شرارت کا پتلا
ناول: Till Eulenspiegel
مصنف: Erich Kästner
ترجمہ: شرارت کا پتلا
مترجم: محمد سلیم الرحمن
کمپوزنگ: محمد حامد رانا
۔۔۔۔۔۔
اچھے لڑکو، اچھی لڑکیو!
پتا نہیں تم نے کبھی سرکس دیکھا ہے یا نہیں، البتہ میرا دل کہتاہے کہ تمہیں یہ ضرور معلوم ہوگا کہ مسخرہ کسے کہتے ہیں۔مسخرے کا کام ہے تماشائیوں کو ہنسانا۔ اسی لیے وہ رنگ برنگے اور اُوٹ پٹانگ کپڑے پہن کر اور چہرے پر رنگ مل کر سرکس میں قلابازیاں کھاتے پھرتے ہیں۔ اِنہیں جو کام دیا جاتا ہے اسے چوپَٹ کیے بغیر نہیں رہتے۔ اِن کے اِسی اناڑی پن پر لوگ جی بھر کر ہنستے ہیں۔
اب ذرا فرض کرو کہ ایک ایسا ہی مسخرہ ہے جو مُنہ اندھیرے اُٹھ کر سرکس سے نکل، ناک کی سیدھ میں چل دیا ہے۔ روانہ ہونے سے پہلے اُس نے سرکس کے مالک سے اجازت بھی نہیں لی۔ اُس کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ تن بدن پر وُہی اُوٹ پٹانگ لباس سمجھ میں نہیں آتا کہ جائے تو کہاں جائے۔ ماں باپ زندہ نہیں۔ نہ کوئی رشتے دار نہ گھر بار۔ پڑھنا لکھنا بھی اسے نہیں آتا کبھی سکول گیا ہوتا تو کُچھ سیکھتا بھی۔
وہ سرکس چھوڑ کر پیدل چلتا چلاتا، ٹھوکریں کھاتا کسی اور قصبے میں جا پہنچا۔ وہاں ایک موٹا سا نان بائی اپنی دکان کے باہر کھڑا آنے جانے والوں کو دیکھ رہا تھا۔ مسخرے پر جو نظر پڑی تو بولا۔ ”آخّاہ! ارے میاں تم آدمی ہو یا جنگ کا مور؟ جناب کی تعریف؟ “
مسخرے نے کہا۔ ”میری تعریف؟ جناب، میں ایک نان بائی کا شاگرد ہوں۔ آپ کو کسی ملازم کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔“
نان بائی نے اُسے نوکر رکھ لیا۔ حالانکہ اور کاموں کا تو ذکر کیا،اس مسخرے کو تو اتنا بھی پتا نہیں تھا کہ آٹا کیسے گوندھا جاتا ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہوا ہوگا وہ تم خود سوچ سکتے ہو۔اچھا جب اس نے نان بائی کے کاروبار کا ناس مار دیا تو پھر؟
پھر ظاہر ہے نان بائی نے اسے دھکے دے کر اپنی دکان سے نکال دیا۔ اس کے بعد وہ سڑکوں کی خاک چھانتا ہوا ایک اور قصبے میں جا پہنچا۔وہاں اتفاق سے اُس کی کسی موچی سے ملاقات ہو گئی۔
موچی نے پوچھا، ”ارے بھئی تم کس قسم کے آدمی ہو، یہ حلیہ خوب ہے تمہارا۔“
مسخرے نے جواب دیا۔،”میں تو صاحب ایک موچی کا شاگر د ہوں۔“
موچی نے خوش ہو کر کہا، ”ارے واہ! یہ خوب رہی۔ میرا شاگرد آج کل بیمار ہے اور مجھے کل صبح تک بیس جوڑے جوتے تیار کر کے ایک جگہ پہنچانے ہیں۔اندرآجاؤ۔“
جوتے بھلا کس مسخرے کو بنانے آتے تھے؟تم ہی سوچ لو کہ کیا ہوا ہوگا۔ ایڑی کی جگہ پنجہ، پنجے کی جگہ ایڑھی اور ہر جوتے میں درجنوں کیلیں ادھر اُدھر نکلی ہوئیں۔
شاید تم کہو کہ ہم نے تو کبھی ایسے مسخرے کا ذکر نہیں سنا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ گھڑا ہوا قصہ سنا رہے ہیں۔ نہیں بھئی۔ یہ تو بالکل سچی باتیں ہیں۔اتنا ضرور ہے کہ جس آدمی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ آج سے چھ سو سال پہلے ہوا تھا۔وہ جرمنی میں ایک سرکس کا مسخرہ تھا۔ اُس کا نام ٹل یولن اسپیگل تھا۔ جرمنی کی کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں وہ نہ گیا ہو۔ اور جہاں پہنچا وہاں کوئی فتنہ کھڑا کئے بغیر دم نہ لیا۔ لوگ اُس کی شرارتوں سے عاجز آگئے تھے۔اُسے بس ایک ہی ہنر آتا تھا یعنی وہ نٹوں کی طرح رسے پر چلنا جانتا تھا۔ لیکن اُسے سرکس میں اور میلوں ٹھیلوں میں اپنا کرتب دکھانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ دراصل اُسے یہ پسند نہیں تھا کہ لوگ اُسے دیکھ دیکھ کر ہنسیں بلکہ اُس کی خواہش تو یہ تھی کہ اُسے لوگوں پر ہنسنے کا موقع ملے۔
اِسی لیے وہ اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا رہا۔جہاں جو کام ملتا فوراً کرنے کو تیار ہو جاتا حالاں کہ اُسے آتا جاتا خاک بھی نہ تھا۔ وہ باری باری نان بائی،موچی،درزی، نجومی، ڈاکٹر، لوہار، باورچی، پادری، بڑھئی، قصائی اور یونیورسٹی کا پروفیسر بنا۔ شاید ہی کوئی کام ہو جو اُس نے چھوڑا ہوا اور شاید ہی کوئی کام ایسا ہو جو اُسے ذرا سا بھی آتا ہو۔
اس کے باوجود ٹِل کو بہت بڑا مسخرہ مانا جاتا ہے۔کیونکہ وہ سرکس میں نہیں، بلکہ ہر جگہ اور ہروقت تماشا دکھاتا پھرتا تھا۔ جن لوگوں کی آنکھوں میں اُس نے دھول جھونکی،اُن میں سے بعض نے اسے ہنس کر ٹال دیا اور برا نہ مانا۔ یہی لوگ عقل مند نکلے۔لیکن زیادہ تر لوگ دھوکہ کھانے کے بعد ٹِل سے بدلہ لینے پر اُتر آئے۔یہ لوگ احمق تھے۔کیونکہ ٹِل کی یادداشت بڑی اچھی تھی۔ وہ ایک دو سال کے بعد پھر آموجود ہوتا اور انہیں ایسا چکما دیتا کہ وہ سر پیٹتے رہ جاتے۔جیت آخر ٹل کی ہی ہوتی۔
ٹِل کے متعلق بے شمار کہانیاں مشہور ہیں۔ اگر میں وہ ساری کہانیاں لکھ ڈالوں تو یہ کتاب اتنی بڑی بن جائے کہ تم سے اُٹھائے نہ اُٹھے۔ اسی لیے میں تمہیں بس اُس کی بارہ شرارتیں سُناتا ہوں۔ لو، پڑھو اور ہنسو۔
ایرخ کاستنر
ٹِل کی زندگی کا پہلا دِن
میرے خیال میں کوئی بچہ ایسا نہیں ہوگا جو پیدا ہونے کے بعد تین بار نہایا ہو۔ لیکن ٹل کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ بے چارے کو تین دفعہ نہلایا گیا۔ مسلمانوں کا قاعدہ ہے کہ جو بچہ پیدا ہوتا ہے، اُس کے کان میں اذان دیتے ہیں۔ اِسی طرح عیسائیوں کا دستور ہے کہ بچے کو گرجا میں لے جا کر نہلاتے ہیں۔ نہلانے کی اِس رسم کو، جسے پادری انجام دیتا ہے، بپتسمہ کہتے ہیں۔
جرمنی کے جِس گاؤں میں ٹل پیدا ہوا، وہ بہت چھوٹا تھا اور وہاں کوئی گِرجا نہ تھا۔ اِس لیے ٹِل کے گھر والے صُبح ہوتے ہی اُسے لے کر پاس کے بڑے گاؤں میں چلے گئے جہاں گرجا بھی تھا اور پادری صاحب بھی۔ ٹِل کی ماں تو گھر پر ہی رہی کیونکہ ابھی اُس میں چلنے پھِرنے کی سکت نہ آئی تھی۔ البتہ گاؤں کے بُہت سے لوگ، جن میں عورتیں بھی تھیں، ٹِل کے گھر والوں کے ساتھ ہو لیے۔
دوسرے گاؤں میں پادری صاحب نے ٹِل کو قاعدے قرینے سے نہلا دیا اور ساری رسم ادا ہو گئی۔ نہاتے وقت ٹِل نے بہت شور مچایا اور ہاتھ پاؤں چلائے۔ آخر وہ نہا بھی تو پہلی دفعہ رہا تھا۔
رسم ختم ہوئی تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا۔ ٹِل کے گھر والوں اور مہمان، سب ایک سرائے میں جا بیٹھے۔ بھُوک پیاس کے مارے اُن کا بُرا حال تھا۔ اُنہوں نے خوب ڈٹ کر دعوت اُڑائی اور بے تحاشا گپیں ہانکیں۔ جو عورت ٹِل کی اناّ مقرر ہوئی تھی اُس نے تو اتنا کھایا، اتنا کھایا کہ پیٹ پھوُل کر نقّارہ ہو گیا۔ ایک تو وہ ویسے ہی موٹی تازی تھی، دوسرے ٹِل کو اُٹھائے اُٹھائے پیدل چل چل کر تھک گئی تھی۔ اُسے بھوک کیوں نہ لگتی؟
دِل کھول کر کھانے پینے اور دیر تک سستانے میں سہ پہر ہوگئی۔ اب اِن لوگوں کو گھر چلنے کا خیال آیا۔ کہنے لگے۔ ”اور دیر کردی تو راستے میں ہی رات ہو جائے گی۔“ یہ سوچ کر وہ سب اُٹھ کھڑے ہوئے، لیکن بہت زیادہ کھا لینے کی وجہ سے اِن کے قدم تک سیدھے نہ پڑ رہے تھے۔ چلنا دُوبھر ہو گیا تھا۔ نیند الگ آرہی تھی۔ سب سے ردّی حالت ٹِل کی انّا کی تھی اور کیوں نہ ہوتی۔ اُسے تو سرائے پہنچ کر کھانے پینے کے سوا کچھ سوجھا ہی نہ تھا۔ راستے میں ایک ندی آئی، جس پر پُل کی جگہ لکڑی کا لمبا سا تختہ بِچھا ہوا تھا۔ تختے پر چلتے چلتے انّا کو اُونگھ جو آئی تو قدم غلط پڑگئے اور وہ ٹِل سمیت نیچے ندی میں جا گری۔
وہ تو شُکر کیجیے گرمیوں کے دن تھے اور ندی میں پانی کم اور کیچڑ زیادہ تھی۔ اِس لیے نہ ان دونوں کے چوٹ لگی اور نہ ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوا۔ لیکن اُس کا حُلیہ دیکھنے کے لائق تھا۔ سر سے پاؤں تک کالی کالی کیچڑ تھپی ہوئی تھی۔ انّا الگ ہائے ہائے کر رہی تھی، ٹِل کا باپ الگ چیخ چیخ کر اُسے بُرا بھلا کہہ رہا تھا اور ٹِل کی تو پوچھو ہی مت۔ اُس نے تو دھاڑیں مار مار کر آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ بھلا کون بچہ ہے جو اس طرح کیچڑ میں لِتھڑ کر چُپ رہ سکے۔ ٹل کا یہ دُوسرا غُسل تھا۔
جُوں توں کر کے یہ لوگ اپنے گاؤ ں پہنچے۔ وہاں فوراًپانی گرم کیا گیا اور ٹِل کو تیسری بار نہلایا گیا۔ اِس دفعہ نہلانے میں دیر بھی خاصی لگی تھی کیونکہ اُس کے بدن پر سیروں ہی کیچڑ تھُپی ہوئی تھی۔
جب پادری صاحب کو یہ خبر پہنچی کہ ٹِل کو پہلے ہی دِن تین بار نہانا پڑا تو وہ حیران رہ گئے۔ وہ اپنی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے۔ ”خدا خیر کرے۔ جو بچہ پہلے ہی روز تین بار نہائے گا، بڑا ہو کر خدا جانے کیا آفت ڈھائے گا، آثار اچھے نہیں“۔
پادری صاحب کا اندیشہ بالکل درست ثابت ہوا۔
ٹِل نٹ بن گیا۔
ٹِل ذرا بڑا ہوا تو بڑے بڑوں کے کان کاٹنے لگا۔ دِن رات اُسے اودھَم مچانے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ اُس نے گاؤں کے لوگوں کا جینا حرام کر دیا۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی ٹِل کی شکایت لے کر اُس کے ماں باپ کے پاس پہنچا ہوتا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ ٹِل پر الزام تو لگاتے مگر اپنے الزام کو ثابت کرنے میں کم ہی کامیاب ہوتے۔
ٹِل کا باپ ٹِل کی خُوب مرمّت کرتا اور دِل میں کہتا: ”کوئی تو بات ہے جو لوگ آ آ کر اس کی شکایتیں کرتے ہیں اور پھر ذرا سی ٹھُکائی سے لڑکے کا بِگڑتا کیا ہے۔“ یہ بات وہ اپنے آپ کو تسلی دینے کو کہتا ورنہ اُسے کچھ پتا نہ تھا کہ وہ ٹِل کو کیوں پیٹ رہا ہے۔
آخر کا ر روز روز کی جھک جھک سے باپ کی صِحت خراب ہوگئی، وہ بیمار پڑگیا اور کچھ عرصے بعد مرگیا۔ باپ کی وفات کے بعد ماں ٹِل کو لے کر اپنے میکے چلی گئی جو ایک اور گاؤں میں تھا۔ ٹِل اب سولہ برس کا ہو گیا تھا۔ اور اُسے چاہیے تھا کہ کوئی کام سیکھ کر روزی کمانے کے قابل ہو جاتا۔ لیکن کوئی کام سیکھنے کی بجائے وہ اُس رسّے پر، جو ماں نے کپڑے سُکھانے کے لیے باندھا ہوا تھا، چلنے کی مشق کرنے لگا۔ ایک دفعہ ماں نے اُسے رسّے پر چلتے دیکھ لیا۔ وہ خفا ہوکر اس کی طرف لپکی تو ٹِل جھٹ رسّے سے اُتر، کھڑی کے راستے اُوپر چڑھ، چھت پر جا بیٹھا اور جب تک اُس کی ماں کا غصّہ نہ اُترا، وہیں بیٹھا رہا۔
رفتہ رفتہ ٹِل کو رسّے پر چلنے کی خُوب مشق ہو گئی۔
ماں بیٹے، جس مکان میں رہتے تھے اُس کی دوسری منزل کے کمرے کی کھڑی دریا کے رُخ کُھلتی تھی۔ ایک دِن ٹِل نے کیا کیا کہ رسّے کا ایک سرا اپنی کھڑی میں اور دوسرا دریا کے پار ایک اور مکان کی کھِڑکی میں باندھا اور لگا رسّے پر چلنے۔
ٹِل کو نٹوں کی طرح رسّے پر چلتا دیکھ کر گاؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ ہر طرف سے بچے دوڑے آئے۔ لوگ دروازوں اور کھِڑکیوں سے جھانکنے لگے۔ اِن سب کی آنکھیں ٹِل پر جمی ہوئی تھیں اور منہ حیرت سے کھُلے ہوئے تھے۔
ہر طرف اچانک خاموشی جو چھائی تو ٹل کی ماں کو کچھ شُبہ ہوا۔ اُس نے کھڑی سے جھانکا تو اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔ ٹِل رسّے پر دریا کے عین اوپر کھڑا طرح طرح کے کرتب دکھا رہا تھا اور نیچے سینکڑوں مرد عورت، بُوڑھے بچے دم سادھے کھڑے تھے۔
ٹِل کی ماں کپڑے سیتے سیتے اُٹھ کر آئی تھی اُس کے ہاتھ میں بڑی سی قینچی تھی۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً رسّا کاٹ ڈالا۔ ٹِل کو یہ خبر نہ تھی کہ ماں نے اُسے دیکھ لیا ہے۔ وہ اُس طرح بیچ رسّے پر ایک ٹانگ اُٹھا کر چل رہا تھا کہ یکایک رسّا کٹ گیا اور ٹِل قلابازی کھا کر اوندھے مُنہ دھڑام سے دریا میں جاگرا۔ ساری شیخی کِرکری ہوگئی، بڑی مشکل سے ہاتھ پاؤں چلا کر، بھیگی بِلّی بنا ہوا، دریا سے نکلا۔ گاؤں کے بچوں اور بڑوں نے اُس کی دُرگت دیکھ کر خُوب ہی قہقہے لگائے۔ مگر اُس وقت ٹِل ایسا بن گیا جیسے اُس نے کچھ سُنا ہی نہیں البتّہ دِل میں اُس نے ٹھان لی کہ اگر میں نے اِن ہنسنے والوں کو رُلا کر نہ چھوڑا تو میرا نام ٹِل نہیں۔
اگلے دِن ٹِل نے پھر رسّا باندھا لیکن ایک اور جگہ جا گرا۔ دریا میں گرِنے کا مزہ وہ ایک بار چکھ چکا تھا اور دوبارہ غوطے کھانے کا اُسے کوئی شوق نہ تھا۔ اُس نے اپنے گھر سے ذرا دُور جا کر ایسے دو مکانوں کے درمیان رسّا باندھا جہاں اُس کی ماں اُسے نہ دیکھ سکتی تھی۔ ٹِل کو رسّے پر چلتا دیکھ کر چاروں طرف سے بچے بالے اور بڑے بُوڑھے ہنستے ہوئے دوڑے۔ لوگوں کے ٹھٹ لگ گئے۔ اُنہوں نے کہنا شروع کیا، ”ارے یار ٹِل، آج پھر اُسی طرح گِر کر دکھاؤ۔“
ٹِل نے جواب دیا۔”آج میں آپ کو اور بھی مزے کا تماشا دکھاؤں گا۔ مہربانی سے آپ سب لوگ اپنا اپنا جُوتا اُتار کر مُجھے دے دیں اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ میری یہ بات ہے تو بے تُکی مگر میں اپنا کرتب جُوتوں کے بغیر دکھا نہیں سکتا۔ مجھے صرف بائیں پیر کے جُوتے چاہئیں۔“
پہلے تو لوگ کچھ ہچکچائے مگر اُن کا دِل تماشا دیکھنے کو چاہ رہا تھا۔ آخر اُن سے رہا نہ گیا اور ذرا سی دیر میں زمین پر ایک سو بیس جوتوں کا ڈھیر لگ گیا۔ ٹِل نے رسّے سے اُتر کر، اِن سب کو تسموں سے، ایک دُوسرے سے باندھ لیا اور دوبارہ رسّے پر جا کھڑا ہوا۔ چاروں طرف لوگ دائیں پاؤں میں جُوتے پہنے، بائیں پاؤں سے ننگے، سانس روکے منہ اُٹھائے دیکھ رہے تھے۔ اِتنے میں ٹِل نے جُوتوں کو ایک دو بار جھکولا دیا اور پھر انہیں ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ جُوتے نیچے سڑک پر جاگرے۔ ٹِل نے قہقہہ لگایا اور چیخ کر بولا، ”یہ لو اپنے جُوتے۔ خوب پہچان کر اُٹھانا، کبھی غلط جُوتا پہن کر چلتے بنو۔“
سڑک پر ایک سو بیس جُوتے بکھرے پڑے تھے۔ لوگ دیوانوں کی طرح جُوتوں کی طرف لپکے۔ ہر آدمی یہی چاہتا تھا کہ اُسے جلدی سے اپنا جُوتا مِل جائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہلڑ مچا کہ توبہ ہی بھلی۔ آپس میں لات گھونسا چلنے لگا۔ کوئی کسے کے بال کھینچ رہا ہے تو کوئی کسی کی ٹانگ۔ کسی نے پٹخنی کھائی تو کوئی کِسی کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔
لوگوں کو اپنا اپنا جُوتا ڈھونڈنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹا لگ گیا۔ جب یہ افراتفری ختم ہوئی تو اُن کے حلیے دیکھنے کے لائق تھے۔ کپڑے پھٹے ہوئے، بال نُچے ہوئے، مُنہ سُوجا ہوا۔ سڑک پر سات دانت بھی پڑے تھے۔ خُدا جانے کِس کِس کے تھے۔اور انیس لڑکے اور گیارہ بچے تو اس بُری طرح لنگڑا رہے تھے کہ انہیں چل کر گھر تک جانا محال ہو گیا۔
گاؤں کے لوگوں کا غّصے کے مارے بُرا حال تھا۔ وہ کہتے پھر رہے تھے کہ ٹِل اگر اُن کے ہاتھ آگیا تو مار مار کر اُس کا کچومر نکال دیں گے۔
لیکن وہ اُن کے ہاتھ ہی نہ آیا۔ تین مہینے تک میرا یار گھر میں چھپا بیٹھا رہا۔ اتنے دِن اُس نے دروازے سے باہر تک نہ جھانکا۔ دِن رات بڑی شرافت سے ماں کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ ٹِل کی اِس حرکت سے ماں بڑی خوش ہوئی۔ کہنے لگی، ”بیٹا، اسی طرح نچلے بیٹھنا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے، اب تُم نے بھی تمیز سیکھ لی ہے“، بے چاری ماں!
ٹِل کو چور لے گئے
ایک دِنِ ٹِل ماں کے ساتھ قریب کے گاؤں میں میلا دیکھنے گیا۔ میلے میں مٹھائیوں اور شربتوں کی دکانوں کی کیا کمی تھی۔ اُدھر ٹِل بھی بڑا چٹورا تھا۔ اُس نے ڈھیروں مٹھائی کھائی اور جگ بھر بھر کے شربت پیا۔ اتنا کھا پی کر اُسے نیند آنے لگی۔ میلے میں سونے کی جگہ کہاں۔ خیر گھوم پھر کر اِدھر اُدھر جو نظر دوڑائی تو ایک باغ نظر آیا۔ جہاں سیبوں سے بھرے بڑے بڑے پٹارے رکھے تھے۔
خوش قسمتی سے ایک پٹارا خالی تھا۔ ٹِل جھٹ سے اُس میں جا بیٹھا اور تھوڑی دیر میں اُس کی آنکھ لگ گئی۔وہ ایسا غافل سویا کہ شام ہوئی پھر رات ہو گئی،اُسے پتہ ہی نہ چلا۔ ماں نے سارا میلا چھان مارا اور آخر یہ سوچ کر کہ شاید وہ اکیلا ہی گھر چلا گیا ہے۔وہاں سے چل پڑی۔
آدھی رات کے وقت، جب ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی، دو چور سیب چُرانے باغ میں آئے۔اُن میں سے ایک بولا:۔”جو پٹارا سب سے بھاری ہو، وہی اُٹھا کر لے چلتے ہیں۔ سیب اسی میں زیادہ ہوں گے۔“
دوسرے نے کہا، ”بالکل ٹھیک“۔
چور پٹارے اُٹھا اُٹھا کر اُس کے وزن کا اندازہ لگانے لگے۔ ظاہر ہے سب سے بھاری پٹارا وہی تھا جس میں ٹِل سو رہا تھا۔ اندھیرے میں چوروں کو ٹِل نظر نہ آیا۔وہ یہی سمجھتے رہے کہ پٹارے میں سیب ہیں۔ اُنہوں نے بڑی مشکل سے پٹارا اُٹھایا،باغ سے نکلے اور ہانپتے، کاپنتے،پسینے میں نہائے، اپنے گاؤں کی طرف چل دیے۔بوجھ اس قدر تھا کہ چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔
پٹارا جو ہلا جلا تو ٹِل کی آنکھ کھل گئی۔اُسے چوروں پر بڑا تاؤ آیا کہ ایک تو اُنہوں نے اُس کی نیند خراب کی اور دوسرا اُسے اُٹھا کر کسی گاؤں کی طرف لے جا رہے ہیں۔اُس نے بدلا لینے کی ٹھان لی۔چور تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ اُس نے چُپکے سے ہاتھ بڑھا کر اگلے چور کے بال زور سے کھینچ لیے۔
”ہائے مار دیا“ چور نے بلبلا کر چیخ ماری اور اپنے ساتھی سے بولا۔ ”ارے یار تیرا دماغ تو نہیں چل گیا؟ میرے بال کیوں کھینچ رہا ہے۔؟“ وہ یہی سمجھا کہ دوسرے چور نے اُس کے بال نوچے ہیں۔
اُس کا ساتھی ناراض ہو کر بولا،”دماغ تو تمہارا خراب ہے۔میں نے تو پٹارا اُٹھا رکھا ہے۔ تمہارے بال کیسے نوچ سکتا ہوں۔“
ٹِل کو اِن کی تو تو میں میں سُن کر بڑا مزا آیا۔ کُچھ دیر بعد اُس نے ہاتھ بڑھا کر پچھلے چور کے سر پر اِس زور سے پنجا مارا کہ مٹھی بھر بال نوچ لیے۔چور نے چیخ کر کہا۔”ہائے، مر گیا۔ میرے سارے بال نوچ کر لے گئے۔تمہیں شرم نہیں آتی؟“
اگلے چور نے بگڑ کر کہا۔”بکواس مت کرو۔“یہاں اتنا اندھیرا ہے کہ سڑک تک نظر نہیں آتی اور میں نے دونوں ہاتھوں سے پٹارا اُٹھا رکھا ہے۔بھلا میں تمہارے بال کیسے نوچ سکتا ہوں؟“
دونوں میں خُوب جھگڑا ہوا اور نوبت گالی گلوچ تک پہنچ گئی۔ ٹِل نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکی۔اُس کے پیٹ میں بَل پڑے جا رہے تھے۔
پانچ منٹ بعد ٹِل نے اگلے چور کے بال پکڑ کر اِس زور سے جھٹکا دیا کہ وہ گِرتے گِرتے بچا۔ اب کیا تھا، اُس نے پٹارا چھوڑ دیااور تیزی سے گھوم کر اپنے ساتھی کے دو تین گھونسے ٹِکا دیے۔اُس کے ساتھی نے بھی فوراً پٹارا چھوڑ دیا،اور پِل پڑا۔اگلے ہی لمحے وہ دونوں زمین پڑے نظر آرہے تھے۔جہاں وہ ایک دوسرے کو گھونسے اور لاتیں مار رہے تھے۔
آگے ڈھلان تھی۔ اُنہوں نے زیادہ ہاتھ پیر چلائے تو ڈھلان پر قلابازیاں کھاتے لڑھکتے چلے گئے۔نیچے پہنچ کر وہ الگ ہوگئے۔
اندھیرا اتنا زیادہ تھا کہ اُنہیں ایک دوسرے کا پتہ ہی نہ چل سکا۔یہ ہنگامہ ختم ہونے کے بعد ٹِل دوبارہ سوگیا اور صبح تک آرام سے سوتا رہا۔
صبح جب اُس کی آنکھ کھلی تو وہ گھر جانے کی بجائے ایک اور طرف چل دیا۔ پہلے اُس نے ایک لٹیرے فوج دار کے ہاں سائیسی کاکام کیا۔مگر اُسے گھوڑوں کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوج دار نے جلد ہی اُسے نکال دیا۔
ٹِل ڈاکٹر بن گیا۔
اِس میں تو ذرا برابر بھی شک نہیں کہ جو کوئی بچپن میں نٹ کھٹ ہوگا وہ بڑا ہو کر اور بھی شیطان بنے گا۔ کچھ یہی حال ٹِل کابھی تھا۔ عمر کے ساتھ ساتھ اُس کی شوخی بھی بڑھتی گئی۔قمیض پتلون تو وہ کبھی کبھی بدلتا تھا اور پیشے روز روز۔ اپنی شرارتوں کی وجہ سے اُس کا کسی جگہ ٹک کر رہنا مُحال تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ کہیں رہ پڑنے کی غلطی کر بیٹھتا تو لوگ اُسے پھانسی پر لٹکا دیتے یا کم از کم مار مار کر ادھ موا تو ضرور کر دیتے۔ٹِل کا قاعدہ تو یہ تھا کہ آج یہاں ہے تو کل وہاں۔بیس برس کی عمر میں وہ جرمنی کے چپے چپّے سے واقف ہو چکا تھا۔
ایک روز وہ نورم برگ نامی شہر میں جا پہنچا۔ وہاں، اُس نے جگہ جگہ گلی کوچوں میں اشتہار لگا دئیے۔اِن اشتہاروں کے مضمون سے ظاہر ہوتا تھا کہ ٹِل کوئی بہت بڑا ڈاکٹر ہے۔
اشتہار لگائے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ شہر کے ہسپتال کا بڑا ڈاکٹر دوڑا دوڑا ٹِل کے پاس آیا اور کہنے لگا۔”ڈاکٹر صاحب،ہمارے شفا خانے میں اتنے زیادہ مریض آگئے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ایک بھی بستر خالی نہیں اور ہسپتال کے پاس جو روپیہ پیسہ تھا وہ ختم ہوا چاہتا ہے۔ آپ ہماری کوئی مدد کرسکتے ہیں۔“
ٹِل نے اپنا کان کھجایا اور بولا، ”ہاں، ہاں، کیوں نہیں، لیکن اچھا مشورہ مہنگا ہوتا ہے۔“
ڈاکٹر نے پوچھا ”آپ مشورہ دینے کا کیا لیں گے؟“
ٹِل نے جواب دیا، ”دو سو اشرفیاں۔“
یہ سُن کر تو پہلے ڈاکٹر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
پھر اِس نے دریافت کیا،”ڈاکٹر ٹِل آپ اِتنی بھاری رقم لینے کے بعد ہمارے لئے کیا کریں گے۔“
ٹِل نے کہا،”اس رقم کے بدلے میں تمہارے ہسپتال کے تمام مریضوں کو ٹھیک کر دوں گا۔ اگر میں ایسا نہ کر سکا تو تم مجھے پھوٹی کوڑی نہ دینا۔“
”بہت خوب!“ ڈاکٹر نے اچھل کر کہا اور فوراًٹِل کو اپنے ہسپتال لے گیا، اور مریضوں سے کہا،”یہ نئے ڈاکٹر صاحب تم سب کو بھلا چنگا کر دیں گے۔شرط یہ ہے کہ اِن کی بتائی ہوئی باتوں کی پابندی کی جائے۔“یہ کہہ کر وہ اپنے دفتر میں چلا گیا۔اور ٹِل مریضوں کے پاس ٹھہرا رہا۔
ٹِل پہلے ایک مریض کے پاس گیا اور اِس کے کان میں کچھ کہا،پھر دوسرے کے، پھر تیسرے کے،۔غرض کے اُس نے ہر ایک مریض کے کان میں ایک ہی بات کہی۔
وہ ہر مریض سے کہتا، ”میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔تمہاری بھی اور دوسروں کی بھی۔ مُجھے ایک ایسی دوا معلوم ہے جس سے تم سب کا علاج ہو سکتا ہے۔یہ دوا تیار کرنے کے لیے بس تم میں سے کسی ایک کو جلا کر کشتہ بنا لوں گا۔ باقی لوگ اِس کشتے کو کھاتے ہی تندرست ہو جائیں گے۔ میں نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے،کہ تم میں سے کس کا کشتہ بنانا چاہیے۔ ہسپتال میں،جو شخص سب سے زیادہ بیمارنظر آئے گا میں اُسی کا کشتہ بناؤں گا۔ میری رائے میں اِس طرح کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔تمہارا کیا خیال ہے؟“
پھر وہ اور بھی آہستہ سے کہتا،”آدھے گھنٹے بعد میں بڑے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ آؤں گا۔ وہ اُن مریضوں کو جن کی حالت بہتر ہے، ہسپتال سے رُخصت کر دے گا۔ میری مانوتو تم بھی اِسی وقت یہاں سے چلتے بننا کیوں کہ جو مریض آخر میں رہ جائے گا اُسی کا کشتہ بنے گا۔“
جب وہ ہر مریض کو الگ الگ یہ کہانی سنا کر بہکا چکا تو بڑے ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔وہ خوش خوش ہسپتا ل میں آیا اور بولا، ”جن لوگوں کی طبیعت ٹھیک ہو گئی ہے وہ جا سکتے ہیں۔“
تین منٹ میں کمرہ خالی ہوگیا۔ بے چارے مریض اتنے خوفزدہ تھے کہ فوراً گرتے پڑتے لنگڑاتے،لڑکھڑاتے،ہسپتال سے چلتے بنے۔ان میں سے بعض ایسے تھے جو پچھلے دس دس برس سے بستر سے ہلے تک نہ تھے۔
ہسپتال کا بڑا ڈاکٹر یہ تماشا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ وہ دوڑا دوڑا اپنے دفتر گیا اور ٹِل کے لیے دو سو بیس اشرفیاں لے آیا۔ ٹِل کو اشرفیوں کی تھیلی دیتے ہوئے اُس نے کہا، ”میں آپ کو بیس اشرفیاں زیادہ دے رہا ہوں۔آپ دُنیا کے بہترین ڈاکٹر ہیں۔“
ٹِل نے اشرفیاں گنیں، اور تھیلی جیب میں ڈال کر فوراً نورم برگ سے رفو چکر ہو گیا۔
اگلے ہی روز ہسپتال کے سارے مریض آ آ کر اپنے بستروں پر لیٹ گئے۔یہ دیکھ کر غصے کے مارے، بڑے ڈاکٹر کا بُرا حال ہوگیا۔ وہ چیخا، ”یہ کیا چکر ہے،؟ میرا خیال تھا کہ تم سب کو ڈاکٹر نے ٹھیک کر دیا ہے۔“
جب مریضوں نے اُسے بتایا کہ وہ سب اس لیے بھاگ گیے تھے کہ اُن میں سے کوئی کشتہ بننے کو تیار نہ تھا۔ تو ڈاکٹر نے اپنا سر پیٹ لیا اور بولا، ”میں بڑا احمق ہوں، اُس مکار نے مجھے خوب چکما دیا۔ اور مجھے دیکھو،اُس نے صرف دو سو اشرفیاں مانگی تھیں، میں نے اُسے بیس اور دے دیں۔“
ٹِل نان بائی بن گیا۔
ایک دِن ٹِل کا گزر ایک قصبے سے ہوا۔ وہاں وہ رات بسر کرنے کے لئے کوئی سرائے ڈھونڈتا پھر رہا تھا کہ راستے میں ایک نان بائی نظر پڑا جو اپنی دکان کے آگے کھڑا تھا، اُس نے نان بائی سے سرائے کا اتا پتا پوچھا۔ نان بائی نے اُسے راستہ بتانے کے بعد پوچھا، ”بھلا یہ تو بتاؤ، کہ تم خود کیا کام کرتے ہو؟“
”میں؟“ ٹِل نے کہا، ”میں نان بائیوں کی دکان پر کام کرتا ہوں۔“
یہ جواب سُن کر نان بائی خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ کیونکہ اُن دِنوں اُسے ایک ملازم کی ضرورت تھی۔ طے یہ پایا کہ ٹِل کو تنخواہ کے علاوہ، کھانا پینا اور رہنے کی جگہ بھی دی جائے گی۔ چونکہ نان بائی خود بھی کام کرتا تھا، اِس لیے ٹِل کا کام آسان ہوگیا۔ وہ بس نان بائی کی نقل کرتا رہتا اور پہلے دو دِن اس نے یہ پتا ہی نہ چلنے دیا کہ اُسے تنور کے کام کا خاک علم بھی نہیں۔ تیسرے دِن نان بائی کو کچھ سستی آئی۔ اُس نے سوچا آج شام سے ہی سونا چاہیے۔ اُس نے ٹِل سے کہا، ”آج رات تمہیں اکیلے کام کرنا پڑے گا۔“میں چلا اب کل صبح ملاقات ہوگی۔
”اچھا جی،“ ٹِل نے کہا۔”مگر یہ تو بتا دیجیے کہ آج بنانا کیا ہے۔“
نان بائی نے حیران ہو کر کہا، ”یہ ایک ہی رہی، نان بائیوں کے ساتھ کام کر چکے ہو، اور مجھ سے پوچھتے ہو، کہ کیا بناؤں۔ میری بلا سے تم اُلو کی دم فاختہ بناؤ، یا بھیگی بِلی۔“ یہ بات اُس وقت کہتے ہیں، جب کوئی احمقانہ سوال کرے۔ سچ یہ ہے کہ نان بائی کو ٹِل کا سوال بہت ہی بے تکا معلوم ہوا۔ نان بائی کے ہاں، نان اور ڈبل روٹی ہی بنتی ہے اور یہ بات ٹِل کو معلوم ہونی چاہیے تھی۔
نان بائی بکتا، جھکتا وہاں سے رخصت ہوا۔ اُس کے جاتے ہی ٹِل نے آٹا گوندھا اور پھر کام میں جٹ گیا، اور رات کے دس بجے سے تین بجے اُلو اور بلیاں بنا بنا کر پکاتا رہا۔
اگلی صبح جب نان بائی نے دکان میں قدم رکھا،تو اِسے یوں لگا جیسے غلطی سے کسی چڑیا گھر میں جا پہنچا ہو۔ میزوں پر خوب سِکے ہوئے اُلوّوں اور بلیوّں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ نان بائی نے غور سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ مگر اُسے ایک بھی ڈبل روٹی یا خمیری نان نظر نہ آیا۔ وہ میز پر زور سے گھونسا مار کر دھاڑا۔ ”ابے یہ کیا کر دیا تو نے؟“
ٹِل نے اطمینان سے جواب دیا۔”آپ نے اُلّو کی دُم، فاختہ اور بھیگی بلیّ بنانے کو کہا تھا۔اُلّو اور بلیاں میں نے بنا لیں، دُم اور فاختہ کل بنا لُوں گا۔ ہاں یہ بتائیے گا، کہ بِلّی کو بھگویا کیسے جائے؟ میں نے یہ اُلو اور بلیاں بڑی سخت محنت کر کے بنائیں ہیں۔ جناب! بالکل اصلی معلوم ہو رہی ہیں نا؟“
ٹِل کی باتیں سن کر نان بائی اپنے آپے میں نہ رہا۔اُس نے ٹِل کا کالر پکڑ کر دو تین جھٹکے ایسے دئیے کہ ٹِل کو دِن میں تارے نظر آنے لگے۔ پھر وہ گلا پھاڑ کر چیخا، ”نکل جا میری دکان سے۔ فوراً نکل جا۔“
ٹِل نے کہا،”میرا کالر تو چھوڑئیے، میں چلا جاتا ہوں۔“
نان بائی نے اُسے چھوڑ دیا۔ ٹِل لمبے لمبے ڈگ بھر کر دُکان سے نکلنا ہی چاہتا تھا کہ یکایک نان بائی نے لپک کر اُسے پھر آدبوچا۔ ”اتنا بہت سا آٹا جو تم نے ضائع کر دیا۔ اِس کے پیسے تو دیتے جاؤ۔“
ٹِل نے جواب دیا۔”ایک شرط ہے۔ یہ اُلّو اور بلیاں میں ساتھ لے جاؤں گا۔ کیونکہ اگر میں نے آٹے کے پیسے دئیے تو پھر یہ میری ہیں۔“
نان بائی، اِس پر راضی ہو گیا۔ ٹِل نے نان بائی کو پیسے دے دئیے۔اور تمام اُلّووں اور بلیّوں کو ایک پٹارے میں بھر کر چلتا بنا۔
اِسی سہ پہر قصبے کے چوک میں بڑی بھیڑ نظر آئی۔بھیڑ کے بیچ میں ٹِل کھڑا اپنے بنائے ہوئے اُلّو اور بلیاں بیچ رہا تھا۔ لو گ بڑھ بڑھ کر انہیں خرید رہے تھے۔اور منہ مانگے دام دے رہے تھے۔
ذرا سی دیر میں یہ خبر سارے قصبے میں پھیل گئی۔اِسے سُنتے ہی نان بائی، اپنا تنور بند کر کے چوک کی طرف دوڑا، راستے میں ہانپتا کانپتا وہ بار بار کہہ رہا تھا،اور اُس لکڑی کے پیسے بھی تو اس کے ذمے نکلتے ہیں، جو اس نے اُلو بلّیاں بنانے میں پھُونک دی۔ پھر اُس نے،میرا تنور بھی تو استعمال کیاتھا۔ مجھے اس بدمعاش سے خاصی رقم وصول کرنی ہے۔ میں اسے گرفتار کرا دوں گا۔
لیکن وہ چوک میں اُس وقت پہنچا، جب ٹِل اپنے دام کھرے کر کے قصبے سے رفو چکر ہو چکا تھا۔ اُس نے اپنے بنائے ہوئے اُلو اور بلیاں تو خیر بیچیں۔ غضب یہ کیا کہ جاتے جاتے وہ پٹارا بھی فروخت کر گیا، جو نانبائی سے مانگ کر لایا تھا۔ قصبے کے لوگ برسوں اپنے نان بائی پر ہنستے رہے۔ بے چارے کو ٹِل واقعی اُلّو بنا گیا تھا۔
ٹِل پہرے دار بن گیا۔
ایک بار ٹِل ایک نواب صاحب کی فوج میں ملازم ہو گیا۔ نواب نے قلعے سے باہر، کے کھیتوں اور چراگاہوں، میں کام کرنے والے کسانوں کو ڈاکوؤں کے حملے سے بچانے کے لئے قلعے میں بہت سے سُورما اور پہلوان اکٹھے کر رکھے تھے۔ڈاکو اکثر آس پاس کے دیہات کو آگ لگا کر اُن کے مویشی چُرا کر لے جاتے تھے۔
ٹِل کو قلعے کے سب سے اونچے مینار پر بیٹھ کر پہرا دینے کو کہا گیا۔ اِس کا کام یہ تھا کہ ہر وقت چاروں طرف نظر رکھے۔ اور جونہی کوئی دُشمن آتا دکھائی دے، زور سے بِگل بجا دے، مینار سے قلعے کا صحن بھی نظر آتا تھا۔ جہاں ہر روز لمبی لمبی میزوں پر طرح طرح کے کھانے چُنے ہوتے تھے، اور پہلوان اور سُورما بیٹھے دعوت اُڑایا کرتے۔ نواب اور اُس کے ساتھی، کھانے پینے میں اتنے مگن ہوتے،کہ اُنہیں بھول کر بھی یاد نہ آتا، کہ مینار پر بیٹھے ہوئے پہرے دار کو بھی کھانا بھجوانا ہے۔بھوک سے تنگ آکر ٹِل خوب چیخا چلّایا مگر مینار اتنا اونچا تھا کہ اُس کی آوازصحن تک نہ پہنچ سکتی تھی۔ ٹِل کی نیچے جانے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔ اُسے یہ ڈر تھا کہ اگر وہ اپنی جگہ سے ہٹا اور اتفاق سے دشمن آدھمکے تو بڑی بُری ہوگی۔
ایک سہ پہر کو دیکھتا کیا ہے کہ ڈاکو گھوڑے سرپٹ دوڑاتے چلے آرہے ہیں۔ اُنہوں نے قلعے کے باہر، مویشوں کے کئی گلے اپنے قبضے میں کر لیے، چند کھیلانوں کو آگ لگا دی، اور کسانوں کو خوب مارا پیٹا۔ ٹِل کھڑکی کی چوکھٹ پر کہنیاں ٹیکے مزے سے تماشا دیکھتا رہا، مگر بِگل کو چھوا تک نہیں۔ آخر ایک کسان گرتا پڑتا، قلعے میں آیا اور اُس نے نواب کو حملے کی خبر دی۔ سورما اور پہلوان فوراً اصطبل کی طرف دوڑے، اور گھوڑوں پر سوار ہو کر بگٹٹ باہر نکلے۔ لیکن اتنی دیر میں ڈاکو مویشی لے کر غائب ہو چکے تھے۔
ٍ جب نواب قلعے میں واپس آیا تو غصے کے مارے اُس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اُس نے ہتھیار،بھی نہ اُتارے، اُسی طرح مینار کی تین سو تینتیس(333)سیڑھیاں چڑھ کر ٹِل کے پاس پہنچا اور بولا”دشمن کو آتے دیکھ کر بگل بجا دیتے تو تمہارا کیا گھس جاتا؟“اُس نے بگڑ کر کہا۔
ٹِل نے جواب دیا،”اگر آپ مجھے کھانے پینے کو بھیجتے رہتے تو آپ کا کیا گھس جاتا؟بھوک کے مارے میں اتنا کمزور ہو گیا ہوں، کہ بگل تک نہیں بجا سکا۔“
ایک بار نواب نے اچانک اپنے بعض دشمنوں پر حملہ کیا، اور اُن کے مویشی ہانک کر لے آیا۔ یہ مویشی قلعے میں لائے گئے۔پہلوانوں نے اِن میں سے درجنوں ذبح کر ڈالے اور لگے اِن کے تکے اور کباب بنانے۔جب ہر چیز تیار ہو گئی، تو کھانا صحن میں میزوں پر چُن دیا گیا اور نواب اور پہلوان آستینیں چڑھا کر آ بیٹھے۔وہ خوب بڑھ چڑھ کر ہاتھ مار رہے تھے۔بھُنے ہوئے گوشت کی خوشبو، ٹِل کی ناک میں بھی پہنچی،لیکن اِس بار کسی کو بھی خیال نہ آیا،کہ ایک آدھ رکابی ٹِل کو بھی بھجوا دی جائے۔اب ٹِل سے رہا نہ گیا، اُس نے کھڑکی سے سر باہر نکالا اور زور زور سے بگل بجانے لگا۔
نواب اور اُس کے سُورما کھانا پینا چھوڑ کر ہتھیار لگا،گھوڑوں پر چڑھ، تیزی سے بھاگے۔ اِن کے جاتے ہی،ٹِل مینار سے اُترا اور جس قدر بھنا ہو گوشت، تکے،کباب اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں اُٹھا سکتا تھا، اُٹھا کر دوبارہ اوپر چلا گیا۔ مینار کے اوپر پہنچ کر،اُس نے اتنا کھایا، اتنا کھایا کہ اُسے اپنی پتلون کی پیٹی کھولنی پڑی۔
نواب باہر سے لوٹا، تو غصے کے مارے اُس کا برا حال تھا، وہ سیڑھیاں چڑھ کر ٹِل کے پاس آیا اور بولا، ”یہ کیا مذاق ہے،دشمن کوئی تھا نہیں۔تم نے خواہ مخواہ بگل بجا دیا۔“
ٹِل نے کہا، ”صاحب،جو آدمی فاقوں مر رہا ہو، اُس سے ایسی غلطی ہو ہی جاتی ہے۔مجھے ایسا لگا تھا، جیسے دُشمن آرہے ہیں۔معلوم ہوتا ہے بھوکے رہنے سے میرے دماغ پر ایسا اثر پڑا ہے کہ کچھ کا کچھ دکھائی دینے لگاہے“۔
”بکواس مت کرو“نواب نے ڈانٹ کر کہا،”مجھے ایسے پہرے دار کی ضرورت نہیں، جو اُس وقت تو بگل بجا دے جب دشمنوں کا کوسوں پتہ نہ ہواور اُس وقت چپ بیٹھا رہے، جب دشمن سر پر آن پہنچے ہوں۔“اُس نے اُسی وقت ایک اور آدمی کو پہرے دار بنا دیا،اور ٹِل کو اپنی پیدل فوج میں بھیج دیا۔
یہ نئی نوکری ٹِل کو ذرا نہ بھائی۔جونہی کوئی دشمن قلعے کے باہر نظر آتا،ٹِل کو باہر جا کر لڑائی میں حصہ لینا پڑتا۔ اِس سے بچنے کی ترکیب اُس نے یہ نکالی کہ بہت آہستہ آہستہ تیار ہوتا، سب سے آخر میں قلعے سے نکلتا،اور جب دشمن کو مار بھگا دیا جاتا تو وہ سب سے پہلے لوٹ آتا۔
اُس نے بار بار یہی کیا،یہاں تک کہ لوگ اُس پر اُنگلیاں اُٹھانے لگے۔نواب تک کو اُس کی بزدلی کا پتا چل گیا۔ اور اُس نے اُسے خوب ڈانٹا۔
ٹِل نے جواب دیا،”اجی صاحب، بات یہ ہے کہ جب میں پہرے دار تھا، تو مجھے کھانے کو اتنا کم ملا،کہ میری صحت خراب ہو گئی۔اول تو مجھ میں اتنی طاقت ہی نہیں، کہ دشمن سے لڑتے وقت میں سب سے آگے رہوں، اور اگر ہو بھی تب بھی لڑائی ختم ہونے کے بعد مجھے قلعے کی طرف اس خیال سے سر پٹ دوڑ لگانی پڑے گی، کہ اگر میں سب سے پہلے اندر نہ پہنچا اور پیچھے رہ گیا، تو شاید کھانے کو کچھ نہ مل سکے۔ اِس بھاگ دوڑ سے میری رہی سہی صحت بھی جواب دے جائے گی۔“
”تمہیں تو پھانسی دے دینی چاہیے۔“نواب نے خفا ہو کر کہا۔
ٹِل نے جواب دیا، ”نہیں صاحب، میری صحت پر پھانسی کا بھی برا اثر پڑے گا۔“
یہ کہہ کر اُس نے اپنی گٹھڑی اُٹھائی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا قلعے سے رُخصت ہوگیا۔
ٹِل نے زمین خریدی
نواب نے ٹِل کو دھمکی دی تھی، کہ اُسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی، نواب اور سردار ٹِل کو اِسی قسم کی دھمکیاں دیتے ہی رہتے تھے۔ ایک اور علاقے کے نواب نے بھی اُسے پھانسی کی دھمکی دی تھی۔ ٹِل اُس کے علاقے میں اُدھم مچاتا پھر رہا تھا۔ نواب نے اُس سے کہا،”یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ اگر میں نے آج کے بعد پھر کبھی تمہیں اپنی زمینوں پر دیکھا تو پھانسی پر لٹکا دوں گا۔“
اُس وقت تو ٹِل وہاں سے کان دبا کر نو دو گیارہ ہوگیا، لیکن کچھ عرصے بعد اُسے ایک سفر پر جانا پڑا، اتفاق سے نواب کا علاقہ اُس کے راستے میں پڑتا تھا، ایک دوسرا راستہ بھی تھا، مگر وہ بہت لمبا تھا۔
ٹِل نے ایک گھوڑا اور ایک چھکڑا خریدا، اور نواب کے علاقے سے ذرا پہلے ایک کھیت کے پاس، جہاں ایک کسان ہل چلا رہا تھا، ٹھہر گیا۔ کِسان کو روپے دے کر اُس نے کہا، کہ میرے چھکڑے کو اُوپر تک مٹی سے بھر دو۔ ٹِل چھکڑے میں بیٹھا رہا۔ کِسان مٹی ڈالتا گیا، یہاں تک کہ صرف ٹِل کا سر اور ہاتھ مٹی کے ڈھیر سے باہر رہ گئے۔اِسی حلیے میں وہ نواب کے علاقے میں داخل ہوا۔
وہ تھوڑی ہی دُور گیا تھا، کہ نواب سے مُڈھ بھیڑ ہو گئی، نواب اپنے ملازموں کو لے کر شکار کھیلنے نکلا تھا۔ اُس نے ٹِل کو دیکھتے ہی کہا، میں نے تمہیں اپنی زمینوں سے نکلنے کو کہا تھا، چلو ا ترو، اب تمہیں پھانسی دی جائے گی۔
ٹِل نے جواب دیا،”میں آپ کی زمین پر نہیں ہوں، اپنی زمین کے بیچ میں بیٹھا ہوں، یہ زمین میں نے پیسے دے کر ایک کسان سے خریدی ہے۔یہ آپ کی زمین نہیں۔“
نواب نے دھاڑ کر کہا، ”دفع ہو جا یہاں سے، آئندہ میں نے یہاں تمہیں دیکھا، تو گھوڑا گاڑی سمیت،سُولی پر چڑھا دوں گا۔“
ٹِل نے گدھے کو پڑھنا سکھایا۔
اِس کے بعد ٹِل کا یہ شغل رہا، کہ وہ جرمنی کی مختلف یونیورسٹیوں میں جا جا کر خود کو بہت بڑا عالم ظاہر کرتا، اور پروفیسروں اور طالب علموں کو خوب اُلوّ بناتا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں، جو اُسے معلوم نہ ہو، اور کوئی کام ایسا نہیں جو وہ نہ کر سکتا ہو۔ اور سچ یہ ہے کہ اُس سے جتنے سوال پوچھے گئے، اُس نے سب کا جواب دیا۔
ایک روز ٹِل ایک شہر میں آیا۔اُس شہر کا نام، ایرفرٹ تھا۔ جب وہاں کی یونیورسٹی کے صدر اور طالب علموں کو اُس کے آنے کی خبر ہوئی، تو وہ اس سوچ میں پڑ گئے، کہ اس کا امتحان کیسے لیا جائے؟وہ اُس سے کوئی بہت ہی ٹیڑھی بات پوچھنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے آپس میں کہا، ”ہم ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہمیں بھی بے وقوف بنا جائے جیسے وہ دوسری یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو بنا چکا ہے۔اِس لیے ہمیں کوئی ایسی چال چلنی چاہیے کہ اُس کے چھکے چھوٹ جائیں۔“
آخر اُنہیں ایک تدبیر سوجھی۔ اُنہوں نے ایک گدھا خریدا اور اُسے ہانک کر اُس سرائے میں لے گئے جہاں ٹِل ٹھہرا ہوا تھا۔
اُنہوں نے ٹِل سے دریافت کیا،”کیا آپ اِس گدھے کو پڑھا سکتے ہیں؟“
ٹِل نے کہا، ”کیوں نہیں،لیکن یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ گدھا کوڑھ مغز جانور ہے۔اُسے پڑھانے میں بڑا وقت لگے گا۔“
”کتنا وقت لگے گا؟“ یُونیورسٹی کے صدر نے پوچھا۔
”میرا خیال ہے بیس برس لگیں گے۔“ ٹِل نے جواب دیا۔اُس نے سوچا کہ بیس برس بڑا لمبا عرصہ ہے، ممکن ہے اِس عرصے میں صدر کا انتقال ہو جائے یا شاید میں خود ہی مر جاؤں، یا ہو سکتا ہے کہ یہ گدھا ہی مر جائے اور میری بدنامی نہ ہو۔
صدر نے ٹِل کی بات مان لی۔ ٹِل نے بیس برس تک گدھے کو تعلیم دینے کے لیے پانچ سو روپے مانگے۔صدر نے اُسے آدھی رقم دے دی، اور آدھی بیس سال بعد دینے کا وعدہ کیا۔
جب صدر اور اُس کے ساتھی چلے گئے تو ٹِل گدھے کو اصطبل میں لے گیا۔ وہاں اُس نے ایک موٹی سی کتاب ناند میں رکھ کر شروع کے صفحوں کے درمیان تھوڑے سے دانے ڈا ل دئیے۔گدھے کی سمجھ میں فوراََ آگیا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔وہ اپنی زبان سے اُلٹ اُلٹ کر دانے کھاتا گیا۔ جب دانے ختم ہو گئے اور ورق اُلٹنے سے کچھ اور نہ ملا تو وہ زور سے بولا، ڈھی کیو، ڈھی کیو۔“
ٹِل یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اُس نے گدھے کو ورق اُلٹ اُلٹ کر دانے کھانے کی خوب مشق کروائی۔
جب ایک ہفتہ گزر گیا تو ٹِل صدر کے پاس گیا اور بولا، ”کِسی وقت فرصت ہو تو میرے ہاں آئیے، اور دیکھیے کہ میرے شاگرد کا کیا حال ہے۔“
صدر نے کہا، ”ضرور آؤں گا، اِس گدھے نے کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں؟“
ٹِل نے جواب دیا، ”جی ہاں، چند ایک حرف پہچاننے لگا ہے۔ گدھے کے لیے یہ بھی بڑی بات ہے۔کیونکہ ابھی پڑھائی شروع ہوئے ہفتہ بھر ہی تو ہوا ہے۔“
اِسی روز سہ پہر کو صدر، پروفیسروں، اور طالب علموں کو ساتھ لے کر سرائے میں پہنچا۔ ٹِل اُنہیں اصطبل میں لے گیا۔ اُس نے دانے گھاس کی ناند میں وہی موٹی سی کتاب رکھ دی۔ گدھے نے جسے صبح سے کچھ کھانے کو نہ ملا تھا۔ جلدی جلدی زبان سے ورق پلٹنے شروع کر دئیے۔مگر ٹِل نے صفحوں کے درمیان دانے تو ڈالے ہی نہ تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ گدھا ورق اُلٹتا گیا، اور اُس کے درمیان دانے نہ پا کر زور زور سے بولتا رہا، ”ڈھی کیو، ڈھی کیو۔“
ٹِل نے کہا، ”آپ نے دیکھا جناب، صرف ایک ہفتے میں، یہ ڈی(D)اور کیو(Q)کو پہچاننے لگا ہے۔ کل اِسے سی (C)،اور ایچ (H)سکھانا شروع کروں گا۔“
صدر کے ساتھی بکتے، جھکتے چلے گئے۔ ٹِل نے گدھے کو اصطبل سے نکال کر اِس کے پیچھے ہانک دیا اورکہا،”جاؤ تم بھی اِن گدھوں کے ساتھ چلے جاؤ۔“
پھر اُس نے اپنی گٹھڑی اُٹھائی اور اُسی دِن ایرفرٹ سے روانہ ہوگیا۔
ٹِل نے درزیوں کو سینا سکھایا۔
اب ٹِل شہر روسٹوک میں آیا۔ اُس نے آس پاس کے تمام گاؤں اور قصبوں میں رُقعے بھیج کر درزیوں سے درخواست کی کہ وہ فلاں دِن روسٹوک آئیں۔ اُس روز وہ انہیں ایک ایسا گر بتائے گا،جو اُن کے اور اُن کی اولاد کے بہت کام آئے گا۔
بس پھر کیا تھا، اُس دِن ہزاروں درزی، روسٹوک آن موجود ہوئے۔ٹِل اُنہیں شہر سے باہر ایک ہرے بھرے میدان میں لے گیا۔ وہاں وہ سب گھاس پر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے اُنہوں نے کھانا کھایا کیونکہ وہ دور دراز سے آئے تھے،اور تھک گئے تھے۔ جب وہ سستا لیے تو اُنہوں نے ٹِل سے کہا، ”اب تم ہمیں وہ گُر بتاؤ، جس کا تُم نے وعدہ کیا تھا۔“
ٹِل نے کہا، ”میرے بھائی درزیوتمہیں میری یہ چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں۔اگر تمہارے پاس قینچی کپڑااور سوئی دھاگہ موجود ہو تو تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔لیکن سوئی میں دھاگہ پرونے کے بعد دھاگے میں گرہ دینی ہرگز نہ بھولنا۔ اگر ایسا نہ کیا تو تمہارے ٹانکے کھل جائیں گے۔ کسی کو اور کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔“
درزی ہکاّ بکاّ ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اور اُن کے منہ لٹک گئے۔ آخر اُن میں سے ایک نے اُٹھ کر کہا، ”حد ہوگئی۔ ہم اِتنی دور سے کیا یہی بات سُننے کے لیے آئے تھے۔یہ تو ہمیں ہزار برس سے معلوم ہے۔“
”ہزار برس سے؟“ ٹِل نے پُوچھا۔”آپ کی عمر کتنی ہے؟“
”45سال“ درزی نے جواب دیا۔
ٹِل نے کہا،”بس پکڑے گئے۔ جب آپ کی عمر پینتالیس برس ہے، تو یہ باتیں ہزار سال سے آپ کو کیسے معلوم ہو سکتی ہیں؟“ٹِل نے چاروں طرف ایسا منہ بنا کر دیکھا، جیسے اُسے بڑا دکھ پہنچا ہو۔کہنے لگا، ”خیر! میں تو صرف آپ لوگوں کا بھلا چاہتا تھا۔ اگر میرا مشورہ آپ کو پسند نہیں تو آپ اپنے اپنے گھر کا راستہ لیجیے۔“
یہ سُن کر درزی ٹِل کو مارنے دوڑے۔لیکن ٹِل بھاگ کر ایک ایسے مکان میں جا گھسا جِس کے دو دروازے تھے۔ وہ ایک دروازے سے اندر گیا،اور دوسرے سے کسی اور طرف نکل کر یہ جا وہ جا۔ درزیوں نے اُسے بڑا تلاش کیا، لیکن وہ ہاتھ نہ آیا۔
روسٹوک کے درزی اِن لوگوں کا یہ حال دیکھ کر خُوب ہنسے اور کہنے لگے۔ ”ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا کہ وہ کوئی مسخرہ پَن کرے گا۔ تُم اُس کے بھّرے میں آکر اِتنی دور کیوں چلے آئے۔نِرے احمق ہو، تم لوگ بھی۔“
اِس پر روسٹوک کے درزیوں اور باہر سے آنے والے درزیوں میں خوب دھینگا مشتی ہوئی، لیکن ٹِل کا،جس کی وجہ سے یہ سارا فساد ہواتھا، دُور دور تک پتہ نہ تھا۔
ٹِل نے بدلہ لیا۔
ایک بار ٹِل پھرتا پھراتاایک قصبے میں گیا۔وہ جس سرائے میں ٹھہراوہاں کاریگروں کو کم خرچ پر رہنے کی جگہ مل جایا کرتی تھی۔یہ سرائے عین بازار میں تھی اور ساتھ والے مکان میں ایک مانا ہوا درزی رہتا تھا۔
اِس درزی کے تین شاگرد تھے۔جب موسم اچھا ہوتا تو وہ دکان کے باہر بیٹھ کر کام کرتے۔اُن کے پاس ایک بڑا سا تخت تھا۔ جِس دِن اُن کا باہر بیٹھنے کو دِل چاہتا وہ صبح سویرے تخت اُٹھا کر باہر لے آتے اور آلتی پالتی مارے پتلونیں، قمیصیں اور جانے کیا کیا سیتے رہتے۔
جب کبھی ٹِل اُن کے سامنے سے گزرتا،تو وہ دانت پیس کر رہ جاتے۔اُنہیں ٹِل ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ اُسے بس سیر سپاٹے سے غرض تھی۔
تینوں درزی ٹِل کو ستانے کے لیے طرح طرح کی آوازیں نکالتے اور زبانیں نکال نکال کر اُس کا منہ چڑاتے۔ایک روز ٹِل نے کیا کیا کہ چپکے سے آری لے کر درزی کے گھر گیا اور تخت کے چاروں پائے کاٹنے شروع کر دیے، یہاں تک کہ وہ بس ذرا ذرا سے جُڑے رہ گئے۔
اگلے روز چوک میں میلا لگا۔ بڑی چہل پہل تھی۔ درزی کے تینو ں شاگرد، جن کے سان گمان میں بھی نہ تھا، کہ ٹِل تخت کے پائے کاٹ گیا ہے۔اپنا تخت اُٹھا کر باہر لائے اور آلتی پالتی مار کر لگے بڑی مستعدی سے سینے پرونے۔
کچھ دیر تو خیریت رہی۔پھر گوالا بنسری بجاتا آگیا۔ بنسری کی آواز سنتے ہی گائیں گھروں سے نکل نکل کر گوالے کی طرف دوڑیں۔اُن میں سے درزی کی گائیں بھی تھیں۔ اُنہیں تخت کے پایوں سے کمر رگڑنے کی عادت تھی۔ بس اُن کے پیٹھ رگڑنے کی دیر تھی۔کہ قیامت برپا ہوگئی۔ پائے چَر چَر کر ٹوٹ گئے۔تخت نیچے آرہا اور تینو ں شاگرد قلابازی کھا کر بیچوں بیچ سڑک پر جا گرے۔ لوگ حیران ہو کر اُنہیں دیکھ ہی رہے تھے کہ کسی نے زور سے کہا، ”بچاؤ، بچاؤ، درزی ہوا سے اُڑ گیے۔“
تم سمجھ ہی گئے ہوگے کہ یہ جملہ کس نے کہا۔یہ بات درزی کے شاگردوں سے بھی، جن کی بڑی کِرکِری ہوئی تھی، چھپی نہ رہ سکی۔جب تک ٹِل اُس قصبے میں رہادرزی شرم کے بارے دکان سے باہر نہ نکلے اور اندر ہی بیٹھے کام کرتے رہے۔ جب ٹِل نے اپنی گٹھڑی اُٹھائی اور وہاں سے رُخصت ہوا، تب کہیں اُنہوں نے سُکھ کی سانس لی۔
ٹِل نے شکاریوں کو چکما دیا۔
ایک دفعہ ٹِل لائپ زپ گیا۔ لائپ زِپ جرمنی کا ایک مشہور شہر ہے۔اِس شہر میں نامی گرامی شکاری رہتے تھے۔ ٹِل نے بڑی کوشش کی، کہ چند روز کے لیے اُسے کسی شکاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل جائے۔ مگر کوئی شکاری اُسے اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہ ہوا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دو دِن پہلے برلن شہر کا ایک شکاری اِن کے پاس آکر ٹِل کا رونا رو گیا تھا۔ اِس کا کہنا تھا، کہ برلن میں ٹِل نے بچوں کے کھیلنے کودڑ بھرے بھیڑیے اور بھالو بنانے کے لیے بھیڑیوں کی ایک درجن کھالوں کو کاٹ چھانٹ کرستیاناس کر دیا تھا۔
لائپ زگ کے شکاری یہ نہ چاہتے تھے کہ ٹِل یہاں بھی ایسی ہی کوئی شرارت کر کے اُنہیں نقصان پہنچائے۔شکاریوں کا ٹکا سا جواب سُن کر ٹِل کو بڑا تاؤ آیا اور اُس نے تہیہ کر لیا کہ موقع ملتے ہی اُنہیں تگنی کا ناچ نچائے گا۔
بدلہ لینے کا موقع اُسے جلد ہی مل گیا۔ لائپ زپ میں اُسے ایک بہت بڑا تہوار منایا جا رہا تھا۔ ٹِل کو پتا چلا کہ شکاری تہوار کے دِن خرگوش کا شوربہ بنانے کی سوچ رہے ہیں۔ سرائے میں ایک موٹی تازی بلی رہتی تھی۔ٹِل نے جھٹ اُسے پکڑ لیا۔ پھر اُس نے سرائے کے باورچی سے خرگوش کی کھال مانگی۔ باورچی نے اُسے ایک کھال دے دی۔ اپنے کمرے میں آکر اُس نے بلی کو خرگوش کی کھال میں سی دیا۔ بلی نے بڑے پنجے چلائے۔ لیکن ٹِل کے سامنے کچھ پیش نہ گئی۔ بلی کا خرگوش بنا کر ٹِل نے نقلی مونچھیں لگائیں،گاؤں والوں کا سا لباس پہنا،اور ایک جگہ جا کھڑا ہوا۔جہاں سے شکاری اکثر آیا کرتے تھے۔کچھ دیر بعد ایک شکاری اُدھر سے گزرا تو ٹِل نے کہا، ”بھائی شکاری یہ خرگوش بکاؤ ہے۔“
شکاری کو تہوار کی دعوت کا خیال آگیا۔ خرگوش خوب موٹا تازہ تھا۔ اُس نے منہ مانگے دام دے کر خرید لیا۔ پھر وہ خرگوش لے کر سرائے میں پہنچا۔ جو شکاریوں کا اڈا تھی۔ اس کے ساتھی خرگوش دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
اتفاق سے ایک شکاری کے ساتھ اُس کا کتا بھی تھا۔ شکاریوں نے سوچا کہ کچھ تماشا ہی دیکھا جائے۔ وہ خرگوش کو سرائے کے باغ میں لے گئے اور وہاں اُس پر کتا چھوڑ دیا۔ لیکن خرگوش دوڑ کر ایک درخت پر چڑھ گیا، اور میاؤں میاؤں کرنے لگا۔
اب شکاریوں کو معلوم ہوا کہ اُنہیں جھانسا دیا گیا ہے۔بلّی کا شوربہ بھلا کون بناتا۔ پیسے ضائع جانے پر انہیں بڑا غصہ آیا۔ وہ اُس آدمی کو ڈھونڈنے نکلے جس نے اُن کے ساتھ دھوکا کیا تھا۔ مگر ٹِل نے بھیس بدل کر بلّی بیچی تھی اور اُس کے بعد فوراًاپنا وہی مسخروں کا لباس پہن لیا۔اس لیے ہزار کوششوں کے باوجود شکاری اس کو نہ ڈھونڈ سکے۔ اس طرح ٹِل مار کھانے سے بچ گیا اور بدستور شرارتیں کرتا رہا۔
ٹل نے دودھ خریدا
بریمن شہر کے بڑے چوک میں ہر ہفتے بازار لگتا تھا۔ ایک دفعہ جب یہ بازار لگا تو ٹِل ایک بہت بڑی ناند لُڑھکاتا ہوا چوک میں پہنچا۔ ناند بیچ چوک میں رکھ کر اُس نے اعلان کیا کہ اردگرد کے دیہات سے گوالنیں، جتنا دودھ بیچنے کے لیے لائی ہیں، وہ سارے کا سارا خریدنے کو تیار ہے۔ گوالنیں باری باری آکر ناند میں دودھ اُنڈیلتی گئیں۔ ٹِل ناند کے باہر چاک سے لکھتا گیا، کہ کس عورت نے کتنے سیر دودھ اُس کے ہاتھ بیچا ہے۔کچھ دیر بعد ٹِل کی ناند لبالب بھر گئی۔
ٹِل کے آس پاس لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔کسی کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ آخر ٹِل اتنے دودھ کا کرے گا کیا؟لیکن تھوڑی دیر بعد ایک عجیب بات ہوئی۔ جب ناند لبالب بھر گئی اور گوالنوں نے پیسے مانگے تو ٹِل بولا، ”اس وقت تو میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں، میں دو ہفتے بعد دوبارہ یہاں آؤں گا، اور تمہارا حساب صاف کر دوں گا۔“
یہ سُن کر گوالنوں نے وہ شور مچایا کہ توبہ ہی بھلی۔ وہ چیخ چیخ کر کہنے لگیں کہ اگر تم نے ہمیں فوراً پیسے نہ دیے تو تمہیں پولیس کے حوالے کر دیں گے۔
”میری تو سمجھ میں آیا نہیں کہ تم لوگ کیا چاہتی ہو۔“ ٹِل نے ایسے کہا، جیسے اسے بہت رنج پہنچا ہو۔”تم میں سے جو گوالن دو ہفتے تک انتظار نہیں کرسکتی وہ بیشک ناند میں سے اپنا دودھ نکال لے۔لیکن خبردار جتنا دودھ اُنڈیلا تھا، اُتنا ہی نکالنا، تولے بھر کا فرق نہ ہو۔“
ٹِل کا یہ کہنا تھا کہ سب عورتیں اپنے اپنے جگ اور بالٹیاں لے کر پاگلوں کی طرح ناند پر پل پڑیں۔ ہر عورت یہی کوشش کر رہی تھی کہ سب سے پہلے وہ اپنے حصے کا دودھ ناند میں سے نکال لے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھا پائی ہونے لگی۔ ایک کی دوسری سے ٹھن گئی۔دودھ چھلک چھلک کر اُن کے کپڑوں پر گرنے لگا۔ اس مارکٹائی اور دھکا پیل میں ناند اُلٹ گئی اور دودھ چوک میں بہنے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دودھ کی بارش ہوئی ہو۔
دودھ سے ہاتھ دھونے کے بعد گوالنوں پر اور بھوت چڑھا، اور وہ پہلے سے بھی زیادہ زور شور سے آپس میں لڑنے لگیں۔اِن کی لڑائی دیکھ کر تماشائیوں کے پیٹ میں ہنسے ہنستے بل پڑ گئے۔
اور ٹِل کہاں گیا؟
بھئی آپ تو اِس کی عادتوں سے واقف ہو چکے ہوں گے،وہ ہمیشہ شرارت کرنے کے بعد رفو چکر ہو جاتا ہے اور لوگ اُس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے۔
ٹِل اِسی طرح پہاڑیوں پر اُترتا چڑھتا، وادیوں کی سیر کرتا، دریاؤں کے کنارے گھومتا، جنگلوں اور میدانوں سے گزرتا آوارہ پھرتارہا۔ ہر سفر کے دوران وہ کسی ایسی جگہ پہنچ جاتا جہاں کے لوگ اُس کی کارستانیوں سے واقف نہ ہوتے اور وہ انہیں خوب بے وقوف بناتا۔
غرض ٹِل کا دنیا میں بس یہی مشغلہ تھا۔ سیر سپاٹا اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنا جی خوش کرنا۔ اُسے ہمیشہ کوئی نہ کوئی گاؤں یا قصبہ ایسا ضرور مل جاتا جہاں کے لوگ اپنی سادگی کی وجہ سے اُس کے فریب میں آجاتے۔ بات یہ ہے کہ دُنیا میں بے وقوفوں کی کمی نہ پہلے تھی،نہ اب ہے۔ایک ڈھونڈو ہزاروں ملتے ہیں۔ اِسی لیے ٹِل نے خوب مزے دار زندگی گزاری۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭