کو خبر ہی نہ ہوئی باتوں میں ایسے لگے کہ ایک آدمی سائیکل پر آیا اور کھڑا ہو کر ان کی باتیں سننے لگا۔
”تو صاحب ظفر منزل کدھر ہے۔“ رئیس میاں کے نئے نوکر نے پوچھا۔
”ادھر سیدھے چلے جاؤ سامنے……“ بیلو بتانے لگے۔
”ارے نہیں نہیں۔ ادھر بھول کر بھی نہ جانا ادھر سے تو انکم ٹیکس والا آجائے گا۔ وسیم بھائی کہہ رہے تھے۔“
بھولا سا نیا نیا نوکر گھبرا گیا۔”مگر صاحب میں نے تو کچھ کیا نہیں ہے۔ مجھ پر کاہے کو لگا دیں گے ٹیکس۔“
”کچھ کرنے سے تھوڑی لگتا ہے ٹیکس۔ وسیم بھائی تو بیچارے کبھی کچھ کرتے ہی نہیں۔ پھر بھی ان پر ٹیکس لگ گیا۔“
”تو میں کیا کروں صاحب۔ یہ بھی کوئی اندھیر ہے۔ کچھ کرو نہ تب بھی ٹھک جاوے جریمانہ۔“
”وسیم صاحب کہاں ہیں۔“ نئے آدمی نے سائیکل کھڑی کر کے پوچھا۔
”شی اتنی زور سے ان کا نام مت لو…… وہ انکم ٹیکس والے کی وجہ سے اندر چھپ کر بیٹھے ہیں۔“ٹیٹو بولے۔”تم نے سڑک پر آتے میں کسی خطرناک شخص کو تو نہیں دیکھا؟“
”نہیں ……“ وہ آدمی مسکرایا۔”تو وسیم صاحب اندر ہیں۔ ذرا بلا دیجئے صاحبزادے۔“
”جاؤ ٹیٹو…… بلا لاؤ۔“
”ارے واہ ہم کیوں جائیں۔“ٹیٹو آموں پر جُٹے رہے۔
”بیلو یار تم ہی بلا لاؤ۔“ ککو نے زور دیا۔
”ارے وسیم بھائی……“بیلو نے مارے سستی کے ہانک لگائی…… وسیم بھا۔آ۔آ۔آئی……“
وسیم بھائی پہلے سے بھی زیادہ بوکھلائے ہوئے نکلے اور نئے سائیکل سوار کو دیکھ کر ان کی پنڈلیاں لرزنے لگیں۔
”آداب عرض ہے وسیم صاحب کہیے سب خیریت؟“ وہ مسکرایا۔
وسیم بھائی نے کھا جانے والی نظروں سے تینو ں کو گھورا۔ مگر کچھ بول نہیں سکے۔
”سکندر زمانی سے کہہ دینا میں انکم ٹیکس کے دفتر جا رہا ہوں۔“ انہوں نے رقت بھری آواز میں کہا۔
”ارے وسیم بھائی……“ تینوں ہکا بکا دیکھتے رہ گئے اور انکم ٹیکس والا مسکراتا ہوا انہیں ساتھ لے کر چلا گیا۔
”یار غضب ہو گیا۔ مارے گئے بچارے وسیم بھائی۔“بیلو نے کہا۔
”کیا گولی سے مارے جائیں گے بچارے۔“ ٹیٹو خوف زدہ ہو کر بولے۔
”اماں ہٹاؤ یار، نرے گاؤدی ہو تم۔ گولی وولی نہیں ماری جائے گی مگر بیچارے وسیم بھائی بہت رپٹائے جائیں گے۔“ بیلو افسردہ ہوگئے۔
”کیوں؟“ ٹیٹو نے احمقوں کی طرح پوچھا۔
”بھئی انکم ٹیکس جو نہیں دیا انہوں نے۔“
”اُنہہ بھئی یہ انکم ٹیکس کیا ہوتا ہے ہماری بالکل سمجھ میں نہیں آتا۔“
”آپ تو گدھے ہیں، ارے انکم ٹیکس کیا ہوتا ہے یہ بھی نہیں جانتے۔“ ککو حقارت سے ہنسے۔”ذرا آپ کو دیکھئے اتنے بڑے ڈھونگرے ہو گئے یہ بھی نہیں معلوم کہ انکم ٹیکس کیا ہوتا ہے۔“
حالانکہ بیلو کی سمجھ میں بھی نہیں آیا تھا کہ انکم ٹیکس کیا بلا ہے اور انہیں پکا یقین تھا کہ ککو صاحب زبردستی اینٹھ رہے ہیں۔انہیں بھی کچھ پتا نہیں۔ مگر وہ ان سے اس وقت لڑائی نہیں مول لینا چاہتے تھے۔ کل ہی انہوں نے ایک نئی تصویر بنائی تھی۔اگر ککو کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جاتی تو وہ فوراً اس کے خلاف ایک محاذ قائم کرلیتے۔
”آہا جنا ب کچھ جو اچھی ہو یہ تصویر۔ ایسی تو بکری بھی اپنے کھر سے بنا سکتی ہے۔“وہ اپنے پتلے اونچے اونچے کان پھڑپھڑاکر فرماتے اور بیلو کا دل سلگ کر کوئلا ہو جاتا۔ جی چاہتا تصویر کو کھرچ کر پھینک دیں۔
”ایں ہیں آپ کو جیسے معلوم ہے۔“ٹیٹو کھسیانے ہو گئے۔
”اور کیا جناب کیا ہم آپ کی طرح پھٹیچر ہیں؟“
”کچھ جو معلوم ہو، ککو صاحب بن رہے ہیں۔“ بیلو جل کر منمنا ہی دیے۔
”معلوم کیسے نہیں۔“ ککو غرائے۔ ابھی وسیم بھائی نے بتایا جو تھا کہ جرمانہ ہوتا ہے۔ جو کوئی جرمانہ نہیں دیتا سپاہی آکر اس کی کڑکی کر لیتا ہے۔“
”یہ سپاہی تھا جو ابھی وسیم بھائی کو لے گیا؟“
”اور نہیں تو کیا کدو تھا۔“ ککو نے منہ چڑایا۔
”جناب وردی کیوں نہیں پہنے تھا۔“بیلو نے ٹانگ کھینچی۔
”کیوں پہنے وردی؟ خفیہ پولیس کا سپاہی تھا۔“ ککو بولے۔
لفظ خفیہ سن کر ٹیٹو کو ڈھاٹے بندھے ڈاکو کھچا کھچ تلواریں چلاتے نظر آنے لگے۔ خفیہ اور پر اسرار چیزیں نہایت خطرناک ہوتی ہیں۔
”گرکا اماں پر کیوں نہیں ہوتا جرمانہ۔“بیلو ککو کے سامنے عموماً زیادہ عقل کی بات کہتے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ اسے اپنی ذاتی ہتک نہ سمجھ لیں۔
”جی ہاں اماں کے ڈنڑ دیکھے ہیں۔ کوئی کشتی لڑے تو صفا ہار جائے۔“ ٹیٹو نے اطلاع دی۔”جناب ہماری اماں اتنی تگڑی ہیں کہ خفیہ پولیس کا آدمی بھی کتراتا ہے ان سے۔“
”اصل میں عورتوں سے ٹیکس نہیں لیا جاتا۔“ ککو بولے۔
۱ن کا خیال تھا کہ امائیں اور دادیاں نانیاں اتنی غصیل ہوتی ہیں کہ ہر وقت نوکروں کو،بچوں کو،مرغیوں کو،بطخوں کو، مہترانی کو، ہوا کو،آندھی کو ڈانٹتی ہی رہتی ہیں۔ ایک مسلسل ڈانٹ ہے جو کسی نہ کسی کے سر پر برستی ہی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی ہوشیار آدمی ان سے الجھنا نہیں پسند کرے گا۔
”تو جناب پھر خالہ اماں کیوں دیتی ہیں ٹیکس۔“ بیلو پیدائشی وکیل ہے۔ بے کار کو ہر بات میں مین میکھ نکالے چلا جاتا ہے۔
”کچھ نہیں۔ سب غلط ہے۔ ککو صاحب آپ کو کچھ جومعلوم ہو۔ آپ بن رہے ہیں۔“ ٹیٹو الجھ کر بھنا اٹھے۔
”ٹیٹو صاحب آپ نے زیادہ بد تمیزی کی تو ٹھک جائیں گے،ہاں۔“گگو نے اپنا رعب خاک میں ملتا دیکھ کر دھمکی دی۔
”ارے واہ کیوں ٹھک جائیں گے؟ ہم بھی آپ کی شکایت کر دیں گے کہ آپ نے مجیب بھائی کے کتے کے ڈھیلا مارا تھا۔“
”کہہ کیاں مارا تھا۔جھوٹے۔“
”تم خود جھوٹے۔“
اور اس سے پہلے کہ تینوں گتھ جاتے ادھر سے صوفی آلہ بھٹکتی ہوئی آن پہنچیں۔ تینوں نہایت مہذب اور معصوم صورتیں بنا کر بیٹھ گئے۔ صوفی آلہ کو مار پٹائی سے سخت خوف آتا تھا۔ جہاں ذرا دھکم دھکا مذاق میں بھی تینوں نے شروع کی اور انہوں نے رپٹایا اپنے کمرے سے۔ صافی آلہ کو ناراض کرنے کا مطلب تھا کہ ان تمام چاکلیٹوں اور ٹافیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا جائے جو وہ آئے دن بانٹا کرتی تھیں۔ اس معاملے میں تینوں قطعی اناڑی نہیں تھے۔ چنانچہ فوراً پینترا بدل کر بھولی بھولی صورتیں بنا لیں۔
”صوفی آلہ آپ کو بھی جرمانہ دینا پڑتا ہے۔“
”کیسا جرمانہ؟“ صوفی آلہ چکرائیں۔
”انکم ٹیکس کا۔“
”انکم ٹیکس…… ارے بھئی انکم جرمانہ نہیں ہوتا۔“
”ایں؟…… مگر صوفی آلہ……“ ٹیٹو ہکلائے۔
”ہے بیوقوف انکم ٹیکس کہیں جرمانہ ہوتا ہے۔“ ککو چالاکی سے ہنسے۔
”صوفی آلہ ٹیٹو بالکل گھونچو ہیں۔“
”آں؟ ہم کیوں ہوتے گھونچو، آپ خود ہوں گے۔ جناب ابھی تو کہہ رہے تھے جرمانہ ہوتا ہے، پولیس کاآدمی آتا ہے۔ پکڑ کر لے جاتا ہے۔“ ٹیٹو چنچنائے۔
”ارے واہ ہم تو کہہ بھی نہیں رہے تھے۔ ٹیٹو صاحب جھوٹ بول رہے ہیں۔ دیکھئے صوفی آلہ پھر ہم انہیں مار دیں گے۔“ ایک دم ککو مدعی بن بیٹھے۔
”ابھی ابھی تو کہہ رہے تھے! ہیں نا بیلو؟“ ٹیٹو نے ناک پھلائی۔
بیلو کو معلوم تھا کہ ککو صفا جھٹلا دیں گے۔ ان کے خلاف گواہی دینے میں سراسر نقصانات ہیں۔ بات ٹالنے کے لئے وہ لمبی لمبی جمائیاں لینے لگے۔ پھر ایک دم بولے:
”تو صوفی آلہ! وسیم بھائی انکم ٹیکس والے کو دیکھ کر کیوں سٹپٹاگئے۔“
”وہ…… بھئی کوئی بات ہوگی۔ روپئے نہیں ہوں گے۔“صوفی آلہ کترائیں۔
”اور خفیہ پولیس کا آدمی۔“ ٹیٹو نے پوچھا۔
”اُنہہ کیسا خفیہ پولیس کا آدمی۔“ صوفی آلہ چڑھ کر جانے لگیں۔”تم لوگ اوندھی باتیں کرتے ہو۔“
”اچھی صوفی آلہ۔“ تینوں چمٹ گئے۔
”بھئی ہمیں پڑھنا ہے۔“
”اُنہہ بس ہر وقت پڑھے جاتی ہیں۔“ تینوں کی سمجھ میں قطعی یہ بات نہیں آتی تھی کہ کسی کو خوامخواہ پڑھنے جانے کا بھی شوق ہوتا ہوگا۔ اماں،آلہ یا مجیب بھائی کے خوف سے کوئی شریف آدمی پڑھنے پر مجبور ہوجائے تو وہ اور بات ہے۔ مگر یہ کیا کہ بس خود بخود پڑھنے کا شوق کئے چلے جا رہے ہیں۔
”دیکھو بھائی جیسے مکان میں رہنے کا کرایہ ہوتا ہے، ایسے ہی ایک ملک میں رہنے کا کرایہ ہوتا ہے۔“
”ارے واہ ہم تو نہیں رہیں گے کسی ملک میں۔ بیکار کو کیوں کرایہ دیں۔ ہم تو ہمیشہ تاج اکبر میں رہے چلے جائیں گے۔“
”جی ہاں بڑے تاج اکبر میں رہے چلے جائیں گے۔ نکال دیا جائے گا آپ کو۔“ ککو ہمیشہ معاملے کو بگاڑ دیتے ہیں۔
”واہ کیوں نکال دیا جائے گا۔ ہم تو نہیں نکلیں گے۔“ٹیٹو اکڑے۔
”تاج اکبر میں رہو یا شاہیں ولا میں یا کوئی مکان لے کر رہو، ملک میں تو رہو گے، اور جس ملک میں رہو گے وہاں کی گورنمنٹ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ ہر ایک کو اپنی آمدنی پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔“ صوفی آلہ بولیں۔
تینوں کے چہرے فق ہو گئے۔ یہ اچھی زبردستی ہے۔
”کیا سب سے ٹیکس لیا جاتاہے؟“ ٹیٹو نے سہم کر پوچھا۔
اگر ان کی عیدی پر ٹیکس لگ گیا تو بھوسا بھر جائے گا۔ ویسے ہی اماں اور آلہ ساری عیدی قرض لے لیتی ہیں اور مانگو تو ایسے ڈانٹتی ہیں جیسے اپنا زر اصل نہیں سود در سود مانگ رہے ہیں۔ واقعی یہ انکم ٹیکس بڑی خطرناک چیز ہے۔ جبھی تو سارے بزرگ پریشان رہتے ہیں۔
”مگرموٹی قصائینی تو بالکل ٹیکس نہیں دیتی حالانکہ وہ تو ملک کی اتنی زیادہ جگہ گھیرے رہتی ہے۔“ بیلو کا فلسفہ چل نکلا۔
”اور نتھا دھوبی بھی ٹیکس نہیں دیتا۔سارے احاطے میں کپڑے پھیلا دیتا ہے۔ پتنگ اڑاؤ صفا رسی میں پھنس جائے گی، کرکٹ کھیلو گیند سیدھی کلف کی بالٹی میں جا گرے گی۔صوفی آلہ پلیز نتھاپر ٹیکس لگوایئے نا ڈاکٹر ماموں سے کہہ کر۔“ٹیٹو نے التجا کی۔
”اور صوفی آلہ امیر خاں پر بھی ٹیکس لگنا چاہئے۔تمام برامدے میں دھنیامرچیں سکھانے کو پھیلا دیتے ہیں“۔ ککو نے رائے دی۔
”افوہ کیا تم لوگ کچر کچر بولے جا رہے ہو۔ بھئی جس کی سالانہ آمدنی تین ہزار سے کم ہو اس پر ٹیکس نہیں لگتا۔ کیا تمہاری عیدی سال بھر میں تین ہزار ہو جاتی ہے۔“ صوفی آلہ نے پوچھا۔
”تین ہزار باپ رے باپ…… تیس روپئے بھی مشکل سے ہوتے ہیں۔“عشرت مما، فرحت مما ہوتے یہاں تو شاید تیس چالیس ہوجایا کرتے۔ تینوں اپنی عیدی کو محفوظ پا کر مطمئن ہو گئے۔ بھلا کون اللہ کا بندہ اتنی عیدی دے گا جو ٹیکس لگے اور وسیم بھائی کی طرح بوکھلانا پڑے۔
”بھئی ہم کبھی تین ہزار نہیں کمائیں گے۔“ ٹیٹو نے فیصلہ کیا۔
”وہ کیوں بھئی؟“
”ٹیکس جو دینا پڑے گا۔ بھیا ہم تو بس دو ہزار سالانہ کمائیں گے۔ ہیں بیلو؟“ ٹیٹو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ لوگ دو ہزار سالانہ سے زیادہ کیوں کماتے ہیں۔ کم کمانے ہی میں فائدے ہیں۔
”اور اتنے روپیوں میں گزر کیسے ہوگی۔“ صوفی آلہ نے پوچھا۔”بچے بھوک سے مر جائیں گے۔بیوی جوتیاں مار کر گھر سے نکال دے گی۔“
”آہا جناب مزا آئے گا۔“ بیلو چہکے۔”موٹی قصائینی کے قبضے دیکھے ہیں،پیسہ نہیں کماؤ گے تو مارتے مارتے گلاب جامن بنا دے گی۔“
اف یہ موٹی قصائینی! غریب ٹیٹو کی جان کو مصیبت ہو گئی تھی۔ روز کم بخت کوکھٹی ڈکاریں آتی تھیں۔ مجال ہے جو ہیضہ ہو جائے۔ ابھی پرسوں آکر کم بخت چڑانے لگی۔
”اے دولھا میاں لال اوڑھنی اور سونے کے کنگن لوں گی۔“اگر لوگوں نے روک نہ لیا ہوتا تو ٹیٹو وہیں اسے قتل کر دیتے۔
”ٹیکس ہر ایک فرد کی آمدنی کے مطابق لیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے آمدنی بڑھتی ہے ٹیکس بھی بڑھتا ہے۔ اسے سپر ٹیکس کہتے ہیں۔“ صوفی آلہ بولیں۔
”صوفی آلہ! اشعر کے ابا کہہ رہے تھے اس دن کہ انکم ٹیکس والے کچھ نہیں چھوڑتے، سب کچھ لے جاتے ہیں۔“ بیلو بولے۔”کل بیچارہ کہہ رہا تھا انکم ٹیکس والوں نے ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ بہت ستارہے ہیں بیچارے ابا کو۔“
”اشعر کے ابا نے پانچ سال سے ٹیکس نہیں دیا ہے۔ آمدنی چھپاتے رہے، اب پکڑے گئے تو سٹپٹا رہے ہیں۔“
”آمدنی کیسے چھپاتے رہے۔“
”جھوٹ موٹ فرضی ناموں سے تجارت کرتے تھے۔“
”کیوں؟“ بیلو نے ناک سکوڑی۔
”تاکہ سپر ٹیکس نہ دینا پڑے۔ اگر وہ اپنی ساری آمدنی اپنے ہی نام سے دکھاتے تو زیادہ ٹیکس لگتا۔ کئی جھوٹ موٹ کے ناموں سے آمدنی دکھائی تو ٹیکس تقسیم ہو کر کم ہو گیا۔“
”بے حد چالا ک ہیں! اب کیا ہوگا۔“
”سارے روپے مع جرمانے کے بھرنا پڑیں گے۔“
”ان کی کئی کوٹھیاں ہیں، باغات ہیں، ملوں میں شیئر ہیں، وہ بیچنا پڑیں گے۔“
”اگر کوٹھی بک گئی تو برا ہوگا۔“ تینوں فکر مند ہو گئے۔
اشعر کی کوٹھی بے حد شاندار تھی۔ لمبا چوڑا میدان تھا۔ کرکٹ اور فٹ بال کے لئے فرسٹ کلاس جگہ تھی۔ ویسے نیبو، نارنگیاں اور کچے پکے آم توڑنے میں بھی خاصا مزہ آتا تھا۔
”مگر یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ نہ دیں ٹیکس تو؟“ بیلو نے پوچھا۔
”تو صفا جیل میں جائیں گے۔“ککو ہمیشہ بھیانک قسم کی پیشین گوئی کرتے ہیں۔
ابھی تینوں کوٹھی کے غم میں گھل رہے تھے کہ صوفی آلہ کوکا اماں نے آواز دے دی۔
”اے بی صوفی! ان احمقوں سے بیٹھی کہاں سر مار رہی ہو! ذرا ادھر آنا۔“ اور صوفی آلہ بھاگ گئیں۔ ابھی کتنے سوال تینوں کے دماغ میں اچھل کود مچا رہے تھے۔ آخر انکم ٹیکس والوں کو یہ چھوٹ کیوں ملی ہوئی ہے۔ زبردستی ٹیکس لگا دیتے ہیں۔ کوئی کمائے انہیں مفت میں دے دے۔ پولیس بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ بھلا یہ حد ہے کہ نہیں کتنے ہزار ٹیکس ہیں! انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس،تفریح ٹیکس،نہ کھاؤ نہ پیو، نہ ہنسو کھیلو بس ٹیکس دیے جاؤ۔“
”بھئی ہم تو سیدھے جا کر نہرو چاچا سے شکایت کر دیں۔ دو منٹ میں انکم ٹیکس والوں کو چیں بلاویں گے۔“ ککو نے فیصلہ کیا۔
”کیا بہت تگڑے ہیں؟“
”اور نہیں تو کیا آپ کی طرح پھپس ہیں۔“
”کچھ زیادہ تو تگڑے بھی نہیں۔ دبلے سے ہیں۔“ بیلو نے چڑھ کر کہا۔
”دبلے سے کیا ہوتا ہے۔ طاقت تو ہے جناب!“ککو خود دبلے ہیں مگر سب کو بھون بھون کر مزا لیتے ہیں۔ ان کی حرکتیں قطعی دبلی پتلی نہیں ہوتیں۔
”مگر یہ تو صفا زیادتی ہے۔“ تھوڑی دیر سوچ کر بیلو نے فیصلہ کیا۔
”اور کیا زیادتی تو ہے ہی۔“ ککو ہمیشہ ٹیٹو اور بیلو کی ہر بات پر فیصلہ کرتے ہیں، جیسے وہ تو پہلے ہی یہ بتا چکے تھے۔
”بیچارے اشعر کے کتے کا گھر بھی بک جائے گا۔“ ٹیٹو غمگین ہو گئے۔
”اور نہیں تو کیا بس کتے کا گھر بچ جائے گا؟ کہ لو بھئی اس میں اپنے کتے صاحب کو رکھو۔“ ککو نے حسب عادت چڑایا۔
”ہم اسے اپنے گھر میں رکھ لیں گے۔“
”جی ہاں بہت رکھا اپنے گھر میں، خالہ اماں گولی مار دیں گی۔“ٹیٹو نے ڈرایا۔
”حالانکہ بیچاری خالہ اماں کے پاس سروتے سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہی نہ تھا۔“ یاد ہے ان کی بھینس نے ذرا اشعر کے ابا کے پھول چر لئے تھے تو اسے کانجی ہاؤس بھجوا دیا تھا۔ جب سے خالہ اماں ادھار کھائے بیٹھی ہیں۔ ان کا بس چلے تو انہیں مرغابنا کرموٹی قصائنی کو پیٹھ پر چڑھا دیں۔“
بیلو نے دل ہی دل میں اس حسین نظارے کا نقشہ کھینچ کر لطف اٹھایا۔
خالہ اماں سے سب ہی ڈرتے تھے۔ خصوصاً وسیم بھائی کی تو وہ آتے جاتے ٹانگ کھینچتی تھیں۔ وسیم بھائی آتے جاتے بھی بہت تھے۔ ایک پل ان کی ٹانگوں کو قرار نہ تھا۔ گھڑی باہر تو گھڑی اندر، لمبے لمبے ڈگ بھرتے، شڑاپ شڑاپ پاجامہ پھٹکارتے، دن میں سینکڑوں چکر لگا ڈالتے تھے۔
”مگر یار یہ کمی آپا پر ٹیکس کیوں نہیں لگتا۔ کتنی عیدی اینٹھتی ہیں، جب دیکھو قمیصیں بن رہی ہیں۔“
”خدا قسم ان کی قمیصوں پر ٹیکس لگ جائے تو مزا آجائے۔“
”اور زبیدہ آپا کی چپلوں پر بھی ٹیکس لگے۔ پلنگ کے نیچے قطار کی قطار لگی ہے۔ لال، پیلی، اودی، ہری، نیلی، چاکلیٹی۔“
”ایں ہیں جناب چاکلیٹ کی کہاں ہے چپل؟“ ٹیٹو نے سوچا چلو ایک بات پر تو ککو کی جہالت پکڑی گئی۔ مگر بجائے نادم ہونے کے ککو صاحب دونوں ٹانگیں ہوا میں لہرا کے ٹھٹھے لگانے لگے۔ بیلو نے فوراً ان کا ساتھ دیا۔
”چاکلیٹ کی نہیں بیوقوف، چاکلیٹی…… چاکلیٹ کے رنگ کی۔“
”ارے ہم سمجھے چاکلیٹ کی۔“ ٹیٹو منمنائے۔
”نرے گاؤدی ہو یار۔“ککو ہنسے۔
”کیوں یار ککو اگر سچ مچ چاکلیٹ کی چپلیں بنا کرتیں تو۔“بیلو نے خواب آلود نظروں سے فضا میں چاکلیٹ کی چپلیں بنا ڈالیں۔
”ہاں ……اور موتی چور کے لڈوؤں کی بھی چپلیں بنا کرتیں۔ مزا آجاتا۔“ ککو نے چٹخارا لیا۔
”اور سموسوں کی؟“
”جناب قلاقند کی بھی۔“
”بالو شاہی کی بھی تو۔“
”مگر بمبئی کے حلوے کی چپلیں لاجواب ہوں گی۔“
”جناب رس گلوں کی چپلیں بہترین رہیں گی۔“
اور تینوں قسم قسم کی مٹھائیوں اور لذیذ کھانوں کی چپلیں بنا بنا کر ان کے خیالی مزے سے جھوم جھوم کر چٹخا رے لینے لگے۔ تینوں کو کھانوں کے ذکر سے بے اختیار بھوک لگ آئی۔ مگر بھلا بے وقت کون کھانے دے گا۔ نہ جانے کس احمق نے دنیا میں اتنی بیہودہ بیہودہ چیزیں رائج کر دیں۔ چڑیا دن بھر دانا چگتی ہیں،کوئی منع نہیں کرتا۔ بکریاں جب چاہیں مزے سے ببول چاب لیں۔ مگر انسان وقت سے کھائے، وقت سے سوئے، وقت سے جاگے اور پھر اوپر سے انکم ٹیکس دے۔
اف حد ہے زیادتی کی!
۔۔۔۔۔
ایک دن وہ اداس بیٹھے اپنی ناک ٹٹول رہے تھے۔ پروین نے انہیں ”چٹپل“ کہہ دیا تھا چونکہ انہوں نے اس کی گڑیا کو چٹیا سے لٹکا کر اسے چکر دیے تھے۔
”کیا بات ہے ٹیٹو یار۔ ناک کیوں ٹٹول رہے ہو۔ کیا بیلو نے گھونسا مار دیا؟“
”ارے واہ بڑے آئے بیلو صاحب مارنے والے۔“ٹیٹو بگڑے۔
”کچھ زیادہ پھولی ہوئی لگ رہی ہے۔“
ٹیٹو ایک دم غمگین ہو گئے۔ کچھ دن سے انہیں شبہ ہو رہا تھا کہ وہ کم بڑھ رہے ہیں مگر ان کی ناک کھیرے ککڑی کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
”اماں ایک ترکیب کیوں نہیں کرتے۔ فرسٹ کلاس ہو سکتی ہے ناک۔“
”ایں ہیں کچھ جو فرسٹ کلاس ہو جائے۔“
”انہہ مت مانو…… ہمارا کیا ہے تمہاری ہی ناک چپٹی رہ جائے گی۔“لاپروائی سے منن بھیا بولے اور گھٹنا ہلانے لگے۔ بیلو کو ان کی تجویزوں پر عمل کر کے بڑے تلخ تجربے ہو چکے تھے مگر ناک کا معاملہ تھا۔ ترکیب سننے میں کیا نقصان ہے۔
”کیسے؟“ انہوں نے بظاہر بے توجہی سے پوچھا۔
”وہ جو کپڑے ٹانگنے کی چٹخنی ہوتی ہے نا؟“
”ہا ہاں!“
”بس وہ لو اور رات کو سوتے وقت ناک اس سے دبا کر سو جاؤ، صبح تلوار کی طرح پتلی نہ ہو جائے تو میرا ذمہ۔“
”ایں ہیں …… کہیں ہوئی نہ ہو۔“ ٹیٹو کو یقین نہ آیا مگر امید کی ایک ہلکی سی لہر ان کا دل دھڑکا گئی۔
”انہہ گدھے۔ ہم کوئی مذاق کر رہے ہیں …… یہ مجیب بھائی کی ناک ہے نا۔“
”ہاں بہت کتارا سی ہے۔“
”تمہاری طرح پھلکی جیسی تھی پہلے۔“
”اچھا…… تو پھر……“
”پھر کیا…… تمہارا سر…… چغد ہو تم…… بس چٹخنی لگا کر سوا جیسی بنا لی ناک۔ ویسے بھئی تم جانو اور تمہاری ناک۔“
منن بھیا تو شگوفہ چھوڑ کر چل دیے۔ ٹیٹو سوچ میں پڑ گیا۔ آزمانے میں ایسا کون سا ٹوٹا آجانے کا خدشہ ہے۔ موقع مناسب دیکھ کر انہوں نے رسی میں اٹکا ہوا کلپ اتار کر نیکر کی جیب میں سٹکا لیا۔ رات کو جب بتیاں بجھ گئیں تو چپکے سے لگا یا۔ پہلے تو ایسا معلوم ہوا کسی نے دانتوں میں لے کر ناک چبا ڈالی۔آنکھوں میں آنسو ابل آئے۔ مگر ملکہ انگلستان کے اکلوتے داماد بن کر بکنگھم پیلس میں راج کرنے کا خیال دل کو ڈھارس دلاتا رہا۔ نیند تو آگئی۔ مگر رات بھر ڈراؤنے خواب ستاتے رہے۔ کبھی دیکھتے ناک میں ایک اژدہا لٹکا ہوا ہے، کسی صورت نہیں چھوڑتا۔ کبھی دیکھتے ان کی ناک کھنچ کر ہاتھی کی سونڈ بن گئی اور ایک شیر اس میں جھول رہا ہے۔ رات کو کراہ کراہ کر کئی بار جاگے پھر دل پر پتھر کی چٹان رکھ کر سو گئے۔ پھر خواب میں دیکھا ناک اتنی بڑھی اتنی بڑھی کہ نیم کے ٹہنے کے برابر ہو گئی۔ اس پر بندر اتر رہے ہیں چڑھ رہے ہیں۔ میناؤں نے گھونسلے بنا لئے ہیں۔ایک ہد ہد اپنی نوکیلی چونچ سے سوراخ پہ سوراخ کئے جا رہا ہے۔ بہتیرا ہش ہش کر رہے ہیں، پنجے گاڑے بیٹھا ہے۔ ناک ہے کہ ہوا کے جھونکوں میں ایسی جھوم رہی ہے کہ معلوم ہوتا ہے ایک جھکڑ اور آیا تو چرچرا کر ٹوٹ پڑے گی۔ناک اتنی لمبی ہو چکی تھی کہ اس کی پھنگی تک ان کی ہش ہش نہ پہنچ سکی۔
صبح جونہی اماں فجر کی نماز کو اٹھیں تو صبح کی دھندلی روشنی میں ٹیٹو کی ناک پر ایک بڑا سا مکوڑا بیٹھا دکھائی دیا۔ پنکھے کی ڈنڈی جو انہوں نے تاک کر مکوڑے کی ٹانگوں پر ماری توٹیٹو بلبلا کر چنگھاڑے۔ اب جو انہوں نے دیکھا تومکوڑا نہیں چٹخنی تھی، بوکھلا کر چلائیں۔
”اے بی اختر ذرا دیکھنا…… ٹیٹو کو کیا ہوگیا۔ ہے ہے۔“
چاروں طرف جگار ہو گئی، سب ٹیٹو کے گرد جمع ہو گئے۔ اب ناک پر جہاں کلپ لگا تھا وہاں دورانِ خون بند ہو کر گہرا سا گڈھا پڑ گیا تھا۔ جتنی ناک باہر رہ گئی تھی وہ آلو بخارے کی طرح ہو کر سوج گئی تھی۔ بڑی مشکل سے کلپ نکالا گیا۔ ٹھنڈے گرم پانی سے ٹکور دی گئی، تب کہیں جا کر ناک کا دورانِ خون ٹھیک ہوا، ذرا سوجن اتری، تیل کی مالش کی گئی۔
وہ دن اور آج کا دن ٹیٹو نے ملکہ الزبتھ کی دامادی کی ساری امیدیں بالائے طاق رکھ دیں۔ اگر وہ منن بھیا کی بتائی ہوئی حسن بڑھانے کی ترکیب پر کچھ گھنٹے اور عمل کر لیتے تو آج قطعی ناک سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
۔۔۔۔۔
بیلو کو ہمیشہ سے گپیں مارنے کا شوق ہے۔ ایسی ایسی ٹھوکتا ہے کہ بس کیا بتائیے۔ بیٹھے مزے سے کیرم کھیل رہے ہیں یا زنازن ترپ چال ہو رہی ہے یا کوئی نہایت دل چسپ کہانی پڑھ رہے ہیں۔عین اس وقت جب کہ ہیرواژدہے کے چنگل میں پھنسا زور مار رہا ہے۔ بیلو صاحب آن دھمکے۔
”چلو……اماں بلا تی ہیں۔“ اب نہ جائیں تو کیا عجب جو بلا ہی رہی ہوں۔ امائیں عموماً ایسے ان گڑھ موقعوں پر ضرور بلانے کی عادی ہوتی ہیں۔ خیر اماں کے پاس گئے۔
”اماں آپ نے ہمیں بلایا تھا۔“
”اے دور ہو کلموہو میں کاہے کو بلاتی۔ کون تمہاری صورت کو ترس رہی ہوں کہ چڑھے چلے آتے ہو چھاتی پر۔“ اماں چڑھ کر جواب دیتیں۔ اب آپ ہیں کھسیانے اور بیلو صاحب دانت نکوسے ہنس رہے ہیں۔ جی چاہتا ایک مکا ایسا جڑیں کہ سارے دانت ٹوٹ کر حلق میں جا پڑیں۔ مگر دانت تو ویسے ہی ٹوٹ کر اونگے بونگے ڈراؤنے نکل رہے ہیں۔ ذرا بیلو کو دیکھا اور چلائے۔
”کا اماں …… دیکھو ہمیں مارا۔“
اور اماں بنا پوچھے گھچے ڈانٹنے لگیں گی۔
”ٹھہر تو جا سور، خبردار جو تو نے میرے بیلو کو ہاتھ بھی لگایا۔کھال ادھیڑ کے رکھ دوں گی۔“ اب انہیں لاکھ سمجھائیے کہ یہ آپ کا لڈو کی شکل کا لال دل کا بہت کالا ہے۔ مگر کون سنتا ہے!
اور یہ تو روزانہ کا اصول بنا لیا ہے۔ جہاں ابا کے پیٹ پر بیٹھے اور شکایتوں کا دفتر کھل گیا۔
فلاں نے منہ چڑایا تھا۔ ککو نے گھونسا دکھایا تھا۔ عذرا پروین نے گلاب کا پھول توڑا تھا۔ ٹیٹو نے مرغی کی دم کھینچی تھی۔
اب کہو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ عذرا پروین کی گڑیا کا بیاہ تھا۔ ایک دو پھول توڑ لئے تو کون سا اندھیرا ہوگیا یا بیچارا ٹیٹو بیٹھا بور ہو رہا تھا۔ ایک ذرا کے ذرا مرغی کی دم کھینچ لی تو کون سے اس کے لال جھڑ گئے۔
مگر ایک دن بیلو پکڑے گئے۔
”آئس لینڈ میں برف ہی برف ہوتی ہے۔ لوگ برف کے گھروں میں رہتے ہیں۔ وہاں برف کی سڑکیں، برف کے سینما گھر، برف کے اسکول ہوتے ہیں۔ لوگ برف کے ڈیسکوں پر بیٹھ کر برف کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ماسٹر صاحب برف کا کوٹ پہنے برف کے بلیک بورڈ پر برف کی چاک سے لکھتے ہیں۔ پھر بر ف کا چپراسی برف کے گھنٹے کو آئس کریم کی موگری سے ٹن ٹن بجاتا ہے۔ برف کے کتے سڑک پر بھونکتے ہوئے بھاگتے ہیں اور بچے برف کے فراک اور پینٹ پہنے برف کی فٹ بال سے کھیلتے ہیں۔ وہاں سب برف کے پیڑ ہوتے ہیں جن میں آئس کریم کی نارنگیاں، کیلے، ناشپاتیاں، امرود، انناس اور آم ہوتے ہیں۔ وہاں بھیڑیں اور بکریاں چوکولیٹ کی آئس کریم کی ہوتی ہیں اور برف کی لال لال آگ پر برف کی روٹیاں پکتی ہیں۔“
”ہے بیوقوف۔برف کی آگ کیسے جل سکتی ہے۔“ ککو سے زیادہ ضبط نہ ہو سکا۔
”جلتی ہے…… ہمیں معلوم ہے۔“
”نہیں بیٹے برف کی آگ نہیں جلتی۔“ ابا نے نہایت عالمانہ انداز میں عینک کے اوپر سے جھانک کر سمجھایا۔
”نہیں ابا…… جلتی ہے۔“ بیلو نے بگڑ کر کہا۔”لال نہیں سفید سفید آگ جلتی ہے اور برف کے ریڈیو میں سے اولوں کے گیت نکلتے ہیں۔“ بیلو کی آنکھیں چمکیں۔
ابا نے اخبار رکھ دیا۔ غور سے پہلے عینک کے نیچے سے اور پھر اوپر سے جھانک کر بیلو کو گھورا۔
”تم نہایت بے وقوف ہو…… نرے چغد……“ ابا نے ڈانٹ ڈانٹ کر ثابت کر دیا کہ بیلو گپ ٹھوک رہا ہے۔ وہاں برف کے بنے ہوئے جانور نہیں ہوتے۔
”مگر ابا کتاب میں لکھا ہے۔ برف کے کتے!“
”یعنی وہ کتے جو برف پر گاڑیاں گھسیٹتے ہیں۔“
”اور جناب بالکل آئس کریم کے بیل نہیں ہوتے۔“ٹیٹو بولے۔
”ہوتے ہیں۔“ بیلو ڈٹ گئے۔ ابا قطعی بور ہیں۔ لے کے بیلو کی پوری برف کی دنیا پگھلا دی۔
بیلو کا بہت مذاق اڑا اور ایک دم سے ان کی گپ بازی کی دھوم مچ گئی اور جب گھر کے بزرگوں کے دل میں ایک بات بیٹھ جائے تو وہ سچی مان ہی لی جاتی ہے۔ اب تو یہ حال ہو گیا کہ بیلو اگر کہتے۔
”ہماں ہمیں بھوک لگی ہے۔“ تو کوئی یقین نہ کرتا۔
”چل جھوٹے بد ہضمی کرے گا۔ سہ پہر کو منوں ستو بھکسے تھے۔“ حالانکہ غریب بیلو سہ پہر کو نیم کے نیچے بیٹھا چمچے سے چیونٹے حلال کر رہا تھا۔ستو کب گھلے کب پی لئے گئے اسے خبر بھی نہ ہوئی۔ جب چیونٹے انتقاماً اس کے نیکر میں گھس گئے اور اسے بھنبھوڑ کر رکھ دیا تو بیچارا کا اماں سے کولھوں پر چونا لگواتے لگواتے سو گیا تھا۔ ککو کو اگر یاد بھی ہوتی تو وہ بیلو کی موافقت کی بات صاف پی جاتے۔
غرض بیلو کی دروغ گوئی کی دھاک ایسی بیٹھی کہ ان کے سارے کارناموں پر پانی پھر گیا۔ ایک دن جب بیلو اپنے کمرے میں سونے کے لئے گئے تو وہاں سے سرپٹ رپٹے ہوئے آئے اور دادی اماں کی گود میں چڑھ گئے۔
”اے بیلو سوتے کیوں نہیں۔ جاؤ اپنے کمرے میں۔“ دادی اماں بالیں۔
”نہیں ……“
”کیوں؟“
”شیر!“
”شیر؟……اے کیسا شیر؟“
”شیر…… اتا بڑا……“جتنے ہاتھ پھیل سکے پھیلا کر بیلو نے ناپ بتائی۔
”کہاں ہے شیر؟“ ابا جان نے غصہ کر کے پوچھا۔
”ہمارے پلنگ کے نیچے۔“
”پھر تم جھوٹ بولے۔“ ابا نے بڑی بڑی آنکھیں نکالیں۔
”سچ…… اللہ قسم!“
”جھوٹا……لپاٹی۔“ دادی اماں نے ایک زور کا دھپ جمایا اور اپنی گود سے سڑے ہوئے بینگن کی طرح لڑھکا دیا۔
”چل سیدھی طرح جا کے سو اپنے کمرے میں …… چل سور……چل……چل۔“ آلہ نے للکارا۔
”نہیں …… اماں …… شیر!“
”چو……و……وپ! شیر کا بچہ……“ ابا ڈنکا رے۔”جاتا ہے۔ اب لگاؤں سنٹیاں۔“ شیر تو شیر اگر اژدہا بھی ہوتا تو ابا کی ڈانٹ سن کر بیلو ہنستے کھیلتے اس کے منہ میں چلے جاتے۔
”پھسڈی کہیں کا……“ چاروں طرف وہ لے دے ہوئی کہ بیلو رپٹے کمرے کی طرف…… شیر سے زیادہ خوناک وہ چپتیں تھیں جو ان کے سر کے گرد منڈلانے لگیں اور جو شیراور چیتے سے کم خوفناک نہیں ہوتیں۔ شیر چیتے زندہ نگل جاتے ہیں۔ کان تو اتنی زور سے نہیں اینٹھتے۔
”ہر وقت جھوٹ بولتا ہے۔“ اماں بولیں۔
”کس قدر گپیں تراشتا ہے نالائق۔“ ابا نے رائے دی۔
”ڈر پوک بنا دیا ہے اماں باوا نے لاڈ کر کے۔دو کوڑی کا نہیں رہا بچہ۔“ دادی اماں نے طعنہ مارا۔ بڑی دیر تک بیلو کے جھوٹ پر تبصرہ ہوتا رہا۔ پھر لوگ ادھر ادھر کی باتوں میں بیلو اور شیر دونوں کو بھول گئے۔ لوگ سونے کا پروگرام بنا ہی رہے تھے کہ میوہ رام بوکھلائے ہوئے آئے۔
”مجیب میاں باہر دروغہ جی کھڑے ہیں۔“
”دروغہ جی۔ اے ہے یہ کم بخت اس وقت کہاں آن ٹپکا۔“دادی اماں بڑبڑائیں۔”لوگ پیچھا ہی نہیں چھوڑتے،جان کو لگ گئے ہیں۔“
”ارے بلاؤ بلاؤ…… آئیے انسپکٹر صاحب…… آیئے…… کیسے تکلیف فرمائی۔“ ابا نے چبوترے پر سے پکارا۔ انسپکٹر صاحب کے ساتھ ایک گچھے دار مونچھوں والے صاحب بھی تھے۔ جو میوہ رام سے بھی زیادہ سٹپٹائے ہوئے تھے۔ دو چار لاٹھی بند کانسٹبل بھی تھے۔ ابا گھبرائے کیا گڑ بڑ ہو گئی۔ کالج کے لڑکوں نے کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
”کیا کوئی چوری ووری ہوگئی……خیریت تو ہے۔“ ابا نے پوچھا۔
”نہیں صاحب چوریاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ ویسے سب خیریت ہے۔ یہ سرکس کے منیجر صاحب ہیں۔“ انہوں نے گچھے دار مونچھوں کی طرف اشارہ کیا۔
”آداب عرض، آپ سے مل کر بڑی مسرت ہوئی۔“ اباجھوٹ بولے۔
”صاحب …… وہ بات یہ ہے کہ سر کس کا ایک نہایت ہی بدمعاش شیر چھوٹ گیا ہے……“
”شیر؟…… شیر…… یعنی کے شیر……“ ابا ہکلائے۔
”جی ہاں قطعی شیر…… نہایت خونخوار اور پاجی ہے۔ کل ٹرینر کو بھنبھوڑ ڈالا ہوتا۔ بال بال بچے۔ ابھی آپ کے پڑوس سے رئیس صاحب نے فون کیا کہ ایک عدد شیر آپ کے باغ میں گھومتا دیکھا گیا ہے۔“
”باباغ…… شیر……بیلو۔“ ابا مونڈھے پر ڈھلک گئے۔
”بیلو سچ ہی کہہ رہا تھا۔“ انہوں نے سہم کر بیلو کے کمرے کی طر ف دیکھا جس کا ایک دروازہ باغ کی طرف کھلتا تھا۔
”ہائے…… لوگو میرا بیلو……“ اماں جو کمرے سے سب کچھ سن رہی تھیں پچھاڑ کھا کر ڈنلپ کے نئے گدے پر گریں۔ پھر اٹھ کر وہ دوڑیں بیلو کے کمرے کی طرف۔ اگر ابا نے کولیا بھر کر انہیں پکڑ نہ لیا ہوتا تو وہ سیدھی شیر کے جبڑوں میں گھس جاتیں۔
”ہائے میرا بچہ…… ارے مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا، تم لوگوں پر بھاری ہے بچہ…… ارے اس کی جان لے کر ہی چین آیا۔“
حسب دستور دادی اماں نے گھبرائے ہوئے اماں اور ابا کی ٹانگ لی۔”اب تو کلیجے میں ٹھنڈک پڑی۔“
”ہائے میرا ننھا منا سا بیلو۔ شیر نے چبا ڈالا اور اس نے منہ سے ڈر کے مارے آواز بھی تو نہیں نکالی“۔ کا اماں چہکی پہکی رونے لگیں اور ککو ٹیٹو بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔”ہائے پیارے بیلو تم سے یہ امید نہ تھی کہ شیر کا ناشتہ بن جاؤ گے اور ہمیں یوں اکیلا چھوڑ جاؤگے۔“
”ہائے اللہ کیا کٹر کٹر چبایا ہوگا بیچارے کو۔ اب تک تو ہضم ہو کر آنتوں میں پہنچ چکا ہوگا۔“ منن بھائی نے آہ بھری۔
ابا کا برا حال تھا۔ وہ تو خالی ہاتھ ہی گھس کر شیر سے گتھ جانا چاہتے تھے۔ ان کا بس نہ تھا کہ اس کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اپنے لاڈلے بیلو کو نکال لائیں۔ لوگوں نے بڑی مشکل سے انہیں دلاسا دیا۔ بندوقیں اور لاٹھیاں لے کر سب آہستہ آہستہ بیلو کے کمرے کی طرف بڑھے۔ اندر جھانکا تو دوبڑی بڑی چنگاریاں پیڑ کے نیچے دہک رہی تھیں۔مگر بیلو کا کہیں پتا نہیں تھا!شیر نے ایک پھونسڑا تک نہ چھوڑا تھا۔
گھر میں کہرام مچ گیا۔ دادی اماں تو شیر کا کلہ چیرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ بڑی مشکل سے اسے پنجرے میں ڈالا گیا جو سرکس کے منیجر لائے تھے۔ گولی مارنے میں ایک خطرہ تھا۔ شیر کے منہ کو انسان کا خون لگ چکا تھا۔ اگر زخمی ہو گیا اور پلنگ کے نیچے سے ایک دم نکل پڑا تو پھر کسی کی خیریت نہیں۔
”تعجب ہے نہ خون کے نشانات ہیں نہ ہڈیاں ……“ انسپکٹر صاحب بولے۔
”ارے وہ نگوڑا تھا ہی کتنا۔ ہائے میرا پھول بیلو…… مزے دار تو تھا ہی جبھی تو شیر نے خون کی ایک ایک بوند چاٹ لی۔“ دادی اماں کو غش آنے لگا۔
ایک دم سے کمی آپا کی فلک شگاف چیخ فضا میں گونجی اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی آکر چوکی پر گریں ……
”بی بی……بیلو……“ جیسے انہوں نے بھوت دیکھا ہو۔
”کہاں کدھر……“سب نے انہیں ہلا ڈالا۔
”غو……غو…… غسل خانہ……“
اماں دوڑیں …… ابا نے لپک کر انہیں پکڑ لیا۔ بیلو کی کٹی پھٹی لاش دیکھ کر کہیں وہ پاگل نہ ہو جائیں۔
کلیجہ تھامے ابا اور میوہ رام روتے بلبلاتے غسل خانے میں پہنچے۔ بیلو کی خون میں لتھڑی لاش وہاں بھی نہ تھی۔ وہ توگڑی سڑی بنے گھڑے کے پاس اکڑوں بیٹھے اونگھ رہے تھے۔
”سور پاجی…… نامعقول…… یہاں بیٹھا ہے گدھا…… اور ہم ناحق پریشان ہو رہے ہیں۔“ ابا نے ایک رہپٹ لگایا اور کان پکڑ کر بیلو کو اٹھا لیا۔
کہاں ماتم ہو رہا تھا، کہاں ایک دم شادیانے بجنے لگے۔ سب نے بیلو کو گلے لگایا۔ ان کے اتنے لاڈ ہوئے، اتنے صدقے اتارے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ابھی ابھی اللہ میاں کے ہاں سے تشریف لائے ہیں۔ ککو اور ٹیٹو ایک دم چڑھ کر اداس ہو گئے۔ کاش شیر نے انہیں ذرا سا ہی چاب لیا ہوتا۔
اس دن سے جو بیلو کے سوراجا کے نہیں۔ ٹھاٹ سے جھوٹ بولتے ہیں۔ دھڑا دھڑ گپیں مارتے ہیں۔ کوئی دم نہیں مار سکتا۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ انہیں جھٹلا سکے۔ اب تو اگر وہ کسی دن کہہ دیں کہ ان کی مٹھی میں مگر مچھ ہے تو بھی ان کو جھٹلانے کی ہمت نہ پڑے گی۔ کیا عجب جو وہ مٹھی کھول کر مگر مچھ دکھا دیں تو کوئی ان کا کیا بگاڑے گا۔
۔۔۔۔۔
”بھئی ان ماسٹروں کے خوب ٹھاٹ ہیں۔ مزے سے سا ئیکلوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ جسے جب چاہا ٹھوک دیا، مرغا بنا کر کرسی رکھ دی اور غصہ آیا تو کونے میں منہ دے کر چھٹی کے گھنٹے میں کھڑا کر دیا۔ کوئی جملہ پانچ سو دفعہ لکھنے کو دے دیا، نظمیں رٹوا لیں۔“
ککو نے ٹھنڈی سانس بھری۔ آج ان پر کلاس میں بری بیتی تھی۔ ان پر روز ہی بری بیتتی تھی۔ککو اپنی کلاس کے دادا تھے۔ ہر شرارت ان کے زیرِ سایہ پروان چڑھتی تھی۔ ناطقہ بند تھا استادوں کا۔
”نہ ہوم ورک کرنا۔“ ٹیٹو نے ردّا دھرا۔
”نہ جومیٹری رٹنا۔“ ککو کو جومیٹری نے بڑا ستا رکھا تھا۔
دو متوازی خطوں کے بیچ میں بننے والے زاویے برابر ہوتے ہیں۔
”ہوتے ہیں تو ہونے دو ہم کیا کریں۔“ ٹیٹو نے سوچا۔
”یہ ہسٹری بھی کچھ کم بدذات نہیں۔ محمود غزنوی نے سترہ حملے کئے، ارے بھئی کئے تو ہم نے اسے تھوڑی بھڑکایا تھا۔“ بیلو نے جرح کی۔
”یار یہ جغرایہ بھی فضول ہے۔ گیہوں کہاں پیدا ہوتا ہے؟ چاول کہاں اگتا ہے؟ دریا کہاں بہتا ہے؟ پہاڑ کتنا اونچا ہے؟ سمندر کتنا گہرا ہے؟ ہنہ یہ بھی کوئی تک ہے۔ چاول دال سے باورچی کو دلچسپی ہو گی۔ سمندر کی گہرائی کی فکر کریں وھیل مچھلیاں۔ ہمیں کوئی سمندر ناپنے ہیں۔“
تینوں ہوم ورک کر کے بستروں پر لیٹ گئے اور اس دن کے خواب دیکھنے لگے جب بجائے پڑھنے کے وہ استاد بن کر دوسروں کو پڑھائیں گے۔
”مزہ آ جائے گا۔“ ککو نے لڑکوں کو تخیل میں ٹھونکتے ہوئے خٹخارا لیا۔ مزے سے گپیں ماریں گے۔ سینما دیکھیں گے۔ لائبریری اپنے قبضے میں ہو گی۔ کہانیوں کی کتابیں پڑھیں گے۔ کیا حسین زندگی ہوگی!
آنکھ لگی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ٹیٹو لپکے کیونکہ انہیں ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا اور ڈاکئے کی آواز وہ خوب پہنچانتے تھے۔
”ارے ککو…… تمہارے نام رجسٹرار صاحب کا خط!“ٹیٹو نے لفافہ لا کر دیا۔
”کھولو تو یار کس کا خط ہے۔“ بیلو نے شوق سے کہا۔
خط کھول کر جو پڑھا تو تینوں سناٹے میں رہ گئے۔ ککو تو مارے حیرت کے قلابازی کھا گئے۔ خط میں لکھا تھا۔
”مسٹر ککو!
واضح ہو کہ آپ اسکول ٹیچر کے عہدے پر مقرر کئے جاتے ہیں۔ کل صبح پابندیئ وقت کا خیال رکھتے ہوئے کلاس میں پہنچ کر پڑھائیے۔ ابھی نوکری عارضی ہے۔ لیاقت دیکھ کر تنخواہ مقرر کی جائے گی اور آپ کو مستقل ماسٹر بنا دیا جائے گا۔
فقط……“
ایک دم سے ککو اٹھ کر ناچنے لگے۔
”آہا جی…… ماسٹر……نوکری……مستقل تنخواہ……“
مارے رشک کے بیلو اور ٹیٹو پست ہو گئے۔ مزے ہیں اب تو ککو کے۔ نہ ہوم ورک نہ رٹائی۔ نہ آئے دن کی سزائیں۔ رعب جھاڑنے کا موقع الگ۔
ککو اسکول جانے کی تیاری کرنے لگے۔ عید پر جو پتلون بنی تھی وہ ڈاٹی۔ منن بھیا کا چھوٹا کوٹ انہیں مل گیا تھا۔ خوب برش سے صاف کر کے پہنا۔ جوتوں پر پالش کر کے اتنا چمکایا کہ منہ دکھائی دینے لگا۔
”ہم پہنچا دیں ککو میاں ……“ میوہ رام نے کہا۔ کیونکہ وہی تینوں کو روزانہ سائیکل پر اسکول لے جاتے تھے۔
”ہشت!“ ککو نے غرور سے گردن اکڑائی۔ اب انہیں میوہ رام کی قطعی ضرورت نہ تھی۔ آئینے میں دیکھ کر کنگھی کرتے وقت انہیں بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ ماسٹر تو ہو گئے تھے مگر کان پہلے سے کچھ زیادہ ہی لمبے لگ رہے تھے۔ لڑکے مذاق اڑائیں گے۔ یہ سوچ کر انہوں نے کس کر کانوں پر رومال باند ھ لیا کہ کچھ تو چپٹے ہو جائیں۔
سائیکل پر بیٹھ کر تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے اڑاڑاڑادھم!رات کو آنے جانے والوں کو گرانے کے لئے جو پتلی سی ستلی پیڑ اور پھاٹک سے باندھی تھی وہ نظر نہ آئی اور ککو صاحب چت ہو گئے۔ جلدی سے ہڑ بڑا کر اٹھے،کسی نے دیکھا تو نہیں،بھد ہو جائے گی ایک دم۔
پھر سوار ہو کر تھوڑی دور اور چلے تھے”سے فش……“ ا ف پنکچر ہوگیا۔ ہت تیری کی!واپس گھر جاؤ تو پابندی وقت کیسے ہو، کلاس میں دیر ہو جائے گی۔ مجبوراً سائیکل گھسیٹتے چلے اسکول۔ پسینے پسینے ہو گئے، اف رومال لانا بھی بھول گئے۔ خیر شکر ہے ماسٹروں کو رومال نہ لانے پر ڈانٹ نہیں پڑتی، انہوں نے آستیں سے پسینہ پونچھا۔
اسکول کے میدان میں بچے بے تحاشا دوڑ رہے تھے اور غل مچا رہے تھے۔
”اہم!“ رعب ڈالنے کے لئے ماسٹر ککو کھنکارے مگر کسی نے نوٹس نہ لیا۔ دو لڑکے ایک دوسرے کو دھکے دیتے آکے ان کے پیٹ سے لڑ گئے۔
”عُنک!“ دم نکل گیا ککو کا۔ جی چاہا فوراً سب کو مرغا بنا دیں۔ خیر جی کلاس میں خبر لی جائے گی سب کی۔
جیسے ہی کلاس کا دروازہ کھول کر ککو اندر داخل ہوئے سر پر ٹائیں سے ایک پانی سے لبریز ڈبہ گرا اور ککو سر سے پیر تک شرابور ہو گئے۔
اپنی کلاس میں کئی بار یہی حرکت ککو اپنے استادوں کے ساتھ کر چکے تھے اور خوب قہقہے لگایا کرتے تھے۔ مگر آج جو ڈبہ سر پر گرا تو مارے غصے کے بے قابو ہو گئے۔ کلاس میں قیامت برپا تھی۔ کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔ لڑکے کاؤں کاؤں کئے جا رہے تھے۔
”خاموش ہو جاؤ۔“ انہوں نے لڑکوں کو ڈانٹیں بتائیں۔ میز کو دونوں ہاتھوں سے پیٹا، مستر سے کھٹ کھٹ کی، لڑکے ذرا خاموش ہوتے پھر کھی کھی کرنے لگتے۔ باوجود ضبط کے ان کی ہنسی بار بار نکل جاتی تھی۔”بات کیا ہے؟“ ککو نے سوچا، مڑ کر جو دیکھا تو بلیک بورڈ پر ککو صاحب کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ لمبے لمبے گدھے جیسے کان، گول آلو جیسی آنکھوں پر چشمہ، نیچے لکھا تھا۔
”تختی پہ تختی…… ماسٹر جی کی کم بختی۔“
مارے غصے کے ککو صاحب لرز اٹھے۔ آنکھوں سے چنگاریاں برسنے لگیں۔
”یہ کس پاجی کی بدمعاشی ہے۔“ ککو گرجے۔ مگر ان کی آواز چیں سے ہو گئی اور لڑکے مارے ہنسی کے لوٹن کبوتر بن گئے۔ ایک لڑکے نے ڈیسک کے نیچے منہ ڈال کر گدھے کی بولی بول دی۔ کلاس میں زور دار قہقہہ پڑا۔ ککو کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لیں یا زمین پر لیٹ کر خوب لوٹیں لگا کر مچلیں۔ گھر میں جب وہ کبھی کوئی بات منوانا چاہتے تھے یا نہیں کوئی چھیڑ دیتا تھا تو فوراً مچل جایا کرتے تھے۔
”خاموش خاموش…… پاجیو،نا معقولو…… گدھو……“ ککو کا چلاتے چلاتے گلا بیٹھ گیا مگر لڑکے ہنستے رہے، قہقہے لگاتے رہے،
سیٹیاں بجاتے رہے، کوئی بلی کی بولی بول رہا تھا، کوئی کتے کی طرح بھونکتا، کوئی ڈھینچو ڈھینچو کر رہا تھا تو کوئی بھینس کی طرح ارّا رہا تھا۔ ایک لڑکا الو کی نقل کر رہا تھا، دوسرا مرغے کی طرح اذان دے رہا تھا۔ مارے غل کے کان پڑی آوازنہ سنائی دیتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا چاروں طرف سے بھوت پریت نکل کر ڈرا رہے ہیں۔ کلاس نہیں چڑیا خانہ ہے۔ بھانت بھانت کا جانور موجود ہے۔ لڑکے اور بے قابو ہو ئے۔ دو چار نے چاک کے ٹکڑے اور کاغذ کی گولیاں بنا کر ماریں۔ ککو ناک پکڑ کر بیٹھ گئے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ اتنے میں ہیڈ ماسٹر آگئے اور بچے ان کے ڈر سے خاموش ہوگئے۔ ورنہ تھوڑی دیر میں ککو صاحب کا بھرتا بنا کر رکھ دیتے۔
”آپ کیسے ماسٹر ہیں ککو صاحب! آپ بچوں کو خاموش تو کرا نہیں سکتے بھلا پڑھائیں گے کیا خاک۔“ پھر وہ بچوں سے بولے۔
”بچو تم اسکول پڑھنے کے لئے آتے ہو یا غل مچانے۔ کتنی مشکل سے تمہیں اسکول میں داخلہ ملتا ہے۔ تمہارے والدین سفارشیں لا لا کر تمہیں اسکول میں بھرتی کراتے ہیں، اپنی ضرورتیں روک کر تمہاری فیس دیتے ہیں، کتابیں خریدتے ہیں اور تم بجائے پڑھنے کے غل مچاتے ہو۔ ہمارا بھی وقت ضائع کرتے ہو اور اپنے والدین کی گاڑھی کمائی خاک میں ملاتے ہو۔ کیوں؟…… آخر تمہیں اپنا ہی نقصان کر کے کیا فائدہ ملتا ہے۔ ہمارا ملک دوسرے ملکوں کے مقابلے میں تعلیم کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ کتنے بچوں کو یہ تعلیم میسر بھی نہیں جو تمہیں قسمت سے مل رہی ہے۔ کاش تم بد شوق بچوں کے بجائے ہم اسکول میں ان بچوں کو پڑھا سکتے جو علم کی نعمت سے محروم ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے۔بچو تم اپنے والدین، اپنے خاندان اور اپنے ملک کو دھوکا دے رہے ہو۔ پڑھنے کا بہانہ کر کے تم شرارتیں ایجاد کرتے ہو، مگر وہی پرانی سڑی ہوئی شرارتیں جن پر آج کے بچوں کو تو ہنسی بھی نہ آنا چاہیے، تم دہرائے جاتے ہو۔ تم اپنے استاد کی بے عزتی کر کے ہنس رہے ہو صرف اس لئے کہ وہ اپنا دماغ پچی کر کے تمہیں علم کی دولت بخش رہا ہے، تم اسے سزا دے رہے ہو، اس کا کھیل بنا رہے ہو۔“
شرم سے بچوں کے سر جھک گئے۔ سب سے نیچا سر خود ککو کا تھا۔ جو بات ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہی وہ خود انہیں کیوں نہ سوجھی، کل تک ککو خود یہی حرکتیں کر رہے تھے۔ آج وہ نادم تھے۔ خاموشی ہوگئی تو کتاب کھولی۔ مگر پہلا ہی سبق ککو کو خود یاد نہ تھا۔ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کاش ابا سے پوچھ کر پڑھ کر آئے ہوتے۔ اگر غلط سلط پڑھا دیا تو نوکری سے الگ نکال دیے جائیں گے، ٹیٹو اور بیلو کے سامنے ناک کٹ جائے گی۔
ککو تو سمجھے تھے ماسٹر بن کر پڑھائی سے چھٹی مل جائے گی۔ معلوم ہوا کام صرف چوگنا ہوگیا۔ انہیں چار کلاسوں کے لئے روزانہ چار سبق یاد کرنے ہوں گے۔
کسی نے پھر چاک کا ٹکڑا ناک پر مارا۔ ککو نے گھور کر دیکھا تو سب انجان بن کر بیٹھ گئے۔ جیسے کچھ معلوم ہی نہیں۔ ککو نے صبر سے کام لیا۔ ان آنسوؤں کو پی گئے جو ان کی آنکھوں میں امڈ رہے تھے۔
سوال حل کرنے کے بعد چاروں طرف سے لڑکے کاپیاں لے کر پل پڑے، ایسے کہ سانس لینا مشکل ہوگیا۔ لڑکوں کو تو صرف ایک ایک سوال کرنا پڑا ککو صاحب کو پینتیس لڑکوں کی پینتیس کاپیوں میں پینتیس دفعہ ایک ہی سوال کرنا پڑا کیونکہ چند ہی لڑکوں نے ٹھیک سوال کیا تھا۔ اف پینتیس لڑکے اور ایک بیچارا ماسٹر!کچومر نکل گیا۔
شکر ہے کہ اتنے میں گھنٹا بج گیا اور باقی کاپیاں ککو نے اٹھا کر بیگ میں ڈالیں کہ گھر سے صحیح کر کے لائیں گے۔ خیال تھا آج ماسٹر بننے کی خوشی میں سینما جائیں گے مگر سب سینماوینما دھرا رہ گیا۔ اتنا کام کرنا ہوگا، وہ کون کرے گا۔
دوسرے درجے میں گئے تو وہاں بھی خاصی گت بنی۔ بڑی مشکل سے پندرہ منٹ برباد کرنے کے بعد لڑکے خاموش ہوئے۔ جغرافیہ پڑھانے لگے۔ پڑھا ہوا سبق تھا بھول بھال چکے تھے۔ چپکے چپکے کتاب میں سے دیکھ کر پڑھانے لگے۔ لڑکے بھی چالاک تھے کتاب میں سے دیکھ دیکھ کر جواب دینے لگے۔
”اے لڑکو! کتاب میں سے دیکھ کر جواب مت دو۔“ ککو نے ڈانٹا۔
”ماسٹر صاحب! آپ بھی تو کتاب میں سے دیکھ دیکھ کر پڑھا رہے ہیں۔“
لڑکوں نے فوراً جواب دیا تو ککو سٹپٹا گئے۔ اور بڑی مصیبت!اب گھر سے جغرافیہ بھی پڑھ کر آنا پڑے گا۔
اس گھنٹے کے بعد چھٹی تھی۔ ککو جو کلاس سے اٹھ کر جانے لگے تو کلاس کے لڑکوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ گھبرائے ہوئے غرور سے گردن اکڑائے باہر نکل آئے۔ اب یہ جدھر جاتے ہیں لوگ ہنس ہنس کر بے حال ہوئے جاتے ہیں۔ لڑکوں کو تو ڈانٹ دیا مگر جب استاد بھی انہیں دیکھ کر قہقہے لگانے لگے تو ککو کاخون کھول گیا۔ اور تو اور ہیڈ ماسٹر صاحب بھی گزرے تو وہ بھی مسکرانے لگے۔ ککو چکرائے۔ ”یا خدا یہ کیا مصیبت ہے۔“ گھبرا کر کان ٹٹولے کہ کہیں اور لمبے تو نہیں ہو گئے، کیا ہوگیا کہ ہر ایک ہنسے جا رہا ہے۔
اتنے میں بیلو اور ٹیٹو بھی آن پہنچے۔ انہوں نے بھی بے اختیار قہقہے لگانے شروع کر دیے۔
”فوراً مرغا بن جاؤ نالائقو۔“
”ارے واہ بے کار میں مرغا بن جائیں۔ ککو صاحب اینٹھ رہے ہیں۔“ ٹیٹو منمنائے۔
”تو کیوں ہنس رہے ہو؟“ ککو غرائے۔
”اپنا کوٹ اتارو۔“ بیلو نے رائے دی۔
”واہ جناب کیوں اتاریں؟“ ککو اکڑے۔
”تمہاری پیٹھ پر کچھ لکھا ہے۔“ ٹیٹو ہنسے۔
کوٹ اتار کر دیکھا تو ککو رو دیے۔ کسی بدمعاش لڑکے نے لکھا تھا۔
”میں گدھا ہوں۔“
انٹرول میں بیلو اور ٹیٹو مزے سے کھڑے مونگ پھلیاں اور بیر کھا رہے تھے۔ ککو کے منہ میں پانی بھر رہا تھا۔ مگر بیچارے نہیں کھا سکتے تھے۔ کیوں کہ ماسٹروں کو ایسی بیہودہ چیزیں نہیں کھانی چاہئیں۔ چند ماسٹر سگریٹ پی رہے تھے۔ ککو نے بھی سگرٹ سلگائی۔ خالی پیٹ میں سگرٹ کے دھوئیں سے آگ لگنے لگی۔ جل کر سگریٹ پھینک دی۔ کس قدر بیہودہ چیز!اس کے مقابلے میں کھٹے میٹھے بیر اور سوندھی سوندھی مونگ پھلیاں نعمت ہیں۔ مگر جب کوئی ماسٹر بیر نہیں چاب رہا تھا تو ککو کیسے اتنی غیر ماسٹرانہ حرکت کر سکتے تھے۔ دل پر پتھر رکھے بیٹھے رہے۔
دن نہ جانے کیسے گزرا۔ باقی گھنٹوں میں بھی لڑکوں نے اتنا ستایا، اتنا کہ ککو کو چیخنا پڑا کہ گلا بیٹھ گیا، مارتے مارتے ہاتھ شل ہو گئے۔ مگر لڑکے برابر شرارت کئے گئے۔ ککو جو اپنی کلاس کے دادا، سب سے زیادہ شور مچایا کرتے تھے۔ انہیں اپنے اوپر نازتھاکہ سارے ماسٹر ان کے نام سے لرزتے تھے۔ آج خود لڑکوں میں ایسے گھرے ہوئے تھے جیسے خونخوار شکاری کتوں کے بیچ ایک زخمی خرگوش!
اسکول کے بعد ککو بالکل تھک کر چور ہو گئے تھے۔ جی چاہتا تھا گھر جا کر آنکھیں بند کر کے پلنگ پر لمبے لمبے لیٹ جائیں،کبھی نہ اٹھیں۔ مگر ابھی تو انہیں ڈیڑھ سو لڑکوں کو گیم کھلانے تھے۔
کھیل کے میدان میں لڑکے بالکل ہی بے قابو ہو گئے۔ سیٹی بجاتے بجاتے تالو چٹخنے لگا، مگر لڑکے ذرا کے ذرا خاموش ہوتے پھر کاؤں کاؤں کرنے لگتے۔
ایک دم سے ایک فٹ بال آکر دھائیں سے ککو کی ناک پر لگی۔ سر جھنا کر رہ گیا، دن میں تارے نظر آنے لگے۔ ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا اور ککو چکرا کر وہیں ڈھیر ہوگئے۔ ذرا حواس ٹھکانے ہوئے تو چاروں طرف دیکھا کہ کس نے بال ماری تھی۔ سب لڑکے نہایت معصوم صورتیں بنائے کھڑے تھے جیسے بیچاروں نے بال عمر بھر دیکھی نہ ہو۔
”کس نے پھینکی تھی بال؟“ککو غرائے۔
”ماس صاحب ہم نے نہیں پھینکی تھی، چوتھی کلاس نے پھینکی تھی۔“ ککو چوتھی جماعت پر جھپٹے۔
”نہیں ماٹ صاحب ہم تو کر کٹ کی مشق کررہے ہیں، پانچویں نے پھینکی ہو گی۔“
ککو چوتھی سے پانچویں کی طرف لپکے۔ وہ بال سے کھیل ہی نہیں رہے تھے،وہ تو کبڈی کھیل رہے تھے۔
غرض ادھر ادھر بہت دوڑ بھاگ کی، مجرم کا پتا نہ چلا۔ اب تو ککو کا صبر کا پیمانہ چھلک گیا۔ سیدھے ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس شکایت لے کر پہنچے کہ کسی نے انکی ناک پر گیند مار دی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ککو کی پکوڑا سی لال ناک دیکھ کر مسکرا دیے۔
”ارے صاحب بچے ہیں جانے دیجئے۔“
”جی ہاں بچے ہیں کہ آسیب۔ صبح سے زندگی دو بھر کردی ہے اور آپ فرماتے ہیں جانے دیجیے۔ باز آیا میں ایسی نوکری سے۔“ ککو بگڑے۔
”مگر اب تو کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ اب تو ہم نے آپ کو مستقل استاد بنا دیا ہے۔ ایک سو پچیس روپے ملیں گے، سات گھنٹے پڑھانا ہوگا۔“
”سات گھنٹے روزانہ؟ یعنی مہینے میں دو سودس گھنٹے۔ یعنی فی گھنٹا آٹھ نو آنے کے حساب سے۔ یعنی کہ نو آنے میں چالیس لڑکوں کو ایک گھنٹا پڑھانا۔ فی لڑکا ایک پیسے سے بھی کم……!“ککو کو چکر آگیا۔
”اس کے علاوہ……“ ہیڈ ماسٹر بولے۔
”صاحب ابھی اس کے علاوہ بھی ہے؟“ ککو حیرت سے لرز اٹھے۔
”جی ہاں کھیل اور ڈرل کی نگرانی بھی کرنی ہوگی۔“
”اف میری ناک تو ختم سمجھو……“
”اس کے علاوہ……“ ہیڈ ماسٹر بولے۔
”یعنی…… یعنی ابھی اور بہت سی علاوہ ہیں؟“ ککو کی آواز گلے میں گھٹ گئی۔
”اسکول کا سالانہ جلسہ ہونے والا ہے، اس کا انتظام آپ کو ہی کرنا ہوگا…… رجسٹر تو آپ روزانہ بھر ہی لیں گے۔ امتحان آرہے ہیں، پرچے بنا ڈالئے گا۔ کاپیاں دیکھتے دیکھتے کئی دن لگ جائیں گے۔ لائبریری پر بھی ذرا نظر رکھنی ہوگی۔“
”مگر……مگر صاحب……مجھ سے اتنا سارا کام کیسے ہوگا؟“
”ایک سو پچیس روپے تنخواہ جو ملے گی۔“
”مگر…… صاحب ایک سو پچیس یعنی فی لڑکا فی گھنٹا ایک پیسے سے بھی کم۔ اماں کہتی ہیں نوکر ہو جاؤ گے تو اپنا خرچ خود اٹھانا پڑے گا۔ مکان کا کرایہ، نوکروں کی تنخواہ، بھنگی بہشتی دھوبی اور پھر گیہوں چاول دال ترکاری۔ اتنے لڑکوں کو پڑھانا، انہیں پڑھانے کے لئے خود پہلے پڑھ کر سبق تیار کرکے لانا۔ پھر روزانہ سائیکل میں پنکچر…… سر پر پانی بھرا ڈبہ، کوٹ پر لکھا ہوا۔”میں گدھا ہوں۔“ الجبرا …… جیومیٹری
……جغرافیہ……تاریخ اور ناک پر فٹ بال…… نا بابا بخشو، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ میں مر جاؤں گا صاحب۔“
”مگر اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایک بار جب کسی کو ٹیچر بنا دیا جاتا ہے تو جب پنشن ملتی ہے جب ہی رہائی ملتی ہے۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بتایا۔
”کب ملے گی پنشن۔“ ککو خوش ہو گئے۔”صاحب مجھے نوکری نہیں چاہئے۔ مجھے صرف پنشن دے دیجیے۔“ ککو گڑگڑائے۔
”معلوم ہوتا ہے کسی نے آپ کی پیٹھ پر سچی بات ہی لکھی تھی۔ پنشن تو تیس چالیس سال بعد ملے گی آپ کو۔ پہلے نوکری تو کیجیے۔“ ہیڈ ماسٹر مسکرائے۔
”تیس ……چالیس…… یا پروردگار رحم۔“ آؤ دیکھا نہ تاؤ ککو ایک زقند میں ہیڈ ماسٹر کے دفتر سے باہر کود گئے۔
”لینا پکڑنا جانے نہ پائے۔“ پیچھے سے لونڈوں نے دھیری لگائی۔ مگر ککو نے ایک تڑک لگائی اور دیوار پھاندگئے۔ لڑکے کہاں چھوڑنے والے تھے۔ وہ بھی لپکے تعاقب میں۔
مگر ککو ہتھیلی پر سر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ گھورے پر سے الانگتے پھلانگتے وہ ایک گوبر کے ڈھیر پر پھسلے وہاں سے جو اچکے تو نالی میں گرے۔ بڑی مشکل سے اٹھ کر بھاگے تو کیلے کے چھلکوں پر پیر رپٹا۔ لڑکے کیلے، مونگ پھلیاں کھا کر میدان میں ہی سب چھلکے ڈال گئے تھے۔ پھر بھی لڑکوں نے پیچھا نہ چھوڑا۔ انہیں پتا چل گیا تھا کہ نئے ماسٹر صاحب بالکل گاؤدی ہیں۔ انہیں ایسے احمق ماسٹر بہت پسند تھے۔ چیختے چلاتے وہ برابر دوڑتے چلے آرہے تھے۔
”نہ جائیے ماٹ صاحب۔“
ککو نے مڑ کر دیکھا تو لڑکوں کا ایک غول ان کے پیچھے لپکا چلا آرہا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں گز گز بھرکی لمبی پنسلیں تھیں۔نیزوں برابر قلم اور گھڑے برابردواتیں اور پلنگ برابر کتابیں تھیں۔کشن کے برابر ربڑ اور کھنبوں سے بھی اونچے پرکار اور فٹے ان کے پیچھے پیچھے لمبے ڈگ مارتے چلے آرہے تھے۔ ککو کی خوف کے مارے گھگی بندھ گئی۔ وہ اور تیز بھاگے۔ دور گھنے جنگل میں جہاں کالے کالے پیڑ بانہیں پھیلائے انہیں دبوچنے کو کھڑے تھے۔ ہوا سائیں سائیں پھنکار رہی تھی۔ پتے تالیاں پیٹ رہے تھے۔ پیڑوں پر سے بندر اور لنگور دانت کچکچا کر کہہ رہے تھے۔
”ہمیں پڑھاؤ ماسٹر صاحب۔ جامیٹری، الجبرا، تاریخ اور جغرافیہ پڑھاؤ۔“ ککو نے بندروں سے بہت جان چھڑانی چاہی مگر دو نے ان کے ہاتھ پکڑے اور دو نے پیر اور ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر چھلانگیں لگاتے اڑانیں بھرتے وہ انہیں اپنے اسکول لے چلے۔
پیڑوں کی بلند چوٹیوں پر سے ککو نے لرز کر دیکھا نیچے لڑکے پلنگ برابر کتابیں لئے چلا رہے تھے۔”آؤ آؤ…… ہمیں پڑھاؤ……“
”نہیں نہیں ہمیں پڑھاؤ……“ بندروں نے کہا۔
”ہم تمہیں ایک سو پچیس روپے دیں گے۔“ لڑکے چلائے۔
”ہم تمہیں ایک سو پچیس ناریل دیں گے۔ تم ہمیں پڑھاؤ۔“بندر چیخے۔
”ہمیں مرغا بناؤ……“ لڑکوں نے کہا۔
”ہمیں بنچ پر کھڑا کر دو……“ لنگوروں نے فرمائش کی اور ککو نے بندروں کی طرف دیکھا…… پھر لڑکوں کی طرف دیکھا۔ ان کی سمجھ میں نہ آیا وہ ان میں سے کس کی نوکری لیں۔ بندر انہیں اور بھی اونچا لے گئے۔ ککو کا سر گھومنے لگا، پیڑگھومنے لگے، پتے اور ٹہنیاں،زمین اور آسمان سب ایک بڑے سے ہنڈولے کی طرح اوپر نیچے چکر لگانے لگے۔ ساری دنیا گڈ مڈ ہو گئی۔ لڑکوں نے نیچے اور بندروں نے اوپر بلانا شروع کیا۔ پھر لڑکوں نے تاک تاک کر روپیوں کی تھیلیاں مارنا شروع کیں۔ بندر کب چوکنے والے تھے، انہوں نے ایک سو پچیس ناریل ان کے سر پر مارنے شروع کر دیے۔نیچے سے روپیوں کی مار اور اوپر سے ناریلوں کی بوچھار، ککو بے دم ہو گئے اور پھر جو لنگوروں نے اپنی دموں کو ان کے جسم کے گرد رسیوں کی طرح لپیٹ کر ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر لمبی چھلانگ لگائی تو وہ بیچ ہی میں ٹوٹ گئی اور ککو کٹی ہوئی پتنگ کی طرح تیرتے پتیا تے سائیں سائیں پھنکارتی ہوا میں قلابازیاں کھاتے نیچے گرنے لگے۔ لڑکوں نے جلدی سے ایک کتاب کے چاروں کونے پکڑ کر پھیلا دی اور ککو دھم سے اس پر آن گرے۔
گرتے ہی ان کی آنکھ کھل گئی…… وہ اپنے پلنگ پر پڑے تھے اور آلہ ان کا کندھا ہلا کر کہہ رہی تھیں۔
”کب تک سوئے گا ککو بیٹے۔ اسکول کا وقت ہو رہا ہے۔“
اس دن جب ککو اسکول گئے تو چپ چاپ تھے۔ نہ انہوں نے لڑکوں کے کہنیاں ماریں، نہ کسی کے اڑنگا لگایا۔ بیلو ٹیٹو نے جب ان سے کہا۔
”آؤ یار آج ماسٹر کی میز میں مرا ہوا چوہا رکھیں۔“ تو ککو ایک دم لرز کر زرد پڑ گئے۔ انہوں نے بڑی سختی سے مخالفت کی۔
”اسکول میں پڑھنے آتے ہو یا اپنا اور ماسٹروں کا وقت ضائع کرنے آتے ہو۔“
انہوں نے ایک لمبا لیکچر دے ڈالا۔ مارے حیرت کے بیچاروں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کلاس کے دادا یہ کیسی باتیں کہہ رہے تھے!
”ہائے بیچارے ککو کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ کہ ہر شرارت کی کاٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔“
اب جب بھی کبھی لڑکے کوئی سازش کرتے ہیں تو ککو بڑے زور شور سے انہیں روکتے ہیں۔ اپنے ڈراؤنے خواب کا وہ کبھی کسی سے ذکر نہیں کرتے۔ کہیں سب مذاق نہ اڑانے لگیں!
۔۔۔۔۔
”بھئی جسے دیکھو انکم ٹیکس کے خوف سے مرا جا رہا ہے۔ آخر یہ ٹیکس نکالا کس نے۔“
بیلو کو آج وسیم بھائی نے پیٹتے پیٹتے چھوڑا۔ ایک تو بیچارے کا انکم ٹیکس والوں نے ناطقہ بند کر کے حلیہ بگاڑ رکھا ہے۔ اوپر سے بیلو کے ہاتھ سے بیڈ منٹن کا ریکٹ چھوٹ کر ان کے ٹخنے پر لگا۔ بلبلا ہی کر تو رہ گئے۔
”ضرور دادی اماں نے ایجاد کیا ہوگا۔“ بیلو نے فیصلہ کیا۔وہی ایسی ان گھڑ چیزیں نکالا کرتی ہیں کہ سب کی جان آفت میں آجائے اور کچھ نہیں تو مر کھنی بھینس ہی دروازے کے پاس باندھ دی جو آتے جاتے سب پر خفا ہو کر سینگ تانتی ہے۔ اماں سے پوچھنا تو موت کو دعوت دینا ہے۔ فوراً سوالوں کی الٹی بارش شروع کر دیں گی۔
”باتھ رو م آئے ہو؟ ناک صاف کی؟ کانوں کے پیچھے صابن ملا۔ انہہ آخر فائدہ کیا ہوتا ہے، اتنی صفائی کرنے سے،پھر ناک میلی تو ہو جاتی ہے۔ وہ ویسے ہی آج تو غصے میں بھری بیٹھی ہیں، ان کی دلائی کی گوٹ میں کان آگئی ہے۔ تخت پر صبح سے بچھائے سب سے جھگڑ رہی ہیں۔ کوئی بچہ دور سے بھی گزر جائے تو چنگھاڑنے لگتی ہیں۔
”ٹانگیں توڑ دوں گی جو کوئی سور ادھر آیا تو۔“
کا اماں اپنی کڑھائی میں جٹی ہیں، دین دنیا کی فکر نہیں۔ کمی آپا؟ اول نمبر کی جاہل اور بد ہیں، کبھی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتیں۔ لے دے کر ایک صوفی آلہ کا سہارا رہ گیا ہے۔ ویسے بمبئی سے پارسل بھی ڈاکٹر ممانی نے بھیجا ہے۔ ان کے پاس جانے میں فائدے ہی فائدے ہیں۔
ان کے پاس گئے تو وہ ٹالنے لگیں۔
”بھئی انکم ٹیکس کی کہانی بڑی لمبی ہے۔ پھر کسی وقت سنائیں گے۔“ انہوں نے ٹالنا چاہا مگر تینوں جان کو آگئے۔ اب تو امتحانوں کا بہانہ بھی نہیں چلے گا۔ مجبوراً چاکلیٹ کا تازہ ڈبہ کھولنا پڑا کیوں کہ انکم ٹیکس کا پیچیدہ مسئلہ بغیر چاکلیٹں کے کس طرح سمجھا جا سکتاہے۔
”لاکھوں برس ہوئے جب دنیا جوان تھی……“ انہوں نے کہنا شروع کیا۔”بلکہ یہ کہنا چاہیے جب دنیا بچہ تھی۔“
”کیا بہت چھوٹی تھی۔“ ٹیٹو بولے۔
”نہیں …… جسامت میں تو چھوٹی نہیں تھی۔ انسان موٹروں، ریلوں اور ہوائی جہازوں کی دنیا سے دور جنگلوں میں جانوروں کی طرح رہتا تھا۔“
”صوفی آلہ کیا یہ سچ ہے کہ انسان پہلے بندر تھا۔“ بیلو ٹپکے بیچ میں۔
”اور کیا۔ ٹیٹو کی ناک سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اب بھی بہت سے انسان اپنے آباؤاجداد سے ملتے جلتے ہیں۔“
”آں ہاں …… اور ککو صاحب کے کان بھی تو بندر جیسے ہیں۔“ ٹیٹو بگڑے۔
”ہاں اور حرکتوں میں تم تینوں بندروں کے بھی کان کاٹتے ہو۔“ تینوں کو چاکلیٹ دیتے ہوئے بولیں۔ ”مگر آہستہ آہستہ صدیاں گزرتی گئیں۔ انسان مہذب ہوتا گیا۔ ترقی کرتا گیا۔ پہلے شکارکر کے لاتا تھا۔ سب کھا کر ختم کر دیتا تھا۔ یا پھینک دیتا تھا۔ دوسرے وقت بھوک لگتی تھی تو دوسرا شکار کر لیتا تھا۔ پھر اسے سمجھ آئی۔ اس نے زندہ جانور پکڑ کر انہیں پالنا شروع کیا تا کہ بھوک لگے تو بجائے پھر شکار کی تکلیفیں اٹھانے کے پلا ہوا جانور مار کر کھا لے۔ ظاہر ہے ایک جانور پورا تو ایک آدمی کھا نہیں سکتا تھا۔ بجائے سڑا کر پھینک دینے کے اس نے یہ کیا کہ پلا ہوا جانور مار کر اوروں کو بھی بانٹا کہ بھئی آج ہماراجانور کل تم اپنا مارنا تو ہمیں دے دینا۔ یوں جانوروں کا گوشت برباد ہونے سے بچ رہا……جانوروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ گلے بن گئے۔ پھر زمانے نے اور ترقی کی۔ انسان اناج کھاتا تھا۔ جیسے کتے بلیاں بھی گوشت کے ساتھ تھوڑی سبزی پیٹ صاف کرنے کوکھاتے ہیں۔ اناج کی تلاش میں اسے جنگلوں کو جانا پڑتا تھا۔ اس لئے اس نے اپنے رہنے کے لئے جو گھر بنائے تھے ان کے آس پاس ہی اناج بونے لگا۔ جنہیں ہم کھیت کہتے ہیں۔
”بڑا چالاک تھا پٹھا۔“ ککو حیرت سے بولے۔
”ہاں …… پھر صدیاں گزریں …… انسان ترقی کرتا گیا۔ آرام کے لئے سڑکیں، تالاب، کنوئیں اور نہریں بنانے لگا۔ پہلے تو یہ ہوتا کہ جو پہلے آکر تالاب پر قبضہ کر کے بیٹھ جاتا وہ دوسروں کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا۔ مگر پھر لوگوں نے مل کر ساجھے میں آرام کی چیزیں بنانی شروع کیں۔ لوگ ان آرام کی چیزوں کے آس پاس ہی آکر بسنے لگے۔ ظاہر ہے ان چیزوں کے بنانے میں انہیں بھی محنت دینا پڑی تھی۔“
”اور جو وہ نہ دیتے تو……“ بیلو بڑا کاہل ہے کام کے ذکر سے بھی جان چراتا ہے۔
”واہ جناب محنت کیسے نہیں کریں گے۔ جو لوگ نہیں کرتے انہیں ان چیزوں کے استعمال کا بھی کوئی حق نہیں۔ فرض کرو کوئی دودن کے لئے کسی کام سے گاؤں میں آتا…… اب ظاہر ہے اس پر پانی اور سڑک کے استعمال کا ڈنڈ پڑتا۔ کسی نہ کسی صورت میں اسے قیمت ادا کرنی پڑتی۔“
”یہ تو ٹھیک بات تھی۔“ ککو قائل ہو گئے۔”مگر انکم ٹیکس؟“
”آتا ہے انکم ٹیکس بھی، چپکے بیٹھ کر سنو ورنہ بھاگو یہاں سے۔“
”یہ ککو بڑ بڑ بولے چلے جاتے ہیں۔“
”آہا…… جیسے آپ تو منہ میں تالا ڈالے بیٹھے ہیں۔“ ککو چڑ گئے۔
”انہیں بکنے دیجیے صوفی آلہ، تو پھر……“
”پھر دنیا اور بڑھی…… اور بڑھی……“
”پھر؟“
”پھر بڑے بڑے شہر آباد ہوئے…… عبادت خانے بنے…… مکتب اور پاٹھ شالے بنے……ریلیں اور کارخانے بنے۔“
”موٹر اور ہوائی جہاز بنے……“ ٹیٹو بولے۔
”توپ اور گولے بنے۔“
”اونہہ وہ تو پہلے ہی بن چکے تھے۔“
”ایٹم بم بنا……“
”صوفی آلہ یہ ایٹم بم کس بے وقوف نے بنایا؟“
”بے وقوف ہو تم جو بے سوچے سمجھے بک دیتے ہو۔ ایٹم کی طاقت معلوم کرنے والے نے ایٹم اس لئے نہیں ڈھونڈا تھا کہ اسے انسان کو فناکرنے میں استعمال کیا جائے۔ ایک طاقت دریافت کی تھی جو بڑے بڑے کام منٹوں میں کر سکتی ہے۔“
”جادو کے زور سے۔“ ٹیٹو بولے۔
”آپ تو الو ہیں ٹیٹو صاحب۔“
”جانتے ہو بارود سب سے پہلے کس کام میں استعمال ہوتی تھی؟“
”بم بنانے میں۔“
”بم تو کمبخت بعد میں بننے لگے پہلے تو آتش بازی میں بھری جاتی تھی۔ انار، پھلجڑیاں چھڑانے کے لئے۔ مگر لوگوں نے اس کھیل کی چیز کو موت کا فرشتہ بنا دیا۔“
”چہ چہ…… یہ تو برا ہوا……ایک بم میں کتنی لاکھ پھلجڑیاں بن سکتی ہیں۔ کیوں صوفی آلہ۔“
”ہاں بھئی…… مگر انسان دشمن بم ہی بناتے ہیں۔“
”تو پھر انکم ٹیکس۔“
”اب بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ جوں جوں دنیا ترقی کرتی گئی، لوگ زیادہ سے زیادہ ساجھے داری کرتے گئے۔ ساجھے سے ہی بڑی بڑی سڑکیں، نہریں، اسکول اور لائبریریاں بننے لگیں۔“
”اور سینما ہال۔“
”ہاں سینما ہال…… اور چوں کہ چور اچکے کاہل بھی ہوتے تھے۔ ان سے اپنی دولت کو بچانے کے لئے چوکیدار اور پہرے دار بھی ساجھے رکھنے پڑے۔ پھر آئے دن جو جھگڑے ٹنٹے ہوتے تھے ان کا فیصلہ کرنے کے لئے جج مقرر ہوئے۔ کورٹ کچہریاں بنیں۔“
”سب ساجھے سے۔“
”اور کیا؟ ہر آدمی اپنا الگ الگ کورٹ بناتا، سڑک بناتا، کارخانے بناتا،ان کی حفاظت بھی خود ہی کرتا…… اپنے بچوں کے لئے اسکول بناتا…… اپنی اکیلے کی الگ ریل کی پٹریاں بچھاتا تو کتنی گڑ بڑ ہوتی……“ بیلو بولے۔ ٹیٹو چڑھ گئے۔
”ہم تو اپنی الگ ریل گاڑی خریدیں گے۔“ وہ بولے۔
”اجی ہاں …… مر جاؤگے پوری ریل خریدو گے تو…… اور پھر سارے ملک میں اپنی پٹریاں بھی بچھانا…… ہم جناب کو اپنی پٹریوں پر نہیں چلانے دیں گے۔“ ککو نے دھمکی دی۔
”اور اپنے لئے سارے ملک میں سڑک بھی الگ بنانا…… ہماری سڑک پر چلے تو ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔“
”انہہ بھئی تم تو لڑنے لگتے ہو۔ ٹھیک تو ہے ٹیٹو…… تم کاہے کو سارے ملک میں سڑکیں بناتے پھرو…… چندہ دے دو جیسے سب دیتے ہیں۔ ساجھے میں سب چیزیں بن جائیں گی۔“
”اچھا بھئی ہم دے دیں گے چندہ…… بس؟“
”بس اس چندے ہی کو انکم ٹیکس کہتے ہیں۔ یہ چندہ جمع کر کے اس سے اسکول بنائے جاتے ہیں، لائبریریاں بنتی ہیں۔“
”واہ صوفی آلہ تو پھر ہم فیس کیوں دیں۔ اسکول ہمارے چندے سے بنے ہیں تو وہ ہمارے ہیں …… پھر……“
”اسکول بن جانے کے بعد ان پر کیا اور سالانہ خرچہ نہیں آتا؟ استادوں کی تنخواہیں، پورے عملے کا خرچ، پھر عمارتوں کی مرمت، ساری سرکاری عمارتوں کی مرمت، سامان ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے،اس کا خرچ۔“
”پرسوں ٹیٹو صاحب نے ایک بنچ توڑ دی لے کے۔“ ککو نے شکایت جڑی۔
”واہ جناب آپ ہی نے تو دھکا دیا تھا۔ لے کے ہمارا نام لے دیا۔“ ٹیٹو منمنائے۔
”خیر وہ جس نے بھی توڑی اسکی جگہ دوسری خریدنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ ملک میں اور کتنے خرچ ہیں۔ ملک کی حفاظت کے لئے فوج رکھنا پڑتی ہے۔ پولیس، کچہریاں، ججوں کی تنخواہیں …… لاکھوں خرچ ہیں۔ یہ سب اسی انکم ٹیکس سے پورے ہوتے ہیں۔“ صوفی آلہ نے بتایا۔
”فیصلوں کے لئے ججوں کی کیا ضرورت ہے۔ خود جو فیصلہ کر لیا کریں لوگ۔“
”ٹیٹو صاحب آپ تو گدھے ہیں۔ خود ہی لوگ جھگڑا کریں، خود ہی فیصلہ کریں۔ تو خوب بے ایمانی کریں گے۔“ ککو نے ڈانٹا۔
”انسان جب قبیلوں میں رہنے لگے تو آپس کے جھگڑے قبیلوں کے بزرگ اور سمجھ دار لوگ چکا دیا کرتے تھے۔ مگر جوں جوں دنیا ترقی کرتی گئی کام الجھتے گئے۔ جھگڑے بھی بڑھتے گئے۔ کوئی کسی کی زمین پر قبضہ کر بیٹھتا۔ کوئی کسی کی گائیں چرا لیتا۔یہ بزرگ گواہوں کی مدد سے مقدمے سنتے اورفیصلے کرتے۔ ان فیصلوں کو انصاف سے چکانے کے لئے قانون بنائے گئے۔ قانون کو عمل میں لانے کے لئے کچھ مضبوط بھروسے کے آدمی مقرر کئے گئے۔ اب ظاہر ہے کہ جو لوگ فیصلہ کرتے تھے، امن قائم رکھتے تھے یا تعلیم دیتے تھے ان کے پاس اتنا وقت نہیں رہتا تھا کہ اپنے کھانے کے لئے اناج بوئیں۔ لہٰذا دوسرے لوگوں نے کہا،”بھئی تم ہمارے یہ کام سنبھالو، تمہارے خرچ کا ذمہ ہم لیتے ہیں۔“ اس طرح سب اپنا کام بانٹ کر کرنے لگے۔ اس سے بہت آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ ہر شخص اپنا کام دھیان لگا کر کرنے لگا۔ ذرا سوچو تمہارے استادوں کو اگر کھیتی کرنا پڑ ے اور مویشیوں کی دیکھ بھال وغیرہ کا بار بھی پڑ جائے تو وہ تمہیں پڑھائیں کس وقت۔“
”اور جناب جج صاحب گائے دوہنے لگیں اور وہ ان کے ایک لات رسید کردے تو ساری کچہری کا پٹرا ہو جائے۔“ بیلو نے کہا۔
”مگر وہ انکم ٹیکس کی بات تو بھول گئیں آپ۔“ ککو نے کہا۔
”ارے بھئی بس سمجھ لو جوچندہ جمع کیا گیا، اسی کا نام انکم ٹیکس رکھا گیا۔“
”صوفی آلہ……“ ٹیٹو بڑے فکر مند ہو کر بولے۔
”ہاں۔“
”یہ جو پکنک کا چندہ لیا جاتا ہے، کیا وہ بھی انکم ٹیکس ہوا۔“
”ہاں بھئی۔ مگر انکم ٹیکس سب سے برابر کا نہیں لیا جاتا۔“
”کیوں صوفی آلہ یہ تو سخت بے ایمانی ہے۔“
”جو زیادہ امیر ہیں ان سے زیادہ لیا جاتا ہے۔ جو بالکل غریب ہیں ان سے کچھ بھی نہیں لیا جاتا۔ جو درمیانے درجے کے ہیں ان سے تھوڑا سا لیا جاتا ہے۔“
”مگر یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ کیا غریب آدمی سڑک پر نہیں چلتے۔ کیا فوج ان کی حفاظت نہیں کرتی۔ کچہریاں ان کے فیصلے نہیں کرتیں۔ ان کے بچے بھی تو اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ قطعی بے ایمانی۔“
”مگر جناب امیروں کو زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے پولیس ان کا زیادہ کام کرتی ہے۔ غریب تو پیدل چلتے ہیں سڑک تھوڑی سی گھستی ہے۔ ان کی موٹریں دوڑتی ہیں زیادہ سڑکیں گھستی ہیں۔“ بیلو نے تشریح کی۔
”موٹے بھی یہ زیادہ ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں۔“ ککو نے کہا۔
”مگر موٹی قصائینی بھی تو موٹی ہے۔“ ٹیٹو نے احتجاج کیا۔
”موٹے دبلے سے کچھ نہیں ہوتا۔ انکم ٹیکس جمع کرنے کا بس یہی قانون ہے کہ جس کی جتنی آمدنی ہوتی ہے اسی کے مطابق ٹیکس ہوتا ہے۔ تمہیں اس دن بتایا تو تھا۔ اسی ٹیکس سے دنیا کے کام چلتے ہیں۔“
”مگر ہم تو ٹیکس نہیں دیتے صوفی آلہ۔“
”تم ابھی چھوٹے ہو۔ پڑھ لکھ جاؤگے تمہیں بھی خرچ اٹھانے پڑیں گے۔ بال بچوں کا خرچ برداشت کرنا پڑے گا۔پھر چندہ بھی دینا پڑے گا۔“
”کچھ جو اٹھائیں ہم سوروں کا خرچہ۔ پیدا ہوتے ہی مار ڈالیں گے۔ ہم سارے بچوں کو۔“ ککو بولے۔”اور اپنی تنخواہ کی ساری ٹافیاں منگا کر کھا جایا کریں گے۔“
”تب تو جناب کے دانت بالکل سڑ کر گر جائیں گے۔“ ٹیٹو نے یاد دلایا۔”اور آپ صفا مر جائیں گے اور پھر کیا آپ اماں کو بھی نہیں دیں گے پیسے۔“
”ہاں بس اماں کو آدھے پیسے دے دیا کریں گے۔ ہیں صوفی آلہ۔“
”ہاں بھئی کیوں نہیں دو گے۔ بات تو جب ہے کہ تم آج ہی سے حساب لگا کر رکھو کہ آج تک اماں نے تمہارے اوپر کتنے روپئے خرچ کئے ہیں۔ بس اتنا ہی مع سود کے دے دینا۔“
”ارے باپ رے مر گئے۔ بہت ہوجائے گا۔“ ککو بڑا کنجوس ہے۔
”اماں کو واپس کرنے کی ضرورت نہیں جو تم پر خرچ ہوا ہے وہ تم اپنے لڑکے پر خرچ کر دینا۔“
”بھئی ہمارے قطعی کوئی بچہ نہ ہوگا…… مر جائے گا سور……“
”اچھا تو تم اس سور کے بچے کو دفن کر آنا اور کوئی بچہ لے کر اس کے اوپر یہی روپیہ صرف کر دینا۔“
”اور واہ…… اور جب وہ بڑا ہو جائے گا تو وہ کسی اور پر خرچ کر دے گا…… پھر جب ”کسی اور“ بڑا ہوگا تو وہ کسی اور پر خرچ کرے گا…… یونہی”کسی اور“ کا سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔“ بیلو چہکے۔
”ہاں …… والدین کا قرض کسی بھی ملک کے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر کے اتارا جا سکتا ہے۔“
”ہم تو اماں کو اپنی پوری تنخواہ دیں گے۔“ ٹیٹو دریا دلی پر اتر آئے۔
”اور موٹی قصائینی کو بھوکا مارو گے۔“ بیلو نے طعنہ دیا۔
”آں …… دیکھئے صوفی آلہ پھر ہم انہیں ماریں گے۔“
”اچھا بھئی تم لوگ لڑو گے تو ٹھیک نہ ہوگا۔ بس اب تو انکم ٹیکس سمجھ میں آگیا۔“
”ہاں صوفی آلہ پھر تو جو لوگ انکم ٹیکس نہیں دیتے پکے چور ہیں۔“
”اور کیا وہ لوگ ایسے ہی ہیں کہ چندہ تو نہ دیں اور پکنک پر جا کر مزے سے دوسروں کے پیسوں کا کھانا کھائیں، بس میں سیر کریں۔“
”مفت خورے کہیں کے۔“ بیلو غرائے۔
”بھئی ہم تو انکم ٹیکس دے دیا کریں گے۔“ ٹیٹو نے فیصلہ کیا۔
”اور کیا جناب اپنے بس نہیں دیں گے۔ ہم مار مار کے وصول کر یں گے۔“ ککو دھمکانے لگے۔
”جی ہاں آپ کون ہوتے ہیں وصول کرنے والے۔“ ٹیٹو بگڑے۔
”جناب ہم انکم ٹیکس کے افسر بن جائیں گے، آئی سمجھ شریف میں۔ آپ کے اچھوں سے ٹیکس وصول کرلیں گے۔“
”ہم …… ہم…… خود افسر بن جائیں گے جی ہاں۔“ ٹیٹو جھلا اٹھے۔
”اور جیسے ہم تو نہیں بن جائیں گے۔“ بیلو نے اطلاع دی۔
”ارے بھئی کیا مصیبت ہے۔ تم سب کے سب انکم ٹیکس میں گھس جاؤگے تو پھر ڈاکٹر، انجینئر اورپرو فیسر کون بنے گا۔“ صوفی آلہ نے پوچھا۔
”ککو اور بیلو بنتے ہیں تو بن جائیں۔ اپن تو صفا انکم ٹیکس افسر بن جائیں۔ ٹیکس بھی نہیں دینا پڑے گا۔“
”افوہ…… بھئی کیوں نہیں دینا پڑے گا؟“
”ارے واہ…… جو استاد فیس ہم سے لیتے ہیں۔ انہیں تو نہیں دینا پڑتی۔“
”کافی کوڑمغز ہو۔ تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا کہ جس کی آمدنی ہوتی ہے اسے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ وہ چاہے کسی محکمے میں کام کرتا ہو۔“ صوفی آلہ سلگ اٹھیں۔
”استاد انکم ٹیکس دیتے ہیں، پھر فیس کس بات کی دیں گے۔“
”ٹیٹو صاحب نرے گھونچو ہیں۔“
”آپ خود گھونچو ہیں۔“
”اہا جناب مفت کی پکنک اڑانے کے منصوبے باندھ رہے تھے۔“
”اچھا اب ٹہل جاؤ یہاں سے سر گھوم گیا ہمارا۔“
تینوں نہایت اطمینان سے باقی چاکولیٹ جیبوں میں ٹھونس کر باہر نکلے۔ سیڑھیوں پر منن بھیا ملک الموت کا فرشتہ بنے کھڑے تھے۔
”نکالو سیدھے ہاتھ سے۔“وہ بولے۔
”کیا؟“تینوں چکرائے۔
”ٹیکس اور کیا؟“
”ارے واہ…… کیسا ٹیکس۔“
”تمہیں چاکلیٹ ملے ہیں …… کہو ہاں۔“
”ہاں ……مگر آپ کو کیوں دیں واہ۔“
”اچھا مت دو۔ ابھی جا کے صوفی آلہ سے ……“
”کیا کہیں گے آپ صوفی آلہ سے؟“
”کہ آپ نے اتنا سر مار کر سمجھایا سب اکارت۔“
”مگر……“
”ہم اگر مگر نہیں جانتے۔ دیکھو تمہاری چاکلیٹوں کی آمدنی ہوئی ہے؟…… کہو ہاں۔“
”ہاں ……مگر……“
”بس تو تم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ اگر نہیں دو گے تو پھر صوفی آلہ سے مانگنا جوتے ملیں گے۔“ منن بھیا نے ڈرایا۔
تھوڑی دیر تینوں پریشان کھڑے رہے۔ انہیں وسیم بھائی یاد آگئے جو انکم ٹیکس افسر سے بچنے کے لئے ڈسٹ بن میں جا کر اوندھے منہ گرے تھے۔ سوچ بچار کے بعد طے ہوا کہ ٹیکس ادا کر دینے ہی میں خیریت نظر آتی ہے۔
مگر جب ٹیکس وصول کر کے منن بھیا ہنستے ہوئے ٹہل گئے تو تینوں کے دلوں میں شبہے نے پھن اٹھایا۔ ان کی عقل کام کرتی تھی۔ یہ ٹیکس وصول کیا گیا تھا یا کھلی ہوئی ڈاکہ زنی تھی!
ٹہلتے ٹہلتے تینوں جا کر تاج اکبر کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ آج چھٹی کا آخری دن تھا۔ چھٹیوں سے کچھ جی بھر چکا تھا۔ امید کے خلاف کچھ اسکول کھلنے کی ہلکی سی خوشی سی ہو رہی تھی۔ چھٹیوں میں کرنے کے لئے دیا ہوا ہوم ورک ختم ہو چکا تھا۔ تینوں کے نئے پتلون بنے تھے۔ نئے بستے آلہ بمبئی سے لائی تھیں۔نئی برساتیاں تھیں۔ دیکھ کر لڑکوں پر رعب پڑ جائے گا۔ نیا کورس شروع کب ہوگا۔ نئے نئے لڑکے داخل ہوں گے۔ مزہ آئے گا ان کی فاختہ اڑانے میں۔ چھٹیاں بری نہیں گزریں۔ بھیانک قسم کی شرارتیں کرنے پر بھیانک سزائیں بھی نہیں ملیں۔ دنیا کافی حسین تھی۔ مگر ابھی بہت کام کرنا تھا۔ سب سے پہلے تو بڑے ہونا تھا۔ بڑے ہو کر ڈیم بنانے تھے۔ ہوائی جہاز اڑانے تھے۔ راکٹ بنا کر چاند کی سیر کے لئے پروگرام بنانے تھے۔
اور پھر جیبوں میں خوشبودار چاکلیٹ بھرنے تھے!