skip to Main Content

ساتھ دینے والا عمل

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے، لیکن تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ صدقہ ئجاریہ کر جائے، دوسرے یہ کہ ایسا علم چھوڑ جائے جس سے دوسرے فائدہ اٹھا ئیں، تیسرے نیک اولا د جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔“ (صحیح مسلم)
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں امتحان کی غرض سے بھیجا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی عمر پوری کر کے اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ کوئی فردستر یا اسی برس کی عمر پاتا ہے تو کوئی بیس سال کی عمر ہی میں وفات پا جاتا ہے، بہر حال کوئی کتنے ہی برس تک جیے، اپنی زندگی میں وہ جو بھی عمل کرتا ہے، اسے فرشتے لکھ لیتے ہیں اور زندگی بھر کا اعمال نامہ، آخرت کے دن پیش کیا جائے گا۔
کوئی بھی شخص جب تک زندہ رہتا ہے، اس کو یہ موقع حاصل رہتا ہے کہ وہ نیک کام کر کے اپنی نیکیوں میں اضافہ کر لے اور بُرے کاموں سے بچ کر اپنے حساب میں گناہ شامل نہ کروائے۔ اگر اُس سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو وہ تو بہ کر سکتا ہے اور اس طرح اپنے رب کو راضی کر سکتا ہے۔۔۔ لیکن جب اُس شخص کی روح بدن سے نکل جاتی ہے اور اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور دنیا سے اُس شخص کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو اُس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں رہتا کہ وہ کوئی بھی عمل کر سکے، چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔ اب وہ نہ اپنی نیکیوں کو بڑھا سکتا ہے، نہ گناہوں میں اضافہ کر سکتا ہے، نہ تو بہ کر کے اپنے گناہوں کے داغ دھو سکتا ہے البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زندگی میں کیے ہوئے تین قسم کے اعمال ایسے ہیں، جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔
ان تین قسم کے اعمال میں ایک تو صدقہ جاریہ ہے، یعنی کوئی ایسا نیک کام جس سے لوگوں کو کوئی سہولت یا فائدہ حاصل ہوتا رہے، مثلاً کوئی اپنی زندگی میں ایسا شفا خانہ (اسپتال) بنوا دے، جس میں مستحق افراد کا علاج مفت یا بہت کم معاوضے پر ہوتا ہو، اور وہ شخص اس شفا خانے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی معقول انتظام کر جائے، تو جب تک اس شفا خانے میں مریضوں کا مفت یا رعایتی معاوضے پر علاج ہوتا رہے گا، اس شخص کو بھی ثواب ملتا رہے گا، حالانکہ وہ شخص اب دنیا میں نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایسا تعلیمی ادارہ قائم کر جائے جہاں طلبہ کو دینی علم کی تعلیم دی جاتی ہو، کوئی شخص کسی جگہ کنواں کھدوا دے، جس سے لوگوں کو پانی ملتا رہے، کوئی سایہ دار درخت لگا دے، جس سے لوگوں کو سایہ اور پھل دونوں حاصل ہوتے رہیں تو اس طرح کے تمام اعمال صدقہ جاریہ کہلاتے ہیں اور ان کا ثواب جاری رہتا ہے۔
انسان کے مرنے کے بعد اس کے کام آنے والی دوسری شے، وہ علم ہے، جو انسان دنیا میں چھوڑ جائے مثلاً کوئی شخص اپنی زندگی میں کوئی مفید دینی کتاب لکھے یا ایسے مضامین یا اشعار لکھے جن کو پڑھ کر لوگ اچھائی کی طرف مائل ہوں، نیک کام کرنے کی طرف توجہ دینے لگیں، ان کے دلوں میں آخرت کی فکر پیدا ہو جائے، تو ایسا تمام علم، اُس شخص کے لیے ثواب کا باعث بن جائے گا، حالانکہ وہ شخص دنیا میں نہ ہوگا لیکن اُس کا چھوڑا ہوا علمی سرمایہ، دوسروں کو نیکی کا راستہ دکھا رہا ہوگا اور جتنے افراد اس علم کی وجہ سے اچھائی کی راہ پر چلیں گے، اُس کا ثواب، اُس شخص کو بھی ملے گا جس نے وہ علم دنیا والوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
تیسری شے، جو انسان کے وفات پا جانے کے بعد بھی اُس کی نیکیوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے، وہ اس کی نیک اولاد ہے۔ اگر انسان اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرے، اُس کو اچھی تعلیم دلوائے، اُس کو محبت، شفقت اور توجہ دے، اُس کی ضروریات کا خیال رکھے تو ایسی اولاد اپنے ماں باپ سے یقینا محبت کرے گی۔ اولاد کی نیک بختی یہی ہے کہ وہ اپنے والدین سے محبت کرے، اس کی خدمت کرے، اُن کی فرماں بردار ہو اور نہ صرف اُن کی زندگی میں اُن کے لیے دعا کرتی رہے، بلکہ اُن کے وفات پا جانے کے بعد بھی اُن کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھے۔ اس طرح تربیت یافتہ نیک اولا د معاشرے کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ اُس کا اخلاق اور نیک عمل دوسروں کے لیے بھی اچھا نمونہ بن جاتا ہے۔ ایسی اولاد اور نیکی اپنے والدین کے اعمال میں اضافے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم اس عارضی زندگی میں اُن اعمال کو اختیار کریں جو مرنے کے بعد بھی ہمارے نیک اعمال میں اضافے کا ذریعہ بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے اعمال کرنے کی توفیق بخشے جو اس دنیا سے ہمارے چلے جانے کے بعد بھی ہمارے لیے ثواب کا باعث بنتے رہیں۔ آمین

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top